|تحریر: آفتاب اشرف|
قرضہ حاصل کرنے کے لئے حکومت پاکستان کے آئی ایم ایف سے حال ہی میں طے پانے والے معاہدے کی بنیادی شرائط میں سینکڑوں سرکاری اداروں کی نجکاری بھی شامل ہے۔ ان اداروں میں سرکاری ہسپتالوں اور تعلیمی اداروں سے لے کر پاور پلانٹس، واپڈا کی ڈسٹری بیوشن کمپنیاں، پی آئی اے، اسٹیل مل، ریلوے، پاکستان پوسٹ، سوئی پائپ لائنز لمیٹڈ، اوجی ڈی سی ایل، پی ایس او، واسا، اسٹیٹ لائف انشورنس اور سرکاری بینک، سب شامل ہیں۔ نجکاری کا یہ خون آشام حملہ جہاں ایک طرف رہی سہی سستی عوامی سہولیات کے خاتمے کا سبب بنے گا وہیں دوسری طرف اس سے ان اداروں میں کام کرنے والے لاکھوں محنت کش بیروزگار ہوں جائیں گے۔ لیکن پاکستان کے سرمایہ دار حکمران طبقے اور ریاستی اشرافیہ کو اس تمام تباہی کی کوئی پرواہ نہیں کیونکہ اپنی تخلیق کے پہلے دن سے ہی ان کا مقصد اپنے سامراجی آقاؤں کی منافع خوری اور لوٹ مار کو سہولت کاری فراہم کرنا اور اس عمل میں جونیئر پارٹنر کا کردار ادا کرتے ہوئے اپنی تجوریاں بھرنا ہے۔ ملک کے معاشی بحران پر مگر مچھ کے آنسو بہاتے ہوئے حکمران طبقہ اس بحران کا سارا بوجھ محنت کش عوام کے کندھوں پر منتقل کر رہا ہے جبکہ خود اس کی منافع خوری، عیاشیوں اورآرام وآسائش میں پہلے سے بھی تیز بڑھوتری ہو رہی ہے۔
آئی ایم ایف کے اشاروں پر بننے والے حالیہ بجٹ سے بھی یہی حقیقت عیاں ہوتی ہے کہ جہاں ایک طرف عوام پر ٹیکسوں کی بھر مار کر دی گئی ہے وہیں سرمایہ داروں کو بے شمار ٹیکس چھوٹ، سبسڈیاں اور دیگر مراعات دی گئیں ہیں۔ ظلم تو یہ ہے کہ عوام کی ہڈیوں سے نچوڑی جانے والی ساری ٹیکس آمدن کا ایک بڑا حصہ ان قرضوں اور ان کے سود کی ادائیگی میں خرچ ہو جاتا ہے جو نہ تو عوام نے لئے اور نہ ہی ان پر لگے۔ جو بچتا ہے وہ دفاع کے نام پر ملک کی جرنیل شاہی ہڑپ لیتی ہے۔ سامراجی مالیاتی اداروں کے حکم پر گماشتہ حکمرانوں کی جانب سے تشکیل دیے جانے والے نجکاری کے حالیہ خون آشام منصوبے کا حقیقی مقصد بھی ملکی و غیر ملکی سرمایہ دار طبقے کو سرکاری اداروں کی لوٹ سیل کے ذریعے اپنی ملکیت بڑھانے اور اندھا دھند منافع خوری کرنے کے مواقع فراہم کرنا ہے۔ مگر ان اداروں میں کام کرنے والے محنت کشوں کے لئے یہ زندگی اور موت کا مسئلہ ہے۔ انہیں اپنی بقا کی خاطر ایک زبر دست نجکاری مخالف جدوجہد کرنی پڑے گی۔ ہم سمجھتے ہیں کہ اگر درست طریقہ کار اور لائحہ عمل کے ساتھ اس جدوجہد کو آگے بڑھایا جائے تو فتح یقیناً محنت کشوں کا مقدر بنے گی۔ آئیے، اس حوالے سے چند ایک ٹھوس تجاویز اور نکات پر بات کرتے ہیں۔
1۔ نجکاری مخالف عوامی آگہی مہم کی ضرورت
