|تحریر: آفتاب اشرف|
پاکستان اس وقت اپنی تاریخ کے بدترین معاشی بحران سے گزر رہا ہے۔ آئے روز معاشی ڈیفالٹ کی خبریں گردش کرتی رہتی ہیں جنہیں حکومتی وزراء اور ریاستی عہدیدار محض ”افواہ بازی“ قرار دے کر جھٹلانے کی کوشش کرتے ہیں مگر ٹھوس زمینی حقائق یہ ہیں کہ درآمدات پر بھاری انحصار کرنے والے 25 کروڑ آبادی کے ملک کے اسٹیٹ بنک کے پاس تقریباً 5.8 ارب ڈالر کا فارن ایکسچینج ریزرو بچا ہے (اور تقریباً اتنا ہی ملک میں کمرشل بنکوں کے پاس ہے) جس سے بمشکل ایک ماہ کی درآمدات کی ادائیگی کی جا سکتی ہے۔ اور ابھی اس رقم کا ایک بڑا حصہ چین اور خلیجی ممالک سے حاصل کردہ ڈیپازٹ سپورٹ قرضوں پر مشتمل ہے جس کا خرچ کیا جانا کوئی پسندیدہ عمل نہیں ہے۔ مزید برآں مالی سال 2023ء کے بقیہ 6 ماہ میں حکومت کو 13 ارب ڈالر کے بیرونی قرضوں اور سود کی ادائیگیاں کرنی ہیں۔ اور اگر ہم حکومت اور اسٹیٹ بنک کے گورنر کے ان دعوؤں کو تسلیم بھی کر لیں کہ حکومت ان میں سے 8.3 ارب ڈالر کا قرضہ رول اوور کرانے میں کامیاب ہو جائے گی، جو آئی ایم ایف پروگرام کی بحالی کی صورت میں بھی بڑی بھاگ دوڑ کا کام ہے، تب بھی 4.7 ارب ڈالر کی ادائیگی تو کرنی ہی پڑے گی جس کا آغاز جنوری کے دوسرے ہفتے میں دو فارن کمرشل بنکوں کو 1.1 ارب ڈالر قرضے کی ادائیگی سے ہو گا۔ لگ بھگ 500 ملین ڈالر کا ماہانہ کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ اس کے علاوہ ہے جو مالی سال کے بقیہ 6 ماہ میں 3 ارب ڈالر بنتا ہے۔ یہاں واضح رہے کہ پچھلے مالی سال کے مقابلے میں رواں مالی سال میں کرنٹ اکاؤنٹ خسارے میں کمی کا کارن ملک میں صنعتی بڑھوتری یا برآمدات میں اضافہ نہیں بلکہ ملکی منڈی کی قوت خرید میں زبردست کمی اور فارن ریزرو کی کمی کے باعث حکومت کی جانب سے لگائی جانے والی درآمدی پابندیوں کے کارن ہونے والی تجارتی خسارے میں کمی ہے۔ رہی سہی کسر ملکی فارن کرنسی مارکیٹ سے افغانستان کو ہونے والی ڈالرز کی مسلسل اسمگلنگ نے پوری کر دی ہے۔ اس وقت فارن ایکسچینج کی قلت کا یہ عالم ہے کہ امپورٹرز کو بنیادی ضروریات کی اشیاء جیسے کہ ادویات سازی میں استعمال ہونے والا خام مال اور اشیائے خوردونوش وغیرہ، کی درآمد کے لئے بھی ڈالرز نہیں مل رہے ہیں اور کراچی پورٹ پر درآمدی مال سے بھرے ہزاروں کنٹینرز ادائیگی نہ ہونے کے سبب پھنسے ہوئے ہیں اور مستقبل قریب میں مختلف فوڈ پراڈکٹس اور ادویات سے لے کر پیٹرولیم مصنوعات کی قلت کا سنجیدہ خطرہ موجود ہے۔ فاریکس کی قلت کا نتیجہ یہ بھی ہے کہ ڈالر کا 227 روپے کا انٹر بنک اور 236 روپے کا اوپن مارکیٹ کرنٹ ایکسچینج ریٹ نجی بنکوں اور منی چینجرز پر اسٹیٹ بنک اور حکومت کے انتظامی دباؤ کا نتیجہ ہے اور محض کاغذوں پر ہی وجود رکھتا ہے جبکہ درحقیقت بلیک مارکیٹ میں ایک ڈالر 260 روپے سے زائد کا ہو چکا ہے۔ مزید برآں ضرورت سے زیادہ ”سیانے“ وزیر خزانہ اسحاق ڈار کی جانب سے محض حکومتی دباؤ کے ذریعے ڈالر کے انٹر بنک اور اوپن مارکیٹ ریٹ متعین کا نتیجہ ترسیلات زر میں بڑی کمی کی صورت میں نکل رہا ہے کیونکہ تارکین وطن اب اپنی ترسیلات زر کے لئے بنکنگ چینلز کی بجائے حوالہ اور ہنڈی جیسے غیر قانونی رستوں کو ترجیح دے رہے ہیں کیونکہ وہاں انہیں ڈالر کا بہتر ریٹ ملتا ہے۔
دوسری طرف بڑھتے معاشی بحران کے کارن صنعتوں کی بندش ملکی تاریخ میں پہلے کبھی نہ دیکھی گئی حدوں کو چھو رہی ہے۔ اس صنعتی بحران کی سب سے بڑی وجہ تو معاشی بربادی کے باعث ملکی منڈی کی قوت خرید میں ہونے والی زبردست کمی ہے۔ اس کا ایک اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ پچھلے 22 سالوں میں پہلی دفعہ پچھلے سال کے مقابلے میں ملک میں موٹر سائیکلوں، جو کہ محنت کش طبقے اور سفید پوش درمیانے طبقے کی سواری ہے، کی پیداوار میں کمی ریکارڈ ہوئی ہے اور وہ بھی کوئی تھوڑی بہت نہیں بلکہ 34 فیصد کی۔ اور اگر ان اعداد و شمار میں سے ہنڈا موٹر سائیکلوں کو الگ کر دیا جائے تو باقی تمام موٹر سائیکل کمپنیوں کی پیداوار میں 73 فیصد کمی ریکارڈ ہوئی ہے۔ اسی طرح معاشی بحران اور اوپر سے ریاستی و حکومتی مجرمانہ بے حسی کے کارن کئی گنا بڑھ جانے والی سیلاب کی بربادی کے زراعت سے منسلک آبادی پر اثرات کا ایک اندازہ اس امر سے لگایا جا سکتا ہے کہ پچھلے مالی سال کے پہلے پانچ ماہ کے مقابلے میں رواں مالی سال کے اسی عرصے میں ٹریکٹروں کی فروخت میں 52 فیصد کمی ریکارڈ ہوئی ہے اور ملت اور الغازی ٹریکٹرز نے نان پروڈکشن ڈیز کا اعلان کر دیا ہے۔ اسی طرح درمیانے طبقے کی بد حالی کا ایک اندازہ اس امر سے لگایا جا سکتا ہے پچھلے مالی سال کی پہلی سہ ماہی کے مقابلے میں رواں مالی سال کی پہلی سہ ماہی میں کاروں کی فروخت میں 50 فیصد کمی واقع ہوئی اور نتیجتاً سوزوکی موٹرز اور ٹویوٹا کاریں بنانے والی انڈس موٹر کمپنی نے بھی نان پروڈکشن ڈیز کا اعلان کر دیا ہے۔ اسی طرح ٹیکسٹائل سیکٹر بھی شدید بحران کا شکار ہے جس میں ملکی منڈی کی بربادی کے ساتھ ساتھ عالمی معاشی بحران کے کارن عالمی منڈی میں جاری مندی کا بھی ایک اہم کردار ہے۔ دسیوں ہزاروں پاور لومز اور سینکڑوں جننگ فیکٹریاں، سپننگ ملز، ٹیکسٹائل ملز اور اپیریل فیکٹریاں بند ہو چکی ہیں اور جو چل رہی ہیں وہ بھی اپنی صلاحیت سے کہیں کم پیداوار کر رہی ہیں۔ یہاں تک کہ حال ہی میں نشاط چونیاں جیسے بڑے ٹیکسٹائل گروپ نے بھی اپنی 1/4 پیداواری صلاحیت کو وقتی طور پر بند کرنے کا اعلان کر دیا ہے۔ اسی طرح فارما سوٹیکل، الیکٹرانکس، فولاد سازی سمیت دیگر کئی صنعتی شعبوں کی سیل اور نتیجتاً پیداوار میں کمی ہوئی ہے۔ معاشی بربادی اور صنعتی بحران کا ایک اندازہ اس امر سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ رواں مالی سال کے پہلے پانچ ماہ میں پچھلے مالی سال کے اسی عرصے کے مقابلے میں پیٹرولیم مصنوعات کی سیل میں 20 فیصد کمی ریکارڈ ہوئی ہے۔ ہمارے پاس ابھی ملک کے پورے صنعتی شعبے کے حوالے سے تو اعداد و شمار دستیاب نہیں ہیں لیکن اگر صرف لارج اسکیل مینوفیکچرنگ کی بات کی جائے توپچھلے مالی سال کے پہلے چار ماہ کے مقابلے میں رواں مالی سال کے اسی عرصے میں اس میں بحثیت مجموعی 2.9 فیصد کی کمی ریکارڈ ہوئی ہے۔ اور ابھی یاد رہے کہ حالیہ معاشی بحران کا آغاز پچھلے مالی سال کے اسی عرصے میں ہو چکا تھا۔ ملکی و عالمی منڈی میں گراوٹ کے ساتھ ساتھ اس صنعتی بحران کی ایک اور بڑی وجہ خام مال، مشینری اور پرزہ جات وغیرہ کی درآمد کے لئے درکار فارن ایکسچینج کی کمی اور حکومت کی طرف سے عائد درآمدی پابندیاں بھی ہیں۔ واضح رہے کہ پاکستانی سرمایہ داری تکنیکی اعتبار سے اتنی پسماندہ ہے کہ یہ بڑے پیمانے پر درکار مال، مشینری و پرزہ جات درآمد کئے بغیر نہ تو صنعتی پیداوار کر سکتی ہے اور نہ ہی برآمدات۔ اسی طرح بلند افراط زر کو قابو میں لانے کی خاطر آئی ایم ایف کے نسخے کے مطابق اسٹیٹ بنک نے شرح سود کو 16 فیصد کی انتہائی بلند سطح پر پہنچا دیا ہے۔ اس سے افراط زر تو قابو میں نہیں آیا لیکن ملکی منڈی اور صنعت کی بربادی ضرور مکمل ہو گئی۔ مزید برآں اسی کارن ملک کے داخلی قرضوں کے سود کی ادائیگیوں میں بھی بے پناہ اضافہ ہوا ہے۔ صنعتوں کی اس بڑے پیمانے پر بندش کا فوری نتیجہ بیروزگاری کے ایک پہلے کبھی نہ دیکھے گئے طوفان کی صورت میں نکل رہا ہے اور محض پچھلے چند ماہ کے عرصے میں ہی دسیوں لاکھوں محنت کش روز گار سے محروم ہو چکے ہیں۔ ملک کے جس صنعتی علاقے میں بھی جائیں، ہر طرف واجبات کی ادائیگی کے بغیر کھڑے پیروں فیکٹریوں سے نکالے گئے مزدوروں کی آہ وبکا سننے کو ملتی ہے۔ مزید برآں جہاں ایک طرف صنعتی مزدور بڑے پیمانے پر بیروزگار ہو رہے ہیں وہیں ملک میں آنے والے حالیہ سیلاب کے کارن ہونے والی زراعت کی تباہی نے دیہی علاقوں میں بھی بیروزگاری کی شدت کو کئی گنا بڑھاوا دیا ہے۔ بیروزگاری کا یہ طوفان پھر واپس ملکی منڈی پر اثر انداز ہو کر اس کی قوت خرید کو مزید گرا رہا ہے اور نتیجتاً صنعتی بحران اور گہرا ہوتا جا رہا ہے۔
