|تحریر: پارس جان|
اسٹیبلشمنٹ مخالفت سے بھرپور الیکشن 2024ء
وہ دانشور کہاں ہیں جو انتخابات کو پاکستان کے جملہ مسائل کا حل بنا کر پیش کر رہے تھے۔ حقیقت یہ ہے کہ انتخابات 2024ء کو اگرچہ ابھی زیادہ عرصہ نہیں گزرا مگر اس عرصے میں واقعات کے تسلسل سے یہ اندازہ لگانا ہرگز مشکل نہیں ہے کہ صورتحال بدتر سے بدترین ہونے کی طرف جا رہی ہے۔
ویسے تو پاکستان کی تاریخ میں شفاف انتخابات ایک ناقابلِ عمل مفروضہ ہی رہے ہیں مگر حالیہ انتخابات تو پاکستان کے اپنے معیارات کے مطابق بھی حیرت انگیز حد تک جعلی اور ڈھکوسلہ ثابت ہوئے ہیں۔ بہت سے دانشور ان انتخابات اور گزشتہ یعنی 2018ء کے عام انتخابات کا موازنہ کرتے ہوئے بھی نظر آئے۔ یہ درست ہے کہ وہ انتخابات بھی اسٹیبلشمنٹ کی کھلی بدمعاشی کا منہ بولتا ثبوت تھے مگر نظام کے زوال کا سفر ہر گزرتے ماہ وسال کے ساتھ برق رفتار ہوتا جا رہا ہے اور پورا پارلیمانی ڈھانچہ ہی منہدم ہونے کے دہانے پر ہے جس کا اظہار انتخابات کے ڈرامے کے ننگا ہو جانے کے باعث عوام کے اس ڈرامے کی طرف مسلسل بدلتے ہوئے رویے کی شکل میں دیکھا جا سکتا ہے۔ عوام کی بھاری اکثریت تو ویسے ہی پورے انتخابی ڈرامے سے کنارہ کش رہتی ہے۔
اس بار بھی ٹرن آؤٹ سرکاری طور پر 48 فیصد بتایا گیا لیکن حقیقی ٹرن آؤٹ اس کے نصف سے بھی کم یعنی 15 سے 20 فیصد ہی بمشکل رہا ہوگا۔ یعنی اب درمیانے طبقے کی بھی سب سے زیادہ سیاسی طور پر سرگرم پرت ہی انتخابات میں کوئی دلچسپی لیتی ہے۔ تاہم گزشتہ اور حالیہ انتخابات میں ایک معیاری فرق یہ تھا کہ گزشتہ انتخابات میں سب کچھ طے شدہ منصوبے کے عین مطابق ہوا تھا مگر ان انتخابات میں درمیانے طبقے کی اس سرگرم پرت نے بھی شاید پہلی مرتبہ کھل کر اور علی الاعلان اسٹیبلشمنٹ کے خلاف ووٹ کاسٹ کیا۔ اسٹیبلشمنٹ کے خلاف پڑنے والا ووٹ ہی اصل ٹرن آؤٹ ہے جبکہ اسٹیبلشمنٹ کے حق میں پڑنے والے ووٹوں کا 90 فیصد جعلی ووٹوں پر مشتمل ہے جن کی بنیاد پر یہ موجودہ حکومت تشکیل پائی ہے۔ اسی سے ہی اس حکومت کی بالخصوص اور سیاسی ڈھانچے کی بالعموم پائیداری اور استحکام کی اصلیت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔
درمیانے طبقے کی ہراول سیاسی پرتوں کی یہ اسٹیبلشمنٹ سے کھلی بغاوت بہرحال ایک اہم پیشرفت ہے۔ ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ یہی وہ لوگ ہیں جو ہمیشہ اسٹیبلشمنٹ کی ہر سفارتی اور سیاسی مہم جوئی کو سماجی بنیادیں فراہم کرتے رہے ہیں۔ یوں ریاست ہوا میں معلق ہوتی ہوئی نظر آ رہی ہے۔
پی ٹی آئی اور درمیانے طبقے کا سیاسی ہیجان
