|تحریر: آدم پال|
حکمران طبقے کی سیاست کو عوام پر مسلط کرنے کے لیے تمام لوازمات مکمل کیے جا رہے ہیں۔ 8 فروری کو انتخاب کی رسم ادا کر دی جائے گی جس کے بعد عوام دشمن قوتوں کا ٹولہ دوبارہ اقتدار پر مسلط ہو کر عوام کی کھال ادھیڑنے کے عمل کا آغاز کر دے گا۔ اس دوران نگران سیٹ اپ کے ذریعے اس کام کی نگرانی جاری رکھی جا رہی تھی۔
الیکشن کے گرد ہونے والی سیاست میں تمام پارٹیاں ہی حکمران طبقے کے مختلف دھڑوں کی نمائندگی کر رہی ہیں۔ تحریک انصاف سمیت تمام پارٹیاں انہی عالمی مالیاتی اداروں، سرمایہ داروں، جاگیر داروں، وڈیروں اور عوام دشمن قوتوں کی نمائندہ ہیں جو گزشتہ سات دہائیوں سے اس ملک کے عوام کا خون پیتی آئی ہیں۔ ان کے درمیان انتخابی نشان کی لڑائی ہو یا عدالتوں کے گھن چکر میں ایک دوسرے پر الزامات کی بوچھاڑ، ان کی تمام سیاست کا محور اور مقصد اس عوام دشمن سرمایہ دارانہ نظام کو قائم و دائم رکھنا اور حکمران طبقے کی لوٹ مار کو جاری رکھنا ہے۔ درحقیقت تمام پارٹیاں سٹیٹس کو کی نمائندہ ہیں اور کسی بھی صورت کسی انقلابی تبدیلی کی سخت دشمن ہیں۔
اس دنگل کے دوسرے فریق اور اصل پارٹی محنت کش عوام ہیں۔ جن کی اس وقت کوئی بھی نمائندہ جماعت میدان میں موجود نہیں اور جن کی پیدا کردہ دولت کو لوٹنے کے لیے حکمران طبقہ تمام تر پالیسیاں بناتا ہے اور اقتدار کی ہڈی کی لڑائی میں ایک دوسرے پر بھونکنے اور کاٹنے کے عمل کی بنیاد بھی وہی دولت ہے جس کو لوٹ کر اپنی جیبیں بھرنا اس الیکشن کے تمام امیدواروں کا واحد مقصد ہے۔
اس دوران اس ملک کے کروڑوں محنت کش اس تمام تر سرکس کو حیرت اور نفرت سے دیکھ رہے ہیں، جبکہ ان پر مہنگائی اور بیروزگاری کے کوڑے بھی مزید شدت کے ساتھ برسائے جا رہے ہیں۔ تحریک انصاف واویلا کر رہی ہے کہ اس کو انتخابی نشان نہیں دیا گیا اور یہ اس پورے عمل کے فراڈ اور بے ایمانی کو واضح بھی کرتا ہے۔ لیکن اس وقت اگر تحریک انصاف کے حمایتی اقتدار میں ہوتے تو اس نے دوسری پارٹیوں کے ساتھ بھی یہی سلوک کرنا تھا۔ پچھلے الیکشنوں میں بھی ایسے ہی ایک بہت بڑے فراڈ اور دھوکے کے ذریعے ہی اس پارٹی کو زبردستی اقتدار دلوایا گیا تھا اور انتخابی عمل میں انتہائی کم ٹرن آؤٹ کے باوجود جھوٹے اعدادوشمار دکھا کر اور جعلی ووٹوں کی بھرمار کے ذریعے تحریک انصاف کو مسند اقتدار پر بٹھایا گیا تھا۔ اس اقتدار کے دوران بھی عوام دشمن پالیسیوں کا وہی تسلسل جاری رہا جو گزشتہ کئی دہائیوں سے مسلط کی جا رہی تھیں۔ آئی ایم ایف کی غلامی سے لے کر سرمایہ دار طبقے کو نوازنے تک اور محنت کش عوام کو کچلنے تک تمام تر پالیسیاں وہی تھیں۔
