|تحریر: آدم پال|
انتخابات کا بہت شور مچایا جا رہا ہے اور جمہوریت کے تسلسل پر جشن منائے جا رہے ہیں۔ تیاریاں بھی زور و شور سے دکھائی دے رہی ہیں اوروفاداریوں کا بھاؤ بھی منڈی میں بڑھتا جا رہا ہے۔ گرما گرم بحثوں کا آغاز ہو چکا ہے اور ایک دوسرے پر الزامات کے آخری حملے کرنے کا وقت قریب پہنچ رہا ہے۔ انتخابات کے بر وقت انعقاد میں حائل رکاوٹوں اور خدشات کا بھی ذکر کیا جا رہا ہے اور بد ترین جمہوریت کو آمریت سے بہتر قرار دینے کی گردان بھی شروع کر دی گئی ہے۔ لیکن موجودہ نظام معیشت اور سماج کی حالت زار کا نہ تو کئی سنجیدہ تجزیہ کہیں موجود ہے اور نہ ہی محنت کش کی کوئی آوازکسی بھی پلیٹ فارم پر موجود ہے۔ میڈیا ہو یا سیاسی پارٹیاں، عدالتیں ہوں یا سول وملٹری اسٹیبلشمنٹ کے دفاتر ہر جگہ حکمران طبقے کے نمائندے براجمان ہیں اور پوری قوت سے مزدوروں اور کسانوں کی آواز کو کچلا جا رہا ہے۔ ہر طرف ایک منافقت کو مسلط کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ میڈیا کی غلاظت انتہاؤں کو چھو رہی ہے اور مزدوروں کی کوئی چھوٹی سی خبر بھی منظر عام پر آنے نہیں دی جاتی کہ کہیں بے معنی سیاسی بحثوں اور عدالتی کاروائیوں کی توجہ اپنی جانب مبذول نہ کروا لے۔ کراچی میں گرمی کی شدت سے مرنے والوں کی خبر صرف ایک ہی دفعہ چھپ سکی جس میں دو دنوں میں کم از کم 65ہلاکتوں کا ذکر کیا گیا تھا جبکہ خدشہ ظاہر کیا گیا تھا کہ اصل تعداد سینکڑوں میں ہے اور آنے والے دنوں میں ہزاروں میں جا سکتی ہے۔ اس کے بعد سے اس خبر کو بھی دبا دیا گیا اور شدید گرمی میں پانی اور بجلی کی عدم موجودگی کے باعث ہلاک ہونے والوں کی کوئی خبر میڈیا پر نہیں آ سکی اور نہ ہی اگلے اقتدار کی ہڈیوں کے لیے لڑنے والی سیاسی پارٹیوں کی توجہ حاصل کر سکی۔
اسی طرح جہاں تمام سیاسی پارٹیاں ایک دوسرے پر شدید تنقید کر رہی ہیں اور تھپڑ مارنے سے لے کر ایک دوسرے کومستقل نا اہل کروانے پر کمر بستہ ہیں وہاں اتنی شدید حالت جنگ میں بھی مزدوروں کی کم از کم اجرت اور دیگر بنیادی مسائل کی گفتگو کے لیے وقت نہیں نکال پاتی۔ ٹی وی پر بیٹھے اینکر اور کالم نگار دانشوری کی عظمتوں پر پہنچتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں لیکن کسی فیکٹری میں کام کرنے والے مزدور کی حالت اور مزدور قوانین کے اطلاق کے بارے میں اپنی قیمتی رائے نوازنے کے لیے ان کے پاس وقت نہیں۔ جن ٹی وی چینلوں پر ملٹی نیشنل اور مقامی کمپنیوں کے کروڑوں روپے کے اشتہارچلائے جاتے ہیں ان کمپنیوں میں کام کرنے والے مزدور کس حالت میں ہیں اور ان انتخابات کی جانب ان کی کیا رائے ہے اس سے کسی کو بھی دلچسپی نہیں۔ یہ انتخابات، یہ سیاسی پارٹیاں، یہ عدالتیں، میڈیا اور دیگر تمام ریاستی ادارے کس کے لیے موجود ہیں اور کس کے لیے کام کرتے ہیں آج یہ پہچاننا بالکل بھی مشکل نہیں رہا۔