لیکن اس صورتحال کا المناک پہلو یہ ہے کہ بچے بچے کو ادراک ہے کہ یہ حکومت جعلی ہے اور دھاندلی سے بنی ہے لیکن پھر بھی ان انتخابات کے خلاف فوری طور پر کوئی سنجیدہ مزاحمتی تحریک نظر نہیں آئی۔ بائیں بازو اور ٹریڈ یونین اشرافیہ کی اکثریت تو کھلم کھلا اس حکومت کی حمایت کر رہے ہیں۔ یہ حمایت اس غلط سیاسی تجزیئے اور تناظر کا ناگزیر نتیجہ ہے جس کی بنیاد پر یہ سب خواتین و حضرات تحریکِ انصاف کو ایک فاشسٹ پارٹی قرار دے چکے ہیں۔ اب ان کے خیال میں اس مبینہ عمرانی فاشزم کا راستہ روکنے کے لیے اسٹیبلشمنٹ اور ان کی دم چھلہ نون لیگ اور پیپلز پارٹی کی حکومت جتنی بھی دھاندلی، بدمعاشی اور تشدد کرے وہ کم ہے اور وہ اس میں حق بجانب ہیں۔ یوں زیادہ تر لیفٹ کی حیثیت براہِ راست ان بورژوا پارٹیوں اور بالواسطہ اسٹیبلشمنٹ کے دم چھلوں کے علاوہ کچھ نہیں رہ جاتی۔
دوسری طرف درمیانے طبقے کی اسٹیبلشمنٹ مخالف جذباتیت بھی اصولی نوعیت کی نہیں ہوتی اور نہ ہی اس کی کوئی ٹھوس نظریاتی بنیادیں ہوتی ہیں، اسی لیے تحریکِ انصاف بھی اسٹیبلشمنٹ یا سامراجیوں کے رحم و کرم پر ہی اکتفا کرنے پر مجبور ہے۔
ہم پہلے ہی بارہا وضاحت کر چکے ہیں کہ تحریکِ انصاف کے پاس بیلٹ پاور بھلے ہی ہو، لیکن ان کے پاس سٹریٹ پاور ہرگز نہیں ہے۔ اس کا جواب تحریکِ انصاف کی سماجی بنیادوں میں موجود ہے۔یہی وجہ ہے کہ تحریکِ انصاف کی قیادت سٹریٹ پاور کے سراب میں ملاؤں پر انحصار کررہی ہے اور مولانا فضل الرحمان سے غلیظ ترین سمجھوتہ کرنے پر مجبور ہے۔ اسی طرح جماعتِ اسلامی، پختونخواہ ملی عوامی پارٹی اور جی ڈی اے جیسی ساری رجعتی قوتوں کے دروازوں پر دستکیں دینے میں بھی اسے کوئی عار نہیں۔
مگر سیاسی بحران کی شدت اتنی زیادہ ہے کہ کوئی بھی سمجھوتہ دیرپا نہیں ہوگا اور اتحاد بظاہر ناقابلِ عمل دکھائی دے رہا ہے۔ سیاسی قیادتیں نظریاتی زوال پذیری کے باعث ریاستی خانہ جنگی میں ایک یا دوسری طرف ہچکولے لیتی رہیں گی۔ مذہبی ہو یا قوم پرست سیاسی افق پر حاوی کسی پارٹی کا کسی بھی دوسری پارٹی سے کوئی اصولی یا نظریاتی اختلاف نہیں۔ مزید برآں یہ کہ تحریکِ انصاف کو پڑنے والے ووٹوں کا کردار بہت متضاد نوعیت کا ہے، یعنی عمران خان کی محبت اور اطاعت میں کم جبکہ نون لیگ، پیپلز پارٹی، فضل الرحمان، قوم پرستوں اور سب سے بڑھ کر اسٹیبلشمنٹ کی نفرت میں ووٹ زیادہ پڑا ہے۔
