تحریر: |آدم پال|
سانحہ کوئٹہ نے ایک دفعہ پھر پورے پاکستان میں لاکھوں لوگوں کو سوگوار کر دیا۔ جنون اور وحشت کے اس کھلواڑ میں اب تک ہزاروں معصوم لوگ زندگی کی بازی ہار چکے ہیں۔ آرمی پبلک سکول پشاور میں معصوم بچوں کے بہیمانہ قتل ہوں یا لاہور میں گلشن اقبال پارک میں عورتوں اور بچوں، جن میں اکثریت مسیحی تھے، پر حملہ، اس ملک کا ہر علاقہ دہشت گردی سے متاثر ہوچکا ہے۔ پشتونخواہ کے بہت سے علاقے تو مسلسل اس عذاب کو جھیل رہے ہیں اور وہاں پر دہشت گردوں کی حکومتیں بھی قائم ہوتی رہتی ہیں۔ ایک لمبے عرصے سے اس عفریت کا شکار ہونے کے باعث اس ملک کے عوام بھی اہم نتائج اخذ کرچکے ہیں۔ عوام کی ایک بہت بڑی تعداد اس حقیقت کو جان چکی ہے کہ اس تمام تر دہشت گردی اور فرقہ واریت میں ریاست کے مختلف حصے ملوث ہیں اور ان کی پشت پناہی اور امداد کے بغیر یہ سب نہیں کیا جا سکتا۔ اسی طرح دہشت گردی کو ریاست کے مختلف دھڑے اپنے مخصوص مفادات کے حصول کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ امریکہ یا دوسری سامراجی طاقتوں کے ساتھ جاری تنازعات میں زیادہ سے زیادہ مال کے حصول کے لیے اپنے ہی ملک کے معصوم افرد کی بلی چڑھا دی جاتی ہے۔ افغانستان، بھارت یا کسی دوسرے ملک میں سامراجی مفادات کے ٹکراؤ کا ملبہ بھی دہشت گردی کی صورت میں عوام پر ہی گرتا ہے۔ پاکستانی ریاست ان دہشت گردوں کو اپنے قیمتی اثاثے قرار دے چکی ہے او ر ان کی تمام تر سفاکانہ کاروائیوں کے باوجود ان سے متعدد بار مذاکرات کا ڈھونگ بھی رچا چکی ہے۔ کئی دفعہ خطرناک دہشت گردوں کو ’’امن‘‘ کے حصول کے لیے جیلوں سے رہا کیا گیا ہے اور کئی دفعہ یہ دہشت گرد خود سینکڑوں کی تعداد میں تمام تر سکیورٹی فورسز کی موجودگی میں جیلیں توڑ کر فرار ہو چکے ہیں۔ دوسری جانب ان دہشت گردوں کیخلاف آپریشنوں کے بھی بہت سے ناٹک اور فریب کھیلے جا چکے ہیں۔ اربوں روپے کے بجٹ جھونکنے اور ہزاروں سپاہیوں کی قربانی دینے کے باوجود یہ دہشت گرد پوری توانائیوں کے ساتھ موجود ہیں اور کسی بھی جگہ حملہ کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ اسی طرح ان دہشت گردوں کی مکمل معاونت کرنے والے اور ان کے لیے خام مال مہیا کرنے والے مدرسے پورے ملک میں پھیلتے جا رہے ہیں۔ عام لوگوں پر واضح ہو چکا ہے کہ یہ تمام تر آپریشن مال کھانے کے لیے ایک ڈھونگ کے سوا کچھ نہیں۔ ان آپریشنوں کی آڑ میں ڈیفنس ہاؤسنگ سوسائٹیاں پھیل رہی ہیں اور اس ملک کے دولت مند افرد کو بہتر سے بہتر رہائش مہیا کرنے کا کاروبار کر رہی ہیں۔ جہاں تک دہشت گردی کا تعلق ہے وہ بڑھتی جا رہی ہے۔