پچھلی تین دہائیوں میں بالعموم اور گزشتہ چند سالوں میں بالخصوص حکمران طبقے نے نہایت چالاکی کے ساتھ ریاستی وسائل اور زر خرید میڈیا کا استعمال کرتے ہوئے نجکاری کے نشانے پر موجود سرکاری اداروں کی خامیوں اور ناکامیوں کا تمام تر ذمہ دار ان میں کام کرنے والے محنت کشوں کو قرار دیا ہے۔ مزید برآں، یہ جھوٹ بھی مسلسل دہرایا گیا ہے کہ نجکاری سے نہ صرف ان اداروں کی کارکردگی بہتر ہو گی بلکہ عوام کو بھی اس کا فائدہ ہو گا۔ یہ زہریلا پراپیگنڈہ اتنے تواتر کے ساتھ کیا گیا ہے کہ عوام کی قابل ذکر پرتیں بھی اس حوالے سے غلط فہمیوں کا شکار ہیں۔ واضح رہے کہ بھر پور عوامی حمایت کے بغیر محنت کش یہ نجکاری مخالف لڑائی نہیں جیت سکتے۔ اسی لئے لازمی ہے کہ اس حوالے سے عوام میں پھیلائے گئے حکومتی پراپیگنڈے کا توڑ کیا جائے اور ان تک حقیقی صورتحال پہنچائی جائے۔ ان اداروں کے محنت کشوں کا فریضہ ہے کہ وہ صبر کے ساتھ عوام پر یہ واضح کریں کہ ان اداروں کی مسلسل زوال پذیر کارکردگی کی وجہ ریاست اور حکومت کی جانب سے مطلوبہ وسائل اور بجٹ کی عدم فراہمی، سامراجی ایما پر بننے والی تباہ کن حکومتی پالیسیاں اور افسر شاہی کی بد انتظامی ہے۔ اسی طرح عوام تک یہ مؤقف بھی پہنچانے کی ضرورت ہے کہ نجکاری کی صورت میں کس طرح نجی مالکان کی منافع خوری کی ہوس نہ صرف اداروں کی کارکردگی کو مزید خراب کرے گی بلکہ عوام کو دستیاب سہولیات کہیں مہنگی ہو کر ان کی پہنچ سے مکمل
طور پر باہر ہو جائیں گی۔ اداروں میں ’غیر ضروری بھرتیوں‘ کے حوالے سے بھی عوام تک درست اعداد وشمار لیجانے کی ضرورت ہے تا کہ اس حوالے سے بھی حکومتی جھوٹوں کا پردہ فاش کیا جا سکے اور عوام پر واضح ہو کہ درحقیقت ان اداروں میں کام کرنے والے محنت کشوں کی تعداد درکار افرادی قوت سے کہیں کم ہے۔ اپنا نقطہ نظر عوام تک پہنچانے کے لئے ان اداروں کے محنت کشوں کو کوئی بہت زیادہ بھاگ دوڑ کرنے کی بھی ضرورت پیش نہیں آئے گی کیونکہ ان کا عوام سے روزانہ کی بنیاد پر واسطہ رہتا ہے اور وہ اسی دوران اپنا مؤقف ان تک بخوبی پہنچا سکتے ہیں۔ مثلاً کسی بھی بڑے شہر کے ہر ایک سرکاری ہسپتال میں روزانہ ہزاروں کی تعداد میں مریض اور ان کے لواحقین آتے ہیں۔ انہیں ایک پمفلٹ کے ذریعے حقیقت حال سے آگاہ کرنا ہر گز مشکل کام نہیں۔ اسی طرح ریلوے اسٹیشنوں پر روز عوام کا جم غفیر اکٹھا ہو تا ہے۔ ان تک باآسانی اپنی بات پہنچائی جا سکتی ہے۔ بجلی اور گیس کے بل ہر گھر میں جاتے ہیں۔ ان بلوں کے ساتھ محنت کشوں کے مؤقف پر مبنی لیف لیٹ بھی تقسیم کئے جا سکتے ہیں۔ اسی طرح عوام تک اپنی بات پہنچانے کے سینکڑوں رستے ہیں لیکن ضرورت اس امر کی ہے کہ نجکاری مخالف جدوجہد میں عوامی حمایت جیتنے کی بنیادی ضرورت و اہمیت کو سمجھا جائے۔