اس قسم کے ووٹ کا کردار انقلابی کم اور ہیجانی زیادہ ہوتا ہے۔ اس پیٹی بورژوا ہیجان میں اگرچہ انقلابی عنصر ایک پوٹینشل کے طور پر موجود ضرور ہوتا ہے مگر اس کو محنت کش طبقے کی قیادت میسر آنے کی صورت میں ہی عملی جامہ پہنا کرحقیقت کا روپ دیا جا سکتا ہے۔ جب تک یہ اسٹیبلشمنٹ مخالف جذبات عمران خان جیسے دائیں بازو کے رجعتی لیڈر کے تشخص سے ’’پناہ“ حاصل نہیں کرتے تب تک یہ اسٹیبلشمنٹ کی داخلی رسہ کشی میں ایک یا دوسرے دھڑے کو میسر سماجی خام مال ہی قرار دیئے جا سکتے ہیں۔ اس رجحان کا عملی تناظر آخری تجزیئے میں سماج کے بین الطبقاتی سیاسی توازن پر منحصر ہے۔
ریاست کا بحران
اگرچہ موجودہ حکومت کو اپنے تمام تر لغو اور جعلی پن کے باوجود فی الوقت کسی بڑی مزاحمت کا سامنا نہیں مگر پھر بھی حکومت اور ریاست کی مشکلات کم ہونے کی بجائے مسلسل بڑھ ہی رہی ہیں۔ امن و امان کی صورتحال نے ایک بار پھر ایک تشویشناک شکل اختیار کر لی ہے۔ پاکستان کا دہائیوں پر مشتمل افغان ایڈونچر مسلسل فائر بیک کر رہا ہے اور افغانستان میں حکومت کی تبدیلی جسے پاکستان کی جرنیل شاہی اپنے لیے خوش آئند سمجھ رہی تھی، اس کے نتائج ان کی توجہ کے بالکل برعکس برآمد ہوئے ہیں۔
تحریکِ طالبان پاکستان نے نومبر 2022ء میں ہی پاکستان کے ساتھ سیز فائر ختم کرنے کا اعلان کر دیا تھا، جس کے بعد یکے بعد دیگرے حساس اداروں اور مقامات پر حملوں کا سلسلہ شروع ہو گیا تھا۔ اپنی تمام تر نا اہلی کا ملبہ پاکستانی ریاست نے افغان مہاجرین پر ڈال کر انہیں ہی اس دہشت گردی اور معاشی زبوں حالی کا ذمہ دار قرار دے دیا تھا۔ اب پھر افغان مہاجرین کو دی جانے والی ڈیڈ لائن ختم ہو گئی ہے اور افغان مہاجرین سے بھتہ وصولی اور ریاستی بدمعاشی ایک دفعہ پھر عروج پر نظر آئے گی۔ افغان مہاجرین، بچوں، بزرگوں اور خواتین کو نہ جانے کب تک دربدری اور مسافرت کی اذیت سے گزرنا ہو گا۔ ہم نے جہاں روزِ اول سے ہی افغان محنت کشوں کے لیے آواز بلند کی تھی وہیں یہ وضاحت بھی کی تھی کہ ان تمام تر اقدامات سے پاکستان سے نفرت اورانتقامی جذبات کم ہونے کی بجائے شدت اختیار کریں گے جس کا فائدہ لا محالہ طور پر انتہا پسندوں کو ہی ہو گا۔
اب ہمیں نظر آ رہا ہے کہ تحریکِ طالبان بھی از سرِ نو سرگرم اور منظم ہوئی ہے اور اس کے ساتھ ساتھ بلوچ گوریلوں کے سب سے سرگرم گروپ یعنی بی ایل اے مجید بریگیڈ جس کا مرکزی سیٹ اپ بھی ممکنہ طور پر افغانستان سے چلائے جانے کی اطلاعات ہیں، وہ بھی بڑھ چڑھ کر پاکستان پر حملے کر رہے ہیں۔ بلوچستان اور خیبر پختونخواہ بالخصوص اس صورتحال سے بری طرح متاثر ہو رہے ہیں لیکن تحریکِ طالبان کے سلیپر سیل کراچی سمیت دیگر اہم شہروں تک پھیلے ہوئے ہیں، یوں یہ لڑائی بہت تیزی سے پھیل سکتی ہے۔