کس سیاسی پارٹی نے کتنے فیکٹری کے مزدوروں کو ٹکٹ دیے ہیں، کتنے ریڑھی بان امیدوار بنے ہیں، کتنے خاکروب، کوئلے کی کان کے محنت کش، گارمنٹس فیکٹریوں کی خواتین محنت کش، بھٹہ مزدور، رکشے والے یا یونین لیڈر اگلی اسمبلی میں پہنچیں گے۔ اس کا جواب پورے ملک میں واضح ہے خواہ کسی بھی علاقے کی صورتحال دیکھ لیں۔ صرف سرمایہ داریا ان کے دلال، جاگیر دار یا ان کے ٹاؤٹ، رسہ گیر، قبضہ گروپ، کرپٹ ریٹائرڈ افسران، منشیات فروش، گدی نشین، دہشت گردی پھیلانے والے ملا، قاتل، ڈکیت اور دیگر ایسے جرائم پیشہ افراد ہی اگلی اسمبلی کا بھی حصہ ہوں گے جیسے پچھلی اسمبلی میں تھے۔ یہی لوگ پاکستان کے کروڑوں محنت کش عوام کے لیے قانون سازی بھی کریں گے اور ان کے نمائندے بھی کہلائے جائیں گے۔ اس وقت سیاسی افق پر جاری تمام تر دھینگا مشتی بھی درحقیقت ان تمام افراد کی آپسی لڑائی ہے جس میں وہ ایک دوسرے پر سبقت لیجانے کی کوشش کر رہے ہیں اور اقتدار کی ہڈی دوسرے سے چھیننے کی تگ و دو کر رہے ہیں۔ اس اقتدار کا مقصد بھی اپنے مذموم عزائم کا حصول اور اپنے طبقے کے مفادات کا تحفظ ہے۔ اس مقصد کے لیے کچھ فوجی جرنیلوں کی حمایت کے باعث اکڑ رہے ہیں اور اگلی حکومت میں اقتدار کو یقینی قرار دے رہے ہیں جبکہ کچھ سامراجی آقاؤں کے تلوے چاٹ رہے ہیں اور ان کی آشیر باد کو اقتدار کی کلید قرار دیتے ہوئے امیدوار میدان میں اتار رہے ہیں۔ تمام ریاستی ادارے بھی اس دھما چوکڑی میں اپنے اپنے گھوڑے یا گدھے پر جوا کھیل رہے ہیں اور ہر ممکن طریقے سے دوسرے دھڑے کو شکست دینے کی کوششوں میں مصروف ہیں۔ جج، جرنیل اور بیوروکریٹ اپنے اپنے مفادات کے تحت مخصوص سیاسی پارٹیوں کی حمایت میں تمام حدیں پار کر چکے ہیں اور ریاست کے ادارو ں کو اس ہوس زدہ لڑائی کا حصہ بنا چکے ہیں۔ لیکن حتمی تجزئیے میں یہ تمام تر لڑائی حکمران طبقے کے مختلف دھڑوں کی باہمی لڑائی ہے جس سے یہاں کا محنت کش طبقہ لا تعلق ہو چکا ہے۔
