|تحریر: سلمیٰ ناظر|
پاکستان کے نظامِ تعلیم کی موجودہ صورت حال کا جائزہ لینے کے لیے زیادہ مغز ماری کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ آج تعلیمی اداروں کی فیسوں میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے مگر تعلیمی معیار مسلسل گرتا جا رہا ہے۔ تعلیم عام انسان کی پہنچ سے دور ہوتی جا رہی ہے۔ عام انسان کے پاس ایک ہی صورتحال بچتی ہے یا وہ اپنے بچوں کو دو وقت کی روٹی کھلا ئے یا ان کی تعلیم کے اخراجات اٹھا ئے۔ ایسی صورتحال میں ایک عام انسان یقینا پہلی ضرورت کو ترجیح دیتا ہے۔ اب تو دو وقت کی روٹی حاصل کرنا بھی محنت کش طبقے کے لیے ناممکن ہوتا جا رہا ہے۔
یونیورسٹیوں کی فیسوں میں اس وقت بے تحاشا اضافہ کیا جا رہا ہے جس کی وجہ سے طلبہ کی بھاری اکثریت جو ماضی میں کسی نہ کسی طریقے سے اپنی تعلیم کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے تھے، اب بڑھتی ہوئی فیسوں کی وجہ سے اپنی تعلیم ترک کرنے پہ مجبور ہو چکے ہیں۔ پاکستانی جریدے ”دی نیشن“ میں 19 اکتوبر 2023 کو ایک رپورٹ شائع ہوئی جس کے مطابق پوری دنیا میں پاکستان میں سکول نہ جانے والے بچوں کی تعداد سب سے زیادہ ہے۔ پاکستان میں اپنی تعلیم ترک کرنے والے طلبہ کی تعداد میں ہوشربا اضافہ ہو رہا ہے۔ ”دی نیشن“ کی ہی رپورٹ کے مطابق 2021 میں پاکستان میں سکول نہ جانے والے بچوں کی تعداد 1 کروڑ 87 لاکھ تھی۔ 2022 میں یہ تعداد بڑھ کر 2 کروڑ 20 لاکھ لاکھ تک پہنچ گئی اور 2023 میں یہ تعداد 2 کروڑ 80 لاکھ تک تجاوز کر چکی ہے۔ یہ رپورٹ صرف سکولوں کی صورتحال پہ ہے۔ اگر اس میں کالج اور یونیورسٹی جانے والے طلبہ کی تعداد بھی شامل کر لی جائے تو یہ تعداد کہیں زیادہ بڑھ جاتی ہے۔
یہ ایک چھوٹی سی رپورٹ پاکستان کے تعلیمی نظام کی موجودہ صورتحال کو ننگا کر دیتی ہے۔ آنے والے عرصے میں تعلیم ترک کرنے والے طلبہ کی تعداد میں مزید اضافہ ہو گا۔ اس کی وجہ بالکل واضح ہے کہ پاکستان کا حکمران طبقہ تعلیم کے بجٹ میں مزید کٹوتیاں کرنے کی طرف جائے گا اور ان کٹوتیوں کا سارا بوجھ طلبہ کے کندھوں پہ ڈالا جائے گا۔ فیسوں میں مزید اضافہ کیا جائے گا، ٹرانسپورٹ، ہاسٹلوں کے اخراجات میں بھی مزید اضافہ کیا جائے گا جن میں پہلے بھی متواتر اضافہ کیا جا رہا ہے۔
طلبہ تعلیم کو جاری رکھنے کے لیے بھاری بھرکم فیسیں تو ادا کر رہے ہیں مگر ان کو اپنا تعلیمی نظام کسی بھی حوالے سے بہتر ہوتا نظر نہیں آتا۔ ہاسٹلوں کی بات کی جائے تو طلبہ کی تعداد کے تناسب سے نئے ہاسٹلز تعمیر نہیں کیے جا رہے جس کی وجہ سے بہت سے طلبہ کو پرائیویٹ ہاسٹل میں رہنا پڑتا ہے جو کہ بہت مہنگے ہوتے ہیں۔ پاکستان کی بڑی یونیورسٹیوں، جیسے پنجاب یونیورسٹی لاہور، کے ہاسٹلوں پر بھی انتظامیہ کے آشیرباد کے ساتھ جمعیت نامی طلبہ دشمن اور انتظامیہ کی پالتو تنظیموں یا لسانی کونسلز نے اپنا قبضہ جمایا ہوا ہے۔