اس دفعہ حکمران طبقے کا دوسرا دھڑا وہی حربے استعمال کرتے ہوئے اقتدار میں آئے گا اور پہلے سے کہیں زیادہ شدت سے عوام دشمن پالیسیاں مسلط کرے گا۔ اگر اس سارے عمل میں کوئی پارٹی مسنگ ہے یا جس کو حصہ لینے ہی نہیں دیا جاتا تو وہ محنت کش عوام ہیں۔ ان کا نہ تو کوئی حقیقی نمائندہ کسی پارٹی میں موجود ہے اور نہ ہی کسی طور پر بھی اقتدار کی دوڑ میں شریک ہے خواہ جیل سے ہی کیوں نہ ہو۔ اس ملک کے محنت کشوں کے انتخابی نشان بھی کسی سے ڈھکے چھپے نہیں لیکن وہ کسی بھی بیلٹ پیپر میں موجود نہیں ہوتے۔ ان محنت کشوں کا انتخابی نشان بھوک، بیماری اور ذلت ہے۔ ان کے لیے اس وقت روٹی سب سے بڑا انتخابی نشان ہے جس کو حاصل کرنے کے لیے وہ دن رات خون اور پسینہ بہاتے ہیں لیکن اس کے باوجود اپنے اور اپنے گھر والوں کے لیے یہ روٹی حاصل نہیں کر پاتے۔ ان کا انتخابی نشان کپڑا ہے جو کئی دفعہ تار تار ہو چکا ہے لیکن اسی چیتھڑے کو اپنا تن ڈھانپنے کے لیے ابھی بھی استعمال کرتے ہیں۔ ان کا انتخابی نشان مکان ہے جس کے بغیر ان کی پوری زندگی گزر جاتی ہے اور وہ در در کی ٹھوکریں کھاتے اس دنیا سے رخصت ہو جاتے ہیں۔ سخت سردی ہو یا سخت گرمی ان کے لیے ہر موسم ہی ناخوشگوار اور باعث اذیت ہوتا ہے۔ ان کا انتخابی نشان علاج اور تعلیم ہے، روزگار ہے جو اس ملک کے حکمرانوں نے ان سے چھین لیا ہے اور جسے حاصل کرنے کے لیے وہ دن رات مشقت کی چکی میں پستے رہتے ہیں لیکن اس کے باوجود اس کو حاصل نہیں کر پاتے۔
دوسری طرف اس ملک کی اشرافیہ ہے جس کے پاس تمام وسائل دستیاب ہیں اور وہ عیش و عشرت کی زندگی گزار رہے ہیں۔ کون سی ایسی شے ہے اور انتخابی نشان ہے جو ان کے پاس موجود نہیں۔ ہیروں سے لے کر سونے اور چاندی تک، لگژری گاڑیوں سے لے کر انواع اقسام کے کھانوں تک، عالیشان بنگلوں سے لے کر پرفضا مقامات پر سیاحت تک ان کے پاس دنیا کی ہر سہولت موجود ہے اور وہ اس پر تعیش زندگی کو جاری رکھنے کے لیے محنت کشوں کو موت اور خون کی دلدل میں دھکیلنے سے گریز نہیں کرتے۔
لیکن یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اس سب کو کیسے تبدیل کیا جا سکتا ہے؟ کیا الیکشن کے عمل سے اس طبقاتی تفریق پر کوئی فرق پڑتا ہے یا پھر حکمرانوں کی گماشتہ سیاسی پارٹیوں کا حصہ بن کر عوام کے مسائل حل کرنے کی جدوجہد کی جا سکتی ہے۔ اس کا جواب نفی میں ہے۔ اس وقت جتنی بھی سیاسی پارٹیاں ہیں وہ درحقیقت جرائم پیشہ افراد کے گروہ ہیں اور ان کا مقصد اپنے اپنے لیڈروں کی لوٹ مار میں اضافہ کرنا ہی ہے۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ موجودہ دور میں ان تمام سیاسی پارٹیوں میں موجود نام نہاد تمام تر سرگرم کارکنان اپنے حصے کی لوٹ مار کی غرض سے ہی ان پارٹیوں میں شامل ہیں۔ تحریک انصاف سے لے پیپلز پارٹی اور نون لیگ تک اور قوم پرست جماعتوں سے لے کر مذہبی پارٹیوں تک جتنے بھی سرگرم کارکنان اس الیکشن کمپئین میں نظر آئیں گے وہ کسی نہ کسی ذاتی مفاد کی غرض سے ہی موجود ہیں۔ ان کو امید ہے کہ ان کی پارٹی جب اقتدار میں آئے گی تو لیڈروں کی لوٹ مار میں سے کچھ نوالے ان کو بھی مل جائیں گے۔ کسی سڑک کا ٹھیکہ، کسی نوکری کو بیچنے کا کمیشن یا پھر اور کوئی ذاتی غرض ہی انہیں ان پارٹیوں میں سرگرمی کرنے کا تحرک دیتی ہے۔
