|تحریر: پارس جان|
یوں تو الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا، جنہیں عمومی طور پر ’ذرائع ابلاغ‘ میں شمار کیا جاتا ہے، نہ صرف وسیع سماجی و سیاسی حلقوں بلکہ علمی و ادبی اشرافیہ کی اکثریت کے نزدیک بھی ان کا کام عوام کو ذمہ دار شہری بنانے کے لیے ان کی ضروری تربیت کرنا اور انہیں باخبر رکھنا ہی ہے۔ ہم مارکس وادی ہمیشہ سے ہی میڈیا کو ریاست کا اہم ستون قرار دیتے رہے ہیں، کیونکہ سرکاری چینلز کے ذریعے تو محض حکمران طبقے کے اس دھڑے کے مفادات کی ہی برا ہ راست اور بلا روک ٹوک ترویج ہوتی ہے جو رواں دورانیے کے لیے ریاست کے انتظامی امور کا سربراہ ہوتا ہے، مگر نجی اخبارات اور ٹی وی چینلز کے ذریعے حکمران طبقے کے بحیثیت مجموعی مفاد کو ملحوظِ خاطر رکھتے ہوئے رائے عامہ کی تشکیل کی جاتی ہے۔ بحران کے دنوں میں، اگرچہ، وقتی داخلی تناؤ کا اظہار بھی ہوتا رہتا ہے مگر اس کے ذریعے بھی عوام پر مالکان کے طبقے کے تسلط کو جاری رکھنے کے طریقہ کار کو ہی زیادہ مؤثر اور کارگر بنانا مقصود ہوتا ہے۔ لیکن سب سے بڑھ کر مختلف شعبہ جات کے مالکان اپنی مصنوعات کی منڈی کو وسعت دینے کے لیے تشہیری مہم کے لیے میڈیا اور ’ستاروں‘ کو استعمال کرتے ہیں۔ ثقافت، تہوار، مذہب اور تاریخ کے ساتھ ساتھ رشتے، جذبات، زخم، حادثات اور ضمیر سمیت کون سی ایسی چیز ہے جس کو بیچ سکنے کی جدید عہد کے میڈیا میں صلاحیت نہ ہو۔ اور تو اور خود اس خرید و فروخت کے غیر انسانی نظام کے خلاف حقارت، نفرت اور بغاوت کے جذبات تک کو بھی بیچنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ اور یہ کوشش اس وقت تک نہ صرف کامیاب ہوتی رہتی ہے بلکہ میڈیا مالکان کے لیے معمول سے بڑھ کر منافعوں کا ذریعہ بنتی رہتی ہے جب تک یہ بغاوت اور رائج الوقت نظام سے عوام کی حقارت کے جذبات، واقعات کی تکرار کے ذریعے تحریکوں اور پھر انقلابات کی شکل میں مادی حقیقت کا روپ نہ دھار لیں۔ پھر یہی میڈیا اس ریاستی مشینری کا سب سے مؤثر ترجمان بن کر سامنے آتا ہے جس کے خلاف بغاوت کے ہر امکان کو یہ بیچتا رہا ہوتا ہے۔
لیکن تحریک اور انقلاب کی طاقت بالآخر ٹھوس سماجی تضادات کی حقیقت اور سچائی پر جمی اس میڈیائی کائی کو اتار پھینکتی ہے اور سچ بغیر کسی ابلاغ کے ذریعے کے ہی لوگوں کی سماعتوں ہی نہیں بلکہ دماغوں اور شریانوں میں خون بن کر دوڑنا شروع ہو جاتا ہے۔ ہم گزشتہ تاریخ سے ہٹ کر موجودہ دور سے ہی اس کی بہت سی عملی مثالیں پیش کر سکتے ہیں۔ پاکستان میں بھی گزشتہ ایک ڈیڑھ عشرے سے لفظ ’تحریک‘ اور ’انقلاب‘ کو سیاستدانوں اور دانشوروں نے تھوک میں ہی نہیں بلکہ پرچون میں فروخت کیا ہے۔ لیکن ان مسخروں اور ان کے آقاؤں کو اب مسئلہ یہ درپیش ہے کہ ایک حقیقی انقلاب کی محض آہٹ نے ان کے چودہ طبق روشن کر دیئے ہیں۔ تاریخ کے کوڑے دان سے ان کے لیے ”آؤ! آؤ!“ کی آوازیں بڑھتی ہی جا رہی ہیں، ان کی پھٹی ہوئی آنکھیں اور اڑی ہوئی نیندیں بتا رہی ہیں کہ اب ان کی ابدی نیند کے لیے موزوں ترین لحاف تاریخ کا کوڑا دان ہی ثابت ہو گا۔
