|تحریر: زین العابدین|
حسب روایت ایک بار پھر وزیر اعظم قوم سے خطاب کے لیے ٹی وی سکرین پر نمودار ہوا اورمہنگائی، بے روزگاری، غربت اور لاعلاجی سے مرتی عوام کے زخموں پر خوب نمک پاشی کی۔ وزیر اعظم اس فن میں خاصی مہارت حاصل کر چکاہے اور پچھلے تین سالوں میں ہر بار پہلے سے بڑھ کے معاشی حملوں کے بعد ہر بار مگر مچھ کے آنسو بہاتا ٹی وی سکرینوں پر نمودار ہوتا ہے اوربڑی سفاکی اور بے رحمی کے ساتھ مزدوروں اور غریبوں کے ساتھ ہمدردی کا اظہار کرتا ہے اور ساتھ ہی یہ تلقین بھی کرتا ہے کہ یہ مشکل وقت ہے جلد ہی گزر جائے گا اور مستقبل کے سہانے سپنے دکھا کر رفو چکر ہو جاتا ہے۔ پچھلے تین سالوں میں محنت کش عوام اس مسخرے کے ناٹک کو کئی بار دیکھ چکی ہے۔ رواں ماہ کے آغاز پر بھی بالکل ایسے ہی ہوا اور مہنگائی اور بے روزگاری سے بلکتی عوام کے زخموں کو کریدنے کے لیے ایک بار پھر وزیر اعظم صاحب نے قوم سے خطاب کیا اور بدحال عوام کے دکھوں کے مداوے کے لیے 120 ارب روپے کے ”تاریخی“ ریلیف پیکج کا اعلان کیا جو کہ وزیر اعظم کے الفاظ میں ”فلاحی ریاست“ کی جانب پیش قدمی ہوگی۔ مگر ساتھ ہی وزیر اعظم یہ بتانا نہیں بھولا کہ پٹرولیم مصنوعات اور گیس کی قیمتوں میں مزید اضافہ کیا جائے گا، مگر سردیوں میں گیس دستیاب نہیں ہوگی اور عوام کو مشکل وقت کاٹنا پڑے گا۔ اس ریلیف پیکج کے اگلے دن پٹرول کی قیمت میں آٹھ روپے سے زائد کا اضافہ کرتے ہوئے اسے ڈیرھ سو روپے لیٹر کی تاریخی سطح کے قریب لے گیا۔ اور اس سے اگلے روز آئی ایم ایف کے ایک اور مطالبے کو پورا کرتے ہوئے عوام کو مزید ریلیف دینے کی خاطر بجلی کے بیس یونٹ پرائس میں 1.68 روپے کا اضافہ کردیا گیا جس سے اوسط یونٹ کی قیمت 16 روپے سے بڑھ کر 20 روپے تک جا پہنچے گی۔
حکومتی وزرا اور مشیران کی فوج ظفر موج اعلان سے قبل ہی اس ریلیف پیکج سے متعلق بلند وبانگ دعوے کر رہے تھے مگراس ملک کے محنت کش عوام بخوبی جانتے ہیں کہ یہ ریلیف پیکج بھی اصل میں ”تکلیف“ پیکج ہی ثابت ہوگا۔ اعلان کے مطابق اس پیکج سے استفادہ حاصل کرنے والوں کو آٹا، گھی اور دالیں مارکیٹ سے 30 فیصدکم نرخوں پر دستیاب ہوں گے۔ یہ اعلان محض ایک ڈھونگ اور فراڈ سے زیادہ کچھ نہیں۔ مہنگائی کا عفریت اس سے کہیں بڑا ہے اور وہ ایسے کسی پیکج سے حل نہیں ہوسکتا۔ اگر اس پیکج پر عملدر آمد ہوتا بھی ہے تو صرف اور صرف حکومت کے ”احساس“ پروگرام میں رجسٹرڈ 70 لاکھ لوگ ہی اس کے حقدار ٹھہریں گے اور بقیہ ماندہ محنت کش عوام مہنگائی اور بے روزگاری کی چکی میں یوں ہی پستے رہیں گے۔
