|تحریر: آدم پال|
فراڈ انتخابات کے بعد کٹھ پتلی حکومت بر سر اقتدار آ چکی ہے اور عوام دشمن پالیسیوں کا نفاذ پوری ڈھٹائی سے جاری ہے۔ تبدیلی کا جھوٹا نعرہ لگا کر وزیر اعظم بننے والے عمران خان کے ارادے پہلے ہی واضح تھے جب اس نے ملک کے کرپٹ ترین سیاستدانوں، ظالم ترین جاگیر داروں اور منافع خور سرمایہ داروں کی بیساکھیوں کے سہارے اقتدار تک رسائی کی کوششیں کی تھیں۔ اس دوران عمران خان پر ریاستی اداروں کی مکمل پشت پناہی کے الزامات بھی بڑے پیمانے پر لگے اور آخر کار انتخابات میں واضح ہوگیا کہ کس طرح مکمل ریاستی آشیر باد سے الیکشن کا ڈھونگ رچا کر ایک کٹھ پتلی حکومت قائم کی گئی۔
اس تمام تر ڈھونگ کے خلاف مزاحمت نہ ہونے کی وجہ بھی دیگر سیاسی پارٹیوں کا مکمل خصی پن ہے جو اپنی عوامی بنیادیں کھو چکی ہیں اور ہوا میں معلق ہیں۔یہ اپوزیشن بھی ریاستی آشیر باد سے ہی موجود ہے ورنہ اس کی سماجی حمایت اس وقت نہ ہونے کے برابر ہے۔لیکن اس کے باوجود موجودہ حکومت اتنی کھوکھلی ہے کہ اگر یہ نام نہاد اپوزیشن بھی اسمبلیوں کا بائیکاٹ کر دیتی اور انتخابی فراڈ کیخلاف کیمپین چلاتی تو پارلیمانی نظام زمین بوس ہو جاتا۔ ریاستی اداروں کا دیرینہ کارندہ فضل الرحمن اسی عمل کا مطالبہ کر رہا تھا۔لیکن اس کا مقصد بھی اپنا کھویا ہوا مقام حاصل کرنا تھا جو موجودہ حکمرانوں کے ساتھ ذاتی عناد کے باعث لٹا ہے۔
لیکن اس تمام عمل میں واضح ہو چکا ہے کہ پارلیمنٹ جیسا ریاست کا ایک اہم ستون سماج میں اپنی بنیادیں کھو چکا ہے اور عوام کے کسی بھی حصے کو اس ادارے پر اعتماد نہیں۔ انتخابات میں عوام کی شرکت بھی انتہائی کم رہی اور ٹرن آؤٹ کے جھوٹے اعداد وشمار پیش کر کے اس خفت کو مٹانے کی کوشش کی گئی۔ پاکستانی ریاست کے دیگر تمام اعداد وشمار کی طرح یہ تمام بھی جھوٹ کا ایک پلندہ ہیں۔
پارلیمنٹ کا ادارہ پہلے بھی کبھی یہاں سنجیدہ کردار ادا نہیں کر سکا اور محض ایک رسمی کاروائی کے طور پر موجود تھاجبکہ اصل فیصلے کہیں اور طے پاتے تھے۔ امریکی سامراج کی غلام ریاست سے توقع بھی کیا کی جاسکتی ہے کہ وہ کسی بھی حوالے سے اہم فیصلے کر سکے۔ لیکن اب اس رسمی کاروائی کو جاری رکھنا بھی ممکن نہیں رہا اور آنے والے عرصے میں یہ ناٹک جاری رکھنا زیادہ مشکل ہوگا۔ کسی بھی عوامی تحریک کے آغاز پر ہی یہ ادارہ مکمل طور پر رد ہو جائے گا اور عوامی سطح پر منتخب ہونے والی کمیٹیاں ہی درحقیقت عوام کی حقیقی نمائندہ بن کر سامنے آئیں گی اور اس ناٹک کا خاتمہ کریں گی۔