2۔ ادارہ جاتی بنیادوں پر نجکاری مخالف اتحاد کی ضرورت
حکمران طبقے اور ریاستی اشرافیہ کی ہمیشہ یہ کوشش ہوتی ہے کہ وہ کسی بھی ادارے کے محنت کشوں کو ہنر مند و غیر ہنر مند، شعبہ جاتی اور محنت کی تقسیم کار سے متعلق دیگر بنیادوں پر آپس میں تقسیم کر کے رکھیں تا کہ اپنے حقوق کی خاطر کسی مشترکہ جدوجہد کو ابھرنے سے روکا جا سکے۔ اکثر اوقات ٹریڈ یونین قیادتیں بھی حکمران طبقے کے اس مذموم ایجنڈے پر دانستہ یا غیر دانستہ طور پر عمل کرتے ہوئے اس تقسیم کو مزید گہرا کرنے کا موجب بنتی ہیں۔ ایک ہی ادارے میں کام کی نوعیت کی بنیاد پر بننے والی درجنوں مختلف ایسوسی ایشنز اور یونینز اسی حقیقت کی غمازی کرتی ہیں۔ لیکن نجکاری ایک ایسا مسئلہ ہے جو ادارے میں کام کرنے والے ہر محنت کش کو بری طرح متاثر کرے گا۔ نجکاری کے بعد ادارے میں ہونے والی چھانٹیاں ہوں، اجرتوں میں کمی ہو یا اوقات کار میں اضافہ، اس کا خمیازہ ادارے میں کام کرنے والے تمام ملازمین بھگتیں گے۔ اسی لئے ضروری ہے کہ ادارے میں موجود محنت کشوں کی تمام تنظیمیں اپنے تنگ نظر مفادات اور اختلافات کوپس پشت ڈالتے ہوئے ایک نکاتی نجکاری مخالف ایجنڈے پر اکٹھی ہو جائیں۔ اس ضمن میں ہمارے سامنے صوبہ پنجاب اور خیبر پختونخواہ کی مثال موجود ہے جہاں شعبہ صحت کے تمام ملازمین، چاہے وہ ینگ ڈاکٹرز ہوں، نرسنگ سٹاف ہو یا پیرامیڈیکس، کی نمائندہ تنظیمیں نجکاری مخالف جدوجہد میں گرینڈ ہیلتھ الائنس کا مشترکہ پلیٹ فارم تشکیل دیتے ہوئے اتحاد قائم کر چکی ہیں۔ ایسے ہی باقی تمام اداروں میں بھی نجکاری مخالف مشترکہ پلیٹ فارمز تشکیل دئیے بغیر اس لڑائی کو آگے نہیں بڑھایا جا سکتا۔
3۔ مختلف اداروں کے مابین نجکاری مخالف اتحاد کی تشکیل
جہاں ایک طرف کسی بھی ادارے کے تمام محنت کشوں کا ایک نجکاری مخالف پلیٹ فارم پر یکجا ہونا نہایت ضروری ہے وہیں دوسری طرف یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ یہ نجکاری کے نشانے پر موجود تمام اداروں کے محنت کشوں کی مشترکہ لڑائی ہے اور کسی بھی ایک ادارے کے ملازمین تن تنہا اپنی کوششوں کے بلبوتے پر اس حملے کا زیادہ دیر تک مقابلہ نہیں کر سکتے۔ حکمران طبقے کو بھی اس حقیقت کا بخوبی ادارک ہے کہ اگر ایسے تمام اداروں کے محنت کش نجکاری مخالف جدوجہد میں متحد ہو گئے تو ان کے منصوبوں پر پانی پھر جائے گا۔ یہی وجہ ہے کہ وہ مزدور تحریک میں موجود اپنے گماشتوں اور ٹریڈ یونین قیادت میں متحرک اپنے دلالوں کے ذریعے محنت کشوں کے اتحاد کی تشکیل میں مسلسل رکاوٹیں ڈالنے کی کوششیں کرتے ہیں۔ اسی طرح اداروں کی انتظامیہ بھی انتقامی کاروائیوں کے لئے چن چن کر ایسے شعور یافتہ محنت کشوں اور ٹریڈ یونین کارکنان کو نشانہ بناتی ہے جو تمام اداروں کے محنت کشوں کے نجکاری مخالف اتحاد کی بات کرتے ہیں۔ ایسے میں تمام محنت کشوں بالکل واضح ہو نا پڑے گا کہ یہ ایک مشترکہ لڑائی ہے اور اسے آپس میں متحد ہو کر ہی جیتا جا سکتا ہے، لہٰذا لازمی ہے کہ ابتدائی طورپر ہر بڑے شہر میں تمام اداروں کے محنت کشوں کے لڑاکا نمائندوں پر مشتمل مزدور رابطہ کمیٹیاں بنائی جائیں جو کہ’نجکاری کیخلاف جنگ‘ کے یک نکاتی ایجنڈے کے گرد تمام اداروں کے محنت کشوں کی جدوجہد کو مشترکہ طور پر منظم کریں۔یہی کمیٹیاں آگے چل کر ایک ملکی سطح کے نجکاری مخالف اتحاد کی بنیاد بنیں گی۔ مختلف اداروں کے محنت کشوں کے مابین پل کا کام دینے میں بائیں بازو کے سیاسی کارکنان کا ایک نہایت اہم کردار بنتا ہے اور یہی اس وقت مزدور تحریک میں ان کا سب سے اہم فریضہ ہے۔
4۔ غدار ٹریڈ یونین قیادتوں سے نجات
پاکستان میں مزدور تحریک کی راہ میں حائل سب سے بڑی رکاوٹ بذات خود ٹریڈ یونین قیادت ہے جس کی ایک بڑی تعداد مزدوروں کے مفادات کی بجائے حکمران طبقے، ریاستی اشرافیہ اور مالکان کے مفادات کی نگہبانی کرتی ہے۔ حکمران طبقے کی دلالی کرنے کی خاطر یہ غدار قیادتیں محنت کشوں کو مستقل بنیادوں پر تقسیم رکھنے،ان میں بد حوصلگی اور مایوسی پھیلانے، انہیں حکمرانوں کی نام نہاد طاقت سے خوفزدہ کیے رکھنے، محنت کشوں کی سیاسی تعلیم وتربیت کی حوصلہ شکنی کرنے سمیت ہر طرح کا حربہ استعمال کرتی ہیں۔ اگر کبھی محنت کش خود سے منظم ہو کر اپنے حقوق کی خاطر کوئی جدوجہد کرنے کے لئے قدم اٹھائیں تو انہیں سب سے پہلے انہی دلال ٹریڈ یونین قیادتوں کے حملوں اور الزام تراشیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اگر کسی مسئلے پر نیچے سے پڑنے والا دباؤ بہت بڑھ جائے اور ان غداروں کو مجبوراً کسی تحریک کی قیادت کرنی پڑے تو یہ اسے تھکاکر، گول دائروں میں گھما کر، لایعنی مذاکرات میں الجھا کر ختم کرنے کے بھی ماہر ہیں۔ مزدور تحریک کی تاریخ ایسے بے شمار دھوکوں سے بھری پڑی ہے جب ان غدار ٹریڈ یونین لیڈروں نے چھوٹے چھوٹے ذاتی مفادات پر بک کر انتہائی توانا تحریکوں کی پیٹھ میں چھرا گھونپا۔ محنت کش طبقہ ان قیادتوں کی مزید غداریوں کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ اس وقت معاملہ محنت کشوں کی بقا کا ہے اور اگر انہوں نے یہ نجکاری مخالف لڑائی جیتنی ہے تو انہیں ان غدار لیڈروں کو اٹھا کر مزدور تحریک کی صفوں سے باہر پھینکنا ہو گا۔ اس مقصد کے لئے محنت کشوں کی شعور یافتہ لڑاکا پرتوں کو کھل کر سامنے آنا ہو گا اور اپنے طبقے کی قیادت سنبھالنی ہو گی۔ اس عمل میں بائیں بازو کے سیاسی کارکنان بھی ان کے شانہ بشانہ کھڑے ہوں گے۔ یاد رہے یہ وہ ناگزیر لڑائی ہے جس کے بغیر نجکاری مخالف تحریک تو دور کی بات،محنت کش اپنی کوئی چھوٹی سے چھوٹی مانگ بھی نہیں منوا سکتے۔
