|تحریر: پارس جان|
دنیا کے مختلف خطے اور ممالک یکے بعد دیگرے عوامی تحریکوں اور بغاوتوں کی لپیٹ میں ہیں۔ ایکواڈور سے لے کر کیٹالونیا تک، چلی سے لے کر یونان تک اور الجزائر سے لے کر لبنان تک، جہاں جہاں عوامی لاوا پھٹا ہے، ان ممالک کے حکمران طبقات اور سرمایہ دارانہ ریاستیں تو خوفزدہ اور ششدر ہیں ہی، مگر سرمایہ دارانہ معاشی بحران سے متاثر دیگر ممالک کے حکمرانوں کے ایوان بھی لرز رہے ہیں اور بجا طور پر ان کی نیندیں اڑی ہوئی ہیں۔ وہ بخوبی آگاہ ہیں کہ ان عوامی سرکشیوں کی وجوہات اور محرکات وہی معاشی اقدامات اور پالیسیاں ہیں، جو یا تو پہلے ہی ان ممالک میں جاری ہیں یا آئندہ عرصے میں ان پر جارحانہ طریقے سے عملدرآمد کی حکمت عملی تیار کر لی گئی ہے۔ یہ ایک طرح کا ’مسلسل تعامل ‘ (Chain Reaction) کا سیاسی مظہر ہے کہ ہر ایک عوامی تحریک سے خارج اور برآمد ہونے والی شکتی اور توانائی پہلے ہی سے نقطہ ابال کو پہنچے ہوئے معاشروں میں عوامی لاوے کو پھاڑ رہی ہے۔ اور پہلی، دوسری اور تیسری دنیا کی تفریق کے بغیر زیادہ تر ممالک کا سیاسی درجہ حرارت نقطہ ابال کے قریب قریب پہنچا ہوا ہے۔
سرمایہ داری کی جنم بھومی یعنی برطانوی ریاست گزشتہ تین سو سال کے سب سے بڑے بحران کی دلدل میں گردن تک دھنس چکی ہے اور آئندہ ماہ 12 دسمبر کو منعقد ہونے والے عام انتخابات ایک انقلابی پیش رفت کی طرف اہم سنگ میل ثابت ہو سکتے ہیں۔ آئرلینڈ اور سکاٹ لینڈ میں قومی محرومی اور نفرت سلطنت کے لیے خطرے کی گھنٹیاں بجا رہی ہے۔ امریکہ بہادر، چین اور یورپ کے ساتھ تجارتی جنگ سے لے کر ایران اور شمالی کوریا کے ساتھ سفارتی محاذ آرائیوں تک ہر جگہ ذلت و رسوائی کا سامنا کرنے پر مجبور ہے۔ اور امریکی سامراج کی اپنی کوکھ ایک عوامی تحریک سے حاملہ ہو چکی ہے۔ فرانس کی تحریک کی راکھ میں کچھ چنگاریاں ابھی بھی سلگ رہی ہیں جو کسی بھی وقت دوبارہ بھڑک کر سارے نظام کو راکھ کے ڈھیر میں تبدیل کر سکتی ہے۔ اسی طرح امریکی سامراج کے سامنے مزاحمت کی ڈھال کب تک ایرانی ملا اشرافیہ کو 2009ء کی طرز کے عوامی غیض و غضب سے محفوظ رکھ سکے گی۔ ایران پہلے ہی ایشیا کا مہنگا ترین ملک بن چکا ہے، عوامی برداشت اپنی انتہاؤں کو پہنچ رہی ہے۔ تمام تر ترقی کے دعووں کے باوجود بھارت میں غربت اور مہنگائی بڑھ رہی ہے اور صرف گزشتہ چھ ماہ میں نوے لاکھ سے زیادہ روزگار ختم ہونے کی اطلاعات ہیں۔ ٹریڈ یونین قیادتیں نیچے سے مسلسل بڑھتے ہوئے دباؤ کے نتیجے میں ایک مرتبہ پھر آئندہ برس کے آغاز میں عام ہڑتال کا اعلان کر چکی ہیں۔ بھارتی محنت کش ایک نئی اور انقلابی قیادت کی جستجو میں سسک اور بلک رہے ہیں۔ پاکستان بھی اسی کرۂ ارض پر واقع ہے۔ مختلف رفتار، ہیئت اور انداز سے اسی قسم کا سیاسی بحران پاکستان کی ریاست کو بھی اپنی لپیٹ میں لے چکا ہے۔ حکمران طبقے کے پاس آپشن مسلسل معدوم ہوتے جا رہے ہیں اور محنت کش طبقہ لمبی نیند سے بیدار ہو کر بڑی، طویل اور صبر آزما لڑائی کے لیے اپنے آپ کو تیار کر رہا ہے۔ کوئی بھی واقعہ اس لڑائی کا نقطۂ آغاز ثابت ہو سکتا ہے۔
پاکستان کو ایران کے بعد ایشیا کا دوسرا مہنگا ترین ملک قرار دے دیا گیا ہے۔ اگرچہ، ایران میں افراطِ زر پچاس فیصد سے بھی زائد ہے، اور پاکستان میں یہ 12 فیصد کے آس پاس بتایا جاتا ہے، مگر بہت سے اعشاریے اور تجزیے نشاندہی کر رہے ہیں کہ یہ درمیانی خلیج بہت تیزی سے کم ہو سکتی ہے اور پاکستان ایران کی طرز کے معاشی بحران کا شکار ہو سکتا ہے۔ یاد رہے کہ افراطِ زر کی یہ شرح عین اس وقت ہے جب جی ڈی پی کی گروتھ مکمل طور پر تعطل کا شکار ہے۔ جعلی سرکاری اعداد و شمار کے مطابق اگرچہ گروتھ ریٹ ابھی بھی اڑھائی فیصد سے زیادہ ہی بتایا جاتا ہے مگر مینوفیکچرنگ کے شعبے کا گروتھ ریٹ منفی میں ہے۔ ہنڈا، سوزوکی اور انڈس موٹرز جیسے بڑے گروپ اپنی پیداوار مسلسل کم کر رہے ہیں جس کے باعث صرف آٹو انڈسٹری سے پہلے ہی ہزاروں کی تعداد میں لوگ بیروزگار ہو چکے ہیں۔ پیداوار کے شعبے کا سب سے بڑا سیکٹر یعنی ٹیکسٹائل تاریخ کے بدترین خسارے کا شکار ہے اور فیصل آباد اور کراچی سے اس شعبے سے لاکھوں محنت کش بے دخل کیے جا چکے ہیں۔ ان لاکھوں محنت کشوں کے لیے کوئی دوسرا شعبہ بھی موجود نہیں جہاں جا کر یہ اپنی قوتِ محنت فروخت کر سکیں۔ اور تو اور بینکنگ کے شعبے میں بھی مزید بیرونی سرمایہ کاری آنے کی بجائے سرمایہ کاری کا انخلا شروع ہو چکا ہے۔ یاد رہے کہ یہ گزشتہ دو دہائیوں میں رئیل اسٹیٹ کے بعد سب سے زیادہ نمو پانے والا شعبہ رہا ہے۔ رئیل اسٹیٹ اور تعمیرات کے شعبے میں بھی مزید گروتھ کی گنجائش کم سے کم ہوتی جا رہی ہے۔ ایسی صورتحال میں افراطِ زر کا حالیہ ابھار معیشت کے لیے بالکل ویسے ہی مہلک ہے جس طرح کسی مریض کا مدافعتی نظام خراب ہو جائے اور اس کے جسم کے خلاف ہی متحرک ہو جائے۔