اس ناٹک کو حقیقت کا رنگ دینے کے لیے عدلیہ جیسے اہم ریاستی ادارے کو بھی پوری قوت کے ساتھ استعمال کیا گیا لیکن یہ دیمک زدہ ادارہ بھی تیزی سے انہدام کی جانب بڑھ رہا ہے۔چیف جسٹس کے کردار کو مبالغہ آمیز حد تک بڑھا دیا گیا ہے اور پولیس کے سپاہی کا کام بھی چیف جسٹس نے خود کرنا شروع کر دیا ہے۔ چیف جسٹس کی پھرتیوں سے اس ادارے کی ساکھ بہتر ہونے کی بجائے مزید تیزی سے ختم ہو رہی ہے اور عدالتی کاروائی ایک مذاق بن چکی ہے۔آبادی کا ایک وسیع و عریض حصہ پہلے ہی اتنے مہنگے انصاف کو خرید نہیں سکتا اور مقامی سطح پر کوئی مسائل کا حل تلا ش کرنے کی کوشش کرتا ہے لیکن اب جو خرید سکتے تھے وہ بھی اس کاروائی سے اجتناب کرتے ہیں۔ زیادہ تر جھگڑے اور چپقلشیں عدالت سے باہر ہی طے کرنے کی کوشش کی جاتی ہے اور مقامی پنچایتوں کی مدد کو فوقیت دی جاتی ہے۔ عدالت میں بھی کسی مجرم کو سزا ملنا تقریباًناممکن ہو چکا ہے اور پیسوں یا دھونس کے زور پر کسی بھی قسم کا فیصلہ کروایا جا سکتا ہے۔ ایسے میں چیف جسٹس کی جائے وقوعہ پر آنیاں جانیاں اور چھاپے محض اس ادارے کے کھوکھلے پن کی عکاسی کرنے کے سوا کچھ بھی نہیں۔
لیکن اس وقت ریاست کو درپیش سب سے اہم مسئلہ ڈوبتی ہوئی معیشت کا ہے۔ تبدیلی کا نعرہ لگانے والی حکومت نے بھی آتے ہی انہی مزدور دشمن پالیسیوں کو جاری رکھنے کا اعلان کیا ہے جن پر پچھلی حکومتیں عمل پیرا تھیں۔گزشتہ پانچ سال نواز شریف کی حکومت کے تھے یا اس پہلے زرداری اور مشرف کی حکومت ، تمام حکومتوں میں یہی پالیسیاں لاگو کی جاتی رہیں جو اب موجودہ حکومت لاگو کر رہی ہے۔عمران خان کی کابینہ میں بھی اکثر وہی پرانے چہرے ہیں جو ماضی میں یہ پالیسیاں لاگو کرتے رہے ہیں۔پرانی دکان پر نیا سیلز مین آنے سے دکان نئی نہیں ہو جاتی اور نہ ہی مالکان اور شراکت دار تبدیل ہوتے ہیں۔ تبدیلی صرف سیلز مین کی ہوئی ہے جو مالکان کے احکامات فرمانبرداری سے بجا لانے کا عہد کر کے آیا ہے۔
اسد عمر نے آتے ہی دو سو اداروں کی نجکاری کا عندیہ دے دیا ہے جس میں موجود لاکھوں افراد کو جبری طور پر بیروزگار کیا جائے گا۔پہلے بھی مختلف اداروں کی نجکاری کے ذریعے لاکھوں افراد بیروزگار ہو چکے ہیں اورآج کسمپرسی کی زندگی گزار رہے ہیں۔ آنے والے عرصے میں مزید لاکھوں افراد کو بیروزگاری میں دھکیل دیا جائے گا۔ واپڈا، ریلوے اور دیگر اداروں کی نجکاری کے لیے تیزی سے پالیسیاں ترتیب دی جا رہی ہیں جبکہ دیگر اہم ادارے بھی اسی خنجر کی زد میں آئیں گے۔ تعلیم اور صحت کے بجٹ میں مزید کٹوتیوں کا آغاز ہو گیا ہے اور ہزاروں ڈیلی ویجز ملازمین کو فارغ کرنے کا عندیہ دے دیا گیا ہے جبکہ نئی بھرتیوں پر اسی طرح پابندی عائد ہے جیسے پہلے تھی۔ تعلیم کے بجٹ میں فوری کٹوتی سے کم از کم دس لاکھ سے زیادہ بچے صرف پنجاب میں تعلیم سے محروم ہو جائیں گے جبکہ سرکاری ہسپتالوں میں عوام کے لیے علاج ختم ہونے کی طرف جائے گا۔