دہشت گردی کے اس طویل سلسلے نے پاکستان کی ریاست کی ناکامی پر مہر تصدیق ثبت کر دی ہے۔ فوج، پولیس، خفیہ ایجنسیاں، عدالتیں، پارلیمنٹ اورسیاسی جماعتوں سمیت ریاست کے تمام حصے اس دہشت گردی کو ختم کرنے میں نہ صرف یہ کہ مکمل طور پر ناکام رہے ہیں بلکہ ان کا خصی پن کھل کر سامنے آیا ہے۔ در حقیقت ریاست کے تمام اداروں میں ان دہشت گردوں کی حمایت اور پشت پناہی کرنے والے دھڑے موجود ہیں جو کالے دھن کی معیشت پرپلتے ہوئے متوازی ریاست بن چکے ہیں۔ دوسرے الفاظ میں ریاست خود ٹوٹ پھوٹ اور شکست و ریخت کا شکار ہے جس کے کچھ حصے دہشت گردی کی بیساکھی پر زند ہ ہیں۔ ایسے میں موجودہ ریاست یا اس کے کسی حصے سے یہ توقع کرنا کہ یہ دہشت گردی کو ختم کرے گی محض خام خیالی ہے ۔ پاکستان کی معیشت کی خستہ حالی اور زوال جبکہ دوسری جانب کالی معیشت کی شرح ترقی کے باعث یہ یقین سے کہا جا سکتا ہے کہ موجودہ نظام میں دہشت گردی ختم نہیں ہو گی بلکہ اس میں اضافہ ہو گا۔ درحقیقت پاکستان کی ٹوٹتی اور بکھرتی ہوئی ریاست دہشت گردی کو اپنے ایک اہم ہتھیار کے طور پر استعمال کر رہی ہے اور اس ہتھیار پر اس کا انحصار بڑھتا چلا جا رہا ہے۔ اس دہشت گردی کو سیاسی تحریکوں کو کچلنے اور عوام کو خوفزدہ کرنے اور اپنے حقوق کی جدوجہد سے دور رکھنے کے لیے بھی استعمال کیا گیا ہے۔ 18اکتوبر 2007ء کو بینظیر بھٹو کے استقبال کے لیے آنے والے لاکھوں کے اجتماع کو زائل کرنے کے لیے دہشت گردی کا سہارالیا گیا اور بعد ازاں بینظیر بھٹو کا قتل بھی انہی دہشت گردوں سے کروایا گیا۔ اسی طرح مزدوروں کی مختلف تحریکوں میں یہ دھمکی او ر خوف استعمال کیا جاتا ہے۔ بہت سے مزدور لیڈروں اور کارکنوں کو دہشت گردی کے مقدمات میں پابند سلاسل کیا گیا ہے اور سزائیں دی گئی ہیں جبکہ دہشت گرد کھلے عام دندناتے پھرتے ہیں اور ان کے جلسے جلوس کرنے میں کوئی پابندی نہیں۔ بلکہ الٹا سکیورٹی ادارے ان کی حفاظت پر معمور ہیں۔ فوجی عدالتوں کا قیام ہو یا پارلیمنٹ میں نام نہاد قانون سازی اور حکمرانوں کے مکارانہ اور عیارانہ بیانات کسی بھی طریقے سے دہشت گرد ی میں نہ کمی آئی ہے اور نہ آئے گی۔
