|تحریر: ولید خان|
جنوری میں وزیر نجکاری دانیال عزیزنے اعلان کیا کہ حکومت 15 اپریل سے پہلے پی آئی اے کی نجکاری کرنے کا ارادہ رکھتی ہے۔ اس وقت تک پی آئی اے کے فلائنگ شعبے کو باقی شعبہ جات سے علیحدہ رکھا جائے گا اور پھر اعلان کردہ تاریخ تک نجکاری کر دی جائے گی۔ خبروں کے مطابق ملک کے بڑے سرمایہ دار، پی آئی اے کے سابقہ چیئرمین، ائر بلیو ائرلائن کے مالک اور سابق وزیر اعظم نواز شریف کے ملازم موجودہ وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی نے سول ایوی ایشن اتھارٹی (CAA) سمیت پی آئی اے اور پاکستان سٹیل ملز کی نجکاری کی اجازت دے دی ہے۔ اخباروں کے مطابق وزیر اعظم کا کہنا تھا کہ CAA اس قابل ہی نہیں کہ وہ ائر پورٹ چلا سکے۔ اس نے کہا کہ جو ادارہ ائیر پورٹ کے واش روم صاف نہیں رکھ سکتا وہ اور کر کیا سکتا ہے؟ اسی طرح پی آئی اے کے حوالے سے وزیر اعظم کا کہنا تھا کہ ائر لائن کا روزانہ پندرہ کروڑروپے کا خسارہ حکومت برداشت کر رہی ہے جو کہ اب ناقابل برداشت ہو گیا ہے۔ ائر لائن کا بک جانا ہی بہتر ہے۔ تازہ رپورٹس کے مطابق حکومت نے 15 اپریل تک ائر لائن کے 49 فیصد حصص بیچ کر اکثریتی حصص اور مینجمنٹ اپنے پاس رکھنے کا فیصلہ کیا ہے۔باقی سیاسی پارٹیوں نے یا تو ان معاملات پر چپ سادھی ہوئی ہے یا پھر رسمی طور پر مخالفت کا ناٹک کیا ہے۔
نجکاری کا عمل 1988ء سے چلتا آ رہا ہے جس کا آغاز بینظیر کی پہلی حکومت نے کیا۔ کسی بھی سیاسی پارٹی یا فوجی آمریت نے اس عمل کی کبھی مخالفت نہیں کی۔ ذرائع ابلاغ اور سوشل میڈیا میں نجکاری، ٹیکسوں کی بھرمار اور بیرونی سرمایہ کاری کو ترقی کا ضامن بتا کر پیش کیا جاتا ہے اور ساتھ یہ وجہ دی جاتی ہے کہ حکومت وقت یہ دیو ہیکل خسارے برداشت نہیں کر سکتی۔ تمام سیاسی پارٹیوں کا منشور اور عمل اسی سوچ پر کاربند ہے جبکہ کوئی دانشور یا نام نہاد ’’بائیں‘‘ بازو کا لیڈر متبادل پیش کرنے کو تیار نہیں۔ کبھی یہ نہیں بتایا جاتا کہ ادارے ان حالات تک کیسے پہنچے یا پھر اگر یہ اتنے ہی تباہ حال ہیں تو نجکاری کے وقت سرمایہ داروں کی خریداری کے لئے لائنیں کیوں لگ جاتی ہیں۔
پاکستان اپنی ابتدا سے ہی سامراجی مالیاتی اداروں سے قرضے لیتا آیا ہے۔ دہائیوں عالمی مالیاتی اداروں کی نیو لبرل پالیسیوں کے تحت یا تو عوامی ٹیکسوں سے تعمیر شدہ انفرسٹرکچر اور ادارے گروی رکھوانے پڑتے ہیں یا پھر ان کو سرمایہ د اروں نجی ملکیت میں دے کر ، انہیں چلانے کی ذمہ داری سے مبرا ہو کر اور ٹیکسوں کی بھرمار کر کے بجٹ خسارے کو ’’کم‘‘ کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ بیچنے والے وزیر اور مشیر بھی اسی ملک کے سرمایہ دار ہیں اور خریدار بھی زیادہ تر اسی ملک کے سرمایہ دار ہیں۔ اب اس لوٹ مار میں ترکی، چینی، اماراتی اور قطری بھی شامل ہو چکے ہیں۔