اکنامک ایڈوائزری کونسل میں بجلی کی قیمت میں بھی دو روپے فی یونٹ اضافے کافیصلہ کیا گیا ہے جس سے مہنگائی کے ایک نئے سیلاب کا آغاز ہو گا۔جبکہ گیس کی قیمتوں میں ایک سو فیصد کے قریب اضافے کی تجویز گردش کر رہی ہے۔لیکن ساتھ ہی من پسند افراد کو نوازنے کا سلسلہ بھی جاری ہے اور فاطمہ فرٹیلائزر سمیت چند کھاد فیکٹریوں کو حکومت کی جانب سے نصف قیمت پر گیس فراہم کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔یہ تمام فیصلے پرانی پالیسیوں کا ہی تسلسل ہیں اور معاشی پالیسی میں کوئی بھی تبدیلی نہیں آئی۔ فوج کے بجٹ میں معمولی سی بھی کمی کا عندیہ نہیں دیا گیا بلکہ امکان ہے کہ آنے والے عرصے میں اس بجٹ میں اضافہ کیا جائے گا اور معاشی بحران کا سار بوجھ غریب عوام پر ڈال جائے گا۔ سادگی کی منافقت کا لبادہ اڑھنے والے وزیر اعظم کو جرنیلوں کی پر تعیش زندگیوں اور ہاؤسنگ سوسائیٹیوں پر گفتگو کرنے کی بھی جرات نہیں، کاروائی کرنا تو بہت دورکی بات ہے۔ جہاں گورنر ہاؤس سے لے کر کمشنر اور ڈی سی کے سرکاری گھروں کو مسمار کرنے کا جھوٹا اعلان کیا گیا وہاں جرنیلوں کے وسیع و عریض گھروں کا ذکر بھی ابھی تک سامنے نہیں آیا۔ اسی سے واضح ہوتا ہے کہ ملک کے اصل حکمران کون ہیں۔
لیکن ان تمام پالیسیوں کا انجام بھی وہی ہے جو پہلے ہوا ہے۔نجکاری اور ڈاؤن سائزنگ کی پالیسی کے ذریعے پہلے بھی ملک کے قرضوں کو اتارنے اور خزانے پر بوجھ کم کرنے کی بات کی گئی تھی لیکن اہم ترین اداروں کو کوڑیوں کے مول بیچنے کے باوجود نہ تو ملکی خزانے پر بوجھ کم ہوا اور نہ ہی قرضوں میں کمی ہوئی بلکہ اس میں کئی گنا اضافہ ہو چکا ہے۔اسی طرح نجکاری کی پالیسی کو عوام کے سامنے پیش کرنے کے لیے سب سے بڑا بہانہ یہ تھا کہ سرکاری اداروں کی کارکردگی نجکاری کے بعد بہتر ہو جائے گی۔ لیکن یہ دعویٰ بھی غلط ثابت ہو چکا ہے۔ کے الیکٹرک کی نجکاری صرف ایک مثال ہے جس کے بعد کراچی میں لاکھوں محنت کشوں کے لیے بجلی ایک نایاب شے بن چکی ہے اور وہ اس بنیادی ضرورت سے محروم ہو چکے ہیں۔پی ٹی سی ایل کی حالت بھی ایسی ہی ہے اور نجی ٹرینوں اور ایر لائنوں کی بدترین کارکردگی بھی سب کے سامنے ہے جن سے ملکی خزانے پر بوجھ میں اضافہ ہوا ہے۔آنے والے عرصے میں ہونے والی نجکاری کا مقصد بھی لوٹ مار اور من پسند افراد کو نوازنا ہی ہے ۔ اس کے ساتھ ہی آئی ایم ایف کی شرائط کو پورا کرنا تاکہ مزید سامراجی قرضوں کا حصول ممکن ہو سکے۔
