|رپورٹ: مرکزی بیورو، ریڈ ورکرز فرنٹ|
پاکستانی سرمایہ دار طبقے کے ایک مستند نمائندے بزنس ریکارڈر نے 21 جون کو ایک رپورٹ شائع کی جس کے مطابق وزیرِ ایوی ایشن کے قریبی ذرائع نے واضح کیا ہے کہ 30 جون 2020ء تک قومی ائر لائن پی آئی اے کے 3500 ملازمین کی رضاکارانہ برخاستگی (VSS) کے حوالے سے جامع پلان مکمل کر لیا جائے گا اور بعد ازاں اسے کابینہ کی اکنامک کوآرڈینیشن کمیٹی (ECC) میں غوروفکر اور منظوری کے لئے پیش کیا جائے گا۔ منصوبے کی کل لاگت 9.7 ارب روپے بتائی گئی ہے اور اس پر وزیرِ اعظم کے مشیر برائے ادارہ جاتی اصلاحات اورمعاشی کفایت شعاری ڈاکٹر عشرت حسین کی سربراہی میں اور تمام قانونی مشاورت کے ساتھ تیزی سے کام جاری ہے۔ ڈاکٹر عشرت اس حوالے سے ریلوے اور فیڈرل بیورو آف ریونیو میں ”اصلاحات“ پر بھی کام کر رہا ہے۔
اس وقت بھی پی آئی اے میں جبری برطرفیوں کا عمل تیزی سے جاری ہے اور پی آئی اے ملازمین کاروزگار چھینا جار ہا ہے۔ کنٹریکٹ ملازمین کے کنٹریکٹ بحال نہیں کئے جا رہے اور انتقامی کاروائیوں کا نشانہ بناتے ہوئے ڈسپلنری نوٹسز کی بوچھاڑ کی جا رہی ہے جن میں موقف سن کر یا اس کے بغیر ہی ملازمین کو برطرف کیا جا رہا ہے۔
اطلاعات کے مطابق اب تک 56 ملازمین، جن کا تعلق مختلف شعبوں سے ہے، ان کے کنٹریکٹ دوبارہ بحال نہیں کئے گئے اور انہیں نوکریوں سے فارغ کر دیا گیا ہے۔ ایک اسسٹنٹ سٹیشن منیجر بھی ان کاروائیوں کا شکار ہو چکا ہے۔ اسی طرح تقریباً 11 ملازمین، جن کا تعلق گراؤنڈ کریو اور دیگر شعبوں سے ہے، فارغ کر دیئے گئے ہیں۔سوشل میڈیا اور واٹس ایپ وغیرہ پر اس حوالے سے بات کرنے والوں کی بھی آواز دبائی جا رہی ہے اورتادیبی کاروائیوں کی دھمکیاں دی جا رہی ہیں۔ ملازمین کو آواز اٹھانے پر جبری طور پر دوسرے شہروں میں تعینات کیا جا رہا ہے اور شو کاز نوٹس دیئے جا رہے ہیں جن کی آڑ میں تیزی سے برطرفیاں کی جا رہی ہیں۔
ملک کے 860 پائلٹس میں سے 262 کے لائسنسوں کے حوالے سے کاروائی کا علان وفاقی وزیر ہوا بازی پہلے ہی پارلیمنٹ میں کر چکا ہے۔ جعلی ڈگریوں کا ہوا بنا کرملازمین کی چھانٹیاں کی جا رہی ہیں اور ستم ظریفی یہ ہے کہ وزیرِ ایوی ایشن کی اپنی ڈگری تصدیق کے دوران جعلی ثابت ہو چکی ہے۔ اس کے علاوہ پی آئی اے کی مزدور دشمن انتظامیہ پہلے ہی 150 پائلٹس کو گراؤنڈ اور 6 پائلٹس کو برخاست کرنے کا اعلان کر چکی ہے۔ گراؤنڈ کیے جانے والے پائلٹس کے لائسنسوں کی تصدیق کے بعد انہیں واپس ڈیوٹیوں پر بلایا جائے گا لیکن صورتحال کی مناسبت سے یہی معلوم ہو رہا ہے کہ ان میں سے اکثریت اب دوبارہ کبھی پی آئی اے کے دفتر میں قدم نہیں رکھ پائیں گے۔