دائیں بائیں کے جو سیاسی منچلے حالات کی موجودہ کروٹ کو دیکھ کر ہی باولے ہوئے جا رہے ہیں اور ایک دوسرے کو انگلیوں کے اشاروں سے دکھاتے پھر رہے ہیں کہ ’وہ دیکھو انقلاب، وہ دیکھو ہماری طرف ہی آ رہا ہے‘، ان سب میں اکثریت ان لوگوں کی ہے جو محض چند مہینے پہلے تک بھی تحریک اور انقلاب کے امکان کو یکسر مسترد کر دیا کرتے تھے، اور ’رجعت اور جمود‘ ان کی لغت کے سب سے زیادہ مستعمل اور مرغوب ترین الفاظ ہوا کرتے تھے۔ ایک آدھ نے برملا ایک انگریزی اخبار میں یہاں تک لکھ چھوڑا تھا کہ یہ تاریخ کا رجعتی ترین عہد ہے۔ سوائے ہمارے شاید ہی کوئی اور ہو گا جو جمود کے حتمی خاتمے اور ایک نئے عہد کے باقاعدہ آغاز کا عندیہ دے چکا ہو اور بالخصوص یہ سارا نام نہاد بایاں بازو تو انقلاب کا نام لینا بھی چھوڑ چکا تھا۔ اس لیے ہمارے لیے حالیہ واقعات کا تسلسل قطعی طور پر کوئی اچنبھے کی بات نہیں تھی۔ یہی وجہ ہے کہ ہم بخوبی سمجھتے ہیں کہ ان سیاسی نو سر بازوں کی طرح ہاتھ پیر پھولانے کی بجائے حالیہ صورتحال کا درست تجزیہ کرتے ہوئے اس صورتحال میں پنہاں تضادات اور امکانات کی بنیاد پر مستقبل قریب میں ہونے والے ان واقعات میں مداخلت کی تیاری کی جائے جو شاید ہماری ہی نہیں بلکہ آئندہ نسلوں کے حالات زندگی کا بھی تعین کریں گے۔
حقیقت یہ ہے کہ خلا یا غیب سے کوئی بھی تحریک اور انقلاب وارد نہیں ہو رہا ہے اور نہ ہی ’انقلاب فروشوں‘ کی فیکٹریوں، جنہیں عرف عام میں این جی اوز بھی کہا جاتا ہے، سے کوئی ریڈی میڈ انقلاب برآمد ہو سکتا ہے، بلکہ دس بارہ سال قبل عالمی پیمانے پر ایک مالیاتی بحران اور پاکستان کی سطح پر 2007ء میں بے نظیر بھٹو کی آمد اور پھر ان کے قتل کے بعد کے واقعات نے اشارہ دے دیا تھا کہ سوویت یونین کے انہدام کے بعد کے تاریک عہد کا پتھریلا جسم پگھلنا شروع ہو چکا ہے۔ 2011ء میں عرب بہار کے بعد پاکستان میں کے الیکٹرک اور پی آئی اے کے محنت کشوں کی انگڑائیاں بھی توجہ کی مستحق تھیں۔ لیکن تقریباً چار سال قبل پی آئی اے کے محنت کشوں کی فقید المثال آٹھ روزہ ہڑتال اس ساری صورتحال میں ایک فیصلہ کن موڑ کی حیثیت رکھتی تھی۔ اسی عرصے میں پیپلزپارٹی کا مرکز میں اقتدار، اس کے بعد نون لیگ کی’جمہوری درسگاہ‘ اور اب تبدیلی سرکار کے تازیانے عوامی شعور کے مواد پر ہی نہیں بلکہ اس کے طرزِارتقا پر کاری ضربیں لگا چکے ہیں، رہی سہی کسر سامراجی قوتوں کی اطاعت اور نافرمانی کی گھمن گھیریوں کے باعث مسلسل بڑھتے اور بے قابو ہوتے ہوئے معاشی بحران اور اس کے نتیجے میں ریاستی اداروں کے نیم خانہ جنگی نما ٹکراؤ نے پوری کر دی ہے۔ یہ ہر حوالے سے ایک قبل از انقلاب کی صورتحال ہے۔
یہ محض کوئی اتفاقی امر نہیں ہے کہ انقلاب کے امکانات کو ہی رد کر دینے والے اب ایک قبل از انقلاب کی صورتحال کو ہی انقلاب بنا کر پیش کرنا شروع ہو گئے ہیں، بلکہ یہ میکانکی طرزفکر کا ناگزیر نتیجہ ہے۔ حقیقت میں ایک قبل از انقلاب کی صورتحال میں انقلاب کو ردِانقلابی قوتوں سے خطرات مسلسل کم ہوتے رہتے ہیں بلکہ ردِانقلاب کا ہر حملہ انقلابی قوتوں کو مزید مہمیز دیتا ہے۔ جیسے لینن اور ٹراٹسکی جیسے عظیم انقلابی رہنماؤں نے وضاحت کی تھی کہ بعض اوقات ردِ انقلاب کے کوڑے بھی انقلابی پیش رفت کے لیے ضروری ہو جاتے ہیں۔ لیکن جدلیاتی طور پر ایک قبل از انقلاب کی صورتحال میں انقلابی امکانات کے حقیقت کا روپ دھارنے اور واقعات کی درست پیش رفت میں سب سے بڑی رکاوٹ وہ ’انقلابی چوغے‘ والے رجحانات ہوتے ہیں جو جذباتی نعروں کے ذریعے محنت کشوں اور طلبہ کی توجہ کا مرکز صرف اس لیے بننے کی کوشش کر رہے ہوتے ہیں تاکہ رائج الوقت نظام کے مالک طبقات اور ان کے پالیسی سازوں کو اپنی ناگزیریت کا احساس دلایا جا سکے۔