آئی ایم ایف سے 6 ارب ڈالر کے قرضے کی منظوری کے بعد پہلی قسط کے اجرا سے وقتی طور پر زرمبادلہ کے ذخائر میں ہونے والا مصنوعی استحکام بھی سرمایہ کاروں اور تاجروں کا اعتماد بحال نہیں کر سکا۔ اور تاجر الٹا آئی ایم ایف کی طرف سے عائد کردہ شرائط کے نتیجے میں مختلف اقسام کے ٹیکسوں کے عائد ہونے کے باعث حکومت کے خلاف سراپا احتجاج ہیں اور جی ایچ کیو سے لے کر حکومتی ایوانوں تک سجدے کرتے پھر رہے ہیں۔ یہ طفیلیے درحقیقت چاہتے ہیں کہ ان پر عائد کردہ ٹیکسوں کا بوجھ بھی عوام پر ہی منتقل کر دیا جائے، جو پہلے ہی بے پناہ ٹیکسوں کے بوجھ کے نیچے حشرات کی طرح پس رہی ہے۔ ریاست کے طبقاتی کردار کو مدنظر رکھتے ہوئے قومی امکان یہی ہے کہ ان کی کسی حد تک داد رسی کی جائے گی اور عوام کو ہی قربانی کا بکرا بننا پڑے گا۔ اتنے بھاری ٹیکس لگانے کے باوجود کہا یہ جا رہا ہے کہ حکومت ریونیو کلیکشن کے اہداف حاصل کرنے میں بری طرح ناکام رہی ہے۔ نجکاری کے علاوہ ان اہداف کے حصول کا اور کوئی راستہ باقی نہیں بچا۔ ایک حکومتی وزیر پہلے ہی فرما چکے ہیں کہ حکومت 400 سے زائد ادارے ختم کرنے یعنی فروخت کرنے کا ارادہ رکھتی ہے۔ موصوف نے برملا اعلان کیا کہ روزگار کے حصول کے لیے حکومت کی طرف دیکھنا بہت بڑی حماقت ہو گی۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ حکومت روزگار کے مواقع پیدا کرنے سے مکمل طور پر انکاری ہے جبکہ نجی شعبے میں بھی پیداواری سرگرمی بڑھنے کی بجائے مسلسل کم ہو رہی ہے جیسا کہ پہلے ہی خدمات اور پیداوار کے شعبہ جات کی مثالیں دی جا چکی ہیں۔ اور زراعت کی حالت ان سے بھی زیادہ پتلی ہے اور دیہی آبادی اپنی سانسوں کا رشتہ برقرار رکھنے کی لڑائی لڑ رہی ہے، تو پھر ایسے میں روزگار کب، کیسے اور کہاں پیدا ہو گا؟
کچھ حکومتی معذرت خواہان کہتے ہیں کہ Self-Employment تمام مسائل کا حل ہے، اور اس کے حق میں مرغیاں اور کٹے پالنے تک کی احمقانہ تجاویز بھی پیش کی جاتی ہیں۔ حکومت عوامی غم و غصے کو کنٹرول میں رکھنے کے لیے مختلف قسم کے قرضوں کی سکیموں کا بھی کئی بار فرضی اجرا کر چکی ہے۔ اور اب سرکاری لنگرخانوں کے قیام کو ایک بہت بڑی کامیابی اور ویلفیئر ریاست کی تشکیل میں اہم سنگ میل بنا کر پیش کیا جا رہا ہے۔ دوسری طرف اشیائے خوردو نوش کی قیمتیں آسمان سے باتیں کر رہی ہیں۔ حال ہی میں ٹماٹر کے 340 روپے کلو اور پیاز کے 120 روپے کلو فروخت ہونے کی خبریں گردش کرتی رہی ہیں۔ پرائس کنٹرول کے اداروں کی جتنی بھی باز پرس کر لی جائے جب تک ایکسپورٹرز اور امپورٹرز مافیا اور ذخیرہ اندوزوں کی ریاستی اور حکومتی سرپرستی موجود ہے، قیمتوں کو اعتدال میں رکھنا ممکن ہی نہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ ریاست کا سارا معاشی و انتظامی ڈھانچہ منہدم ہو چکا ہے اور اسے محض لفاظی اور خود فریبی کے بلبوتے پر قائم رکھنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ ریاست کی انتظامی کارکردگی کا بہترین مظاہرہ ہم حال ہی میں ملک کے سب سے بڑے صنعتی و تجارتی مرکز کراچی میں ہونے والی بارشوں میں پانی کے نکاس اور کچرا اٹھانے کے معاملے میں دیکھ چکے ہیں۔
