تحریر: |صبغت وائیں|
میرے سامنے اس وقت آل پاکستان پرائیویٹ سکولز فیڈریشن اینڈ پارٹنرز کا ایک اشتہار پڑا ہے۔ جو کہ ’’پرائیویٹ سکولوں کا مسئلہ۔ ۔یہ ہیں حقائق‘‘ کے نام سے ایک نجی سکولوں کے سلسلے، ایک فرنچائزوں کے سلسلے، ایک نجی گروپ آف کالجز، دو عدد نجی یونیورسٹیوں اور ایک عدد چینل کی ملکیت کے حامل اخبار میں چھپا ہے۔ اس میں بظاہر تو تمام نجی سکولوں کے مالکوں کا موقف جذبہ حب الوطنی میں بال بال ڈوبا نظر آرہا ہے۔ اس میں ان بے چارے مالکان کی طرف سے حکومت پاکستان پر، خاص طور پر پنجاب حکومت پر اور دیگر تمام صوبائی حکومتوں کو شدید تنقید کی زد میں رکھا گیا ہے۔ اور تمام کے تمام دانشورانہ، خطیبانہ اور صحافیانہ ہتھکنڈے استعمال کرتے ہوئے حکومتوں کی ایک ایک کمزور رگ کو اس طرح سے نمایاں کیا گیا ہے کہ حکومت کے پاس اس کے سوا کوئی چارہ نہ رہے کہ وہ ان سکول مالکان کی شرح منافع کو بڑھانے والی ہوس کے اس منہ زور اندھے گھوڑے کے سامنے کسی قسم کی رکاوٹ کھڑی کرنے کا سوچے بھی نہیں۔ ورنہ ان حکومتوں کی ان کوتاہیوں، خامیوں اور ناقص کار کردگیوں کے مزید اشتہار لگا دیں گے جن کی طرف ان سکولوں کے عقلمند اور محب وطن مالکوں نے ابھی صرف اشارہ ہی کیا ہے اور سب سے بڑھ کر مجھے تو یہی نظر آیا ہے کہ یہ مالکان یہی بتانا چاہ رہے ہیں، کہ’’ ہم سب کچھ جانتے ہیں اور ہم وہ سب کچھ عوام کو بتا دیں گے جس کی ہم تیس چالیس سال سے وطن کے اور اپنے مفاد کے لئے پردہ پوشی کر رہے ہیں‘‘۔۔ پہلی مرتبہ ایسا ہوا ہے کہ نجی سکولوں کے خلاف اپر مڈل کلاس کے طالبعلموں کے والدین کی طرف سے بھی احتجاج دیکھنے میں آیا ہے۔ جس پر حکومت نے مالکان کی طرف سے فیس میں کئے گئے بے جا اضافے پر روک لگا دی ہے۔ اس کے جواب میں سکولوں کے مالکان نے یہ والا اشتہارلکھوا کر ان حکومتوں کی ان ’’ناقص کارکردگیوں‘‘ پر شدید تنقید کی گئی ہے جن کو خود ان نجی اداروں ہی نے اپنے چینلوں اور اخباروں کو استعمال کرتے ہوئے خاص طور پر ناقص بنایا ہے۔
یہ سکول مالکان سارا الزام سرمایہ داروں کی حکومت پر ڈال کر خود کو صاف بری کروا گئے ہیں۔اب ہمارے سامنے مظلوم یا تو اپر مڈل کلاس کے طالبعلموں کے والدین ہیں یا پھر سکولوں کے مالکان۔ جن کے منافعے میں حکومت اور والدین اس طرح سے کٹس لگانے جا رہے ہیں گویا ان کی ہر سال ایک یا دوبرانچوں میں اضافے کی شرح میں کوئی کمی واقع ہو جائے گی۔ لیکن اصل ماجرا صرف اتنا ہے کہ ان مالکان پر لگایا گیا تمام تر ٹیکس والدین سے وصولنا ہے اور دوسرا اپنے ملازمین یعنی ٹیچروں کا استحصال شدید تر کرنا ہے۔ اس طرح یہ ضروری ٹھہرتا ہے کہ ٹیچر کا مقدمہ بھی سامنے رکھا جائے جو کہ والدین، بچے، سکول مالک اور ٹیچر سے بننے والی اس چوکور کا اہم ترین جزو ہے۔ جو کہ بنیادی مقصد کی تکمیل کرتا ہے۔ یعنی تعلیم دیتا ہے۔ میرے شہر گوجرانوالہ کے سب سے ’’اچھے ‘‘ سکولوں میں ایم اے پاس استاد کو ایک عام مزدور کی سرکار سے مقرر کردہ کم سے کم تنخواہ سے زیادہ نہیں ملتی۔ ملک کے سب سے نمایاں اور بڑے سسٹمز میں استاد کی تنخواہ ایک مزدور کی تنخواہ سے کم سے شروع ہوتی ہے، جو کہ سات سو روپیہ دیہاڑی لیتا ہے، اور ایک اینٹیں لگانے والے مستری سے زیادہ نہیں ہے۔ جو کہ ہزار سے بارہ سو روپیہ دیہاڑی لیتا ہے۔ اس اشتہار میں جگہ جگہ پر بحث کرنے کے چیلنج دیئے گئے ہیں۔ جگہ جگہ یہ کہا گیا ہے کہ ہم اتنے پیسے تو تنخواہوں میں دے دیتے ہیں۔ ’’پرکشش‘‘ تنخواہیں دیتے ہیں، ’’پروفیشنل‘‘ لوگوں کو رکھتے ہیں۔دس لاکھ اساتذہ (اور سٹاف) کے چالیس لاکھ بچوں کو ’’فری تعلیم‘‘ دیتے ہیں۔ بچوں کو ’’تعلیمی وظائف‘‘’’ دیتے ہیں‘‘۔ پنجاب میں ساٹھ فی صد بچوں کو نجی سکول تعلیم دیتے ہیں۔ وغیرہ۔۔۔ اور اگر ہمارے منافعوں پر روک لگائی گئی تو نجی تعلیم کا حال بھی سرکاری اداروں کی تعلیم والا ہو گا۔ ( سرکاری تعلیم تو غریب غربا ء حاصل کرتے ہیں لیکن مڈل کلاس کی تعلیم بھی ’’برباد‘‘ ہو جائے گی۔
یہاں ہم صرف ان سکول مالکان کی طرف سے کئے جانے والے سینکڑوں ظالمانہ اور جابرانہ ہتھکنڈوں میں سے صرف دو تین مثالیں دیں گے اور سکولوں کے مالکان کے تمام تنخواہ دار دانشوروں کے چیلنج قبول کریں گے : کہ وہ اپنے وہ دعوے سچ ثابت کریں کہ ان کی تعلیم کسی بھی طور سے سرکاری اداروں سے بہتر ہے۔ نجی اداروں کے ٹیچر سرکاری اداروں کے ٹیچرز سے زیادہ قابلیت کے حامل ہیں۔ نجی شعبے کے ٹیچرز کی پیشہ ورانہ یا تعلیمی استعداد سرکاری ٹیچرز سے بہتر ہے۔ میرٹ پر زیادہ نمبر لینے والے ٹیچرز نجی شعبے کو ترجیح دیتے ہیں۔ نجی میڈیکل کالجز اور نجی انجینئرنگ کالج سوائے اس کے کہ میرٹ سے نیچے رہ جانے والے نالائقوں کو ڈاکٹر اور انجینئر بنا رہے ہیں، کچھ اور اچھا کام بھی کر رہے ہیں۔ نجی میڈیکل کالج سرکاری میڈیکل کالجوں سے اور نجی انجینئرنگ کالج سرکاری انجینئرنگ یونیورسٹیوں سے بہتر ہیں۔ نجی شعبے کے سکول اور کالج مالکان کا مقصد شرح منافعے کو ہر ہتھکنڈے سے بڑھاتے چلے جانے کے علاوہ کوئی اور مقصد بھی ہے۔ نجی سکولوں اور کالجوں کی گھٹن بھری فضا سرکاری عمارتوں سے بہتر ہے۔ یہ کہ پاکستان کے کسی ایک بھی نجی ادارے کی تعلیم سرکاری اداروں سے بہتر ہے۔ جی آپ کو بتانا پڑے گا کہ کیسے بہتر ہے؟ اور تعلیم کی بہتری کا معیار ہے کیا؟ اور بہت سے چیلنج ان کو بھی کئے جا سکتے ہیں۔ لیکن ہم ان کا وہ استحصال دکھاتے ہیں جو یہ اپنے ٹیچرز کا کرتے ہیں۔ یہ لوگ اپنے ٹیچرز کو کم سے کم تنخواہ پر رکھتے ہیں اور ان کو یہ وجہ بتاتے ہیں کہ وہ ان اداروں میں آنے والے بچوں کو ٹیوشن پڑھا کر بہت کما لیں گے۔ یہ کسی بچے کو وظیفہ نہیں دیتے سوائے اس بچے کے جس کا نام انہوں نے بعد میں بینر پر لکھنا ہوتا ہے۔ یعنی جو بچہ پوزیشن حاصل کرتا ہے اس کو کوئی کار دے دیتا ہے کوئی نقد انعام وغیرہ۔ اور یہ صرف اپنی تشہیر ہی کے لئے ہوتا ہے کہ لائق بچے ان کے سکول میں آئیں اور یہ ان ایک دو لائق بچوں کو دکھا کے ہزاروں لوگوں کی جیبیں خالی کروا سکیں۔ سکول میں کام کرنے والوں کے بچوں کو بالکل مفت تعلیم ویسے ہی مفت ہے جیسے موبائل والے کہتے ہیں، تین سو منٹ مفت حاصل کریں۔۔۔ سو روپیہ جمع ٹیکس۔
صوبہ پنجاب کا یہ کالج جس کے اخبار میں اشتہار چھپا ہے، جو سرکاری سکولوں کے بہت سے بچے اپنامنفی پراپیگنڈا کر کے کھینچ کے لے جاتا ہے، اس کالج کے نام پر مشرومز کی طرح سے ابھرتی ہوئی فرنچائزوں میں کام کرنے والوں کا صرف پہلا بچہ بھی اس طرح سے مفت ہوتا ہے کہ اس کی صرف فیس مفت ہے۔ اس کا داخلہ وغیرہ ہر چیز ٹیچر کو دینا ہوتی ہے۔ ان فرنچائزوں میں اس گروپ آف کالجز کا ارب پتی نو دولتیا مالک سکول بیگ بھی بیچتا ہے اور یونی فارم بھی۔ ربڑ، پنسل، شارپنر، فٹے اور بیج بھی۔ ہر کتاب اور ہر کاپی اس کے مالک کی دکان سے خریدی جائے۔ اس کا بس چلے تو بچوں کی گولیاں ٹافیاں بھی اپنے مونو ہی کی کینٹینوں پر بیچنے کا کہہ دے۔ اور ہر ٹیچر کو وہ والی ہر چیز خریدنی لازم ہے جس کا منافع اصلی والے مالک کو جاتا ہے۔ اکثر ایسا دیکھا گیا ہے کہ ٹیچر بے چارے نے اپنے بچے ’’مفت‘‘ داخل کروانے کے لئے وہاں نوکری کی ہے۔ اور اس استحصال سے جان ہی نہیں چھڑوا سکی۔ کہ اپنی تنخواہ سے پانچ گنا تو خرچہ کر دیا ہے، اب نوکری چھوڑ کر کہاں جاؤں؟ اور اس طرح سکول کے مالک کے ہر استحصال کو چپ چاپ سہتی رہتی ہیں۔ اور جس نے نوکری چھوڑنی ہے۔ اس کے یا تو وہ تمام اخراجات بھاڑ میں گئے۔۔۔ وہ اگلے سکول میں پھر سے یہ خرچے کرے۔ اور یا پھر چپ چاپ اگلے سکول میں جاب کرے اور بچوں کی فیس دیتی رہے۔ یہ پہلے بچے کی بابت ہے۔ دوسرے کی فیس آدھی ہے اور تیسرے کی چوتھائی۔ چوتھے کی پوری۔ یعنی وہ ٹیچر جسے تنخواہ صرف دو سے تین بچوں کی دی جاتی ہے۔ یعنی پورے سکول میں صرف ایک شخص ہے جو کہ وہ کام کرتا ہے جس کے لئے بچے کو سکول بھیجا جاتا ہے۔اور اس کی تنخواہ تین بچوں کی فیس کے برابر ہے۔ہیڈ مسٹریس اور دیگر تمام عملے کی تنخواہیں۔ بجلی کے بل اور جنریٹر کا ایندھن۔ اشتہار میں بتائے گئے سرمائے کے حصول پر مالک کی طرف سے دیا گیا سود۔ جگہ کا کرایہ اور مالک کی مینجمنٹ کی تنخواہ بھی نکال لیں تو بھی سب سے زیادہ حصہ پھر مالک لے جاتا ہے۔ مثلاً بعض ایسے مالک ہیں جو کہ انتہائی دور دراز بیٹھے ہیں۔ اور جماعت کے بیس بچوں کی فیس انہیں جاتی ہے اور پڑھانے والی کو دو سے چار بچوں کی فیس۔اس پر بھی یہ لوگ احسان جتا رہے ہیں کہ ہم نے اتنا روزگار دیا ہے۔
