|تحریر: پارس جان|
کرۂ ارض کو سرمایہ دارانہ نظام نے انسانوں کی بھاری اکثریت کے لیے ایک بھڑکتے ہوئے دوزخ میں تبدیل کر دیاہے۔ دنیا بھر کے غریب عوام اس سرمایہ دارانہ عفریت کے خلاف سراپا احتجاج بنے ہوئے ہیں۔ سوویت یونین کے انہدام کے بعد سے شروع ہونے والا سیاسی رجعت کا عہد اپنے منطقی انجام کو پہنچ چکا ہے۔ ایک کے بعد دوسرے ملک میں طلبہ، محنت کشوں اور مظلوم اقوام کی تحریکیں ابھر رہی ہیں۔ کرونا وبا نے پہلے سے تیار سماجی لاوے کو بھڑکا دیا ہے اور گزشتہ برس کی انقلابی تحریکوں کا سلسلہ جہاں سے ٹوٹا تھا، اسی شدت اور توانائی کے ساتھ اب پھر سارے کرۂ ارض کو اپنی لپیٹ میں لیتا چلا جا رہا ہے۔ اس بار امریکی عوام کی ایک شاندار تحریک نے سرمایہ دارانہ نظام کے مستقبل اور بقا کے حوالے سے نئے سوالات کو جنم دیاہے۔ امریکی سامراج سمیت تمام ریاستوں کے ایوان لرز رہے ہیں۔ حکمران طبقے میں سے کسی کو بھی اپنے نظام، سائنس، فلسفے اور دانش پر اعتماد نہیں رہا۔ جدید سائنس اور ٹیکنالوجی پر نجی ملکیت کی آہنی گرفت کے باعث یہ وائرس اب تک تقریباً ایک کروڑ سے زائد لوگوں کو اپنا شکار بنا چکا ہے جن میں سے پانچ لاکھ سے زائد لوگ لقمہئ اجل بھی بن چکے ہیں۔ یہ چونکا دینے والے اعداد وشمار اس وقت اور بھی زیادہ تشویش کا باعث بنتے ہیں جب عالمی ادارہئ صحت سمیت تمام معاشی و سماجی ماہرین مستقبل میں اس سے بھی زیادہ بھیانک صورتحال کی پیش گوئی کرتے ہیں۔ ابھی سال بھر بلکہ چند ماہ پہلے تک کوئی بھی شخص اس صورتحال کا تصور بھی نہیں کر سکتاتھا۔ اصل مسئلہ محض وبا نہیں ہے بلکہ عالمی معیشت کی نامیاتی زوال پذیری کے باعث اس کی اس وبا سے مزاحم ہونے کی نا اہلیت ہے۔ وبا کی پیش بینی تو بہرحال ناممکنات میں سے تھی مگر عالمی معیشت کے اس زوال کو مارکس وادیوں نے بہت پہلے سے بھانپ لیا تھا اور کسی بھی غیر معمولی واقعے کے نتیجے میں موجودہ حالات مارکسی تناظر کے مرکزی خیال کی صورت میں ہر تحریر، اجلاس اور فورم پر بار بار دہرائے جاتے رہے ہیں۔ آج عالمی سطح پر ابھرنے والی تحریکیں مارکس وادیوں کے تناظر کی سچائی کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔ پاکستان میں، اگرچہ، ابھی تک ایک ملک گیر عوامی انقلابی تحریک موجود نہیں ہے لیکن تمام سماجی، سیاسی، اقتصادی اور ریاستی تخمینے اور حقائق ایک انقلاب سے قبل کی صورتحال کی عکاسی کر رہے ہیں۔ اب یہ انقلابی تحریک جتنی تاخیر زدہ ہوگی عین ممکن ہے کہ اس کی شدت، حدت اور دائرہ عمل اتنا ہی وسیع، بلند اوردیرپا ہو۔
درمیانے طبقے کے وہ لوگ جو ماضی میں ہم انقلابیوں کو حب الوطنی کادرس دیتے نہیں تھکتے تھے اور ہر وقت خدا کا شکر کرنے کی تلقین کرتے تھے، اب وہ بھی ریاست کی موجودہ کیفیت کے باعث شرمندہ شرمندہ سے نظر آتے ہیں۔ در اصل، یہ ریاست ایک کلاسیکل سرمایہ دارانہ ریاست کے طور پر نہیں بنی تھی بلکہ اس خطے میں سامراجی مفادات کو ’سرخ آندھی‘ سے محفوظ رکھنے کے لیے یرغمال شدہ مذہبی جذبات کے گارے سے مصنوعی طور پر تخلیق کی گئی تھی۔ تاریخی ارتقا سے محروم کسی بھی مصنوعی سماجی و سیاسی مظہرکی عمر بہت زیادہ نہیں ہوا کرتی۔ سوویت یونین کے انہدام کے بعد اس ریاست کی تشکیل کا سامراجی ایجنڈا بھی اپنے منطقی انجام کو پہنچ چکا تھا مگر اس ایجنڈے کے پایۂ تکمیل تک پہنچنے کا مطلب ہر گز یہ نہیں تھا کہ یہ ریاست بھی اسی کے ساتھ اپنے منطقی انجام کو پہنچ جاتی۔ ایک زندہ نامیاتی اکائی کے طور پر اپنے خالقوں کے عزائم کے ساتھ اس ریاست کا تعلق یک طرفہ اور میکانکی نہیں ہے بلکہ پیچیدہ اور وسیع الاثر ہے۔ جہاں سامراجی آقاؤں نے ماضی کے ایجنڈے کی تکمیل کے ساتھ ہی میکانکی طرز پر اس مصنوعی ریاست کو نیا سامراجی ایجنڈا دینے کی کوشش کی وہیں اس ریاست کے مقامی طفیلیوں نے بھی اپنا نسبتی طور پر خود مختار ایجنڈا تراشنا چاہا۔ حال ہی میں پارلیمنٹ کے اجلاس میں موجودہ وزیرِ اعظم عمران خان کی طرف سے القاعدہ کے بانی سربراہ اسامہ بن لادن کے لیے ’شہید‘ کے ریمارکس کو اسی پسِ منظر سے جوڑ کر سمجھنے کی ضرورت ہے۔ جہاں حکمران پارٹی کے وزرا عالمی دباؤ کے خطرات کے پیشِ نظر اسے ایک بھول چوک (Slip of Tongue) قرار دے رہے ہیں وہیں کچھ سیاسی طور پرنا بلد نقاد اسے عمران خان کے اپنے مذہبی نظریات یا شخصی تضادات سے خلط ملط کر رہے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ ریاست کے اسی شناخت کے بحران (Identity Crisis) کے آف شوٹس ہیں جو سامراجی آقاؤں سے مسلسل غیر متوازن تعلقات کے باعث اب مزید ہولناک ہوتا چلا جا رہا ہے۔ ریاستی پالیسی سازوں کے پاس سامراجی ایجنڈے کے متوازی اپنا خود کا ایجنڈا تشکیل دینے کے لیے پھر مذہب کے علاوہ نہ تو کوئی اور نظریہ یا اوزار تھا، نہ ہے اور نہ ہو سکتا ہے۔ جبکہ آج کے عہد میں مذہبی اشرافیہ کے مفادات ماضی میں سامراجی قوتوں کی طرف سے تشکیل کردہ دہشت گردی کی عالمی صنعت کے معاشی سائیکل کے ساتھ ناقابلِ علیحدگی انداز میں منسلک ہیں۔ عالمی پیمانے پر ہیروئین اور منی لانڈرنگ کے دھندے بھی اسی چکرویو کے ساتھ نتھی ہو چکے ہیں۔ یوں اب یہ مذہب سے زیادہ عالمی سفارتکاری کی ایک اہم ترین فالٹ لائن بن چکی ہے جہاں وقفے وقفے سے بھونچال آنا ایک معمول کی بات ہے۔ عمران خان کے منہ سے نکلے ہوئے لفظ محض لفظ ہی نہیں ہیں بلکہ تاریخ کے کوڑے دان کی طرف سرکتے ریاستی پالیسی سازوں کی مسلسل بلند ہوتی ہوئی کراہٹ ہے۔ اس نے FATF کی ننگی تلوار کے آگے ایڑیاں رگڑتے ہوئی ریاستی مشینری اور حکمران طبقے کی مشکلات میں مزید اضافے کے ساتھ ساتھ ان ریاستی خداوندوں کو عوام کے سامنے مزید بے نقاب بھی کیا ہے۔ گزشتہ تین دہائیوں سے اس تضادات سے لبریز ارتقائی عمل نے اب اس ریاست کو اس نہج پر پہنچا دیاہے کہ اس کافروعی اور غیر ضروری پن نہ صرف پوری دنیاپر بلکہ خود اس ریاست کے مقتدر دماغوں پر بھی آشکار ہوتا چلاجا رہا ہے۔
حکمران سرمایہ دار طبقہ تو پہلے ہی اپنے تاریخی خصی پن کے باعث ریاستی امور پر اپنی گرفت قائم رکھنے میں بری طرح ناکام ہو چکا تھا، اب ریاست کے حقیقی مالکان کے ہاتھ سے بھی معاملات بے قابو ہوتے دکھائی دے رہے ہیں۔ پاکستانی ریاست کی حالت اس وقت اس گاڑی کی سی ہو گئی ہے جس کی بریکیں فیل ہو چکی ہیں اور وہ برق رفتاری سے کسی اندھی کھائی کی طرف گامزن ہے۔ پولیس، عدلیہ، افسر شاہی، پارلیمان، فوج اور خاندان سمیت ریاست کے تمام ادارے گلنے سڑنے کے عمل سے گزر رہے ہیں اور ہر گزرتے دن کے ساتھ یہ عمل مزید تکلیف دہ اور پر انتشار ہوتا چلا جا رہا ہے۔ مقامی، علاقائی و عالمی سامراجی طاقتوں کی غلامی سے لے کر بچے کھچے وسائل کی لوٹ مار تک، کے ان گنت مسائل نے تمام اداروں کو ایک دوسرے کے ساتھ بھی دست وگریبان کیا ہوا ہے اور اداروں کی داخلی کشمکش بھی اپنے عروج پر ہے۔ جسٹس فائز عیسیٰ کے خلاف ریفرنس نے نہ صرف عدلیہ کے داخلی تضادات بلکہ پارلیمان اور عسکری اداروں کے ساتھ عدلیہ کے تعلقات کی بھی مسلسل خراب ہوتی ہوئی یا یوں کہہ لیں کہ غیر تسلی بخش صورتحال کو واضح کر دیا ہے۔ ریفرنس کا فیصلہ اگرچہ جسٹس فائز عیسٰی کے حق میں آ چکا ہے مگر اس کے باوجود یہ تضادات ختم نہیں ہوں گے بلکہ آنے والے دنوں میں اور شدت سے سطح پر اپنا اظہار کریں گے۔ اس کی ایک واضح مثال فیصلے کے فوری بعد فائز عیسیٰ کو ملنے والی قتل کی دھمکیوں کی صورت میں دیکھی جا سکتی ہے۔ زیادہ تر تجزیہ کار اس کو عسکری اداروں کی فرسٹریشن قرار دے رہے ہیں۔ مگر ہم سمجھتے ہیں کہ اداروں کے درمیان یہ رسہ کشی تاریخی ارتقا کے اس مخصوص مرحلے پر اس سماجی و معاشی نظام کی متروکیت کی آئینہ دار ہے جس پر آج کی تمام سرمایہ دارانہ ریاستیں قائم ہیں۔ طاقتور ترین سرمایہ دارانہ ریاست امریکہ میں بھی وائٹ ہاؤس اور کانگریس، بورژوا میڈیا اور وائٹ ہاؤس اور حتیٰ کہ وائٹ ہاؤس اور پینٹاگون کے اندر داخلی طور پر بھی شدید کھچاؤ موجود ہے۔ ایسے میں پاکستانی ریاست کے بحران کو بھی اسی بین الاقوامی مظہر کی روشنی میں ہی سمجھا جا سکتا ہے۔ لاہور ہائیکورٹ بار ایسوسی ایشن کے علاوہ تمام صوبائی اور سپریم کورٹ بار بھی عدلیہ پر عسکری جکڑ کے خلاف بظاہر متحد دکھائی دیتی ہیں مگر یہ معاملہ سیدھی لکیر میں آگے نہیں بڑھے گا۔ بہت سے لوگ اس عمل میں اپنی وفاداریاں تبدیل کرتے ہوئے دکھائی دیں گے۔ بائیں بازو کے لوگوں کو چاہیے کہ وہ اس وقت کسی ایک ادارے یا فرد کو مسیحا بنا کر پیش کرنے کی بجائے ریاست کے طبقاتی کردار کی وضاحت کریں اور ان ریاستی تضادات کو انقلابی پروپیگنڈے کو تیز کرنے کے لیے استعمال کریں۔
یہ بحران صرف عسکری اداروں یا عدلیہ تک ہی محدود نہیں بلکہ سیاسی پارٹیاں بھی اس کی لپیٹ میں ہیں بالخصوص حکمران پارٹی یعنی تحریکِ انصاف شدید داخلی انتشار کا شکار ہے۔ تحریکِ انصاف پر گزشتہ ایک دہائی سے بھی زیادہ عرصے سے ہم مارکس وادی مسلسل اپنا واضح موقف رکھتے چلے آئیں ہیں کہ یہ عملاً کوئی سیاسی پارٹی ہے ہی نہیں اور دائیں بازو کی دیگر پارٹیوں کے ساتھ اسٹیبلشمنٹ کے وقتی تناؤ کے باعث یہ میڈیائی کیمپئین کے بلبوتے پر اسٹیبلشمنٹ کا تخلیق کردہ وہ سیاسی ریوڑ ہے جسے اسٹیبلشمنٹ دائیں بازو کی روایتی قیادتوں کو اپنی غیر مشروط اطاعت اور ’پہلے سے بھی کم تنخواہ‘ پر کام کرنے پر مجبور کرنے کے لیے استعمال کر رہے ہیں۔ اس حکومت کے جاتے ہی اس کا ایک سیاسی پارٹی کے طور پر وجود برقرار رہنا بہت مشکل ہو جائے گا۔ اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ اس کا قائد یعنی عمران خان چونکہ حکمران طبقے کا کوئی سیاسی نمائندہ نہیں ہے بلکہ ایک اقتدار اور طاقت کی ہوس سے سرشار ایک ستارہ (Celebrity) ہے اور اقتدار میں ایک دفعہ آ کر شاید اس نے اپنا واحد سیاسی مقصد حاصل کر لیا ہے، لہٰذا اب اپوزیشن کی سیاست میں اس کے لیے کوئی دلچسپی کی بات نظر نہیں آتی۔ اس کی سیاسی کیریکٹرائزیشن کے حوالے سے ہم نے بارہ سال پہلے ہی لکھ دیا تھا کہ یہ کوئی سوشل یا لبرل ڈیموکریٹ نہیں ہے بلکہ ایک مختلف سیاسی رجحانات کے محلول سے تیار کردہ نیم فسطائی فرنٹ مین ہے جو اپنی مذہبی یا نام نہاد فلاحی یا انقلابی نعرے بازی کے ذریعے درمیانے طبقے کی حمایت بٹور کر اسٹیبلشمنٹ کا آلہ کار بن کر اقتدار کے ایوانوں تک رسائی حاصل کرنا چاہتا ہے۔ دو سال کے اقتدار نے اس کی مقبولیت کے غبارے سے ہوا بالکل نکال دی ہے اور اب شاید یہ پاکستان کی تاریخ کا سب سے غیر مقبول وزیر اعظم بننے کی طرف جا رہا ہے۔ اس کی پارٹی میں شدید لڑائی جاری ہے۔ پہلے ہی وزارتوں کی بندربانٹ میں رسہ کشی عروج پر تھی۔ چینی سکینڈل کے بعد پارٹی کے سب سے بڑے انفرادی فنانسر جہانگیر ترین اور خسرو بختار کے عریاں ہوجانے کے بعد یہ داخلی دھینگا مشتی اور بھی بڑھ گئی ہے۔ اسد عمر کی واپسی نے بھی اس شکست و ریخت کو کم کرنے کی بجائے اور بڑھاوا دیا ہے۔ فواد چوہدری کے حالیہ انٹرویو میں کیے گئے انکشافات نے پارٹی کی موجودہ انتہائی نازک کیفیت کا بھانڈا پھوڑ دیا ہے۔ اس پارٹی کا مستقبل اس حکومت کے مستقبل کے ساتھ ہی منسلک ہے اور اب یہ حکومت بھی ایک کچے دھاگے سے لٹک رہی ہے۔ کوئی ایک معمولی سا دھکا بھی اس گرتی ہوئی دیوار کے لیے کافی ہو سکتا ہے۔ اصل میں ابھی تک یہ حکومت اپنی پالیسیوں کے باعث نہیں بلکہ اپوزیشن پارٹیوں کی شدید نا اہلی کے باعث ہی قائم رہ پائی ہے۔ سوال یہ ہے کہ اگر یہ حکومت گر جاتی ہے تو حکمران طبقے اور ریاست کے پاس مزید کیا سیاسی آپشن موجود ہیں۔ پیپلز پارٹی اور نون لیگ کی مخلوط حکومت کو انتخابات یا بغیر انتخابات کی ایک قومی حکومت کے طور پر دیگر مذہبی و علاقائی پارٹیوں کی مدد سے حکومت مل بھی جاتی ہے تو وہ حکومت اس بحران کی کیفیت میں حالیہ حکومت سے بھی زیادہ تیزی سے غیر مقبول ہوگی۔ وزیر اعظم تیار کرنے والی فیکٹری کی پیداواریت بھی اتنی برق رفتار نہیں ہے کہ فوری طور پر نیا ریڈی میڈ وزیرِ اعظم تیار کر سکے۔ شاہد آفریدی ابھی تیاری کے ابتدائی مراحل میں ہی ہے اور ملکی حالات کے پیشِ نظر یہ پورے وثوق سے کہا جا سکتا ہے کہ مستقبل بعید میں بھی اس تجربے کی کامیابی کے کوئی آثار دکھائی نہیں دے رہے ہیں۔ ایسے میں اگر مارشل لا کو آخری آپشن کے لیے استعمال کرنے کا سوچا بھی گیا تو یہ اس مرتی ہوئی ریاست کے تابوت میں آخری کیل ثابت ہو گا۔ اس وقت عسکری اداروں کی مقبولیت اپنی تاریخ کی کم ترین سطح پر پہنچی ہوئی ہے اور اوپر سے معاشی بحران کے باعث ہونے والی بیروزگاری اور مسلسل بڑھتی ہوئی بیروزگاری کے باعث قومی امکانات یہی ہیں کہ عسکری دماغ اس انتہائی اقدام سے گریز ہی کریں گے اور اپنے سیاسی مہروں پر ہی اکتفا کرنے کو ترجیح دیں گے۔ اصل بات یہ ہے کہ عسکری اور سویلین اشرافیہ میں سے کسی کا بھی اب اس ریاست کے مستقبل یا پائیداریت پر کوئی خاص یقین باقی نہیں بچا۔ یہی وجہ ہے کہ اب سرمایہ داروں اور جاگیرداروں کی طرح عسکری اشرافیہ بھی اپنے بچوں اور جائیدادوں کو تیزی سے بیرونِ ملک شفٹ کرنے میں لگے ہوئے ہیں۔ ’حب الوطنی‘ محض ایک خالی خولی تجرید ہی رہ گئی ہے جسے عوام اور بالخصوص درمیانے طبقے کو بیوقوف بنانے کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے۔ مگر اب نظام کے بحران کے باعث درمیانے طبقے کی وسیع تر پرتوں میں بھی سیاسی ہلچل کا آغاز ہو چکا ہے اور وہ اپنی آئندہ نسلوں کی نجات کے لیے نظام کے خلاف محنت کشوں کی تحریکوں میں دلچسپی لینا شروع ہو گئے ہیں اور خود بھی سیاسی عمل کا تیزی سے حصہ بن رہے ہیں۔ یہ درمیانے طبقے کا سیاسی تحرک کسی بھی سماج میں انقلابی صورتحال کی عکاسی کا سب سے اہم پیمانہ ہوا کرتا ہے۔
محنت کش طبقے پر شدیدمعاشی حملوں کے ساتھ ساتھ درمیانے طبقے میں ہونے والی ہلچل نے ہی طلبہ سیاست کے ایک نئے جنم کی راہ ہموار کر دی ہے۔ آج کل لاک ڈاؤن کے بعد سے حکومت کی طرف سے کسی قسم کی سہولیات کی فراہمی کے بغیر آن لائن کلاسز کی پالیسی کے خلاف طلبہ کا ایک ملک گیر ردِ عمل سامنے آ رہا ہے۔ انٹرنیٹ کی سہولیات کی عدم موجودگی اور بجلی کی بڑے پیمانے کی لوڈ شیڈنگ اور معاشی تنگدستی کے باعث یہ پالیسی حکمران طبقے کی طلبہ کے اوپر ننگی جارحیت کے علاوہ اور کچھ نہیں۔ تعلیم کا بیوپار کرنے والے نجی مالکان کے منافعوں کو تحفظ فراہم کرنے کے لیے اٹھائے گئے یہ اقدامات طلبہ کو تمام تر علاقائی، قومی و نسلی اور لسانی امتیازات سے مبرا سیاسی جدوجہد کے تانے بانے میں متحد کر رہے ہیں۔ مشال خان کے وحشیانہ قتل کے بعد سے طلبہ میں کسی نہ کسی سطح کی سیاسی ہلچل موجود رہی ہے اور وقتاً فوقتاً اس کا اظہار بھی ہوتا رہا ہے۔ طلبہ کی حالیہ مزاحمت کو بھی اسی پسِ منظر میں دیکھنا چاہیے۔ ہر گزرتے دن کے ساتھ اور حکمران طبقے کی طرف سے کیے گئے ہر حملے کے بعد اب یہ لڑائی اور شدت اختیار کرتی چلی جائے گی۔ بلوچستان کے طلبہ و طالبات نے اپنے اتحاد اور جرات کے باعث پورے ملک کے طلبہ کو نیا حوصلہ اور شکتی عطا کی ہے۔ اس حوالے سے وہ خراجِ تحسین کے مستحق ہیں۔ لیکن ہر سطح پر طلبہ کو یہ ذہن نشین کرنا ہو گا کہ ریاست اور حکومت اپنے ان معاشی حملوں سے باز آنے والے نہیں۔ حالیہ بجٹ میں تعلیمی اور ترقیاتی بجٹ میں مزید کٹوتیاں کی گئی ہیں۔ سرمایہ داری اب ردِ اصلاحات کے بنا خود کو قائم ہی نہیں رکھ سکتی۔ ہم اب مسلسل لڑائیوں کے عہد میں داخل ہو رہے ہیں۔ ایسے میں جہاں ہر جزوی یا وقتی کامیابی سے حاصل شدہ شکتی اور توانائی کو ملک کے چپے چپے تک پھیلانے کی ضرورت ہے، وہیں کسی بھی کامیابی سے ہمیں اپنے سر بڑے نہیں کرنے چاہئیں بلکہ سیاسی دیانتداری کا مظاہرہ کرتے ہوئے ہر لڑائی کے بعد خود کو پہلے سے زیادہ منظم اور آئندہ لڑائی کے لیے ثابت قدمی، مستقل مزاجی اور اعلیٰ ظرفی کے ساتھ متحد اور منظم کرنا ہو گا۔ تحریکوں کو منقسم کرنے والے ہر طرح کے تعصبات اور رجحانات کا قلع قمع کرنا ہو گا۔ یہی ان طلبہ تحریکوں کی پیش رفت کی واحد شرط ہو گی۔ پشتونخواہ میں بھی چند روز قبل پولیس کی طرف سے ایک نہتے نوجوان پر کیے گئے تشدد کے بعد بڑے پیمانے کی عوامی مزاحمت دیکھنے میں آئی ہے۔ اس تحریک کا ولولہ اور حجم دیکھ کر کچھ لوگوں نے تو اس کا موازنہ امریکہ میں ایک سیاہ فام جارج فلوئیڈ کے نسلی امتیازپر مبنی قتل اور اس کے نتیجے میں جنم لینے والی مزاحمت سے کرنا شروع کر دیا ہے۔ اگرچہ اس میں کافی حد تک مبالغہ دکھائی دیتا ہے مگر سیاسی صورتحال رفتہ رفتہ اسی سمت میں آگے بڑھ رہی ہے۔ حال ہی میں ہونے والے احتجاج کئی حوالوں سے ماضی میں ہونے والے پشتون سماج میں بڑے احتجاجوں سے مقداری اور معیاری دونوں حوالوں سے مختلف ہیں۔ خیبر پختونخواہ اسمبلی کے باہر ہونے والے احتجاج پر پولیس کے تشدد نے اس احتجاج کے دور دراز کے علاقوں تک پھیلاؤ کو عملی جامہ پہنایا۔ حتیٰ کہ ان علاقوں میں بھی احتجاج ہوئے جہاں پشتون تحفظ موومنٹ کے ابھار کے دنوں میں بھی بڑے احتجاج نہیں ہو سکے تھے۔ ان احتجاجوں کا سب سے اہم بنیادی سیاسی کردار یہ ہے کہ یہ تحریک اے این پی، پشتونخواہ ملی عوامی پارٹی سمیت کسی بھی روایتی پارٹی کی طرف سے کال نہیں کی گئی اور ان میں سے کوئی بھی اس کی قیادت نہیں کر رہا۔ حتیٰ کہ ان مظاہروں کی کال پشتون تحفظ موومنٹ نے بھی نہیں دی تھی۔ یہ احتجاج ایک دفعہ پھر ان لبرل دانشوروں اور بائیں بازو کے شعبدہ گروں کے منہ پر طمانچہ ہیں جو سمجھتے ہیں کہ روایتی سیاسی قیادتوں کے بغیر کوئی سیاسی عمل آگے بڑھ ہی نہیں سکتا۔ ابھی چند دن پہلے بلوچستان میں ہونے والے ایک احتجاج کے نتیجے میں محنت کش عوام اور طلبہ کی نئی نسل سے خائف ان قنوطیت پسندوں نے ڈھنڈورا پیٹنا شروع کر دیا تھا کہ ’وہ دیکھو، وہ دیکھو پھر روایت زندہ ہو گئی، وہ دیکھو 60ء کی دہائی کی تنظیمیں زندہ ہو گئی، ہو ہو ہا ہاہا وغیرہ وغیرہ۔ ان لوگوں نے جتنی شدت سے مردوں کے زندہ ہونے کا انتظار کیا ہے، اس کی آدھی توانائی بھی اگر نئی نسل کے ساتھ سیاسی روابط استوار کرنے میں لگاتے تو شاید ان کو اپنی بقا کے لیے کسی مردہ گھوڑے کی پشت پر سوار ہونے کی ضرورت ہی محسوس نہ ہوتی۔ اب یہ ہارے ہوئے جواریوں کی طرح ہر سیاسی روایت اور قیادت کے لیے ’زندہ باد، زندہ باد‘ کے نعرے لگا کر اپنے وجود کا احساس دلانے کی ناکام کوشش میں لگے ہوئے ہیں۔ حقائق ان کا ہمیشہ کی طرح منہ چڑا رہے ہیں۔ ہم نے پہلے ہی کئی بار وضاحت کی ہے کہ پشتون تحفظ موومنٹ کا جنم ہی اس لیے ہوا تھا کہ ماضی کی پشتون روایتی قیادتیں اپنی عوامی حمایت سے محروم ہو چکی تھیں اور لوگ تازہ دم قیادت کے منتظر تھے۔ اور اب یہ کوئی نئی روایات کے دیرپا سیاسی مظہر کے طور پر نمودار ہونے کا عہد بھی نہیں ہے۔ اگر پشتون تحفظ موومنٹ بھی تحریک کو کوئی واضح سیاسی پروگرام دینے میں ناکام ہوتی ہے تو لوگ لڑائی سے دستبردار نہیں ہو جائیں گے بلکہ نئی سے نئی اور پہلے سے زیادہ لڑاکا انقلابی قیادتیں سیاسی افق پر ابھر کر سامنے آ سکتی ہیں۔ پشتون تحفظ موومنٹ کی کال یا قیادت کے بغیر اتنے بڑے پیمانے پر ہونے والے احتجاج اسی سلسلے کی ایک کڑی ہیں۔ بعد ازاں پی ٹی ایم کی قیادت نے اسلام آباد میں پریس کانفرنس کی ہے اور حکومت کو مذاکرات کی دعوت بھی دی ہے لیکن اب اس بحران زدہ نظام کے پاس مظلوم طبقات اور اقوام کو ریلیف دینے کے لیے کچھ بھی نہیں بچا۔ یہی وجہ ہے کہ مظلوم اقوام اور طبقات کی تحریکیں شدت سے بار بار ابھرتی رہیں گی اور ماضی کی طرح استحکام مکمل طور پر خارج از امکان ہے۔ قومی مسئلہ پوری دنیا میں ایک دفعہ پھر شدت سے ابھر رہا ہے، لیکن قوم پرست قیادتیں موجودہ عہد کے کردار کو سمجھنے سے مکمل طور پر قاصر ہیں اور وہ تحریک کو کوئی متبادل سیاسی پروگرام نہیں دے پارہیں، ایسے میں ان تحریکوں کے پاس آپسی جڑت اور طبقاتی یکجہتی کے علاوہ کوئی دوسرا راستہ باقی نہیں بچا۔