پاکستان ائرلائن کی نجکاری کا عمل 1990ء کی دہائی کے آغاز میں اوپن سکائیز پالیسی کے تحت شروع ہو گیا تھا۔ اس پالیسی کے مطابق بیرونی(زیادہ تر مشرق وسطیٰ ) اور مقامی ائرلائنز کو پاکستان کے مختلف شہروں اور روٹوں پر کام کرنے کی اجازت مل گئی۔ اس کے علاوہ مسافروں کے لوڈ، ٹکٹ کی لاگت اور دیگر پالیسیوں کو یا تو نرم کر دیا گیا یا ان کی حدود کو ختم کر دیا گیا۔ پھر پی آئی اے کے انٹر نیشنل روٹ بیچنے کا عمل شروع کر دیا گیا۔ اب کارگو، کیٹرنگ، ائرپورٹ سروسز وغیرہ کو آؤٹ سورس ( ٹھیکیداروں کے حوالے) کر دیا گیا ہے۔ جنوری 2018ء میں پانچ نئی مقامی ائرلائنوں کو کام کرنے کے لائسنس جاری کر دیئے گئے جن کے مالکان میں مقامی سرمایہ داروں سے لے کر فوج کا ادارہ تک شامل ہیں۔ ائرپورٹ کی بہت ساری سروسز کو CAA سے لے کر ٹھیکوں پر دے دیا گیا ہے۔
2015ء میں نام نہاد نیشنل ایوی ایشن پالیسی میں اوپن سکائز پالیسی کو جاری رکھا گیا ہے۔ یعنی اگر طریقہ کار کو دیکھا جائے تو ادارے کی بوٹی بوٹی کر کے اسے بیچا جا رہا ہے۔ سٹینڈرڈ چارٹرد بینک کے چیف ایگزیکٹیو شہزاد دادا کا کہنا ہے کہ پچھلے پانچ سالوں میں ملک میں مسافروں کی تعداد 40فیصد بڑھ کر دو کروڑ ہو چکی ہے۔ لیکن پی آئی اے کی اجارہ داری ختم ہونے، مقامی ائرلائنوں کو ترجیح اور مشرق وسطیٰ کی ائرلائنوں کی مفت ایندھن تک رسائی کی وجہ سے پی آئی اے کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا ہے۔ پھر قومی ائرلائن کو ان ممالک میں اس طرح کی کوئی رسائی حاصل نہیں جس طرح کی رسائی پاکستان کے دلال حکمران طبقے نے اپنے آقاؤں کو ملکی وسائل کی لوٹ مار کے لئے فراہم کی ہوئی ہے۔ اس وقت دیگر شعبہ جات کے ساتھ ائر لائن کی کھربوں روپے کی ملحقہ زمین پر پراپرٹی ڈویلپروں اور ڈیلروں کی نظریں لگی ہوئی ہیں جن میں ملک کی سب سے بڑی ڈویلپر اور ڈیلر فوج بھی شامل ہے۔ لیکن جس طرح سے موجودہ وزیر اعظم جونک کی طرح قومی ائر لائن کو چمٹا ہوا ہے اس کی مثال شائد پوری دنیا میں ملنا محال ہو۔ پچھلے چند سالوں میں پی آئی اے بڑی تیزی کے ساتھ اپنے روٹس سے دستبردار ہو رہی ہے جن میں حال ہی میں انتہائی منافع بخش روٹ نیو یارک، صلالہ(اومان) اور کویت شامل ہیں۔ بتایا گیا ہے کہ یہ روٹ منافع بخش نہیں ہیں لیکن شاہد خاقان عباسی، جس نے پی آئی اے کی چیئرمین شپ کے دوران لوٹ مار کا بازار گرم کر کے ائر بلیو ائر لائن بنائی، اب انہی ’’خسارہ زدہ‘‘ روٹوں کو خرید رہا ہے۔ پھر ائر بلیو کو قومی ائر لائن سے دگنا حج کوٹہ دیا جا رہا ہے۔ اماراتی اور قطری ائر لائنوں کو پی آئی اے کے اثاثہ جات بیچنے کی الگ ساز باز چل رہی ہے کیونکہ وزیر اعظم کے ان ممالک کے ساتھ آقا غلام تعلقات ہیں۔ اس حوالے سے دیکھا جائے تو ائر لائن کو تباہ کرنے کا سبب اس کے مزدور یا عوام نہیں بلکہ یہ سرمایہ دار ہیں جو پہلے ایک ادارہ برباد کرتے ہیں اور پھر اس کے ٹکڑوں پر بھیڑیوں کی طرح جھپٹا مارتے ہیں۔