بلوچستان کے دارلحکومت کوئٹہ سے صرف 70 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع مچھ شہر کو چند ماہ قبل بلوچ مسلح جنگجوؤں نے اپنے مکمل کنٹرول میں لے کرریاست کا تمسخر اڑایا تھا اور چند روز قبل گوادر پورٹ اتھارٹی کمپلیکس پر ہونے والا حملہ بھی پاکستانی ریاست کے منہ پر بہت بڑا طمانچہ ہے جہاں اقوام ِ متحدہ کی تین ایجنسیوں کے بیس کیمپ بھی ہیں۔ لیکن اس کے بعد پھر تربت نیول ائیر بیس پر بھی حملہ کیا گیا اور حال ہی میں خیبر پختونخواہ میں شانگلہ کے علاقے میں چینی شہریوں کو نشانہ بنایا گیا ہے۔ یوں چین-امریکی پراکسی جنگ،جس میں امریکی اتحادی کے طور پر انڈیا بھی شامل ہے، جو اصل میں کبھی ختم ہوئی ہی نہیں تھی، اس کے پھر بے قابو ہونے کے امکانات سر اٹھا رہے ہیں۔
جہاں ایک طرف پاکستانی ریاست اپنے داخلی تضادات کے باعث ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے وہیں خطے کی مسلسل بدلتی ہوئی صورتحال نے بھی اس مہم جو ریاست کو مکافاتِ عمل کی عملی تفسیر کی بہترین مثال بنا دیا ہے۔ بھارت اور افغانستان کی سرحدوں پر تو حالات بہت عرصے سے تشویشناک چلے آ ہی رہے تھے مگر گزشتہ عرصے میں ہم نے ایران کے ساتھ بھی سرحدی جھڑپوں اور تصادم کی فضا دیکھی۔ یوں پاکستانی ریاست کے لیے کہیں سے کوئی خیر کی خبر نہیں۔
اگرچہ ریاستی اشرافیہ نے ان تجربات سے کچھ نہیں سیکھا اور وہ اب بھی خطے میں کسی بھی قسم کی جنگ کا ایندھن بننے کے لیے بیتاب ہیں مگر اب اس قسم کا کوئی بھی ایڈونچر ریاست کے تابوت میں آخری کیل بھی ثابت ہو سکتا ہے۔
اس کا یہ ہر گز مطلب نہیں کہ ریاست خود بخود منہدم ہو جائے گی بلکہ ریاست پہلے سے زیادہ وحشی ہو جائے گی مگر کسی بھی ممکنہ طبقاتی جنگ سے نبرد آزما ہونے کی ریاستی صلاحیت بہرحال تیزی سے سکڑتی جا رہی ہے۔ سنٹر فار ریسرچ اینڈ سکیورٹی سٹڈیز کی رپورٹ کے مطابق صرف فروری کے یعنی گزشتہ مہینے میں پاکستان میں دہشت گردوں کی طرف سے 97 حملے کیے گئے جن میں 87 اموات ہوئیں جبکہ 118 لوگ زخمی بھی ہوئے۔ ریاست کے تمام تر دعووں کے برعکس یہ صورتحال بے قابو ہوتی ہوئی نظر آ رہی ہے۔ ریاست کے کسی بھی دھڑے کے پاس اس صورتحال سے نمٹنے کی کوئی تدبیر نہیں ہے۔ وہ ایک دفعہ پھر نیکٹا (Nacta) جیسے اداروں پر انحصار کرنے پر مجبور ہیں۔ اس طرح کے ادارے سوائے ملٹری آپریشنوں کے اور کر بھی کیا سکتے ہیں۔ لیکن سوال یہ ہے کہ اگر ردالفساد اور ضربِ عضب جیسے آپریشنز کے بعد بھی حالات بہتر ہونے کی بجائے بدتر ہی ہوئے ہیں تو اب کسی نئے آپریشن سے کیا اور کیونکر توقعات وابستہ کی جاسکتی ہیں۔ سول اور عسکری قیادت فوجی جوانوں کی اموات کو نام نہاد حب الوطنی کو ابھارنے کے لیے استعمال کر رہی ہے لیکن اس پروپیگنڈے کے بالکل الٹ نتائج مرتب ہو رہے ہیں۔
ریاستی بحران اور عوامی شعور