یہ لوگ اس پر ہی بس نہیں کرتے۔ یہ ٹیچر کی تنخواہ کا ایک بڑا حصہ بطور ’’سیکیوریٹی‘‘ رکھ چھوڑتے ہیں۔ ان سے پوچھا جائے کہ سیکیوریٹی کیسی؟ تو کہتے ہیں کہ کہیں آپ چھوڑ نہ جائیں۔ میں ایک ایسی ٹیچر کو جانتا ہوں جس نے اپنے امتحان دے کر یہیں گوجرانوالہ کے ایک سکول میں ملازمت کی ہے۔ ایک ماہ کے بعد اس کو تنخواہ ملی ہے تو وہ اس تنخواہ کا آدھا تھا جس پر اس کو رکھا گیا تھا۔پوچھنے پر اس کو بتایا گیا ہے کہ تین ماہ تک اس کی آدھی تنخواہ بطور ’’سیکیوریٹی‘‘ کاٹی جائے گی۔ چھوتھے ماہ کی تنخواہ پوری دی جائے گی۔ اور اگر وہ ایک ماہ قبل بتائے بغیر جاب چھوڑے گی تو اس کی تنخواہ جو کہ اس نے محنت کر کے کمائی ہے۔ سکول کا مالک ہڑپ کر لے گا۔ اس طرح کی سینکڑوں نہیں ہزاروں نہیں لاکھوں ٹیچرز کی کئی کئی تنخواہیں یہ سکولوں کے مالکان ہڑپ کر چکے ہیں۔ اسی طرح دس تاریخ کو تنخواہ دینا بھی معمول ہے۔ آپ ایک ماہ دس دن کام کریں تنخواہ آپ کو تیس دنوں کی ملے گی۔ آپ کہیں انٹرویو دیں۔ بہتر جاب کے لئے پہلی کو چھوڑیں تو دس دن کے پیسے گئے۔ بہت سے سکول مالکان اپنے ملازموں کی ڈگریاں اور سرٹیفکیٹ بھی بطور سیکیوریٹی ضبط کئے رکھتے ہیں۔ میں ایک اور ایسی ٹیچر کو جانتا ہوں جس کے سکول کے مالک اس کو آگے پڑھنے کی اجازت نہیں دیتا تھا۔ کہ یہ پاس ہو گئی تو یا تو سکول چھوڑ جائے گی اور یا پھر یہ زیادہ تنخواہ کا تقاضہ کرے گی۔ بعد میں اس نے ٹیچر کو اس کا وہ رزلٹ کارڈ بھی نہیں دیا تھا جو کہ اس نے جمع کروایا تھا۔ کہا کہ گم ہو گیا ہے۔ تاکہ وہ امتحان نہ دے سکے۔
ہر بڑے سے بڑے نام والا سکول اپنی ٹیچرز کو گھر سے کر کے لانے والا کام ضرور دیتا ہے۔ یعنی تنخواہ ا س سات گھنٹے کے اوقات کار کے حساب سے طے کرتے ہیں پھر اس کے کام کو مسلسل بڑھاتے چلے جاتے ہیں۔ اس سے سکولوں کے دروازوں اور کھڑکیوں پر ’’آرٹ ورک‘‘ کروایا جاتا ہے۔ بچوں کی کاپیوں کا سارا کام ٹیچرز کرتی ہیں۔ ایک وقت میں وہ ایک بچے کی کاپی پر کام کرتی ہے باقی بچے الو بن کے بیٹھے رہتے ہیں۔ ان کی کاپیوں پر کارٹون بنانا تعلیم کا جزو سمجھا جاتا ہے۔ پھر بچوں کے منہ پر کیمکل والے رنگ ملا جاتا ہے۔ اب یہ ہر سکول نے شروع کر لیا ہے۔بچوں کی کاپیوں کے ظاہر کو ’’خوبصورت‘‘ بنانے کے لئے ٹیچر کو کہا جاتا ہے کہ اس پر کارٹون وغیرہ بنائے۔ سٹکر لگائے جاتے ہیں۔ اب یہ کام ٹیچر کے لئے اس قدر شدید کر دیا جاتا ہے کہ وہ سکول میں اسے مکمل نہ کر سکے تو اس کو کاپیوں کے انبار اٹھا کر گھر لے جانے کو دے دیئے جاتے ہیں۔ یہ محب وطن مالکان سکول خاص طور پر ’’ایچ آر‘‘ ہیومن ریسورس والوں کو اسی کام کے لئے رکھتے ہیں کہ وہ ان ٹیچروں کا ناک میں دم کر کے رکھیں۔ ہر وقت انہیں ٹینشن میں ہی رکھیں۔ اگر وہ اپنا کام مکمل کر لیں تو ان کا کام بڑھا دیں۔ اور بڑے پیار سے ان کو کہا جاتا ہے۔۔۔ ’’یہ آرگنائزیشن ہماری ہے۔۔ یہ ہمارے گھر کی طرح ہے۔۔۔ ہمیں اس کی ترقی کے لئے سوچنا چاہئے۔۔ ہمیں دل لگا کے کام کرنا چاہئے۔۔ ہمیں خوب خوب محنت کرنی چاہئے۔۔۔ اس کی ترقی ہو گی تو ہماری بھی ہوگی‘‘۔۔ جو کبھی نہیں ہوتی۔
گرمیوں کی چھٹیوں کی تنخواہ پہلے سال کی تو کبھی نہیں دی جاتی۔ اور زیادہ تر سکولوں میں ایک سال کے بعد پچھلے سال والی ٹیچر نکال دی جاتی ہیں۔ نئی بھرتی پہلے سے بھی کم تنخواہ پر تیار رہتی ہے۔جب کہ بچوں سے گرمیوں کی فیس ’دھروا ‘لی جاتی ہے۔ ایک بہت ہی بڑے ادارے نے جس کا پورے ملک میں ایک نام ہے، اس سال اپنے ٹیچروں کی تنخواہوں میں فیس میں اضافہ نہ ہونے کی وجہ سے اضافہ نہیں کیا۔ ان سے پوچھا جائے کہ کیا جتنا اضافہ وہ فیس میں کرتے چلے آئے ہیں اس تناسب سے تنخواہ میں اضافہ کرتے ہیں؟ گوجرانوالہ کا ایک سکول ایسا ہے جس میں ٹیچروں کو رکھنے کے انٹرویو سارا سال ہی چلتے رہتے ہیں۔ اس میں کیا راز ہے یہ زیادہ لوگ نہیں جانتے ان کے انٹرویو ختم ہی نہیں ہونے میں آتے۔ یہ لکھائی کے ٹیسٹ دینے والے سب افراد کو فیل کر دیتے ہیں پھر ان کو فون کر کے کہتے ہیں کہ اسسٹنٹ ٹیچر کی سیٹ کے لئے آجائیں تنخواہ ان کے سکول کی عام ٹیچر کی تنخواہ کا بیس فی صد ہو گی۔ بیچارے لوگ اس پر بھی تیار ہو جاتے ہیں۔ پھر ان میں سے لوگ چنے جاتے ہیں۔ نجی سکولوں والے تنخواہ پر کٹوتیاں لگانے کے بھی ماہر ہیں۔ جس مشہور گروپ آف کالجز کی فرنچائز کی اوپر بات کی ہے۔ اس کے سکول ہفتے میں پانچ دن لگتے ہیں۔ لیکن ٹیچرز کو ہفتے والے دن بھی بلایا جاتا ہے۔ وہ آ کر چاہے گپیں ہانک کر چلی جائیں لیکن مقصد صرف ان کو بلوانا ہی ہے۔ تا کہ ان میں سے کوئی نہ کوئی چھٹی کرے۔ اور جو چھٹی کر جائے اس کی ایک دن کی تنخواہ کاٹ لی جاتی ہے۔ میں ایک ایسی ٹیچر کو بھی جانتا ہوں جس نے اسی فرنچائز میں ایک ماہ میں ایک چھٹی بھی نہیں کی۔ تو اس کو اس چھٹی کی تنخواہ جو کہ وہ بطور حق کر سکتی تھی ’’بونس‘‘ کہہ کے دی گئی۔ اس بے چاری کو یہ معلوم ہی نہیں تھا کہ یہ تنخواہ تو اس نے کام کر کے لی ہے۔ بونس کیسے ہو گئی؟
اسی طرح ان سکولوں کے دیگر ملازمین کا حال بھی کچھ اچھا نہیں ہے۔ وہ سکول جن میں یہاں کی ’’ایلیٹ‘‘ اپنے بچے پڑھواتی ہے۔ اس قدر گھٹیا حرکتیں کرتے ہیں کہ سوچ کے شرم آجائے۔ یہ لوگ لائبریرین سے، میوزک ٹیچر سے اور لیب انچارج سے کلاسیں تو پڑھواتے ہی ہیں۔ ڈرائیوروں سے چوکیداری کرواتے ہیں، کینٹین چلواتے ہیں اور اور باہر کے سودا سلف لانے کا کام بھی کرواتے ہیں۔ اسی سکول میں ایک سپورٹس ٹیچر سے پرنسپل نے گراؤنڈ میں آکے پوچھا ، پرنسپل: یہ کیا ہو رہا ہے۔ یہ بچے کیا کر رہے ہیں؟ سپورٹس ٹیچر: میڈم، کرکٹ کھیل رہے ہیں۔ پرنسپل: اچھا۔۔۔ تو وہ بچے کیا کر رہے ہیں؟ سپورٹ ٹیچر: میڈم وہ فیلڈنگ کر رہے ہیں۔ پرنسپل: اور یہ بچے کیوں یہاں بیٹھے ہیں؟ سپورٹ ٹیچر: یہ اپنی باری کا انتظار کر رہے ہیں۔ پرنسپل: نہیں۔۔۔ یہ نہیں ہو گا یہاں۔ کوئی فارغ نہیں بیٹھے گا۔ ٹیچر: تو میڈم۔۔۔یہ کرکٹ ہے۔۔یہ کیا کریں پھر؟ پرنسپل: کچھ نہیں انہیں کہو یہ بھی فیلڈنگ کریں۔۔ چلو بچو اٹھو بھاگو فیلڈنگ کرو۔۔ پرنسپل یہ حکم صادر کر کے یہ جا اور وہ جا۔۔۔ سپورٹس ٹیچر بے چارے نے ہنستے ہوئے پرنسپل کا یہ لطیفہ سنایا۔ اور یہ ایک پرنسپل نہیں۔ کیوں کہ پرنسپل تو پھر چار جماعتیں پڑھی ہوتی ہے۔ سکولوں کے مالکان اس سے بھی بڑے لطیفے روز چھوڑتے ہیں۔ اتنے ہیں کہ ان پر ایک کتاب تو آرام سے لکھی جا سکتی ہے۔کیوں کہ اکثر مالکان تعلیم سے بس نام کی حد تک ہی واقف ہوتے ہیں۔البتہ دوکاندار اچھے ہوتے ہیں۔ اسی ’’ایلیٹ‘‘ سکول کے بارے میں مشہور ہے کہ اپنے ملازموں کو’’اچھی‘‘ تنخواہ یعنی راج، مزدور اور مستری والی تو دیتا ہے،لیکن یہ کام بھی لیتا ہے۔ یہ لوگ ’’کام‘‘ کا کہہ کر اکثر اپنے ٹیچروں اور دیگر ملازموں کو شام پانچ پانچ بجے تک سکول میں روک لیتے ہیں۔ اس کے علاوہ کسی بھی چھٹی پر بلوا لیتے ہیں۔ اس فاضل وقت کا ان کو ایک روپیہ بھی نہیں دیا جاتا۔ اور ان بے چارے لوگوں نے اپنی چھٹی کی جو مصروفیات سوچ رکھی ہوتی ہیں۔ انہیں یہ ظالم سکول کی پالیسی کا نفاذ کرنے والے کچل کے رکھ دیتے ہیں۔ اور یہ عام بات سمجھی جاتی ہے۔ جس ٹیچر کی آدھی تنخواہ سیکیوریٹی کے نام پر کاٹ لی گئی ہے اس کو سیر پر جانے کا کہا جا رہا ہے کہ بچوں کو لے کر سیر پر جائیں گے اور وہاں لنچ بھی کروائیں گے گھر سے پندرہ سو روپیہ لے کر آ جاؤ۔ ایک فاسٹ فوڈ شاید کسی ملٹی نیشنل سے کروائیں گے اور ایک کسی ریستوران میں سے۔ اب مسئلہ یہ ہے کہ وہ ٹیچر بے چاری گھریلو حالات سے مجبور وہاں جاب کرنے آئی ہے۔اس کے بار بار کہنے پر بھی کہ وہ نہیں جانا چاہتی اس کو حکم دیا گیا ہے کہ وہ ضرور جائے گی۔ ابھی اس کو پہلی تنخواہ ہی اس طرح سے ملی ہے کہ اس سے وہ نہ تو سکول والوں کی ڈیمانڈ کے مطابق کپڑے بنوا سکی ہے اور نہ ہی وہ اس طرح کا جوتا خرید سکی ہے۔ جیسا کہ سکول والے چاہتے ہیں۔ اپنے رکشے کے پیسے دے کر اس کے پاس کچھ خاص بچے بھی نہیں کہ ان پیسوں سے زیادہ جو کہ اس کے پاس بچے ہیں، سکول والوں کا حکم آگیا ہے کہ سکول میں جمع کروا دیں۔ ’’لنچ‘‘ اور ’’ڈنر‘‘ ہو گا۔ اب لوئر مڈل کلاس کی لڑکیاں اگر یہ عیاشیاں کر سکتیں جو کہ ان سکولوں کے بچوں کے لئے معمول ہے جو کہ اس کو ملنے والی تنخواہ سے کہیں زیادہ فیس دیتے ہیں، تو وہ ان کے سکول میں جاب لینے کیوں آتیں؟ وہ بے چاری اپنے گھر والوں کا سہارا بننے کے لئے آئی ہے اور یہ اسے ’’فاسٹ فوڈ‘‘ کی امریکن چین کو اور ایک اور سرمایہ دار کے ریستوران والے کو اپنی تنخواہ کا پندرہ سے بیس فی صد دینے کو کہہ رہے ہیں۔ یہ کس منہ سے کہہ سکتے ہیں کہ یہ روزگار دے رہے ہیں؟