ٹرانسپورٹ کی صورتحال بھی اس سے مختلف نہیں ہے۔ تعلیمی معیار کی بات کریں تو وہ بھی مسلسل گراوٹ کا شکار ہے۔ اس وقت حکومت نہ صرف تعلیمی بجٹ میں کٹوتیاں کر رہی ہے بلکہ تیزی کے ساتھ سرکاری تعلیمی اداروں کی نجکاری بھی کررہی ہے۔ پنجاب بھر میں سرکاری سکولوں کے اساتذہ نے حال ہی میں نجکاری اور دیگر مسائل کے خلاف بہت بڑی احتجاجی تحریک چلائی جس میں سکولوں کے طلبہ بھی شامل تھے۔ یہ تحریک حکومت کی اسی طلبہ دشمن اور تعلیم دشمن پالیسیوں کا نتیجہ تھی۔
گلگت بلتستان میں انٹرنیشنل قراقرم یونیورسٹی کے طلبہ نے فیسوں میں 50 فیصد اضافے کے خلاف بہت بڑی تحریک کا آغاز کیا۔ یہ تحریک تین ماہ کے طویل عرصے تک جاری رہی جس میں یونیورسٹی کے ستر فیصد طلبہ کلاسوں کا بائیکاٹ کر کے سڑکوں پہ سراپا احتجاج رہے۔ طلبہ کو اس تحریک میں بہت سی مشکلات کا سامنا بھی کرنا پڑا مثلاً انہیں یونیورسٹی انتظامیہ کی جانب سے ڈرایا دھمکایا جاتا رہا، کئی طلبہ کو اس تحریک میں فعال کردار ادا کرنے پر یونیورسٹی سے فارغ کیا گیا، بیشمار طلبہ کو گرفتار بھی کیا گیا۔ مگر یونیورسٹی انتظامیہ کے اس تحریک کو کمزور اور ختم کرنے کے لیے کیے جانے والے ہر حملے کے جواب میں طلبہ کا غصہ بڑھتا رہا اور یہ تحریک وسعت اختیار کرتی رہی۔ بالآخر انتظامیہ کو مجبوراً ڈنڈے کی بجائے ٹھنڈے طریقے سے چند مطالبات تسلیم کر کے وقتی طور پر جان چھڑانی پڑی۔ یونیورسٹی انتظامیہ سمیت گلگت بلتستان کی حکومت نے گھٹنے ٹیک دیے اور اسی روز پہلے اور تیسرے سمیسٹر کی فیسوں میں 10 فیصد اور پانچویں اور ساتویں سمیسٹر کی فیسوں میں 15 فیصد کمی کا اعلان جاری کر دیا۔ یہ طلبہ کے احتجاج کی پہلی جیت ہے، بہرحال دیگر تمام مطالبات فی الوقت نہیں مانے گئے۔ سردیوں کی چھٹیوں کے بعد یقینا یہ تحریک دوبارہ شروع ہوگی۔
ہمیں پاکستان بھر میں طلبہ اپنے مسائل کے خلاف مختلف تحریکیوں اور احتجاجوں کا حصہ بنتے نظر آ رہے ہیں۔ کسی نہ کسی یونیورسٹی میں ہراسمنٹ کے مسئلے پر احتجاج منظم کرتے ہیں یا اپنی بنیادی سہولیات کے فقدان پر احتجاج کرتے ہیں۔ گزشتہ دنوں لسبیلہ یونیورسٹی میں بھی جب طلبہ اپنے مسائل کے خلاف پُر امن احتجاج کر رہے تھے تو یونیورسٹی انتظامیہ نے اس احتجاج پر پولیس کا حملہ کروا کر طلبہ کو تشدد کا نشانہ بنایا اور انہیں گرفتار کیا گیا۔
اسی طرح تربت یونیورسٹی کے طلبہ نے بھی پچھلے عرصے میں یونیورسٹی میں سیاسی سرگرمیوں پر یونیورسٹی انتظامیہ کی جانب سے عائد شدہ پابندی کے خاتمے کے لیے احتجاج کیا تھا۔ اسی یونیورسٹی کے طلبہ نے پچھلے دنوں یونیورسٹی سے طلبہ کی جبری گمشدگی کے خلاف بھی احتجاج کیا۔
طلبہ کے لیے تعلیمی ادارے جیل خانوں کی صورت اختیار کر چکے ہیں جہاں وہ اپنی مرضی سے نہ کچھ بول سکتے ہیں، نہ کسی مسئلے کے خلاف آواز اٹھا سکتے ہیں حتیٰ کہ اپنی ثقافت کا بھی کھل کر اظہار نہیں کرسکتے۔ کچھ دن قبل سندھ زرعی یونیورسٹی میں سندھی ثقافتی دن منانے کی پاداش میں طلبہ کو گرفتار کیا گیا تھا اور ان پر دہشت گردی کے پرچے بھی کاٹے گئے تھے۔
