|تحریر: آصف لاشاری|
پی ٹی آئی حکومت نے بھی پچھلے تین سالوں میں ماضی کی حکومتوں کی طرح پاکستانی معیشت کے بحران کا تمام تر بوجھ بڑی بے دردی کے ساتھ محنت کش عوام پر ڈالا ہے اور محنت کش عوام کے دکھوں و مصائب میں بے پناہ اضافہ کیا ہے۔ آئی ایم ایف کے پاس نہ جانے کے دعوے کرنے والے عمران خان نے تمام تر ملکی معاشی پالیسیاں آئی ایم ایف کے حوالے کر دی ہیں۔ پی ٹی آئی کے تمام تر بجٹ ڈاکومنٹس آئی ایم ایف نے حکومت کو تیار کر کے دیے اور آئی ایم ایف کے اشاروں پر وزیر خزانہ تبدیل ہوتے رہے۔ اسی طرح سٹیٹ بینک کے سربراہ کی تعیناتی بھی براہِ راست آئی ایم ایف کے ذریعے ہوتی رہی ہے۔
اس سارے عرصے میں مہنگائی کا بھیانک عذاب عوام پر مسلط کیا گیا۔ پٹرول کی قیمتوں میں بے تحاشا اضافہ کیا گیا۔ بنیادی اشیائے ضرورت کی قیمتوں میں اضافے نے عوام کے منہ سے آخری نوالہ تک چھین لیا۔ ایک طرف افراطِ زر میں ہونے والے اضافے نے ضروریاتِ زندگی کی قیمتوں میں کئی گنا اضافہ کیا تو دوسری جانب مہنگائی مافیا نے اشیا کی مصنوعی قلت پیدا کر اربوں روپے کمائے۔ آٹا چینی سے لے کر ٹماٹر تک ہر ایک چیز کا مصنوعی بحران پیدا کیا گیا اور ان اشیا کو انتہائی مانگے داموں پر فروخت کر کے بڑے پیمانے پرمنافع بٹورا گیا۔ ابھی گندم کی کاشت سے قبل ڈے اے پی اور یوریا کے مصنوعی بحران سے اربوں روپے کمائے گئے۔ ڈی اے پی کھاد 4500 روپے فی بوری خرید کر 9800 روپے فی بوری تک کسانوں کو فروخت کی گئی اور اس طرح کسانوں کو بے دردی سے لُوٹا گیا۔ لوٹ مار کے اس عمل میں حکومت و اپوزیشن دونوں سے تعلق رکھنے والے سرمایہ داروں اور کاروباری حضرات نے ایک جیسا فائدہ اٹھایا، اس لیے ہمیں کہیں بھی اس تمام تر ظلم کے خلاف کوئی سنجیدہ آواز اٹھتی ہوئی نظر نہیں آئی اور عوام کو لوٹنے کا یہ عمل ویسے کا ویسے جاری و ساری ہے۔
نومبر میں آئی ایم ایف کے ساتھ مذاکرات کی کامیابی کے بعد سے آئی ایم ایف کی شرائط پر عملدرآمد شروع کر دیا گیا ہے۔ 22 نومبر کو حکومت آئی ایم ایف کی جن شرائط کو تسلیم کر کے قرض پروگرام واپس بحال کرانے میں جزوی طور پر کامیاب ہو گئی تھی ان میں روپے کی قدر کو آزاد چھوڑنا، 500 ارب روپے سے زائد کے مزید ٹیکس، یونیفارم سیلز ٹیکس، انکم ٹیکس سلیب میں تبدیلی، بجلی اور گیس کی قیمتوں میں مزید اضافہ، سٹیٹ بینک کو حکومتی اثرورسوخ سے نکالنے کے لیے آزاد حیثیت کے لیے آئینی اقدامات، سالانہ ترقیاتی بجٹ میں 200 ارب روپے کی کٹوتی، شرح سود میں اضافہ، سستے قرضوں اور ایمنیسٹی سکیموں کا خاتمہ اور دیگر شرائط شامل تھیں۔