پی آئی اے کی نجکاری ہر سیاسی جماعت کا ہدف رہا ہے جس میں موجودہ تبدیلی حکومت نے تیزی لاتے ہوئے پہلے اس سال یومِ مئی سے ایک رات قبل نوٹس جاری کر کے سی بی اے یونین کے علاوہ تمام مزدور یونینز اور ایسوسی ایشنز پر پابندی لگا دی اور لازمی سروسز ایکٹ نافذ کرتے ہوئے چھ ماہ کے لیے ہر قسم کی یونین سرگرمی کو بھی غیر قانونی قرار دے دیا۔ 22 مئی کو کراچی میں کریش ہونے والی ائر بس فلائٹ 8308، جس میں 97 افرا د کی موت واقع ہوئی، کو بنیاد بنا کر نجکاری کے عمل کو اور بھی زیادہ تیز کر دیا گیا ہے۔ جبکہ پائلٹس یونین ’پالپا‘ پر شدید دباؤ بڑھاتے ہوئے پائلٹس پر جعلی لائسنس اور ڈگریوں کا ہوا کھڑا کیا گیا ہے۔ پی آئی اے کو چلانے میں دیگر شعبہ جات کے ملازمین کے ساتھ ساتھ پائلٹس کے کلیدی کردار کے باعث پالپا یونین کو خاص طور پر نشانہ بنایا جا رہا ہے اور غلیظ اور جھوٹی میڈیا کیمپین کے ذریعے کے نجکاری کی راہ ہموار کی جار ہی ہے۔ یاد رہے کہ کرونا وبا کے آغاز کے بعد جب حکومت نے بیرون ملک پھنسے پاکستانیوں کو واپس لانے کے لیے فلائٹوں کا آغاز کیا تو ناقص حفاظتی انتظامات کے باعث پالپا نے جہاز اڑنے سے انکار کردیا تھا اور ہڑتال پر چلے گئے تھے۔ بعد ازاں، حکومت سے مذاکرات اور حفاظتی سامان کی فراہمی کے بعد ہڑتال ختم کردی گئی۔ مزید برآں، 2016ء میں پی آئی اے کی نجکاری کے خلاف ہونے والی آٹھ روزہ تاریخی ہڑتال میں بھی پالپا نے اہم کردار ادا کیا تھا اور پی آئی اے کے دیگر مزدوروں کا ساتھ دیتے ہوئے جہاز اڑانے سے انکار کردیا تھا جس کے بعد آٹھ دن تک ایک بھی فلائٹ نہیں اڑ سکی تھی۔
پی آئی اے میں موجود یونینز اور ایسو سی ایشنز کی قیادتوں کی غداریوں اور نظریاتی کمزوریوں کا فائدہ اٹھاتے ہوئے ریاست اس مرتبہ تمام مزاحمتوں اور رکاوٹوں کو توڑتے ہوئے نجکاری کے حوالے سے انتہائی سنجیدہ نظرآ رہی ہے۔ ملک میں اس وقت نیم مارشل لاء مسلط ہے جس کی ایک شکل ہمیں نجکاری کی فہرست میں شامل اکثر اداروں کی بالا انتظامیہ میں حاضر سروس یا ریٹائرڈ فوجی افسران کی بھرمار نظر آ رہی ہے۔ ان افسران کو ہر صورت ان اداروں کی نجکاری کا ہدف سونپا گیا ہے اور اس حوالے سے پی آئی اے میں بھی صورتحال مختلف نہیں۔ لیکن تمام شعبوں سے 3500 ملازمین کی برخاستگی محض آغاز ہے جس میں سب سے زیادہ متوقع تعداد کنٹریکٹ ملازمین اور دیہاڑی داروں کی ہو گی۔ عالمی اور ملکی معاشی بربادی، عالمی مالیاتی اداروں کی قرضہ ادائیگی اور لوٹ مار کی ہوس نے حکمرانوں کی درندگی میں ہزاروں گنا اضافہ کر دیا ہے۔اس جرم میں عدلیہ بھی برابر کی معاون ہے جو جعلی لائسنس کے معاملے کا از خود نوٹس لیتے ہوئے اپنی مزدور دشمنی کا کھل کر اظہار کر رہی ہے۔