کرائے کے بہت سے دانشور اس تمام تر غلاظت کو جمہوریت کا نام دیتے ہوئے اس کا موازنہ آمریت سے کریں گے اور اسے ایک ’’نسبتاً‘‘ بہتر دوائی قرار دیتے ہوئے عوام کو ہضم کرنے کی تلقین کریں گے۔ لیکن محنت کشوں کے لیے آمریت اور جمہوریت کے درمیان تفریق ختم ہو چکی ہے۔ آمریت کے دوران کون لوگ بر سر اقتدار تھے اور کس طبقے کی حکمرانی تھی۔ صرف یادداشت پر ہلکا سا زور دینے سے اس راز کی بھی قلعی کھل جائے گی۔ آمریت اور جمہوریت کے دوران نہ صرف معاشی اور سماجی پالیسیوں میں کوئی تبدیلی آئی بلکہ چہرے تک نہیں بدل سکے۔ وہی لوگ جو آمروں کو خدا کا درجہ دیتے تھے آج جمہوریت کا راگ الاپ رہے ہیں۔ اس لیے ضروری ہے کہ یہاں موجود سماجی- معاشی نظام کا درست تجزیہ کیا جائے اور اس کی انقلابی تبدیلی کی جدوجہد کی جائے۔
لیکن بہت سے نام نہاد ترقی پسند اور خود کو بائیں بازو کا کہلانے والے امریکی سامراج کے غلام اس تعفن زدہ سیاست میں سے بھی خوشگوار پہلو تلاش کر لیتے ہیں جس کے لیے وہ واقعی داد و تحسین کے لائق ہیں۔ ان کے نزدیک جہاں عمران خان اور پیپلز پارٹی اسٹیبلشمنٹ کی گماشتہ پارٹیوں کا کردار ادا کر رہی ہیں وہاں نواز شریف اور اس کے اتحاد ی اسٹیبلشمنٹ کے خلاف کھڑے ہیں۔ یہ دریافت واقعی لطیفہ اور مذاق ہوتی اور ہنسی میں اڑا دی جاتی اگر نواز شریف کے ہاتھ محنت کشوں کے خون سے نہ رنگے ہوتے۔ کرپشن کے مقدمات میں نواز شریف کی پیشیوں کو اس کی مظلومیت کی دلیل بنا کر پیش کیا جا رہا ہے اور اقتدار سے اس کی بے دخلی بھی اسی مظلومیت کے ناٹک کی بنیاد ہے۔ نواز شریف کے مخالفین بھی اس اقدام پر جشن منا رہے ہیں اور سینہ تان کر انتہائی فخر سے تسلیم کرتے ہیں کہ یہ کارنامہ انہوں نے ہی سر انجام دیا ہے۔ گو کہ بچے بھی جانتے ہیں کہ عدالتوں کے پیچھے ملٹری اسٹیبلشمنٹ کی چھڑی ہے۔ لیکن اس کارنامے کوپایۂ تکمیل تک پہنچانے والوں اور نام نہاد’ مظلوموں‘ کی لڑائی کا محنت کشوں سے دور دور تک کا بھی کوئی تعلق نہیں۔ نواز شریف آج بھی اسٹیبلشمنٹ کا نمائندہ اور سامراجی طاقتوں کا کاسہ لیس اسی طرح ہے جیسے پہلے دن تھا۔ ایسا مظلوم بھی پہلی دفعہ ہی دیکھا گیا ہے۔ ایسی عدالتی پیشیوں اور انتقامی کاروائیوں کا نشانہ اگر کسی مزدورکو بنایا جائے تو وہ اپنے مخالفین کا ہمیشہ شکر گزار رہے گا۔ اے سی والی آرام دہ گاڑیوں میں آمد و رفت، چھینک آنے پر بھی بیرون ملک علاج، سیر و تفریح کے لیے پر فضامقامات کا سفر، عالیشان محلوں میں رہائش اور مرغن غذائیں، منرل واٹر، وزیروں اور مشیروں پر مبنی چمچوں کی فوج، ضلعی انتظامیہ اور پولیس سے لے کر تمام سرکاری اہلکاروں پر حکمرانی، دنیا کی بہترین مراعات اور آسائشیں، عیش و عشرت سمیت دولت کی فراوانی۔ یہ ہیں آج کے میڈیا پر پیش کیے جانے والے مظلوم اور اسٹیبلشمنٹ کیخلاف لڑنے والوں کے سپہ سالار۔ اس منافقت کو عوام پر مسلط کرنے والے میڈیا اور دانشوروں کے لیے محنت کشوں کے پاس کوئی جگہ نہیں، ان کی جگہ صرف سماج کا کوڑے دان ہے۔