طلبہ کے یہ تمام مسائل جہاں ایک طرف پاکستان کے حکمران طبقے کے خصی پن، یہاں کے تعلیمی نظام کو چلانے میں ان کی ناکامی اور اٹھنے والی طلبہ تحریکوں سے ان کے شدید خوف کا چیخ چیخ کے واضح ثبوت دیتے ہیں وہیں یہ تمام صورتحال سرمایہ دارانہ نظام کے بحران اور اس کے زوال کا بھی منہ بولتا ثبوت ہے۔
گرتا ہوا معیار زندگی، اپنا نظر آتا ہوا تاریک مستقبل طلبہ کے ذہنوں میں ہزاروں سوالوں کو جنم دیتا ہے اور اس کے ساتھ ساتھ ان نظریات کی پیاس کو بھی گہرا کرتا ہے جو ان تمام سوالوں کا جواب رکھتے ہوں اور طلبہ کے مسائل کا کوئی حل پیش کر سکیں۔ بڑھتی ہوئی سماجی اور طبقاتی خلیج، جس میں سرمایہ دار طبقے سے تعلق رکھنے والے طالبعلم کے لیے دنیا کی بڑی سے بڑی یونیورسٹی کے دروازے کھلے رہتے ہیں اور دوسری طرف محنت کش طبقے سے تعلق رکھنے والے طالبعلم کیلئے اس کی ابتدائی تعلیم کے دروازے بھی بند کیے جا رہے ہیں، طلبہ کو اپنے بقا کی جدوجہد کی طرف کھینچ رہی ہے۔
لیکن پاکستان کی کوئی بھی سیاسی پارٹی طلبہ کے ان سوالات کا سامنا کرنے، ان کے جوابات دینے اور تمام مسائل کا حل پیش کرنے سے قاصر ہے۔ الٹا یہاں سوال اٹھانے والے انسان کو دہشت گرد اور غدار قرار دیا جاتا ہے۔ یہاں تعلیمی اداروں میں ہراسمنٹ کے مسئلے کے خلاف آواز بلند کرنے کی پاداش میں طلبہ کو یونیورسٹی انتظامیہ کی طرف سے دھمکیاں ملتی ہیں۔
اگرچہ حالیہ عرصے میں طلبہ کے احتجاج تو ہوئے ہیں مگر یہ ایک دوسرے سے الگ تھلگ رہے ہیں اور ایک ملک گیر سطح کی احتجاجی تحریک کی شکل نہیں اختیار کر سکے۔ اس وقت جتنا خوفناک معاشی بحران جاری ہے اس نے ویسے ہی سماج کی ہر پرت کو ’شاک‘ کی کیفیت میں ڈال دیا ہے۔ مگر یہ ’شاک‘ کی کیفیت زیادہ لمبا عرصہ برقرار نہیں رہے گی۔ سماج کی ہر پرت میں اس وقت شدید غم و غصہ پروان چڑھ رہا ہے۔ یہ غصہ گاہے بگاہے اپنا اظہار بھی کر رہا ہے جیسے پنجاب میں چھوٹے سرکاری ملازمین کی احتجاجی تحریک اور پاکستانی مقبوضہ کشمیر میں پچھلے کئی ماہ سے اکثریتی آبادی کی جانب سے بجلی بل جمع نہ کرانے کی تحریک۔ جلد یا بدیر یہ الگ تھلگ احتجاج ملک گیر سطح پر منظم ہوں گے۔ موجودہ مہنگائی اور بیروزگاری کی لہر نے طلبہ اور نوجوانوں کو بھی متاثر کیا ہے۔ ضیاء الباطل کے دور میں طلبہ یونین پر لگنے والی پابندی کے بعد آج ایک لمبے عرصے بعد طلبہ کی ایک بڑی تعداد سیاسی ہو چکی ہے۔ مگر محض کیمپس میں درپیش مسائل کی حد تک ہی سیاسی نہیں بلکہ مہنگائی، بیروزگاری سمیت دیگر مسائل بھی اس وقت طلبہ کے ذہنوں پر چھائے ہوئے ہیں۔ یہ پاکستانی حکمرانوں کیلئے انتہائی خطرناک بات ہے۔ جبکہ دوسری جانب تمام سیاسی پارٹیاں آئی ایم ایف سمیت دیگر سامراجی مالیاتی اداروں کی مکمل دلالی کا کردار ادا کرتے ہوئے کھل کر مزدور اور طلبہ دشمن پالیسیوں پر مبنی سیاست کر رہی ہیں۔ خواہ پی ٹی آئی کا دور ہو، نون لیگ کا یا پیپلز پارٹی کا، وہی مزدور دشمن پالیسیاں ہی دیکھنے کو ملتی ہیں۔ اس وقت پاکستان میں کوئی ایک سیاسی پارٹی بھی انقلابی سیاست تو دور عوامی مسائل کے حل کی سیاست بھی نہیں کر رہی۔