سونے پر سہاگہ، ہر بار پٹرول، بجلی یا گیس کی قیمتوں میں اضافے کے بعد حکومتی وزرا ان معاشی حملوں کی یہ کہہ کر توجیح پیش کرتے ہیں کہ باقی ملکوں کے مقابلے میں ہمارے ہاں ان مصنوعات کی قیمتیں کہیں کم ہیں اور حکومت عوام کو ہر ممکن ”تکلیف“ مطلب ”ریلیف“ دے رہی ہے۔ اس کی وجہ معاشی ماہرین عالمی منڈی میں ہونے والے قیمتوں میں اضافے اور روپے کی قدر میں کمی کو بتاتے ہیں۔ اس پر ہم آگے چل کر بات کریں گے مگر یہاں یہ بات واضح کرنا لازمی ہے کہ ان فیکٹرز کو مدنظر رکھتے ہوئے بھی اشیائے خوردونوش اور روزمرہ اشیائے صرف کی قیمتوں میں ہونے والے آئے روز اضافے کی بڑی وجہ یہاں کے سرمایہ داروں اور تاجر مافیا کی ذخیری اندوزی ہے جو کہ مارکیٹ میں مصنوعی قلت پیدا کرکے بلند نرخوں میں اشیا خریدنے پر مجبور کرتے ہیں۔ اس کی ایک بڑی مثال چینی کی ہے جو کہ اس وقت 140 روپے فی کلو تک بیچی جا رہی ہے جبکہ سرکاری ریٹ 89 روپے ہے۔ شوگر مافیا کو لگام ڈالنے اور ان کے خلاف کاروائی کے حکومتی دعوے اس کو منہ چڑا رہے ہیں۔ سرمایہ دارانہ نظام کی حدود میں ایسی مصنوعی قلت کا خاتمہ کرنا ممکن نہیں اور وہ بھی پاکستان جیسی ریاست میں جہاں شوگر مافیا کا سرغنہ وزیر اعظم کا رفیقِ خاص ہو۔ اس وقت صورتحال یہ ہے کہ 3 لاکھ ٹن چینی کی درآمد کے باوجود کئی شہروں میں فی کلو چینی کی قیمت 160 روپے تک پہنچ چکی ہے۔
آنے والے دنوں میں مہنگائی میں کمی تو دور کی بات بلکہ آئی ایم ایف کے مطالبات پورے کرنے کی خاطر یہ حکمران اس سے بھی بڑے حملے کریں گے۔ اس وقت تمام نظریں آئی ایم ایف کے ساتھ ہونے والے مذاکرات پر مرکوز ہیں اور یوں منظر کشی کی جارہی ہے کہ جیسے آئی ایم ایف کا قرض پروگرام بحال ہوتے ہی مہنگائی ختم ہوجائے گی، پٹرول کی قیمت واپس کم ہو جائے گی، آٹا، گھی، چینی، دالیں اور سبزیاں دوبارہ ارزاں نرخوں پر دستیاب ہوں گی، ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر مستحکم ہو جائے گی وغیرہ وغیرہ۔ 6 اکتوبر سے شروع ہونے والے یہ مذاکرات اب بہر حال ایک سٹاف لیول معاہدے تک پہنچ چکے ہیں جس میں پاکستانی حکومت کی جانب سے تمام شرائط منظور کر لی گئی ہیں۔ یہ مذاکرات کافی لمبا عرصہ جاری رہے جس میں پاکستانی حکومت کی کوشش تھی کہ نرم شرائط پر معاہدہ طے پائے۔ درحقیقت پاکستانی حکمران اور ان کے پالیسی ساز یہ امید کر رہے تھے کہ امریکی سامراج کی شرمناک شکست کے بعد افغانستان سے انخلا میں اپنی خدمات کے عوض واشنگٹن سے کچھ رعایت حاصل کر سکیں گے۔ مگر امریکی حکمران طبقہ اور ریاستی ادارے پاکستانی ریاست کی دوغلی پالیسیوں سے سخت نالاں دکھائی دیتے ہیں جس کا اظہار آئی ایم ایف کے ساتھ مذاکرات میں واضح طور پر ہوا۔ آئی ایم ایف کے ساتھ قرض پروگرام کی بحالی سے قبل ہی پاکستانی حکمران عوام پر روپے کی قدر میں کمی، پٹرول اور بجلی و گیس کی قیمتوں میں اضافے کا بم گرا چکے تھے تاکہ ایک تابعدار غلام کی طرح آئی ایم ایف کے سامنے پیش ہوں اور کہیں کہ دیکھیں جی ہم تو سارے مطالبات پورے کرکے آپ کے سامنے پیش ہوئے ہیں اور اب نظر کرم کرتے ہوئے قرض پروگرام بحال کردیں اور ایک ارب ڈالر کی قسط جاری کردیں۔ مگر آئی ایم ایف میں بیٹھے گدھ اپنے اس غلام کو نافرمانی کی سزا دینے اور اپنے دئیے گئے قرضوں کی واپسی کو یقینی بنانے کے لیے نئے مطالبات کا پلندہ تیا رکیے بیٹھے تھے جس میں روپے کی قدر کو آزاد چھوڑنا، 500 ارب روپے سے زائد کے مزید ٹیکس، یونیفارم سیلز ٹیکس، انکم ٹیکس سلیب میں تبدیلی، بجلی اور گیس کی قیمتوں میں مزید اضافہ، سٹیٹ بینک کو حکومتی اثرورسوخ سے نکالنے کے لیے آزاد حیثیت کے لیے آئینی اقدامات، سالانہ ترقیاتی بجٹ میں 200 ارب روپے کی کٹوتی، شرح سود میں اضافہ، سستے قرضوں اور ایمنسٹی سکیموں کا خاتمہ اور دیگر شامل ہیں۔ اور بالآخر 22 نومبر 2021ء کو پاکستانی حکومت کی جانب سے یہ تمام شرائط مان لی گئیں۔ یوں یہ غلام آئی ایم ایف سے قرض کے حصول کے لیے عوام پر مزید حملوں کے لیے پرتول رہے ہیں۔ اس معاہدے سے نہ تو ملک کی معیشت میں کوئی بہتری آئے گی اور نہ ہی محنت کش عوام کی زندگیوں میں، بلکہ مستقبل میں مزید مہنگائی اور بے روزگاری میں اضافہ ہوگا۔
ایسے میں حکومت کے معاشی ترقی کے سارے دعوے ہوا ہوچکے ہیں۔ رواں مالی سال کے بجٹ کے اعلان کے وقت حکومت نے اس سال کو معاشی ترقی کا سال قرار دیا تھا اور 5 فیصد کے گروتھ ریٹ کا ہدف پیش کیا تھا۔ اور اس وقت صورتحال یہ ہے کہ ورلڈ بینک نے حکومتی اعداد وشمار کے برعکس رواں مالی سال کے لیے شرح نمو میں کمی کرتے ہوئے 3.9 فیصد کا تخمینہ لگایا ہے۔ پچھلے سال دسمبر میں وزیر اعظم تجارتی سرپلس اور کرنٹ اکاؤنٹ مثبت ہونے پر مبارکبا پیش کر رہے تھے اور اس کو اپنی حکومتی پالیسیوں کی کامیابی بتا رہے تھے۔ اس وقت صورتحال یہ ہے کہ مالی سال 2021-22ء کی پہلی سہ ماہی میں تجارتی خسارہ 12 ارب ڈالر سے تجاوز کر چکا ہے اور آنے والے عرصے میں اس میں مزید اضافہ ہوگا۔ اس کی وجہ سے روپے کی قدر مسلسل کمی کا شکار ہے اور مئی کے مہینے سے لے کر اب تک روپے کی قدر میں 10 فیصد سے زائد کمی آچکی ہے۔ اکتوبر کے آخری ہفتے میں ڈالر کے مقابلے میں روپیہ 175 روپے تک گرگیا جو کہ تاریخی گراوٹ ہے۔ سعودی عرب سے ملنے والے 4.2 ارب ڈالر کے پیکج کے بعد روپے کی قدر میں کچھ بہتری آئی ہے مگر یہ سلسلہ زیادہ دیر تک برقرار نہیں رہ سکتا۔ کریڈٹ ریٹنگ ایجنسی فچ نے اکتوبر کے آغاز پر یہ اعلان کیا کہ 2022ء تک ایک ڈالر 180 روپے تک پہنچ جائے گا مگر موجودہ صورتحال میں یہ دکھائی دیتا ہے کہ 2022ء سے قبل ہی روپیہ 180 کا ہدف عبور کرجائے گا۔ اشیائے خورد ونوش سے لے کر پٹرولیم مصنوعات اور قرضے مزید مہنگے ہوچکے ہیں۔ پاکستان اس وقت گندم، چینی، دالیں، سبزیوں سے لے کر لگ بھگ تمام اشیائے خوردونوش کا نیٹ امپورٹر ہے۔