اس قبل از انقلاب کی صورتحال کا ایک اہم لازمی سیاسی مظہر، چونکہ، حکمران طبقات کی داخلی خانہ جنگی ہوتی ہے، یوں یہ ’انقلابی چوغے‘ میں ملبوس رجحانات حکمران طبقے کے ایک یا دوسرے دھڑے کے لیے خام مال کا کام دیتے ہیں۔ کیونکہ ان میں سے زیادہ تر کا سماجی مواد درمیانے طبقے پر مشتمل ہوتا ہے اس لیے یہ محض موضوعی حوالے سے ہی نہیں بلکہ معروضی اور نامیاتی اعتبار سے بھی اس کام کے لیے پہلے سے ہی تیار ہوتے ہیں۔ لیکن محض درمیانے طبقے سے تعلق ہونا ہی اس کردار کی بنیادی وجہ نہیں ہوتی۔ درحقیقت، سرمایہ داری کے معمول اور بظاہر ترقی کے ادوار میں پنپنے والے درمیانے طبقے کے مخصوص نظریات جن کا بنیادی خاصہ ہی محنت کشوں کے سیاسی بیانیے کو مبہم اور بے اثر کرنا ہوتا ہے، گمراہ کن ثابت ہوتے ہیں۔ اس لیے انقلاب سے قبل کی یہ صورتحال سچے مارکس وادیوں اور انقلابیوں پر دوہری بلکہ کثیر الجہتی ذمہ داریاں عائد کر دیتی ہے۔ پروپیگنڈے اور ایجی ٹیشن کے ساتھ ساتھ اس صورتحال میں جو سب سے اہم فریضہ بن جاتا ہے وہ یہ ہوتا ہے کہ فیصلہ کن لڑائی سے قبل انقلابی کارواں کی صفیں درست کی جائیں اور کالی بھیڑوں کو اس وقت سے پہلے ہی الگ کر دیا جائے جب وہ انقلاب کے دسترخوان پر محنت کشوں کے گوشت سے سامراجیوں اور سرمایہ داروں کی ضیافت کا اہتمام کر چکے ہوں۔
اگر بالخصوص طلبہ تحریک کی بات بھی کی جائے تو وہ بورژوا میڈیا کی حد تک تو واقعی بالکل نئی نکور ہے کیونکہ اس سے قبل تو یہی میڈیا اور سیاستدان طلبہ یونین سے لے کر طلبہ کے دیگر مسائل کا ذکر تک کرنا بھی گوارہ نہیں کرتے تھے اور اپنے حقوق کے لیے طلبہ کی کسی بھی مزاحمت یا جدوجہد کو شرپسندی سے تعبیر کرتے تھے۔ لیکن بورژوا میڈیا کی مصنوعی دنیا سے بہت دور یعنی حقیقی سماجی حرکت ایک حقیقی انقلابی تحریک کو کب سے نکھارتی اور سنوارتی چلی آ رہی ہے۔ خاص طور پر، پشاور میں آرمی پبلک سکول میں مبینہ طالبان کے ہاتھوں ہونے والے معصوم بچوں کے قتل عام کے بعد اور بالخصوص عبدالولی خان یونیورسٹی مردان میں مشال خان نامی ایک ترقی پسند نوجوان کے نہ صرف مذہبی بلکہ نام نہاد ترقی پسند قوم پرست تنظیموں کے غنڈوں کے ہاتھوں بہیمانہ تشدد اور شہادت کے بعد پاکستان کی تقریباً تمام اہم یونیورسٹیوں اور بہت سے کالجوں میں بھی طلبہ نے قابل ذکر احتجاج ریکارڈ کرایا تھا۔ سوشل میڈیا پر بھی نوجوان طلبہ نے کھل کر ملاؤں، ان کی پرورش کرنے والی درپردہ قوتوں اور یہاں تک کہ سارے نظام کو ہی شدید تنقید کا نشانہ بنایا تھا۔