پاکستان اسٹیل ملز نے 1980ء کی دہائی میں اپنے آغاز سے ملکی معیشت میں کلیدی کردار ادا کیا ہے۔اس ادارے کا شمار پاکستان سمیت دنیا کے بڑے اداروں میں ہوتا ہے۔ سستے اسٹیل کی درآمد، ادارہ جاتی لوٹ مار اور پراپرٹی ڈیلروں کی للچائی نظروں نے اس دیوہیکل ادارے کو بربادکر کے رکھ دیا ہے اور اب صورتحال یہ ہے کہ کھربوں روپے کی مشینری اور خام مال پڑے گل سڑ رہے ہیں جبکہ ملز عملی طور پر بند پڑی ہیں۔ سٹیل ملز کی اونے پونے نجکاری کرنے کی سنجیدہ کوشش 2007ء میں مشرف آمریت کے دور میں کرنے کی کوشش کی گئی لیکن ریاست کی اندرونی لڑائیوں کے نتیجے میں سپریم کورٹ نے اس عمل کو کالعدم قرار دے دیا۔ اسٹیل ملز 2015ء سے بند پڑی ہے۔ اس وقت اسٹیل ملز کی کھربوں روپے مالیت کی 19000 ایکڑ زمین، اسکریپ، بندرگاہ اور ساحلی پٹی پر بھوکے سرمایہ دار گدھوں کی طرح نظریں لگائے بیٹھے ہیں جس کے لئے حکومت ایک بار پھر نجکاری کی کوشش کرنے جا رہی ہے۔
واپڈا انفرسٹرکچر اور عددی قوت کے حوالے سے پاکستان کا سب سے بڑا ادارہ ہے۔ واپڈا کی نجکاری کرنے کی کوششیں پچھلی کئی دہائیوں سے جاری ہیں۔ سب سے پہلا کاری وار 1990ء کی دہائی میں کیا گیا جب پاکستانی سرمایہ داروں نے ریاستی پالیسی کو تبدیل کرتے ہوئے ہائیڈل پاور سے فوکس ایندھن پر چلنے والے پاور پلانٹس پر کر دیا۔ اس پر ستم ظریفی یہ کی کہ ایسے خوفناک معاہدے کئے گئے جن میں ایک یونٹ بجلی نہ پیدا کرنے کے باوجود ریاست کل پیداواری قوت کا 60 فیصد ادا کرنے کی پابند تھی۔ کوئی نئے ڈیم نہیں بنائے گئے اور پہلی واپڈا نجکاری 1996ء کوٹ ادو پاور پلانٹ کی ہوئی۔ اس کے بعد مشرف آمریت میں واپڈا کو پورے ملک میں بارہ ڈسٹریبیوشن کمپنیوں میں توڑ دیا گیا تاکہ محنت کشوں کی قوت کو توڑا جا سکے۔ کراچی الیکٹرک کمپنی کو 2005ء میں بیچ دیا گیا۔ اب صورتحال یہ ہے کہ پچھلے کئی سالوں سے حکومت کوشش کر رہی ہے کہ واپڈا کی سب سے زیادہ منافع بخش کمپنیوں کو بیچا جائے، جن میں خاص طور پر بلنگ کے انتہائی منافع بخش شعبے پر میاں منشا جیسے سرمایہ دار رالیں ٹپکا رہے ہیں۔ پھر بڑے ڈیموں کے اعلانات تو کئے گئے ہیں اور کچھ پر کام بھی ہو رہا ہے لیکن انڈی پینڈینٹ پاور پراجیٹس (IPPs) اور رینٹل پاور پراجیکٹس (RPPs)جو کہ فرنس آئل پر چلتے ہیں ، ان پر سب سے زیادہ زور ہے۔ یہ پراجیکٹس خلیجی ممالک ، ہانگ کانگ، سنگاپور کمپنیوں اور مقامی سرمایہ داروں کے لگائے ہوئے ہیں جن سے حکومت ہوشربا قیمت پر بجلی کے یونٹ خرید کر صارفین کو بیچ رہی ہے جس کی انتہائی بھاری قیمت عوام کو چکانی پڑ رہی ہے۔ اسی طرح ان پراجیکٹس میں دیگر مقامی سرمایہ دار شامل ہیں۔ اطلاعات کے مطابق خود سابق وفاقی وزیر پانی و بجلی اور موجودہ وزیر دفاع خواجہ آصف کی نجی بجلی گھروں میں 70کروڑ روپے سے زیادہ کی سرمایہ کاری ہے۔ CPEC کی سامراجی یلغار کی وجہ سے کول پاور پراجیکٹس کے بھی اعلان ہوئے ہیں جن میں چین اپنی دہائیوں پرانی استعمال شدہ مشینیں لگا رہا ہے جبکہ حکومت، بیورو کریسی اور مقامی دلال سرمایہ دار عوام کے ٹیکسوں پر اپنی عیاشی کا سامان بٹورنے میں مصروف ہیں۔ اس کی وجہ سے جہاں ملک کی ماحولیات تباہ ہو رہی ہے وہیں پر صارفین کو اپنی آمدنی کا ایک بڑا حصہ بجلی جیسی بنیادی سہولت کے لئے خرچ کرنا پڑ رہا ہے۔ اس بات کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ مارچ 2016ء کی ایک رپورٹ کے مطابق ہائیڈل سے حاصل ہونے والی بجلی 1.94 روپیہ فی یونٹ ہے جبکہ کوئلہ، فرنس آئل، ونڈ پاور وغیرہ سے حاصل کی جانے والی بجلی-22 12روپیہ فی یونٹ ہے۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ بجلی کے نرخ بڑھانے میں خود بجلی بحران حل کرنے کے دعویدار سرمایہ داروں کا کتنا فائدہ ہے۔ حکمران اربوں روپوں میں کھیل رہے ہیں جبکہ عوام کو اپنے ہی ٹیکسوں سے بنے اداروں سے مستفید ہونے کاحق ہی حاصل نہیں۔
پچھلی کئی دہائیوں سے پاکستانی ریاست صحت اور تعلیم کی سہولیات کی ذمہ داری سے مبرا ہوتی جا رہی ہے۔ اس لئے 1990ء کی دہائی کے آغاز سے پاکستان میں پرائیویٹ ہسپتالوں اور سکولوں کی بھرمار شروع ہو گئی۔ لیکن ایک پورا سیٹ اپ بنا کر اس کو چلانا بہت مشکل کام ہے جبکہ منافع کمانے کے لئے وقت بھی درکار ہوتا ہے۔ سب سے آسان اور سستا طریقہ کار یہ ہے کہ بنا بنایا چلتا ادارہ اونے پونے داموں خرید کر یا ٹھیکے پر لے کر چلایا جائے۔ نجکاری کے عمل کو وفاق سے نکال کر صوبوں میں گلی محلے کی سطح تک پہنچا دیا گیا ہے تاکہ اس لوٹ مار سے تمام سیاسی پارٹیاں اور مقامی دلال مستفید ہو سکیں۔ تمام صوبوں کے اندر تمام سیاسی پارٹیاں اس وقت نجکاری کے عمل پر کاربند ہیں۔ رپورٹس کے مطابق 2007ء میں پاکستان میں کل نجی سکولوں کی تعداد 49,000 تھی جو بڑھ کر 2015ء تک 173,110تک پہنچ گئی۔ پنجاب ایجوکیشن فاؤنڈیشن (PEF)کو 1991ء میں قائم کیا گیا تاکہ صوبے بھر میں نجی سکول بنانے کے لئے سرمایہ داروں کی معاونت کی جائے۔ اب صوبے بھر کے تمام پرائمری اسکول یکم اپریل 2018ء تک PEFکے تحت دے کر چلانے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ پھر سیکنڈری اور ہائر سیکنڈری سکولوں کی باری آ جائے گی۔ ان سکولوں کو PEF کے تحت کئی این جی اوز اور فلاحی ادارے لوٹ رہے ہیں جو نجی سکولوں یا سرمایہ داروں کی اپنی بنائی ہوئی ہیں۔ یہی کام دیگر صوبوں میں جاری ہے۔ اطلاعات کے مطابق صوبائی یونیورسٹیوں کے ڈیپارٹمنٹس کی بھی نجکاری کر دی جائے گی۔ اس کے علاوہ ’’فرضی‘‘ سکولوں اور ٹیچروں کا ایک الگ مسئلہ کئی سالوں سے چل رہا ہے جس میں سکول اور اساتذہ کاغذوں کی حد تک موجود ہوتے ہیں اور کروڑوں روپیہ ہڑپ کر لیا جاتا ہے۔ پھر بہت سارے سکول شہروں میں کلیدی جگہوں پر بڑے رقبوں کے ساتھ موجود ہیں جنہیں ایک وقت آنے پر بند کر کے ان کی جگہ بڑے شاپنگ پلازے بنائے جانے کے بھی امکانات ہیں۔ جس عوام کے ٹیکسوں سے یہ سکول بنائے گئے اور بے رحمی سے لوٹ مار کے لئے بیچے جا رہے ہیں اس کا ڈھائی کروڑ بچہ سکول ہی نہیں جاتا کیونکہ ان کے ماں باپ کے پاس تعلیم کے اخراجات کے لیے پیسے نہیں۔
اسی طرح صحت کے شعبے کو بھی برباد کیا جا رہا ہے۔ پنجاب میں تمام بنیادی ہیلتھ یونٹ (BHUs) ٹھیکوں پر دیئے جا چکے ہیں جبکہ تحصیل اور ڈسٹرکٹ ہیڈکوارٹر ہسپتالوں کی نجکاری کا عمل جاری ہے۔ اسی طرح بڑے ہسپتالوں کے مختلف ڈیپارٹمنٹس کو ٹھیکیداری پر دیئے جانے کا عمل جاری ہے جس میں اب تک پتھالوجی لیبارٹریاں، ریڈیالوجی، کار پارکنگ، کینٹین اور میس ٹھیکوں پر دیئے جا چکے ہیں جبکہ میڈیکل، سرجری اور دیگر سپیشلٹی شعبوں کی نجکاری کے لئے بات چیت چل رہی ہے۔ اس لوٹ مار میں خود وزیر و مشیر، نجی ہسپتال اور دیگر این جی اوز اور فلاحی ادارے شامل ہیں، ترکی بھی اس شعبے میں سرمایہ کاری میں کافی دلچسپی دکھا رہا ہے۔ اطلاعات کے مطابق حکومت تمام میڈیکل مشینوں، مرمتی کاموں اور دوائیوں وغیرہ کی فراہمی کی پابند ہو گی، ٹھیکیدار کو ہسپتال چلانے کے پیسے دیئے جائیں گے، ٹھیکیدار ڈاکٹروں، نرسوں اور پیرامیڈیکل سٹاف کو نوکری پر رکھنے یا برخاست کرنے کا مجاز ہو گا اور موجودہ پرچی فیس (ایک روپیہ) کے 300-500فیصد تک فیس لے سکے گا۔ کم یا زیادہ تیزی کا ساتھ یہی عمل تمام صوبوں میں جاری ہے۔
نجکاری کا عمل 1988ء میں شروع کیا گیا تھا۔اب تک 172 ادارے بیچے جا چکے ہیں جس کے نتیجے میں 648ارب روپے(6.4 ارب ڈالر) اکٹھے ہوئے ہیں۔اداروں کو بیچنے کی مختلف وجوہات بتائی جاتی رہی ہیں جن میں سے ایک بیرونی قرضے اتارنا بھی ہے۔ لیکن پچھلے تیس سال کی نجکاری میں اب تک حاصل کئے گئے پیسوں سے ثابت ہوتا ہے کہ یہ مفروضہ کس قدر جھوٹا ہے۔ خسارہ زدہ ادارے انہی حکمرانوں کی نجی ملکیت میں جا کر کیسے منافع بخش ہو جاتے ہیں اس پر کبھی روشنی نہیں ڈالی جاتی۔جبکہ اداروں کی کارکردگی بہتر ہونے کی بجائے بدتر ہو جاتی ہے اور عوام کے لیے موجود تھوڑی بہت سہولت بھی انتہائی مہنگی اذیت بن جاتی ہے۔ منافع کے حصول کے لئے کسی بیچے گئے ادارے کی قیمت اس ادارے کے مزدور ادا کرتے ہیں اس کی واضح مثال 1990ء کی دہائی میں بیچے گئے بینک ملازمین اور 2005ء میں بیچی گئی پاکستان ٹیلی کام کے مزدوروں کی حالت زار دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے۔ بینکوں کی نجکاری سے پہلے ان میں موجود یونینز کو قانونی طریقہ کار سے ختم کیا گیا اور آج بینک ملازمین کے نہ اوقات کار ہیں، نہ مستقل نوکریاں اور نہ ہی کوئی سروس سٹرکچر و دیگر مراعات۔