اب عوام بالخصوص نوجوان نسل انتہائی سنجیدہ سوالات اٹھا رہی ہے۔ فی الوقت اس رجحان کی بھرپور عکاسی کا مرکز سوشل میڈیا بنا ہوا ہے۔ طاقت کے نشے میں بدمست اسٹیبلشمنٹ یہ سوچ رہی ہے کہ ٹویٹر جیسے سوشل میڈیا کے فورمز کو بلاک کر کے اس عوامی اشتعال کو کنٹرول کیا جا سکتا ہے۔ ان اقدامات سے ان پالیسی سازوں کی حماقت اور جہالت کا درست اندازہ ہوتا ہے۔ انہوں نے حالیہ انتخابات کے نتائج سے بھی کچھ نہیں سیکھا۔ انہیں لگتا تھا کہ انتخابی نشان چھین کر یہ تحریکِ انصاف کے ووٹرز کو گمراہ کر دیں گے یا کٹھ پتلی عدالتوں کے انتہائی اخلاق سوز فیصلوں سے انہیں بدظن کرنے میں کامیاب ہو جائیں گے لیکن ان کے سارے تخمینے غلط ثابت ہوئے۔ انہیں خود شاید عوامی اشتعال کی شدت اور عوام کی ان اداروں اور مقدس گائے سے بیزاری کا درست اندازہ تھا ہی نہیں۔ یہ شاید کسی اور سیارے پر زندہ ہیں۔ دراصل ان تمام اقدامات کا تحریکِ انصاف کو نقصان ہونے کی بجائے فائدہ ہی ہوا ہے۔
اسی طرح یہ سوشل میڈیا پر جتنی پابندیاں لگاتے چلے جائیں گے عوامی اشتعال نہ صرف بڑھتا جائے گا بلکہ نئے سے نئے راستے تلاش کرنے پر مجبور ہو گا۔ اسٹیبلشمنٹ کا مسئلہ اب یہ ہے کہ سوال کرنے والے ہزاروں میں نہیں کروڑوں میں ہیں۔ اب یہ لوگ جواب لیے بغیر رکنے والے نہیں۔ لوگ اب پوچھ رہے ہیں کہ کشمیر کے نام پر ہماری نسلوں کو بھوکا رکھ کر پھر کشمیر پر سودے بازی کس نے اور کیوں کی؟ پاکستان کو اسلام کا قلعہ قرار دینے والوں نے اب غزہ کے معصوم بچوں، عورتوں اور نہتے عوام کے قتلِ عام پر مجرمانہ خاموشی کیوں اختیار کی ہوئی ہے بلکہ عملاً یہ اسرائیل کی حمایت کر رہے ہیں اور عوامی جگہوں پر فلسطین کا جھنڈا لہرانے تک پر پابندی عائد کی گئی ہے۔ پاکستان سپر لیگ کے میچوں کے دوراں تماشائیوں کو فلسطین کے جھنڈے لانے کی اجازت ہی نہیں دی گئی تھی۔ کچے کے ڈاکوؤں نے کشمور اور ملحقہ علاقوں کی معصوم عوام کا جینا دوبھر کیا ہوا ہے۔ ان چند سو ڈکیتوں کو جدید ترین اسلحہ کون اور کیسے مہیا کرتا ہے؟ بڑے بڑے دہشت گرد دنیا کی نمبر ون فوج کی حراست سے بھاگنے میں کامیاب کیسے ہو جاتے ہیں؟ گزشتہ دنوں سے توایسی بھی اطلاعات منظرِ عام پر آ رہی ہیں کہ گزشتہ عرصے میں افغان باشندوں کو جعلی دستاویزات پر فوج اور دیگر اداروں میں بھی بھرتی کیا گیا تھا، ان کے خلاف بھی آپریشن کیا جا رہا ہے۔ لیکن اس طرح کے اقدامات اس خداداد سکیورٹی سٹیٹ میں ممکن ہی کیسے ہوئے؟