جہاں ایک طرف یہ سنگین معاشی حملے محنت کش عوام کو بغاوت پر اکسا سکتے ہیں وہیں حکمران طبقات کی سماج سے مکمل بیگانگی اور بے شرمانہ ہٹ دھرمی بھی اس پراسیس میں عمل انگیز کا کردار ادا کر رہی ہے۔ جیسا کہ ابھی آئی ایم ایف کے کاسہ لیس وزیرخزانہ کا ٹماٹر کی قیمتوں کے بارے میں حیران کن ویڈیو بیان سوشل میڈیا پر گردش کر رہا ہے، جس میں موصوف ڈنکے کی چوٹ پر اعلان فرما رہے ہیں کہ سبزی منڈی میں تو ٹماٹر 17 روپے کلو فروخت ہو رہے ہیں۔ اسی طرح، اس سے قبل گزشتہ دنوں ایک مسافر ٹرین میں رحیم یار خان کے قریب آگ لگ جانے کے دلسوز سانحے کے بعد اسٹیبلشمنٹ کے چہیتے ترین وزیر شیخ رشید نے جل کر مر جانے والے مسافروں کو ہی اس حادثے کا ذمہ دار قرار دے دیا تھا۔ یہ سب کچھ تاریخ میں پہلی دفعہ نہیں ہو رہا ہے۔ ہر انقلاب سے قبل حکمران طبقات ہمیشہ سماج سے اسی طرح لاتعلق، بیگانہ اور اس حد تک مختلف دکھائی دینا شروع ہو جاتے ہیں کہ وہ کسی اور سیارے کی مخلوق معلوم ہونے لگتے ہیں۔ ان کی سفاکی اور بے رحمی ان کے تاریخی کردار اور نظام کی قلعی کھول کر رکھ دیتی ہے اور عوام کے سامنے جمہوریت کے پرفریب جھانسے میں ملبوس نظام مکمل طور پر عریاں ہو جاتا ہے۔ پاکستان میں محنت کش طبقے کے شعور میں انقلابی جست کے لیے حکمران طبقات کے نمائندے خود راہ ہموار کر رہے ہیں۔ جو زیادہ چالاک اور ہوشیار ہیں وہ ایک مرتبہ پھر کسی بھی حقیقی تحریک کے امکان کو مصنوعی اور جعلی تحریکوں کے ذریعے زائل کرنے کی کوشش میں لگے ہوئے ہیں۔ اس سلسلے میں اپوزیشن کے مردہ گھوڑے میں جان ڈالنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ آئی ایم ایف کے پروگرام پر عملدرآمد کروانے کے لیے حکومت اور ریاست کے لیے ملک میں بد امنی، انتشار اور افراتفری کا ماحول پیدا کرنا بہت ضروری ہے تاکہ اس کی آڑ میں ایمرجنسی نافذ کرتے ہوئے احتجاج کرنے کے جمہوری حق کو ہی غصب کر لیا جائے۔ پہلے ہی شعبۂ صحت کے محنت کشوں نے نجکاری کے حملے کا بھرپور جواب دیا ہے اور فی الحال تو عدالتی مداخلت اور تحریک کی قیادت کی سیاسی عدم بلوغت کے ذریعے تحریک کو وقتی طور پر قابو کر لیا گیا ہے، مگر حکمران خوفزدہ ہیں کہ اسی طرح کی مزاحمت اگر باقی شعبہ جات کے محنت کشوں کی طرف سے بھی دیکھنے کو ملتی ہے تو حکومت کے لیے آئی ایم ایف کے پروگرام پر عملدرآمد ناممکن ہو جائے گا۔ ایکواڈور کی حکومت کی پسپائی کے بعد پاکستان میں بھی آئی ایم ایف کے پروگرام پر عملدرآمد خطرے میں پڑتا ہوا محسوس ہو رہاہے۔