انتہائی کم اجرتوں پر ان سے دن رات کام لیا جا رہا ہے۔ اسی طرح پاکستان ٹیلی کام کے 82 ہزار ملازمین میں سے اب 18 ہزار ملازمین رہ گئے ہیں جن میں سے زیادہ تر کنٹریکٹ اور ڈیلی ویجز پر ہیں۔ قلیل تنخواہ کے علاوہ اور کوئی مراعت موجود نہیں۔ ادارہ کو بیچنے سے پہلے اس کے بجٹ میں کٹوتیاں اور لوٹ کھسوٹ کے لئے اپنے من مانے حواریوں کو لگایا جاتا ہے۔ پھر ادارہ برباد کر کے اونے پونے داموں یا تو خود خرید لیا جاتا ہے یا اپنے کی طبقے میں سے کسی کو بیچ دیا جاتا ہے تاکہ وہ کھل کر لوٹ مار کر سکے۔ اگر صرف صحت اور تعلیم کے شعبوں کو ہی دیکھ لیں تو ورلڈ بینک کی 2014ء کی رپورٹ کے مطابق پاکستان میں صحت پر کل GDP کا 2.6 فیصد خرچ ہوتا ہے جبکہ UNESCO کی 2015ء کی رپورٹ کے مطابق GDP کا 2.5فیصد تعلیم پر خرچ ہوتا ہے۔ ان اخراجات میں سرکاری اور نجی خرچے دونوں شامل ہیں۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ حکمران طبقہ یہاں کی عوام کو کسی قسم کی سہولت فراہم کرنے میں کوئی دلچسپی نہیں رکھتا بلکہ لوٹ کھسوٹ کے ذریعے اپنے منافع میں اضافے کیلئے مستقل منصوبہ بندی کرتا رہتا ہے۔ ریاستی ادارے فطری اجارہ داریاں ہوتی ہیں کیونکہ ان دیو ہیکل اداروں کا نجی شعبہ کبھی مقابلہ نہیں کر سکتا۔ اس لئے ان اداروں یا ان کے کسی حصے کو خریدنے کے بعد سرمایہ دار اپنی مرضی کی شرح منافع پر لوٹ مار کرتا ہے اور اس کا سارا خمیازہ غریب عوام کو بھگتنا پڑتا ہے۔
پچھلے دس سالوں سے جاری سرمایہ دارانہ بحران کے نتیجے میں پوری دنیا میں طبقاتی کشمکش تیز ہو رہی ہے اور ہر جگہ حکمران اور مزدور طبقے کے درمیان لڑائیاں شدید تر ہوتی جا رہی ہیں۔ اس کے سیاسی اظہار ہمیں انتخابات، تحریکوں اور عام ہڑتالوں میں نظر آ رہا ہے۔ عمومی تصور یہ ہوتا ہے کہ سماج کو حکمران اور متوسط طبقہ چلاتے ہیں جبکہ سماج میں حقیقی دولت پیدا کرنے والے طبقے، محنت کشوں کو نظر انداز کیا جاتا ہے۔ عام ہڑتال محنت کش طبقے کا سب سے طاقتور ہتھیار ہے جس میں طبقہ متحد ہو کر حکمران طبقے کی حکمرانی اور وجود کو چیلنج کر دیتا ہے۔اپنے حقوق، اداروں اور سماج کے تحفظ کے لئے سرمایہ داری کی تاریخ میں محنت کشوں نے لا اتعداد ہڑتالیں کی ہیں۔ آج کئی ممالک میں عام ہڑتالیں ہو رہی ہیں جن میں سب سے نمایاں یونان اور ہندوستان کی عام ہڑتالیں ہیں۔پاکستان میں بھی 69-1968ء میں محنت کشوں کی ہڑتالوں کے باعث ہی ڈکٹیٹر ایوب خان کو استعفیٰ دے کر بھاگنا پڑا۔ آج بھی مختلف شعبوں کے ملازمین احتجاج اور ہڑتالیں کر رہے ہیں ۔ لیکن ان کی قیادتوں نے انہیں ہر دفعہ دھوکہ دیا ہے۔گزشتہ تین دہائیوں سے جاری اس نجکاری کے عمل میں مزدور لیڈروں نے حکمرانوں کے دباؤ میں آ کر اپنی ہڑتالوں اور احتجاجوں کو ختم کیا لیکن اس کا انجام زیادہ بھیانک حملے سے ہوا۔ 