یہ اور اس طرح کے سوالوں کی ایک طویل فہرست ہے۔ یہ دراصل محض سوالات نہیں ہیں بلکہ شعور کے ارتقا کے سالماتی عمل کے پرپیچ نشیب وفراز ہیں۔ ابھی تو درمیانے طبقے کے مایوس عناصر ہی زیادہ تر اس قسم کے سوالات اٹھا رہے ہیں لیکن درمیانے طبقے کی سیاسی ہلچل کا واحد ترقی پسندانہ پہلو یہ ہوتا ہے کہ وہ سیاسی بازار کی گرما گرمی کے ذریعے محنت کش طبقے کی توجہ روزمرہ کے مسائل سے ہٹا کر سیاسی اتھل پتھل کی طرف کر دیتے ہیں۔ اور جس دن درمیانے طبقے کے ہیجانی عناصرکے ساتھ ساتھ اگلے وقت کی روزی روٹی کی فکر میں ہلکان محنت کشوں نے یہ سوالات پوچھنے شروع کر دیئے تو وہ جواب وصول کر کے ہی دم لیں گے۔
یوں ریاستی اشرافیہ کو اس وقت سرحدی تنازعات سے کہیں زیادہ سنجیدہ مسائل کا سامنا ہے۔ بڑا مسئلہ اس وقت ریاستی اداروں کی خانہ جنگی اور سیاسی انتشار ہے۔ حالیہ انتخابات میں ریاستی پالیسی سازوں کی طرف سے مخالف دھڑے کے خلاف کیے گئے ناقابلِ یقین اقدامات نے ریاست کی اندرونی دراڑوں کو مزید وسعت دی ہے۔ کچھ عرصہ قبل کمشنر راولپنڈی کی پریس کانفرنس میں کیے گئے انکشافات نے ریاست کے سنجیدہ حلقوں کو چونکا کر رکھ دیا تھا۔ بعد میں اس کمشنر کو اپنے بیان سے منحرف ہونے پر آمادہ تو کر ہی لیا گیا لیکن یہ حقیقت آشکار ہو گئی کہ سول اور ملٹری اسٹیبلشمنٹ میں فاصلے کم ہونے کی بجائے مسلسل بڑھ رہے ہیں۔
عدلیہ کا بحران
لیکن اس وقت فوج سے بھی زیادہ جو ادارہ تمام تر ریاستی بحران کا مرکز بنا ہوا ہے، وہ مقدس عدلیہ ہے۔ ہم پہلے عدالتِ عظمیٰ کے تین سینیئر ترین ججز کے استعفے دیکھ چکے ہیں اور حال ہی میں اسلام آباد ہائی کورٹ کے آٹھ میں سے چھ ججز کی طرف سے چیف جسٹس آف پاکستان کو لکھے گئے خط نے پورے عدالتی نظام کو ہی داؤ پر لگا دیا ہے۔ خط میں انکشاف کیا گیا ہے کہ پاکستانی خفیہ ا دارے ISI کی طرف سے جج صاحبان کے عزیز و اقارب کو اغوا کر کے یا ان کے بیڈ رومز میں کیمرے نصب کر کے ان کو بلیک میل کیا جاتا ہے اور خلافِ آئین و قانون فیصلے کروا لیے جاتے ہیں، لہٰذا ان سکیورٹی اداروں کے خلاف کاروائی کی جانی چاہیے۔ اس خط کے پبلک ہوتے ہی ریاستی حلقوں میں کھلبلی مچ گئی اور چیف جسٹس آف پاکستان نے فوراً سپریم کورٹ کے تمام ججز کا ہنگامی اجلاس طلب کر لیا۔ تاہم فی الوقت ISI یا دیگر کسی بھی ادارے کی طرف سے ان الزامات کے حوالے سے کوئی بھی آفیشل بیان سامنے نہیں آیا ہے جبکہ چاروں صوبوں کی ہائیکورٹ بار ایسوسی ایشنز اور سپریم کورٹ بار کی طرف سے پریس ریلیزوں کے ذریعے شدید ردِ عمل دیا گیا ہے اور عدالتی نظام کو بچانے کے لیے ہر ممکنہ اقدامات کرنے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔
ریاستی بحران کا مستقبل کیا ہو گا؟