لیکن عرصہ دراز سے جاری ان عوام دشمن پالیسیوں کو جاری رکھنا نئی حکومت کے لیے پہلے کی نسبت زیادہ مشکل ہوتا جا رہا ہے۔اس کی وجہ عالمی سطح پر اور خطے میں تبدیل شدہ صورتحال ہے جبکہ ماضی کی پالیسیوں کے نتیجے میں سماج کو پہلے ہی بری طرح نوچا گیا ہے۔اس ملک کے عوام کی حالت ایسی ہے جیسے کوئی دشمن فوج کسی مقبوضہ علاقے میں لوٹ مار کرتی ہے۔اس علاقے میں نہ کسی کی زندگی کی پرواہ کی جاتی ہے اور نہ ہی کسی کے پاس ایک دھیلا یا اناج کی ایک مٹھی بھی چھوڑی جاتی ہے۔اس علاقے کے لوگوں کو سسک سسک کر مرنے کے لیے چھوڑ دیا جاتا ہے۔یہاں کے حکمرانوں نے اس ملک کی عوام کے ساتھ یہی سلوک کیا ہے اور اب نئے حکمران اپنا معاوضہ نچوڑنے کے لیے جسموں پر وہ گوشت اور ہڈیاں ڈھونڈ رہے ہیں جن سے اپنی لوٹ مار کی ہوس کی تسکین کر سکیں۔
اس وقت ملکی زرمبادلہ کے ذخائر انتہائی کم سطح پر پہنچ چکے ہیں اور خزانے میں صرف ایک ماہ کی درآمدات کرنے کے لیے رقم موجود ہے۔یعنی اگر فوری طور پر غیر ملکی قرضے بڑے پیمانے پر نہ ملے تو ملک میں بنیادی ضروری اشیا کی درآمدات نہیں ہو سکیں گی اور ان اشیا کی شدید قلت پیدا ہو جائے گی۔ اسی طرح ملکی کرنسی پہلے ہی گزشتہ ایک سال میں بیس فیصد گراوٹ کا جھٹکا کھا چکی ہے اور اس میں مزید کمی آ سکتی ہے۔ ایک ڈالر کی قیمت اگست میں اوپن مارکیٹ میں135 روپے تک پہنچ گئی تھی جو ابھی وقتی طور پر بحال ہوئی ہے۔ لیکن کسی بڑے جھٹکے کی صورت میں یہ بآسانی 150کا ہندسہ کراس کر سکتی ہے۔ ترکی کی امریکہ کے ساتھ لڑائی کے باعث اس کی کرنسی اس سال کے آٹھ ماہ میں 40فیصد تک گر چکی ہے۔ ایسی ہی کیفیت پاکستان کی بھی ہو سکتی ہے گو کہ یہاں کی معیشت کی حالت ترکی کی نسبت کئی گنا زیادہ بد تر اور پسماندہ ہے۔ اس صورتحال میں پاکستا ن کا چین پر انحصار بہت تیز ی بڑھا ہے اور اس کے حجم میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے جس کے باعث امریکہ کے ساتھ تنازعہ میں بھی شدت آئی ہے۔
پانچ ستمبر کو امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو کا پاکستان کا دورہ اس حوالے سے اہمیت کا حامل ہے۔ جبکہ اس کے کچھ دن بعد چینی وزیر خارجہ پاکستان کا دورہ کرے گا اور پھر عمران خان سعودی عرب کے دورے پر جائے گا۔ ایرانی وزیر خارجہ پہلے ہی اسلام آباد کا دورہ کر چکا ہے۔یہ تمام ملاقاتیں پاکستانی ریاست اور معیشت کے حوالے سے اہم پیش رفت کا باعث بنیں گی۔
امریکی سامراج اس وقت خطے میں اپنے روایتی غلام کو شکنجے میں رکھنے کی بھرپور کوشش کر رہا ہے لیکن یہ غلام اب چینی سامراج کی شکل میں نئے آقا کا طوق پہن چکا ہے ۔ اس کھینچا تانی میں غلام کی اپنی گردن ٹوٹنے کا خدشہ موجود ہے لیکن غلام یہ سمجھتا ہے کہ وہ دونوں آقاؤں کو آپس میں لڑوا کر کچھ وقت کے لیے سکون کا سانس لے سکتا ہے۔
