|تحریر: پارس جان|
رواں برس محنت کشوں کے عالمی دن کے موقع پر”تبدیلی“ سرکار نے پاکستان کے غریب عوام کو پیٹرول کی قیمتوں میں 9 روپے کے اضافے کا خصوصی تحفہ دیا۔ یہ تحفہ کوئی نیا آغاز نہیں بلکہ مہنگائی میں مسلسل ہونے والے اضافے کے عمل کا ہی تسلسل ہے۔ گزشتہ نصف سال کے دوران مہنگائی میں عمومی طور پر اور اشیائے خوردونوش کی قیمتوں میں بالخصوص بڑے پیمانے پر اضافہ دیکھنے میں آیا۔ ادویات اور دیگر ضروری اشیا کی قیمتوں میں تو 300 فیصد تک اضافہ بھی رپورٹ کیا گیا ہے۔ رہی سہی کسر رمضان کے تقدس کی آڑ میں پوری کر لی جائے گی۔ تبدیلی سرکار کے معذرت خواہان آج بھی اسی ڈھٹائی سے ان اقدامات کے دفاع میں لگے ہوئے ہیں اور ان کے پاس وہی گھسی پٹی دلیل ہے کہ ’حکومت کو وقت ملنا چاہیے‘۔ اگر عمومی معیارات کے اعتبار سے دیکھا جائے تو یہ بات کسی حد تک غلط بھی نہیں ہے کہ آٹھ یا نو ماہ کا عرصہ جمہوری طرزحکومت کی حدود و قیود میں رہتے ہوئے کسی بھی قسم کے پالیسی شفٹ کے حوالے سے کافی نہیں ہوتا۔ مگر ”انصافیوں“ کی مشکلات اس لیے زیادہ ہیں کہ وہ عمومی حالات اور معیارات میں اقتدار میں نہیں آئے بلکہ برس ہا برس اور نسل در نسل عوام کے اوپر ہونے والے معاشی جبر کی انتہاؤں میں انہیں مزید جبر کو جاری رکھنے کے لئے ’سلیکٹ‘ کیا گیا ہے۔ ان کا اقتدار میں پہنچا دیئے جانا بذات خود حالات کے غیر معمولی کردار کا تسلی بخش ثبوت ہے۔ اور قابل توجہ بات یہ بھی ہے کہ موجودہ حکومت کے اس قلیل دور میں عوام اور بالخصوص نوجوانوں کے حکومت اور ریاست پر اعتماد کو استحکام یا دوام اس صورت میں مل سکتا تھا جب حکومتی پالیسیوں میں واقعی کسی ’تبدیلی‘ کا اشارہ دیا جاتا۔ صورتحال اس کے بالکل الٹ ہے۔ ہم مارکس وادی تو پہلے ہی اس کی نشاندہی کر چکے تھے مگر اب ریاست خداداد کے عام شہریوں پر بھی یہ واضح ہو چکا ہے کہ ’تبدیلی‘ کے جھانسے میں انہیں پرانی پالیسیوں کی چکی میں ہی پیسا جا رہا ہے۔ حتیٰ کہ اب تو چہرے بھی تقریباً سارے ہی وہی پرانے مسلط ہیں۔ ویسے تو حکومتی کابینہ ابتدا سے ہی پرویز مشرف اور آصف علی زرداری کے دور کے اہم وزرا پر انحصار کرنے پر مجبور تھی مگر اب کپتان کے علاوہ لگ بھگ ساری ٹیم ہی اس حکمران اشرافیہ سے تعلق رکھتی ہے جس کی ’تبدیلی‘ کے نعرے پر کپتان ’سلیکٹ‘ ہوا تھا۔ خاص طور پر اسد عمر نہ صرف یہ کہ گزشتہ کئی سالوں کی نام نہاد حزب اختلاف کی سیاست میں عمران خان کے سب سے قریبی ساتھی کے طور پر اپنا منفرد مقام بنانے میں کامیاب ہوا تھا بلکہ اسے ماہرین تبدیلی سرکار، تبدیلی کا ’دماغ‘ بھی قرار دیتے تھے۔ اسے بھی خزانہ کے عہدے سے ہٹا کر حفیظ شیخ کو اس کی جگہ لگا دیا گیا ہے۔ یہ بات سمجھنے کے لئے فلسفے اور معیشت پر زیادہ عبور کی ضرورت نہیں ہے کہ آصف علی زرداری کے وزیرخزانہ کی ’واپسی‘ کا مطلب انہی معاشی پالیسیوں کا تسلسل ہی ہے۔ پیپلزپارٹی والے اس پر بہت بغلیں بجا رہے تھے حالانکہ اس وقت بھی حفیظ شیخ پیپلزپارٹی کا وزیر نہیں تھا اور آج وہ تحریک انصاف کا وزیر بھی نہیں ہے بلکہ وہ اس وقت بھی سامراجی ایجنٹ تھا اور آج بھی ورلڈ بینک اور آئی ایم ایف کا دلال ہے۔ اس حکومت نے سامراجی گماشتگی کے اس عمل کو اپنے منطقی عروج تک پہنچا دیا ہے۔ اور آئی ایم ایف کے مصر میں نمائندے رضا باقر کو گورنر سٹیٹ بینک نامزد کر دیا گیا ہے۔ نوجوان اب بخوبی عالمی سرمائے کی زنجیروں کی جکڑ کو کتابوں سے نہیں بلکہ براہِراست تجربے سے سیکھ رہے ہیں۔ لینن نے سو فیصد درست کہا تھا کہ زندگی سکھاتی ہے۔ اب ممکن ہے کہ نکالے گئے وزرا کو واپس مختلف وزارتیں سونپ دی جائیں مگر اس طرح کے اقدامات سے عوام نے جو اہم اسباق حاصل کیے ہیں ان کے اثرات زائل ہونے کی بجائے اور بھی گہرے، دیرپا اور نتیجہ خیز ہوتے چلے جائیں گے۔
حقیقت یہ ہے کہ وہ لوگ بھی جو حکومت کو مزید وقت دینے کا بیدلانہ مطالبہ کرنے میں لگے رہتے ہیں بخوبی جانتے ہیں کہ یہ حکومت عملاً ناکام ہو چکی ہے اور وہ محض آئینے سے آنکھیں ملا پانے کی خجالت میں ہی ایسی جھوٹی تمناؤں کا آسرا لینے پر مجبور ہیں۔ مگر سوال یہ ہے کہ اس حکومتی ناکامی کی وجوہات کیا ہیں اور اس سے کیا نتائج اخذ کئے جانے چاہئیں؟ کیا اسے اصلاح پسندی کی ناکامی قرار دینا درست ہو گا؟ اگر ہاں تو پھر اس کا مطلب تو یہ ہوا کہ تحریک انصاف کو ایک اصلاح پسند پارٹی کے طور پر تسلیم کر لیا جائے جو کہ جزوی طور پر ہی درست ہے۔ یہ بات تو اب ویسے بھی روزروشن کی طرح عیاں ہو چکی کہ کم از کم اوپر کی سطح پر یعنی عہدیداروں کی حد تک تحریک انصاف ایک سیاسی پارٹی کی بجائے عمران خان کی شخصی مگر فرضی ساکھ کے گرد طواف کرنے والے موقع پرستوں اور احتساب سے راہ فرار اختیار کرنے والے بدعنوان سیاستدانوں کا ایک ایسا اکٹھ ہے جس میں نام، چہرے اور پوزیشنیں مسلسل صرف اس وجہ سے بدلتی رہتی ہیں کہ ان طواف کنندگان کی ڈوریاں صاحب طواف کی بجائے دائرہئ طواف سے باہر حقیقی معبد پر براجمان خداؤں کے ہاتھ میں ہیں اور صاحب طواف بھی اپنی نسبتی آزادی کا جب جب اظہار کرنے کی کوشش کرتا ہے تو اس کی فرضی ساکھ کی اصلیت اور کھوکھلاہٹ مزید بے نقاب ہو جاتی ہے۔ یوں زیادہ وقت دینے کا مطلب مزید ’عزت کشائی‘ کے علاوہ اور کچھ بھی نہیں۔ عمران خان نہ تو کبھی اصلاح پسند تھا اور نہ ہی ہے یا ہو سکتا ہے۔ اس کی اور اسد عمر سمیت اس کے قریبی ساتھیوں کی سیاسی جہالت اور بے لگام ہوس ناکی اور موقع پرستی کو اصلاح پسندی قرار دینا ان کو رعایت دینے، عزت دینے اور قابل قبول بنا کر پیش کرنے کے مترادف ہو گا۔ اور یوں عمران خان کے مریدین کی اس اوسط ذہنیت سے مماثلت نکل آتی ہے جس کی رو سے خان صاحب دیانتداری سے کچھ کرنے کی کوشش تو کر رہے ہیں اب نتیجہ کیا نکلتا ہے اسے خدا پر چھوڑ دینا چاہیے۔ حقیقت میں عمران خان شہرت کے نشے اور طاقت کی ہوس میں بدمست ایک ایسا مصنوعی سیاستدان ہے جسے نظام کی الف ب کا بھی علم نہیں اور اسے جب جب اس کے آقاؤں اور ہمنواؤں سے مشورہ دیا کہ جلد اقتدار کے حصول کے لئے کیا کیا نعرے لگانے ہیں یا کیسی کیسی تقریریں کرنی ہیں تو اس نے کسی بھی قسم کی ہچکچاہٹ کے بغیر اس تجویز، مشورے، ہدایت یا حکم پر عملدرآمد شروع کر دیا۔ مغربی جمہوریت سے لے کر مدینے کی ریاست تک جو چورن بھی بکا اس نے بیچنے کی کوشش کی۔ حتیٰ کہ ایک وقت میں اس نے معراج محمد خان جیسے بائیں بازو کی شہرت رکھنے والے لیڈر کو بھی اپنا دست راست بنا لیا تھا۔ ایسے میں کروڑوں نوکریوں، لاکھوں گھروں کی تعمیر اور کرپشن کے خاتمے جیسے نعروں کی گردان کی بنیاد پر اسے اصلاح پسند قرار نہیں دیا جا سکتا۔ حقیقت میں مذکورہ بالا ایک بھی نعرہ یا پالیسی ایسی نہیں ہے جسے کلاسیکل نیو لبرل پالیسیوں سے قطعی انحراف قرار دیا جا سکا۔ اصل میں تمام نیو لبرل سیاستدان یہی راگ الاپتے چلے آئے ہیں کہ سرمایہ داروں کا جام زر جتنا زیادہ بھرتا رہے گا تو خوشحالی اور بہتر معیارزندگی اس سے ٹپک کر سماج کے رگ و ریشے میں سرایت کر جائیں گے۔ یہاں بھی اس قسم کی نعرے بازی مطلوبہ دھاندلی کے لئے درکار کم سے کم سماجی حمایت کے حصول کے لئے ناگزیر ہو گئی تھی۔ اس قسم کی نعرے بازی سے درمیانے طبقے اور چند غریب نوجوانوں کی وقتی حمایت جیتی گئی۔ اس لیے پارٹی کی نچلی صفوں یا ووٹرز میں اگرچہ اصلاح پسند رجحانات موجود تھے مگر پارٹی پر قابض طاقتور خواتین و حضرات نے نجکاری سے لے کر دفاعی و خارجہ پالیسی تک ایک بھی اقدام ایسا نہیں کیا جسے اصلاح کی ادنیٰ سی کوشش بھی قرار دیا جا سکے۔ آئی ایم ایف کے پاس جانے میں تاخیر کی وجہ دیگر ذرائع پر انحصار اور امریکی سامراج کی ناراضگی اور سبق سکھانے کی پالیسی تھی۔ یہ جارحانہ نیو لبرل پالیسیوں کا اطلاق کر رہے ہیں اور کرتے رہیں گے۔ یہ بات اپنی جگہ درست ہے کہ اس نظام میں پاکستان جیسی کمزور اور نحیف معیشت تو درکنار امریکہ جیسی دیو ہیکل معیشت میں بھی اصلاح کی رتی برابر گنجائش نہیں رہی مگر اس ملک کی تاریخ میں بائیں بازو کی اصلاح پسندی کی ناکامی کا واحد تجربہ بھٹو کی اصلاحات کی شکل میں سامنے آیا تھا اور دائیں بازو کی اصلاحات کی کوشش اس سے قبل ایوب خان کی شکل میں آمریت کے خونی پنجوں کے ذریعے کرنے کی کوشش کی گئی تھی جس کی ناکامی نے ایک انقلاب کو جنم دیا تھا۔ تب سے لے کر اب تک تمام جمہوریتیں اور آمریتیں ایک ہی روش اپنائے ہوئے ہیں اور وہ سامراجی گماشتگی میں محنت کشوں کے خون کا آخری قطرہ تک نچوڑ لینے کی روش ہے۔ پیپلزپارٹی کے دور میں غریب مزدوروں کی تنخواہوں میں نسبتی اضافے بھی افراطِ زر اور دیگر معاشی اعشاریوں کے تعلق میں اگر دیکھے جائیں تو اجرتوں میں کمی کی عمومی ڈگر پر سفر کی ہی نشاندہی کرتے ہیں۔
گزشتہ چار پانچ دہائیوں میں عالمی معیشت کے ارتقا کے زیراثر ہی ملکی معیشت بھی مختلف مراحل طے کرتے ہوئے یہاں تک پہنچی ہے۔ پرویز مشرف کے دور میں جب عالمی معیشت کا بلبلہ پھلتا پھولتا رہا تو پاکستانی معیشت بھی سات فیصد کی شرح سے ترقی کر رہی تھی مگر اس نام نہاد عروج کے دور میں بھی معیشت پیداواری خطوط یا صنعتکاری یا انفراسٹرکچر کی وسیع پیمانے پر تعمیر پر استوار ہونے کی بجائے سامراجی خیرات اور بیرونی سرمایہ کاری کی بیساکھیوں پر ہی انحصار کرتی رہی۔ سامراجیوں نے اپنی ضرورت کے تحت مقامی حکمران طبقات کو خوب نوازا مگر اس بات کا بھرپور خیال رکھا گیا کہ یہاں کی معیشت کا سامراجی مداخلت پر انحصار کم ہونے کی بجائے مسلسل بڑھتا رہے۔ یوں اس نام نہاد ترقی کے دور میں بھی مقامی معیشت اپنے پاؤں پر کھڑی نہ ہو سکی۔ جونہی عالمی معیشت کے غبارے سے ہوا نکلی اور عالمی اور علاقائی سطح پر طاقتوں کا توازن بدلا تو ملکی معیشت رفتہ رفتہ اپنے اصلی خدوخال کے ساتھ عوامی سطح پر نظر آنا شروع ہو گئی۔ گزشتہ دو حکومتوں نے اعدادو شمار کے ہیر پھیر اور قرضوں پر انحصار کی شرح میں برق رفتاری کے ذریعے کسی حد تک معیشت کو دھکا دیئے رکھا مگر اب یہ ناممکن ہو چکا ہے۔ جی ڈی پی میں مصنوعی اضافہ جو کہ بیرونی سرمایہ کاری کے مرہو ن منت تھا اب سی پیک کی شکل میں ہونے والی بھاری بیرونی سرمایہ کاری کے باوجود سکڑ رہا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ سی پیک کے باوجود بھی مجموعی بیرونی سرمایہ کاری بڑھنے کی بجائے سکڑ ہی رہی ہے۔ جی ڈی پی گروتھ ریٹ 5.7فیصد سے کم ہو کر تین فیصدکے آس پاس پہنچ چکا ہے جبکہ افراطِ زر اور بیروزگاری میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے۔ نہ صرف پیداواری معیشت کا حجم کم ہوا ہے بلکہ زرعی اور دیہی معیشت تیزی سے سکڑرہی ہے۔ پھلوں اور سبزیوں کی پیداوار گزشتہ پانچ سالوں سے مسلسل کم ہو رہی ہے۔ اس بار بے وقتی بارشوں اور طوفانوں نے گندم، چنے، تمباکو، آم اور فالسے وغیرہ کی فصل کو برے طریقے سے متاثر کیا ہے۔ جہاں ایک طرف یہ غذائی قلت میں اضافے کے لوازمات ہیں وہیں تجارتی خسارہ بھی رواں سال میں بڑھ سکتا ہے۔ آئی ایم ایف سے اس بار جتنی تلخ ترین شرائط پر قرض مل رہا ہے، اس کا اندازہ نہ صرف گورنر سٹیٹ بینک کی تعیناتی سے لگایا جا سکتا ہے بلکہ امورداخلہ پر اعجاز شاہ جیسے بدنام زمانہ شخص کی تعیناتی بھی یہ ظاہر کرتی ہے کہ حکومت ایسے اقدامات کرنے کی طرف جائے گی جس سے عوامی غم و غصہ سڑکوں پر اپنا اظہار کر سکتا ہے اور اس سے آہنی ہاتھوں سے نمٹنے کے لیے یہ اقدام اٹھائے جا رہے ہیں۔ ایک رپورٹ کے مطابق آئندہ 2 سالوں میں 27 ارب ڈالر سے زائد کے قرضے واجب الادا ہو جائیں گے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ عوام کا معیارزندگی پہلے ہی اس سطح پر ہے جہاں اس سے مزید کچھ نچوڑنا ممکن نہیں ہے۔ ایسے میں تیز ترین نجکاری اورعوام پر ٹیکسوں کابوجھ ڈالنے کے علاوہ اور کوئی راستہ اختیار نہیں کیا جائے گا۔ مارکس وادیوں نے برسوں پہلے ہی قرضوں کے اس بحران کی پیش بینی کر دی تھی اور اب اس بحران کا تمام تر بوجھ دولت مند اور پر تعیش زندگیاں گزارنے والوں کی بجائے محنت کش عوام پر ڈالا جا رہا ہے۔آئی ایم ایف اس بات کو یقینی بنانا چاہتا ہے کہ آئی ایم ایف سے حاصل کیے گئے قرضے چین کے قرضوں کے سود کی ادائیگی کی مد میں کسی صورت خرچ نہ ہونے پائیں، ایسے میں یہ دباؤ بھی کم ہونے کی بجائے مسلسل بڑھتا رہے گا۔ جہاں ایک طرف سی پیک کے نتیجے میں ملکی مصنوعات عدم مسابقت کے باعث ملکی اور بیرونی منڈی میں معدوم ہوتی رہیں گی وہیں آئی ایم ایف کی جکڑ بندیاں اور شرائط ناقابل عمل حد تک سخت ہوتی جائیں گی۔ اسی اثنا میں دفاعی بجٹ کو کم کرنے کی بجائے مزید بڑھانے اور اسلحہ خرید کر اس میں سے کمیشن بٹورنے کی روش بھی بڑھتی رہے گی۔یوں یہ بند گلی مزید تنگ و تاریک ہوتی جا رہی ہے جو نہ صرف ریاستی اداروں بلکہ سیاسی پارٹیوں میں رسہ کشی کو ناقابل مراجعت سطح پر لے جائے گی۔
دائیں اور بائیں دونوں طرف کے دانشور اس صورتحال سے بہت پریشان دکھائی دیتے ہیں۔ وہ سب اپنے اپنے انداز سے اس بحران کی تعریف اور تشریح کرنے میں لگے رہتے ہیں۔ ادھر ادھر کی بے شمار ’فنکاریوں‘ کے باوجود کوئی بھی بحران کی درست تفہیم نہیں کر رہا۔ زیادہ تر اسے ’گورننس‘ یا ’مینجمنٹ‘ کا بحران بنا کر پیش کر رہے ہیں۔ بہت مہان سمجھے جانے والے لبرل لکھاری بھی اپنی مسحورکن طنزیہ تحریروں سے حکومت وقت اور بالخصوص وزیراعظم کا کمال مضحکہ اڑا رہے ہیں۔ لیکن وہ یہ فراموش کر دیتے ہیں کہ اس فن تحریروتفسیر اور لطیف جملہ بازی میں وہ دانستہ یا غیر دانستہ قارئین کے دماغ میں اس تاثر کو راسخ کر رہے ہوتے ہیں کہ جیسے یہ سارا بحران عمران خان صاحب کی نا اہلیت کی پیداوار ہے۔ اصل میں یہ کسی ایک پارٹی یا قائد یا حکومت کی ناکامی نہیں ہے بلکہ نظام اور ریاست کی ناکامی ہے جسے ریاست اور دانشور دونوں گریز کر کے یہ سمجھتے ہیں کہ کبوتر کی طرح آنکھیں بند کر لینے سے مصیبت ٹل جائے گی۔ حال ہی میں ’روحانی سائنس‘ کی اختراع اور اس کی ترویج کے لئے بنائی جانے والی یونیورسٹی کا قیام اور افتتاح بھی اسی عدم تعقلی، توہماتی اور توکلی ذہنی کیفیت کی غمازی کرتا ہے۔ عمران خان کی نا اہلی کی وجہ سے بحران نہیں ہے بلکہ بحران کی شدت کی نہج کا اندازہ عمران خان کے آئے روز مقبول و مشہور ہونے والے مضحکوں سے لگایا جا سکتا ہے۔ یہ نظام کا بحران ہی ہے کہ ایسے لایعنی اور شعبدہ گر اشخاص پر ریاست کو جوا کھیلنا پڑا۔ یہ ایسا جوا ہے جس میں دونوں طرف سوائے ہار کے کچھ نہیں۔ عمران خان کا مسئلہ یہ ہے کہ وہ پہلے جلد از جلد اقتدار میں آنے اور اب زیادہ سے زیادہ دیر اپنے آقاؤں کی خوشنودی سے اقتدار میں رہنے کے لئے جو بھی بولتا یا کہتا ہے رفتہ رفتہ خود اس پر یقین کرنے لگتا ہے۔ اس کا یہی یقین اسے بھرپور اعتماد سے ایسی واہیات کہانی سنانے پر مجبور کر دیتا ہے جو نہ صرف ملک کے اندر بلکہ بیرون ملک بھی ملکی ساکھ کے زوال کا باعث بن جاتی ہے۔ جرمنی اور جاپان کی ہمسائیگی، پانچ ارب درختوں اور روشنی کی رفتار سے تیز ٹرینوں کے بعد اب بابا نورالدین جنہوں نے ستر سال چلہ کاٹا تھا ہنسنے یا ہنسانے سے بڑھ کر متعفن اور حقارت آمیز لطیفے ہیں جو صرف ایک فرد کی نہیں بلکہ بحیثیت مجموعی حکمران طبقے اور ریاستی اداروں کی اخلاقی و نفسیاتی ساکھ اور اساس کی بہترین عکاسی کر رہے ہیں۔ عوام اس سب تماشے کو بہت قریب سے دیکھ رہے ہیں اور خاص طور پر ’ہیروازم‘ کے جنازے کا یہ شاہی جلوس انہیں انفرادیت کی بجائے اجتماعیت پر اور حکمران یا سرمایہ دار طبقے کی بجائے اپنی عوامی طاقت اور یکجہتی پر انحصار کرنے کی معروضی ضرورت سے متعارف کروا رہا ہے۔ اسٹیبلشمنٹ بڑی چالاکی سے اس حکومت کی ناکامی کی صورت میں متبادل تراشنے میں لگی ہوئی ہے۔ اس سے ایک طرف تو اپوزیشن میں موجود مختلف کھلاڑیوں پر مختلف ریاستی دھڑوں کی طرف سے لگائے جانے والے جوے کے باعث ریاستی و سیاسی انتشار کم ہونے کی بجائے اور بڑھنے کا اندیشہ ہے کیونکہ اس سے عمران خان اور اس کے آقاؤں کے تعلقات میں رخنہ اندازی بڑھتی جا رہی ہے۔ صدارتی نظام اور مارشل لا بھی کوئی موزوں سیاسی متبادل نہیں ہیں۔ اس لیے زیادہ تر جغادری ایک دفعہ پھر پیپلزپارٹی اور بالخصوص بلاول بھٹو پر انحصار کرنے پر مجبور ہو رہے ہیں۔ یہ درپردہ ڈیل مناسب وقت پر واضح طور پر منظرعام پر آ جائے گی۔ المیہ یہ ہے کہ پی ٹی ایم سمیت سارے کا سارا لبرل لیفٹ بھی بلاول سے ہی توقعات وابستہ کیے ہوئے ہے۔ اس سے قیادت کے مسلسل وسیع ہوتے ہوئے بحران کی شدت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ دائیں اور بائیں بیک وقت پیپلزپارٹی پر دونوں کے انحصار کے باوجود آج پیپلزپارٹی ستر اور اسی کی دہائی جیسی مقبولیت حاصل نہیں کر سکتی۔ اول تو ماضی میں اقتدار سے چپکے رہنے کی ہوس میں پارٹی نے خود کو دانستہ طور پر سندھ کارڈ کی سیاست تک محدود کر لینے میں ہی عافیت سمجھی تھی۔ اب وہ ایک ریاستی دھڑے اور امریکی آشیرباد سے جمہوریت کی نعرے بازی اور غربت اور مہنگائی کے خلاف تحریک چلانے کی بڑھک بازیوں سے کم ازکم اس سطح کی سماجی حمایت جیتنے کی کوشش کر رہی ہے جس کی بنا پر لین دین کو بطور احسن پایہ تکمیل تک پہنچایا جا سکے۔ مگر اس سے قبل اس قسم کی نعرے بازی سے اور جیل میں رہنے کے باوجود نوازشریف سماجی حمایت یا مزاحمت حاصل کرنے میں بری طرح ناکام ہو چکا ہے۔ اصل میں حکمران طبقے کے یہ تمام مختلف چہرے یہ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ اب وقت اور عوامی شعور کا مزاج یکسر تبدیل ہو چکا ہے۔ اب محض نعرے بازی کر کے بھیڑ بکریوں کی طرح پیچھے لگانا قدرے مشکل ہو چکا ہے۔ خاص طور پر بدعنوانی اور لوٹ مار کے دفاع کی کوشش میں لہجے اور زبان کا تصنع بھی چھپائے نہیں چھپتا۔ ہم نے حال ہی میں دیکھا کہ انڈیا کے ساتھ ایک مختصر دورانیے مگر شدید نوعیت کی حالت جنگ یا کسی حد تک جنگ کی کیفیت میں بھی قومی سطح پرحب الوطنی کے چورن کی مانگ میں زیادہ اضافہ نہیں ہو سکا تھا۔ اس تمام تر تجزیئے سے یہ نتیجہ قطعاً اخذ نہیں کرنا چاہیے کہ ان مذکورہ بالا تمام تر پارٹیوں میں سے کوئی بھی دوبارہ برسراقتدار نہیں آ سکتی۔ ظاہر ہے کہ جب تک یہ نظام موجود ہے اور عوام کے پاس بھی کوئی دوسرا متبادل نہیں ہے تو حکومت کی کوئی نہ کوئی شکل تو بہرحال موجود رہے گی۔ البتہ کسی ایک پارٹی کا مضبوط اقتدار خارج از امکان قرار دیا جا سکتا ہے۔ اس حکومت کا زیادہ چلنا مشکل سے ناممکن ہوتا جا رہا ہے۔ اس کے بعد بننے والی کوئی بھی حکومت عوامی طاقت کی بجائے سامراجی آقاؤں کی خوشنودی پر ہی انحصار کرنے پر مجبور ہو گی۔ عوام نجکاری کے خلاف ابھرنے والی لڑائیوں کے ساتھ ساتھ مہنگی تعلیم اور روزگار وغیرہ کے لئے غریب طلبہ اور نوجوانوں کی لڑائیوں میں مقداری حوالے سے زیادہ سے زیادہ دلچسپی لینے لگے ہیں۔ ایسے میں موجودہ یا کسی بھی آنے والی حکومت کی طرف سے ریاستی جبر تحریک کو پسپا کرنے کی بجائے متحد کرے گا۔ احتجاج کرنے والوں پر تشدد یا مقدمات بین الادارہ جاتی طبقاتی اتحاد میں وسعت اور اعتماد پیدا کرتے ہوئے 1968ء سے بھی بڑی انقلابی بغاوت کی راہ ہموار کر رہے ہیں۔ اسی مسلسل بڑھتے ہوئے اتحاد سے ایک عام ہڑتال کا سیاسی ظہور ہو گا جو ایک نئے سیاسی معمول کا نقطہ آغاز ہو گا۔ انقلابی قیادتیں ایسے ہی معروض کی کوکھ سے جنم لیا کرتی ہیں۔