|تحریر: صبغت وائیں|
ایک دو دن سے جب بھی خبریں دیکھنے کے لیے (انٹرنیٹ پر) جیو چینل لگایا ہے، ڈاکٹروں کے ساتھ عجیب قسم کی عقیدت اور شکر گزاری کے اشتہار سامنے آ رہے ہیں۔ ایک گانے والے نے ان پر کوئی گانا گایا ہے، جو کہ اسی حکمتِ عملی کا شاخسانہ لگ رہا ہے جو کہ ہماری ریاست کچھ عرصے سے اپنائے ہے کہ کوئی بھی واقعہ ہو اس پر ایک دو گانے بنا دینے سے مسئلہ حل ہو نہ ہو، فرض کو بخوبی ادا کر دیا گیا باور کر لیا جاتا ہے۔ اسی طرح سے کرونا کا مقابلہ کرنے کے لیے جہاں دیگر (اسی قسم کے) بہت سے اقدامات نظر آ رہے ہیں، وہیں ایک گانا بھی سامنے آ گیا ہے۔
اب ہر پانچ منٹ میں دو یا تین بار اس گانے کو چلا دیا جاتا ہے، جیسے ڈیم فنڈ کی باری ”ہم یہ ڈیم بنائیں گے“ اور ”پانی آپ کو کیپسولوں میں ملے گا“ جیسے ڈراؤنے خواب دکھائے جاتے سمے کیا جاتا رہا ہے۔ اس پر طُرہ یہ کہ ساتھ سفید کپڑے کے جھنڈے لے کر آج شام چھ بجے تمام لوگوں سے چھتوں پر چڑھ کر یہ سفید جھنڈے لہرا لہرا کر یہ والا گانا گانے کا حکم دیا جا رہا ہے۔
اسی کے ساتھ ایک اور خبر کو بھی جوڑ لیتے ہیں، لاہور کے سر گنگا رام ہسپتال کے باہر پنجاب پولیس کے ایک چاک وچوبند دستے نے ڈاکٹروں کو سلامی پیش کی ہے۔
یہ سب دیکھ کر میرے جیسا عام آدمی جس کی قریب کی یاداشت اگرچہ کچھ کمزور ہو لیکن عمومی یاداشت بہتر ہو، بہت کچھ سوچنے پر مجبور ہو جاتا ہے۔
پچھلی دہائی کو دیکھیں تو اس میں جس قدر کردار کُشی ڈاکٹروں کی کی گئی ہے اتنی کسی اور ملازم پیشہ کی نہیں کی گئی۔ یہاں تک کہ پروفیسروں کو ہتھکڑیاں لگائی گئیں، ان کی بھی نہیں۔ ہم نے خود باہر نکل کر لوگوں سے بات کرتے ہوئے محسوس کیا ہے کہ بہت سے لوگ ڈاکٹروں کے متعلق وہی زبان استعمال کر رہے ہوتے تھے جو زبان ریاست میڈیا کو استعمال کرتے ہوئے ان کے منہ میں ڈال گئی تھی۔
ایسی بات نہیں ہے کہ ہم نے ڈاکٹروں کی جانب سے کیا جانے والا استحصال دیکھا نہیں یا بھگتا نہیں ہے۔ لیکن جس طرح طبقاتی سماج میں ہر جگہ طبقے بنے ہوتے ہیں اسی طرح سے ڈاکٹروں میں بھی دو واضح طبقے موجود ہیں، جو دیکھے جا سکتے ہیں۔ ایک تو وہ ڈاکٹر جو کہ نوٹ چھاپنے کی مشینیں ہیں۔ جن کے گھر کی ٹوٹیاں اور بچوں کے ڈائیپرز بھی دوائیوں کی کمپنیاں فراہم کرتی ہیں۔ جو بس پنسل گھسیٹ کر فیس پکڑتے جاتے ہیں وغیرہ۔۔۔ میں اس پر کیا لکھوں یہ تمام باتیں جو میرے ذہن میں ہیں زبان زدِعام ہیں۔ لیکن ان پروفیسروں کی دوسری جانب وہ ڈاکٹر بھی ہیں جو کہ اپنی سروس سٹرکچر اور ہسپتالوں میں سہولیات، ادویات اور انتظامات کی کمی کی بنا پر پچھلی دہائی میں بار بار سڑک پر دیکھے گئے۔ ہم انہی ڈاکٹروں کو ذہن میں رکھ کر بات کر رہے ہیں، جن کو ہم نے چند روز پہلے تک عوام کو سہولیات دلوانے اور سب سے بڑھ کر عوام کی ملکیت ہسپتال، جو عوام کے ٹیکسوں سے بنے ہیں، لالچی حکمرانوں کے رال ٹپکاتے دوستوں اور عزیزوں کے ہاتھ اونے پونے اور منافع بٹورنے کے لیے بیچنے کے خلاف سڑکوں پر جدوجہد کر رہے تھے۔