اس وقت امریکہ کو تشویش ہے کہ چین کا غلبہ اس خطے میں بڑھتا جا رہا ہے۔ چین جہاں بنگلہ دیش، نیپال، سری لنکا، میانماراور مالدیپ میں اپنے پنجے گاڑتا چلا جا رہا ہے اور ان ممالک میں بندرگاہیں، اہم پل اور گزرگاہیں اور انرجی کے منصوبے شروع کر رہا ہے وہاں خطے میں امریکہ پر اسٹرٹیجک برتری کی جانب بھی بڑھ رہا ہے۔ اس خطے میں پاکستان میں چین کا اثر ورسوخ سب سے زیادہ موجود ہے اور اس میں تیزی ترین اضافہ ہو رہا ہے۔ گوادر کی بندرگاہ سے لے کر اسلحے کی فروخت تک چین امریکہ کی نسبت پاکستان کے زیادہ قریب ہو چکا ہے۔ گزشتہ تیرہ ماہ میں چین نے پاکستان کو سی پیک کے علاوہ 7.2ارب ڈالر کے قرضے دیے تاکہ اس کے بجٹ خسارے کو کم کیا جا سکے۔ اس کے مقابلے میں امریکہ کے زیر اثر آئی ایم ایف نے 2013ء سے 2016ء کے چار سالوں میں 6.4ارب ڈالر قرضہ دیا۔ قرضوں کے حجم سے ہی واضح ہوتا ہے کہ کس کا اثر و رسوخ بڑھا ہے۔ دوسری جانب جہاں چینی قرضوں کی شرح سود آئی ایم ایف کے مقابلے میں کئی گنا زیادہ ہے وہاں دیگر شرائط اتنی سخت نہیں۔ درحقیقت آئی ایم ایف کا قیام اس دور میں آیا تھا جب امریکی سامراج لمبے عرصے کی منصوبہ بندی کرتا تھا اسی لیے آئی ایم ایف قرضے کی ایسی شرائط عائد کرتا ہے جس میں لمبے عرصے تک سودی نظام کے تحت عوام کا خون نچوڑا جا سکے۔لیکن چین کی نوزائیدہ سامراجی طاقت اتنی لمبی منصوبہ بندی کی اہل نہیں اور بہت قلیل مدت کی منصوبہ بندی کے تحت آگے بڑھ رہی ہے۔درحقیقت چینی قرضوں اور سامراجی پالیسیوں کے باعث پاکستان کی معیشت زیادہ تیزی سے برباد ہو رہی ہے اور وہ کام جو آئی ایم ایف نے ایک دہائی میں کرنا تھا وہ چینی قرضوں نے چند سالوں میں کر دیا ہے۔
اس وقت پاکستان کے کرنٹ اکاؤنٹ اور تجارتی خساروں کی بڑی وجہ چین سے ہونے والی درآمدات ہیں جن کے باعث یہ خسارے ملکی تاریخ کی بلند ترین سطح پر پہنچ چکے ہیں۔ کرنٹ اکاؤنٹ خسارے میں ایک سال کے دوران چالیس فیصد اضافہ ہوا ہے۔ اس کی وجہ درآمدات میں کئی گنا اضافہ جبکہ برآمدات میں نسبتاً کمی ہے۔ درآمدی بل کا 70فیصدخام مال، انرجی اور دیگر مشینری کے باعث ہے۔ کوئلے سے بجلی بنانے کے لگائے جانے والے پلانٹ بھی چین سے درآمد کیے گئے ہیں اور ان کے لیے اب کوئلہ بھی وہاں سے ہی درآمد کیا جاتا ہے۔ 2017ء میں پاکستان نے ایک کروڑ بارہ لاکھ ٹن کوئلہ درآمد کیا۔ ماحولیاتی آلودگی کا شور مچانے والی حکومت اس درآمدمیں کمی کا سوچ بھی نہیں سکتی۔
