|تحریر: آفتاب اشرف|
پاکستان کے محنت کش عوام پر ہونے والے معاشی حملوں میں ہر گزرتے دن کے ساتھ شدت آ رہی ہے۔ آئی ایم ایف کے ساتھ ہونے والے خون آشام سامراجی معاہدے کے تحت ملک کا حکمران طبقہ معاشی بحران کا تمام تر بوجھ محنت کش طبقے کے کندھوں پر منتقل کر رہا ہے۔ آئے روز بجلی، گیس اور پیٹرول کی قیمتوں میں اضافہ کیا جا رہا ہے۔ عوام پر بالواسطہ ٹیکسوں کی بھر مار کر دی گئی ہے جن میں عنقریب مزید اضافہ بھی کیا جائے گا۔ روپے کی قدر میں گراوٹ سے افراط زر آسمان کو چھو رہا ہے اور غریب آدمی مہنگائی کی چکی میں پس کر رہ گیا ہے۔ سرکاری ہسپتالوں، تعلیمی اداروں، واپڈا، پی آئی اے، اسٹیٹ لائف سمیت درجنوں اداروں پر نجکاری کا ایک بھیانک حملہ جاری ہے۔ معاشی بحران کی وجہ سے ملکی منڈی کی قوت خرید میں بڑی کمی واقع ہوئی ہے جس کا ناگزیر نتیجہ بڑے پیمانے پر فیکٹریوں کی بندش اور کاروبار کی تباہی کی صورت میں نکلا ہے۔ ان سب عوامل کی وجہ سے جہاں ایک طرف بیروزگاری میں بڑے پیمانے پر اضافہ ہوا ہے وہیں دوسری طرف حقیقی اجرتوں میں زبر دست کمی بھی ہوئی ہے۔ مگر یہ سب کا کوئی یک طرفہ عمل نہیں ہے اور ایسا نہیں ہے کہ محنت کشوں نے ان تمام حملوں کو تقدیر کا لکھا سمجھ کر قبول کر لیا ہو۔ اس کے برعکس محنت کش طبقے کے مختلف حصوں اور پرتوں کی جانب سے قابل ذکر مزاحمت دیکھنے میں آ رہی ہے جس کا دائرہ کار اور شدت وقت کے ساتھ ساتھ بڑھتی جا رہی ہے۔ گو کہ فی الوقت ملک کے سیاسی و سماجی افق پر نظر آنے والی ایک متحد مزدور تحریک تو موجود نہیں ہے لیکن سطح کے نیچے چیزیں تیزی کے ساتھ اسی جانب آگے بڑھ رہی ہیں۔ یہ ساری صورتحال محنت کشوں کی ہر اول لڑاکا پرتوں کے سامنے بہت سارے نئے چیلنجز اور سوالات بھی پیش کر رہی ہے جن سے نپٹنے میں ان کو مدد فراہم کرنا مارکس وادیوں کا سیاسی و نظریاتی فریضہ ہے اور یہی اس تحریر کا بنیادی مقصد بھی ہے۔
مزدور قیادت کا سوال
پاکستان میں مزدور تحریک کی بڑھوتری اور باہم جڑت کے راستے میں سب سے بڑی رکاوٹ بذات خود مزدور قیادتیں ہیں جن کی ایک بھاری اکثریت مزدور تحریک میں حکمران طبقے اور ریاستی اشرافیہ کی براہ راست دلالی کر رہی ہے۔ یہ مزدور لیڈر نہیں بلکہ چھوٹے چھوٹے ذاتی مفادات پر بکے ہوئے بزدل، کرپٹ اور مفاد پرست غداروں کا ایک ٹولہ ہے جو محنت کش طبقے کے کندھوں پر سوار ہے۔ ان کی ایک بڑی اکثریت تو باقاعدہ حکمرانوں اور مالکان کو پلاننگ کر کے دیتی ہے کہ کس طرح محنت کشوں کو زیادہ بہتر طریقے سے دھوکہ دیا جا سکتا ہے۔ یہ لوگ اپنے آقاؤں کے حکم پر محنت کشوں کو حکومت اور ریاست کی نام نہاد طاقت سے ڈرانے، ان میں بد حوصلگی اور مایوسی پھیلانے، مزدور تحریک کو گول دائروں میں گھمانے اور لایعنی مذاکرات میں الجھاکر تھکانے کے ماہر ہیں اور ان حربوں کا استعمال کرتے ہوئے کئی ایک جرات مند تحریکوں کی پیٹھ میں چھرا گھونپ چکے ہیں۔ اگر کبھی ان کو مجبوراً حرکت میں آنا بھی پڑے تو اس کی وجہ یا تو نیچے سے پڑنے والا دباؤ ہوتا ہے یا پھر اپنی لیڈری اور کرپشن کو بچانے اوراپنی قیمت بڑھوانے کا لالچ۔ ایک لمبے عرصے تک مزدور تحریک کو غیر نظریاتی رکھنے کے جرم میں بھی ان لوگوں کا ایک اہم کردار ہے جس کا نتیجہ یہ ہے کہ آج مزدور تحریک اپنے سیاسی و معاشی نظریات(سوشلزم) سے محروم ہو چکی ہے اور اسی کمزوری کا فائدہ اٹھا کر یہ لیڈران نہ صرف تحریک کی طبقاتی جڑت کے آڑے آ رہے ہیں، محنت کشوں کے طبقاتی شعور کی بڑھوتری میں رخنہ انداز ہیں بلکہ دھڑلے کے ساتھ تحریک سے کھلی غداریاں بھی کر رہے ہیں۔ اس تمام صورتحال کے نتیجے میں یہ بات وثوق سے کہی جا سکتی ہے کہ پاکستان کی مزدور تحریک ان غدار قیادتوں سے نجات حاصل کئے بغیر آگے نہیں بڑھ سکتی۔ وقت آ گیا ہے کہ ان غلیظ لوگوں کو دھکے مار کر تحریک سے نکال باہر کیا جائے اورمحنت کشوں کی ہر اول لڑاکا پرتوں سے نئی، ایمان دار، دلیر اور جرات مند قیادت ابھر کر سامنے آئے۔ یقیناً تطہیر کا یہ عمل کسی لگے بندھے فارمولے کے تحت نہیں کیا جا سکتا بلکہ یہ جدوجہد کے دوران ہی وقوع پذیر ہو گا۔ مارکس وادیوں کا فریضہ ہے کہ وہ اس پورے عمل میں طبقے کی ہر اول لڑاکا پرتوں کے شانہ بشانہ کھڑے رہیں، ان کی نظریاتی تعلیم و تربیت کریں اور پرانی قیادتوں کا قلع قمع کرنے میں ان کو ہر ممکن مدد فراہم کریں۔
سیاسی پارٹیوں سے ہوشیار
پاکستان کے سیاسی افق پر نظر آنے والی تمام سیاسی پارٹیاں محنت کش طبقے کی دشمن ہیں۔ یہ سب ملکی سرمایہ دار طبقے اور عالمی سامراجی مالیاتی اداروں کی دلال ہیں۔ ان میں سے ہر ایک نے اپنے اپنے دور حکومت میں محنت کشوں پر مہنگائی، بیروزگاری، نجکاری، ٹیکس اضافوں اور ٹریڈ یونین تحریک پر پابندیوں کی صورت میں بدترین حملے کئے ہیں۔ یہ تمام پارٹیاں سرمایہ دارانہ نظام پر ہی یقین رکھتی ہیں اور لبرل و مذہبی کے لیبل سے قطع نظر سرمایہ داری کو ہی ازلی و ابدی نظام مانتی ہیں۔ یہ جب اپوزیشن میں ہوتی ہیں تو سیاسی پوائنٹ سکورنگ کے لئے محنت کشوں کے ساتھ ہمدردی کا ڈھونگ رچاتی ہیں لیکن اقتدار ملتے ساتھ ہی تحریک انصاف کی موجودہ حکومت کی طرح ان کی مزدور دشمن اصلیت کھل کر سامنے آ جاتی ہے۔ محنت کشوں کی ہر اول لڑاکا پرتوں کے ساتھ ساتھ طبقے کی ایک بھاری اکثریت بھی ان تمام پارٹیوں کے مزدور دشمن کردار کے حوالے سے خاصی حد تک واضح ہو چکی ہے لیکن ابھی بھی مزدور تحریک کی نظریاتی کمزوری کے سبب ’دشمن کا دشمن، دوست ہوتا ہے‘ اور ’وقتی ضرورت کے تقاضوں کے تحت‘ جیسی باتیں بعض اوقات سننے کو ملتی ہیں جن کی آڑ میں ان پارٹیوں کا سہارا لینے یا انہیں مزدور تحریک میں دخل اندازی کرنے کی اجازت دی جاتی ہے۔ اس کام میں حسب توقع مفاد پرست اور غدار ٹریڈ یونین قیادتیں پیش پیش ہوتی ہیں لیکن کئی دفعہ جرات مند اور لڑاکا محنت کش بھی ان مغالطوں کا شکار ہونے لگتے ہیں۔ ہم خبر دار کرتے ہیں کہ ان سیاسی پارٹیوں کے قریب پھٹکنا بھی مزدور تحریک کے لئے تباہ کن ثابت ہو سکتا ہے۔ اس سلسلے میں پیش کیا جانے والا کوئی بھی جواز بوگس، جھوٹا اور غلط ہے۔ ماضی میں کئی ایک مزدور تحریکیں اسی طرح تباہ ہو چکی ہیں۔ محنت کشوں کو اپنے طبقاتی مفادات کی لڑائی صرف اور صرف اپنے زور بازو پر لڑنی ہو گی۔ اس لڑائی میں یا تو ایک مزدور دوسرے مزدور کا دوست اور ساتھی ہو سکتا ہے یا پھر بائیں بازو کے وہ سیاسی کارکن جو اپنی زندگیاں مزدور نظریات (سوشلزم) کے فروغ اور سرمایہ دارانہ نظام کے خاتمے کی جدوجہد کے لئے وقف کر چکے ہیں۔ وقت کا تقاضہ ہے کہ تمام اداروں اور نجی صنعتوں کے محنت کش مشترکہ مطالبات پر مبنی ایک عمومی پروگرام کی بنیاد پر ایک متحد ملک گیر مزدور تحریک کو پروان چڑھائیں۔ یاد رکھیے، محنت کش طبقہ خود اپنے آپ میں سماج کی سب سے بڑی طاقت ہے۔ اسے کسی سہارے کی ضرورت نہیں۔ بس صرف اسے اپنی طاقت کا احساس نہیں ہے۔ اس احساس کو جنم دینے میں جہاں ایک طرف بذات خود جدوجہد کے عمل کا انتہائی اہم کردار ہے وہیں دوسری طرف شعوری طور پر یہ احساس بیدار کرنا مارکس وادیوں کا اہم فریضہ ہے۔
ریاستی اداروں کی اصلیت
سرمایہ دارانہ ریاست کے وجود کا مقصد ہی سرمایہ دار طبقے کے مفادات کی نگہبانی کرنا ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ فوج، پارلیمان، عدلیہ، پولیس سمیت ریاست کا ہر ادارہ حتمی تجزئیے میں سرمایہ داروں کی ہی طرف داری اور حفاظت کرتا ہے اور ان کے مفادات کی خاطر غریب کو کچل کر رکھ دیتا ہے۔ پاکستانی ریاست کو بھی اس سلسلے میں کوئی استثنا حاصل نہیں اور اس ریاست کا ہر ایک ادارہ مزدور دشمنی میں اپنی مثال آپ ہے۔ نام نہاد لیبر ڈیپارٹمنٹ سرمایہ داروں کی داشتہ ہے اور ان کے اشاروں پر ناچتا ہے۔ پولیس فیکٹری مالکان کی ایک فون کال پر احتجاجی مزدوروں پر اندھا دھند تشدد کرتی ہے اور انہیں جھوٹے مقدمات میں گرفتار کر لیتی ہے۔ اس معاملے میں سرکاری اداروں کے محنت کشوں کو بھی کوئی رعایت حاصل نہیں ہے۔ حال ہی میں خیبر پختونخواہ میں شعبہ صحت کے محنت کشوں پر ہسپتالوں کی نجکاری کے خلاف آواز بلند کر نے پر کیا جانے والا سفاکانہ تشدد اسی حقیقت کی غمازی کرتا ہے۔ پارلیمنٹ سرمایہ دار طبقے کی دلال تمام مزدور دشمن پارٹیوں کے غلیظ نمائندوں پر مشتمل ایک بد بودار اکٹھ کے سوا اور کچھ نہیں۔ اس کا اصل کام ’جمہوریت‘ کی آڑ میں دن رات مزدور دشمن قانون سازی کر نا ہے۔ عدالتیں پیسے والوں کی منڈیاں ہیں جہاں ہر روز انصاف کی بولی لگتی ہے۔ آج تک کوئی مزدور ان عدالتوں سے انصاف نہیں لے پایا کیونکہ وکیل سے لے کر جج تک سب سرمایہ داروں کی جیب میں پڑے ہیں۔ اگر کبھی مزدور تحریک کے دباؤ میں آ کر ان عدالتوں کو کوئی ایسا فیصلہ کرنا بھی پڑ جائے جو کسی حد تک محنت کشوں کے مفاد میں جاتا ہو، تو بھی یہ اقدام صرف صورتحال کو ٹھنڈا کرنے اور تحریک کو زائل کرنے کی نیت سے کیا جاتا ہے۔ فوجی اشرافیہ اور اسٹیبلشمنٹ کی تاریخ بھی بد ترین مزدور دشمنی سے بھری پڑی ہے۔ ایوب آمریت میں ریلوے کے ہڑتالی محنت کشوں کو ٹرینوں تلے کچلنے سے لیکر ضیائی آمریت میں کالونی ٹیکسٹائل مل ملتان کے مزدوروں پر اندھا دھند گولیاں چلانے اور مشرف آمریت میں پی ٹی سی ایل کی نجکاری تک جرنیلوں کی مزدور دشمنی کے ہزاروں واقعات مزدور تحریک کی تاریخ کا حصہ ہیں۔ فروری2016ء میں کراچی میں پی آئی اے کے محنت کشوں کے نجکاری مخالف احتجاج پر رینجرز کی فائرنگ سے لیکرخفیہ اداروں کی طرف سے مزدور تحریک میں متحرک کردار ادا کرنے والے محنت کشوں اور بائیں بازو کے سیاسی کارکنان کو دھمکانے اور ہراساں کرنے کے حالیہ سلسلے تک یہ تمام واقعات اسٹیبلشمنٹ کی بد ترین مزدور دشمنی کی ہی غمازی کرتے ہیں۔ اگر کسی کو ابھی بھی اس بارے میں کوئی شک ہے تو اسے ڈی جی آئی ایس آئی اور جنرل باجوہ کے ساتھ ملک کے بڑے سرمایہ داروں کی ہونے والی حالیہ ملاقاتوں کے بارے میں جانکاری حاصل کرنی چاہئے۔ سرمایہ داروں کا ’دکھ درد‘ سننے کے لئے ہونے والی ان ملاقاتوں سے واضح ہو جاتا ہے کہ فوجی اشرافیہ کس طبقے کی طرف دار اور محافظ ہے۔ یہی حال سول بیوروکریسی اور ریاست کے ’چوتھے ستون‘ یعنی میڈیا کا بھی ہے۔ قصہ مختصر یہ کہ اس ریاست کے کسی بھی ادارے سے بہتری اور مزدور دوستی کی معمولی سی امید رکھنا بھی پرلے درجے کی حماقت ہے۔ محنت کشوں کی ایک قابل ذکر تعداد تو ریاست کے دلال مزدور لیڈروں کی خواہشات کے برعکس اپنے تلخ تجربات سے ریاست کی اصلیت جان چکی ہے۔ جنہیں ابھی کچھ خوش فہمیاں ہیں، انہیں بھی واقعات اور حالات کے تازیانے بہت جلد اپنی سوچ بدلنے پر مجبور کر دیں گے۔
بھیڑ کی کھال میں چھپے بھیڑئیے
مزدور تحریک کے لئے ایک اور بڑا خطرہ لیبر این جی اوز ہیں جنہوں نے سوویت یونین کے زوال کے بعد بائیں بازو کے انہدام سے خالی ہونے والی جگہ کا فائدہ اٹھاتے ہوئے تحریک میں قابل ذکر رسائی حاصل کر لی ہے۔ ان این جی اوز کا بنیادی مقصد محنت کش طبقے میں غلیظ خیراتی نفسیات کو فروغ دینا ہے تا کہ وہ جدوجہد کا راستہ چھوڑ دیں اور ہمیشہ کے لئے سرمائے کی غلامی کو قبول کر لیں۔ اس کے ساتھ ساتھ یہ لیبر این جی اوز حکمران طبقے اور مفاد پرست مزدور قیادتوں میں ایک پل کا کام بھی ادا کرتی ہیں بلکہ یہ کہنا بالکل درست ہو گا کہ مزدور قیادتوں کی زوال پذیری میں ان این جی اوز کا بھی ایک اہم کردار ہے۔ اب تو صورتحال یہاں تک بگڑ چکی ہے کہ بے شمار مزدور’لیڈر‘ ان این جی اوز کا باقاعدہ حصہ ہیں بلکہ اس سے بھی آگے بڑھ کر کئی ایک ٹریڈ یونینز بذات خود این جی اوز میں تبدیل ہو چکی ہیں۔ اسی طرح کئی ایک این جی اوز اپنے اوپر بائیں بازو کا لیبل لگا کر محنت کشوں کو دھوکہ دے رہی ہیں یا پھر’بائیں بازو‘ کی ایسی نام نہاد پارٹیاں، تنظیمیں اور گروپ ہیں جو در حقیقت ان این جی اوز کے سیاسی فرنٹ کے طور پر کام کر رہے ہیں۔ یہ سب بھیڑ کی کھال میں چھپے بھیڑئیے ہیں جو سرمایہ داروں اور ریاستی اشرافیہ کی بھر پور مالی و انتظامی پشت پناہی کے ساتھ مزدور تحریک میں نقب لگائے بیٹھے ہیں۔ محنت کشوں کو ان سے ہوشیار رہنے کی ضرورت ہے۔ مارکس وادیوں کا بھی فریضہ ہے کہ وہ بے رحمی کے ساتھ ان عناصر کو محنت کش طبقے کے سامنے بے نقاب کریں تا کہ وہ ان کی حقیقت پہچان سکیں۔
مزدورتحریک کی نظریاتی تعلیم و تربیت
عالمی و ملکی سطح پر مزدور تحریک کی تمام تر تاریخ کا نچوڑ یہ ہے کہ محنت کش طبقہ اپنے سیاسی و معاشی نظریات کے بغیر سرمایہ دارانہ نظام کی یلغار کا مقابلہ نہیں کر سکتا۔ آج پاکستان کی مزدور تحریک کی سب سے بڑی کمزوری اس کا مزدور نظریات سے دور ہو نا ہے۔ باقی تمام کمزوریوں اور کو تاہیوں کی بنیادی وجہ بھی یہی کمی ہے۔ واضح رہے کہ یہاں پر مزدور نظریات سے ہماری مراد مارکسزم یا سائنسی سوشلزم کے نظریات ہیں جو ہمیں مارکس، اینگلز، لینن اور ٹراٹسکی کی تصانیف میں ملتے ہیں۔ یہ وہی نظریات ہیں جن کی بنیاد پر 1917ء میں انقلاب روس برپا ہوا تھا اور انہی کی بنیاد پر آج کا محنت کش طبقہ ایک سوشلسٹ انقلاب برپا کرتے ہوئے سرمایہ دارانہ نظام سے نجات حاصل کر سکتا ہے۔ آج مارکس وادیوں کا سب سے اہم فریضہ محنت کش طبقے کی ہر اول لڑاکا پرتوں کو ان نظریات سے روشناس کرانا ہے۔ یاد رہے کہ اگر کوئی مارکس وادی آج مزدور تحریک میں محض معاشی مطالبات کی حمایت کی حد تک متحرک ہے اور ان نظریات کو محنت کشوں کی لڑاکا پرتوں تک نہیں پہنچا رہا تو وہ محض ریڈیکل ٹریڈ یونین ازم کر رہا ہے نہ کہ انقلابی سیاسی کام۔ اسی طرح اگر بائیں بازو کے کسی کارکن کو یہ شکوہ ہے کہ محنت کش پسماندہ ہیں اور ان نظریات کو نہیں سمجھ سکتے تو اسے ہمارا مشورہ ہے کہ وہ محنت کشوں کو الزام دینے کی بجائے مارکسزم کے نظریات پر عبور حاصل کرے کیونکہ یہ اس کی اپنی کوتاہی ہے جو کہ اسے اپنے نظریات محنت کشوں تک پہنچانے کے لائق نہیں بناتی۔ جہاں تک محنت کشوں کی بات ہے تو یقین کیجئے کہ اپنے معروضی حالات کی وجہ سے ان میں سوشلسٹ نظریات کو سیکھنے اور سمجھنے کا پوٹینشیل یونیورسٹی کے کسی پروفیسر سے کہیں زیادہ ہوتا ہے۔
آگے بڑھو!! ایک ملک گیر عام ہڑتال کی جانب