5۔ اپوزیشن سیاسی پارٹیوں اور لیبر این جی اوز سے ہوشیار
آج کل بجٹ کے موضوع پر اپوزیشن میں موجود سیاسی پارٹیاں خوب مگر مچھ کے آنسو بہا رہی ہیں۔ شہباز شریف اور آصف زرداری جیسے سکہ بند مزدور دشمن بھی عوام کی بدحالی پر ’احتجاج‘ کرتے نظر آتے ہیں۔ یہ سب محض ایک فریب اور دھوکہ ہے۔ جب یہ پارٹیاں خود اقتدار میں تھیں تو ان کی پالیسیاں بھی اتنی ہی مزدور دشمن تھیں جتنی کہ موجودہ حکومت کی ہیں۔ سب نے اپنے اپنے دور میں آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک جیسے سامراجی اداروں اور ملکی سرمایہ دار طبقے کی دلالی کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ بلاول کی قیادت میں سندھ کی موجودہ حکومت ابھی بھی اس پروگرام پر عمل پیرا ہے اور گزشتہ گیارہ سال سے مسلسل محنت کشوں پر بد ترین حملے کر رہی ہے۔ خوشنما لفاظیوں سے قطع نظر نجکاری کے معاملے میں سب پارٹیاں ایک پیج پر ہیں اور اپنی حکومتوں میں یہ سب پارٹیاں محنت کشوں پر نجکاری کے بد ترین وار کر چکی ہیں۔ حال ہی میں اپوزیشن قیادت کی جانب سے حکومت کو کی جانے والی ’میثاق معیشت‘ کی پیشکش اسی حقیقت کی غمازی کرتی ہے۔ اسی طرح لوٹ کے مال کی بندر بانٹ پر اسٹیبلشمنٹ کے سیاسی قیادتوں سے ہزار اختلافات ہوں گے لیکن مزدور دشمنی اور ملکی و غیر ملکی سرمایہ داروں کی دلالی میں یہ بھی کسی سے کم نہیں ہیں۔ ایوب اور ضیا آمریتوں کے محنت کشوں پر خون آشام حملوں کی داستانیں ریکارڈ پر موجود ہیں۔ اسی طرح پی ٹی سی ایل سمیت کئی دیگر اہم ملکی اثاثوں کی نجکاری مشرف آمریت کے دوران ہی کی گئی تھی۔ لہٰذا ان قوتوں میں سے کسی سے بھی کوئی امید باندھنا یا مدد کی توقع رکھنا مزدور تحریک اور نجکاری مخالف جدوجہد کے لئے زہر قاتل ثابت ہوگا۔ اپنی نجات کے لئے محنت کشوں کو خود اپنے زور بازو پر بھروسہ کرنا ہو گا۔ اسی طرح مزدور تحریک میں موجود لیبر این جی اوز بھی سرمایہ دار طبقے اور سامراجی اداروں کی ہی دلال ہیں۔ ان کا مقصد مزدور جدوجہد میں نقب لگا کر اسے اند ر سے کمزور کرنا اور لڑاکا محنت کشوں میں خیراتی نفسیات پروان چڑھا کرانہیں جدوجہد سے باز رکھنا ہو تا ہے۔ اس مقصد کے لئے انہیں سامراجیوں اور سرمایہ داروں اور ریاست کی طرف سے بھاری فنڈنگ بھی ہوتی ہے۔ یہ این جی اوز حکمران طبقے اور غدار ٹریڈ یونین قیادتوں کے بیچ ایک پل کا کام بھی کرتی ہیں اور یہ سب مزدور دشمن عناصر مل بیٹھ کر محنت کش طبقے کو دھوکہ دینے کے نت نئے منصوبے تیار کرتے رہتے ہیں۔ لہٰذا ضرورت اس امر کی ہے غدار قیادتوں کے ساتھ ساتھ انہیں بھی تحریک سے نکال باہر کیا جائے۔