لیکن پاکستان امریکہ سے مکمل ناطہ توڑ کر چین پر انحصا ر نہیں کر سکتا۔ اس کے لیے اسے امریکہ سمیت تمام سامراجی مالیاتی اداروں سے تعلق استوار رکھنا پڑے گا۔سعودی عرب سے ممکنہ امداد بھی اسی تعلق سے مشروط ہے۔ ساتھ ہی سعودی عرب امداد کے بدلے ایران کے خلاف واضح مؤقف اختیار کرنے اور راحیل شریف کی قیادت میں قائم کردہ اتحادی فوج کی کھل کر حمایت کرنے مطالبہ کر رہا ہے۔
اگرامریکی دھڑے سے تعلقات بہتر نہ کیے گئے تو معیشت مکمل طور پر دیوالیہ ہو جائے گی اور چین اس کو کسی طور بھی سنبھال نہیں سکے گا۔ ایران کی صورتحال سامنے ہے جہاں کی کرنسی کی قیمت چار ماہ میں ساٹھ فیصد کے قریب گر چکی ہے۔ اس سال مارچ میں گراوٹ کے بعد ایک ڈالر پچاس ہزار ایرانی ریال کا ہو گیا تھا جو اب 1,28,000ریا ل کا ہو چکا ہے۔آنے والے عرصے میں اس گراوٹ میں کئی گنا اضافہ ہوگا۔ چین نے ایران کی معیشت کو بچانے کی کوشش کی ہے اور امریکی پابندیوں کو رد کرتے ہوئے تیل کی درآمد کو جاری رکھنے کا اعلان کیا ہے لیکن اس کے باجود ایران کی کرنسی میں استحکام نہیں آ سکا۔ چین کی اپنی کرنسی امریکہ سے تجارتی جنگ کے باعث گراوٹ کا شکار ہے اور دس فیصد تک گر چکی ہے جبکہ معاشی نمو میں بھی کمی آ رہی ہے اور قرضوں کا بلبلہ پھٹنے کے قریب ہے۔
ایسے میں پاکستان کی حالت ایران سے زیادہ کمزور ہے کیونکہ یہاں تیل برآمد کرنے کی بھی سہولت نہیں۔ اس لیے پاکستان امریکہ سے تعلقات بحال رکھنے کی پوری کوشش کرے گا۔ دوسری جانب امریکہ کی بھی یہی خواہش ہے کہ وہ اپنے اس پرانے آزمودہ غلام کو راہ راست پر لے آئے۔ لیکن اب اس کام کے لیے زیادہ معاوضہ دینے کی بجائے سخت طریقہ کار اپنا رہا ہے۔ اس سال پاکستان کی فوجی اور سول امداد تقریباً ختم کی جا چکی ہے اور پاکستانی فوجی افسران کی امریکہ میں تربیت پر بھی پابندی عائد کر دی گئی ہے جو کہ ایک انتہائی سخت پیغام ہے۔ مائیک پومپیو نے آئی ایم ایف کو بھی چند ماہ قبل انتباہ کیا تھا کہ وہ پاکستان کو قرضہ دینے میں احتیاط کرے۔ اس کا کہنا تھا کہ آئی ایم ایف کا قرضہ پاکستان کے رستے چین چلا جائے گا اور وہ نہیں چاہتا کہ امریکہ میں ٹیکس دینے والوں کا پیسہ ایسے ضائع ہو۔ اسی طرح FATFکی گرے لسٹ میں بھی پاکستان کو شامل کر دیا گیا جبکہ آئندہ سال ایران اور شمالی کوریا کی طرح بلیک لسٹ میں شامل کرنے کی تلوار پاکستان پر لٹک رہی ہے۔
امریکہ کی اس وقت شدید خواہش ہے کہ پاکستان چین کے دائرہ اثر سے باہر نکلے اور ساتھ ہی افغانستان میں امریکی سامراج کو انخلا کے مناسب مواقع فراہم کرے۔ امریکہ افغانستان میں جاری اس کی تاریخ کی طویل ترین جنگ کو اس انداز میں ختم کرنا چاہتا ہے جسے وہ دنیا میں اپنی کامیابی بنا کر پیش کر سکے اور اس کی سامراجی ساکھ میں کمی آنے کی بجائے اضافہ ہو۔لیکن حالات امریکہ کو اس دلدل میں مزید کھینچتے چلے جا رہے ہیں۔ افغانستان میں چین، روس اور ایران کی مداخلت بڑھتی جا رہی ہے جبکہ پاکستان پر بھی الزام ہے کہ وہ طالبان اور بالخصوص حقانی نیٹ ورک کے ذریعے اپنی کاروائیاں جاری رکھے ہوئے ہے۔