ایسے میں جعلی دھرنوں، تحریکوں اور ریاست کی داخلی نوراکشتیوں اور رسہ کشیوں کی آڑ میں عوام پر یہ تمام وحشیانہ حملے کرنے کی منصوبہ بندی کی گئی ہے۔ اس کا ہر گز یہ مطلب نہیں ہے کہ ریاست کے مختلف دھڑوں کی یہ لڑائی، جس کا مظاہرہ مولانا فضل الرحمن کے حالیہ آزادی مارچ اور اسلام آباد میں جاری دھرنے کی شکل میں ہوا ہے، مکمل طور پر جعلی ہے؛ بلکہ اس کے برعکس ریاست کے داخلی تضادات اب اس نہج پر پہنچ رہے ہیں جہاں یہ عدم توازن پورے نظام کے وجود اور جواز کو ہی داؤ پر لگانے کی طرف بڑھ رہا ہے۔ فوج، عدلیہ اور خفیہ اداروں سمیت ریاست کے تمام ستون داخلی اتھل پتھل کے باعث اپنی بنیادوں سے لرز رہے ہیں۔ کشمیر کے مسئلے پر ہونے والی پسپائی نے جس خجالت اور ہیجان کو جنم دیا ہے، اس نے ریاست کی داخلی کھینچا تانی کی رفتار اور شدت کو کئی گنا بڑھاوا دے دیا ہے۔ امریکی سامراج کی پرانی تنخواہ پر ہی یا اس سے بھی کم پر غلامی، انڈیا کی اطاعت پر مبنی خطے میں امریکی سامراج کی طرف سے متعین کردہ نئے کردار اور ملاؤں کی شکل میں ریاستی اثاثوں سے دستبرداری، یہ وہ تمام سوالات اور مسائل ہیں جن کے گرد جرائم کی معیشت میں دھنسی ریاستی مشینری اور بدعنوان حکمران طبقات کے مابین اتفاق رائے کا حصول مشکل ہی نہیں ناممکن ہو چکا ہے۔ اپنے طبقاتی مفادات کے لیے متحد ہو جانے کی ضرورت کا احساس سب کو ہے مگر اس اتحاد کا ایجنڈا کسی کے پاس بھی نہیں۔
ظاہری اتحاد کے باوجود اپوزیشن اندرون خانہ حکومت سے بھی زیادہ داخلی تناؤ کا شکار ہے۔ سویلین سپرمیسی کی آڑ میں ہر کوئی ریاستی آقاؤں سے زیادہ سے زیادہ مراعات کی بھیک مانگ رہا ہے۔ حکمران طبقے کے سنجیدہ حلقے واقعی خواہش ضرور رکھتے ہیں کہ معیشت میں سے فوجی اشرافیہ کا کردار کم کیا جائے تاکہ بطورحکمران طبقہ ان کا جواز اور رٹ قائم ہو سکے، مگر اس کے لیے وہ کبھی بھی تحریک کا راستہ اختیار نہیں کرتے بلکہ چور راستوں پر ہی اکتفا کرتے ہیں، ان کے نامیاتی خمیر میں خصی پن اور بدعنوانی اس طرح گڈمڈ ہے کہ یہ کسی بھی مزاحمتی تحریک کے متحمل ہی نہیں ہو سکتے۔ یہی وجہ تھی کہ پیپلزپارٹی، نون لیگ، اے این پی، پشتونخواہ ملی عوامی پارٹی اور نیشنل پارٹی سمیت تمام نام نہاد لبرل اور سیکولر پارٹیاں مولانا فضل الرحمن کے کاندھے پر رکھ کر جمہوریت کی بندوق چلانے کی کوشش کر رہی ہیں۔ یہ تمام پارٹیاں چونکہ اپنی سماجی حمایت مکمل طور پر کھو چکی ہیں، اس لیے ان سے اس سے زیادہ کی توقع رکھنا بھی فضول ہو گا۔ مولانا فضل الرحمان بھی عوام کو متحرک اورمتاثر کرنے میں بری طرح ناکام ہی ہوا ہے اور اس نے اپنی روایتی حمایت یعنی مدارس کے مفت خوروں کو ہی بنیاد بنایا ہے۔ مولانا کی تمام تر فوجی اشرافیہ مخالف نعرے بازی کے باوجود اسے ناراض جرنیلوں کی مکمل آشیرباد حاصل تھی یہی وجہ ہے کہ اب مطلوبہ اہداف کے فوری حصول کے امکانات جوں جوں ماند پڑ رہے ہیں، مولانا کی فوج پرستانہ روح واپس آ رہی ہے اور اب دھرنے میں مختلف حیلے بہانوں سے پاک فوج زندہ باد کے نعرے لگوا کر اپنی وفاداری ایک دفعہ پھر ثابت کی جا رہی ہے۔ اصل میں، مولانا کے اس احتجاج کا ایک اہم ترین محرک FATF جیسے اداروں کی طرف سے ملاؤں کی حمایت کی پالیسی ترک کرنے کے لیے پاکستانی ریاست پر مسلسل بڑھتا ہوا دباؤبھی ہے۔ مولانا اور اس کے ریاستی پروردگار امریکیوں کو یہ باور کروا کر کہ ابھی اس قسم کے اقدامات کے لیے حالات موافق نہیں ہیں، اپنی بقا کی لڑائی بھی لڑ رہے ہیں۔ مولانا سمیع الحق کا عبرتناک انجام بھی مولانا فضل الرحمن کے لیے تنبیہ ثابت ہوا اور وہ چوکنا ہو گیا کہ یہ ریاست اپنے سامراجی آقاؤں کی خوشنودی کے لیے ماضی کی خدمات کو فراموش کر کے کسی کی بھی بھینٹ یا بلی چڑھا سکتی ہے۔ جہاں تک عمران خان کے استعفے کا تعلق ہے تو شاید ریاست کے پالیسی سازوں کے لیے کسی بھی مناسب متبادل کی عدم موجودگی موجودہ کمزور ترین حکومت کو بھی مزید مصنوعی سانسیں فراہم کر سکتی ہے۔ مذکورہ استعفے کی صورت میں بغیر الیکشن کے انعقاد کے شاہ محمود قریشی کو متبادل کے طور پر زیربحث لایا گیا تو اس پر بھی اتفاق رائے ممکن نہیں ہو سکا۔ ریاستی و معاشی بحران کی حالیہ کیفیت میں فوری انتخابات کا انعقاد بھی ایک بہت بڑا ٹاسک ہے اور مارشل لا ء یا اس قسم کی کوئی بھی مہم جوئی بھی تابوت میں آخری کیل ثابت ہو سکتی ہے، اس لیے سٹیٹس کو کی موجودہ شکل، جس میں افراتفری اور انتشار ہی معمول بن چکا ہے، سب سے زیادہ مؤثر اور موزوں ہے۔ مولانا فضل الرحمن بھی اب پلان بی اور سی کی بات کر رہا ہے۔ تیزی سے گرتی ہوئی مقبولیت کے باوجود عمران خان کا کوئی فوری متبادل موجود نہیں۔ دوسری طرف خطے میں سامراجی آقاؤں کی خوشنودی اور ریاستی ایجنڈے کی تکمیل کے لیے کرتارپور راہداری جیسے اہم منصوبے بھی پایہ تکمیل کو پہنچائے جا رہے ہیں۔ لیکن اگر عوام کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو گیا تو حکمرانوں کے یہ تمام منصوبے دھرے کے دھرے رہ جائیں گے۔