آج بے غرض سیاست، ایمانداری اور نظریاتی سیاست جیسے لفظوں اور خیالات کا مذاق اڑایا جاتا ہے اور اگر کوئی ایسا شخص کہیں نظر بھی آجائے تو اسے بیوقوف کہا جاتا ہے۔”سیانے“ سیاسی کارکن وہی ہیں جو الیکشن کے دوران اپنے حلقے کے کسی امیدوار سے زیادہ پیسے بٹور لیں یا پھر بر سر اقتدار آنے والی پارٹی میں اپنا اونچا مقام بنا لیں تاکہ اقتدار میں آنے کے بعد زیادہ بڑے پیمانے پر لوٹ مار کر سکیں۔ ان پارٹیوں کے لیڈر بھی اس تمام کھیل کو بخوبی جانتے ہیں اور درحقیقت وہ اس مفادپرستی کے کھیل کے استادہیں اور ان کا کاروبار ہی سیاست سے پیسے کمانا اور لوٹ مار کرنا ہے۔ بلی چوہے کے اس کھیل میں لیڈروں کا مقابلہ دوسری پارٹیوں سے زیادہ اپنی ہی پارٹی کے افراد سے ہوتا ہے اور وہ اپنی ہی پارٹی کے کارکنان سے سب سے زیادہ خوفزدہ ہوتے ہیں۔ اسی طرح اس پارٹی کے نام نہاد کارکن بھی سب سے زیادہ چونا اپنے ہی لیڈر کو لگانے کی کوشش میں ہوتے ہیں۔ اس کھیل میں تحریک انصاف تو سب پر بازی لے جا چکی ہے۔ اس پارٹی کا لیڈر اپنے کارکنان کو فوجی تنصیبات پر حملے تک کرنے کے لیے اکساتا رہا اور ایک بغاوت پیدا کرنے کے لیے دن رات تقریریں کرتا رہا۔ لیکن جب اس کے ہزاروں کارکن گرفتار ہو گئے تو دیگر تمام لیڈروں کی طرح دبک کر گھر میں ہی بیٹھارہا اور کسی احتجاجی تحریک کو شروع نہیں کر سکا۔ دوسری جانب اس پارٹی کے کارکنان بھی سوشل میڈیا پر ہر ایک کے ساتھ بد تمیزی کرتے اور کان کھاتے نظر آتے ہیں لیکن جب لیڈر کی جانب سے احتجاجوں کی کال دی گئی یا جب ان کی اپنی ہی مقرر کردہ ریڈ لائن کراس ہو گئی تو انہوں نے کوئی بھی احتجاج نہیں کیا اور نہ ہی کوئی لانگ مارچ یا جلسہ جلوس منظم کیا۔
یہی صورتحال دیگر تمام پارٹیوں کی ہے جو ہوامیں معلق ہیں اورجن کی سماج کے کسی بھی حصے میں حمایت موجود نہیں اور وہ صرف اقتدار کی رسی کے ساتھ لٹکنے کی وجہ سے اور سامراجی طاقتوں اور اسٹیبلشمنٹ کی آشیر باد سے ہی موجودہیں۔ درحقیقت جب عوام کو اس سیاست کی جمع تقسیم سے مکمل طور پر نکال ہی دیا گیا ہے تو باقی پھر یہی کچھ ہی بچتا ہے۔ مفاد پرستی، دھوکہ دہی، فراڈ اور بے ایمانی۔ اور یہی سب آج کی سیاست کا اوڑھنا بچھونا ہے اور اس کے ذریعے نہ کوئی مسئلہ حل ہو سکتا اور نہ ہی کسی کو کوئی بھی امید ہے کے یہ سیاست ان کا کوئی بھی مسئلہ حل کرے گی۔
