|تحریر: آفتاب اشرف|
کرونا وائرس کی وبا نے پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے اور اب اس وقت وبا کا مرکز چین سے یورپ منتقل ہو چکا ہے۔ عالمی ادارہ صحت(WHO) کے تازہ ترین اعدادوشمار کے مطابق پوری دنیا میں اب تک 162,000 ہزار افراد اس وبا سے متاثر ہوئے ہیں جبکہ 6ہزار سے زائد افراد کی موت واقع ہوچکی ہے۔ بڑی آبادی رکھنے والے بے شمار ممالک اور خطے ایسے ہیں جہاں ابھی اس وبا کا پھیلاؤ بالکل ابتدائی مراحل میں ہے اور اسی لئے خدشہ ہے کہ آنے والے عرصے میں اس مرض سے ہونے والی ہلاکتوں میں کئی گنا اضافہ ہو گا۔ اسی طرح پہلے ہی سے ایک بڑے بحران کے دھانے پر کھڑی عالمی معیشت کوکرونا کی وبا نے ایک فیصلہ کن دھکا دیتے ہوئے کھائی میں دھکیل دیا ہے۔ پچھلے تقریباً ایک ہفتے سے دنیا بھر کی ا سٹاک ایکسچینجوں میں زبردست مندی جاری ہے۔ مانگ نہ ہونے کی وجہ سے خام تیل کی قیمتوں میں بھی تیز ترین گراوٹ ہوئی ہے۔ کئی ایک ممالک میں لاک ڈاؤنز نے پہلے ہی سے گرتی ہوئی قوتِ خرید کا شکار منڈی کو بالکل ٹھنڈا کر دیا ہے جبکہ چین کے بڑے صنعتی علاقوں میں ہونے والے لاک ڈاؤن نے عالمی پیداوار میں زبردست کمی کو جنم دیا ہے۔ واضح ہوتا جا رہا ہے کہ یہ معاشی بحران رواں سال میں ہی ایک کھلی عالمی کساد بازاری میں تبدیل ہو جائے گا۔
پاکستان کو بھی اس صورتحال سے کوئی استثنا حاصل نہیں ہے اور اب تک کے سرکاری اعدادوشمار کے مطابق ملک بھر میں کرونا کے 94 سے زائد کیس رپورٹ ہو چکے ہیں۔ لیکن غالب امکان ہے کہ اصل صورتحال اس سے کہیں زیادہ گھمبیر ہے کیونکہ حکومت ابھی تک عوامی پیمانے پر کرونا وائرس کے تشخیصی ٹیسٹ کی سہولیات فراہم کرنے میں بالکل ناکام رہی ہے اور اس نااہلی پر پردہ ڈالنے کے لئے وبا کے پھیلاؤ کے بارے میں جھوٹ بولا جا رہا ہے۔ درحقیقت، اگر دیکھا جائے تو یہ وبا صرف موجودہ حکومت کی عوام دشمنی کو ہی نہیں بلکہ منافع کی ہوس پر مبنی پورے سرمایہ دارانہ نظام کو ہی ننگا کر رہی ہے۔ ایک طرف پاکستان کی بد عنوان اور عوام دشمن حکومت و ریاست کے پاس 22 کروڑ عوام کو اس وبا سے محفوظ رکھنے کے لئے نہ تو کوئی منصوبہ بندی ہے اور نہ ہی اس مقصد کے لئے درکارسیاسی، سماجی و تکنیکی بصیرت جبکہ دوسری طرف سرمایہ دار طبقے نے اس قدرتی آفت سے بھر پور منافع خوری کرنے کی پوری تیاری کر رکھی ہے جس کی واضح مثال بڑے تاجروں کے ہاتھوں فیس ماسکس کی ذخیرہ اندوزی اورنجی ہسپتالوں و لیبارٹریوں کی جانب سے ٹیسٹوں اور علاج کے نرخوں میں ہوش ربا اضافہ ہے۔ صورتحال یہ ہے کہ شعبہ صحت کے متعلق عمران خان کا معاون خصوصی ڈاکٹر ظفر مرزا بھی کروڑوں روپے مالیت کے فیس ماسکس کی بیرون ملک اسمگلنگ میں ملوث پایا گیا ہے۔ مزید برآں، ذرا سوچئے کہ پاکستان جیسا ملک جہاں ”نارمل حالات“ میں بھی جہانگیر ترین جیسے سرمایہ دار حکومتی و ریاستی آشیر باد کے ساتھ بنیادی اشیائے ضرورت کے مصنوعی بحران پیدا کر کے اپنی تجوریاں بھرنے کے عادی ہوں،وہاں ایک وبا سے پیدا ہونے والی ہنگامی صورتحال میں سرمایہ دار طبقہ کس طرح عوام کی جانوں سے کھیل کر اپنی دولت میں اضافہ کرے گا۔
کرونا کی وبا نے پاکستان کی سامراجی گماشتہ سکیورٹی اسٹیٹ اور تاریخی نااہلی کے شکار ایک خصی مگر انتہائی ظالم سرمایہ دار حکمران طبقے کے محنت کش عوام کی صحت اور انہیں علاج معالجے کی سہولیات کی فراہمی کے متعلق انتہائی بے حسی اور مجرمانہ لاپرواہی پر مبنی رویے کو بھی پوری طرح آشکار کیا ہے۔ پچھلے73 سالوں سے یہاں کا سرمایہ دار حکمران طبقہ اور ریاستی اشرافیہ عالمی بورژوازی، ملٹی نیشنل کمپنیوں، آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک جیسے سامراجی مالیاتی اداروں کی گماشتگی کرتا آیا ہے اور انہیں اس ملک کے درماندہ عوام کو لوٹنے کی کھلی چھوٹ دینے کے بدلے میں اپنی تجوریاں بھی بھرتا رہا ہے۔ رہی سہی کسر خطے میں امریکہ، چین اور سعودی عرب کی سامراجی گماشگتی کرنے اور بدلے میں مال کمانے کے غرض سے پروان چڑھنے والی سیکیورٹی اسٹیبلشمنٹ نے پوری کر رکھی ہے جو کہ جنگی مشین سے زیادہ ایک منافع خور کاروباری ادارہ بن چکی ہے اور پہلے ہی سے سرمایہ دارانہ استحصال سے بدحال عوام کی کمر اس سفید ہاتھی کا بوجھ ڈھوتے ڈھوتے دوہری ہو چکی ہے۔
اس ساری لوٹ مار کے نتیجے میں جہاں عوامی زندگی کا ہر پہلو برباد ہوا ہے وہیں اس کا سب سے زیادہ خمیازہ غالباً شعبہ صحت کو بھگتنا پڑا ہے۔ WHO کے مطابق کسی بھی ملک کے لئے اپنی عوام کو صحت کی مفت (یا سستی) ومعیاری سہولیات کی فراہمی کے لئے سرکاری سطح پر جی ڈی پی کا کم از کم 6.5 فیصد شعبہ صحت پر خرچ کرنا لازمی ہے۔ پاکستان میں جی ڈی پی کا بمشکل 2 فیصد صحت پر خرچ ہوتا ہے جس کا بھی بڑا حصہ نجی شعبے سے آتا ہے جو کہ ملک کی 90 فیصد آبادی کی پہنچ سے بالکل باہر ہے۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ ملک میں سرکاری سطح پر صحت کی سہولیات کا شدید فقدان ہے۔ 22 کروڑ کی آبادی، جس کا 40فیصد غربت کی انتہائی لکیر(ایک ڈالر یومیہ فی کس) اور تقریباً75فیصد غربت کی عالمی لکیر (2 ڈالر یومیہ فی کس) سے نیچے زندگی بسر کرتا ہے، کے لئے سرکاری شعبے میں صرف6ہزار بنیادی مراکز صحت، 950سیکنڈری کئیر ہسپتال اور صرف 22 ٹر شری کئیر ہسپتال (بڑے سپیشلائزڈ ہسپتال)ہیں۔ صحت کی عوامی سہولیات کی قلت کا یہ عالم ہے کہ سرکاری ہسپتالوں میں 2ہزار افراد کے لئے ایک بستر دستیاب ہے جبکہ ہیلتھ سٹاف کی شارٹیج اتنی زیادہ ہے کہ 1500افراد کے لئے ایک صرف ڈاکٹر دستیاب ہے۔ نرسنگ اور پیرامیڈیکل سٹاف کی قلت کی صورتحال اس بھی زیادہ گھمبیر ہے۔ مزید برآں، صحت کی یہ تھوڑی بہت سرکاری سہولیات بھی ملک کے نسبتاً ترقی یافتہ علاقوں اور بڑے شہروں میں ہی دستیاب ہیں جبکہ بلوچستان جیسے پسماندہ خطوں میں تو مریض کو محض کسی ڈاکٹر کی شکل دیکھنے کے لئے بھی ٹوٹی ہوئی سڑکوں پر گھنٹوں کا اذیت ناک سفر کرنا پڑتا ہے۔ اس سب صورتحال کا نتیجہ یہ ہے کہ علاج نہ ملنے کے باعث ملک میں ہر سال ساڑھے 4لاکھ بچے ملیریا، نمونیااور اسہال جیسی قابل علاج بیماریوں کے باعث جاں بحق ہوتے ہیں۔ سالانہ50ہزار عورتیں ایک نئی زندگی کو جنم دیتے ہوئے زچگی کی پیچیدگیوں کے باعث جان ہار جاتی ہیں جبکہ اتنی ہی تعداد میں عورتیں ہر سال صرف چھاتی کے سرطان کے باعث بے وقت موت کے منہ میں چلی جاتیں ہیں۔ ہر سال 30ہزار سے زائد افراد دگرگوں انفراسٹرکچر کی وجہ سے سڑکوں پر ہونے والے حادثات میں جان ہار دیتے ہیں، حالانکہ ان کی ایک بڑی تعداد کو بروقت اور معیاری طبی امداد کی فراہمی سے بچایا جا سکتا ہے۔
واضح رہے کہ یہ سب کچھ کوئی قومی المیہ نہیں بلکہ ایک طبقاتی مسئلہ ہے کیونکہ صحت کی مفت ومعیاری سہولیات کی عدم دستیابی کی وجہ سے زندگی ہارنے والے افراد کی ایک بھاری ترین اکثریت محنت کش طبقے سے تعلق رکھتی ہے۔ رہی سہی کسر موجودہ ”تبدیلی“ سرکار نے پوری کر دی ہے جو آئی ایم ایف کے احکامات کے مطابق سرکاری ہسپتالوں کی نجکاری پر تلی ہوئی ہے۔ حکمرانوں اور ریاستی اشرافیہ کی بے حسی، عوام دشمنی اور عالمی مالیاتی اداروں کی دلالی کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ ایک طرف پاکستان میں کرونا وائرس کے پہلے کیس رپورٹ ہو رہے تھے جبکہ دوسری طرف پنجاب کی صوبائی حکومت شعبہ صحت کے لاکھوں ملازمین کی زبردست مخالفت کے باوجودصوبائی اسمبلی میں سرکاری ہسپتالوں کی نجکاری کے بل (ایم ٹی آئی ایکٹ) کو منظور کرانے میں مشغول تھی۔ یاد رہے کہ یہ نام نہاد تبدیلی سرکارخیبر پختونخوا میں ایم ٹی آئی ایکٹ کانفاذ 2015ء میں ہی کر چکی ہے جبکہ اب ڈی ایچ اے/آر ایچ اے ایکٹ کے نام پر اس نجکاری کا دائرہ کار صوبے کے چھوٹے سرکاری ہسپتالوں تک بھی پھیلایا جا رہا ہے جبکہ اس نجکاری کے نتیجے میں عوام کو میسر صحت کی تھوڑی بہت سرکاری سہولیات بھی انتہائی مہنگی ہو کر ان کی پہنچ سے باہر ہو چکی ہیں۔ اب حکومت یہی سب کچھ پنجاب میں کر رہی ہے اور اس کے بعد دوسرے صوبوں کی باری ہے۔ ایسی صورتحال میں صرف کوئی احمق ہی حکمران طبقے اور ریاستی اشرافیہ سے امید لگا سکتا ہے کہ وہ از خودکرونا وبا کی روک تھام اور اس سے متاثرہ مریضوں کے علاج معالجے کے لئے کوئی ٹھوس اقدامات کریں گے۔