اس وقت اگر ہم پاکستان کے طول و عرض میں ایک دوسرے سے الگ تھلگ چلنے والی تمام مزدور جدوجہد اور تحریکوں کا جائزہ لیں تو فوراً اس بات کا احساس ہوتا ہے کہ ان تمام تحریکوں کے بنیادی مسائل اور مطالبات کم وبیش مشترکہ ہیں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب مسائل اور مطالبات تقریباً ایک ہی ہیں تو پھر ہر ادارے اور نجی صنعت کے محنت کش اپنی اپنی علیحدہ جدوجہد کیوں کریں۔ کیوں نہ سب مشترکہ بنیادی مطالبات کے ایک پروگرام کے گرد طبقاتی بنیادوں پر متحد ہو جائیں اور ایک ملک گیر مزدور تحریک کو جنم دیں۔ ملک کے تمام محنت کشوں کے بیچ یہ طبقاتی جڑت وقت کا انتہائی اہم تقاضا ہے اور اس کے بغیر مزدور تحریک کا آگے بڑھنا ناممکن ہے۔ یقینا ایک طرف معاشی حملوں کی شدت اور دوسری طرف بڑھتا ہوا ریاستی جبر معروضی طور پر مزدور تحریک کو اسی سمت میں دھکیل رہے ہیں لیکن اس ضمن میں مارکس وادیوں کا بھی اہم فریضہ بنتا ہے کہ وہ مختلف اداروں اور صنعتوں کے محنت کشوں کے بیچ ایک پل کا کردار ادا کریں۔ اس کا م کا آغاز بڑے شہر وں کی سطح پر چند ایک اداروں اور صنعتوں کے ہر اول لڑاکا محنت کشوں پر مبنی مشترکہ رابطہ کمیٹیوں کی تشکیل سے کیا جا سکتا ہے اور وقت کے ساتھ ان کا دائرہ کار پورے ملک میں اور ہر ایک ادارے اور صنعت تک پھیلایا جا سکتا ہے۔ لیکن ایک متحد ملک گیر مزدور تحریک کو جنم دینے کے لئے مشترکہ مطالبات کے پروگرام کے ساتھ ساتھ ایک درست لائحہ عمل بھی چاہئے ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ اس وقت پاکستان کے معروضی حالات مزدور تحریک سے مطالبہ کر رہے ہیں کہ تمام محنت کش طبقاتی بنیادوں پر متحد ہوتے ہوئے ایک ملک گیر عام ہڑتال کی جانب بڑھیں۔ پچھلی ایک دہائی میں ہندوستان، یونان، برازیل، فرانس، ارجنٹائن، سپین سمیت بے شمار ممالک میں محنت کش طبقہ ملک گیر عام ہڑتالیں کر تے ہوئے اپنے کئی ایک مطالبات منوا چکا ہے۔ اگر ان تمام ممالک کے محنت کش ایسا کر سکتے ہیں تو پھر پاکستان کے محنت کشوں میں کیا کمی ہے۔ یہ عام ہڑتال نہ صرف محنت کش طبقے کو اس کی طاقت کا احساس دلائے گی بلکہ کئی دہائیوں کی غیر حاضری کے بعد محنت کش طبقہ ملک کے سیاسی و سماجی افق پر پھر سے ایک بڑی طاقت بن کر ابھرے گا۔ ملکی سطح پر نظر آنے والی محنت کش طبقے کی یہ طاقت جہاں بڑھتے ہوئے معاشی حملوں اور ریاستی جبر کے سامنے ایک بند باندھے گی وہیں طلبہ، غریب کسانوں، نچلے درمیانے طبقے اور مظلوم قومیتوں سمیت سماج کی دیگر تمام مظلوم اور استحصال زدہ پرتوں پر بھی محنت کش طبقے کی طاقت کو آشکار کرتے ہوئے انہیں مزدور تحریک کے ساتھ جڑنے اور اس کی قیادت میں اپنی نجات کی جدوجہد آگے بڑھانے کے لئے آمادہ کرے گی۔ لیکن سب سے بڑھ کر یہ کہ ایک طرف اس ہڑتال کے عملی تجربے سے جنم لینے والے اپنی طاقت کے احساس اور دوسری طرف منظم مارکس وادیوں کی شعوری کوششوں کے جدلیاتی تال میل سے ہی پاکستان میں ایک ایسی انقلابی پارٹی کی تخلیق ہو گی جو کہ ایک سوشلسٹ انقلاب کے ذریعے اس سرمایہ دارانہ نظام کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے اور ایک مزدور ریاست اور منصوبہ بند معیشت کی تعمیر کے لئے محنت کش طبقے کا اوزار بن سکے گی۔