کسی بھی سیاسی تجزیے کو اٹھا کر دیکھ لیں اور سماج کے کسی بھی شعبے کے بارے میں کسی بھی کرائے کے دانشور کی گفتگو سن لیں عوام کی ایک فریق کے طور پر موجودگی کہیں بھی نظر نہیں آئے گی اور نہ ہی کسی پارٹی کی سرگرمی اور کارکردگی کو تجزیے کی بنیاد بنایا جائے گا۔ آئی ایم ایف کی پالیسیوں کے حوالے سے ہی گفتگو سن لیں۔ کسی بھی معاشی تجزیہ نگار، اینکرپرسن یا کالم نگار کو اٹھا لیں، کسی سیاسی لیڈر یا کرائے کے دانشور کو سن لیں تمام تر بحث کا مرکز اس سامراجی ادارے کی دلالی کے مختلف طریقوں پر غور و فکر ہی نظر آئے گا۔ دلالی کے لیے کون سا طریقہ زیادہ موزوں ہے، کون سا اقدام پہلے کرنا ہے اور کون سا بعد میں اس کے علاوہ کوئی اختلاف کہیں بھی نظر نہیں آئے گا۔ آئی ایم ایف کے احکامات ان کے لیے ایسے ہیں جیسے آسمان سے اترے ہیں اور ان سے کسی بھی صورت حکم عدولی نہیں کی جاسکتی۔ ان سب کی سوچ اتنی گھٹیا اور غلیظ ہو چکی ہے کہ ان کے ذہن میں کبھی غلطی سے بھی بغاوت اور آقا کے حکم کی رو گردانی کا خیال نہیں آتا۔ اس ساری بحث میں عوام کی حالت زار اور ان میں سلگتی ہوئی بغاوت کے امکان کا ذکر تک نہیں نظر آئے گا۔
آئی ایم ایف کی مسلط کردہ نجکاری اور بیروزگاری کے خلاف مزدوروں کی ایک ملک گیر تحریک برپا ہو سکتی ہے اور وہ اس حکمران طبقے کو للکار سکتی ہے، یہ خیال ان کی بحث کا حصہ نہیں۔ اگر حکمرانوں کی کسی میٹنگ میں یہ نکتہ زیر بحث آئے بھی تو اس پر شرکا کے لبوں پر ہلکی سی طنزیہ مسکراہٹ ہی آتی ہو گی کیونکہ ان کو اپنے نظام پر پر پورا بھروسہ ہے۔ اپنی پولیس، فوج، عدالتوں اور قوانین پر انہیں یقین ہے کہ وہ مزدوروں کی بغاوت پر قابو پا لیں گے۔ اسی طرح وہ یہ بھی جانتے ہیں کہ مزدور طبقے کی نمائندہ کوئی بھی سیاسی پارٹی نہیں لہٰذاجب تحریک ایک حد سے آگے بڑھے گی تو اسے اپنی پالتوسیاسی قیادتوں کے ذریعے قابو میں لے آئیں گے اور مزدور لیڈروں کو اپنے شکنجے میں کسنے کا ان کا تجربہ بھی بہت ہو چکا ہے۔ اگیگا (آل گورنمنٹ ایمپلائز گرینڈ الائنس) کے پلیٹ فارم سے پنجاب میں سرکاری ملازمین کی عظیم الشان حالیہ تحریک کے ساتھ بھی یہی کچھ کیا گیا تھا جب چند مہینے پہلے لاکھوں اساتذہ اور چھوٹے سرکاری ملازمین سڑکوں پر تھے لیکن تحریک کی قیادت مریم نواز شریف کے چرنوں میں بیٹھ کر اس تحریک کو بیچ آئی تھی۔ اس سے پہلے بھی ایسا کئی دفعہ ہو چکا ہے اور جب تک مزدور تحریک انقلابی نظریات سے لیس نہیں ہوگی ایسا باربار کیا جاتا رہے گا۔