2005ء میں پی ٹی سی ایل کے مزدوروں کی ہڑتال اس کی واضح مثال ہے جب مشرف آمریت گھٹنے ٹیکنے پر مجبور ہو گئی تھی۔ لیکن لیڈروں کی غداری کے باعث اس ادارے کو بیچ دیا گیا۔ 2016ء میں پی آئی اے کی ہڑتال میں بھی تمام یونین لیڈروں کی غداری دیکھنے میں آئی جو خو دہڑتال سے خوفزدہ تھے۔اسی طرح واپڈا کی یونین قیادت بھی حکمرانوں سے ملی ہوئی ہے اور اسی ملی بھگت سے بتدریج اس ادارے کو نجکاری کی بھینٹ چڑھایا جا رہا ہے۔ مزدوروں کے دباؤ میں آ کر چند احتجاج اور مظاہرے کیے جاتے ہیں لیکن پھر پہلے سے بھی زیادہ بڑے پیمانے پر نجکاری کا عمل شروع ہو جاتا ہے جس کے باعث ہزاروں خاندانوں کا مستقبل داؤ پر لگ چکا ہے۔
اس تمام عمل سے محنت کشوں کو اسباق حاصل کرنے کی ضرورت ہے۔ ایک طرف تو مزدور دشمن قیادتوں، این جی اوز دہ غدار لیڈروں اور کرپٹ سیاسی پارٹیوں سے کسی بھی قسم کی کوئی امید باندھنا بیوقوفی ہو گی۔ محنت کشوں کو ایک نئی قیادت تراش کر لانا ہو گی جو حکمرانوں سے لڑائی کے لیے ہر حد پار کرنے کی صلاحیت رکھتی ہو۔اس کے علاوہ یہ قیادت نظریاتی اور سیاسی اعتبار سے حکمران طبقے کے حملوں کا مقابلہ کرنے کی سکت رکھتی ہو اور مزدور نظریات پر کامل یقین رکھتی ہو۔ اس کے علاوہ سب سے اہم سبق یہ ہے کہ الگ الگ احتجاج اور ہڑتالیں کرنے کی بجائے تمام اداروں کے محنت کشوں کو مل کر احتجاج اور ہڑتال کی جانب بڑھنا ہو گا۔اگر واپڈا ، پی آئی اے، ریلوے اور دیگر اہم اداروں کے محنت کش مل کر ہڑتال کریں جسے ایک عام ہڑتال کہا جائے گا تو پورے سماج کا پہیہ رک سکتا ہے۔اس ہڑتال میں نجی صنعتوں کے مزدور بھی بڑے پیمانے پر شامل ہو جائیں گے اور اپنے مطالبات کے ساتھ سرکاری اداروں کے ملازمین کے مطالبات کی حمایت کریں گے۔یہ ہڑتال پورے سماج پر محنت کش طبقے کی طاقت کو عیاں کرے گی اور خود محنت کش نجکاری کی پالیسی کے خاتمے کا دیرینہ مطالبہ منوانے میں کامیاب ہو سکتے ہیں۔عام ہڑتال پورے سماج کی بنیادیں ہلا کر رکھ دے گی اور سیاسی اقتدار کے سوال کو بھی کھڑا کر دے گی۔ یہ ہڑتال پاکستان میں مزدوروں کی ایک حقیقی نمائندہ سیاسی پارٹی کے سوال کو بھی ابھارے گی اور اس پارٹی کے جنم کا باعث بھی بنے گی۔ یہی عمل آگے چل کرسرمایہ دارانہ نظام کیخلاف ایک سوشلسٹ انقلاب کا بھی آغاز کرے گا جس میں سرمایہ داروں کے لیے قائم ریاست ختم کر کے مزدور ریاست قائم کی جائے گی جس کا اقتدار محنت کش طبقے کے پاس ہو گا۔ اس ریاست میں امیر اور غریب کی تقسیم کا خاتمہ ہو گا۔ صنعتوں اورتمام ادارے مزدوروں کے جمہوری کنٹرول میں ہوں گے اور ملک سے غربت، جہالت، بیماری اور بیروزگاری کا مکمل خاتمہ کرتے ہوئے اسے خوشیوں کا گہوارہ بنایا جائے گا۔ یہی رستہ محنت کشوں کی نجات کا واحد رستہ ہے باقی تمام نعرے اور وعدے جھوٹ اور فریب ہیں۔