بہت سے دانشور قومی آزادی، خود مختاری یا جمہوری مطالبات کے گرد چلنے والی تحریکوں کو ایک دوسرے سے کاٹ کر خلا میں ان کا تجزیہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ یہ سراسر غیر سائنسی طریقہ ہے۔ رجعت کے حالات میں جب محنت کش طبقے کی تحریکیں موجود نہیں ہوتیں، ایسے میں اگر کوئی مظلوم قوم کی تحریک ایک سیاسی استثنا کے طور پر ابھر کر سامنے آتی ہے تو اس کا سیاسی کردار ایک انقلابی ابھار کے عہد میں ہر طرف بغاوتوں سے گھری کسی قومی آزادی کی تحریک کے سیاسی کردار سے یکسر مختلف ہے۔ آج پوری دنیا میں انقلابی تحریکیں ابھر رہی ہیں اور ایک دوسرے سے اہم اسباق بھی اخذ کر رہی ہیں۔ پاکستان میں بھی محنت کش طبقے پر بہت بڑے بڑے معاشی حملے ہو رہے ہیں جو آنے والے دنوں میں اور شدید ہوں گے۔ کرونا بحران سے لے کر اب تک ایک کروڑ کے قریب محنت کش بے روزگار ہو چکے ہیں۔ 200 کے قریب سرکاری ادارے نجکاری کی لسٹ میں شامل ہیں جن سے مزید لاکھوں محنت کش بیروز گار ہوں گے۔ حالیہ بجٹ میں محنت کشوں کی تنخواہوں میں کوئی اضافہ نہیں کیا گیا، وہ بھی ایسے وقت میں جب رپورٹس کے مطابق پاکستان میں رواں برس افراطِ زر کی شرح ایشیا میں سب سے زیادہ رہی ہے۔ یہ سیدھا سیدھا معاشی قتلِ عام ہے۔ اس سے محنت کشوں کے شعور پر گہرے اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔ انہوں نے دیکھا کہ ایک طرف حکومت کرونا سے ڈرا کر انہیں گھروں میں قید کرنا چاہتی ہے اور ان کے سیاسی حقوق غصب کر رہی ہے اور دوسری طرف ایک جان لیوا وبا کے باوجود صحت کے بجٹ میں کوئی خاطر خواہ اضافہ نہیں کیا گیا۔ ہیلتھ کے شعبے کے محنت کش جو اس وبا میں صفِ اول کے مزاحمت کار ہیں، ان پر بھی نجکاری کی تلوار لٹک رہی ہے۔ دوسری طرف دفاعی اور غیر پیداواری بجٹ میں بڑے بڑے اضافے کیے گئے ہیں۔ وزرا اور صوبائی اور قومی اسمبلیوں کے ممبران اور ججوں وغیرہ کی تنخواہیں پہلے ہی بڑھا دی گئی تھیں۔ محنت کش طبقاتی یلغار کو خاموشی سے برداشت کرنے والے نہیں۔ لاک ڈاؤن کے بعد سے بہت سی پرائیویٹ صنعتوں کے مزدور سراپا احتجاج بنے ہوئے ہیں۔ چند مقامات پر تحریک کو کچلنے کے لیے ریاست کو گولی بھی چلانی پڑی۔ بورژوا میڈیا پر چونکہ یہ خبریں نشر نہیں کی جاتیں، اس لیے ہمارے درمیانے طبقے کے دانشور محنت کشوں کی تحریکوں کے وجود سے ہی انکار کر دیتے ہیں۔ پی آئی اے میں یونین کی سرگرمیوں کے باوجود سول ایوی ایشن کے ملازمین احتجاج کر رہے ہیں۔ ریلوے اور اسٹیل مل میں ابتدائی سطح کی سیاسی ہلچل نظر آ رہی ہے۔ واپڈا کے محنت کش بھی تنخواہوں سے لے کر دیگر تمام مسائل کو لے کر بہت پریشان ہیں۔ ایسے میں اگر روایتی قیادتیں رستہ نہیں دیں گی توبھی بڑے پیمانے کی تحریکیں ان روایتی قیادتوں کو جھٹکتے ہوئے سیاسی افق پر ہلچل مچائیں گی۔