حکمرانوں اور ریاستی اشرافیہ کے پاس اس ساری صورتحال کا واحد جواب آئی ایم ایف کے قرض پروگرام کی بحالی اور اس کے بعد نئے فارن کرنسی بانڈز کا اجرا اور چین، خلیجی ممالک اور فارن کمرشل بنکوں سے نئے بیرونی قرضوں کا حصول اور پرانے قرضوں کا رول اوور ہے۔ اور آئی ایم ایف کے نسخے کے مطابق ہمیشہ کی طرح اس سب کی قیمت ملک کے محنت کش عوام کو کھربوں روپے کے نئے بالواسطہ ٹیکسوں، رہی سہی عوامی سبسڈیوں کے مکمل خاتمے، معیشت کی مزید ڈی ریگولیشن، عوامی اداروں کی ڈاؤن سائزنگ اور نجکاری اور بجلی، گیس سمیت تمام ضروریات زندگی کی قیمتوں میں مزید کمر توڑ اضافے کی صورت میں چکانی پڑے گی۔ یاد رہے کہ حکومت کے اپنے اعداد و شمار کے مطابق بھی (جو ہمارے نزدیک جھوٹ کا پلندہ ہیں) رواں مالی سال کے پہلے پانچ ماہ میں افراط زر کی اوسط سالانہ شرح 25 فیصد رہی ہے۔ اور ابھی آئی ایم ایف کی قرض بحالی کی سخت شرائط اور روپے کی قیمت میں ہونے والی بڑی گراوٹ مستقبل قریب میں مہنگائی کے اس طوفان میں مزید کتنا اضافہ کرے گی، اس کا سوچ کر بھی رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں۔ مگر آئی ایم ایف کا یہ نسخہ کوئی نیا تو نہیں ہے۔ اس کے ہر قرض پروگرام کے ساتھ ایسی ہی عوام دشمن شرائط منسلک ہوتی ہیں اور حکمران طبقہ ہمیشہ ”اچھے دنوں“ کی نوید سنا کر محنت کش عوام کو ہر بار پہلے سے بڑا زہر کا پیالہ پینے پر مجبور کرتا ہے مگر اس سب کے باوجود ملکی معیشت ہر کچھ عرصے بعد ادائیگیوں کے توازن کے بحران کا شکار ہو کر ڈیفالٹ کے کنارے پہنچ جاتی ہے جس کے لئے پھر نئے بیرونی قرضے لینے پڑتے ہیں جن کا کل حجم تازہ ترین سرکاری اعداد و شمار کے مطابق اس وقت 127 ارب ڈالر سے تجاوز کر چکا ہے اور ملک کو اگلے تین مالی سالوں یعنی مالی سال 2024ء سے لیکر مالی سال 2026ء تک بیرونی قرضوں اور ان کے سود کی ادائیگی کے لئے 75 ارب ڈالر کی خطیر رقم درکار ہے (کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ ابھی اس کے علاوہ ہے)۔ ایسے ہی ملک کے داخلی قرضوں کا حجم بھی بڑھتا ہی جا رہا ہے جس کی ایک مثال بجلی کے شعبے کے سرکلر ڈیبٹ سے لی جا سکتی ہے جو بجلی کی فی یونٹ قیمت میں تمام تر کمر توڑ اضافے کے باوجود اس وقت پھر 2.3 ٹریلین روپے تک پہنچ چکا ہے کیونکہ نجی پاور کمپنیوں کے پیٹ وہ اندھے کنویں ہیں جو کبھی نہیں بھر سکتے۔ تو پھر اس سارے گھن چکر کا ذمہ دار کون ہے؟ کون محنت کش عوام کی قیمت پر پچھلے 75 سال سے اپنی تجوریاں بھر رہا ہے؟ اور اس جہنم سے نجات پانے کا واحد طریقہ کیا ہے؟ہماری اگلی بحث انہی موضوعات کے گرد ہو گی۔
ذمہ دار کون؟
اس میں کوئی شک نہیں کہ حتمی تجزیئے میں سرمایہ دارانہ نظام ہی پاکستان کی معاشی بربادی اور محنت کش عوام کے تمام تر مسائل کا ذمہ دار ہے۔ اسی طرح پاکستانی سرمایہ داری کے حالیہ بحران کو تاریخی متروکیت کے شکار سرمایہ دارانہ نظام کے عالمی نامیاتی بحران سے بھی کاٹ کر نہیں دیکھا جا سکتا جو اس وقت امریکہ، برطانیہ، چین، جرمنی، فرانس سمیت پوری عالمی معیشت کو اپنی لپیٹ میں لئے ہوئے ہے۔ بطور مارکس وادی اور خاص کر بطور ٹراٹسکائیٹس ہم اس امر کو بھی بخوبی سمجھتے ہیں پاکستان کا حکمران سرمایہ دار طبقہ اپنے جنم سے ہی تاریخی متروکیت کا شکار تھا اور اپنی پیدائشی اور نامیاتی تکنیکی و ثقافتی پسماندگی کے کارن صنعتی ترقی کی بنیاد پر زرعی اور قومی سوال کو حل کرتے ہوئے ایک جدید قومی ریاست اور سماج تخلیق کرنے کی صلاحیت سے ہی عاری تھا۔اسی طرح برطانوی سامراج کی کالونیل پالیسیوں کے زیر اثر تخلیق ہونے والے یہ سرمایہ دار طبقہ اپنے خمیر میں ہی ایک کمپراڈور کریکٹر رکھتا تھا یعنی بیرونی سامراجی آقاؤں اور عالمی سرمائے کی دلالی اس کی سرشت میں شامل تھی۔اسی طرح یہاں کی فوجی وسول ریاستی اشرافیہ کی تخلیق بھی براہ راست طور پر برطانوی سامراج کے ہاتھوں ہوئی تھی اور سامراجی دلالی اس کی گھٹی میں شامل تھی۔ لہٰذا اس میں تو کوئی شک وشبے کی گنجائش نہیں کہ پاکستان کا سرمایہ دار حکمران طبقہ دنیا کے دیگر سابقہ کالونیل اور پسماندہ بورژوا ممالک (ایک استثناء جنوبی کوریا اور تائیوان کو حاصل ہے جنہیں امریکی سامراج نے سرخ آندھی سے محفوظ رکھنے کی خاطر اپنے خرچ پر ترقی دی) کے سرمایہ دار طبقے کی طرح اپنے ملک میں یورپ اور امریکہ کی طرز کی ایک جدید بورژوا قومی ریاست اور جدید صنعتی سماج تخلیق کرنے کی صلاحیت سے پیدائشی طور پر ہی عاری تھا۔ اس کی سب سے شاندار مثال ہمارے سامنے پڑوسی ملک انڈیا کی ہے جہاں 1947ء کے بعد نہرو اور انڈین نیشنل کانگریس کی قیادت میں دہائیوں تک ریاستی سرمایہ داری کے ذریعے ایک جدید قومی ریاست و صنعتی سماج تخلیق کرنے کی سب سے بڑی کوشش کی گئی لیکن حتمی طور پر یہ تجربہ ناکام رہا۔ مگر انڈیا، انڈونیشیا، ملائیشیا، تھائی لینڈ، بنگلہ دیش جیسے ممالک سرمایہ دارانہ بنیادوں پر اگرچہ فرانس، جرمنی، جاپان اور امریکہ جیسے تو نہیں بن سکے (نہ ہی بن سکتے تھے) اور آج سرمایہ دارانہ نظام کے عالمی بحران کے ہاتھوں یہ سب بھی معاشی گراوٹ اور شدید مشکلات کا شکار ہیں مگر ان میں سے کسی کی بھی حالت پاکستان جتنی پتلی نہیں ہے۔ تو آخر پاکستان کی اس پرلے درجے کی پسماندگی، معاشی زبوں حالی اور مسلسل ڈیفالٹ کے کنارے ڈولنے جیسی صورتحال، جو اس مرتبہ حقیقت کا روپ دھار سکتی ہے، کی وجہ کیا ہے؟
ہمارے پاس ابھی جگہ نہیں ہے کہ ہم مملکت پاکستان کی تخلیق کے پس منظر میں جائیں جو بذات خود ایک نہایت پیچیدہ موضوع ہے لیکن قصہ مختصر یہ کہ سرد جنگ کے آغاز پر برطانوی سامراج کی رضامندی کے ساتھ مذہبی بنیادوں پر تخلیق ہونے والی اس ریاست کا سرمایہ دار طبقہ اور فوجی و سول افسر شاہی روز اول سے ہی سامراجی دلالی اور بدلے میں ملنے والی بیرونی امداد اور قرضوں کو ہی اس کو ریاست کو قائم رکھنے اور اسے چلانے کا واحد ذریعہ سمجھتے آئے ہیں۔ بطور ریاست اپنے جنم کے پہلے دن سے یہاں کی فوجی و سول افسر شاہی اور حکمران طبقہ اس چکر میں رہے ہیں کہ کسی طرح وہ بڑی عالمی سامراجی طاقتوں اور خصوصاً امریکی سامراج کے بھاڑے کے ٹٹو بن جائیں، ریاست کو سامراجی آقاؤں کے ہاتھوں ”رینٹ آؤٹ“ کر یں اور خود آرام سے بیٹھ کر بدلنے میں ملنے والے سامراجی وظیفے اور قرضوں سے اپنی تجوریاں بھریں۔ 1950ء کی دہائی میں سیٹو اور سینٹو سے لے کر 1980ء کی دہائی کے ڈالر جہاد اور حالیہ نام نہاد ”وار آن ٹیرر“ تک پاکستان کے حکمرانوں کی یہی کہانی ہے۔ بس فرق صرف اتنا ہے کہ وقت کے ساتھ ساتھ سامراجی آقاؤں کی تعداد میں اضافہ ہوتا گیا ہے اور امریکہ کے ساتھ پہلے سعودی سامراج اور پھر چینی سامراج بھی اس فہرست میں شامل ہو گئے ہیں۔ اب یہ بات تو طے ہے کہ سرمایہ دار طبقہ اور بورژوا ریاستی افسرشاہی کبھی بھی اور کہیں بھی عوام دوست نہیں ہو سکتی اور سابقہ کالونیل اور دیگر پسماندہ ممالک کی بورژوازی اور افسر شاہی تو اپنی تاریخی نااہلی اور خصی پن کے کارن زیادہ جابر اور عوام دشمن ہوتی ہے لیکن یہاں پر بھی پاکستان کا سرمایہ دار طبقہ اور ریاستی افسر شاہی اپنی مثال آپ ہیں اور دنیا بھر میں کوئی ثانی نہیں رکھتے۔روز اول سے سامراجی دلالی اور وظیفہ خوری کی جولت ان حکمرانوں کو لگی ہے، اس نے ہمیشہ انہیں ملک کی معاشی و صنعتی ترقی کی جانب بالکل ابتدائی نوعیت کے اقدامات سے بھی بالکل بے پروا رکھا ہے۔ واضح رہے کہ ہم یہاں امریکہ، یورپ جیسی کسی جدید قومی ریاست و صنعتی سماج کی تخلیق کی بات نہیں کر رہے بلکہ ان انتہائی ابتدائی نوعیت کے اقدامات کی بات کر رہے ہیں جو انڈیا، انڈونیشیا،ملائیشیا، تھائی لینڈ جیسے ممالک کا سرمایہ دار حکمران طبقہ اپنی تمام تر تاریخی نااہلی کے باوجود بھی اٹھانے میں کامیاب رہا۔ یہاں یہ بھی واضح رہے کہ ہمارا مقصد ان تمام ممالک کے سرمایہ دار طبقے کو تاریخی اعتبار سے ترقی پسند ثابت کرنا ہرگز نہیں ہے بلکہ ہم تو صرف یہ دکھانا چاہ رہے ہیں کہ پاکستان کا سرمایہ دار طبقہ نالائقوں میں سب سے نالائق، نااہلوں میں سب سے نااہل اور تاریخی خصی پن کا شکار تمام سرمایہ دار طبقوں میں سب سے زیادہ خصی ہے۔