اس امر کا اظہار وائی ڈی اے پنجاب کی مرکزی قیادت نے ایک حالیہ پریس کانفرنس میں بھی کیا جس میں انہوں نے حکومتی بے حسی پر شدید تنقید کرتے ہوئے اس کی جانب سے اٹھائے جانے والے تمام نام نہاد اقدامات کی قلعی کھول دی۔ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے وائی ڈی اے پنجاب کے صدر نے کہا کہ سرکاری ہسپتالوں میں مریضوں کو علاج معالجہ فراہم کرنا تو دور کی بات حکومت نے ابھی تک ہسپتال ملازمین کو بھی کسی قسم کی کوئی حفاظتی کٹس مہیا نہیں کی ہیں اور نتیجتاً ان کی جانوں کو شدید خطرہ لاحق ہے۔ اسی طرح، ہسپتالوں میں کرونا کے مریضوں کے لئے بنائے جانے والے آئیسولیشن وارڈز نہ صرف نہایت ناکافی ہیں بلکہ یہ آئیسولیشن وارڈز کے لئے لازمی خیال کئے جانے والے کسی ایک بھی عالمی پیمانے پر پورا نہیں اترتے اور قوی خدشہ ہے کہ یہاں رکھے جانے والے مریضوں سے وبا ہسپتال کے دوسرے مریضوں تک بھی پھیل جائے گی۔ ہسپتالوں میں وینٹی لیٹرز (مصنوعی تنفس کی مشین) کی بھی شدید کمی ہے اور صرف صوبہ پنجاب میں ایک ہزار وینٹی لیٹرز فوری طور پر درکار ہیں۔ پیپلز پارٹی کے بعض وظیفہ خوار دانشوروں کے بلند و بانگ دعوؤں کے برعکس سندھ سمیت دیگر صوبوں کی صورتحال بھی کچھ ایسی یا اس سے بھی بدتر ہے۔ واضح رہے کہ خاکم بدہن اگر حکومتی و ریاستی نااہلی کی وجہ سے یہ وبا بڑے پیمانے پر پھیل گئی تو لاکھوں کی تعداد میں عوام ہلاک ہوں گے۔ غریبوں کی بے گورو کفن لاشیں سڑکوں پر پڑی ملیں گی جبکہ یہ سامراجی گماشتہ ظالم حکمران، بزدل اور بدعنوان پیتل زدہ جرنیل، منافع کی ہوس میں اندھے سرمایہ دار، بینکار اور تاجر، بکاؤ جج، طفیلیے بیوروکریٹس، جابر جاگیر دار اور طبقہ امرا سے تعلق رکھنے والے دیگر افراد مرتے ہوئے عوام سے دور اپنے محفوظ اور پر تعیش محلات میں قلعہ بند ہو کر بیٹھ جائیں گے اور حالات کے ”نارمل“ ہونے کا انتظار کریں گے۔ ان میں سے بے شمار نے تو پہلے ہی اپنے عشرت کدوں میں نہ صرف کئی ماہ کی خوراک اور دیگر اشیاء کا ذخیرہ کر لیا ہو گا بلکہ ادویات،پرائیویٹ ڈاکٹرز اور یہاں تک کہ وینٹی لیٹرز اور دیگر میڈیکل مشینری کا بھی بندوبست کر رکھا ہو گا۔اسی طرح اوپری درمیانے طبقے کے افراد بھی فائیو سٹار ہوٹل نما مہنگے نجی ہسپتالوں میں علاج کے لئے درکار رقوم کا بندوبست کئے بیٹھے ہیں اور اگر کسی کی قسمت ہی خراب نہ ہو تو وہ اس وبا سے محفوظ رہے گا۔ پیچھے رہ جاتے ہیں محنت کش عوام جو کہ اس انسان دشمن سرمایہ دارانہ نظام، اس کی آلہ کار ظالم ریاست اور اس کے بے حس حکمران طبقات کی ہوس، لوٹ مار اور منافع خوری کے باعث بڑے پیمانے پر برباد ہوں گے۔