اس ملک کا محنت کش طبقہ نواز شریف کے مظالم کو کبھی بھی بھلانہیں سکتا۔ سرمایہ داروں پر عائد ٹیکسوں میں بڑے پیمانے پر چھوٹ اور مزدوروں کی حقیقی اجرتوں میں بڑے پیمانے پر کمی سے لے کر مزدور دشمن قوانین کے اطلاق تک نواز شریف نے محنت کش طبقے کو کچلنے میں کبھی کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ اس حالیہ دور اقتدار میں بھی کارپوریٹ ٹیکسوں میں بڑے پیمانے پر کمی کی گئی لیکن بد ترین مہنگائی، روپے کی قدر میں تیز ترین گراوٹ اور افراط زر کے باوجود کم از کم اجرت میں اضافہ نہیں کیا گیا۔ نجکاری کے بد ترین حملے کیے گئے جس میں پی آئی اے کے دو محنت کشوں کو احتجاج کرنے پر کراچی میں قتل کر دیا گیا۔ اس قتل میں پیپلز پارٹی کی صوبائی حکومت اور رینجرز و سکیورٹی اسٹیبلشمنٹ بھی پوری طرح شریک تھی۔ اسی طرح واپڈا سمیت دیگر اہم اداروں کی نجکاری کے عمل کو تیزی سے آگے بڑھایا گیا اور مزدوروں پر بد ترین حملے کیے گئے۔ پنجاب جسے دوسرے صوبوں کے مقابلے میں ترقی کا نمونہ بنا کر پیش کیا جاتا ہے وہاں بھی مزدوروں پر زندگی تنگ کر دی گئی۔ میٹرو بس اور اورنج ٹرین کی تعمیر کے دوران ہونے والی مزدوروں کی ہلاکتیں ہوں یا فیکٹری حادثات میں آگ سے جل کر یا ملبے تلے دبنے والے مزدوروں کی ہلاکتیں ہوں کہیں بھی سرمایہ دار کو سزا دینا تو درکنار کبھی جرمانہ بھی نہیں کیا گیا۔ اسی دور اقتدار میں بہت سی فیکٹریوں میں مزدوروں کو مالکان نے تشدد کر کے ہلاک کر دیا لیکن کسی بھی سکیورٹی ادارے یا حکومت پر جوں تک نہیں رینگی۔ مائیں سڑکوں پر اپنے بچے فروخت کرتی رہیں، طلبہ خود کشی کرتے رہے لیکن میڈیا اور سیاست کا محور نیب کے مقدمات اورچیف جسٹس کی نمائش اور آنیاں جانیاں ہیں۔
درحقیقت تمام سیاسی پارٹیاں گزشتہ پانچ سالوں میں بر سر اقتدار رہیں اور کسی کی بھی بنیادی پالیسی دوسرے سے مختلف نہیں۔ عمران خان پہلے میٹرو بس کی مخالفت کرتا رہا لیکن پھر لوٹ مار کی غرض سے اس کا آغاز کردیا اور پشاور شہر کو برباد کر دیا۔ انتخابات میں پختونخواہ میں ترقی کے نعروں کی گونج میں اساتذہ، پیرا میڈیکس، ینگ ڈاکٹروں اور دیگر محنت کشوں کے ہزاروں احتجاجوں کا گلا گھونٹنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ یہی کچھ سندھ میں پیپلز پارٹی کر رہی ہے جس کے دور اقتدار میں بچے بھوک سے مرتے رہے، پانی کی قلت اور عدم دستیابی کے باعث ہزاروں افراد زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھے، اپنے حقوق کے لیے احتجاج کرنے والوں پر بد ترین تشدد کیا گیا اور قتل کرنے سے بھی دریغ نہیں کیا گیا وہ آج بے شرمی سے اگلے اقتدار کے لیے جاگیرداروں اور خونخوار وڈیروں کے سنگ دوبارہ انتخابی مہم کرنے نکل آئے ہیں۔ ایم کیو ایم اور قوم پرست پارٹیوں کی صورتحال بھی کچھ مختلف نہیں جبکہ ’ڈالر جہاد‘ اور ’دہشت گردی کیخلاف جنگ‘ سے مستفید ہونے والے سامراجی طاقتوں کے آلہ کار ملاں بھی منافقانہ اتحادوں کی کالک منہ پر مل رہے ہیں۔
