|تحریر: عدیل زیدی|
عہد حاضر میں توانائی کا شعبہ کسی بھی ملک کی معاشی ترقی میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔ توانائی کے شعبے میں ایک اہم شعبہ بجلی کی پیداوار اور تقسیم کار کا نظام ہے خاص کر جب بجلی سے چلنے والی گاڑیوں اور پبلک ٹرانسپورٹ نے فاسل فیولز کے استعمال کا متبادل بھی پیش کر دیا ہے اور اس ضمن میں پوری دنیا میں سنجیدگی سے کام ہو رہا ہے۔ جبکہ ہم پاکستا ن میں دیکھتے ہیں کہ بجلی کے شعبے کے مسائل میں کئی دہائیوں سے کوئی کمی نہیں آئی، بلکہ اس شعبے کے مسائل میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ کبھی تو بجلی ملتی ہی نہیں ہے اور جب ملتی ہے تواتنی مہنگی کہ عام شہری اس کو استعمال نا کرنے میں ہی اپنی عافیت سمجھتا ہے۔ لیکن تمام سیاسی پارٹیوں اور میڈیا پر بیٹھے بھاڑے کے دانشور جب بجلی کے موضوع پر بات کرتے ہیں تو وہ صرف اور صرف گردشی قرضوں کے بڑھ جانے کا ذکر کرتے ہیں اور ان کو جلد از جلد اتارنے کی بات کرتے ہیں کیونکہ آئی ایم ایف نے یہ احکامات جاری کئے ہیں کہ بجلی کی قیمت بڑھائی جائے تاکہ گردشی قرضوں کی ادائیگی میں تعطل نہ ہو اور ادائیگی مسلسل ہوتی رہے۔ ان ضمیر فروش دانشوروں میں سے کوئی بھی اس مسئلے کی جڑ یعنی سرمایہ داروں کی منافع خوری اور عالمی مالیاتی اداروں کی عوام و مزدور دشمن پالیسیوں پر بات کرنے کی ہمت نہیں کرتا۔ بجلی کے بحران کوحقیقی معنوں میں سمجھنے کے لئے لازمی ہے کہ مسئلے کو جڑ سے پکڑا جائے۔ 80ء کی دہائی کے اواخر میں آئی ایم ایف اور ورلڈ بنک کے حکم پر پاکستان کی حکمران اشرافیہ کی بجلی کے شعبہ کی بتدریج نجکاری کی پالیسی پرعمل درآمدگی کا آغاز کیا گیا، جس میں بینظیر بھٹو کی قیادت میں پیپلز ہارٹی کی حکومت پیش پیش تھی۔
نیشنل ٹرانسمیشن اینڈ ڈیسپیچ کمپنی (NTDC) کی 2022ء کی رپورٹ کے مطابق پاکستان میں 1996ء میں MW 11063 بجلی کی پیداواری صلاحیت موجود تھی جو کہ مکمل طور پر ریاستی ملکیت میں پیدا کی جارہی تھی۔ لیکن تیز ترین نجکاری اور ڈی ریگولیشن کا نتیجہ یہ نکلا کہ صرف ایک سال یعنی 1997ء تک بجلی کی 37 فیصد پیداوار آئی پی پیز کے ذریعے نجی شعبہ کر رہا تھا۔ اور اگلے بیس سالوں میں بڑھاتے بڑھاتے یہ شرح 2017ء میں 55 فیصد پر پہنچ گئی۔ 2021ء میں بجلی کی پیداواری صلاحیت MW 34,822 تک تو پہنچ گئی لیکن اس کا 62 فیصد سے زائد نجی شعبے کے پاس ہے اور اس کو یہاں تک پہنچانے میں پچھلے تیس سالوں میں آنے والی تمام حکومتوں نے اپنا یکساں عوام و مزدور دشمن کردار ادا کیا ہے۔ مزید یہ بھی یاد رہے کہ زیادہ تر پن بجلی گھروں کی ملکیت آج بھی ریاستی تحویل میں ہے جو کہ بجلی بنانے کا ایک سستا لیکن کم منافع بخش ذریعہ ہے، لیکن دریاؤں میں سارا سال پانی کی مقدار ایک جیسی نہ ہونے کی وجہ سے پن بجلی گھروں کی پوری پیداواری صلاحیت سے استفادہ نہیں کیا جاسکتا اور نجی شعبہ میں موجود بجلی گھر فوسل فیول یعنی تیل،کوئلہ اور گیس پر چلتے ہیں جوکہ مہنگے اور زیادہ منافع بخش ہوتے ہیں اوران کی پیدا واری صلاحیت کو سارا سال مرضی سے استعمال کیا جا سکتا ہے جس وجہ سے بجلی کی حقیقی پیدا وار عموماً 85 فیصد نجی شعبے میں ہو رہی ہوتی ہے۔ مزید یہ بھی یاد رہے کہ بیشترنجی کمپنیوں سے ہونے والے حکومتی معاہدوں کے مطابق ان میں بجلی کی پیداوار ہو یا نہ ہو حکومت (درحقیقت عوام کو) ان آئی پی پیز کی پیدا واری صلاحیت کے 60 فیصدکے برابر قیمت (کیپیسٹی پیمنٹس) ادا کرنی لازمی ہے۔ کیپیسٹی پیمنٹس کے نام پر ہونے والی یہ کھلی لوٹ مار، جس میں ملکی وعالمی سرمایہ داروں سمیت تمام سیاسی جماعتوں کے معززین بھی شامل ہیں، گردشی قرضوں کے نہ ختم ہونے والے گرداب کا بنیادی کارن ہیں۔ مزید برآں پاکستان میں بڑے صنعتکاروں اور فوج جیسے ریاستی اداروں کو حکومتی سطح پر بجلی کی مد میں بے تحاشہ سبسڈیز دی جاتی ہیں، جو پھر گردشی قرضے کا حصہ بن جاتی ہیں جس کی ادائیگی کے لئے عوام پر مہنگی بجلی کی صورت میں بوجھ مسلسل بڑھایا جا رہا ہے۔ حالیہ عرصے میں بجلی کے مہنگے ہونے کی ایک اور اہم وجہ روپے کی قدر میں مسلسل کمی بھی ہے جس کی وجہ سے ان بجلی گھروں میں استعمال ہونے والے درآمد شدہ ایندھن کی قیمت میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔لیکن یہاں یہ بتانا ضروری ہے کہ حکومت معاہدوں کے تحت ان نجی پاور کمپنیوں کو ایندھن درآمد کرنے پر امپورٹ ڈیوٹی پر چھوٹ دیتی ہے جس کی بدولت ان کمپنیوں کو خاصی بچت ہوتی ہے اور چونکہ انہیں تو بجلی کی پیداوار کئے بغیر ہی کیپیسٹی پیمنٹس کے نام پر حکومت سے پیسے مل ہی جانے ہوتے ہیں تو یہ ڈیوٹی کی چھوٹ کیساتھ درآمد کردہ ایندھن کو آئل مارکیٹنگ کمپنیوں کو نسبتاً سستے ریٹ پر فروخت کر کے بھاری منافعے کماتی ہیں۔
اب ایک طرف تو عوام بجلی کی بڑھتی قیمتوں اور لوڈ شیڈنگ سے پریشان ہیں تو دوسری طرف واپڈا میں کام کرنے والے محنت کشوں کی زندگیاں بھی کوئی سکون میں نہیں ہیں۔ واپڈا میں ورک فورس کی شدید کمی اور تنخواہوں میں مہنگائی کے تناسب سے کوئی اضافہ نہ ہونا، اس بڑھتے معاشی بحران میں ان کی زندگیوں کو جہنم بنا رہا ہے۔ اس کے علاوہ کام کے لئے حفاظتی سامان اوربکٹ کرین جیسی بنیادی سہولیات نہ ہونے کی وجہ سے لائن مینوں کی آئے روز اموات ہو رہی ہیں جس پر نا تو کوئی بھاڑے کا دانشور بات کرتا ہے اور نا ہی کسی سیاسی پارٹی کا لیڈر، جن کے لئے یہ محنت کش کیڑے مکوڑوں سے زیادہ اہمیت نہیں رکھتے۔ مزید یہ کہ واپڈا میں کئی سالوں سے بڑی تعداد میں پارٹ ٹائم، ایڈہاک، ڈیلی ویجز اور کنٹریکٹ ملازمین مستقل ملازمت کے انتظار میں ہیں اور یہ سب ایسے حالات میں ہو رہا ہے جب واپڈا کے تمام کاموں کو احسن طریقے سے انجام دینے کے لئے مزید ورک فورس کی اشد ضرورت ہے۔ واپڈا ورکرز کے مسائل کی فہرست یہاں ختم نہیں ہوتی لیکن اصل کام ان مسائل کی جڑ کو سمجھنا ہے، جو کہ 80ء کی دہائی میں نجکاری کی پالیسی کو رفتہ رفتہ نافذ کرنے کے عمل میں ہی پیوست ہے۔ جس طرح بجلی کی پیدا وار کو نجی شعبے میں دیا گیا اسی طرح بجلی کی تقسیم کار کمپنیوں کو بھی آہستہ آہستہ کر کے نجکاری کی بھینٹ چڑھانے کا عمل شروع کیا گیا ہے۔ اس کا آغاز واپڈا جیسے عوامی ادارے کو ”منافع بخش“ بنانے کے مقصد سے واپڈا کی اکائی کو توڑ کر اسے متعد د کمپنیوں میں تقسیم کر دیا گیا۔ اس میں سے گیارہ ڈیسکوز (DISCO) یعنی بجلی کی تقسیم کار کمپنیاں بھی شامل ہیں اور بیس سے پچیس سال کے عرصے سے جاری لبرلائزیشن کے عمل کے نتیجے میں آج ان کمپنیوں کو بورڈ آف ڈائریکٹرز (BOD) کے ماتحت چلایا جا رہا ہے جن میں متعد د کاروباری افراد بھی شامل ہوتے ہیں اور فوج کے ریٹائرڈ جرنیل بھی۔ یعنی بنیادی طور پر اب ان کمپنیوں کو ایک نجی کمپنی کی طرح ہی چلایا جا رہا ہے جس کا بنیادی مقصد منافع کمانا ہی ہے اور منافع بڑھانے کے طریقوں میں سے ایک بنیادی طریقہ کم سے کم محنت کشوں سے زیادہ سے زیادہ کام لینا ہے اور دوسرا طریقہ کم سے کم خرچہ کر کے (جس میں ملازمین کی اجرت اور حفاظتی سامان سے لیکر انفراسٹرکچر کے اخراجات تک سب شامل ہیں) زیادہ سے زیادہ آمدن کمانا ہے۔
اس تمام صورت حال کو دیکھتے ہوئے ایک بات تو بالکل واضح ہے کہ واپڈا کے مسائل کی بنیادی وجہ بجلی کے شعبے کی نجکاری ہے۔ لیکن یہ بھی سمجھنے کی ضرورت ہے کہ سرمایہ دارانہ نظام ایک عالمی بحران میں دھنستاجا رہا ہے اور اگر سرمایہ دارانہ نظام کے اندر رہتے ہوئے نجی بجلی گھروں کو ریاستی تحویل میں لے بھی لیا جائے،جو کہ بلاشبہ ایک بہتر اقدام ہو گا، لیکن تب بھی یہ مسائل مکمل طور پر حل نہیں ہو سکیں گے۔ اس عہد میں ان مسائل کو حل کرنے کے لیے ایک منصوبہ بند سوشلسٹ معیشت کی ضرورت ہے، جس میں فیکٹریوں،ملوں،بنکوں،جاگیروں اور معدنی وسائل سمیت دولت پیدا کرنے والے تمام ذرائع پیداوار کو محنت کشوں کی اجتماعی ملکیت اور جمہوری کنٹرول میں لا کر منافع خوری کا مکمل خاتمہ کیا جائے گا اور معیشت کو منافع خوری کے لئے نہیں محنت کش عوام کے مفادات اور ضروریات کے تحت چلایا جائے گا۔ وہ بجلی گھر بنائے جائیں گے جن سے سستی ترین بجلی بنائی جائے اور منافعے کے لئے نہیں بلکہ ضرورت کے مطابق پیداوار کی جائے گی اور اس کے نتیجے میں جو آمدن ہو گی اسے بجلی کے مزدوروں کی فلاح و بہبود پر خرچ کیا جائے گا۔ ورک فورس کی تعداد کا تعین بھی مزدور ہی کریں گے اور اپنے ادارے کو بھی وہ اپنی جمہوری طور پر منتخب کردہ کمیٹیوں کے ذریعے کسی افسر شاہی کے بغیر خود ہی چلائیں گے۔ مزید برآں ہر شخص کو مستقل ملازمت، رہائش، صحت اورتعلیم جیسی بنیادی ضروریات مہیا کرنا مزدور ریاست کی ذمہ داری ہوگی۔ لیکن یہ سوشلسٹ تبدیلی صرف ایک مزدور انقلاب کے نتیجے میں ہی برپا ہو سکتی ہے جس کے لئے نہ صرف واپڈا بلکہ ملک بھر کے تمام محنت کشوں کو طبقاتی بنیادوں پر متحد ہوتے ہوئے ایک ملک گیر احتجاجی تحریک اور عام ہڑتال کی تیاری کرنا ہو گی۔