ظاہر ہے کہ ریاستی اداروں کا یہ باہمی تصادم اب انتہائی خطرناک موڑ پر پہنچ چکا ہے۔ ہمارے لبرلز اور بائیں بازو کے اصلاح پسندوں کا محبوب اقتدار پر حاوی موجودہ ریاستی دھڑا بظاہر جتنا طاقتور دکھائی دیتا ہے، اندر سے اتنا ہی دیمک زدہ ہے۔ طاقت کے نشے میں بدمست جرنیل یہ سمجھتے ہیں کہ اگر وہ فوج کے داخلی توازن کو اپنے حق میں رکھیں تو پھر انہیں کسی اور ادارے سے گھبرانے کی ضرورت ہی کیا ہے۔ وہ میڈیا مالکان اور ٹائیکونز، سیاستدانوں، بیوروکریٹوں اور ججوں کو بھلے ہی سونے کے نوالے کھلاتے ہوں لیکن وہ انہیں اپنے گھر میں پالے ہوئے جانوروں سے بھی زیادہ وقعت نہیں دیتے۔ لیکن اب صورتحال ان کے کنٹرول سے باہر ہوتی جا رہی ہے اور پورے نظام کے لایعنی پن کے عریاں ہو جانے کے خوف سے تمام اداروں کے کرتے دھرتے اپنی اپنی بقا کی جنگ لڑنے پر مجبور ہیں۔
نفسا نفسی کے اس ماحول میں اس جعلی، مصنوعی اور غیر تعقلی ریاست کا تعفن ہر طرف پھیلتا جا رہا ہے اور موجودہ حالات میں یہ کہیں تھمتا دکھائی نہیں دے رہا۔ عملیت پسندانہ سوچ کے دباؤ میں بہرحال کسی نہ کسی طرح وقتی سمجھوتے کیے جاتے رہیں گے لیکن کچھ ہی عرصے بعد ہمیں پہلے سے زیادہ بڑی لڑائیاں سر اٹھاتی ہوئی دکھائی دیں گی۔
محنت کش تحریک
ریاست کی یہ آپسی لڑائیاں محنت کش طبقے کے شعور پر بھی گہرے اثرات مرتب کر رہی ہیں۔ ٹریڈ یونین اشرافیہ کی طرف سے عدلیہ کو محنت کشوں کا نجات دہندہ بنا کر پیش کیا جاتا ہے۔ لیکن اب محنت کش دیکھ رہے ہیں کہ جو جج صاحبان خود اپنی چادر چار دیواری اور آئین وقانون کے تقدس کا دفاع کرنے میں ناکام ہیں، ان سے کس قسم کی خیر کی توقع کی جا سکتی ہے۔
دوسری طرف ریاست کا معاشی بحران بھی مکمل طور پر بے قابو ہو چکا ہے۔ IMF نے ماضی کی طرح ایک دفعہ پھر اس گرتی ہوئی معیشت کو سہارا ضرور دیا ہے مگر IMF کا یہ سہارا ویسا ہی ہے جیسے پھانسی کے پھندے کی رسی اس پر لٹکے ہوئے انسان کو سہارا دیتی ہے۔ نہ صرف پہلے سے جاری پروگرام کی بقیہ قسط کی ادائیگی کے سٹاف لیول معاہدے پر اتفاق ہو گیا ہے بلکہ مزید چھ ارب ڈالر کی ایکسٹینڈڈ فنڈ فیسیلیٹی کے لیے بھی بات چیت کا آغاز ہو چکا ہے مگر طے شدہ شرائط سے صاف واضح ہے کہ IMF نے نوے فیصد لوگوں کو دیوالیہ کر کے باقی ماندہ ملک کو بچا لینے کا منصوبہ بنایا ہے تاکہ ان سامراجیوں کے سود کی ادائیگیاں بلا تعطل جاری رہ سکیں۔
تمام اعشاریئے یہی بتا رہے ہیں کہ شرح سود میں اگر مزید اضافہ کر بھی دیا جائے تب بھی افراطِ زر کا جن بے قابو ہی رہے گا۔ روپے کی قدر کو منڈی کے رحم و کرم پر چھوڑنا معاہدے کی بنیادی شرط ہے جس کے باعث ڈالر فوری طور پر تین سو روپے سے تجاوز کر سکتا ہے اور مستقبل قریب میں اس کی قیمت میں ناقابلِ یقین اضافے کے امکانات کو بھی خارج از قیاس نہیں سمجھنا چاہیے۔