اس ملک میں سوائے سوویت یونین کی مدد سے لگائی گئی اسٹیل مل (جو کہ اب بند ہو چکی ہے) اور ماؤاسٹ چین کی مدد سے تعمیر کئے گئے ہیوی مکینیکل کمپلیکس وغیرہ (اور یہ منصوبے بھی نام نہاد فوجی ضروریات کے تحت لگائے گئے تھے) کے علاوہ کبھی کوئی بڑا انفرا سٹرکچر یا صنعتی منصوبہ سامراجی امداد اور قرضوں کے بغیر نہیں بنا۔ ورلڈ بنک اور اے ڈی بی جیسے سامراجی عالمی مالیاتی اداروں کے قرضوں سے بننے والے تربیلا اور منگلا ڈیم سے لیکر سی پیک کے سامراجی قرضوں سے بننے والی موٹر ویز تک ملک کے سارے بڑے انفراسٹرکچر پراجیکٹس کی یہی کہانی ہے۔ یہاں تک کہ 1950ء اور 1960ء کی دہائی میں یہاں ریاستی سرپرستی کے تحت صنعتکاری اور ”قومی بورژوازی“ پروان چڑھانے کا جو نام نہاد تجربہ ہوا، اس کے لئے پیسے بھی دلالی کے عوض امریکی سامراج سے ہی لئے گئے تھے اور کسی صنعتی ریسرچ اینڈ ڈویلپمنٹ کی بجائے درکار ٹیکنالوجی بس محض درآمد کر لی گئی تھی۔ یہاں کے سرمایہ دار و صنعتکار طبقے کی تکنیک کاری میں عدم دلچسپی اور کوتاہ نظری کا اندازہ اس بات سے لگا یا جا سکتا ہے کہ 1980ء کی دہائی کے اوائل کی ٹیکنالوجی رکھنے والی سوزوکی مہران گاڑی کی پروڈکشن تیس سال اس ملک میں جاری رہی ہے مگر 2019ء میں اپنی پروڈکشن بند ہونے تک بھی اس کار کا انجن پاکستان میں محض اسمبل ہوتا تھا نہ کہ بنتا تھا۔ آج تک یہاں کا صنعتکار طبقہ ایک سادہ سی موٹر سائیکل کا انجن یا پاور لوم تک مکمل طور پر خود بنانے کی اہلیت نہیں حاصل کر سکا۔ کہنے کو یہ ایک زرعی ملک ہے مگر اپنی تخلیق کے 75 سال بعد بھی ٹریکٹرز اور دیگر بنیادی ترین زرعی آلات کے اہم پرزہ جات خود بنانے کی صلاحیت نہیں رکھتا۔ بلکہ یہ تو بہت دور کی بات ہے، اس ملک کا حکمران طبقہ تو آج تک اسے فرٹیلائیزر، زرعی سپرے کے لئے درکار بنیادی کیمیکلز، ٹیکسٹائل انڈسٹری میں استعمال ہونے والی ڈائیز و دیگر کیمیکلز جیسی بنیادی چیزوں میں بھی خود کفیل نہیں بنا سکا۔ سامراجی دلالی، وظیفہ خوری اور قرضوں پر پلنے والے یہاں کے حکمران طبقے اور ریاستی اشرافیہ نے کبھی نہری نظام پر سرمایہ کاری کر کے اسے جدید بنانے، موثر آبی وسائل کی مسلسل تعمیر، پانی کے استعمال کے طریقہ کار میں جدت کاری لانے، کاشتکاروں کو سستی بجلی اور سستے زرعی قرضے فراہم کرنے جیسے بنیادی ترین چیزوں پر بھی توجہ نہیں دی جس کا نتیجہ یہ ہے کہ آج ملک کو کاٹن اور گندم بھی درآمد کرنی پڑ رہی ہے۔ جبکہ واہگہ بارڈر کے دوسری طرف انڈین پنجاب میں گندم کی فی ہیکٹر پیداوار پاکستانی پنجاب کے مقابلے میں دوگنی اور چاول کی تین گنا زیادہ ہو چکی ہے۔
یہاں کے حکمرانوں، فوجی و سول افسر شاہی اور سرمایہ داروں کی نالائقی، نااہلی اور کوتاہ نظری کا یہ عالم ہے کہ یہ جانتے ہوئے بھی کہ مالیت کے لحاظ سے ملک کی سب بڑی امپورٹ ایندھن سے متعلقہ ہے، یہ آج تک ملکی ضروریات کو مکمل طور پر پورا کرنے کے لئے مطلوبہ تعداد میں آئل ریفائنریاں نہیں لگا سکے تا کہ صرف خام تیل درآمد کرنا پڑے اور اسے صاف ملک میں ہی کیا جائے۔ نتیجتاً ہر سال اربوں ڈالر کا قیمتی زر مبادلہ ریفائنڈ پیٹرولیم مصنوعات (جو خام تیل سے کہیں مہنگی ہوتی ہیں) کی درآمد پر ضائع ہو جاتا ہے۔ دوسری طرف آپ کو یہ جان کر شائد حیرت ہو گی کہ پڑوسی ملک انڈیا کی سب سے بڑی امپورٹ خام تیل ہے لیکن اس کے پاس اتنی آئل ریفائننگ صلاحیت ہے کہ ملکی ضروریات پوری کرنے کے بعد اس کی سب سے بڑی ایکسپورٹ بھی ریفائنڈ پیٹرولیم مصنوعات پر مبنی ہے۔ اگر ہم پچھلی چار دہائیوں میں انڈیا، انڈونیشیا، ملائیشیا اور تھائی لینڈ جیسے ممالک کی ایکسپورٹ پروفائل دیکھیں تو صاف پتا چلتا ہے کہ اس عرصے میں اس میں بہت واضح تبدیلی آئی ہے اور اب یہ ممالک اپنے روایتی خام مال اور اس سے تیار کردہ اشیاء کے ساتھ ساتھ بڑے پیمانے پر انجینئرنگ مصنوعات، الیکٹرانکس، آٹو موبائلز، مشینی پرزہ جات، فارما سوٹیکل اور دیگر صنعتی اشیاء بھی تیار کر کے برآمد کرتے ہیں جبکہ ملکی آر اینڈ ڈی اور غیر ملکی کمپنیوں کیساتھ ٹرانسفر آف ٹیکنالوجی پر مبنی جوائنٹ وینچرز کی بدولت یہ ممالک تکنیک کاری کے معاملے میں بھی جدید ترین تو نہیں لیکن قابل ذکر حاصلات سمیٹنے میں کامیاب رہے ہیں۔ لیکن 1947ء سے لے کر آج تک پاکستان کی برآمدات کا سارا دارومدار کاٹن ٹیکسٹائل اور دیگر کچھ خام مال پر ہی ہے۔ یہاں تک کہ یہاں کا سرمایہ دار حکمران طبقہ ایکسپورٹ کی غرض سے آج تک قیمتی پتھروں کی کٹنگ و فنشنگ اور فوڈ پراسیسنگ جیسی سادہ صنعتوں کو بھی پروان نہیں چڑھا سکا حالانکہ اس کے لئے کسی ہائی فائی ٹیکنالوجی اور راکٹ سائنس کی ضرورت نہیں۔ لہٰذا پاکستان آج بھی ٹنوں کے حساب سے خام قیمتی پتھر ہی برآمد کرتا ہے جسے کئی دوسرے ممالک کوڑیوں کے مول خرید کر، پھر اس کی فنشنگ کر کے اسے قیراط کے حساب سے عالمی منڈی میں بیچتے ہیں۔ اور آخر ایسا کیوں نہ ہو؟ جب ملک کی اسٹریٹیجک لوکیشن اور فوج کو کرائے پر چڑھا کر سامراج سے اچھے پیسے اور قرضے مل رہے ہوں اور اوپر والوں کی تجوریاں بھر رہی ہوں تو پھر یہ آر اینڈ ڈی کرنے، تکنیک کو فروغ دینے، صنعت لگانے، درآمدات پر انحصار کم کرنے اور برآمدات بڑھانے جیسے کشٹ اٹھانے کی بھلا کیا ضرورت ہے۔
کیا آپ جانتے ہیں کہ پاکستان قدرتی حسن کے معاملے میں شائد دنیا کے سب سے مالامال ممالک میں سے ایک ہے۔ ایک ایسا خطہ جہاں ہندو کش، قراقرم اور ہمالیہ ملتے ہیں اور جو وادی سندھ سے لے کر گندھارا اور مغل سلطنت تک قدیم تہذیبوں اور کلچرز کے آثار سے بھرا پڑا ہے۔ اگر اس ملک میں محض سیاحت کے لئے درکار بنیادی انفراسٹرکچر، لا اینڈ آرڈر کی بہتر صورتحال اور سیاحت کو فروغ دینے کے لئے درکار موافق ثقافتی ماحول ہی میسر ہوتا تو یہاں آٹھ، دس ارب ڈالر سالانہ کی انٹر نیشنل ٹورازم انڈسٹری بآسانی پروان چڑھ سکتی تھی۔ مگر نہیں، جس ملک میں سیاحتی انفراسٹرکچر کی یہ حالت ہو کہ دارالحکومت سے محض کچھ دوری پر ایک نام نہاد ترقی یافتہ سیاحتی مقام پر درجنوں سیاح برف کے طوفان میں پھنس کر مر جائیں، جہاں کی جرنیلی اشرافیہ کے لئے دہشت گردی ایک باقاعدہ صنعت بن چکی ہو، جہاں پوری کی پوری ریاست سر سے پیر تک دونمبری میں لتھڑی ہو اور جہاں ریاستی سر پرستی میں مذہبی رجعت ایک منافع بخش کاروبار ہو،وہاں صرف خود کش بمبار ہی پروان چڑھ سکتے ہیں، ٹورازم نہیں۔
رہی سہی کسر اس ملک کی غیر دستاویزی معیشت یعنی بلیک اکانومی نے پوری کر دی ہے جس کا حجم اس وقت ملک کی سرکاری یا دستاویزی معیشت سے زیادہ نہیں تو اس کے برابر ضرور ہو چکا ہے۔ اس بلیک اکانومی کے قلابے بھی حکمران طبقے اور فوجی و سول افسر شاہی کی جانب سے سامراج کی چاکری کے عوض ملنے والی رقوم اور قرضوں کی بھاری خورد برد، کک بیکس اور کرپشن، ٹیکس چوری، ملکی وسائل کی بلا دریغ لوٹ مار، ڈالر جہاد، قبضہ مافیا، دہشت گردی کی صنعت اور اسمگلنگ وغیرہ سے جا ملتے ہیں، جو بڑھتے بڑھتے اس وقت پوری ریاست اور سماج کو اپنی لپیٹ میں لے چکی ہے۔ پاکستان میں رئیل اسٹیٹ، بنکاری، نجی شعبہ تعلیم و صحت، میڈیا انڈسٹری، نجی ٹرانسپورٹ سمیت کئی ایسے شعبہ جات ہیں جن پر کالا دھن مکمل طور پر حاوی ہے۔ پاکستان کا سرمایہ دار طبقہ اور ریاستی اشرافیہ پرلے درجے کے کوتاہ نظر تو پہلے ہی تھے لیکن اس کالی معیشت نے ان میں ایک مخصوص قسم کی شارٹ کٹ ذہنیت پیدا کی ہے۔ اب ظاہر ہے کہ جب رئیل اسٹیٹ میں سٹے بازی کے ذریعے بیٹھے بٹھائے ایک ارب سے دس ارب بنائے جا سکتے ہوں اور کبھی مذہبی انتہا پسندوں کو تخلیق کرنے کے عوض ڈالر ملتے ہوں تو کبھی ان کو مارنے کے عوض، تو پھر طبقہ امراء اور مقتدر ریاستی افسرشاہی میں سے کون احمق صنعتکاری اور تکنیک کاری میں سر کھپانا پسند کرے گا۔
اسی طرح اگر ہم محنت کش عوام کی صحت اور تعلیم کے حوالے سے یہاں کے حکمران طبقے کے رویے کا ایک اندازہ لگانا چاہیں تو یہ بتا دینا ہی کافی ہے کہ 2021ء کے ہیومن ڈیولپمنٹ انڈیکس کے مطابق پاکستان 191 ممالک کی فہرست میں 161 ویں نمبر پر آتا ہے۔ پاکستان سے نیچے صرف افغانستان اور سب سہارن افریقی ممالک ہی ہیں۔ ظاہر ہے جہاں عوام کی ہڈیوں سے نچوڑے جانے والے ٹیکس و نان ٹیکس ریونیو کا 2/3 داخلی اور بیرونی قرضوں اور ان کے سود کی ادائیگی کی مد میں ملکی و عالمی سرمایہ دار طبقے کی جیب میں چلا جاتا ہو، بقیہ 1/3 نام نہاد دفاعی بجٹ کی صورت میں جرنیلی اشرافیہ کی جیب میں جاتا ہو، اور ہر سال نئے قرضے اٹھا کر حکمران طبقے اور ریاستی اشرافیہ کو 3 ٹریلین روپے سالانہ کی معاشی مراعات سے نوازا جاتا ہو، وہاں بیچاری ”ہیومن ڈیولپمنٹ“ کا بھلا کیا کام ہے۔ اسی طرح پاکستان اور افغانستان دنیا کے بس وہ 2 ایسے ممالک ہیں جہاں ابھی تک پولیو وائرس کا خاتمہ نہیں کیا جا سکا۔افغانستان کی تو وجہ سمجھ میں آتی ہے کہ وہ پچھلے چالیس سال سے جنگ زدہ ہے، لیکن پاکستان کے ساتھ کیا مسئلہ ہے؟ شائد جب تک پولیو کیمپئین کے لئے باہر سے پیسے ملنا بند نہیں ہوں گے تب تک پاکستان سے اس وائرس کا خاتمہ بھی نہیں ہو گا۔ درحقیقت بیرونی آقاؤں سے امداد بٹورنے کی ذہنیت پاکستان کے حکمران طبقے اور ریاستی اشرافیہ میں اتنی رچ بس چکی ہے کہ ان کے لئے زلزلہ، سیلاب، وباؤں جیسی قدرتی آفات سے لے کر دہشت گردی، افغان مہاجرین اور آئی ڈی پیز تک ہر مسئلہ ڈالر کھانے کا ایک ذریعہ بن چکا ہے۔ ایسے ہی اگر ہم شعبہ تعلیم کی طرف نظر دوڑائیں تو یہ ملک صرف حماد صافی جیسے پروفیسر پیدا کرنے کے قابل رہ گیا ہے۔ ہم یہ بات تسلیم کرتے ہیں کہ بورژوا یونیورسٹیوں میں فلسفہ، معیشت، تاریخ اور سماجی علوم کی درست تعلیم دی ہی نہیں جا سکتی مگر کم از کم سائنس و ٹیکنالوجی کی اچھی تعلیم تو رائج کی جا سکتی ہے کیونکہ یہ خود سرمایہ دار طبقے کے فائدے میں ہے بشرطیکہ وہ کسی حقیقی پیداواری سرگرمی سے منسلک ہو۔ مگر یہاں کی سامراجی وظیفہ خوری اور کالے دھن میں لتھڑی حکمران اشرافیہ کا سائنس و ٹیکنالوجی سے کیا لینا دینا۔ لہٰذا یہ حیرت کی بات نہیں کہ یہاں ”ایٹمی سائنسدان“ پانی سے چلنے والی کار بنانے والے ”انجینئر“ کے قصیدے پڑھتے ملتے ہیں اور فزکس کی قومی سطح کی کانفرنسوں میں جنات سے بجلی بنانے پر باقاعدہ ”مقالے“ پڑھے جا چکے ہیں۔ دوسری طرف اگر پڑوسی ملک انڈیا پر ہی ایک نظر دوڑائی جائے تو بلاشبہ وہاں بھی کوئی آئن سٹائن اور نیوٹن تو سامنے نہیں آئے لیکن اس حقیقت کو جھٹلایا نہیں جا سکتا کہ انڈین مصنفین کی لکھی ہوئی درجنوں کتابیں آج دنیا بھر کی بہترین میڈیکل اور انجینئرنگ یونیورسٹیوں کے نصاب کا حصہ ہیں۔ اسی طرح 1990ء کی دہائی میں جب انڈیا اپنی نوجوان نسل کی ایک وسیع پرت کی انٹرنیٹ اور کمپیوٹرز تک رسائی کو ممکن بناتے ہوئے انہیں ابھرتے ہوئے آئی ٹی سیکٹر کے لئے تیار کر رہا تھا تو پاکستان کی جرنیلی اشرافیہ رجعتی مذہبی دہشت گردوں کی سرپرستی اور ”مجاہدین“ تیار کرنے میں مگن تھی۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ آج انڈیا کی صرف آئی ٹی سیکٹر سے متعلقہ سالانہ برآمدات پاکستان کے کل بیرونی قرضے یعنی 127 ارب ڈالر کے برابر ہیں۔
مارکس نے ایک بار کہا تھا کہ بورژوازی نے کبھی بھی عوام کو دکھ، تذلیل اور خاک و خون میں گھسیٹے بغیر ترقی نہیں دی۔ مگر پاکستان کی بورژوازی نے تو آج تک یہاں کے محنت کش عوام کو صرف خاک و خون میں ہی گھسیٹا ہے، ترقی تو کوئی نہیں دی۔ بلکہ ترقی تو دور کی بات یہاں کی بورژوازی اور ریاستی اشرافیہ تو پولیو کا خاتمہ کرنے اور ملک کے آدھے بچوں کو سٹنٹڈ گروتھ سے بچانے میں بھی ناکام رہی ہے۔ ہمارے ایک بزرگ مارکسی استاد کہا کرتے تھے کہ پسماندہ ممالک میں تو سرمایہ داری کی صرف بدتمیزیاں ہی پہنچی ہیں، حاصلات نہیں۔ مگر پاکستان میں تو سرمایہ داری کی سادہ بد تمیزیاں بھی نہیں بلکہ صرف ننگی گالیاں ہی پہنچ پائی ہیں۔یہاں کے سرمایہ دار طبقے اور ریاستی اشرافیہ نے تو کبھی آج تک عوام کو رتی برابر سہولت بھی نہیں دی۔ سامراجی بھیک اور قرضوں کے بغیر یہ معیشت ایک مالی سال کے لئے اپنا وجود برقرار نہیں رکھ سکتی۔ ننگے جبر کے بغیر یہ ریاست ایک دن کے لئے بھی اپنا اقتدار قائم نہیں رکھ سکتی اور ٹیکس چوری، بجلی چوری، گیس چوری، چور بازاری، ذخیرہ اندوزی، سٹے بازی، ملکی وسائل کی اندھی لوٹ مار، عالمی سرمائے کی ننگی دلالی اور محنت کش طبقے کو ایک وقت کی روٹی کے لئے ترسائے بغیر یہ پسماندہ اور خصی سرمایہ دار طبقہ اپنی شرح منافع برقرار نہیں رکھ سکتا۔ قصہ مختصر یہ کہ ہمارا یہ دعوی، کہ بالعموم سابقہ کالونیل اور دیگر پسماندہ ممالک کی بورژوازی اپنی تاریخی نااہلی اور متروکیت کے باعث ان سماجوں میں بورژوا جمہوری انقلاب کے فرائض پورے کرنے میں ناکام رہی ہے، اگر 100 فیصد درست ہے تو پاکستان کے سرمایہ دار طبقے اور ریاستی اشرافیہ کے بارے میں یہ 1000 فیصد درست ہے۔ تو پھر یہاں کے محنت کش عوام اس دہکتی جہنم سے نجات کیسے پا سکتے ہیں؟