محنت کش طبقے کے لیے تمام سیاسی پارٹیاں اور ریاستی ادارے محض جبر کے آلہ کار ہیں اور وہ ان تمام سے شدید نفرت کرتے ہیں اور ان کے بنائے ہوئے کسی بھی ضابطے، قانون اور آئین کو تسلیم نہیں کرتے۔ انتخابات اور ڈھونگی جمہوریت کی جانب بھی محنت کش طبقے کا یہی رویہ ہے۔ ان کی اس انتخابی عمل میں کوئی دلچسپی نہیں اور نہ ہی انہیں معمولی سے بھی امید ہے کہ اس عمل کے ذریعے ان کی زندگیوں میں ذرہ برابر بھی تبدیلی آ سکتی ہے۔ ان انتخابات میں دلچسپی صرف ان لوگوں کو ہے جو آنے والے عرصے میں ٹھیکے اور دیگر مفادات کے حصول کے لیے زبانیں لٹکائے گھوم رہے ہیں اور کسی طرح لوٹ مار میں اپنا حصہ بٹورنا چاہتے ہیں۔ ایسے میں جمہوریت کے تسلسل کا کھوکھلا راگ الاپ کر مختلف این جی اوز سامراجی آقاؤں سے بھیک تو مانگ سکتی ہیں لیکن محنت کش طبقے کا اس نظام پر اعتماد نہیں بحال کروایا جا سکتا۔
ایسے میں سب سے اہم سوال ابھرتا ہے کہ پھر اس کا متبادل کیا ہے۔ ایک لمبے عرصے سے اس ملک کے عوام کو بتایا گیا ہے کہ بد عنوان سیاستدانوں کی خون میں لپٹی جمہوریت اور سفاک آمریت ہی ایک دوسرے کے متبادل ہیں اور اس کے علاوہ کائنات میں کچھ بھی نہیں۔ جبکہ حقیقت اس سے کوسوں دور ہے۔
آمریت اور نوٹنکی جمہوریت درحقیقت سرمایہ دارانہ نظام کو چلانے کے ہی دو مختلف طریقے ہیں۔ اور دونوں طرز حکومت میں سرمایہ دار طبقے کے مفادات کا ہی تحفظ کیا جاتا ہے۔ لینن نے ایک صدی پہلے ہی وضاحت کر دی تھی کہ امیر اور غریب پر مبنی طبقاتی سماج میں حقیقی جمہوریت کا قیام ممکن ہی نہیں اور ایسا سوچنا بھی بیوقوفی ہے۔ محنت کش طبقے کے مفادات کا تحفظ کرنے اور اس سماج میں حقیقی جمہوریت کے قیام کے لیے ضروری ہے کہ سب سے پہلے امارت اور غربت کی تقسیم کو ختم کر دیا جائے۔ یہاں یہ تقسیم کسی وزیر خزانہ کی بجٹ تقریر یا آئین میں ترمیم کے ذریعے ختم نہیں ہو سکتی بلکہ اس کے لیے محنت کش طبقے کو ایک انقلاب کے ذریعے تمام ذرائع پیداوار اپنے اجتماعی کنٹرول میں لینا ہوں گے۔ تمام صنعتیں، بینک اور معیشت کے کلیدی حصے سرمایہ داروں کی ملکیت سے چھین کر مزدوروں کے جمہوری کنٹرول میں دینا ہوں گے۔ بینکوں میں موجود تمام دولت، جاگیریں، وسیع و عریض جائیدادیں اور ملٹی نیشنل کمپنیوں کی ملکیت مزدور ریاست کے جمہوری کنٹرول میں دینا ہو گی۔ انہی اقدامات کے ذریعے یہاں پر موجودہ حکمران طبقے کے مظالم کا خاتمہ اور حقیقی جمہوریت کے عمل کا آغاز کیا جا سکتا ہے۔ ایک ایسا سماج جس میں ایک جانب کھربوں پتی افراد موجود ہوں جو کروڑوں محنت کشوں کا خون چوس رہے ہوں وہاں پر عوام کے حقیقی نمائندوں کے انتخاب کا ڈھنڈورا پیٹنا بد ترین منافقت کے سوا کچھ بھی نہیں۔ ایک طبقاتی سماج میں ریاست اور اس کے تمام ادارے بھی بالا دست طبقے کے مفادات کے تحفظ کے لیے بنائے جاتے ہیں اس کے علاوہ ان کا کوئی مقصد نہیں ہوتا۔ آج پاکستان کے سماج کی صورتحال ریاست کے اس عوام دشمن کردار کو واضح کرتی ہے۔ پارلیمنٹ میں بننے والے قوانین کا مقصد محنت کشوں کو ریلیف پہنچانا نہیں بلکہ حکمران طبقے کے مفادات کا تحفظ ہے۔ فاٹا کے انضمام کے عجلت میں کیے گئے فیصلے میں یہ واضح ہو چکا ہے، یہی کچھ گلگت بلتستان کے لیے نئے آرڈیننس میں کیا گیا ہے۔ جب پشتون تحفظ تحریک کے جلسوں اور عوامی غم و غصے کا اظہار ہونا شروع ہوا تو ریاستی اداروں نے خوفزدہ ہو کر اپنی ریاست کو محفوظ بنانے کے لیے فوری طور پر فاٹا کے انضمام کا بل پاس کروا دیا۔ اس سے پہلے کئی کمیٹیاں بن چکی تھیں اور بحثوں کا ایک نہ ختم ہونے والاسلسلہ جاری تھا جو آئندہ سینکڑوں سال ایسے ہی جاری رہتا اگر فاٹا میں عوامی تحریک جنم نہ لیتی۔
اسی طرح عدالتوں کا مقصد بھی نجی ملکیت اور سرمایہ داروں کے مفادات کا تحفظ ہے۔ درحقیقت قانون کی اپنی الگ سے کوئی بھی تاریخ نہیں بلکہ یہ نجی ملکیت کے ارتقا کی تاریخ ہے جو مختلف قوانین کی شکل میں دیکھی جا سکتی ہے۔ آج بھی تمام قوانین، عدالتوں اور آئین کی بنیاد نجی ملکیت کا تحفظ ہے۔ پولیس، فوج اور دیگر تمام سکیورٹی اداروں کا مقصد بھی اسی بنیاد کا تحفظ ہے جو آج کے سماج میں کسی بھی مذہبی ہستی سے زیادہ تقدس کا درجہ رکھتی ہے۔ پاکستان میں تو موجود تمام قوانین بھی برطانوی سامراج کے بنائے ہوئے ہیں جو یہاں پر غلاموں کو کنٹرول کرنے کے لیے بنائے گئے تھے۔ گزشتہ سات دہائیوں میں یہاں کا حکمران طبقہ ان سامراجی قوانین کو تبدیل نہیں کر سکا اس سے کیا امید رکھی جا سکتی ہے۔ اس کے علاوہ آئین کے تقدس کا بہت درس دیا جاتا ہے او ر انتہائی مدبرانہ لہجے میں، گہری آواز کے ساتھ اکثر تلقین کی جاتی ہے کہ آئین کی بالادستی پر کوئی کمپرومائز نہیں کیا جائے گا جبکہ کئی آمر یہاں آئین کی دھجیاں بکھیر چکے ہیں اور ایک تو آج بھی لاڈلا بن کر پر تعیش زندگی گزار رہا ہے۔ اس کی ناچ گانے کی ویڈیوز اکثر گردش کرتی رہتی ہیں جو یہاں پر آئین کی پاسداری کا مشورہ دینے والوں اور کالے کوٹ کا علم بلند کرنے والوں کے منہ پر طمانچہ ہیں۔