ایسے میں یہ سوال ابھرتا ہے کہ عوام اس عفریت کا مقابلہ کیسے کریں؟ اور یہ کہ مقابلہ کرنے کی تیاری کریں بھی یا ان دہشت گردوں کے حملوں کے وقفوں میں موت کا انتظار کرتے رہیں؟ ٹی وی پر بیٹھے ہوئے نام نہاد دانشور اور بکاؤ تجزیہ نگاراس سلسلے میں انتہائی مضحکہ خیز بیانات دیتے رہتے ہیں جو عوام کے زخموں پر نمک چھڑکنے کے مترادف ہے۔ کچھ تو ایسے ہیں کہ کبھی کسی جنرل کو مسیحا بناتے ہیں اورکبھی کسی دوسرے کو۔ حقیقت یہ ہے کہ امریکہ سے ڈالر لے کر اس تمام تر دہشت گردی کا آغاز ایک جنرل ضیا الباطل کے دور میں ہی ہوا تھا بعد میں بھی ایک قومی پالیسی کے ذریعے اس تمام تر دہشت گردی کو ریاست کے اہم ہتھیار کے طور پر فروغ دیا جاتا ر ہا جس میں فوجی جرنیلوں کی آشیر باد بھی شامل تھی۔ دوسری جانب فوج کا ادارہ آج پراپرٹی سے لے کر کارن فلیکس تک ہر طرح کے کاروبار میں مشغول ہے اور اس سے کسی سنجیدہ عسکری کاروائی کی توقع کرنا ہی بیوقوفی ہے۔ دوسرا فوج کے مختلف دھڑوں کے تضادات اب زبان زد عام ہیں اور ٹی وی اور اخبارت کی زینت بنتے رہتے ہیں۔ اچھے اور برے طالبان کی اصطلاح بھی فوج کی اسی دھڑے بندی اور ان دھڑوں کی پشت پناہی یا پسند و نا پسند کی وجہ سے استعمال میں آئی ہے۔ اس لیے کسی فوجی آپریشن کے ذریعے دہشت گردی کے خاتمے کی توقع رکھنا بیوقوفی ہو گی۔
ایسے میں کچھ لوگ امریکہ کی طرف دیکھتے ہیں جس نے اس تمام تر ناسور کا بیج بویا تھا اور اس کو پروان چڑھاتا رہا ہے۔ خود امریکی حکمران اپنے متعدد بیانات میں یہ تسلیم کر چکے ہیں کہ یہ دہشت گردی کا پودا انہی کا لگایا ہوا ہے۔ نہ صرف پاکستان بلکہ مشرقِ وسطیٰ میں داعش سمیت مختلف دہشت گرد گروہوں کو بنانے اور فروغ دینے والا امریکی سامراج ہی ہے ۔ امریکہ میں اربوں ڈالر کی اسلحے صنعت کے منافعوں کو تحفظ دینے کے لیے امریکہ کو ایسے دشمنوں کی ضرورت ہے جن کیخلاف وقتاً فوقتاً جنگوں کا کھلواڑ جاری رکھا جا سکے۔ افغانستان میں طالبان اور القاعدہ کیخلاف جنگ کے ذریعے بربادی پھیلانے والا امریکی سامراج شام میں اسی القاعدہ کے تعاون سے اپنے مخالفین کا مقابلہ کرنے کی کوشش کر رہا ہے جبکہ افغانستان میں انہی طالبان کے ساتھ مذاکرات کر کے انہیں حکومت میں شامل کرنے کی تگ و دو میں مصروف ہے۔ درحقیقت دنیا کا سب سے بڑا دہشت گرد خود امریکہ ہے اور دہشت گردی کیخلاف حتمی کامیابی امریکی سامراج کے مکمل خاتمے سے ہی حاصل کی جا سکتی ہے۔