امریکہ کی خواہش ہے کہ اس کی تشکیل دی ہوئی افغانستان کی کٹھ پتلی حکومت کو تسلیم کر لیا جائے جبکہ طالبان اسے تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں اور اپنے مفادات کے تحت کاروائیاں تیز کر چکے ہیں۔ اگست کے مہینے میں اس لڑائی میں مزید شدت آئی جب غزنی کے صوبے کے بہت سے اضلاع پر طالبان نے قبضہ کر لیا اور پھر ایک خونخوار لڑائی کے بعد غزنی شہر پر بھی کچھ دن کے لیے قبضہ کر لیا گیا۔ اس دوران افغان فورسز کی بڑی تعداد میں ہلاکتیں ہوئیں جبکہ طالبان کے بھی بہت سے افراد مارے گئے۔ایسی خبریں بھی سامنے آئیں کہ اس لڑائی کے بعد پاکستان میں 120سے زیادہ لاشیں لائی گئیں جو پاکستان کی مداخلت کا ثبوت فراہم کرتی تھیں۔اس کے بعد فریاب صوبے میں فوجی اڈوں پر طالبان نے قبضہ کر لیا جبکہ عید والے دن کابل میں بھی دو راکٹ فائر کیے گئے۔ یہ صورتحال امریکہ کے لیے مزید مشکلات پیدا کر رہی ہے کیونکہ امریکہ یہاں مزید فوجیں نہیں اتارنا چاہتا اور موجودہ افرادی قوت سے صورتحال کو کنٹرول کرنا ممکن نہیں۔ بعض رپورٹوں کے مطابق افغانستان کا ساٹھ فیصد حصہ طالبان کے زیر اثر ہے۔اس صورتحال میں امریکہ اگر یہاں سے مکمل انخلا کرتا ہے تو چین ، روس، ایران اور پاکستان کااثر و رسوخ قائم ہوگا اور امریکہ اس پورے خطے میں ایک لمبے وقت کے لیے دوبارہ داخل نہیں ہو سکے گا۔ دوسری جانب فوج میں اضافہ کرنا معاشی و سیاسی بحران کے باعث ممکن نہیں اور اگر کیا بھی جاتا ہے تو اس کے لیے سپلائی روٹ پاکستان کی مدد کے بغیر محفوظ رکھنا ممکن نہیں۔
امریکہ کی اس کمزور صورتحال کو پاکستانی ریاست بھرپور انداز میں استعمال کرنے کی کوشش کرے گی اور امریکہ سے امداد کی بحالی کے لیے اس کارڈ کو کھیلے گی۔ امریکہ سے افغانستان میں مدد کے بدلے نہ صرف آئی ایم ایف اور دیگر مالیاتی اداروں سے قرضوں کے حصول کی کوشش کی جائے گی بلکہ رکی ہوئی دفاعی و دیگر امداد جاری کرنے کا مطالبہ بھی کیا جائے گا۔ دوسری جانب امریکہ کو چین کے اثر ورسوخ کو نام نہاد طور پر کم کرنے کا عندیہ دیا جائے گا جس پر عملدرآمد ہوتا مشکل دکھائی دیتا ہے۔لیکن امریکہ کے لیے یہ سب کچھ کرنے کے بعد بھی افغانستان کی خونی دلدل سے باہر نکلنا ممکن نظر نہیں آتا بلکہ وہ اس میں مزید دھنستا چلا جائے گا۔