ان ڈاکٹروں نے ہسپتال بیچنے کی مخالفت میں ہڑتالیں کیں، ریلیاں نکالیں اور احتجاج کیے۔ جن کو یہ کہہ کر پیش کیا گیا کہ یہ لالچی لوگ ہیں، اپنی تنخواہوں پر مطمئن نہیں ہوتے، زیادہ سے زیادہ کی لالچ کے لیے سڑکوں پر آئے ہیں۔ ان کے خلاف وکیلوں کو استعمال کیا گیا، بالکل اسی طرح جیسے وکیلوں کو دبانے کے لیے بھی خود انہی کو اس ایشو میں استعمال کیا گیا۔ دن ہو یا رات ہم جب کبھی سرکاری ہسپتالوں میں گئے ہیں، وہاں ان ڈاکٹروں کو، پیرا میڈک سٹاف کو نرسوں کو اور دیگر عملے کو مستعدی سے لوگوں کا علاج کرتے پایا ہے، جو کہ بالکل مفت ہے۔ لیکن یہ ریاست ان ہسپتالوں کو عوام سے چھین کر منافع خوروں کے ہاتھ بیچنا چاہتی ہے، کہ ریاستی اہلکار اس میں سے اپنا کمیشن وصول سکیں۔ اس غیر انسانی اقدام پر ڈاکٹر باہر آئے تو جو ہم نے دیکھا وہ مختصر الفاظ میں بتانے کی کوشش کرتا ہوں۔
ہم نے حکومت کے بجائے ریاست کا لفظ جان بوجھ کر استعمال کیا ہے۔ کیوں کہ ہم واضح طور پر دیکھتے آئے ہیں کہ پیپلز پارٹی کی حکومت میں بھی ان کا ایجنڈا یہی تھا کہ عوامی اثاثوں کو سیٹھوں کے ہاتھ بیچ دیا جائے، اور انہوں نے بیچا بھی، پھر نون لیگ کی حکومت میں بھی انہوں نے اپنے یاروں دوستوں کو ملک کی بوٹیاں اتار اتار کر بیچیں اور اب تحریک انصاف کی حکومت میں بھی یہی کچھ سامنے آیا ہے، انہوں نے دو سو سے زیادہ محکمے بیچنے کا عندیہ دیا ہے جس پر محنت کشوں اور ملازمین کی مزاحمت کی وجہ سے ابھی تک عمل درآمد نہیں ہو پایا۔ ہمیں مرے کالج کا واقعہ بھی یاد ہے جب اس کو بیچنے کی کوشش کی گئی تھی تو ہزارہا طالب علم سڑکوں پر اس وقت کی شہباز حکومت کے خلاف سیالکوٹ کی سڑکوں پر نکل آئے تھے اور پی آئی اے کو بیچنے کی کوشش میں نواز حکومت کے دور میں پی آئی اے کے ملازمین پر گولی چلوا کر ان کو قتل کروا دیا گیا تھا۔
جب ڈاکٹروں نے ہڑتال کی تو ریاست کے ہر نمائندے نے درج ذیل اقدامات کیے تھے:
حکومت: حکومت نے ڈاکٹروں کو ملازمتوں سے نکالا۔ دھمکیاں دیں۔ قتل کے اور دیگر مقدمات میں پھنسایا اور ہر وہ کام کیا جس سے ڈاکٹر گھٹنے ٹیکنے پر مجبور ہو جائیں۔ یہ کام نون لیگ کی حکومت میں بھی نظر آیا اور تحریک انصاف کی حکومت میں بھی پہلے سے بڑھ کر۔
میڈیا: سارے کے سارے میڈیا پر مسلسل ڈاکٹروں کو ملک کا ناسُور بنا کر پیش کیا گیا۔ ان کے خلاف اتنا زہر اُگلا گیا کہ لوگوں کے دلوں میں ڈاکٹروں کے خلاف نفرت بیٹھ گئی۔ اس کے بعد ڈاکٹروں پر حملوں کے بھی بہت سے واقعات سامنے آئے۔
فوج: ڈاکٹروں نے آؤٹ ڈور کی ہڑتال کی کہ حکومت ان کی مانگوں پر توجہ دے۔ فوج نے ان کی ہڑتال تڑوانے کے لیے ہسپتالوں کو اپنے ڈاکٹر دینے کی پیشکش کی تاکہ ڈاکٹروں کی ہڑتال ناکام ہو جائے۔