امپریل کالج آف لندن کے ایک تخمینے کے مطابق 9 اگست پاکستان میں کرونا وبا کی انتہا کا دن ہو گا اور اس ایک دن میں 78ہزار لوگ 24گھنٹوں کے اندر لقمۂ اجل بنیں گے۔ اسی رپورٹ کے مطابق 22 جنوری تک اس وبا سے پاکستان میں 22 لاکھ سے زیادہ ہلاکتیں متوقع ہیں۔ یہ اعداد و شمار اگرچہ بے انتہا مبالغہ آرائی پر مبنی دکھائی دیتے ہیں۔ لیکن دوسری طرف سرکاری اعدادو شمار سراسر جھوٹ کاپلندہ ہیں جن کی رو سے ابھی تک کرونا سے پاکستان میں صرف چار ہزار ہلاکتیں ہوئی ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ ڈاکٹروں اور شعبہئ صحت کے محنت کشوں کے خلاف شعوری طور پر کیے جانے والے پروپیگنڈے کے باعث بہت سے مریض ہسپتال جانے سے گریز کر رہے ہیں اور گھروں پرہی مر رہے ہیں اور ان کو ان سرکاری اعدادو شمار میں شامل ہی نہیں کیا جا سکتا۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ ریاست اور اس کا انفراسٹرکچر اتنا بوسیدہ ہے کہ مرنے والوں کی جانیں بچانا تو درکنار یہ ہونے والی اموات کا درست تخمینہ تک نہیں لگا سکتے۔ ملک بھر کے تمام ہسپتال بھرے پڑے ہیں۔ آکسیجن سلنڈر اور برطانوی ماہرین کی طرف سے تجویز کردہ سٹیرائیڈ ڈیکسا میتھازون کو بڑے پیمانے پر ذخیرہ کیا جا چکا ہے اور وہ مارکیٹ سے غائب ہیں۔ حکومت کی پالیسی ابھی تک تذبذب اور ہیجان کا شکار ہے۔ سمارٹ لاک ڈاؤن کا ڈرامہ ابھی بھی جاری ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ وبا بڑے پیمانے پر پھیل چکی ہے اور اب اس کا انسداد مشکل ہی نہیں ناممکن ہو چکا ہے۔ یہ بات بھی درست ہے کہ پاکستان میں شرحِ اموات مغربی ممالک کے مقابلے میں قدرے کم ہے۔ لیکن پھر بھی مرنے والوں کی تعداد ہزاروں میں نہیں لاکھوں میں ہی ہو گی۔ اصل سوال یہ نہیں کہ اس وبا سے کتنے لوگ مرتے ہیں، سوال یہ ہے کہ ان کی جانیں ریاستی وسائل اور بیرونی امداد کو درست طریقے سے بروئے کار لاتے ہوئے بچائی جا سکتی تھیں۔ تو پھر ظاہر ہے کہ ان معصوم لوگوں کی اموات طبعی نہیں ہیں بلکہ ان کا قاتل یہ نظام اور اس کے پروردہ حکمران طبقات ہیں۔ لوگ اس ظلم کو صرف بھگت ہی نہیں رہے بلکہ حکمران طبقے کی سفاکی سے ان کے اندر نفرت کا لاوا پکتا چلا جا رہا ہے جو ایک انتقام کی شکل اختیار کرنے کے لیے بے تاب ہے۔ عین اس وقت جب عوام بے یار ومددگار غربت اور افلاس کی چکی میں پس رہے ہیں اور ان پر موت کے سائے منڈلا رہے ہیں، وزیرِ اعظم عمران خان کا سندھ میں شاندار استقبال کیا گیا۔ لاڑکانہ کی تاریخی ضیافت میں وزیرِ اعظم کے لیے 135 الگ الگ کھانے تیار کیے گئے۔ 35 سے زیادہ گاڑیوں کے پروٹوکول کے ساتھ زیرِ اعظم لاڑکانہ پہنچے جہاں ان کا شاہانہ استقبال کیا گیا۔ یہ محض ایک واقعہ نہیں تھا بلکہ حکمران طبقے کی طرف سے محنت کش طبقے کو ایک واضح پیغام تھا کہ ’یہ ہمارا سیارہ ہے، یہ ہمارا نظام ہے، یہ ہماری دولت ہے، تم بھوک سے مرتے ہو تو مرتے رہو، ہمارا یہ تعیش اور ٹھاٹھ باٹھ ایسے ہی قائم و دائم رہے گا‘۔ محنت کش طبقے کو حکمران طبقے کا یہ پیغام مل گیا، وہ اس کو چاہ کر بھی فراموش نہیں کر سکتا۔ یہ صورتحال انقلابِ فرانس سے قبل کی صورتحال سے بہت حد تک مماثل ہے۔ یہاں بھی محکوم عوام کا جواب وہی ہو گا جو فرانس کے بہادر عوام کا جواب تھا۔ ’ایک تازہ دم، تاریخ ساز، سیاسی انقلاب‘۔حکمران طبقات کو بھاگنے اور چھپنے کو جگہ نہیں ملے گی۔