تاریخ بتاتی ہے کہ 1770ء کی دہائی کے اوائل میں جب خشک سالی اور برٹش ایسٹ انڈیا کمپنی کی سامراجی لوٹ مار کی پالیسیوں کے کارن کمپنی کے زیر انتظام بنگال (موجودہ بنگلہ دیش، مغربی بنگال، بہار اور اوڑیسہ) میں قحط پڑا تھا تو کمپنی نے زرعی لگان اور دیگر ٹیکسوں میں ایک روپے کی بھی کمی کرنے سے انکار کر دیا تھا۔ کمپنی کی ظالم سامراجی انتظامیہ نے نہ صرف قحط سے عوام کو بچانے کے لئے کوئی اقدامات نہیں کئے بلکہ بھوک سے مرتے لوگوں کے پاس بچا کچھا جو تھا وہ بھی ٹیکس وصولی کی مد میں سنگین کی نوک پران سے چھین لیا گیا۔ بلکہ کمپنی کے اعلیٰ اہلکار بڑے پیمانے پر غلے کی ذخیرہ اندوزی اور منافع خوری میں ملوث تھے جس کے نتیجے میں وہ بہت جلد یورپ کے امیر ترین ”سیلف میڈ“ لوگ بن گئے۔ اس تمام انسانیت سوز لوٹ مار کی وجہ سے جہاں ایک طرف بنگال کی تقریباً ایک چوتھائی آبادی فنا ہو گئی وہیں دوسری طرف اسی عرصے میں کمپنی کے منافعوں، اس کے حصص کی قیمت اور اس کے شئیر ہولڈرز کی دولت میں بے تحاشا اضافہ ہوا۔ پاکستان میں بھی آنے والے دنوں میں اس سے ملتی جلتی صورتحال پیدا ہو سکتی ہے۔ اس سے پہلے بہت سی قدرتی آفات میں لوٹ مار کے ایسے ہی واقعات متواتر دیکھنے کو ملتے رہے ہیں۔ زلزلہ، سیلاب سمیت ہر قدرتی آفت میں یہاں کے سرمایہ داروں اور ذخیرہ اندوزوں نے بے دریغ لوٹ مار کی ہے اور اپنے منافعوں کے لیے متاثرہ افراد کی بڑی تعداد کو موت کے منہ میں واپس دھکیلا ہے۔ اس عمل میں ہر دفعہ حکمرانوں کی معاونت، بے حسی، نااہلی، کرپشن اور دولت کی ہوس نے صورتحال کو مزید سنگین کر دیا ہے جن کے لیے بیرون ملک کے محفوظ مقامات ہی زندگی گزارنے کے حقیقی مقامات ہیں جبکہ یہ ملک لوٹ مار کے لیے ایک شکار گاہ کی حیثیت اختیار کر چکا ہے۔آنے والے دنوں میں بھی ان حکمرانوں کے مظالم کی ایک نئی تاریخ رقم ہونے جا رہی ہے۔
پہلے ہی آئی ایم ایف کے سامراجی قرضے کی شرائط کے تحت ملک کے معاشی بحران کا تمام تر بوجھ بالواسطہ ٹیکسوں میں ہوش ربا اضافے، روپے کی قدر میں زبردست کمی، تیز ترین نجکاری، ترقیاتی بجٹ میں بڑی کٹوتیوں، عوامی اخراجات اور سبسڈیوں میں شدید کمی، بجلی اور گیس وغیرہ کے نرخوں میں زبردست اضافے اور سرکاری اداروں میں ڈاؤن سائزنگ کے ذریعے محنت کش عوام کے کندھوں پر لاد دیا گیا ہے۔ اب عالمی معاشی بحران کے زیر اثر ملکی معیشت کی متوقع مزید گراوٹ میں بھی تمام تر ”قربانی“ کرونا وائرس کے ہاتھوں مرتے عوام سے ہی لی جائے گی۔ نہ صرف آئی ایم ایف، ورلڈ بینک، امریکہ، چین و دیگر سامراجی ممالک اور عالمی کمرشل بینکوں سے لئے گئے بیرونی قرضوں کی بھاری سود سمیت ادائیگی زور وشور سے جاری رہے گی بلکہ ملکی بینکوں سے انتہائی بلند شرح سود پر اٹھائے گئے داخلی قرضوں اور ان کے سود کی ادائیگی میں بھی کوئی تعطل نہیں آنے دیا جائے گا۔ اور یہ سب جاری رکھنے کے لئے افلاس کی چکی میں پستے وبا زدہ عوام پر مزید بے رحمانہ معاشی حملے کئے جائیں گے۔ جبکہ دوسری طرف سرمایہ دار طبقے کومعاشی بحران کے اثرات سے بچانے کے لئے پہلے سے بھی بڑی سبسڈیوں، ٹیکس چھوٹ اوربیل آؤٹس سے نوازا جائے گا۔ اسی طرح فوجی اشرافیہ، ججوں، بیوروکریٹس اور دیگر اعلیٰ ریاستی اہلکاروں کی عیاشیاں بھی نہ صرف جاری رہیں گی بلکہ ان میں مزید تیزی آئے گی اور اس سب کا خرچہ اٹھانے کے لئے عوام کی ہڈیوں سے رہا سہا گودا بھی نچوڑا جائے گا۔ اور جب اسی سامراجی گماشتہ حکمران طبقے سے کرونا وبا کے حوالے سے انتہائی ناکافی اقدامات کے متعلق سوال کیا جائے گا تو یہ مگر مچھ کے آنسو بہاتے ہوئے وسائل کی کمی کا واویلا مچائیں گے اور کرونا وائرس کی روک تھام کی آڑ میں محنت کش طبقے، طلبہ اور مظلوم عوام کے آزادی اظہار رائے اور انجمن سازی کے حقوق پر مزید قدغنیں لگائیں گے تا کہ مستقبل قریب میں کسی عوامی بغاوت کے ممکنہ ابھار کو روکا جا سکے۔
ایسی صورتحال میں یہ مارکس وادیوں کا فریضہ ہے کہ وہ عبوری مطالبات پر مبنی ایک پروگرام محنت کش عوام کے سامنے پیش کریں جس پر عملدرآمد کی صورت میں نہ صرف کرونا وائرس کی وبا سے بخوبی نمٹا جا سکتا ہے بلکہ عوام کو معاشی ریلیف بھی دیا جا سکتا ہے۔ ہم حکومت وقت سے فوری طور پر درج ذیل اقدامات اٹھانے کا مطالبہ کرتے ہیں:
1۔ صحت پر ریاستی اخراجات میں اضافہ کرتے ہوئے اسے فی الفور جی ڈی پی کے کم از کم 10فیصد کے برابر کیا جائے۔ اس مقصد کے لئے درکار وسائل مہیا کرنے کے لئے کم از کم ایک سال تک تمام بیرونی و داخلی حکومتی قرضوں اور ان کے سود کی ادائیگی معطل کر دی جائے۔ تمام ملٹی نیشنل کمپنیوں، بڑے نجی کاروباری اداروں وصنعتوں اورنجی بینکوں پر عائد کارپوریٹ ٹیکس میں فوری طور پراضافے کے ساتھ ساتھ ایک خصوصی صحت ٹیکس بھی عائد کیا جائے۔ فوج کے تمام کاروباری اداروں پر بھی اسی طرح کا ہنگامی صحت ٹیکس لگایا جائے۔ طبقہ امرا پر عائد انکم ٹیکس میں بھی فوری طور پر اضافہ کیا جائے نیز ختم کر دیے جانے والے ویلتھ ٹیکس کو بھی بڑھا کر واپس نافذ کیا جائے۔ اسی طرح سرمایہ داروں، صنعتکاروں اور بینکاروں کو حاصل تمام ٹیکس چھوٹ اور سبسڈیوں کا فوری خاتمہ کیا جائے تا کہ یہ وسائل بھی کرونا کی وبا کیخلاف لڑائی کے مختص کئے جا سکیں۔ اگر سرمایہ دار طبقہ ”کاروبار میں مندی کی وجہ سے گنجائش نہیں ہے“ کا واویلا مچا کر ان اقدامات کی مخالفت کرے تو اسے کہاجائے کہ وہ اپنی کمپنیوں، بینکوں اور اداروں کے کھاتے پبلک آڈٹ کے لئے پیش کریں۔