بیوروکریسی، پولیس اور دیگر تمام سرکاری ادارے بھی حکمران طبقے کے مفادات کے تحفظ کے لیے ہی موجود ہیں اور محنت کش طبقہ ان کے لیے غلام کی حیثیت رکھتا ہے۔ اس کا عملی نمونہ کسی بھی سرکاری دفتر میں بآسانی ملاحظہ کیا جا سکتا ہے۔ تھانوں سے لے کر سرکاری ہسپتالوں تک یہ طبقاتی تفریق پوری آب و تاب کے ساتھ نظر آتی ہے۔ قاتل اور ڈکیت بڑی گاڑی اور ہری نمبر پلیٹ کے ساتھ آئیں تو سخت سے سخت پولیس افسر بھی انتہائی خوش اخلاقی سے پیش آتا ہے جبکہ انتہائی دیانتدار غریب شخص کا پالا بھی کسی سرکاری ملازم سے پڑ جائے تو اس کی بد ترین تذلیل اور بے حرمتی کی جاتی ہے۔ عبادت گاہوں سے لے کر تعلیمی اداروں تک یہ طبقاتی تفریق واضح طور پر اس سماج کی ہر سطح پر دیکھی جا سکتی ہے۔ اس سماج کی ثقافت، ادب، موسیقی، روایات اوررسوم و رواج سمیت ہر جگہ پر یہ طبقاتی غلاظت موجود ہے۔ محنت کشوں کی تضحیک، کام چوری و سستی کے طعنے اور گھٹیا و کم تر قرار دینے سے لے کر صبح شام ان کی تذلیل اس سماج کا معمول ہے۔ ایسے میں اس طبقاتی تفریق کو چیلنج کیے بغیر تبدیلی کی بات کرنا اور جمہوریت کا ڈھول پیٹنا درحقیقت حکمران طبقے کی گماشتگی کا ہی ایک بہروپ ہے، اس کے سوا کچھ بھی نہیں۔ خود کو عالم قراردینے والے ملاؤں سے لے کر جرنیلوں کے کاسہ لیس سیاستدانوں تک اور بکاؤ صحافیوں سے لے کر ججوں اور بیوکریٹوں تک سب اس طبقاتی نظام کو برقرار رکھنا چاہتے ہیں تاکہ ان کی پر تعیش زندگیاں نسل در نسل جاری رہیں۔ اس عمل میں وہ محنت کش طبقے کے غداروں کو بھی استعمال کرتے رہے ہیں اور یہ سلسلہ آج بھی جاری ہے۔ لیکن اس تمام تر نظام کو جاری رکھنا اب مشکل ہوتا جا رہا ہے۔
اس وقت کسی بھی سیاسی پارٹی کی عوامی حمایت موجود نہیں اور محنت کش اس تمام خونی ناٹک کو رد کر چکے ہیں۔ لیکن ابھی تک اس کی جگہ کوئی متبادل سیاسی پلیٹ فارم اور ادارے وجود میں نہیں آئے۔ مختلف علاقوں میں عوامی تحریکوں کے سلسلے کا آغاز ہو چکا ہے اور وہ گلگت بلتستان سے لے کر فاٹا تک پرانی قیادتوں کو رد کرتے ہوئے نئی نوجوان قیادتوں کو ابھرنے کا موقع دے رہی ہیں۔ لیکن انہیں بھی اسی نظام کے اداروں کا حصہ بنا کر زائل کرنے کی کوششیں کی جا رہی ہیں۔ اس وقت پارلیمنٹ سمیت تمام ریاستی اداروں کے ذریعے عوام کی بہتری کے لیے معمولی سا اقدام بھی نہیں کیا جا سکتا۔ عوام کو حقوق دلانے کے لیے پارلیمنٹ اور عدالتوں سمیت پرانے اداروں کو اکھاڑ کر تمام نئے ادارے قائم کرنے کی ضرورت ہے لیکن وہ ایک نئے نظام کے تحت ہی قائم کیے جا سکتے ہیں۔
