رپورٹ: |ریڈ ورکرز فرنٹ، ملتان|
ملک کے دیگر علاقوں کی طرح پنجاب کے جنوبی علاقے مظفر گڑھ میں بڑے پیمانے پرکپاس کاشت کی جاتی ہے۔ کپاس بڑے پیمانے پر برآمد بھی کی جاتی ہے اور اس سے علاقے کے لوگوں کا ذریعہ معاش بھی وابستہ ہے۔ جہاں زمیندار کپاس سے پیسہ کماتاہے وہیں غریب کھیت مزدور بھی اس فصل سے اپنا رزق حاصل کرتے ہیں۔ جہاں مرد کپاس کے کھیتوں میں سپرے کرتے ہیں وہیں عورتیں کپاس کو چُنتی ہیں۔ کپاس کی چُنائی کے شروع ہوتے ہی خواتین صبح سویرے ہی جلدی جلدی گھریلو کام سے فارغ ہو کر کھیتوں کی طرف چلی جاتی ہیں تاکہ کپاس چُن کر پیسے کما سکیں۔
بچوں والی خواتین اپنے بچوں کو ساتھ لے جاتی ہیں اور کپاس چُنتے وقت بچوں کو پگڈنڈی پر لٹا دیتی ہیں۔ جو بچوں کیلئے خطرے سے خالی نہیں ہوتا۔ سانپ اور دیگر حشرات الارض سے بچوں کو نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہوتاہے۔ ایسے میں ان مزدروخواتین کی توجہ کپاس چننے پر کم ہوجاتی اور بچوں کے رونے پر انہیں بچوں کو چپ کرانا پڑتا۔ ان کھیت مزدور خواتین کے ساتھ ایک ظلم یہ بھی روا رکھا جاتا ہے کہ انہیں ان کے کام کی اجرت بہت کم ملتی ہوتی۔ دوروپے فی کلوگرام کے حساب سے چنائی کرنے والی خواتین بچوں کے ساتھ مل کر آٹھ سے دس کلو کپاس چن پاتی ہیں جس کا پورے دن کا معاوضہ20روپے سے زیادہ نہیں بنتا۔ اگر کسی وجہ سے وہ اگلے دن کام پر نہ آسکیں تو بیس سے چالیس روپے کی اس مزدوری بھی سے ہاتھ دھوناپڑجاتا۔ کارکن کسان خواتین کو مجبورکیا جاتا کہ وہ ایک چنائی کے بعد دوسرے دن بھی کام پہ آئیں۔ اگر وہ نہ آئیں تو ان کو پہلی اجرت سے بھی محروم رکھا جاتا۔
زہرہ اسماعیل جن کا تعلق کوٹلہ گانموں سے ہے، کہتی ہیں کہ بچوں کے ساتھ ہم دو تین گھنٹے ہی کام کرپاتے ہیں۔ زیادہ کوشش بھی کریں تو چار گھنٹے سے اوپرکام نہیں کر سکتیں۔ ایک طرف کپاس کی چنائی اور دوسری طرف بچوں کی دیکھ بھال۔ اس دوران ہمارے ساتھ بچوں کو بھی بخار اور خارش کی بیماری لگ جاتی۔ کام بہر حال کرناپڑتا ہے کہ اگر کمائیں گے نہیں تو کھائیں گے کہاں سے؟ کپاس کا موسم نہ ہو تو ہم دوسری مزدوری ڈھونڈتے ہیں، چھابیاں بنانا، چارپائی کے بان اور ہاتھ والے پنکھے بنانا شروع کر دیتے ہیں۔ یہاں پر بھی کم بِکتی ہیں کیونکہ ادھر سب غریب لوگ ہیں جو کہ سب اپنی اپنی بناتے ہیں۔ اس لیے کپاس کی فصل جب آتی ہے توہمارے لیے ایک امیدلے کرآتی ہے کہ اس سے ہمیں نقد آمدنی آئے گی۔ لیکن پورے تین ماہ کا م کرنے کے بعد بھی پوری اجرت نہ ملے یامالک کھا جائے توبہت دکھ ہوتاہے۔ ہم اپنے گھر کی ضرورتوں اور اخراجات کیلئے ہی کام کرتے ہیں۔ ہم بچوں کو تعلیم نہ دے سکیں لیکن انہیں کھانا تو کھلا ئیں نا۔
کپاس کے دنوں میں ہماری بیٹیاں بھی سکول چھوڑ دیتی ہیں۔ کیونکہ اگر میں بیس روپے کی مزدوری کرتی ہوں تو اتنے ہی بیٹی بھی کما لیتی ہے جس سے ایک دن کی ہانڈی تو ہم پکا لیتے ہیں۔ خاوندکی مزدوری بھی کبھی لگتی ہے تو کبھی نہیں۔ اس صورت میں کوشش ہوتی ہے کہ کچھ نہ کچھ کمالیاجائے۔ گندم کی کٹائی بھی کرتے لیکن اس سے اتنی گندم بھی فراہم نہیں ہوپاتی کہ سال بھر کا آٹا پورا ہو سکے۔ روز کا گھر کا کھانا ہی بمشکل پکاتے ہیں۔ زیادہ اجرت مانگنے کی تو بات ہی محال ہے۔ جو ملتی ہے لے لیتے ہیں۔ دکھ ضرورہوتاہے جب کم ملتی یا نہیں ملتی۔ کپاس کی چنائی کی اجرت کون بڑھائے گا؟حکومت کے بندے اور پولیس والے جب مالکوں کو جھُک جھُک کر ملتے اور سلام کرتے ہیں لیکن ہمیں دیکھتے ہی منہ دوسری طرف پھیر لیتے ہیں۔ ہم کس کے آگے اپنا رونا روئیں؟ جب کوئی سُنتا نہ ہو تو بات ہی کیا کرنی؟