حکومت نے مذاکرات کا عمل شروع ہونے سے قبل ہی آئی ایم ایف میں بیٹھے سرمائے کے بھوکے گِدھوں کو خوش کرنے کے لیے پاکستانی عوام کا گلہ کاٹنا شروع کر دیا تھا۔ اب بھی آئی ایم ایف کی شرائط پر عملدرآمد کا سلسلہ جاری ہے اور 9 دسمبر بروز جمعرات حکومت نے فیول پرائس ایڈجسٹمنٹ کے نام پر بجلی کی قیمتوں میں فی یونٹ 4.74 روپے کا اعلان کیا ہے جس سے حکومت عوام کی جیبوں سے 60 ارب روپے کا ڈاکہ ڈالنے میں کامیاب ہو جائے گی۔ اسی طرح پچھلے ہفتے کے الیکٹرک نے بھی فی یونٹ بجلی کی قیمتوں میں 3.75 روپے اضافہ کیا ہے۔ بجلی کی قیمتیں پہلے بھی آسمانوں سے باتیں کر رہی ہیں اور بجلی کی قیمتوں میں حالیہ اضافہ عوام پر بجلی بم گرانے کے مترادف ہے۔ محنت کشوں کی اکثریت کے لیے گھروں میں بجلی کا میٹر لگوانا پہلے ہی ایک عیاشی کے مترادف ہے۔ لیکن اب بجلی کا میٹر لگوانا درمیانے طبقے کے بس سے بھی باہر ہو جائے گا۔
اسی طرح آئی ایم ایف کی شرائط پر عمل کرتے ہوئے سٹیٹ بینک کو بھی خود مختار قرار دے دیا گیا ہے۔ آئی ایم ایف کے قرض کی بحالی کے لیے ایک شرط یہ بھی تھی کہ سٹیٹ بینک کے معاملات میں حکومتی مداخلت اور کنٹرول کا مکمل طور پر خاتمہ کیا جائے۔ اب سٹیٹ بینک کی خودمختاری کے بعد ایکسچینج ریٹ اور مانیٹری پالیسی کے تعین میں حکومت کا عمل دخل ختم کر دیا جائے گا اور سٹیٹ بینک منڈی کی قوتوں اور آئی ایم ایف کے احکامات کے تحت ان کا تعین کیا کرے گا۔
اسی طرح آئی ایم ایف سے ہونے والی ڈیل کے نتیجے میں سپلیمینٹری فنانس بل یا دوسرے لفظوں میں منی بجٹ لایا جا رہا ہے جس میں کل ملا کے 600 ارب روپے کے اضافی ٹیکس عوام پر مسلط کرنے کا پلان ہے۔ اس منی بجٹ میں پچھلے بجٹ کے اندر 350 ارب روپے کی ٹیکس چھوٹ ختم کی جارہی ہے، اور اس کے ساتھ ساتھ 250 ارب روپے کے نئے ٹیکس بھی شامل کرنے کا پلان موجود ہے جو اس منی بجٹ میں تو لاگو نہیں کیے جارہے البتہ کچھ ہی عرصے بعد انہیں دوبارہ ایک منی بجٹ کی صورت میں لاگو کیا جائے گا۔ معاشی ماہرین کے مطابق حکومت اس منی بجٹ کے ذریعے غریب عوام کی جیبوں سے 20 ہزار روپے کا ڈاکہ ڈالنے کی طرف جائے گی جو کہ پہلے ہی انتہائی مشکلات کا شکار ہیں۔ منی بجٹ کے نتیجے میں تقریباً 144 اشیاء کی قیمتوں میں اضافہ ہونے کی طرف جائے گا جن میں بچوں کے لیے استعمال ہونے والے خشک دودھ اور ادویات سے لے کر دیگر اشیائے ضروریہ شامل ہیں۔ اسی طرح منی بجٹ کے اندر پٹرولیم لیوی کو بڑھانے کے حوالے سے بھی فیصلے کیے گئے ہیں اور ہر ماہ پٹرولیم لیوی کی مد میں پٹرول کی قیمت میں 4 روپے کا اضافہ کیا جائے گا۔ اسی طرح منی بجٹ کے اندر بجلی کی قیمتوں میں بھی مزید اضافے کے حوالے سے تجاویز شامل کی گئی ہیں۔