ایسا نظام جس میں امیر اور غریب کی طبقاتی تفریق ختم کرتے ہوئے تمام تر اقتدار محنت کش طبقے کو منتقل کر دیا جائے۔ وہی محنت کش طبقہ اس سماج میں حقیقی جمہوریت پر مبنی نئے ادارے قائم کرے گا جس میں تمام افراد نہ صرف کھل کر اپنی رائے کا اظہار کر سکیں گے بلکہ لینن کے الفاظ میں ’’باورچی وزیر اعظم بن سکے گا اور وزیر اعظم باورچی‘‘۔ کسی ریاستی اہلکار کی تنخواہ عام ہنر مند مزدور سے زیادہ نہیں ہو گی۔ سامراجی قرضوں اور سود کی مد میں دی جانے والی رقم عوام کے علاج، تعلیم اور دیگر بنیادی سہولیات پر خرچ کیے جائیں گے۔ بجلی، پانی، گیس، ٹرانسپورٹ اور دیگر بنیادی سہولیات عوام کو مفت فراہم کی جائیں گی۔ علاج اور تعلیم کی خرید و فروخت ایک جرم قرار دیا جائے گا اور ہر قسم کا علاج اور دوائی ہر شخص کو مفت میسر ہو گی۔ اسلحے کی خریداری اور اس کے کمیشنوں میں ہونے والے گھپلوں کا مکمل خاتمہ ہو گا اور ریاست کے جبر کا مکمل خاتمہ ہو گا۔ فوج کا کام امرا کے لیے ہاؤسنگ سوسائٹی بنانے کی بجائے مزدور ریاست پرسامراجی حملوں کا جواب ہو گا۔ ہر شخص کو روٹی، کپڑا اور مکان فراہم کرنا مزدور ریاست کی ذمہ داری ہو گا اور کوئی بھی شخص بھوکا اور بغیر چھت کے نہیں سوئے گا۔ خواتین پر دوہرے جبر کا خاتمہ ہو گا اوررجعتی قوانین اور رسوم و رواج سے نجات ملے گی۔ مزدور ریاست میں قومی جبر اور استحصال کا بھی خاتمہ ہو گا اور تمام مظلوم قومیتوں کو حق خود ارادیت حاصل ہو گا بیروزگاری کا مکمل خاتمہ ہو گا اور تعلیم ہر سطح پر مفت فراہم کی جائے گی۔
اس منزل کے حصول کے لیے سماج کی از سر نو ترتیب ضروری ہے جو ایک انقلاب کے بغیر ممکن نہیں۔ آج ملک بھر میں ابھرنے والی چھوٹی بڑی تحریکیں اسی منزل کی جانب گامزن نظرآتی ہیں۔ آنے والے عرصے میں حکمران طبقے کی آپسی لڑائی اور دھڑے بندی انہیں محنت کشوں کے سامنے مزید عیاں کریں گی اور ان کا حقیقی کردار مزید بے نقاب ہو گا۔ ایسے میں ایک متبادل سیاست اور سماجی-معاشی نظام کی جدوجہد میں مزید شدت آئے گی اور عوامی تحریکوں کا حجم بڑھتا چلا جائے گا۔ ان تحریکوں کو کچلنے کے لیے ریاستی حملے اور سامراجی سازشیں بھی شدت اختیارکریں گی لیکن عوام کی زیادہ سے زیادہ شرکت اور عزم و حوصلہ ان سب حملوں کو ناکام بنا دے گا۔ اس صورتحال میں مارکسی نظریات سے لیس ایک انقلابی پارٹی موجود ہوئی تو سرمائے کی حاکمیت کے نظام کو شکست دی جا سکتی ہے اور ایک سوشلسٹ انقلاب برپا کر کے صدیوں کی غلامی سے مستقل نجات حاصل کی جا سکتی ہے۔