اسی طرح کچھ لوگ دیگر سامراجی قوتوں سے پشت پناہی کے طلبگار ہیں جو خود ان کے عوام دشمن عزائم کو عیاں کرتا ہے ۔ الطاف حسین پاکستان کو دنیا بھر میں دہشت گردی کا مرکز قرار دے کر اسرائیل، ہندوستان اور دیگر ریاستوں سے مدد کا طلبگا ر ہے۔ اسرائیل ہزاروں فلسطینیوں کا قاتل ہے اور خطے میں سب سے بڑی دہشت گرد ریاست ہے۔ اسی طرح ہندوستان کا وزیر اعظم مودی خود گجرات میں 2002ء میں ہندو مسلم فسادات میں ہزاروں افرادکے قتل کا ذمہ دار ہے۔ ہندوستان کی ریاست اس وقت کشمیری نوجوانوں کی آزادی کی تحریک کو کچلنے میں مصروف ہے۔ ابھی تک ڈیڑھ ماہ میں70افراد قتل ہو چکے ہیں جبکہ دس ہزار سے زائد زخمی ہیں۔ سینکڑوں افراد ہندوستانی افواج کی فائرنگ سے بینائی کھو چکے ہیں جبکہ ہزاروں کو جیلوں میں تشدد کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ اسی طرح بہت سی دوسری ریاستوں میں ہندوستانی ریاست عوام پر ظلم و ستم کے پہاڑ گرا رہی ہے۔ دوسری جانب پاکستان میں ہونے والی دہشت گردی اور دہشت گرد تنظیمیں بھارتی ریاست کو اس ظلم و ستم کے لیے بنیادیں اور جواز مہیا کرتی ہیں۔ اس کے علاوہ جس ملک میں 80کروڑ لوگ غربت کی چکی میں پس رہے ہوں وہاں اپنی آمدن کا بڑا حصہ اسلحے کی خریداری اور فوج پر خرچ کرنے کا جواز کیسے مہیا ہوسکتا ہے۔ یقیناًپاکستان کی دشمنی اوریہاں ہونے والی دہشت گرد کاروائیاں اہم دلائل مہیا کرتے ہیں۔ اس صورتحال میں کسی ریاست، سامراجی قوت، فوج یا پاکستانی ریاست کے کسی ادارے یا سیاسی پارٹی سے دہشت گردی کے مقابلے یا ختم کرنے کی توقع کرنا بیوقوفی ہے اور جو لوگ ایسے مشورے دیتے ہیں ان کی اکثریت ان قوتوں کی وظیفہ خوار ہوتی ہے۔ اس لیے اس عفریت کا مقابلہ پاکستان کے محنت کشوں اور انقلابی نوجوانوں کو خود کرنا ہو گا۔
طلبا یونین
آرمی پبلک سکول اور اس کے بعد بھی مختلف تعلیمی اداروں کو دہشت گردی کا نشانہ بنایا گیا ہے۔ اس کو جواز بنا کر ملک بھر کے تمام تعلیمی اداروں میں سکیورٹی سخت کر دی گئی ہے اور طلبا کی نقل و حرکت کی کڑی نگرانی شروع کر دی گئی ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ طلبہ دہشت گردی کا نشانہ نہیں بلکہ مجرم ہیں۔ تعلیمی اداروں میں آنے جانے پر، یہاں تک کہ کلاس روم میں جانے تک لی جانے والی جامہ تلاشی طلبہ کی توہین ہے۔ اس کے علاوہ بھی سکیورٹی اہلکاروں کو ہر قسم کے اختیارات دیے گئے ہیں اور وہ طلبہ کے ساتھ تضحیک آمیز سلوک کرتے ہیں۔ لیکن اس کے باوجود تعلیمی ادارے مسلسل دہشت گردی کا نشانہ بن رہے ہیں۔ اس دوران تعلیمی اداروں کی فیسیں اور انتظامیہ کا جبر بھی کہیں گنا بڑھ گیا ہے اور طلبہ اس کے خلاف آواز بلند کریں تو سکیورٹی کے نام پر انہیں خاموش کروا دیا جاتا ہے۔ طلبہ کے کسی بھی اکٹھ پر پابندی لگا دی گئی ہے اور اگر کوئی سرگرمی ہو تو سکیورٹی اہلکاروں کے جبر کے ذریعے اس کو روکا جاتا ہے۔ دوسرے الفاظ میں تعلیمی اداروں کو سکیورٹی کے نام پر جیلیں بنا دیا گیا ہے جہاں طلبہ کے لیے سانس لینا بھی مشکل ہے۔