2۔ حکومت کم از کم وبا کی مکمل روک تھام تک کے عرصے کے لئے تمام بڑے نجی ہسپتالوں اوردوا ساز کمپنیوں کو ریاستی کنٹرول میں لے تاکہ نہ صرف عوام کو ان کی منافع خوری سے محفوظ رکھا جا سکے بلکہ ان وسائل کا بہتر اور منظم انداز میں استعمال بھی کیا جا سکے۔ حکومت کو ادویات اور میڈیکل مشینری کی امپورٹ ایکسپورٹ کو بھی فوری طور پر ریاستی کنٹرول میں لینے کی ضرورت ہے۔ اسی طرح شہروں میں موجودہوٹلوں، خالی نجی عمارتوں، پلازوں اور دیگر کارپوریٹ بلڈنگز کو بھی عارضی طور پر ریاستی تحویل میں لیتے ہوئے میک شفٹ کرونا ہسپتالوں میں تبدیل کیا جائے۔ مزید برآں، شہروں کے مضافات میں واقع پوش رہائشی کالونیوں میں خالی پڑے سینکڑوں محل نما گھروں کو بھی عارضی ریاستی تحویل میں لیتے ہوئے آئیسولیشن سنٹرز میں بدلا جا سکتا ہے۔ اسی طرح، بڑے بڑے سرکاری ایوانوں کو بھی فوری طور کرونا کے علاج کے مراکز میں تبدیل کر دیا جائے۔ ہر متاثرہ شہری کو علاج کی تمام سہولیات مفت فراہم کی جائیں اور علاج کے دوران کھانے پینے کی سہولیات بھی حکومت کی جانب سے فراہم کی جائیں۔
3۔ ہر قسم کی ذخیرہ اندوزی کی روک تھام کے لئے سخت ترین اقدامات کئے جائیں اور اس گھناؤنے جرم میں ملوث افراد کو سمری ٹرائل کے بعد سزائے موت دی جائے۔ ضرورت پڑنے پر خوراک سمیت دیگر اشیائے ضرورت کی ہول سیل تجارت اور ترسیل بھی عارضی مدت کے لئے ریاستی تحویل میں لی جا سکتی ہے۔
4۔ تمام غیر لازمی پیداوار ی صنعتوں (آٹو انڈسٹری، الیکٹرانکس وغیرہ)، شعبوں اور نجی اداروں کو وبا پر قابو پائے جانے تک بند اور ان میں کام کرنے والے محنت کشوں کو پوری اجرت کیساتھ رخصت پر بھیجا جائے۔ اسی طرح، تمام غیر لازمی سرکاری اداروں کو بھی بند کر دیا جائے اور ان کے محنت کشوں کو تنخواہ کیساتھ چھٹی پر بھیج دیا جائے جس کا شمار ان کی پہلے سے مختص کردہ سالانہ چھٹیوں میں نہیں ہونا چاہئے۔ اسی طرح نجی تعلیمی اداروں کو پابند کیا جائے کہ وہ طلبہ کے ساتھ ساتھ اپنے سٹاف کو بھی بمعہ اجرت رخصت پر بھیجیں اور طلبہ کا تعلیمی سال ضائع ہونے کی صورت میں ان سے کوئی اضافی فیس وصول نہ کی جائے۔ فیکٹری مالکان کی طرف سے کرونا کی وبا اور معاشی بحران کا جواز بنا کر ڈاؤن سائزنگ کرنے پر سخت پابندی عائد کی جائے۔ اگر کوئی سرمایہ دار ایسا کرے تو فوری طور پر اس کی فیکٹری یا کاروباری ادارے کا پبلک آڈٹ کیا جائے اور اگر اس میں خسارہ ثابت نہ ہو تو بطور سزا اس کی فیکٹری قومی تحویل میں لے لی جائے۔ اسی طرح، اگر کسی لازمی پیداواری شعبے کا سرمایہ دار کسی بھی وجہ سے پیداوار بند کرے تو اس کی فیکٹری کو قومی تحویل میں لیتے ہوئے پیداوار جاری رکھی جائے۔ نجی و سرکاری شعبے میں تمام ڈیلی ویجز اور کنٹریکٹ ملازمین کو مستقل کیا جائے۔
