تحریر: |عدیل زیدی|
پاکستان میں پچھلے کئی سال سے توانائی کے شدید بحران کے ہونے کی باتیں ہوتی چلی آ رہی ہیں، ہر حکومت اور ہر سیاسی جماعت اس مسئلہ کے انتہائی بہترین حل دے کر بڑے بڑے دعوے بھی کرتی چلی آ رہی ہے۔ لیکن یہ مسائل ہیں کے حل ہونے کا نام ہی نہیں لیتے، ایک عام آدمی کے ذہن میں یقینی طور پر یہ سوال تو ابھرتے ہوں گے کہ کیا یہ مسائل ناقابلِ حل ہیں یا یہ مسائل حل کرنے میں ہمارے حکمران سنجیدہ ہی نہیں ہیں اور نتیجہ اکثریت کا حکمرانوں کی سنجیدگی پر شک ہی نکلتاہے، اور یہ کافی حد تک صحیح بھی ہے۔ پاکستان کا حکمران طبقہ کبھی بھی یہ اہلیت رکھتا ہی نہیں تھا کہ پاکستان کو ایک جدید سرمایہ دارانہ ریاست بنا سکتا، یہاں کا حکمران طبقہ اپنی آمدنی کو برقرار رکھنے کے لئے وقتی بنیادوں پر لائحہ عمل بنا کر ہی کام چلاتا رہا ہے اور اس سے زیادہ کچھ کرنے کی اہلیت بھی نہیں رکھتا۔
ماضی میں سرمایہ دارانہ ریاستوں نے سرمایہ دارانہ نظام کے بہتر عہدوں میں نظام کو سہارا دینے کے لئے سرکاری طور پر توانائی کے شعبہ میں بڑے پیمانہ پر سرمایہ کاری کی اور سرمایہ دارانہ صنعتوں کو کم قیمت بجلی اور دوسری سہولیات دیں تاکہ قومی سرمایہ دار طبقہ پروان چڑھ سکے۔ پاکستان میں سرمایہ داری کسی انقلابی بنیادوں پر نہیں بلکہ سامراجی بنیادوں پر آئی تھی اس وجہ سے پاکستانی حکمران طبقہ کبھی اس قابل نہیں تھا کہ سرکاری بنیادوں پر اس حد تک بھی سرمایہ کاری کروا سکتا۔ اور پھر70ء کی دہائی میں شروع ہونے والے سرمایہ دارانہ نظام کے عالمی بحران کے نتیجے میں عالمی حکمران طبقے نے نیولبرل پالیسی وضع کی، جس کے دو بنیادی نقاط تھے، جن میں پہلا مقابلہ بازی میں اضافہ، جس کے لئے ملکی منڈی کو عالمی مقابلہ بازی کے لئے کھولا گیا یعنی ایک آزاد عالمی منڈی بنانے کی طرف قدم بڑھایا گیا۔ دوسرا ریاست کا ملکی معاملات میں کم سے کم کردار، جس کے حصول کے لئے سرکاری اداروں کی نجکاری کی گئی۔
پاکستانی حکمران طبقے نے اپنے سامراجی آقاؤں کی اطاعت میں 1990ء کی دہائی میں یہی پالیسی یہاں بھی نافذ کی اور سرکاری سطح پر بجلی کے منصوبوں کی تعمیر کا عمل روک دیا گیا اور IMF، ورلڈ بینک اور ایشیائی ترقیاتی بینک کی طرف سے پن بجلی کے منصوبوں کے لئے ملنے والے قرضے بھی بند کر دیئے گے۔ پاکستان میں توانائی کی ضرورت پوری کرنے کے لئے بڑے پن بجلی کے منصوبے ناگزیر تھے لیکن نجی شعبہ کبھی بھی اتنی بڑی سرمایہ کاری نہیں کر سکتا کیونکہ سرمایہ کو بہت عرصہ پھنسا کر رکھنے سے منافع حاصل کرنے میں دقت ہوتی ہے۔ نتیجتاً پاکستان میں نجی شعبہ میں بجلی کے منصوبے لگنے شروع ہوئے۔ جو چھوٹے چھوٹے بجلی گھر لگائے گئے وہ بھی درآمد شدہ تیل پر چلنے والے پاور پلانٹس۔ ان بجلی بنانے والی نجی کمپنیز (IPPs) کے ساتھ کئے گئے معاہدے بھی یہاں کے حکمران طبقہ کے خصی پن کو عیاں کرتے ہیں جن میں بے پناہ زیادہ ریٹس اور پاور پلانٹ چلے یا نہ چلے انسٹالڈ کپیسیٹی کا کم سے کم 60فیصد کا بل ادا کرنا حکومت کی مجبوری تھا۔ اس صورتِ حال میں مزید مسائل حکومتی اور ریاستی اداروں کے وقت پر بل نہ ادا کرنے کی وجہ سے پیدا ہوئے، جو کہ گردشی قرضے کی صورت میں عوام کے سر پر مسلط کئے گئے اور اس بہانے کو بجلی کے اصل بحران کو چھپانے کے لئے استعمال کیا گیااور بعد میں بجلی کا بحران تو وہی رہا لیکن گردشی قرضے قابل ادا ہو گئے۔