یہ بلاشبہ ایک تازہ دم طلبہ تحریک کا جنم تھا جو تب سے لے کر اب تک کسی نہ کسی شکل میں مختلف ایشوز کے گرد مقداری حوالے سے بڑھتی اور معیاری طور پر نئے مرحلوں میں داخل ہوتی رہی ہے۔ خاص طور پر بحران کے باعث اور آئی ایم ایف کی شرائط کے زور پر گزشتہ اور موجودہ حکومت کی طرف سے تعلیم کے بجٹ میں مسلسل کٹوتی کی گئی ہے جس کے باعث تعلیم گزشتہ چند سالوں میں کئی گنا مہنگی ہو چکی ہے۔ بہت سی جامعات اور کالجوں میں طلبہ اس کے خلاف سراپا احتجاج رہے ہیں۔ خاص طور پر قائد اعظم یونیورسٹی کے طلبہ کی شاندار تحریک اس ضمن میں اہمیت کی حامل تھی۔ اسی طرح پشاور یونیورسٹی سے لے کر بہاؤالدین زکریا یونیورسٹی ملتان تک اور کشمیر میں پونچھ یونیورسٹی اور طالبات کے اپنے مطالبات کے حق میں شدید بارش کے باوجود نہایت گرمجوش احتجاج سے لے کر سندھ یونیورسٹی جام شورو میں پانی، پوائنٹس اور ہاسٹل سے متعلقہ دیگر مسائل کے حل کے لیے وقتاً فوقتاً ہونے والی جزوی طور پر کامیاب جدوجہدوں تک، اس طلبہ تحریک کو الگ الگ مظاہر کے طور پر دیکھنے کی بجائے ایک مربوط کُل (Whole) کے طور پر دیکھ کر ہی سمجھا جا سکتا ہے۔ حال ہی میں جنسی ہراسانی کے خلاف بلوچستان یونیورسٹی کوئٹہ میں ہونے والی بغاوت نے حکمران طبقے کو ہلا کر رکھ دیا اور عمومی طور پر ملک بھر میں اس اہم مسئلے پر سنجیدہ بحث کا آغاز بھی کر دیا تھا جسے اس سے قبل شاید ایک ایسے حساس مسئلے کے طور پر دیکھنے اور سمجھنے کی روایت بہت کمزور تھی۔ بغیر مستعد اور نظریاتی طور پر چاک و چوبند قیادت کے ان میں سے زیادہ تر اداروں میں یہ تحریک تذبذب، مہم جوئی اور پھر بد دلی اور مایوسی کی مختلف کیفیتوں کے تجربات سے گزری ہے، مگر ساتھ ہی ساتھ خاموشی سے اہم سبق بھی سیکھتی رہی ہے۔ آج کل بھی گلگت میں قراقرم یونیورسٹی کے طلبہ کی ایک زبردست تحریک جاری ہے جو حقیقی انقلابی قیادت اور پروگرام کے لیے سسک رہی ہے۔
گزشتہ ماہ کے آغاز پر تشکیل دی جانے والی سٹوڈنٹس ایکشن کمیٹی اور اس کی جانب سے 29 نومبر کو ملک بھر میں منظم کیے جانے والے طلبہ یکجہتی مارچ کو بھی اسی معروضی پس منظر میں دیکھنا ہو گا۔ اگرچہ اوپر بیان کردہ گزشتہ کئی سالوں سے جاری تحریک کے نشیب و فراز سے اس سٹودنٹس ایکشن کمیٹی میں شامل کسی بھی طلبہ تنظیم کا سرے سے نہ تو کوئی تعلق تھا اور نہ ہی کوئی مداخلت۔ اور اگر کہیں تھا بھی تو اسے ایک سرسری تعلق ہی قرار دیا جا سکتا ہے، بلکہ حیران کن حد تک بات یہ تھی کہ اس میں وہ تنظیمیں بھی شامل تھیں جنہیں حقیقی طلبہ تحریک سے منسلک یا اس کا جزو تو دور کی بات بلکہ اس تحریک کا ممکنہ اور درست ہدف بھی قرار دیا جا سکتا ہے۔ اس کے علاوہ مذکورہ اتحاد میں ایسی بھی کچھ تنظیمیں شامل ہوئیں جو درحقیقت صرف کاغذ یا سوشل میڈیا پر ہی موجود ہیں، حتیٰ کہ ایک آدھ تنظیم تو ایسی بھی ہے جس کے بارے میں یہ کہنا بھی مبالغہ آرائی نہیں سمجھا جانا چاہیے کہ وہ محض کچھ حساس، اتاولے اور غیر متوازن دماغوں میں ہی موجود ہے۔ لیکن حقیقی طلبہ تحریک سے لاتعلقی کے باوجود کچھ ایسے گروپس بھی اس اتحاد کا حصہ بنے جن کی صفوں میں اگرچہ تعداد میں کم ہی سہی مگر سماج کو تبدیل کرنے کی جستجو اور جوش سے لبریز کچھ توانا طلبہ و طالبات بھی شامل تھے۔ ان کو بھی زیادہ تر توانائی اور ترغیب پاکستان میں سطح کے نیچے پروان چڑھتی ہوئی طلبہ تحریک کی نسبت سرحد پار سے میسر آ رہی تھی۔