اسی طرح بجلی یا گیس کے بلوں میں اضافہ ہو، مہنگائی کے بم پھاڑنے ہوں یا بیروزگاری کا عذاب مسلط کرنا ہوتمام تر فیصلوں میں عوام کی رائے کہیں بھی موجود نہیں ہوتی اور نہ ہی اسے اہم سمجھا جاتا ہے۔ عوام کو صرف رسی سے جھولتے ہوئے ایسے تکیے کے طور پر لیا جاتا ہے جو مکا بازی کے لیے پریکٹس کرنے کے کام آتا ہے اور جس کا کام بس مار کھانا ہی ہے، یہ واپس جواب نہیں دے سکتا۔ اس ملک کی خارجہ پالیسی کا بھی تمام تر تعین کرتے وقت عوامی رائے عامہ یا ان کے مفادات کا خیال رکھنے کی بجائے سامراجی طاقتوں کی گماشتگی اور اپنے کمیشن کو ہی سب سے زیادہ اہمیت دی جاتی ہے۔ اس ملک کو ڈالر جہاد کے لیے گروی رکھنا ہو یا پھر امریکی سامراج کی نام نہاد”دہشت گردی کے خلاف جنگ“میں ملک کا سودا کرنا ہو۔ افغان مہاجرین کو جبری طور پر بیدخل کرنا ہو اور ٹھٹھرتی سرد ی میں ان پر ظلم و جبر کے پہاڑ توڑنے ہوں یا بلوچستان میں فوجی آپریشنوں کے ذریعے ظلم برپا کرنے ہوں۔ یہ تمام فیصلے حکمران طبقے کے مفادات کے تحت ہی کیے جاتے ہیں اور اس ملک کے حکمرانوں کی جمع تقسیم میں کہیں بھی مظلوموں کی بغاوت کے ابھرنے کے امکانات کو کوئی اہمیت نہیں دی جاتی۔ اسی طرح کشمیر کی آزادی کے ترانے بنانے ہوں یا مود ی کے ساتھ سمجھوتے کے ذریعے اس کا سودا کرنا ہو، ان تمام فیصلوں میں عوام کی تحریکیں، ان کے مسائل اور ان کے حل کی جدوجہد حکمران طبقے کے لیے انتہائی ثانوی حیثیت رکھتے ہیں جنہیں وہ اپنے سامراجی آقاؤں کے ایماپر بآسانی کچل سکتے ہیں یا اپنی مرضی کے مطابق موڑ سکتے ہیں۔
الیکشن کے عمل میں بھی یہی کچھ دیکھا جارہا ہے۔ عوام کی بھرپور شمولیت کے بغیر ہی یہ نام نہاد”جمہوری“ عمل پایہ تکمیل تک پہنچ رہا ہے۔ حکمرانوں کی کوشش ہے کہ عوام کی شمولیت اس عمل میں کم سے کم ہی رہے اور وہ اپنی مرضی کے نتائج جتنی آسانی کے ساتھ مسلط کر سکیں اتنا ہی بہتر ہے۔ اسی لیے الیکشنوں کے انعقاد کو بھی مسلسل کنفیوژن میں رکھا گیا ہے۔ کبھی سینٹ میں قرار دادیں پیش کروائی جاتی ہیں تاکہ یہ تاثر قائم رہے کہ الیکشن کسی بھی وقت ملتوی ہو سکتے ہیں، کبھی عدالتوں کے مختلف ججوں کے ذریعے ایسے فیصلے کروائے گئے ہیں اور کبھی الیکشن کمیشن کا عملہ یہ کام کرتا نظر آتا ہے۔ اس کھیل کا مقصد عوام کی اس عمل میں شمولیت کو کم ترین سطح پر رکھنا ہے۔ اسی طرح ملک میں خراب حالات اور دہشت گردی کے خطرات کا بہانہ بنا کر عوامی تحریکوں کو خوفزدہ کرنے کا حربہ اب کافی پرانا ہو چکا ہے۔ پہلے بھی کئی دفعہ دیکھا جا چکا ہے کہ عوامی تحریکوں میں دہشت گردی کے واقعات تو ہوتے نظر آتے ہیں یا انہیں دھمکیاں دی جاتی ہیں لیکن اسی دوران جرنیلوں کی آشیرباد سے موجود سیاسی پارٹیوں کی سرگرمیاں جاری رہتی ہیں۔ ان الیکشنوں سمیت پچھلے تین سے چار الیکشنوں میں یہ حربہ انتہائی مہارت سے استعمال کیا گیا ہے تاکہ عوام کو اس فراڈ زدہ سیاست سے بھی دور ہی رکھا جائے اور انہیں یہ باور کروایا جائے کہ ان کا کام سیاست کرنا نہیں بلکہ دن رات کولہو کے بیل کی طرح مشقت کی چکی میں پسنا ہی رہ گیا ہے۔ لیکن حکمرانوں کے تمام تر ہتھکنڈوں کے باوجود عوامی تحریکوں کو ابھرنے سے نہیں روکا جا سکتا۔