اسے ستم ظریفی کہا جائے یا مکافات عمل کہ پاکستان کا زیادہ تر نام نہاد بایاں بازو اس ملکی صورتحال میں انقلابی امکانات کو دیکھنے اور سمجھنے سے مکمل طور پر قاصر ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ شعبۂ صحت کے محنت کشوں کی شاندار تحریک کو نظر انداز کر کے نام نہاد آزادی مارچ سے اپنی ”جمہوری ٹھرک“ پوری کرتا رہا۔ حتیٰ کہ مولانا کے مارچ میں کہیں کہیں درانتی ہتھوڑے والے جھنڈے بھی دیکھے گئے۔ یہ جہالت کی انتہا اور بدترین موقع پرستی ہے۔ یہ سب اس گھسی پٹی سیاسی منطق کے تحت کیا گیا کہ موجودہ حکومت اور ریاستی پالیسی فسطائیت کی حامل ہے، لہٰذا سول سپرمیسی اور جمہوریت کے دفاع میں اگر مولانا فضل الرحمن کی بھی حمایت کرنی پڑے تو اس میں کوئی مضائقہ نہیں۔ عملیت پسندی نے ہمیشہ ایسے ہی سیاسی جرائم کے ارتکاب کی راہ ہموار کی ہے۔ ایران میں بھی بائیں بازو نے جمہوریت کی خاطر خمینی کی شکل میں بدترین فسطائیت کی راہ ہموار کی تھی۔ اگرچہ، پاکستان کی موجودہ صورتحال میں مولانا فضل الرحمن کے اس طرح اقتدار تک پہنچ جانے کے امکانات نہ ہونے کے برابر ہیں مگر نام نہاد بائیں بازو کا کھوکھلا پن بری طرح عیاں ہوگیا ہے کہ انہوں نے تاریخ سے کچھ بھی نہیں سیکھا۔
حقیقت یہ ہے کہ نہ صرف محنت کش طبقے بلکہ درمیانے طبقے کی بے چینی اور عدم برداشت مسلسل بڑھ رہی ہے۔ فیسوں میں ہونے والے ہوشربا اضافے طلبہ کو مزاحمت پر آمادہ کر رہے ہیں۔ طلبہ یونین کی بحالی کا مطالبہ ایک دفعہ پھر پوری شدت سے سامنے آ رہا ہے، نجکاری مخالف جذبات بھی بڑھ رہے ہیں۔ مڈل کلاس کی وہ پرتیں جو نجکاری کی کھل کر حمایت کرتی تھیں، اب ان کا بھوت بھی اتر رہا ہے اور وہ اسے عوام دشمن اقدام قرار دے رہے ہیں۔ قیادت کے خلا کے باوجود ایک تازہ دم عوامی انقلابی بغاوت کے لیے حالات پک کر تیار ہو رہے ہیں۔ یہ بجا طور پر ایک انقلاب سے پہلے والی صورتحال ہے، بلاول یا فاطمہ بھٹو اور مریم نواز یا حمزہ شہباز سمیت کوئی بھی سیاسی مداری اس پوزیشن میں نہیں کہ وہ کسی بھی ممکنہ عوامی ابھار کی شکل میں اسے زائل کرنے کا فریضہ سرانجام دے سکے، حال ہی میں دنیا بھر میں چلنے والی تحریکوں کی مشترکہ قدر یہی رہی ہے کہ نوجوانوں نے ازخود ان تحریکوں کو منظم کیا۔ پاکستان میں بھی اسی قسم کی عوامی مزاحمت یا بغاوت سطح پر اپنا اظہار کر سکتی ہے، ایک مارکسی انقلابی پارٹی اس انقلابی عمل کی منطقی کامیابی اور انجام کی بنیادی اور لازمی شرط ہے، جس کی تعمیر کے لئے جدوجہد کرنا ہی آج مارکس وادیوں کا تاریخی فریضہ ہے۔