برسبیل تذکرہ یاد رہے کہ پڑوسی ملک ہندوستان میں گزشتہ کئی برسوں سے جاری ترقی پسند طلبہ کی ایک شاندار مزاحمتی تحریک اور کشمیری نوجوان نسل کی طرف سے بھی ایک ناقابل فراموش تاریخ ابھی تک رقم کی جا رہی ہے اور گزشتہ 130 دنوں سے وادیئ کشمیر کا محاصرہ جاری ہے اورجانوں کے نذرانے دے کر تحریک کو زندہ رکھنے والے سرفروشوں کی تعداد کم ہونے کی بجائے بڑھ رہی ہے۔ ہوا کے جھونکوں اور بیباک موسموں کی طرح تحریکیں اور ان سے وابستہ نعرے بھی سرحدوں کا احترام کرنے کے عادی نہیں ہوتے۔ اس 29 نومبر کو ہونے والے مارچ کی نسبتی کامیابی کی بنیادی وجہ مارچ سے چند روز قبل لاہور میں منعقد ہونے والے فیض فیسٹیول میں چند نوجوانوں کی طرف سے کی جانے والی شدید نعرے بازی کی وائرل ہو جانے والی ویڈیو تھی۔ اس وائرل ہو جانے والی ویڈیو میں لگنے والے نعرے بالکل بھی نئے نہیں تھے بلکہ انقلابیوں کی کئی نسلیں اس خطے میں سالہا سال سے یہ نعرے لگاتی چلی آ رہی ہیں۔ لیکن نعروں کا وہ مخصوص طرز جو توجہ کا مرکز بنا وہ فی الوقت جواہر لال نہرو یونیورسٹی دہلی کے انقلابی نوجوانوں سے مستعار لیا گیا ہے لیکن جس فنکارانہ طریقے، ادبی وارفتگی اور والہانہ پن سے اسے یہاں بروئے کار لایا گیا وہ واقعی قابل تحسین تھا۔ اس سے سیاست اور آرٹ کے نامیاتی تعلق کا بھی مثبت انداز میں اظہار ہوا۔ مشرقی سرحد کے آر پار اس ویڈیو کے وائرل ہونے کی بنیادی وجہ طلبہ کی نئی نسل میں وہی بڑھتی ہوئی مسلسل بے چینی تھی جس کا اوپر تفصیل سے ذکر کیا جا چکا ہے۔
مگر سوشل میڈیا پر وائرل ہونے کے بعد بورژوا میڈیا سے ملنے والا غیر معمول رسپانس اور اس کی وجوہات یکسر مختلف تھیں۔ ریاست کی داخلی خانہ جنگی میڈیا میں بھی موجود ہے اور ریاست کے انتہائی دائیں بازو کی نمائندگی کرنے والے میڈیا گروپس نے تو اسے تضحیک کا نشانہ بھی بنایا مگر پاکستانی ریاست کے نام نہاد لبرل یا حقیقت پسند یا مغرب نواز دھڑے سے وابستہ بورژوا میڈیا اور بی بی سی اور وائس آف امریکہ جیسے سامراجی ماؤتھ پیسوں نے پاکستانی ریاست کے انتہائی دائیں بازو سے اپنے کشیدہ تعلقات کے حالیہ تناظر میں اسے بھرپور طریقے سے اچھالا۔ یاد رہے کہ وائس آف امریکہ اور بی بی سی جیسے میڈیا گروپس ایک طویل عرصے سے پاکستانی ریاست میں ہر اس رجحان کی حوصلہ افزائی کرتے چلے آ رہے ہیں جس سے جمہوریت اور انسانی حقوق کی خلاف ورزی جیسے درست اعتراضات کی آڑ میں پاکستانی ریاست پر خطے میں ان کے متعین کردہ نئے کردار کی ادائیگی کے لیے دباؤ بڑھایا جا سکے۔ نائن الیون سے قبل بلکہ اس کے بعد کے چند سالوں تک بھی یہی سامراجی میڈیا ادارے یا ان کے ریاستی پٹھو ادارے پاکستان میں حقیقی جمہوریت کے ہر رجحان اور امکان کو ہی عالمی امن کے لیے خطرہ قرار دے دیا کرتے تھے۔ جہاں سوشل میڈیا پر وائرل ہو جانے کے باعث بورژوا میڈیا پر دباؤ بھی بڑھا وہیں خطے کی تبدیل شدہ صورتحال کا بھی اس میڈیا ہائیپ سے بہت گہرا تعلق تھا۔ کسی بھی احتجاج اور سرگرمی کی رپورٹ شائع ہو جانا کوئی غیر معمولی بات نہیں ہوتی مگر رپورٹنگ اور کیمپئین میں واضح فرق موجود ہوتا ہے۔ مختلف ملکی و غیر ملکی میڈیا گروپس کی طرف سے باقاعدہ کیمپیئن نے حقیقی طلبہ تحریک سے انتہائی سرسری سے تعلق کے باوجود اس مارچ کی نسبتی کامیابی کو یقینی بنا دیا۔
