|رپورٹ: ریڈ ورکرز فرنٹ،لاہور|
گزشتہ دو ہفتوں میں واپڈا کی مختلف کمپنیوں میں ورکرز کے ساتھ پانچ جان لیوا حادثات رونما ہو چکے ہیں۔ حکومت، انتظامیہ اور یونین لیڈرز کے تمام تر دعووں کے باوجود ورکرز کا جانی نقصان مسلسل جاری ہے۔ تازہ واقعات میں QESCO قلعہ سیف اللہ کے لائن مین عبدالواحد، FESCO کمالیہ کے لائن مین محمد نسیم، خضر حیات اور IESCO مری کے نوجوان اے ایل ایم جنید ان حادثات میں اپنی جان گنوا بیٹھے۔ اسی طرح HESCO ٹھٹھہ کے الطاف حسین بھی حادثہ میں شدید زخمی ہونے کے چند دن بعد دم توڑ گئے۔ حکومت، انتظامیہ، افسران اور یونین کے بڑے بڑے عہدیداروں کو ان ہلاکتوں سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ ان کے لئے محنت کش کی جان کوئی معنی نہیں رکھتی۔ ان کو اس چیز سے کوئی غرض نہیں کہ کسی مزدور کا گھر اجڑ جائے، بچے یتیم ہو جائیں، بیوی بیوہ ہو جائے یا ماں باپ ایک کمانے والے بچے سے محروم ہو جائیں۔ اداروں کے اندر تجربہ کار ورکرز کی کمی پر بھی یہ ٹس سے مس نہیں ہوتے۔ واپڈا کے ورکرز ان فوجی کمانڈوز سے بڑھ کر ہیں جو دشمن کا سامنا پورے ساز و سامان، لاجسٹک سپورٹ، ٹریننگ اور حوصلہ افزائی کے ساتھ کرتے ہیں اور جن کو کوئی معاشی پریشانی یا خوراک کی کمی کا مسئلہ درپیش نہیں ہوتا جبکہ بجلی کا کام کرنے والے یہ جانباز قہر کی اس گرمی، آگ برساتے ٹرانسفارمرز اور ٹرانسمیشن لائنز پر دن رات کام کرتے ہیں اور اس تھکے ہارے ناقص، ناکارہ، بوسیدہ اور دقیانوسی برقی نظام کو بے سرو سامانی کے با وجود اپنی جان پر کھیل کر بغیر کسی حفاظتی ساز و سامان، T&P سٹاف کی کمی، تنخواہ کی کمی، جلد بازی کے احکامات اور ذلت آمیز سلوک کے باوجود رواں دواں رکھے ہوئے ہیں۔
ملک بھر کے تمام گھر، کارخانے، دفاتر، مارکیٹیں، اور حکمرانوں کی محلات کی روشنیاں انہیں کے دم سے ہیں۔ لیکن ان روشنی دینے والوں کے گھروں میں ہی موت کا اندھیرا چھا جائے، یہ کسی صورت قابلِ قبول نہیں ہے۔ آئے دن حادثات میں ورکر اپنی جان گنوا دیتے ہیں یا شدید زخمی ہو جاتے ہیں اور مناسب طور پر ان واقعات کی تشہیر اور تحقیقات نہ ہونے کے سبب زیادہ تر حادثات کو دبا دیا جاتا ہے اور باقی تمام ورکرز اور عوام تک یہ جان سوز خبریں پہنچ ہی نہیں پاتی بلکہ ہلاک شدگان کے بارے میں گمراہ کن پراپیگنڈہ بھی کیا جاتا ہے جس میں موت کا ذمہ دار مرنے والے کو، اس کے دوسرے ساتھی ورکرز یا گرڈ سٹاف کو ٹھہرایا جاتا ہے جو کہ سراسر جھوٹ اور فریب ہے۔ اس دروغ گوئی اور الزام تراشی سے اصل مسئلے کی طرف دھیان ہی نہیں جاتا اور کچھ ورکرز بھی اس پراپیگنڈہ کا شکار ہو کر ایک دوسرے کو ذمہ دار سمجھنے لگتے ہیں۔ صرف کفِ افسوس ملنے، سیفٹی سیمینار کرنے، شہادت ڈے منانے یا علامتی طور پر مظاہرے کرنے سے کسی صورت بھی ان حادثات کو روکا نہیں جا سکتا۔ عام طور پر سیفٹی سیمینار میں افسران، یونین کے عہدیدار اور کچھ ورکرز کی شمولیت ہوتی ہے جس میں صرف تقریروں پر زور دے کر زبانی کلامی ورکرز کی حفاظت کا رونا رویا جاتا ہے۔ اس میں زیادہ تر مبہم باتیں، نصیحتیں اور ہدایات ہوتی ہیں۔ کہا یہ جاتا ہے کہ کام سے پہلے (Permit to Work-PTW) لیں اور اس کے بغیر کام سے انکار کر دیں جبکہ دور دراز تک لمبے فیڈر، سٹاف کی کمی، وقت کی کمی اور ٹرانسپورٹ نہ ہونے کی وجہ سے اس پر عمل مشکل ہی نہیں بلکہ اکثر اوقات ناممکن ہوتا ہے۔ اور دوسری ہدایت کی جاتی ہے وہ یہ ہے کہ کام والی جگہ کے دونوں جانب ارتھ کرنے کی ہوتی ہے جبکہ ارتھ سیٹ بھاری اور ناقص حالت میں ہونے کی وجہ سے ایسا کرنے میں بہت وقت لگتا ہے اور ”اوپر“ سے حکم ہوتا ہے کہ کام جلد از جلد مکمل کیا جائے اور اسی جلد بازی میں حادثات جنم لیتے ہیں۔ ٹرانسپورٹ نہ ہونے کی وجہ سے ایک موٹر سائیکل پر دو ارتھ سیٹ، سیڑھی، ٹی اینڈ پی بکس، ڈی راڈ اور کنڈکٹر لاد کر لے جانا ویسے ہی ناممکن ہے۔ ایک ہی پول پر کئی فیڈرز ہونے کی وجہ سے دوسرے فیڈر پر اجازت نامہ نہیں ملتا اور دونوں فیڈرز کا آپسی فاصلہ کم ہونے کی وجہ سے دوسرے فیڈر پر بغیر پرمٹ لیے کام کیا جاتا ہے جو کہ حادثات کا سبب بنتا ہے۔ ڈسٹریبیوشن ٹرانسفارمر کی ایل ٹی پر کام کرنے کے لئے اجازت نامہ نہ ملنے پر ایچ ٹی کے قریب ہونے کے باوجود خطرہ مول لے کر کام کیا جاتا ہے اور کسی بھی غلطی کی صورت میں جسم کا کوئی بھی حصہ یا اوزار کے چھو جانے سے کرنٹ کا جان لیوا جھٹکا لگنے کے امکانات ہوتے ہیں۔
اس کے علاوہ لائن مین کو حفاظتی جوتے، دستانے اور بیلٹ پہن کر کام کرنے کی ہدایت کی جاتی ہے لیکن یہ حفاظتی سامان یہاں تک کہ ارتھ سیٹ نہ سب ڈویژنز اور نہ ہی سٹورز میں دستیاب ہے۔ لائن مین اپنی مدد آپ کے تحت حفاظتی سامان خریدتے ہیں جبکہ ارتھ کی جگہ پر مجبوراً تینوں لائنوں کو کنڈکٹر سے شاٹ کر دیتے ہیں جو کہ انتہائی خطرناک ہے۔ ناقص اور غیر معیاری حالت ہونے کی وجہ سے بیلٹ ٹوٹنے، گلووز میں سے لیکج ہونے، بوٹ سے کرنٹ پاس ہونے اور سر کے لائیو لائن سے چھونے پر ہیلمٹ کے غیر معیاری ہونے کی وجہ سے فیٹل یا نان فیٹل حادثات رونما ہوتے رہتے ہیں۔ سیفٹی سیمینار منعقد کروانے والوں کی طرف سے بڑا زور دے کر چیختے چلاتے ہوئے لائن مینز کو یہ’بتایا اور سمجھایا‘ جاتا ہے کہ مکمل حفاظتی تدابیر استعمال کیے بغیر ہرگز کام نہ کریں اور کسی بھی کمی کوتاہی یا خامی کی صورت میں کام کرنے سے انکار کر دیں اور کام میں جلد بازی ہرگز نہ کریں مگر اس بیان بازی کے علاوہ کوئی بھی عملی اقدامات نہیں اٹھائے جاتے۔ سیفٹی سیمینار کے علاوہ آپریشن سب ڈویژنز اور گرڈ اسٹیشنز پر ٹی اینڈ پی پریڈ بھی منعقد کی جاتی ہے جہاں پر ٹی اینڈ پی اور حفاظتی سامان کی چیکنگ پر ہی اکتفا کیا جاتا ہے لیکن سب کچھ لا حاصل ہے اور حادثات مسلسل ہو رہے ہیں کیونکہ صرف ان باتوں سے حادثات نہیں رک سکتے کیونکہ درحقیقت فیلڈ میں معاملات اس کے برعکس ہیں۔ جو بھی گاڑی لائن سٹاف کو کام کے لئے ملتی ہے اس پر افسران قبضہ کر لیتے ہیں اور یونین عہدے دار بھی صرف تماشائی کا کردار ادا کرتے ہیں۔ سٹاف کی کمی کے باوجود کئی ایک لائن مینوں کو دوسرے دفتر میں اٹیچ کر دیا جاتا ہے یا ایل ایس کا چارج دے دیا جاتا ہے جبکہ کام کا سارا بوجھ باقی بچ جانے والے چند لائن مینوں پر آ جاتا ہے اور ان سے بارہ سے چودہ گھنٹے کام لیا جاتا ہے اور چھٹی کر کے گھر جانے کے بعد بھی کام کی شدت کی وجہ سے واپس بلا لیا جاتا ہے۔ آرام نہ کرنا اور شدید تھکاوٹ بھی حادثات کی وجہ بنتی ہے۔ پی۔ٹی۔ڈبلیو لینے کے لئے مختلف رکاوٹوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور پیچیدہ طریقہ کار ہونے کی وجہ سے ورکرز کام والی جگہ پر کھڑے ہو کر گھنٹوں انتظار کرتے ہیں اور اوپر سے افسران اور سیاسی لیڈروں کا جلدی بجلی بحال کرنے کے لئے دباؤ ہوتا ہے اور اسی جلد بازی اور پریشانی میں حادثات ہوتے ہیں۔ اس تمام تر صورتحال میں یونین عہدے دار بھی کچھ مظاہرے، ریلیاں اور مطالبات کو دہراتے ہوئے روایتی تقریروں میں حکومت اور انتظامیہ سے گلے شکوے کرتے نظر آتے ہیں جس میں آئندہ کے لائحہ عمل کا اعلان بھی شامل ہوتا ہے مگر یہ سب کچھ صرف اعلانات تک ہی محدود رہتا ہے۔ مثلاًPESCO میں حاجی اقبال خان نے ہڑتال کی کال دی تھی لیکن بعد میں وہ صرف ایک احتجاجی مظاہرے تک محدود رہا جس کا کوئی نتیجہ نہیں نکلا اور یوں مری کا ایک اے ایل ایم جنید اپنی جان گنوا بیٹھا۔