انہی سامراجی آقاؤں کے اسرار پر واپڈا کے بھی ٹکڑے کر کے ڈسٹری بیوشن اور پروڈکشن کمپنیوں میں تقسیم کر دیا تاکہ ان کی نجکاری آسان ہو جائے۔ واپڈا کا سسٹم ایک قومی گرڈ ہے جو کہ سب سے بہتر سنٹرلی پلان ہو سکتا ہے مگر الگ الگ کمپنیاں بنا کر سسٹم کو برباد کر دیا گیا ہے۔ آج پھر حکومت نئے بجلی کے منصوبے لگانے میں پوری طرح سے مصروف ہے اور بجلی کے منصوبہ پھر سے درآمدی کوئلہ اور لیکویڈنیچرل گیس (LNG) پر مبنی ہیں، جس میں کوئلہ چین سے اور گیس قطر سے درآمد کی جائے گی اور یہ پھر سے پہلے کی ہوئی غلطی کو انتہائی فخر سے دہرانے جا رہی ہے۔ اصل میں ان تمام تردرآمدی خام مال کے استعمال میں حکمرانوں کو دو قسم کے فائدے ہوتے ہیں، ایک تو یہ کے ان کے سامراجی آقا جن سے یہ خام مال درآمد کر رہے ہوتے ہیں ان کو بھی خوش کر لیتے ہیں اور اس کام سے اچھے خاصے کمیشن بھی حاصل کر لیتے ہیں۔
نجی شعبہ میں کسی بھی سرمایہ کاری کا حتمی مقصد منافع حاصل کرنا ہوتا ہے نہ کہ لوگوں کی ضرورت پوری کرنا یعنی بجلی بنا کر انہیں ہی دی جائے گی جو خرید سکتے ہوں اور باقی سب کے لئے لوڈشیڈنگ۔ اس کی ایک مثال ہمارے سامنے کے الیکٹرک (K-Electric) کی ہے جو کہ ایک نجی کمپنی ہے، ان علاقوں میں زیادہ لوڈ شیڈنگ کرتی ہے جہاں سے بل پورا نہیں آتا اور یہ اکثریت غریب علاقے ہی ہیں جو پورا بل دینے کی حیثیت نہیں رکھتے۔ اسی وجہ سے یہاں جو بجلی بنانے کے منصوبے بھی لگائے جا رہے ہیں وہ بھی ایسی چیزوں کے ہیں جو آج سے کئی دہائیاں پرانی ٹیکنالوجی پر مبنی ہے جس میں کوئلے، تیل اور LNG کے منصوبے سرفہرست ہیں ، جن کو تھرمل پاور پلانٹ بھی کہا جاتا ہے، ان بجلی گھروں میں مستقل خام مال کے استعمال سے مسلسل خرید وفروخت جاری رہتی ہے اور منافعے بنتے رہتے ہیں، جبکہ کچھ ہی عرصہ پہلے وہ رینیوایبلز(Renewables) جن میں سورج اور ہوا سے بجلی بنانے والے منصوبوں کی قطار لگا رہے تھے، لیکن اس میں کوئی حیرت کی بات نہیں کہ یہ کام روکنا پڑا کیونکہ اس کے جو ریٹس سرکار کی طرف سے دیئے گئے تھے وہ انتہائی زیادہ تھے اور ان کا جواز دینا بہت مشکل ہو جاتا۔ اس وجہ سے مجبوراً ان ریٹس کو کم کرنا پڑا اور نا صرف ریٹس کو کم کرنا پڑا بلکہ اکثریت منصوبوں کو جبراً ختم بھی کرنا پڑا، سوائے چند خاص لوگوں کے منصوبوں کے، جن سے قربت زیادہ تھی۔ حکمتِ عملی کی اس تبدیلی پرنظر ڈالی جائے تو رینیوایبلز پر ایک بار ہی سرمایہ کاری کرنی ہوتی ہے اس کے بعد اس میں مزید خرچہ انتہائی کم ہوتا ہے، جس وجہ سے اس کا خرچہ لمبے عرصہ میں کم ہوتا چلا جاتا ہے۔
حکومتی دعوے جو مرضی ہوں، لیکن ایک چیز بہت واضح ہے کہ آج کے عہد میں سرمایہ داری کا بحران اپنی شدت میں اضافہ کرتا جا رہا ہے اور دنیا کے کسی بھی ملک میں سرمایہ دارانہ بنیادوں پر سماج کی بھاری اکثریت کی زندگیوں میں کسی قسم کی بہتری ناممکن ہے۔ بنیادی طور پر منافع کا سماجی بہتری سے تضاد ہے یعنی اگر حکومت پانی کا سسٹم بہتر کر دے تو نیسلے کے پانی کو کون خریدے گا، اور اگر حکومت صحت، تعلیم، سفری سہولیات اور بجلی جیسے شعبوں میں بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری کرے توان شعبوں میں نجی کمپنیوں کے منافع تو ختم ہو جائیں گے کیونکہ حکومت منافع حاصل کئے بغیر عوام کو بہت بہتر اور سستی سہولیات فراہم کر سکتی ہے لیکن نجی کمپنیاں صرف اسے ہی سہولت دیتی ہیں جو کہ اس کی قیمت دینے کا اہل ہو۔ لیکن آج سرمایہ داری میں رہتے ہوئے صرف ان سہولیات کو قومی تحویل میں لیتے ہوئے بھی حکومتیں عوام کو فائدہ نہیں پہنچا سکتیں کیونکہ سرمایہ داری آج اپنے زوال میں ریاست کو اتنی طاقت نہیں دے سکتی کے وہ عوام کو یہ سہولیات دے سکے۔ یہ تمام مسائل صرف اور صرف ایک منصوبہ بند سوشلسٹ معیشت میں ہی حل ہوسکتے ہیں، یعنی تمام تر وسائل پر محنت کشوں کا جمہوری اجتماعی کنٹرول ۔