اس منی بجٹ سے جنم لینے والی مہنگائی سے یہاں کا محنت کش طبقہ سب سے زیادہ متاثر ہونے کی طرف جائے گا۔ پاکستانی معیشت کے بحران کی وجہ سے محنت کش عوام کی ایک بہت بڑی اکثریت بے روزگاری کا شکار ہے اور برسرروزگار محنت کشوں کی حقیقی اُجرتیں بڑھنے کی بجائے مسلسل کم ہونے کی طرف گئی ہیں اور اس صورتحال میں یہ منی بجٹ محنت کش عوام کے لیے معاشی بم ثابت ہونے کی طرف جائے گا۔ مہنگائی کی شرح پہلے ہی حکومتی اعداد وشمار کے مطابق 11 فیصد کے لگ بھگ ہے اور منی بجٹ میں شامل کیے گئے نئے ٹیکسوں کے نفاذ کے بعد مہنگائی کی شرح تقریباً 12 فیصد تک پہنچ جائے گی۔
اس منی بجٹ میں ترقیاتی بجٹ میں بھی 200 ارب روپے کی کٹوتی کی گئی ہے۔ ترقیاتی بجٹ میں 200 ارب روپے کی کٹوتی سے جہاں پہلے سے انتہائی دگرگوں انفراسٹرکچر مزید خستہ حالی کی طرف جائے گا وہیں پر ان ترقیاتی کاموں کی وجہ سے محنت کشوں کو ملنے والے روزگار کے امکانات بھی ختم ہو جائیں گے۔
حکومت منی بجٹ کو عوام دوست بنا کر پیش کرنے کی کوشش کر رہی ہے اور حکومت کی طرف سے بار بار یہ بیانات دیے جا رہے ہیں کہ صرف درآمدی اشیاء یا ان اشیاء پر سے ٹیکس چھوٹوں کا خاتمہ کیا گیا ہے جو غریب عوام استعمال نہیں کرتی اور اشرافیہ استعمال کرتی ہے۔ امیروں کی طرف سے زیادہ تر استعمال کی جانے والی درآمدی اشیاء پر ٹیکس چھوٹ کا خاتمہ کر کے حکومت ایک طرف درآمدی بل کو کم کرنے کی کوشش کر رہی ہے تاکہ تجارتی خسارے کو کم کیا جا سکے اور دوسری وجہ یہ ہے عام عوام کی جانب سے استعمال ہونے والی تقریباً تمام اشیاء پہلی ہی بہت زیادہ مہنگی ہیں اور حکومت عوام کی جیبوں سے پہلے ہی سب کچھ چھین چکی ہے۔ اس کے علاوہ یہ پہلو بھی اہم ہے کہ پاکستانی منڈی میں بکنے والی زیادہ تر اشیاء باہر سے ہی امپورٹ کی جاتی ہیں اور جو چیزیں یہاں بنائی جاتی ہیں ان کے لیے خام مال دوسرے ملکوں سے درآمد کیا جاتا ہے۔ اس لیے یہ بات سمجھنا مشکل نہیں ہے کہ تمام درآمدی اشیاء پر سے ٹیکس چھوٹ کا خاتمہ بالآخر عام صارفین کو ہی ادا کرنا پڑے گا۔
حکومت آئی ایم ایف سے 6 ارب ڈالر کے قرض پروگرام (EFF) کی بحالی اور ایک ارب ڈالر کی قسط کو تمام معاشی مسائل کا حل بنا کر پیش کر رہی ہے اور پاکستانی معیشت کی بہتری اور گروتھ ریٹ میں اضافے کے دعوے کر رہی ہے۔ اپنے حالیہ بیانات میں وزیرِ خزانہ نے ملکی سطح پر افراطِ زر میں اضافے اور مہنگائی کے طوفان کو عالمی سطح پر افراطِ زر اور مہنگائی کی وجہ قرار دیا اور ان کا کہنا تھا کہ عالمی سطح پر قیمتیں کمی کی جانب گامزن ہیں اور اس طرح پاکستان میں بھی مہنگائی کم ہونے کی طرف جائے گی۔ اس طرح کے بیانات زیادہ تر عوام کو بیوقوف بنانے کے لیے دیے جاتے ہیں اور اس بیان کا مقصد بھی ملک میں جاری حکومت اور مافیا کی لوٹ مار کو چھپانا ہے۔