یہاں پر یہ واضح کرنا ضروری ہے کہ غدارقیادتوں کی چکموں، سیاسی پارٹیوں اور این جی اوز کی پر فریب لفاظیوں اور ریاستی اداروں کی دھوکہ بازی کا مقابلہ کرنے کے لئے صرف جرأت کا مظاہرہ کرنا ہی کافی نہیں بلکہ اس مقصد کے لئے محنت کش طبقے اور خصوصاً اس کی لڑاکا پرتوں کی سیاسی تعلیم و تربیت اور ان کی سوشلسٹ نظریات سے آگاہی بھی اتنی ہی اہمیت رکھتی ہے۔ اس حوالے سے بلاشبہ بائیں بازو کے سیاسی کارکنان کے کندھوں پر ایک بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے جنہیں مزدور تحریک کے معاشی مطالبات سے سیاسی جدوجہد کے سفر میں مدد کرنی ہے۔ درحقیقت مزدور تحریک کی پسپائی ایک بڑی وجہ بھی ملک میں مزاحمتی سیاست کا زوال اور پسپائی ہے اور اس سیاست کا دوبارہ احیا بھی مزدور تحریک کی مضبوطی اور آگے کی جانب حرکت کے ساتھ جڑا ہوا ہے۔ نجکاری مخالف تحریک کی اٹھان ملک کی سیاست پر بھی گہرے اثرات مرتب کرے گی اور مزدور طبقے کی نمائندہ سیاست کو دوبارہ افق پر روشن کرے گی۔
آگے بڑھو۔۔۔ ایک ملک گیر عام ہڑتال کی جانب
آج نجکاری کے نشانے پر موجود کئی ایک اداروں میں نجکاری مخالف جدوجہد کا آغاز ہو چکا ہے۔ بے شمار ایسے ادارے ہیں جہاں کے محنت کش حکومت کے ارادوں کو بخوبی بھانپ رہے ہیں اور شدید اضطراب کی کیفیت میں ہیں۔ ایسے میں حکمران طبقے کی طرف سے کیا گیا پہلا وار ان اداروں میں بھی نجکاری کیخلاف عملی جدوجہد کو جنم دینے کا سبب بنے گا۔ لیکن سوال یہ ہے کہ جب دشمن ایک ہے، لڑائی ایک ہے تو پھر علیحدہ علیحدہ کیوں لڑا جائے۔ اس طرح سے ایک دوسرے سے کٹ کر تو یہ تمام نجکاری مخالف تحریکیں حتمی تجزئیے میں ناکام ہو جائیں گی۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ اپنے اپنے اداروں میں صفوں کو درست کرتے ہوئے تمام اداروں کے محنت کشوں پر مشتمل ایک مشترکہ نجکاری مخالف جدوجہد کی طرف بڑھا جائے۔ اس جدوجہد کے اغراض ومقاصداور اس کے پیغام کو نجی صنعتوں کے محنت کشوں، طلبہ، نوجوانوں اور غریب کسانوں تک پہنچاتے ہوئے انہیں بھی اپنے ساتھ جوڑا جائے۔ اسی طرح ایک ملک گیر عام ہڑتال کی جانب بڑھا جا سکتا ہے جو کہ نہ صرف نجکاری کے اس حملے کو ناکام بنا دے گی بلکہ محنت کش طبقے کو اس کی سماجی طاقت کا احساس دلاتے ہوئے ان کے سامنے سیاسی اقتدار کا سوال بھی لا کھڑا کرے گی۔ یہ عام ہڑتال سرمایہ دارانہ نظام کے خاتمے اور سماج کی سوشلسٹ تبدیلی کے سفر میں ایک اہم سنگ میل ثابت ہوگی۔