عدلیہ: عدالتوں نے ڈاکٹروں کے مطالبات کی نوعیت کو دیکھے بنا، جانے بنا ان کے ہڑتال کرنے کے حق کو نہ مانتے ہوئے ان کو ہڑتال توڑنے کا حکم سنا دیا اور ان کی ہڑتال کو ناجائز قرار دے دیا۔
مقننہ: اسمبلیوں میں ایسے قوانین پاس کروانے کی کوششیں بھی کی گئیں کہ ڈاکٹر آئندہ ہڑتال نہ کر سکیں۔اس کے علاوہ ہسپتالوں کو بیچنے کے کالے قوانین بھی منظور کیے گئے۔
دھمکیوں اور لالچوں کا سلسلہ روکا نہیں گیا بلکہ گرینڈ ہیلتھ الائنس کی کاوشوں کو ناکام بنانے کے لیے بھی ہر طرح کے ہتھکنڈے استعمال کیے گئے۔ یاد رہے کہ گرینڈ ہیلتھ الائنس میں ڈاکٹروں کے ساتھ نرسیں اور پیرا میڈکس بھی شامل تھے، اور پاکستان بھر کے ینگ ڈاکٹرز گھر سے یہ تسلیم کر کے نکلے تھے کہ وہ مزدوری کرتے ہیں، محنت کش ہیں، ان کا بھی اسی طرح سے استحصال کیا جاتا ہے، جیسے کہ سرمایہ داری میں دیگر محنت کشوں کا کیا جاتا ہے۔
ان سارے مظاہر کو سامنے دیکھتے ہوئے، آج جب ہم ریاست کا معصوم اور پُرشفقت چہرہ دیکھتے ہیں تو ہمیں یقین نہیں آتا کہ یہ وہی ریاست ہے، جو عوام کی آخری امید سرکاری ہسپتال ان سے چھین کر منافع کمانے کے لیے لالچ اور طمع کے ماروں کو بیچ رہی ہے۔ ڈاکٹروں کی اتنی عزت؟ کیا یہ محض وبا کی وجہ سے ہے؟
تھوڑا سا غور کریں تو نظر آتا ہے کہ اس کے مختلف ادارے اور لوگ اس فکر میں ہیں کہ منافع کمانے کے اس نادر موقع میں کہیں وہ پیچھے نہ رہ جائیں۔ کوئی ماسک سٹور کر رہا ہے، کسی نے ماسک ایکسپورٹ کر کے کروڑوں کما لیے ہیں، کوئی ماسک اور سینے ٹائزر بنانے میں سبقت لے جانے میں کوشاں ہے تو کوئی پہلے سے موجود سینے ٹائزرز اور ماسکوں کو مہنگے داموں فروخت کر رہا ہے۔
وزیرِ اعظم کے بیانات سنیں تو وہ بھی ٹرمپ سے مختلف نہیں ہیں، کہ انسان تو آتے جاتے رہتے ہیں، سڑکوں پر بھی مر جاتے ہیں ”معیشت“ بچانے پر دھیان دیا جائے۔
مختصر یہ کہ جس طرف نظر دوڑائی جائے حکمران طبقہ اور اس کے کاسہ لیس اپنی اپنی دوکانداریاں چمکانے اور بند ہونے سے بچانے کی فکر میں ہیں۔ تو ایسے وقت میں ان کو امید کی واحد کرن ڈاکٹر ہی نظر آ رہے ہیں کہ ڈاکٹروں سے بنا کر رکھی جائے۔
اس کے ساتھ ساتھ باہر سے امداد ملنے کی بھی امید ہے، اور امداد ملی بھی ہے۔ امداد کو بھی حاصل کیا جا رہا ہے۔ بہت سے لوگوں کی نظریں ہیں کہ امداد کو تقسیم کرنے کی بجائے کیسے بیچا جائے، ملک میں یا ملک سے باہر۔۔۔کوئی فرق نہیں پڑتا بس منافع آنا چاہیے۔ تو ان حالات میں ڈاکٹروں کی جانب سے ہڑتال یا کوئی تحریک منافعوں پر اور امداد پر اثر انداز ہو سکتی ہے۔
باہر سے آئے کروڑوں ڈالر ہڑپ کرنے کا آسان طریقہ ہے کہ کرونا جیسی خطرناک بیماری سے لڑنے والے ڈاکٹروں، نرسوں اور دیگر عملے کو ڈالر خرچ کر کے حفاظتی سامان، کٹیں اور ماسک وغیرہ دینے کی بجائے ان کو گانے سنوا دیے جائیں، گارڈ آف آنر دے دیے جائیں، سلامیاں پیش کی جائیں، ان کے جنازے قومی اعزازوں کے ساتھ بگل بجا کر دفنائے جائیں۔