بتایا یہ جارہا ہے کہ روپے کی قدر میں کمی کی وجہ سے برآمدات سستی اور درآمدات مہنگی ہوں گی اور برآمدات بڑھنے کے نتیجے میں ملکی معیشت کو فائدہ ہوگا۔ یہ جھوٹ سنتے سنتے کئی نسلیں گزر چکی ہیں مگر دہائیاں بیت جانے کے باوجود روپے کی قدر میں تو مسلسل کمی ہورہی ہے مگر اس کے برعکس برآمدات میں اضافہ نہ ہونے کے برابر ہے۔
مگر کیا روپے کی قدر میں اس کمی کے ذمہ دار یہاں کے محنت کش اور عوام ہیں؟ ہرگز نہیں۔ اس کمی کی وجہ حکمرانوں کی سرمایہ دارانہ نواز پالیسیاں ہیں۔ تیز ترین شرح نمو حاصل کرنے کے چکر میں موجودہ حکومت نے کرونا وبا کی آمد سے لے کر اب تک لگ بھگ 2 ہزار ارب روپے سے زائد کا ٹیکہ اس قریب المرگ معیشت کو لگایا۔ بظاہر یوں لگا کہ معیشت میں نئی روح پھونکی گئی ہے اور لگ بھگ ایک سال کے عرصے میں منفی شرح نمو سے چار فیصد تک کی شرح نمو حاصل کرلی گئی۔ بتایا گیا کہ بڑی صنعت میں تیز ترین اضافہ ہورہا ہے۔ برآمدات تاریخ کی بلند ترین سطح پر جا پہنچی ہیں۔ مگر اس معاشی ٹیکے سے ملنے والی جزوی زندگی نے بیماری کو پہلے سے کہیں زیادہ شدید کردیا۔ ستمبر کے مہینے کے آخر میں وزیر خزانہ شوکت ترین نے دیگر وزرا کے ساتھ ہنگامی پریس کانفرنس کرتے ہوئے بتایا کہ معیشت بہت تیزی سے ترقی (Overheating) کر رہی ہے اور ہوسکتا ہے کہ شرح نمو 6 فیصد سالانہ سے بھی تجاوز کر جائے۔ ہم اس کے متحمل نہیں ہوسکتے اور اس کو 4 فیصد تک روکنا (Cooling off) ہوگا۔ بصورت دیگر معیشت کے لیے سنگین نتائج برآمد ہوسکتے ہیں۔
شاید یہ پہلی بار تھا کہ یہاں کے حکمرانوں کے منہ سے ایسے الفاظ سننے کو ملے جو ہر وقت معاشی ترقی کا ڈھنڈورا پیٹتے رہتے ہیں مگر یہ درست ہے۔ در اصل جیسے ہی کوئی حکومت برآمدات میں اضافے کے لیے کوشش کرتی ہے تو اس کے لیے سرمایہ داروں کے لیے خزانے کے منہ کھول دئیے جاتے ہیں۔ ان کو سستے قرضوں سے لے کر ٹیکسوں اور ڈیوٹیوں میں چھوٹ اور ایمنسٹی سکیموں سے نوازا جاتا ہے۔ بجلی و گیس چوری اس سے علیحدہ ہے۔ مگر یہاں کے سرمایہ دار وہ پیسہ صنعت یا تکنیک کی بہتری اور پھیلاؤمیں لگانے کی بجائے سیدھا یا تو اپنی جیب میں ڈال لیتے ہیں یا اس پیسے سے سٹاک مارکیٹ یا رئیل اسٹیٹ میں سٹے بازی کرتے ہیں اور اربوں منافعے کمائے جاتے ہیں۔ دوسری طرف صنعت اور تکنیک پسماندہ ہونے کے سبب برآمدات کے لیے درکار بھی کم و بیش تمام خام مال امپورٹ کیا جاتا ہے۔ یوں جیسے ہی برآمدات میں ذرا سا اضافہ ہوتا ہے اس کے مقابلے میں درآمدات میں کئی گنا اضافہ ہوجاتا ہے۔ درآمدات بڑھنے سے تجارتی خسارہ بڑھتا ہے اور کرنٹ اکاؤنٹ منفی میں چلا جاتا ہے۔ اور ساتھ ہی روپے کی قدر میں کمی شروع ہوجاتی ہے۔ مثال کے طور پر سات سال سے قبل پاکستان 25 ارب ڈالر مالیت کی گڈز ایکسپورٹ کرتا تھاجو اس سال جون میں بڑھ کر 25.6 ارب ڈالر تک جا پہنچی ہیں۔ مگر اس معمولی سے اضافے کے مقابلے میں درآمدات اسی عرصے میں 41.7 ارب ڈالر سے بڑھ 53.8 ارب ڈالر تک جا پہنچیں۔ اس سے واضح ہوتا ہے کہ مسئلہ کہیں زیادہ سنگین ہے جو کسی ریلیف پیکج سے حل نہیں کیا جا سکتا اور انقلابی جراحی کے ذریعے ہی اس گورکھ دھندے سے نجات حاصل کی جاسکتی ہے۔ اس بار بھی ایسا ہی ہوا، دوہزار ارب روپے سے زائد معاشی ٹیکے کا نتیجہ یہ ہے کہ اس وقت افراطِ زر سرکاری اعدادوشمار کے مطابق 10 فیصد سے زائد ہے۔ روپے کی قدر مئی سے اب تک 10 فیصد گرچکی ہے جس کے اثرات معیشت کے دیگر حصوں میں بھی محسوس کیے جاسکتے ہیں، تجارتی خسارہ پہلی سہ ماہی میں 12 ارب ڈالر سے تجاوز کر چکا ہے، مالیاتی خسارا بجٹ تخمینے (7 فیصد) سے زائد ہے، اور اس ساری ترقی کو حاصل کرنے کے چکر میں قرضوں میں کئی ارب ڈالر اضافہ ہوچکا ہے۔
اس وقت کل ریاستی قرضہ جی ڈی پی کے 100 فیصد سے بڑھ چکا ہے۔ جون 2021ء تک پاکستان پر کل اندرونی و بیرونی قرضے لگ بھگ 40 ہزار ارب روپے تک پہنچ چکے تھے جس میں بیرونی قرضے کا حجم لگ بھگ 18 ارب ڈالر ہے (جس میں آئی ایم ایف، ورلڈ بینک، ایشین ڈویلپمنٹ بنک، پیرس کلب، سکوک بانڈ، یورو بانڈ وغیرہ شامل ہیں)، جبکہ بقیہ ماندہ اندرونی قرضے ہیں جو کہ مقامی بینکوں سے لیے گئے ہیں۔ جس وقت یہ 40 ہزار ارب روپے کا تخمینہ لگایا گیا تھا اس وقت ڈالر 157 روپے کا تھا جو کہ اب بڑھ کر 170 روپے تک پہنچ چکا ہے اور روپے کی قدر میں کمی سے قرضوں کا حجم مزید بڑھ چکا ہے۔ موجودہ حکومت اس وقت 15 ہزار ارب روپے کے اندرونی و بیرونی قرضے لے چکی ہے۔ رواں آئی ایم ایف پروگرام اگلے سال ختم ہوجائے گا جس کے بعد مزید قرض لینے کی ضرورت پیش آئے گی۔
اس سارے عرصے میں سرمایہ داروں اور تاجروں نے اربوں کے منافعے کمائے ہیں جس کا اظہار نت نئے ماڈل کی لگژری گاڑیوں کی فروخت اور رئیل اسٹیٹ کی بلندقیمتوں میں ہوتا نظر بھی آتاہے، مگر اس کا بِل یہاں کے محنت کش عوام کی ہڈیوں سے گودا نچوڑ کر پورا کیا جا رہا ہے۔ بجٹ خسارے کو پورا کرنے کے لیے پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں مزید اضافہ کیا جائے گا۔ بجلی اور گیس کی قیمتوں کو مزید بڑھایا جائے گا۔ ٹیکسوں میں مزید اضافہ ہوگا۔ افراط زر اور مہنگائی میں مزید اضافہ ہوگا۔ پہلے ہی آٹا، چینی، دالوں اور سبزیوں کی قیمتوں میں سو گنا سے زائد اضافہ ہو چکا ہے مگر یہ انت نہیں ہے۔ آئی ایم ایف کے کمیشن ایجنٹ حکمران سامراجی ایجنڈے کی تکمیل کے لیے کسی بھی حد تک جانے کو تیار ہیں۔ آئی ایم ایف کے ساتھ مذاکرات ناکام ہوتے ہی مزدوروں کے ”ہمدرد“ وزیر اعظم نے واپڈا، ریلوے، پی آئی اے، او جی ڈی سی ایل، سول ایوی ایشن، اور دیگر سرکاری اداروں کی نجکاری کے مزدور دشمن پروگرام کو تیز کرنے کا حکم دیا ہے۔ ایسے میں یہاں کے بدحال اور بلکتے محنت کشوں اور غریب عوام کی زندگیاں مزید اجیرن کردی جائیں گی۔ یہ حکمران طبقہ زندہ رہنا اس قدر مشکل بنا دے گا کہ لوگ زندگی پرموت کو ترجیح دینے لگیں۔ یہ قریب المرگ نظام ایسے انسانوں کے خون کی بلی سے زندہ رہ سکتا ہے۔ ایک طرف اجرتیں مسلسل کمی کا شکار ہیں تو دوسری جانب مہنگائی کا عفریت ڈسے جا رہاہے۔ دو وقت کی روٹی ایک عیاشی بن گئی ہے۔ حال ہی میں ملک بھر کے سرکاری ملازمین احتجاج، دھرنے، لاٹھیاں اور آنسو گیس کھا کر 25 سے 35 فیصد تک تنخواہیں بڑھوانے میں کامیاب ہوئے تھے۔ بلاشبہ یہ ایک بہت بڑی کامیابی تھی مگر ان پر اب یہ واضح ہوگیا ہوگا کہ اس نظام میں حکمران جو ایک ہاتھ سے دیتے ہیں تو دوسرے ہاتھ سے واپس لے لیتے ہیں اور ان کی زندگیوں میں کوئی بہتری آنے کی بجائے وہ ذلت اور پسماندگی کی دلدل میں دھنستے چلے جاتے ہیں۔ مہنگائی کا عفریت تو ایک طرف، ابھی کورونا وبا تھمی نہیں تو ڈینگی، ملیریا، ٹائیفائیڈ وبا کی طرح پھیل چکے ہیں۔ ماحولیاتی آلودگی، جس کے ذمہ دار یہ حکمران طبقات ہیں، نے سانس لینا دشوار کردیا ہے اور کئی بیماریوں کا سبب بن رہا ہے۔ مگر دوسری جانب علاج معالجے کی سہولت ناپید ہے۔ انتہائی ضروری ادویات کی مصنوعی قلت ہے۔ بخار، نزلہ، کھانسی جیسی بیماریوں کی ادویات کی قیمتوں میں کئی گنا اضافہ ہوچکاہے۔ یوں ہر طرف سے محنت کش عوام کو دیوار کے ساتھ لگا دیا گیا ہے کہ ان کو بقا کی لڑائی میں الجھا دیا جائے تاکہ وہ یہاں کے سرمایہ داروں اور ریاستی اشرافیہ کو گریبانوں تک ہا تھ نہ ڈال سکیں۔ مگر محنت کش طبقے نے بار بار اپنے زندہ ہونے کا ثبوت دیا ہے اور ایک ایسے وقت میں جب تمام رائج الوقت سیاسی، قومی اور مذہبی پارٹیاں مہنگائی کے خلاف ”جدوجہد“ میں اتر آئی ہیں لیکن محنت کش عوام ان سے بیگانہ اور بہرہ ور دکھائی دیتے ہیں۔ وہ اپنی بقا کی لڑائی اپنے اپنے اداروں اور صنعتوں میں لڑ رہے ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ان بکھری لڑائیوں کو ایک لڑی میں پرویا جائے اور ان درندہ صفت حکمرانوں کے خلاف صف آرا ہوکر ان کو ایک سوشلسٹ انقلاب کے ذریعے بے دخل کرتے ہوئے اقتدار پر قبضہ کیا جائے اور ایک مزدور ریاست کی بنیاد رکھی جائے جہاں مہنگائی، غربت، لاعلاجی، بھوک، ننگ اور افلاس کا خاتمہ کیا جائے گا اور ہر شخص کو زندہ رہنے کے تمام لوازمات مزدور ریاست کی جانب سے فراہم کیے جائیں گے۔