پچھلے سال پی آئی اے کے چیف ایگزیکٹیو ائر وائس مارشل ارشد ملک نے فخریہ اعلان کیا تھا کہ 1000 ملازمین کو نوکریوں سے فارغ کر دیا گیا ہے۔ یومِ مئی سے ایک دن قبل ائر لائن میں یونینز اور ایسوسی ایشنز پر پابندی، 22 مئی کو کراچی میں جہاز کریش کی ابتدائی رپورٹ میں تمام تر ذمہ داری پائلٹس اور کنٹرول ٹاؤر پر ڈالنے، عدلیہ کا پائلٹس لائسنس کی تصدیق کے معاملے کے از خود نوٹس اور سخت الفاظ کا استعمال، سول ایوی ایشن اتھارٹی (CAA) کو دو ٹکڑوں میں بانٹنے کا منصوبہ، سیاسی افق اور یونینز قیادت کی قبر جیسی خاموشی سے واضح ہو رہا ہے کہ ریاست کا ہر ادارہ، ہر سیاسی جماعت اور نام نہاد یونین قیادت پی آئی اے کو فوری طور پر بیچنے کے لئے کمر بستہ ہو چکے ہیں۔ اس حوالے سے عام ملازمین میں شدید بے چینی موجود ہے جس کا اظہار 25 جون کو کراچی میں سول ایوی ایشن اتھارٹی کے ملازمین کے احتجاج میں ہوا ہے۔ یہ ناگزیر ہے کہ دیگر شعبوں کے ملازمین بھی احتجاج اور جدوجہد کا راستہ اپنانے پر مجبور ہو جائیں گے۔
ریڈ ورکرز فرنٹ پی آئی اے ملازمین کی جبری برطرفیوں اور انتقامی کاروائیوں کی شدید مذمت کرتا ہے اور برطرف کیے گئے تمام ملازمین کو فی الفور بحال کرنے کا مطالبہ کرتا ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ 3500 ملازمین کی جبری برطرفیاں در حقیقت پورے ائیر لائن کی نجکاری کی جانب پہلا قدم ہے اور اس حملے کا منہ توڑ جواب دینے کی ضرورت ہے۔ پی آئی اے کے تمام ملازمین کو اس معاشی شب خو ن کا ڈٹ کر مقابلہ کرنا ہو گا اور اس کے لئے فوری طور پر تمام ادارہ جاتی یونینز اور ایسوسی ایشنز سے تعلق رکھنے والے ملازمین کو ایک پلیٹ فارم پر اکٹھے ہو کر نجکاری مخالف جدوجہد کاآغاز کرنے کی ضرورت ہے۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ دیگر نجکاری فہرست میں شامل قومی اداروں کے ملازمین کو بھی دعوت دینی ہو گی کہ ایک ملک گیر نجکاری مخالف پلیٹ فارم پر متحد ہو کر ریاست کا مقابلہ کیا جائے۔ پوری ریاست اور اس کے تمام ادارے اس وقت نجکاری کے لئے متحد ہیں اور حالیہ ریلوے اوراسٹیل ملز پر نجکاری حملوں سے ثابت ہوتا ہے کہ ان حملوں کا اجتماعی اور متحد جواب ہی کارگر ہو سکتا ہے۔ وہ جواب ہے ایک ملک گیر عام ہڑتال!