اس وقت حکمرانوں کی مسلط کردہ بد بودار سیاست کے مقابلے میں ایک نئی، تازہ دم اور خوشگوار سیاست کا جنم ہو رہا ہے اور یہ سلسلہ پورے ملک میں پھیلتا چلا جا رہا ہے۔ گوادر میں ماہی گیروں کی عظیم الشان تحریک سے لے کر گلگت بلتستان میں گند م سبسڈی کے خاتمے کے خلاف عوامی تحریک تک لاکھوں لوگ اپنے حقیقی مسائل کے لیے احتجاج کر رہے ہیں اور حکمران طبقے کو گریبان سے پکڑ کر گھسیٹنے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ اس وقت ملک میں بلوچوں کی ایک شاندار عوامی تحریک موجود ہے جو بلوچستان سے لے کر کراچی اور جنوبی پنجاب تک اپنے جھنڈے گاڑ چکی ہے اور پورے ملک کے عوام سے یکجہتی حاصل کر چکی ہے۔ اس تحریک کی حمایت نے تمام تر قومی تعصبات کا پردہ چاک کر دیا ہے اور اس تحریک کو پنجاب سمیت ملک کے تمام حصوں سے عوام کی بھرپور یکجہتی اور حمایت ملی ہے۔ حکمران طبقے کے اس تحریک کی خلاف قومی تعصب کے زہریلے پراپیگنڈے اور ان مظلوم خواتین کو دہشت گرد ثابت کرنے کی تمام کوششیں رائیگاں گئی ہیں اور عوام نے ان گماشتہ اینکروں اور تجزیہ نگاروں کے بھاشن رد کرتے ہوئے اسلام آباد میں دھرنے پر بیٹھی مظلوم خواتین کے مؤقف کو درست تسلیم کرتے ہوئے ان کی حمایت کا اظہار کیا ہے۔
ان تمام تحریکوں میں واضح طور پر نظر آرہا ہے کہ لاکھوں کی تعداد میں عوام فوری مسائل کے گرد حرکت میں آ رہے ہیں اور یہ جان چکے ہیں کہ ان مسائل کے حل کے لیے انہیں خود سے احتجاج کرنا پڑے گا اور تحریک کو منظم کرنا پڑے گا۔ حکمرانوں کی تعفن زدہ سیاست سے انہیں کوئی امید نہیں اور کسی بھی سیاسی لیڈر سے انہیں کوئی توقع نہیں۔ ان تمام تحریکوں میں کہیں بھی حکمران طبقے کی انصاف دشمن عدالتوں سے رجوع کرنے کا سوال سامنے نہیں آیا بلکہ خود عدالتیں ان تحریکوں سے خوفزدہ نظر آتی ہیں۔ اسلام آباد میں دھرنے میں بیٹھی بلوچ خواتین کو انہی کے صوبے سے تعلق رکھنے والا چیف جسٹس اپنی عدالت میں بلانے سے خوفزدہ تھا۔ اور جہاں وہ سارا دن وکیلوں اور سائلین کو تھانیدار کی طرح ڈانٹ ڈپٹ کرتا نظر آتا تھا وہاں ان بے یا ر و مددگا رخواتین کا سامنا کرنے سے خوفزدہ تھا اور ان سے منہ چھپاتا پھرتا تھا۔
یہ صورتحال دیگر تمام تحریکوں کی بھی ہے۔ ان تحریکوں میں یہ بھی نظر آ رہا ہے کہ محنت کش طبقے کا شعور بہت سے اہم نتائج اخذ کر چکا ہے اور اب ایک معیاری جست کی جانب بڑھ رہا ہے۔ نہ صرف حکمرانوں کی سیاست کے عوام دشمن کردار پر یہ تمام تحریکیں متفق ہیں بلکہ اس سرمایہ دارانہ ریاست اور اس کے تمام اداروں کے حوالے سے ان تحریکوں میں بلند شعور نظر آیا ہے اور وہ کسی بھی ادارے کی حاکمیت پر یقین نہیں رکھتیں۔ سب سے ایڈوانس شکل ہمیں نام نہاد آزاد کشمیر میں نظر آتی ہے جہاں ریاست کی رٹ کو ہی چیلنج کر دیا گیا ہے اور بجلی کے بل جمع کروانے سے انکار کر دیا گیا ہے۔ بجلی کے بلوں کو ہر مہینے ایک مقامی کیمپ میں جمع کر کے آگ لگا دی جاتی ہے یا دریا برد کر دیا جاتا ہے یا مٹی کے نیچے دفن کر دیا جاتا ہے۔ حکمرانوں نے اس عمل پر غداری کے مقدمات بھی قائم کیے اور بجلی کے بلوں کو ریاستی تنصیبات جیسا تقدس بھی دینے کی کوشش کی لیکن عوامی تحریک کے آگے یہ سب اقدامات خس و خاشاک کی طرح بہہ گئے۔ چھ ماہ سے زیادہ عرصے سے جاری اس تحریک سے عوام نے جو تجربات حاصل کیے ہیں وہ ان کا قیمتی اثاثہ ہیں اور آنے والے عرصے میں اس سے بھی زیادہ بلند پیمانے پر شعور ی سطح اور اس کے مطابق سیاسی عمل ہوتا ہوا نظر آئے گا۔ پہلے ہی عوامی ایکشن کمیٹیوں کا قیام انقلابی سیاست کے نئے آغاز کا اعلان کر چکا ہے۔
پنجاب میں سکول ٹیچروں اور لیڈی ہیلتھ ورکرز کی لاکھوں کی تعداد میں ہونے والے احتجاجوں نے بھی ایک نئی تاریخ رقم کر دی ہے اور پنجاب کے محنت کش بھی بہت سے اہم نتائج اخذ کر رہے ہیں۔ اس وقت پنجاب میں اسٹیبلشمنٹ کے خلاف نفرت اپنے عروج پر ہے اور اس عوام دشمن نظام کی جو حمایت سماج کی بہت سی پرتوں میں موجود تھی اب تیزی سے ختم ہو رہی ہے۔ یہاں بھی بہت بڑی عوامی تحریک کے لیے حالات پک رہے ہیں اور آنے والے عرصے میں حکمرانوں کے مظالم کے خلاف پکنے والا لاوا ایک آتش فشاں کی طرح پھٹتا ہوا نظر آئے گا۔
عوامی تحریکوں میں ہی عملی طور پر نظر آتا ہے کہ جس فریق اور جس سیاست کو جمع تقسیم سے بالکل ہی خارج کر دیا گیا تھا وہ کیسے دھماکے کے ساتھ دوبارہ واپس آتا ہے اور پورے سماج کو ہلا کر رکھ دیتا ہے۔ وہ لوگ جنہیں کیڑے مکوڑے سمجھا جاتا ہے۔ جن پر یہ جملے کسے جاتے ہیں کہ یہ اپنا ووٹ چند ہزار روپے میں بیچ دیتے ہیں، حقارت آمیز لہجے میں ان پر طنز کیا جاتا ہے کہ انہیں سیاست، معیشت اور خارجہ پالیسی جیسے اہم امور طے کرنے کی سمجھ ہی نہیں اور نہ ہی یہ اس قابل ہیں کہ یہ اہم فیصلے کر سکیں۔ جن کے بارے میں یہ کہا جاتا ہے کہ ان سے ایک روٹی کے ٹکڑے کے بدلے کچھ بھی کروایا جا سکتا ہے۔ ان کے لیے چند دیگیں پکوا کر اپنی مرضی کے نعرے لگوائے جا سکتے ہیں۔ جن کے بارے میں یہ خیال پختہ ہو چکا ہے کہ ایک تھانیدار تو کیا ایک نچلے ترین درجے کے پولیس والے کی رعب دار آواز سے ہی یہ دبک جاتے ہیں اور جب چاہے ان کو تھانے میں الٹا لٹکا کر پھینٹی لگوائی جا سکتی ہے یا کسی جھوٹے مقدمے میں جیل میں ڈالا جا سکتا ہے۔ جن کے بار ے میں سوچتے ہوئے بھی اس ملک کے ظاہری طور پر صاف ستھرے دانشوروں اور نام نہاد پڑھے لکھوں کو پسینے کی بدبو سے قے آنے لگتی ہے۔ جن کو ایک وقت میں سیاستدان صرف سٹیج پر کھڑے ہو کر دور سے ہی ہاتھ ہلا کر مسکراتے رہتے ہیں اور وہ لیڈر کی لگژری گاڑیوں کے پیچھے بھاگتے بھاگتے ہلکان ہوتے رہتے ہیں۔ جو جرنیلوں سے لے کر سامراجی آقاؤں تک کے لیے صرف خام مال ہیں اور انہیں کسی بھی سامراجی جنگ میں ایندھن کے طور پر استعمال کیا جاسکتا ہے۔ یہ مظلوم جب سر اٹھاتا ہے تو یہ آقا اپنی سب سرکشی بھول جاتے ہیں۔ جب لاکھوں کی تعداد میں یہ گلے سڑے ڈھانچے احتجاج کرتے ہیں اور اپنے نیم مردہ جسموں سے اپنی بھوک، بیماری اور ذلت کے خلاف بغاوت کا اعلان کرتے ہیں تو اقتدار کے ایوان کانپ اٹھتے ہیں اور سامراجی طاقتیں دم دبا کر بھاگتی نظر آتی ہیں۔ جب سرکاری جلسوں میں بسیں بھر نے کے کام آنے والے یہ عوام خود اپنی کسی تحریک میں جانے کا فیصلہ کر لیتے ہیں خواہ اس کے لیے سخت ترین موسم میں سینکڑوں میل پیدل ہی کیوں نہ چلنا پڑے تو پھر اصلی سیاست کا آغاز ہوتا ہے اور اس سماج کی تقدیر کا فیصلہ ہوتا ہے۔
یہ سب ایک انقلابی تحریک کے دوران پہلے بھی یہاں دیکھا گیا ہے اور آئندہ بھی لازمی طور پر ہوگا۔ لیکن آنے والی اس انقلابی تحریک کی تیاری ابھی سے کرنے کی ضرورت ہے۔ اس وقت ملک میں جاری تمام عوامی تحریکوں کو ایک پلیٹ فارم پر اکٹھا کرنے کی ضرورت ہے اور وہ صرف ایک انقلابی پروگرام اور انقلابی نظریے کے ذریعے ہی ممکن ہے۔ ایک ایسا نظریہ جو اس سرمایہ دارانہ نظام کو ختم کرنے کا اعلان کرتا ہو اور جو سامراجی طاقتوں کی گماشتگی کے خاتمے کو یقینی بنائے۔ آج کے عہد میں وہ نظریہ مارکسزم اور لینن ازم کا ہی نظریہ ہے اور اسی کے تحت ہی ایک انقلابی سیاسی پروگرام کے ذریعے ان تمام عوامی تحریکوں کو ایک پلیٹ فارم پر اکٹھا کیا جا سکتا ہے اور ایک انقلابی پارٹی کی تعمیر کا آغاز کیا جا سکتا ہے۔ یہ نظریہ سرمایہ دار طبقے کی جگہ مزدور طبقے کی حاکمیت کا پروگرام دیتا ہے، منڈی کی معیشت کی جگہ منصوبہ بند معیشت کا پلان دیتا ہے، بینکوں، ملٹی نیشنل کمپنیوں، سٹاک ایکسچینجوں اور تمام ذرائع پیداوار کو ضبط کرتے ہوئے یہ تمام دولت مزدور طبقے کے جمہوری کنٹرول میں دینے کا اعلان کرتا ہے۔ مظلوم قومیتوں کو حق خود ارادیت دینے کے عزم کا اظہار کرتا ہے اورسرمایہ دار طبقے کی پروردہ پارلیمنٹ، فوج اور عدلیہ کا خاتمہ کرتے ہوئے مزدور وں کی منتخب کردہ کمیٹیوں کے تحت ایک نئی مزدور ریاست بنانے کا لائحہ عمل دیتا ہے۔ یہ سب کچھ ایک سوشلسٹ انقلاب کے ذریعے ہی ممکن ہے اور اس کو کامیاب کرنے کے لیے ایک انقلابی پارٹی کی تعمیر کی ضرورت ہے جس کے پلیٹ فارم پر تمام عوامی تحریکوں کو یکجا کرتے ہوئے ایک انقلابی پروگرام پر عملدرآمد کیا جائے اور مزدور طبقے کی قیادت میں اس انقلاب کو کامیابی سے ہمکنار کیا جائے۔