|تحریر:پارس جان|
یوں تو نام نہاد مملکتِ خداداد میں ہر صبح ایک نیا آزار لے کر ہی طلوع ہوتی ہے اور ہر شام کے ساتھ کچھ مزید آرزؤں اور تمناؤں کی شمعیں بھی گل ہو جاتی ہیں، لیکن اسی شب و روز کے معمول میں بھی کچھ واقعات اشرافیہ کی بے حسی اور درندگی کا منہ بولتا ثبوت بن کر غیر معمولی اہمیت اختیار کر جاتے ہیں۔ 29 مئی کی صبح بھی اسی قسم کا ایک بہیمانہ واقع اس وقت پیش آیا جب احتجاجی جلوس پر گولی چلا دی گئی۔ درگئی (ملاکنڈ) میں لوڈ شیڈنگ کے خلاف احتجاج کرنے والے عوام کے جمِ غفیر پر سکیورٹی فورسز کی فائرنگ کے نتیجے میں دو شہری ہلاک اور متعدد کے زخمی ہو جانے کی خبر نے ایک دفعہ پھر ریاستی اداروں کی وحشیانہ فطرت کی قلعی کھول کر رکھ دی ہے۔ یہ راز بھی اب ہر خاص وعام پر منکشف ہوا جا رہا ہے کہ لوڈشیڈنگ سمیت دیگر بہت سے مسائل مصنوعی طور پر سرمایہ داروں کے پیدا کردہ ہیں۔ یہ نجی شعبہ ہی ہے جس کی حرامخوری، ذخیرہ اندوزی اورمنافعوں کی ہوس نے عوام کا جینا محال کر رکھا ہے۔ ہر سال اربوں روپے کے گردشی قرضوں کا پہاڑ کھڑا کر کے بجلی بنانے والی کمپنیاں عوام پر لگائے گئے ٹیکسوں سے بے انت وصولیاں کرتی ہیں۔ وصولی میں تاخیر کی صورت میں سولہ سے 20 گھنٹے تک کی لوڈ شیڈنگ کر کے عوام کو 50-40 ڈگری درجہ حرارت میں بھی موت کے بے رحم فرشتے کے رحم و کرم کے حوالے کر دیا جاتا ہے۔ ہتھیار دکھا کر کسی بھی بازار سے ’ہفتہ وصولی ‘ کرنے والے چھوٹے موٹے جرائم پیشہ افراد کو ’غنڈے اور موالی ‘ کہا جاتا ہے حالانکہ ان کو شاذ ونادر ہی کسی کی جان لینی پڑتی ہے۔ جبکہ ان نجی کمپنیوں کے مالکان کی ’غنڈہ گردی‘ کو انہی قانون، آئین، جمہوریت اور امن کی مکمل آشیر باد حاصل ہوتی ہے جن کی سر بلندی اور پاسداری کے لیے سڑکوں پر نہ آنے کی وجہ سے ہمارے بہت سے لبرل اور بائیں بازو کے ’معتدل‘ خواتین و حضرات اسی عوام کو بے غیرت یا بے حس قرار دے رہے ہوتے ہیں جو ہر سال شدید گرمی میں بجلی کی لوڈشیڈنگ اور پانی کی قلت کے باعث زندگی اور موت کی کشمکش میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق ملک بھر میں سالانہ ہزاروں افراد بجلی اور پانی کی اسی مصنوعی قلت کے باعث بے موت مارے جاتے ہیں۔ فرق صرف یہ ہے کہ ان کے قاتلوں کو ’غنڈے اور موالی ‘ کی بجائے تاجر یا سرمایہ دار کہا جاتا ہے۔ اور جب ان مظالم کے خلاف عوام سراپا احتجاج ہوتے ہیں تو ریاستی ادارے نام نہاد امن کو قائم رکھنے کے لیے قانون کے دائرے میں ان معصوموں پر گولیاں داغ دیتے ہیں۔ درگئی کا اندوہناک واقعہ اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے جو اس بات کا کھلم کھلا اعلان ہے کہ اب سرمایہ دارانہ نظام کو اپنا وجود برقرار رکھنے کے لیے ننگی جارحیت کی پہلے سے کہیں زیادہ ضرورت ہے۔ ظاہر ہے کہ یہ کوئی آخری واقعہ نہیں، اس طرح کے واقعات مستقبل قریب میں معمول بن سکتے ہیں جن میں صرف لوڈ شیڈنگ ہی نہیں بلکہ تنخواہوں کی عدم فراہمی، اشیائے خوردو نوش کی مصنوعی قلت اور دیگر مظالم کے خلاف عوامی احتجاجوں پر ریاستی جبر کی ضرورت پڑے گی۔ یہ جبر عوام کو وقتی طور پر تو ہراساں کر سکتا ہے مگر غیر محسوس طریقے سے عوامی غم و غصے میں مقداری اضافہ بڑھتا ہی رہتا ہے جو ایک خاص لمحے نکتہ ابال کو پہنچ جاتا ہے۔ یہی ساری انسانی تاریخ کا سب سے مستند اور ٹھوس سبق ہے جس سے ٹراٹسکی کے بقول حکمران طبقے نے کوئی سبق نہیں سیکھا۔
’’میں کسی اور خطے کے کاروباری لوگوں کے بارے میں تو نہیں جانتا لیکن اس بات سے بخوبی آگاہ ہوں کہ ہمارے کاروباری اور سرمایہ دار انتہائی کمینے ہیں، انہیں تھوڑا سا بھی موقع مل جائے تو یہ عوام کا خون تک چوس لینے سے ذرا بھی ہچکچاہٹ کا مظاہرہ نہیں کریں گے۔ میں پریشان ہوں کہ کب تک ہم اس لٹیرے نجی شعبے کو عوام سے بچاتے رہیں گے۔ ایک دن آئے گا جب عوام اس سے اپنا انتقام لیں گے۔ ‘‘ (ایوب خان ڈائری 72-1966ء)
فیلڈ مارشل ایوب خان کے یہ الفاظ پاکستان کے سرمایہ داروں کی درست منظر کشی کرتے ہیں۔ لیکن یاد رہے کہ مرحوم کا یہ تجزیہ اس سرمایہ دار طبقے کے لیے تھا جس کی وہ نمائندگی کرتا تھایا جن بائیس خاندانوں کے بارے میں حبیب جالب نے اپنے مزاحمتی اشعار کہے تھے۔ ان میں آدم جی، سہگل، لاکھانی، ہاشوانی اور حبیب گروپ وغیرہ شامل تھے۔ یہ وہ طبقہ تھا جو متحدہ ہندوستان میں ٹاٹا، برلا اور امبانی وغیرہ سے مسابقت کی اہلیت نہ رکھنے کے باعث پاکستان کی شکل میں ’مسلم منڈی ‘ سے امیدیں وابستہ کیئے ہوئے تھا۔ لیکن سرمائے کی اس ’آزادی‘ کے پہلے عشرے میں وہ بری طرح ناکامی سے دوچار ہوا۔ ایسے میں ان کی نامیاتی کمزوری نے جو خلا پیدا کیا تھا اسے ریاستی اداروں اور بالخصوص فوج نے پُر کیا اور ایوب خان نے پاکستان انڈسٹریل ڈیویلپمنٹ کارپوریشن (PIDC ) کے تحت ابتدائی صنعتی انفراسٹرکچر تعمیر کر کے اس امید پر ان سرمایہ داروں کے حوالے کیا کہ وہ اسے مزید آگے بڑھاتے ہوئے یہاں پر جدید قومی ریاست کی تشکیل کا فریضہ سر انجام دیں گے۔ لیکن انہوں نے ٹیکس اور بجلی کی چوری کے ساتھ ساتھ عالمی سامراجی اداروں کی گماشتگی کی تمام حدیں پار کر دیں اور محنت کش عوام کا وحشیانہ استحصال کیا جس کے نتیجے میں خود ایوب خان کی فوجی آمریت کے خلاف انقلابی تحریک شروع ہو گئی اور اسے مسندِ اقتدار چھوڑ کر بھاگنا پڑا۔ ایک بونا پارٹسٹ (فوجی آمر ) اس حکمران طبقے کے نامیاتی پوٹینشل، موضوعی صحت اور انتظامی اہلیت کا سب سے معتبر گواہ ہوتا ہے جس کی وہ نمائندگی یا ’تکمیل‘ کا تاریخی فریضہ سر انجام دے رہا ہوتا ہے۔ لیکن اس پاکستان کے حقیقی ’بانی‘ حکمران طبقات کا آج کے حکمران طبقات سے موازنہ کیا جائے تو ان کے لیئے ’لٹیرے ‘ اور ’کمینے ‘ کے لفظ کسی حد تک موزوں قرار دیئے جا سکتے ہیں مگر میاں منشا، آصف علی زرداری، ملک ریاض، نواز شریف اور جہانگیر ترین جیسے موجودہ نو دولتیئے سرمایہ داروں اور تاجروں کو کمینے اور لٹیرے کہنا تو سورج کو چراغ دکھانے کے مترداف ہو گا۔ ان کے لیئے شاید اردو لغت میں مناسب الفاظ ہی دستیاب نہ ہوں۔
گزشتہ نصف صدی میں صرف سرمایہ داروں کا ہی زوال پذیر ارتقا دیکھنے میں نہیں آیا بلکہ خود ریاستی اداروں بالخصوص فوج بھی اندر سے مکمل طور پر گل سڑ چکی ہے۔ ایوب خان کی زیرِ قیادت بھی فوج سرمایہ داروں اور تاجروں کے خصی پن کے باعث سماج میں سول بیروکریسی کی طرح ہی بہت زیادہ سرایت کر گئی تھی۔ سیاست کی باگ ڈور سنبھالنے کے پسِ پردہ فوج کے اپنے مالی و اقتصادی ناجائزو جائز تجاوزات کی نگہبانی اور بڑھوتری کے عزائم کارفرما تھے۔ انہی مکروہ عزائم نے فوج کو دیمک زدہ کرنا شروع کر دیا تھا جس کا ناگزیر نتیجہ ثقافتی زوال پذیری کی عبرتناک انتہا کی شکل میں دیکھا جا سکتا ہے جس کا مجسم اظہار خود جنرل یحیٰ خان بن گئے تھے۔ موصوف کے کرتوت بیان کرنا تو دور کی بات ہے، ان کے بارے میں سوچ کر بھی متلی آنے لگتی ہے۔ فوج کی درمیانی اور نچلی پرتوں میں بھی اس کے اثرات مشرقی پاکستان میں ’کارہائے نمایاں‘ سر انجام دینے کی شکل میں برآمد ہوئے۔ لیکن سرمایہ داروں اور ان کے سیاسی نمائندوں کی انتہاؤں کو پہنچی ہوئی بدعنوانی اور تعیش کے باعث بہت جلد ہی فوج اپنا سماجی مقام بحال کرنے میں کامیاب ہو گئی تھی۔ فوجی اشرافیہ جتنی بھی گندی اور قابلِ نفرت تھی، حکمران طبقات کے مقابلے میں ’کمتر برائی ‘ کے طور پر سامنے آنے کا موقع ڈھونڈ ہی نکالتی تھی۔ بلکہ درمیانے طبقے اور محنت کشوں کی لمپنائزڈ پرتوں میں تو 80ء اور 90ء کی دہائیوں میں فوجی جرنیل مسیحا بن کر سامنے آتے تھے۔ جنگ تو خیر اس ’سرطان زدہ فوج‘ نے کیا کوئی جیتنی تھی، ہاں البتہ جب بھی کوئی ’منصوبہ بند مہم جوئی‘ کی جاتی تھی تو عوام کی وسیع تر پرتوں میں حب الوطنی کا جذبہ ضرور در آتا تھا۔ یہ عمل 1965ء کی جنگ سے لے کر کارگل کی مہم جوئی تک کئی بار دیکھا گیا۔ اسی کو ڈھال بنا کر فوج اور دیگر سکیورٹی اداروں نے براہِ راست یا بالواسطہ اپنے فرنٹ مینوں کے ذریعے رئیل سٹیٹ سے لے کر کراکری، بینکاری، سیمنٹ اور سٹیل جیسی کلیدی صنعتوں میں بھی اپنی مالیاتی اجارہ داری قائم کر لی۔ اس متجاوز کردار پر جب بھی سوالیہ نشان لگتا تو سرحدوں پر نئی فلم ریلیز کر دی جاتی۔ کالی معیشت کے بڑھاؤ نے اس عمل کو چار چاند لگا دیئے تھے۔ اس کے نتیجے میں جہاں ایک طرف ریاستی اداروں کے اندر گروہی ٹوٹ پھوٹ پروان چڑھی وہیں حکمران طبقات کی کچھ پرتوں کے ساتھ بھی فوجی اشرافیہ کے کچھ حصوں کے تضادات شدت اختیار کرتے گئے۔ نواز شریف کی سابقہ حکومت میں پرویز مشرف کے ساتھ ’فیصلہ کن ٹکراؤ‘ اور موجودہ حکومت میں راحیل شریف کے ساتھ ’نوک جھوک‘ انہی تضادات کا شاخسانہ ہے۔ بیچ کے اور اس سے قبل پیپلز پارٹی کے ادوار میں ان تضادات میں دیگر عناصر بالخصوص طبقاتی توازن کا عمل دخل بھی بہت زیادہ بڑھ جاتا تھا۔ لیکن اسی عرصے میں ایک خاص فرق بآسانی دیکھا جا سکتا ہے کہ مشرف کی مہم جوئی سے لے کر اب تک فوج بڑے پیمانے پر عوام کی وسیع تر پرتوں کے سامنے ننگی ہو گئی ہے۔ طالبان کی پشت پناہی، سعودی عرب، امریکہ اور اب چین کی گماشتگی، بحریہ ٹاؤن اور سابقہ جنرل اشفاق پرویز کیانی کے بھائی کی بدعنوانی جیسے بڑے مالیاتی سکینڈلز، راحیل شریف کو 99 ایکڑ کی شہری زمین کی الاٹمنٹ جیسے دیگر لا محدود قصے زباں زدِ عام ہو چکے ہیں۔
کھوئی ہوئی ساکھ کو بحال کرنے کے لیے گزشتہ برسوں میں فوج نے پھر کئی بار سرحدی تنازعات کا سہارا لینے کی کوشش کی ہے مگر ہر دفعہ ان کو منہ کی کھانی پڑی۔ اب صورتحال اس چرواہے کے جیسی ہو گئی ہے جو ہر بار ’شیر آیا، شیر آیا ‘ کا شور مچا کر لوگ اکٹھے کر لیتا تھا اور جس دن واقعی شیر آیا تو کوئی مدد کو نہ پہنچا۔ اس وقت ہمارے سامنے پاکستان کی تاریخ کی بالکل مختلف اور نئی صورتحال ہے۔ ٹرکوں کے پیچھے، اپنی نوٹ بکوں میں، اپنے ڈرائینگ روموں اور بیڈ روموں میں، بسوں، پارکوں اور کینٹینوں غرضیکہ ہر جگہ خوامخواہ ’پاک فوج کو سلام‘ لکھوانے والی قوم ’جذبہ حب الوطنی‘ سے مکمل طور پر بیزار ہو چکی ہے۔ انجمن تاجران اور میڈیا اینکرز کے علاوہ فوج کے ’جاں نثار‘ تو درکنار معذرت خواہان بھی کم ہی بچے ہیں۔ گزشتہ دو نسلوں میں یہ رجحان غالب تھا کہ اگر گلی میں بھی کسی کو کوئی عام فوجی سپاہی بھی نظر آ جاتا تھا تو اسے لوگ بے دھڑک سلیوٹ ٹھوکتے تھے، چائے پانی کرتے تھے۔ ٹی وی پر کسی ملی نغمے کی ویڈیو یا کسی ڈرامے یا فلم میں کوئی وردی والا ہیرو ادھر ادھر دوڑتا تھا تو دیکھنے والوں کے جسم میں خون کی گردش تیز ہو جاتی تھی۔ آج ISPR خود کئی ڈرامے اور فلمیں ریلیز کر رہا ہے مگر لوگ ٹھنڈی آہ بھرنے کے علاوہ ٹس سے مس نہیں ہوتے۔ خون تیز دوڑنے کی بجائے شرم سے جم جاتا ہے۔ 15 سے 30 سال کے جوانوں میں فوج کی طرف رویہ بہت حقیقت پسندانہ شکل اختیار کر گیا ہے۔ حالیہ مردم شماری کے دوران ملک کی گلی گلی میں فوجی پھرتے رہے اورمبینہ طور پر دل و جان نچھاور کرنے والوں کو تلاش کرتے رہے۔ دوسری طرف حالات یہ ہیں کہ ایک سرحد تو کجا تین سرحدوں پر ’غیر معمولی‘ چپقلش موجود ہے۔ افغانستان کو اپنا صوبہ سمجھنے والوں کو چمن بارڈر بند کرنا پڑا تھا۔ لڑائی میں دونوں طرف اموات ہوئی ہیں۔ بارڈر تو بلیک مارکیٹنگ کرنے والے تاجروں کی بلیک میلنگ کے باعث کھول دیا گیا ہے مگر کشیدگی ابھی برقرار ہے۔ ایران بھی پاکستانی بلوچستان میں کاروائیاں کر رہا ہے۔ تاریخی طور پر کم ترین عوامی مقبولیت اور بیک وقت تاریخی طور پر سرحدوں پر تاریخی عدم تحفظ، یہی وہ وجوہات ہیں جن کے باعث مارشل لا لگانے کی بجائے فوج کو ٹویٹ واپس لینا پڑا اور عمران خان جیسے اپنے دم چھلوں کو بارہا مایوسی سے دوچار کرنا پڑا۔ اس کیفیت کو ’جمہوری پیش رفت‘ سمجھنے والے احمقوں کی جنت میں رہتے ہیں۔ لیکن یہ کیفیت حکمران طبقات اور ریاستی مشینری کے لیے خطرے کی گھنٹیاں بجا رہی ہے کیونکہ اس کے بطن میں کبھی نہ دیکھے گئے سماجی و سیاسی مضمرات پنہاں ہیں جو کسی بھی وقت سطح پر اپنا اظہار کر سکتے ہیں۔
عوام کی اکثریت آمریتوں اور جمہوریتوں کے اس ناٹک سے یکسر اکتا چکی ہے۔ 60ء کی دہائی میں فوجی آمریت سے لڑ کر حاصل کی جانے والی جمہوریت اور جیتے گئے آئین نے عوام کی اکثریت کو زندہ درگور کر چھوڑا ہے۔ فوج سے نالاں ہو کر بھٹو ازم کے دامن میں پناہ لینے والی نسل آج بوڑھی ہو کر قریب المرگ ہو چکی ہے۔ اس کے بعد کی نسل جو ابھی ادھیڑ عمر ہے فوج کو سیاستدانوں سے بہتر سمجھنے کے خبط میں مبتلا رہنے کے بعد اب ندامت اور خجالت سے حواس باختہ ہو چکی ہے۔ موجودہ نوجوان نسل کی اکثریت گزشتہ دونوں نسلوں کے تلخ اور سعی لاحاصل پر مبنی تجربات کی روشنی میں فوج اور سیاستدانوں دونوں کو عوام دشمن سمجھتی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ وہ عدلیہ، بیوروکریسی، پولیس اور میڈیا ٹائیکونز سب کی اصلیت سے بھی بخوبی آگاہ ہے۔ پاناما کیس نے سب کی بچی کھچی عزت اور ناموس کا جنازہ نکال دیا ہے۔ نئی نسل ماضی کے مزاروں کوپوجنے کی نہیں مستقبل کو تراشنے اور نکھارنے کی جدوجہد میں سرگرم ہونے کے پہلے مرحلے میں داخل ہو رہی ہے۔ انہوں نے جو سبق حاصل کیا ہے اس کا نچوڑ یہ ہے کہ انہیں خود اپنے دم پر کچھ کرنا ہو گا۔ وہ سماج کی طبقاتی بنتر کو بھی زندگی کے تلخ تجربات سے سمجھ رہے ہیں۔ سی پیک کے بعد دودھ اور شہد کی نہریں بہا دینے کے دعوے جب غلط ثابت ہونگے تو اس نسل کی موجودہ نظام سے بندھی امید کی آخری کچی ڈوری بھی ٹوٹ جائے گی۔ سی پیک اول تو حقیقت کم اور ایک سیاسی افسانہ زیادہ معلوم ہوتا ہے۔ لیکن اگر یہ حقیقت کا روپ دھار بھی لے توترقی کی بجائے پہلے سے برباد حال معیشت اور صنعت کا شیراہ بکھیر کر رکھ دے گا۔ مقامی صنعت کے بند ہونے سے بیروزگاری میں مزید اضافہ ہو گا۔ پہلے ہی کروڑوں نوجوان اس دلدل میں دھنستے چلے جا رہے ہیں جن میں اب پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کرنے والے نوجوان بھی شامل ہو چکے ہیں۔ آنے والے عرصے میں جو تھوڑا بہت روزگار پیدا ہو گا بھی وہاں چینی محنت کشوں کی بڑی رسد پہنچ جائے گی۔ چین اپنا نہ صرف معاشی بحران پاکستان جیسے ملکوں میں برآمد کر رہا ہے بلکہ اس کے متوازی ان ممالک میں نئے سیاسی بحرانات پیدا کر رہا ہے۔ صنعت کے ساتھ ساتھ چینی ساہوکار پاکستانی زراعت میں بھی بڑی سرمایہ کاری کا ارادہ رکھتے ہیں۔ وہ لاکھوں ایکڑ زمین پر کارپوریٹ فارمنگ کریں گے جہاں چینی محنت کش کھیت مزدوری کریں گے۔ یہاں سے ایک طرف تو چین اپنی غذائی ضروریات پورا کرے گا بلکہ بڑے پیمانے پر زرعی برآمدات کے ذریعے قدرِ زائد بھی نچوڑے گا۔ یہ جدید نو آبادیاتی غلامی کی غلیظ ترین شکل ہو گی جہاں قرضوں کے سود کی ادائیگی کے بوجھ میں کئی گنا اضافے کے ساتھ ساتھ پاکستانی ریاست اپنی زرعی آمدن سے بھی محروم ہو جائے گی۔ زمین کی ملکیت کی تبدیلی سے قومی مسئلہ اور زرعی سوال نئی شکل اختیار کریں گے۔ پنجابی سامراج سے آزادی حاصل کرنے کے خواہش مند بلوچ اور دم توڑتے ہوئے پنجابی کلچر کو زندہ کرنے کے رسیا پنجابی سکالرز سب اپنے بچوں کو چینی زبان پڑھانے پر مجبور ہونگے تو قومی محرومی کسی نئے سیاسی اظہار کے لیے پک کر تیار ہو گی۔ چینی مزدور بھی یہاں کی سیاسی ثقافت پر اثرانداز ہو کر نہ چاہتے ہوئے بھی انقلابی عمل کو مہمیز دیں گے۔ متعصب اور متعفن پیٹی بورژوا قوم پرستی موجودہ شکل میں اپنے آپ کو برقرار نہیں رکھ پائے گی۔ کسان اور کھیت مزدورکے شہری پرولتاریہ سے سیاسی فاصلے کم ہو جائیں گے۔ لیکن یہ سب میکانکی شکل میں بتدریج نہیں ہو گا بلکہ انتہائی پرپیچ اور پیچیدہ عمل گا۔ علاقائی اور عالمی طاقتوں کے توازن میں تبدیلی کے زیرِ اثر پاکستان میں سیاسی و ثقافتی تبدیلی کا یہ عمل بہت تیزی سے وقوع پذیر ہو سکتا ہے۔ ہوسکتا ہے چینی اشرافیہ اور ان کے کمیشن خور پاکستانی جرنیلوں اور تاجروں کے یہ سب منصوبے دھرے کے دھرے رہ جائیں اور اس سب سے قبل ہی کوئی سماجی دھماکہ سارے سیاسی منظرنامے کو بدل کر رکھ دے۔ یوں بظاہر سیاسی بیگانگی کا یہ سماجی معمول ڈرامائی کردار کا حامل ہے۔ اسی صورتحال میں انقلاب کے بیج موجود ہیں۔
ایسی کیفیت میں سیاسی افق پر براجمان تمام پارٹیاں جو کسی نہ کسی طرح اقتدار کے مزے لوٹ رہی ہیں، آئندہ سال ہونے والے انتخابات کی تیاریاں شروع کر چکی ہیں۔ موجودہ سیاسی بساط پر کوئی بھی مہرہ ایسا نہیں جو عوام کی دلچسپی کو حاصل کر سکے۔ عوام ہاتھ سے ووٹ دینے کے موڈ میں نہیں ہیں اور ان کے پاؤں ابھی ووٹ دینے کے لیے مکمل طور پر تیار نہیں ہیں۔ وہ پاؤں سے ووٹ دینے کے لیے درکار شکتی حاصل کرنے کے لیے ایڑیاں رگڑ رہے ہیں۔ ایسی صورتحال میں ٹرن آؤٹ نہ ہونے کے برابر ہو گا اور اسٹیبلشمنٹ آسانی سے نیا سیاسی اتحاد بنا کر لوٹ مار کا بازار گرم رکھنے میں کامیاب ہو سکتی ہے۔ لیکن ان کے اپنے داخلی مسائل کی شدت اس حد تک بڑھ چکی ہے کہ وہ بند گلی میں دکھائی دے رہے ہیں۔ ایم کیو ایم جہاں ایک طرف اپنے تاریخی بحران سے گزر رہی ہے وہیں کراچی میں سیاسی جوڑ توڑ کے باوجود کوئی نیا متبادل نہیں ابھر رہا۔ پاک سر زمین کا تجربہ ناکام ہو چکا۔ پیپلز پارٹی سندھی قوم پرستی کی آغوش میں پناہ لیے بیٹھی ہے اورسندھ میں سٹیٹس کو کی سب سے نمائندہ سیاسی قوت کی شکل اختیار کر چکی ہے۔ عوام کی نظام اور ریاست سے بڑھتی ہوئی نفرت اب ان کو ماضی کی طرح پیپلز پارٹی کے اندر نہیں بلکہ اس کے باہر دیکھنے پر مجبور کرے گی۔ نام نہاد سیکولر لبرل اے این پی کا بھانڈا مشال خان قتل کیس میں بیچ چوراہے پر پھوٹ چکا ہے۔ پارٹی میں پھوٹ ناگزیر ہو چکی ہے۔ لیکن کچھ خوش گمان خواتین و حضرات کی توقعات کے برعکس اے این پی کے اندر کا بایاں بازو پیپلز پارٹی کے بائیں بازو سے بھی زیادہ متعفن اور فرسودہ ہے۔ اگر کوئی اکا دکا سنجیدہ عنصر ہوا بھی (شاید نوجوانوں میں) تو وہ بھی پارٹی کے باہر ہی کسی نئے سیاسی پیرائے میں اپنا اظہار کر سکتا ہے۔ بدقسمتی سے فی الوقت اس بہتی سیاسی گنگا میں ہاتھ دھونے والا کوئی نظر نہیں آ رہا۔
نام نہاد بایاں بازو جو الیکشن کی آس میں عوامی ورکرز پارٹی کے نام پر ابھی تک مصنوعی اتحاد برقراررکھے ہوئے ہے، ان کے پاس عوام کو متوجہ کرنے کا کوئی پروگرام اور کوئی ایک نعرہ بھی نہیں۔ اسٹیبلشمنٹ کے ایک دھڑے جو امریکہ کی طرف جھکاؤ رکھتا ہے، کو خود سیاسی شطرنج میں کسی ایسے بائیں بازو کے گھوڑے کی کمی محسوس ہو رہی ہے جس کی روح کسی دائیں بازو کے ’وزیر‘ کی قید میں ہو۔ اسی دھڑے کی آشیر باد اور لبرل این جی اوز کی معاشی کمک پر بغیر نظریات کے آخر کب تک اس اتحاد کو قائم رکھا جا سکتا ہے۔ آئندہ انتخابات میں ضمانتیں ضبط کرانے کے بعد یہ اتحاد ریت کی دیوار کی طرح ان گنت ذرات میں بکھر جائے گا اور اس کی کوکھ سے این جی اوز کی ایک نئی نسل برآمد ہو گی۔ بائیں بازو کے کچھ نئے اصلاح پسند بھی انتخابی سیاست میں کودنے کو تیار ہو رہے ہیں۔ مسلسل وسیع تر ہوتے ہوئے بائیں بازو کے سیاسی خلا کو پر کرنے کے لیے جو سیاسی جرات، جنون اور بیباکی ناگزیر ہوتی ہے، اس کا فقدان ان کی باڈی لینگویج سے اس طرح جھلکتا ہے کہ اندھا بھی دیکھ سکے۔ موسیقی یا کھیل وغیرہ میں نام کمانا اور بات ہوتی ہے اور پرپیچ اور دیرینہ تاریخی مسائل کو حل کرنا ایک بالکل الگ نوعیت کا چیلنج ہوتا ہے۔ اس کے لیے برسوں کی ریاضت اورسیاسی وجدان کی ضرورت ہوتی ہے۔
یہ صورتحال سیاسی افق کے بائیں طرف کبھی نہ دیکھے گئے خلا کی عکاسی کر رہی ہے۔ قنوطیت پسند دانشوروں کے لیے تو یہ مایوس کن صورتحال ہو سکتی ہے مگر سیاسی خلا جتنا شدید ہے نئی نسل کے شعور اور لاشعور میں متبادل نظریات اور قیادت کی پیاس اس سے بھی زیادہ شدت سے بھڑک سکتی ہے اور سیاسی منظرنامے پر تیز ترین تبدیلیاں وقوع پذیر ہو سکتی ہیں۔ سیاسی اتھل پتھل پر مبنی یہ پر پیچ عمل دائیں سے بائیں اور بائیں سے دائیں کے ہچکولے کھاتے ہوئے بالآخر نئی حقیقی متبادل قیادت کی تراش خراش کا فریضہ سر انجام دے گا۔ نئی بالشویک قیادت وقت کی کسوٹی پر پورا اترتے ہوئے حقیقی سیاسی تبدیلی کو منطقی انجام تک پہنچائے گی۔ اسی کھنڈر میں پھول کھلیں گے اور اسی ویرانے میں بہار آئے گی۔