ان خطرناک حالات میں بھی ہمارے حکمرانوں کو منافع کمانے کی دھُن سوار ہے۔ اپنی طرف سے ان کو پتا ہے کہ ان کا کچھ نہیں بگڑنے والا کروڑوں لوگ بھی مر جائیں تو بھی ان کے پہاڑ کے اوپر کے بنی گالہ میں، ان کے ڈیفنسوں میں، ان کے ان محلات میں جہاں کے علاقوں میں میلوں دور تک ہم عوام کو قدم دھرنے کی بھی اجازت نہیں ہے، وائرس نہیں پہنچ پائے گا۔
ڈاکٹروں کو ان کے دھوکے میں نہیں آنا چاہیے۔ اس وقت شام کے چھ بجے ہیں۔ میں بجائے ڈاکٹروں کے لیے جھنڈا لہرانے کے اور گانا گانے کے، اس تحریر کے آخری الفاظ قلم بند کر رہا ہوں۔ اس امید کے ساتھ کہ ڈاکٹروں کو ہیرو بنا کر پیش نہ کریں، ان کو ان کی ضرورت کا سامان فراہم کریں۔ ہمیں ان کے عظیم الشان جنازوں کی ضرورت نہیں ہے۔ ہمیں ان کو دیے گئے خطابوں کی ضرورت نہیں ہے۔ ان کو اتنا سامان دے دیا جائے جتنے سے وہ اپنا کام بخوبی، با حفاظت اور زندہ رہتے ہوئے کر سکیں۔
ڈاکٹروں کو سلامیاں دینے، مارچیں کروانے ان کے گانے اور ڈانس بنوانے فلم سٹاروں اور سیلیبریٹیز سے چونچلے کروانے کی بجائے ان کو اپنا فرض ادا کرنے دیں۔
باقی رہی قوم، عوام۔۔ تو ان سے ان کے ہسپتال نہ چھینیں اور ان کو ڈاکٹروں کی شہادتوں کے تحفے دینے کی بجائے ان کے مسیحاؤں کی زندگیاں محفوظ بنانے کا تحفہ دیں جس کے لیے کسی امداد کی ضرورت نہیں آپ نے پچھلے دو سال سے کمر توڑ مہنگائی کرتے ہوئے، ہولناک ٹیکس لگا کے، بجلی اور گیس کی قیمتوں میں پے در پے اضافے کر کے (صرف پٹرول کو لیں تو ایک لٹر پر آپ ایک سو کے قریب روپے کما رہے ہیں) اتنا پیسا کمایا ہے، اور کسی بھی ترقیاتی کام میں کچھ بھی نہیں لگایا۔ اسی پیسے میں سے چند فیصد نکال کر ڈاکٹروں کو حفاظتی لباس فراہم کر دیں۔
آخر میں برتولت بریخت کی ”داستانِ گالیلیو“ سے (اپنے الفاظ میں) ایک اقتباس:
بریخت کے داستان گالیلیو میں گالیلیو کا شاگرد آندریا گالیلیو کے مقدمے کے بعد اس کے اپنے اس نظریئے سے توبہ کر لینے کے بعد کہ زمین سورج کے گرد گھومتی ہے وغیرہ کے سلسلے میں اپنے استاد میں سقراطی جرات کا فقدان دیکھ کر اس سے ناراض ہے۔ وہ اس سے کوئی بات نہیں کرتا۔ یہ وہ آندریا ہے جس کو گالیلیو نے بچپن سے سائنس اور فلسفہ سکھاتے ہوئے پالا ہے۔ وہی آندریا اپنے باپ جیسے استاد کو صرف ایک طنز کرتا ہے کہ
-”بدقسمت ہیں وہ ملک جہاں شہیدپیدا نہیں ہوتے“۔
گالیلیو اس کی بات کا کوئی جواب نہیں دیتا۔ سب لوگوں سے ملاقات کرتا ہے۔ آخر میں آندریا سے مخاطب ہو کر کہتا ہے کہ تم کو ساری زندگی الفاظ درست طریقے سے استعمال کرنا سکھاتا رہا ہوں۔ جو تم نے کہا اسے یوں کہو:
”بدقسمت ہوتے ہیں وہ ملک جن کوشہیدوں کی ضرورت ہوتی ہے“۔
اور میں گالیلیو کی بات کو درست مانتا ہوں۔