یہ لوگ جو کہ جذبہ حب الوطنی سے سرشار نظر آرہے ہیں اپنے مفاد میں اکٹھے ’’فیڈریشنز‘ ‘ وغیرہ کی صورت میں متحد نظر آ رہے ہیں، ان کی اصلیت وہی ہے جو کہ کسی بھی دوکاندار کی ہو سکتی ہے۔ انہیں اچھی طرح معلوم ہے کہ یہ دوکاندار ہیں۔ ایک کا فائدہ دوسرے کا نقصان ہے۔ ان کی حب الوطنی کا ایک نظارہ تو ہم نے یہ دیکھا ہے کہ انہوں نے اپنے اشتہارات اور اپنے منفی پراپیگنڈے سے اپنی ہی سرکار۔۔ اپنے وطن پاکستان۔۔ اپنی ریاست کے سب سے اہم اداروں یعنی تعلیمی اداروں کو نقصان پہنچایا ہے۔ میں زیادہ پرانی بات نہیں کرتا اسی اشتہار میں سے ان کے فقرے دیکھ لیجئے ان کی ذہنیت کا علم ہو جائے گا۔ مثال کے طور پر انہوں نے جلی حرفوں میں اپنے اشتہار میں یہ لکھا ہے: ’’نجی سکولوں کا وہی حال ہو گا جو سرکاری سکولوں کا ہو چکا ہے۔ جس کے پاکستانی قوم کے مستقبل پر اثرات نہایت بھیانک ہو سکتے ہیں۔ ذرا سوچئے!‘‘ کیا ہے یہ؟ کیا حال ہوا ہے سرکاری سکولوں کا؟ یعنی جو لوگ سرکاری سکولوں میں اپنے بچوں کو پڑھاتے ہیں ان کے بچے پاکستان کے مستقبل کے لئے بھیانک ثابت ہوں گے؟ یہ دھمکی ہے یا پھر سے سرکاری سکولوں کے خلاف ایک اقدام؟ ہم مانتے ہیں کہ سرکاری سکولوں میں سہولیات کی بہت کمی ہے۔ لیکن آپ کے ان نجی سکولوں نے بھی کرکٹر سلمان بٹ سے بڑی کون سی پراڈکٹ دی ہے اس ملک کو؟ آپ نے سکولوں کو اور معیار تعلیم کو ’’اچھا ‘‘ کرنے کے لئے تجاویز دی ہیں۔۔۔ کیوں نہ ہم ہی کچھ تجاویز دے دیں؟ جو آپ کی تجویز کی طرح مضحکہ خیز نہیں ہیں۔ بلکہ کہیں زیادہ عملی ہیں اور حقیقت کے قریب بھی۔
آپ کی حب الوطنی تو ہم سب اچھی طرح سے جانتے ہیں۔ آپ لوگوں کے سکول اور کالج کے نوٹس اور وہ والی گدڑ سنگھیاں اور ٹوٹکے کسی طالب علم کو کسی دوسرے ادارے کو دکھانے کی اجازت نہیں ہوتی۔ آپ کے ’’پروفیشنل‘‘ ’’استاد‘‘ اسی حد تک پروفیشنل ہیں کہ ان کے نوٹس کی فوٹو کاپی وطنِ عزیز کا کوئی ایسا غریب سپوت نہ کروا لے جس کے پاس آپ کے سکول یا کالج کی فیس دینے کو پیسہ نہیں اور وہ سرکاری سکول میں پڑھتا ہے۔ آپ کے ’’پروفیشنلز‘‘ کا پروفیشنلزم یہیں تک ہے کہ وہ اپنے طالبعلموں کو قسمیں دلوا دلوا کر نمبر لینے کے گْر اور تعویذ دیتے ہیں کہ وہ کسی ایسے کو نہیں دیں گے جس نے اس کالج کی فیس نہیں دی۔ آپ ہمیں صرف اسی ایک بات کا جواب دے دیجئے کہ اگر آپ کی تعلیم واقعی اچھی ہے۔ اور ہم مانتے ہیں کہ تعلیم اچھی چیز ہی ہے۔ تو اگر اسے ہمارا دشمن بھی لے اڑے تو کیا ہو جائے گا؟ مجھے یقین ہے کہ اگر ہم اچھے ہیں۔ اور ہمارا دشمن برا ہے۔ تو تعلیم جیسی اچھائی ملنے پر وہ اچھا ہو جائے گا۔ اور اچھا ہونے کی بنا پر وہ ہمارا یعنی اچھوں کا دشمن نہیں رہے گا۔ لیکن آپ جو کہ مادر وطن کے تحفظ کا اور اس کی حرمت کا دعویٰ کر رہے ہیں، مادر وطن کے رہنے والوں ہی کو تعلیم جیسی اچھائی، آنے پائی کے دام لے کے بیچ رہے ہیں؟ اور اس پر بھی طْرہ یہ ،کہ قسمیں کھلواتے ہیں کہ کسی ہم وطن، ہم زبان، ہم مذہب کو نوٹس کاپی نہ کروانے دیئے جائیں؟ کیا میری یہ باتیں من گھڑت ہیں؟ چلیں میرے ساتھ پورے ملک میں نجی سکولوں اور کالجوں کی یہ والی حب الوطنی بکھری پڑی ہے میں دکھاتا ہوں۔ اس سے کون سا مستقبل آپ دے رہے ہیں؟ کیا یہ وہی تاریخ پھر سے نہیں بنا رہے کہ شودر اگر تعلیم کے الفاظ سن لیں تو ان کے کانوں میں پگھلا ہوا سیسہ ڈال دیا جائے؟ کیا یہ حرکت دین کے مطابق ہے؟ یقیناًنہیں۔ خاص طور پر اگر کسی کا دین واقعی روپیہ کمانا نہیں ہے تو۔ دین میں تو ہم دوسرے کے لئے وہ پسند کرتے ہیں جو اپنے لئے۔ لیکن یہاں ایک بھائی کا بیٹا جو نجی کالج یا سکول میں پڑھتا ہے، وہاں سے قسم کھا کے آتا ہے کہ میں اپنے باپ کے بھائی کے اس بیٹے کو یہ نہیں دوں گا، جو سرکاری سکول میں پڑھتا ہے۔
آپ کی سو تجویزوں کے لئے میرے پاس صرف ایک تجویز ہے۔ آپ نے کہا ہے کہ ہماری سرکار اپنے سرکاری سکول آپ لوگوں کی ’’سرپرستی‘‘ میں دے دے؟ تاکہ یا تو آپ ان کا واقعی بیڑاغرق کر دیں! اور یا پھر آپ ان کی فیس وغیرہ بڑھا کر استادوں کا استحصال کر کے وہاں سے اپنا منافع بڑھا سکیں، اور غریب لوگوں کے لئے تعلیم کو وہی والے مذہبی اشلوک بنا دیا جائے جن کے سننے پر کانوں میں سیسہ ڈالا جاتا تھا؟ میری تجویز یہی ہے کہ حکومت تمام کے تمام نجی سکولوں کو نیشنلائز کر لے۔ ایک ہی دن میں اور ایک ہی آن میں۔ پھر وہی ہو گا جو آپ چاہتے ہیں۔ یا ہم چاہتے ہیں۔ وزیراعظم کا بچہ بھی وہیں پڑھے گا جہاں فقیر کا۔ آپ اپنی خدمات منافعے کے عوض دیتے ہیں۔ میں قومیائے گئے سکولوں کا انتظام کرنے کے لئے اپنی خدمات مفت میں دیتا ہوں۔ اگر حکومت یہ نہیں کر سکتی تو فیسوں پر نگرانی کرنا بہر حال حکومت کا کام ہونا چاہئے۔ میری تجویز ہے کہ فیسوں کی کوئی حد مقرر کی جائے۔ حکومت نے تو صرف یہ دیکھا ہے کہ یہ لوگ فیس میں کس شرح سے اضافہ کر رہے ہیں۔ انہیں چاہئے کہ یہ بھی دیکھیں کہ ایک سکول کی فیس چھ سو روپے اور ایک کی ساٹھ ہزار روپے کیوں ہے؟ فیسوں میں یہ تفاوت ختم کرے۔ سب کی فیس چھ سو نہیں تو ایک ہزار کر دی جائے۔ تعلیم کے بجٹ کو بڑھا کر کچھ رقم اس کی سبسڈی میں دی جا سکتی ہے۔
Pingback: Lal Salaam | لال سلام – تدریسی مزدور اور تعلیم