ہم مارکس وادی اس مارچ میں اٹھائے جانے والے تمام جمہوری مطالبات کی بھرپور حمایت کرتے ہیں مگر ساتھ ہی ساتھ اس کارواں میں شامل ہر اس رجحان کی نقاب کشائی اور حوصلہ شکنی کو بھی اپنا فرض سمجھتے ہیں جو طلبہ کی اس فعال پرت اور سماج کے رگ و ریشے میں پلنے والی حقیقی انقلابی تحریک میں فاصلے کم کرنے کی بجائے خلیج کو بڑھانے کا سبب بن سکتی ہے۔ اس دھارے میں شامل وہ رجحان، جو جمہوری مطالبات کی کامیابی کے لئے دائیں اور بائیں کی تفریق مٹا کر آگے بڑھنے اور ساتھ چلنے کو وقت کی ضرورت قرار دے رہے ہیں، ان کی بیخ کنی بے حد ضروری ہے اور سب سے بڑھ کر وہ این جی او مالکان یا ان سے منسلک پلانٹڈ قیادتیں جو کھلم کھلا یہ پرچار کر رہی ہیں کہ مارکسزم پرانا ہو چکا اور نئے نظریات کی ضرورت ہے، ان کا نظریاتی اور سیاسی محاذ پر مقابلہ کرنا وقت کی اہم ترین ضرورت ہے۔ ہم انہیں کہہ دینا چاہتے ہیں کہ اسی وائرل شدہ ویڈیو کا ہی جائزہ لے لیجیے، یہ خود ان لوگوں کے منہ پر سب سے بڑا طمانچہ ہے جو کہتے تھے کہ مارکسزم پرانا ہو گیا کیونکہ سب سے زیادہ مقبول ہونے والا نعرہ پھر یہی تھا کہ ”سرخ ہے! سرخ ہے! ایشیا سرخ ہے!“۔ بچہ بچہ جانتا ہے کہ سرخ کیا ہے۔ اور یہ سرخ وہی پرانا ہے جس کی ضرورت نئی نسل بھی محسوس کر رہی ہے۔ اور جو سرخ مانگتے ہوں ان کو کوئی سبز، سفید یا ’مجنڈا‘ پیش کرے گا تو ہم ہمیں ہمیشہ اپنے مدمقابل پائے گا۔ ایسے میں یہ وائرل شدہ نعرہ روایتی دائیں بازو سے زیادہ اپنے جوہر میں ان نیلے، پیلے اور مجنڈے انقلابیوں کی نیندوں کے لیے زیادہ مہلک ثابت ہو سکتا ہے۔ ہم ان کے جواب میں الگ سے کچھ کہنے کی ابھی ضرورت محسوس نہیں کرتے بلکہ یہی نعرہ دہرا دیتے ہیں کہ’’جب لال لال لہرائے گا! تب ہوش ٹھکانے آئے گا“۔ ہم نے چند برس قبل ایسے ہی نوٹنکیوں کے لیے یہ شعر کہا تھا کہ
محبت کو سفید و سبز مت کر
محبت سرخ تھی اور سرخ ہی ہے
ہماری اس تنقید کو بنیاد بنا کر، جو کہ ساری مارکسی تحریک کی صحتمند روایت رہی ہے، ہمارے خلاف یہ پروپیگنڈا کیا گیا کہ ہم فرقہ پرور ہیں اور اس وجہ سے طلبہ تحریک کے ہی خلاف ہیں۔ حالانکہ گزشتہ چار سالوں میں شاید ہی کوئی ایسی طلبہ کی سرگرمی رہی ہو جس میں ہم نے فکری یا عملی شمولیت اختیار نہ کی ہو بلکہ اس دہائی میں طلبہ یونین بحالی کا سب سے پہلا ملکی سطح کاکنونشن بھی ہم نے ہی دسمبر 2015ء میں لاہور میں منعقد کیا تھا۔ اس ایکشن کمیٹی کی قیادت میں موجود کالی بھیڑوں اور ان کی پشت پناہی کرنے والے انقلاب دشمن عناصر پر تنقید کو عمومی طور پر طلبہ دشمنی قرار دے کر ہمارے موقف کو ہی درست ثابت کیا گیا کہ یہ جمہوریت کے نام نہاد چیمپئین اور تحریر و تقریر کی آزادی کے وکیل خود پر ہونے والی کوئی جمہوری تنقید برداشت کرنے کے اہل نہیں ہیں۔ ہم آج بھی ان کو یہ دعوت دیتے ہیں کہ اگر آپ کے پاس مارکسزم سے زیادہ ایڈوانس نظریہ ہے تو پیش کریں ورنہ اپنے نام نہاد نئے نظریات کو الگ شناخت کے ساتھ لے کر آئیں۔ چیزوں اور مظاہر کو ان کے درست نام سے پکارنا فرقہ پروری نہیں بلکہ اصل حقیقت پسندی ہوتا ہے۔ اور وقتی فائدے کے لیے یا پروپیگنڈے یا ایجی ٹیشن کے شارٹ ٹرم مقاصد کے لیے نظریات پر ہونے والے حملوں کا جواب نہ دینا موقع پرستی ہی کہلائے گا جسے اس ایکشن کمیٹی میں موجود بہت سے سابقہ مارکس وادیوں نے اپنا وطیرہ بنایا ہوا ہے۔ اور اس متعفن موقع پرستی پر یونائیٹڈ فرنٹ کی خوشنما اور خوشبودار پوشاک ڈال دی گئی ہے۔ اپنے تنظیمی و سیاسی انہدام کی اس عملیت پسندانہ اتحاد کے ذریعے پردہ پوشی کرنے والے رجحان کا تو خاص طور پر یہی وطیرہ بن چکا ہے کہ مارکس، اینگلز، لینن اور ٹراٹسکی کے اقوال کو سیاق و سباق اور درست مفہوم سے کاٹ کرمقدس اقوال کی طرح حسبِ ضرورت استعمال کر لیا جائے۔ یونائیٹڈ فرنٹ میں بھی درست اور جائز تنقید کی ضرورت اور گنجائش نہ صرف موجود ہوتی ہے بلکہ وہی اس کی بنیاد بھی ہوتی ہے۔ اگر نظریاتی فرق کو ہی ختم کر دیا جائے تو وہ فرنٹ نہیں رہتا بلکہ ادغام بن جاتا ہے۔ کسی ایک مطالبے مثلاً طلبہ یونین کی بحالی کے لیے بنائے گئے محاذ کے ایک گروپ کی طرف سے اگر مارکسی نظریات کے خلاف کھلم کھلا بات کی جا سکتی ہے تو اسی محاذ کے دوسرے گروپ کی طرف سے ان عظیم نظریات کا دفاع کیونکر ممکن نہیں ہے؟
اس چوہے کی طرح جسے ہلدی کی ڈلی ملی تھی تو وہ خود کو پنساری سمجھ رہا تھا، ویسے ہی دو چار کیمروں کے فلیش سے خود کو ’ستارہ‘ سمجھ لینے والے خبطیوں کو یہ یاد رکھنا چاہیے کہ اس مارچ کا انعقاد اس محاذ کی کامیابی نہیں ہے بلکہ محض آغاز کا بھی آغاز ہے۔ ابھی تو اس محاذ کا امتحان شروع بھی نہیں ہوا۔ اسی ریاست کے اداروں کے ذریعے اور قانون کے دائرے میں رہ کر جدوجہد کرنے کا لبرل خبط طلبہ تحریک اور ایکشن کمیٹی کے مابین سب سے فیصلہ کن دیوار ثابت ہو گا۔ جو حقیقی طلبہ تحریک سماج میں پنپ رہی ہے، وہ جب آگے بڑھے گی اور جب ریاست اور اس کی پروردہ دائیں بازو کی فسطائی قوتوں سے اس کا ٹاکرا ہو گا تو وہ قانون کو اپنے پاؤں کی زنجیر بنانے کی بجائے پاؤں کی ٹھوکر بناتے ہوئے اپنے راستے خود متعین کرے گی اور سرمایہ دارانہ ریاست کے آئینی ڈھانچوں سے متجاوز ہوتے ہوئے پیداواری اور ملکیتی رشتوں کو چیلنج کرے گی، ایسے میں محض نعرے لگانے والوں اور ان نعروں کو عملی جامہ پہنانے والوں کی تفریق بالکل واضح ہو جائے گی۔
یہ طلبہ تحریک کسی خلا میں موجود نہیں ہے بلکہ اس کے ارد گرد اور متوازی محنت کشوں کی بھی بہت سی تحریکیں جنم لے چکی ہیں اور آنے والے دنوں میں مزید تحریکیں شدید ترین معاشی حملوں اور بالخصوص نجکاری کی پالیسی کے باعث سطح پر اپنا اظہار کریں گی۔ گزشتہ چند ماہ میں ہم نے پختونخواہ اور پنجاب میں محکمہ صحت کے محنت کشوں کی ایک شاندار تحریک دیکھی جسے اسی بورژوا میڈیا نے مکمل طور پر نظر انداز کیا۔ لیکن حکومت کی طرف سے دھمکیوں، انتقامی کاروائیوں، لالچ اور وحشیانہ تشدد کے باوجود وہ تحریک مسلسل آگے بڑھتی رہی اور اس میں ینگ ڈاکٹروں کے علاوہ، نرسز اور پیرا میڈیکل سٹاف کی بھی فعال شمولیت بڑھتی چلی گئی۔ گرینڈ ہیلتھ الائنس کا بننا بذات خود ایک اہم پیش رفت تھی۔ مگر اس سب کے ہوتے ہوئے بھی محض قیادت کی سیاسی بے راہروی اور نظریاتی دیوالیہ پن کے باعث لاہور ہائیکورٹ کے صرف ایک حکم پر تحریک کو ختم کرنے کا اعلان کر دیا گیا۔
تب سے لے کر اب تک حکومت اس تحریک کے دوبارہ اٹھنے کے امکانات کو ہی یکسر ختم کرنے کی منصوبہ بندی کرتی رہی ہے۔ کیونکہ ریاست بخوبی جانتی ہے کہ اسے ہر قیمت پر آئی ایم ایف کے پروگرام پر عملدرآمد کروانا ہے۔ حکومت، اپوزیشن اور ریاستی اداروں میں شدید ترین رسہ کشی کے باوجود آئی ایم ایف کے عوام دشمن ایجنڈے پر سب کے مابین باہمی اتفاق رائے موجود ہے۔ اس صورتحال میں آج لاہور میں واقع پنجاب انسٹی ٹیوٹ آف کارڈیالوجی پر ہونے والے ہزار سے زائد وکلاکے مسلح حملے کو محض حادثاتی مظہر بھی قرار نہیں دیا جا سکتا۔ یہ درست ہے کہ کسی وکیل یا ڈاکٹر کے مابین کوئی ذاتی چپقلش ہی اس سارے معاملے کی بنیاد بنی ہو۔ مگر پالیسی سازوں نے اس کو بہت مہارت سے شعبہ صحت کے محنت کشوں کے خلاف استعمال کرتے ہوئے گرینڈ ہیلتھ الائنس کو ہی مجبور کر دیا کہ وہ سکیورٹی کے نام پر ہسپتالوں پر مکمل ریاستی اجارہ داری اور گرفت کو نہ صرف قبول کر لیں بلکہ اسے اپنے مطالبات میں سرفہرست لے جائیں۔ سیاسی طور پر نابلد اور ناتجربہ کار قیادت یہ سمجھنے سے بالکل قاصر ہے کہ کل جب دوبارہ انہی اداروں کی نجکاری کی جائے گی تو یہی سکیورٹی ممکنہ احتجاج کا قلع قمع کرنے کے لیے استعمال کی جائے گی۔ بلکہ ہسپتالوں میں رینجرز اور پیرا ملٹری فورسز کی براہ راست مداخلت سے شروع کر کے ریاستی شکنجے کو بلوچستان اور سندھ یا سرحدی علاقوں کی طرز پر پنجاب بھر کے تعلیمی اداروں سمیت ہر جگہ تک پھیلانے اور بڑھانے کی منصوبہ بندی کی جا رہی ہے۔ پہلے ہی گرینڈ ہیلتھ الائنس کا میڈیا ٹرائل بھی شروع ہو چکا ہے۔ یہ واضح طور پر ایک ممکنہ انقلابی تحریک سے نمٹنے کی لانگ ٹرم تیاری اور حکمت عملی ہے۔ یہی فوجی عدالتیں جن کو وقت کی اہم ضرورت کے طور پر پیش کیا جا رہا ہے، انہی میں نہ صرف شعبہ صحت بلکہ دیگر ہڑتالی محنت کشوں اور طلبہ کا ٹرائل بھی ہو گا۔ لیکن ان تمام تر اقدامات سے ریاست اور عوام میں فاصلہ کم ہونے کی بجائے مزید بڑھے گا۔
پبلک اور پرائیویٹ تمام اداروں کے محنت کش اور غریب عوام اس وقت مہنگائی، غربت اور محرومی کی چکی میں پس رہے ہیں۔ وہ تمام سیاسی قیادتوں کو دیکھ، سمجھ اور پہچان چکے ہیں۔ انہوں نے نام نہاد بائیں بازو اور لبرل دانشوروں کے ذہنی افلاس کے جھانسے میں آ کر آصف علی زرداری اور نواز شریف یا بلاول بھٹو زرداری یا مریم نواز کو اپنا نجات دہندہ تسلیم کرنے سے انکار کر کے شعور میں معیاری تبدیلی کا عملی مظاہرہ کیا ہے۔ اب ایک بہت بڑی اور عوامی انقلابی تحریک میں اس کا اظہار ہونا باقی ہے۔ اس عوامی انقلابی تحریک کا محاصرہ بھی حکمران طبقات نے پہلے سے ہی شروع کر دیا ہے۔ لاہور میں پنجاب انسٹی ٹیوٹ آف کارڈیالوجی کا سانحہ اور اس کے بعد رینجرز کا پنجاب میں ’معروضی ضرورت‘ کے طور پر بلاوا اس پنپتی ہوئی تحریک کے شعوری محاصرے کا عملی نمونہ ہے۔ مگر ریاست اور حکمران محض عدالتوں، فوج اور پولیس کے ذریعے ہی تحریکوں کا محاصرہ نہیں کرتے بلکہ موقع پرست قیادتیں بھی دانستہ یا غیر دانستہ طور پر محنت کشوں کے خلاف اس محاصرے کا سب سے اہم اور موثر اوزار بن جاتے ہیں۔ مگر اس بار جب ایک ملک گیر عوامی انقلابی تحریک وقت کی اہم ترین ضرورت بننے کے باوجود جتنی تاخیر زدہ ہو چکی ہے، اس کی شدت، قوت اور اٹھان اتنی ہی تند، تیز اور طوفانی ہو گی اور وہ ہر عسکری اور فکری محاصرے کو روندتی ہوئی آگے بڑھے گی مگر حتمی کامیابی کی بنیادی شرط ایک مارکسی لیننی انقلابی پارٹی کی موجودگی ہی ہو گی۔ ہم ہانگ کانگ، لبنان، عراق، ایران، سوڈان، چلی، ایکواڈور،اور کولمبیا سمیت بہت سی جگہوں پر دیکھ رہے ہیں جہاں عظیم الشان تحریکیں صرف انقلابی قیادت کے فقدان کے باعث منطقی انجام سے محروم ہیں۔ پاکستان میں ہمارے پاس ابھی وقت ہے لیکن یاد رہے کہ یہ وقت ہمارے ہاتھ سے نکلتا جا رہا ہے۔