لیکن اس سب کے باوجود یہ سکیورٹی اہلکار دہشت گردی کا مقابلہ نہیں کر سکتے۔ کچھ عرصہ قبل باچا خان یونیورسٹی میں ہونے والا واقعہ اس کا ثبوت ہے۔ بڑی تعداد میں سکیورٹی ہونے کے باوجود دہشت گردوں کو نہیں روکا جا سکا اور بہت سے طلبہ کو قتل کر دیا گیا۔ عوام کو یہ بتایا گیا کہ دہشت گرد صبح سویرے آ گئے تھے اوراس وقت دھندزیادہ تھی اس لیے سکیورٹی ناکام ہو گئی۔ سکیورٹی اداروں اور ریاست کے خصی پن کو چھپانے کے اس قسم کی مضحکہ خیز دلیلیں ہمیں ہر دہشت گردی کے واقعے کے بعد نظر آتی ہیں جو متاثرہ افراد کے زخموں پر نمک چھڑکتی ہیں۔
تعلیمی اداروں میں دہشت گردی کا مقابلہ کرنے کے لیے ضروری ہے کہ طلبہ یونینوں کو فعال کیا جائے اور اداروں کی سکیورٹی کی نگرانی طلبہ خود کریں۔ ضیاالباطل کے دور میں لگنے والی طلبا یونین پر پابندی بعد کے کسی بھی جمہوری دور میں ختم نہیں ہو سکی ۔ آج بھی ریاست طلبہ کے اکٹھ اور تحریک سے خوفزدہ ہے اور اسے دبانے کی ہر ممکن کوشش کر رہی ہے۔ سکیورٹی کے نام پر تعلیمی اداروں کی جیلوں میں تبدیلی اسی پالیسی کا حصہ ہے۔ ریاست کسی بھی طور پر دہشت گردی سے نپٹنے میں دلچسپی نہیں رکھتی بلکہ یہاں کے حکمران طبقات کی کوشش ہے کہ ابھرنے والی ممکنہ تحریکوں کیخلاف پیش بندی کی جائے ۔ اسی لیے جہاں طلبہ یونین پر پابندی ختم نہیں کی جاتی وہاں دہشت گردی کے واقعات کو اپنے جبر میں اضافے کے لیے استعمال کیا جا تا ہے۔ اس کا جواب طلبہ کو خود دینا ہوگا ۔ کوئی سیاسی پارٹی اور لیڈر ان کی مدد نہیں کرے گا اور نہ ہی سکیورٹی اہلکار انہیں دہشت گردی سے بچانے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔
طلبہ کو اپنی حفاظت اور دیگر حقوق کے حصول کے لیے یونین کے حق کو چھیننا ہو گا۔ اگر ہر ادارے میں یونین کے انتخابات باقاعدگی سے ہوں اور طلبہ کے حقیقی نمائندے ادارو ں کے فیصلہ ساز اداروں میں اپنا کردار ادا کریں تو نہ صرف طلبہ کے بہت سے مسائل حل ہو سکتے ہیں بلکہ انہیں ان جیل نما حالات سے بھی چھٹکارا مل سکتا ہے۔ طلبہ یقیناً ایسی تنظیموں کو رد کریں گے جو دہشت گردی اور مذہبی جنونیت کی حمایت کرتی ہیں اور اپنے حقوق کے دفاع کے لیے ایسی تنظیموں کو فروغ دیں گے جوان کے مسائل کے حل کا پروگرام دیں۔ منتخب طلبا یونین ادارے کی سکیورٹی کی مکمل منصوبہ بندی کر سکتی ہے اور کسی بھی حملے کی صورت میں زیادہ فعال اور بہتر انداز میں دہشت گردوں کا مقابلہ کر سکتی ہے۔ اس طرح مختلف تعلیمی اداروں کی یونینوں کو ایک پلیٹ فارم پر اکٹھا کیا جا سکتا ہے جہاں وہ اپنے تجربات اور منصوبے ایک دوسرے سے شئیر کر سکتے ہیں۔ طلبہ یونین کے مضبوط ہونے سے دہشت گردوں کے حوصلے بھی کمزور پڑیں گے اورممکنہ حملے کا مقابلہ کرنے کی بھرپور تیاری کے باعث تعلیمی اداروں میں دہشت گردی کا خطرہ بھی کم ہو گا۔
مزدور یونینیں
گزشتہ عرصے میں ہمیں ہسپتالوں، ائیرپورٹوں اور دیگر اداروں میں دہشت گردی کے واقعات دیکھنے میں ملے ہیں۔ کوئٹہ کا سانحہ بھی ہسپتال میں پیش آیا جبکہ اس سے پہلے کراچی اور پشاور ائرپورٹ سمیت ریلوے اور دیگر ادارے دہشت گردی کی زد میں آ چکے ہیں۔ اس دوران دیکھا گیا ہے کہ سکیورٹی کے انتظامات انتہائی ناقص تھے اور سکیورٹی ادارے دہشت گردی کا مقابلہ نہیں کر سکے۔ بہت سے واقعات میں ہمیں سکیورٹی ادارے حواس باختہ نظر آئے۔ کراچی ائیر پورٹ پر ایک واقعے میں ایک کمپنی کے بہت سے ملازمین ناقص حکمت عملی کی وجہ سے ہلاک ہو گئے۔ اسی طرح کراچی میں بلدیہ ٹاؤن کی فیکٹری میں آگ لگانے کا واقعہ بھی دہشت گردی تھا۔ جب بھتے کی وصولی کے لیے سینکڑوں مزدوروں کو جلا کر راکھ کر دیا گیا۔ جبکہ تمام سکیورٹی ادارے اس خون کی ہولی کو تماشائی بن کر دیکھتے رہے۔
اس حوالے سے سکیورٹی اداروں پر انحصار اور ان سے امید رکھنے کی بجائے محنت کشوں کو خود منظم ہونا ہو گا اور اپنی یونینوں کے ذریعے اس دہشت گردی سے مقابلے کی تیاری کرنی ہو گی۔ سرکاری اداروں میں یونینیں کسی حد تک موجود ہیں انہیں مزید فعال کرنے کی ضرورت ہے اور اداروں کی سکیورٹی وہاں موجود یونینوں کو اپنی نگرانی میں لینے کی ضرورت ہے۔ سکیورٹی اہلکاروں کی تعیناتی یا برخواستگی، ان کی ڈیوٹیوں کی تبدیلی سمیت سکیورٹی کے تمام فیصلے اس ادارے کی یونینوں کے ہاتھ میں ہونے چاہئیں ۔ اس سے دہشت گردی کا سب سے بہتر مقابلہ کیا جا سکتا ہے۔ ابھی سکیورٹی کی منصوبہ بندی وہ لوگ کرتے ہیں جو ان اداروں میں موجود ہی نہیں ہوتے اس لیے وہ اس منصوبہ بندی یا سکیورٹی آلات کی دیکھ بھال کو غیر سنجیدہ لیتے ہیں۔ یونینیں اس کو زیادہ بہتر انداز میں سر انجا م دے سکتی ہیں۔ کوئٹہ میں حال ہی میں ینگ ڈاکٹروں اور پیرا میڈیکس نے اپنے حقوق کی شاندار لڑائی منظم انداز میں لڑی ہے۔ اگر سول ہسپتال کی سکیورٹی ان منظم تنظیموں اور ان کے منتخب نمائندوں کے پاس ہوتی تواس دہشت گردی کا تدارک کیا جا سکتا تھا۔ یہی صورتحال نجی اداروں اور صنعتوں کی ہے۔ جہاں محنت کشوں کو منظم کرنے اور ان کی مضبوط یونینیں تعمیر کرنے کی ضرورت ہے۔ ان یونینوں کے ذریعے ہی دہشت گردی کا مقابلہ کیا جا سکتا ہے اور بھتہ خوروں، قبضہ گروپوں اور ان کے ایجنٹوں کا صفایا کیا جا سکتا ہے۔ ایک علاقے میں مختلف اداروں کی یونینوں کو بھی ایک پلیٹ فارم پر متحد کرنے کی ضرورت ہے تا کہ وہ پورے علاقے کی سکیورٹی اور حالات کا جائزہ لیتے ہوئے اس کا مقابلہ کرنے کی منصوبہ بندی کر سکیں۔ پولیس سمیت کسی بھی ریاستی ادارے پر بھروسہ کرنا خام خیالی ہے۔
عوامی کمیٹیاں
پاکستان کے کچھ علاقے ایسے بھی ہیں جہاں دہشت گردوں کا مکمل کنٹرول ہے یا وہ مسلسل دہشت گردی کی کاروائیاں جاری رکھے ہوئے ہیں۔ فوجی آپریشنوں اور ریاستی اداروں کی موجودگی کے باوجود ان کی قوتوں میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے اور عوام ان کاروائیوں میں گاجر مولی کی طرح کٹتے جا رہے ہیں۔ اس کا مقابلہ کرنے کے لیے عوام کو خود منظم ہونے کی ضرورت ہے۔ رائج الوقت سیاسی پارٹیوں کے لیڈر کبھی بھی اس اقدام کی حمایت نہیں کریں گے کیونکہ ان کے مفادات خود اس خونی ریاست کے ساتھ جڑے ہوئے اور وہ اس نظام سے مصالحت کر چکے ہیں۔ وہ انہی ناکام و نامراد اور خصی ریاستی اداروں پر انحصار کر نے سبق دیتے ہیں۔ لیکن دوسری جانب خود ریاستی اہلکار متعدد دفعہ کہہ چکے ہیں کہ شہریوں کو اپنی حفاظت کا ذمہ خود لینا ہو گا۔ اس کے لیے مختلف سکیورٹی کمپنیوں کی خدمات پیش کی جاتی ہیں جو دہشت گردی کی وارداتوں پر زیادہ منافع کماتی ہیں۔ جتنا زیادہ خوف اور دہشت پھیلے گی ان کمپنیوں کا کاروبار اتنا ہی بڑھے گا۔ اس کے علاوہ ان کمپنیوں کا مقصد منافع کمانا ہے سکیورٹی فراہم کرنا نہیں اور نہ ہی ان پر بھروسہ کیا جا سکتا ہے۔ انتہائی قلیل تنخواہ اور غیر انسانی شرائط پر نوکری کرنے والے کمپنیوں کے اہلکاروں سے یہ توقع کرنا کہ وہ اپنی جان کسی دوسرے کی حفاظت میں لگا دیں گے بیوقوفی کی انتہا ہے۔
ایسی صورت میں عوام کو دہشت گردی کا مقابلہ کرنے کے لیے خود منظم ہونا ہو گا اور محلے کی سطح پر ایسی کمیٹیاں تشکیل دینی ہوں گی جو مختلف جرائم اور دہشت گردی کا مقابلہ کرنے کے لیے تیار ہوں۔ مقامی کونسلروں یا نام نہاد نمائندوں پر انحصار کرنے کی بجائے ان کمیٹیوں کو جمہوری انداز میں چلانے کی ضرورت ہے۔ تحریکوں کی عدم موجودگی کی کیفیت میں خود جرائم پیشہ افراد ان کمیٹیوں کے سربراہ بن کر انہیں اپنے مفاد کے لیے استعمال کرسکتے ہیں۔ اس لیے ان کمیٹیوں میں جمہوری اندازمیں سب کے سامنے اور فوری فیصلے کرنے کی ضرورت ہے۔ ساتھ ہی ان میں محنت کشوں کی بڑی تعداد کو شامل کرنے کی ضرورت ہے جن کی رائے انتہائی اہمیت کی حامل ہے۔ پاکستان کے مختلف حصوں میں جرگے، پنچایتیں یا ایسے ہی رجعتی ادارے موجود ہیں جو علاقے کے مختلف امور پر فیصلے صادر کرتے ہیں۔ ان جرگوں میں دولت مند اور حکمران طبقے کے افراد ہی فیصلہ کن کردار ادا کرتے ہیں۔ یہ جرگے اور پنچایتیں دہشت گردی کا مقابلہ کرنے میں ناکام رہی ہیں بلکہ اکثر دہشت گردی کے معاون رہے ہیں۔ اس لیے دہشت گردی کا مقابلہ کرنے کیے بنائی جانے والی کمیٹیوں میں حکمران طبقے کے افراد اور ریاستی اہلکاروں کی شمولیت پر پابندی لگانی ہو گی ۔ اسی طرح ایسے تمام افراد بالخصوص تاجر اور کاروباری جو دہشت گردتنظیموں کی مالی معاونت کرتے رہے ہیں، ان پر بھی سخت پابندی لگانی ہوگی۔
ریاست اور یہاں موجود حکمران طبقات ان تمام اقدامات کی مخالفت کرے گی اور اس کے رستے میں رکاوٹیں کھڑی کرے گی۔ اس کے علاوہ ان کوششوں کو مسخ کرنے کی بھی کوشش کی جائے گی اور اپنے ایجنٹوں کے ذریعے ان اداروں کو بدنام کروانے کی سازش بھی کی جا ئے گی۔ اس کے علاو ہ آغاز میں دیگر ساتھیوں کا اعتماد جیتنے اور خوف توڑنے میں بھی دقت ہو گی لیکن اگر یہ سار اعمل ایک تحریک کی شکل اختیار کر لیتا ہے تو یہ ادارے زیادہ فعال اور واضح شکل میں ابھر کر سامنے آئیں گے۔ طلبہ اور مزدوروں کی بڑھتی ہوئی تحریکیں ان اداروں کے کردار کو وسعت دیتے ہوئے انہیں ریاستی اداروں کی جگہ لینے کی طرف بھی دھکیل سکتی ہیں۔ ایک ملک گیر عوامی تحریک جہاں اس بوسیدہ ریاست کو دفن کرنے کی جانب بڑھے گی وہاں اس کی جگہ ایک نئی ریاست کا خلا بھی پیدا کرے گی۔ اس موقع پر اگر ایک انقلابی پارٹی موجود ہوتی ہے تو وہ مزدور ریاست کی تعمیر کا آغاز انہی ادارو ں کو بنیاد بناتے ہوئے کر سکتی ہے۔ لیکن اس پورے عمل میں عوام کی براہ راست شمولیت کلیدی کردار ادا کریگی اور انقلابی پارٹی کو اس سرمایہ دارانہ نظام کے خاتمے کا نادر موقع فراہم کرے گی۔ آخری تجزیے میں دہشت گردی کی تمام تر جڑیں اسی سرمایہ دارانہ نظام میں پیوست ہیں اس لیے دہشت گردی کا مکمل خاتمہ کرنے کے لیے اس سرمایہ دارانہ نظام کا خاتمہ ضروری ہے۔ اس لیے دہشت گردی کا مقابلہ کرنے والے تمام افراد اور تنظیموں کو اپنی حتمی منزل سوشلسٹ انقلاب کو بنانا ہو گا۔ اس کے بعد ہی دہشت گردی کا نہ صرف ڈٹ کر مقابلہ کیا جا سکتا ہے بلکہ اس کا ہمیشہ کے لیے خاتمہ بھی ہو سکتا ہے۔