5۔ پنجاب اور خیبر پختونخوا میں ایم ٹی آئی ایکٹ کو فی الفور واپس لیا جائے اور حکومت آئندہ ہسپتالوں کی نجکاری سے باز رہنے کی تحریری یقین دہانی کرائے۔ کروناکیخلاف جنگ میں فرنٹ لائن پر موجود شعبہ صحت کے محنت کشوں کو فی الفور بہترین معیار کی حفاظتی کٹس وافر مقدار میں مہیا کی جائیں۔ اسی طرح، لازمی پیداوار اور خدمات کے شعبے سے منسلک نجی صنعتوں اور سرکاری اداروں کے محنت کشوں کو بھی فوری طور پر عالمی معیار کی حفاظتی کٹس مالکان اور حکومت کی جانب سے فراہم کی جائیں تا کہ ان کی حفاظت یقینی ہو سکے۔ اسی طرح، لازمی پیداوار سے منسلک تمام نجی صنعتوں میں فوری طور پر ٹھیکیداری نظام پر پابندی عائد کی جائے اور صحت سمیت تمام لازمی خدمات سر انجام دینے والے سرکاری اداروں میں کام کرنے والے ڈیلی ویجز، ایڈہاک اور کنٹریکٹ محنت کشوں کو فی الفور مستقل کیا جائے تا کہ یہ محنت کش معاشی تحفظ پاتے ہوئے کرونا کی آفت کا بلند حوصلگی کیساتھ مقابلہ کر سکیں۔
6۔ نجی بینکوں کو پابند کیا جائے کہ وہ چھوٹے تاجروں و دیگر چھوٹے کاروباریوں،کسانوں اور عام صارفین کی طرف سے لئے گئے بینک قرضوں اور ان پر سود کی واپسی کو کم ازکم ایک سال کے لئے معطل کر دیں۔
7۔ فوجی اشرافیہ، ججوں، سول افسر شاہی، اراکین پارلیمنٹ اور دیگر اعلیٰ ریاستی حکام کو تنخواہوں کے علاوہ دی جانے والی تمام مراعات فی الفور اور مستقلاً واپس لے لی جائیں اور ان وسائل کو عوام کی فلاح وبہبود پر خرچ کیا جائے۔ تمام غیر دفاعی فوجی اخراجات کا مستقلاً خاتمہ کیا جائے اور ان وسائل کا رخ عوام کو صحت کی سہولیات مہیا کرنے کی طرف موڑا جائے۔
واضح رہے کہ مند رجہ بالا اقدامات میں سے کوئی ایک بھی ایسا نہیں ہے جسے اٹھانے کا اختیار آئین پاکستان کے تحت حکومت وقت کے پاس نہ ہو اور اگر حکومت یہ اقدامات کرنے سے قاصر رہتی ہے تو اس کا مطلب صرف یہی ہے کہ یہ حکومت اور ریاست عالمی و ملکی سرمایہ دار طبقے کی نمائندہ، خادم اور محافظ ہے۔ اس کا مقصد عوام کی جانوں کا نہیں بلکہ سرمایہ دار طبقے کی نجی ملکیت اور منافعوں کا تحفظ کرنا ہے۔ ایسی صورت میں ایک انقلابی تحریک برپا کرتے ہوئے صرف اس حکومت و ریاست کا نہیں بلکہ پورے سرمایہ دارانہ نظام کا ہی خاتمہ کرنا نہ صرف محنت کش عوام کا حق بلکہ تاریخی فریضہ بھی بن جاتا ہے۔ کیونکہ حقیقت تو یہ ہے کہ ذرائع پیداوار پر محنت کش طبقے کی اجتماعی ملکیت اور جمہوری کنٹرول پر مبنی ایک مزدور ریاست اور منصوبہ بند سوشلسٹ معیشت ہی پسے ہوئے عوام کو ذلت کی ان گہرائیوں سے نکال کر آرام و آسائش اور ترقی کی بلندیوں تک لے جا سکتی ہے۔