یہ تمام تر صورتحال اس کیفیت میں زیادہ عرصہ جاری نہیں رہ سکتی اور امریکہ اور چین کی لڑائی فیصلہ کن انجام کی جانب بڑھتی چلی جارہی ہے جس میں افغانستان اور پاکستان کا معاملہ بھی طے ہونے کی جانب جائے گا۔ اگر امریکہ افغانستان سے انخلا کا فیصلہ کرتا ہے، جس کاصدارتی الیکشن کے دوران ٹرمپ کی جانب سے اعلان کیا گیا تھا، لیکن اب جس کا امکان دکھائی نہیں دیتاتو پاکستان کو بھی ایران جیسی ہی پابندیوں کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ اس سے پہلے امریکہ کوشش کرے گا کہ ترکی کی طرح پاکستان کو بھی سبق سکھانے کے لیے سخت سے سخت اقدامات کیے جائیں لیکن ساتھ ہی معیشت کو مکمل طور پر ڈوبنے سے بھی بچایا جائے۔ اسی طرح امریکی حکمران طبقے کا ایک دھڑاروس کے ساتھ قریبی تعلقات کی بھی خواہش رکھتا ہے جبکہ دوسرا دھڑا اس کا شدید مخالف ہے۔ یہ تمام صورتحال عالمی سطح پر کسی بھی بڑے واقعہ کی صورت میں مکمل تبدیل ہو سکتی ہے اور طاقتوں کاتوازن مزیدتبدیل ہو سکتا ہے۔ خاص طور پر ٹرمپ کی امریکی حکمران طبقے کے دوسرے دھڑے کے ساتھ لڑائی اس صورتحال پر اثرات مرتب کر سکتی ہے۔
لیکن اس تمام تر کیفیت میں پاکستانی ریاست اور معیشت کمزور تر ہوتی چلی جائے گی۔ یہاں کا حکمران طبقہ اپنی لوٹ مار کی شدت میں مزید اضافہ کر دے گا اور عوام کو مزید غربت، بیروزگاری اور مہنگائی کے عذابوں میں جھونک دیا جائے گا۔ اس صورتحال کو محنت کش طبقے کی آنے والی تحریکیں چیر کر رکھ دیں گی اور حکمران طبقات اور سامراجی طاقتوں کے کھیل کا انت کرنے کے لیے سرمایہ دارانہ نظام کی بنیادوں کو چیلنج کریں گی۔ اس نظام میں رہتے ہوئے محنت کشوں کے لیے بہتری کی معمولی سی بھی گنجائش موجود نہیں۔ نہ تو یہاں بڑے پیمانے پرروزگار فراہم کیا جا سکے گا اور نہ ہی غریبوں کو گھر بنا کر دیے جا سکیں گے۔ ہر منصوبے کا آغاز ایک ڈھونگ اور اس کا انجام لوٹ مار ہے۔ اس خونی کھلواڑ کو ختم کرنے کے لیے یہاں حکمران طبقے سے اس کی تمام تر دولت اور جائیداد ضبط کر کے محنت کشوں کے جمہوری کنٹرول میں دینے کی ضرورت ہے ۔نجی بینکوں، کمپنیوں، صنعتوں اور جاگیروں سے لے کر نجی ہسپتالوں اور تعلیمی اداروں تک ہر کلیدی شعبہ مزدوروں کے اجتماعی کنٹرول میں دینے کی ضرورت ہے۔ اس ریاست کی فرسودہ پارلیمنٹ اور تعفن زدہ عدلیہ سمیت دیگر ادارے مکمل طور پر ختم کر کے یہاں ایک مزدور ریاست قائم کرنے کی ضرورت ہے۔صرف مزدور ریاست ہی سامراجی طاقتوں کا مقابلہ کرتے ہوئے ان کی لوٹ مار کا خاتمہ کر سکتی ہے۔ تمام سامراجی قرضوں کو ختم کرتے ہوئے سودی نظام کا مکمل خاتمہ صرف مزدور ریاست ہی کر سکتی ہے جس کے لیے ایک سوشلسٹ انقلاب ہی نجات کا واحد رستہ ہے۔