دوسری طرف نجکاری کی پالیسی کے ذریعے لاکھوں محنت کشوں کو بیروزگار کیا جائے گا۔ ایسے میں جب محنت کش طبقے کی مجموعی آمدن میں بڑے پیمانے پر کمی ہو رہی ہو گی عین اسی وقت گیس اور پیٹرولیم سمیت ہر قسم کی سبسڈیز کا خاتمہ کر کے ان کی زندگیاں مزید اجیرن بنا دی جائیں گی۔ ساتھ ہی نت نئے ٹیکس لگائے جائیں گے۔ اور ایسے میں اگر مشرقِ وسطیٰ کا بحران طوالت اختیار کر گیا تو پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں ہوشربا اضافے کا بوجھ بھی محنت کشوں کے کاندھوں پر لاد دیا جائے گا۔ ایسے میں محنت کشوں کے پاس لڑنے کے علاوہ کوئی راستہ نہیں بچے گا۔ وہ مفاد پرست ٹریڈ یونین اشرافیہ کے کمفرٹ زونز کے چیتھڑے اڑا کر رکھ دیں گے اور نجی صنعتی شعبے میں ایک تازہ دم ہڑتالی لہر کے ابھرنے سے پبلک سیکٹر کے محنت کشوں کو نئی یکجہتی اور توانائی میسر آئے گی۔
دوسری طرف درمیانہ طبقہ اگرچہ بحیثیتِ طبقہ تو کوئی اجتماعی نتیجہ اخذ کرنے کی اہلیت نہیں رکھتا مگر اس کی ہراول پرتوں میں سیاسی بحث مباحثے کا کردار ضرور تبدیل ہو گا۔ کیونکہ اپنے نظام کو بچانے کے لیے حکمران طبقہ درمیانے طبقے کے معیارِ زندگی پر بھی کاری ضربیں لگا رہا ہے۔ ان کے حالاتِ زندگی سیاسی طور پر بھی انہیں محنت کش طبقے کے قریب دھکیل رہے ہیں۔
یوں طلبہ کی تحریکیں بھی سیاسی افق پر نمودار ہوں گی۔ ساتھ ہی قومی جمہوری تحریکوں میں بھی نہ صرف شدت آئے گی بلکہ ان کا سیاسی کانٹینٹ بھی تبدیل ہو گا۔ کشمیر، گلگت بلتستان، بلوچستان اور پشتون عوام کی تحریکوں میں ٹھہراؤ اور جمود کے مختصر دورانیئے ضرور آ سکتے ہیں لیکن ان کا آگے کی طرف سفر جاری رہے گا۔
ایسے میں محنت کش طبقے کی قیادتوں کا امتحان ہو گا۔ جہاں ایک طرف قومی اور جمہوری تحریکوں کو طبقاتی بیانیہ اختیار کرنے کی طرف بڑھنا پڑے گا وہیں مزدور تحریک کو بھی آنے ٹکے کی لڑائی سے نکل کر وسیع تر سیاسی پروگرام کے گرد منظم ہونا پڑے گا۔ یوں آئندہ سال ہی نہیں بلکہ مہینے بھی غیر معمولی اہمیت کے حامل ہیں۔ بہت بڑے بڑے واقعات ان حالات کی کوکھ میں پل رہے ہیں۔ نوجوانوں کی ایک بہت بڑی تعداد جو فی الوقت ملک سے فرار ہونے کے لیے ہاتھ پاؤں مار رہی ہے، بہت جلد ان کے شعور میں معیاری تبدیلی وقوع پذیر ہو سکتی ہے اور یہ بھاگنے کی بجائے حالات کا سامنا کرنے پر مجبور ہو جائیں گے۔ ایسے میں مذکورہ بالا شعور کی تبدیلی کاسالماتی عمل معیاری جست لے کر ایک بہت بڑے سماجی دھماکے کی شکل اختیار کر سکتا ہے۔ محنت کش طبقے اور کمیونسٹ انقلابی کارکنوں کو اس دھماکے کی عملی، سیاسی اور نظریاتی تیاری کرنے کی ضرورت ہے۔