صرف پاکستان ہی نہیں بلکہ پوری دنیا کی سیاست آج ایسی ہی بن چکی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ موجودہ سرمایہ دارانہ نظام میں محنت کش عوام اور طلبہ کے مسائل حل ہو ہی نہیں سکتے۔ اسی لیے اس نظام کے خلاف آج پوری دنیا میں بغاوتیں ہو رہی ہیں اور عظیم الشان احتجاجی تحریکیں جاری ہیں۔ سری لنکا، فرانس، ایران سمیت کئی ممالک میں 2023ء کے دوران کروڑوں لوگ سراپا احتجاج تھے۔ ان میں بہت بڑی تعداد طلبہ اور نوجوانوں کی بھی تھی۔ آج کے نوجوان رائج الوقت سیاست سے تنگ آ چکے ہیں اور انقلابی سیاست کی تلاش میں ہیں۔ اسی لیے امریکہ اور یورپ میں نوجوانوں کی بڑی تعداد اپنے آپ کو ’سوشلسٹ‘ اور ’کمیونسٹ‘ کہنا شروع ہو گئی ہے۔
پاکستان سمیت دنیا کے تمام ممالک آج جس بحران کا شکار ہیں وہ سرمایہ دارانہ نظام کا نامیاتی بحران ہے جسے ’زائد پیداوار (Overproduction)‘ کا بحران کہتے ہیں۔ اس بحران کا صرف ایک ہی حل ہے کہ سرمایہ دارانہ نظام کو ختم کر کے منصوبہ بند معیشت یعنی ’سوشلزم‘ لایا جائے۔ سوشلزم میں تمام ذرائع پیداوار کو مزدور ریاست کے کنٹرول میں لے کر جمہوری پلاننگ کے ساتھ سماج کی فلاح کیلئے استعمال کیا جائے گا نہ کہ مٹھی بھر سرمایہ داروں کی منافع خوری کیلئے۔ اس طرح تمام وسائل کو تعلیم، صحت اور دیگر بنیادی انسانی ضروریات کی فراہمی کیلئے خرچ کیا جائے گا۔ جس کے نتیجے میں جدید ترین تعلیم تمام سماج کیلئے مفت فراہم کی جا سکی گے۔ سوشلزم میں بیروزگاری جرم ہوگی۔ اسی طرح ماحولیاتی تبدیلی، دہشت گردی سمیت دیگر مسائل کی جڑ یعنی ’نجی ملکیت اور منافع خوری‘ کا خاتمہ کر کے ان مسائل سے بھی جان چھڑائی جائے گی۔
باقی دنیا کی طرح پاکستان کے طلبہ و نوجوانوں کو بھی آج سرمایہ دارانہ نظام کے خاتمے کی جدوجہد میں کامیابی حاصل کرنے کیلئے اپنے آپ کو کمیونزم کے نظریات سے لیس کرنا ہوگا۔ پاکستان میں ایک ایسی انقلابی پارٹی کی تعمیر میں اپنا کردار ادا کرنا ہوگا جو ایک سوشلسٹ انقلاب کے ذریعے سرمایہ دارانہ نظام کے خاتمے کی جدوجہد کر رہی ہو۔ پاکستان میں بھی آنے والے دنوں میں ’آزاد‘ کشمیر جیسی عوامی تحریکیں اٹھیں گی جن میں کھلم کھلا سول نافرمانی کا اعلان کیا جائے گا۔ ان تحریکوں کی کامیابی کے لیے طلبہ اور محنت کش طبقے کو یہاں کی کسی بھی سیاسی پارٹی اور نام نہاد قیادتوں پر یقین کرنے کی بجائے اپنی طاقت پر یقین رکھتے ہوئے متحدہونا پڑے گا اور پاکستان سے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے سرمایہ دارانہ نظام اور طبقاتی سماج کا خاتمہ کرنے کے لئے یہاں سوشلسٹ انقلاب برپا کرنا ہو گا۔