پی ٹی آئی کے پچھلے تین سال کے اندر عوام پر ہونے والے تمام تر معاشی جبر پر اپوزیشن کی تمام سیاسی جماعتیں جان بوجھ کر خاموش رہیں اور محدود پیمانے کے علامتی احتجاجوں اور جلسوں پر اکتفا کیا گیا۔ شروع شروع میں پی ڈی ایم کا حوّا کھڑا کرنے کی کوشش کی گئی، جسے درمیانے طبقے اور لبرل حضرات نے خواہ مخواہ سنجیدہ لینا شروع ہی کیا تھا کہ اس کا جنازہ پڑھا دیا گیا۔ حقیقت یہ ہے کہ اپوزیشن میں موجود جماعتوں کا موجودہ حکومت سے کسی ایک بھی معاملے پر کوئی اصولی اختلاف موجود نہیں ہے۔ آئی ایم ایف کی غلامی سے لے کر ملٹری و سول اسٹیبلشمنٹ کی چمچہ گیری تک تمام سیاسی جماعتوں کا مکمل اتفاق ہے۔ اسی طرح تمام مین سٹریم سیاسی جماعتیں سرمایہ دارانہ نظام کی حامی بھی ہیں اور اس سے مستفید بھی ہو رہی ہیں۔ ملک میں جاری لوٹ مار میں تمام سیاسی جماعتیں اور ان سے جڑے مافیاز اپنا حصہ وصول کر رہے ہیں۔ اس سب کے باوجود یہ حکمران طبقات جانتے ہیں کہ عوام کو بیوقوف بنانا بھی بہت ضروری ہے۔ اس لیے جیسے جیسے الیکشن قریب آتا جائے گا اپوزیشن کی جماعتوں کے حکومت مخالف بیانات اور جلسے جلوسوں میں بھی اضافہ ہوتا جائے گا، جیسا کہ حالیہ دنوں میں سندھ کی حکمران جماعت پی پی نے سندھ بھر میں بجلی کی قیمتوں میں اضافے کے خلاف احتجاجوں کی کال دی ہے۔ لیکن اس سب کے باوجود عوام دشمن پالیسیاں جاری و ساری رہیں گی۔ یہ کہنا بھی غلط ہوگا کہ مین سٹریم سیاسی جماعتوں میں کوئی بھی آپسی اختلاف یا جھگڑا موجود نہیں ہے، کیونکہ حکمران طبقات کے مختلف دھڑوں میں لوٹ مار میں حصہ داری پر ایک شدید لڑائی موجود ہے لیکن اس سب کے باوجود پاکستان کے محنت کش عوام کا خون چوسنے پر ان کا مکمل اتفاق ہے۔
عالمی سطح پر ناکام سرمایہ دارانہ نظام، پاکستان کی ناکام معیشت اور پاکستانی حکمران طبقات کی لوٹ مار کا تمام تر بوجھ یہاں کے محنت کش عوام بھگتنے پر مجبور ہیں۔ کئی نسلوں سے محنت کی چکی میں پسنے والے کروڑوں انسانوں کے لیے زندگیاں ہر نئے دن بد سے بد تر ہوتی چلی جا رہی ہیں۔ اب اس نظام میں اتنی سکت باقی نہیں رہی کہ وہ ان کو ایک وقت کی روٹی ہی فراہم کر سکے۔ محنت کش طبقہ زیادہ دیر تک اس سارے جبر کو برداشت نہیں کر سکتا اور وہ وقت آئے گا جب محنت کش طبقہ اس ناکام نظام کو اس کے لٹیرے حکمران طبقات سمیت ایک انقلاب کے ذریعے نیست و بانود کر دے گا اور از سرِ نو سماج کی تعمیر کی طرف آگے بڑھے گا۔ ہم سمجھتے ہیں کہ آج کے عہد میں آگے بڑھنے کا واحد راستہ ایک غیر طبقاتی سوشلسٹ معاشرہ تعمیر کرنا ہے۔ ہمارا یقین ہے کہ محنت کش عوام اس فریضے کو ضرور ادا کریں گے اور موجودہ بحران زدہ دنیا سے ایک مستحکم اور صحیح معنوں میں انسانی دنیا کی تخلیق ہوگی۔