ریڈ ورکرز فرنٹ ان تمام اموات پر خاموش تماشائی کا کردار ادا نہیں کرے گا بلکہ پورے ملک میں محنت کشوں کے ساتھ جڑت بناتے ہوئے انڈسٹریل اور ورک پلیس سیفٹی کے مسئلے کو اجاگر کرے گا۔ ہم جاں بحق ہونے والے ورکرز کے لئے صرف افسوس کرنے کی حد تک نہیں رہیں گے بلکہ عملی اقدامات اٹھائیں گے۔ ریڈ ورکرز فرنٹ بجا طور پر یہ سمجھتا ہے کہ صرف مطالبات کو دہرا کر خاموش ہو جانے سے، سیمینار اور علامتی احتجاج کرنے سے کسی قسم کی تبدیلی کی توقع نہیں کی جا سکتی اور یہ سب ورکرز کے حق میں نہیں بلکہ ظالم و جابر حکومت اور انتظامیہ کے حق میں جاتا ہے؛ لہٰذا تمام اداروں اور صنعتوں کے محنت کشوں کو متحد ہو کر اس مسئلے پر ایک ملک گیر تحریک چلانا ہو گی تا کہ ان کی قیمتی جانوں کے ضیاع کو روکا جا سکے۔
ریڈ ورکرز فرنٹ (RWF) یہ مطالبہ کرتا ہے کہ محنت کشوں کی زندگیوں کی حفاظت کے لئے درج ذیل مطالبات کو فوراً پورا کیا جائے:
1۔بکٹ والی گاڑی اور کرین بمعہ ڈرائیور ہر کام کی جگہ پر مہیا کی جائے۔
2۔سٹاف کی کمی کو یارڈ سٹک کے مطابق جلد از جلد پورا کیا جائے۔
3۔ تمام پرانی اور ناکارہ انسٹالیشن کو فی الفورتبدیل کیا جائے۔
4۔حادثے کی صورت میں متاثرہ ورکر کو مفت ومعیاری طبی سہولیات کی بر وقت فراہمی کو یقینی بنایا جائے۔
5۔ موزوں حفاظتی آلات،PPE اور T&P کسی قسم کا سمجھوتہ کیے بغیر عالمی معیار کے مطابق فراہم کیے جائیں اور انفراسٹرکچر کو جدید تقاضوں کے ساتھ ہم آہنگ کیا جائے۔
6۔ ہائی وولٹیج ڈٹیکٹر ہر حال میں مہیا کیے جائیں۔
7۔ جدید ارتھنگ سیٹ ہر لائن مین کو مہیا کیا جائے۔
8۔PTW پر کام کرنے کے لئے مکمل وقت دیا جائے۔
9۔ افسران کی جانب سے اور سیاسی دباؤ، جلد بازی،ٹینشن اور کام کی زیادتی کا خاتمہ کیا جائے۔
10۔ کام کے دوران موبائل فون کے استعمال پر مکمل پابندی لگائی جائے تاکہ افسرانِ بالا کی کالز سے ورکرز کی توجہ ہٹ جانے سے کوئی حادثہ رونما نہ ہو۔
11۔چمڑے اور ربڑ کے دستانے،حفاظتی بیلٹ،حفاظتی بوٹ،ہیلمٹ،ٹارچ اور پلاس سمیت تمام ضروری آلات حفاظت کے عالمی معیار کے مطابق مہیا کیے جائیں۔
12۔ورکرز کو مطلوبہ ٹریننگ کے بعد ہی کام کی ذمہ داری سونپی جائے۔
ریڈ ورکرز فرنٹ(RWF) واپڈا کے محنت کشوں سے اپیل کرتا ہے کہ مندرجہ بالا مطالبات منوانے کے لئے عملی میدان میں آئیں اور ایسے ہی مسائل میں گھرے دیگر شعبوں کے محنت کشوں کے ساتھ مل کر مشترکہ مطالبات و لائحہ عمل اپناتے ہوئے اس جدوجہد کو پایہ تکمیل تک پہنچائیں۔
ایک کا دکھ! سب کا دکھ!
مزدور اتحاد زندہ باد!
کام کی جگہ پر تحفظ۔۔۔ہمارا بنیادی حق!!