حل کیا ہے؟
آجکل بہت سے ”سنجیدہ“ اور ”ترقی پسند“ بورژوا معیشت دان حکمران طبقے اور ریاستی اشرافیہ کو صنعت کاری کو فروغ دینے، معیشت کے ساختیاتی مسائل حل کرنے، غیر دستاویزی معیشت کی ڈاکومینٹیشن، طبقہ امراء پر ٹیکس لگانے اور برآمدات بڑھانے جیسے مشورے دیتے نظر آتے ہیں۔ دلچسپ امر یہ ہے کہ بائیں بازو کے بہت سے حلقے بھی ان ”میچور“ بورژوا معیشت دانوں کی ہاں میں ہاں ملاتے پائے جاتے ہیں۔ مگر ہماری نظر میں یہ سب خواتین و حضرات یا تو نہایت ہی ”معصوم“ ہیں یا پھر پرلے درجے کے احمق ہیں۔
سب سے پہلی بات تو یہ ہے ملک کا معاشی و صنعتی بحران پاکستانی سرمایہ داری کا بحران ہے جو پھر عالمی سرمایہ داری کے نامیاتی بحران سے جڑا ہوا ہے۔ اور جب سرمایہ دارانہ نظام عالمی سطح پر تاریخی متروکیت کا شکار ہو چکا ہے اور امریکہ، برطانیہ، فرانس، جاپان، جرمنی جیسے ممالک میں نہ تو پیداواری قوتوں کو آگے بڑھا پا رہا ہے اور نہ وہاں کے محنت کش طبقے کو کوئی مزید آسائش دے پا رہا ہے، بلکہ الٹا پیداواری قوتوں اور ماضی کی عوامی حاصلات کو برباد کر رہا ہے، تو ایسے میں سابقہ کالونیل اور دیگر پسماندہ بورژوا ممالک کی پیدائشی تاریخی خصی پن کا شکار بورژوازی سے سماج کو آگے لے جانے کی توقع رکھنا حماقت یا جہالت نہیں تو اور کیا ہے۔ اور یہ تو ہم پہلے ہی ثابت کر چکے ہیں کہ پاکستانی بورژوازی اور ریاستی اشرافیہ تو اس فہرست میں بھی سب سے آخری نمبر پر براجمان ہے۔ سرمایہ داری کی حدود میں رہتے ہوئے کوئی معنی خیز اور نامیاتی اصلاحات کرنے کی گنجائش تو آج امریکہ اور یورپ میں نہیں بچی جو اس نظام کی جنم بھومی ہیں تو ایسے میں پاکستانی سرمایہ داری تو انتہائی کاسمیٹک نوعیت کی کاغذی اصلاحات کی صلاحیت سے بھی مکمل طور پر محروم ہو چکی ہے۔ درحقیقت پاکستان کے سرمایہ دار طبقے اور ریاستی اشرافیہ کے مالی وسیاسی مفادات پاکستانی سرمایہ داری کے ساختیاتی ڈھانچے کے ساتھ اس طرح سے پیوست ہو چکے ہیں کہ اس میں انتہائی معمولی سی بھی تبدیلی ان کے مفادات کو زک پہنچائے گی، لہٰذا وہ ایسا کرنے کا سوچ بھی نہیں سکتے۔ اسی لئے جو ”ترقی پسند“ خواتین و حضرات اس حوالے سے رتی برابر بھی خوش فہمی کا شکار ہیں وہ شعوری یا لا شعوری طور پر محنت کش عوام کو دھوکا دے رہے ہیں۔ تو پھر کیا کیا جائے؟
صرف اور صرف ایک سوشلسٹ انقلاب ہی پاکستان کے محنت کش طبقے، کسانوں، نوجوانوں، طلبہ، خواتین اور مظلوم قومیتوں کو اس دہکتی ہوئی جہنم سے نجات دلا سکتا ہے۔ سماج کی دیگر تمام مظلوم و محکوم پرتوں کی حمایت کے ساتھ محنت کش طبقے اور اس کی نمائندہ انقلابی پارٹی کی قیادت میں برپا ہونے والا ایک سوشلسٹ انقلاب ہی یہاں سرمایہ دارانہ نظام اور اس کی پروردہ ریاست کا مکمل خاتمہ کرتے ہوئے ایک مزدور ریاست اور منصوبہ بند معیشت کو تعمیر کر سکتا ہے، جس میں صنعتوں، بنکوں، جاگیروں، معدنیات سمیت دولت پیدا کرنے کے تمام ذرائع یہاں کے محنت کش طبقے کی اجتماعی ملکیت و جمہوری کنٹرول میں ہوں گے اور پیداوار کا مقصد سماجی و انسانی ضروریات کی تکمیل ہو گا نہ کہ منافع خوری۔ اسی طرح یہ مزدور ریاست اپنی تخلیق کے پہلے دن ہی جہاں تمام کمانڈنگ ہائیٹس آف اکانومی کو اپنی ملکیت و کنٹرول میں لے گی وہیں تمام داخلی و سامراجی قرضوں کو بھی بیک جنبش قلم ضبط کر لیا جائے گا۔ سامراج کیساتھ کئے گئے تمام مالیاتی، سیاسی، سفارتی اور فوجی معاہدوں کو منسوخ کر دیا جائے گا اور ملک میں موجود تمام سامراجی اثاثہ جات کو بھی اجتماعی ملکیت میں لے لیا جائے گا۔ عدالتوں، پولیس اور سول افسر شاہی کے نظام کا مکمل خاتمہ کر دیا جائے گا اور معیشت و سماج کی انتظام کاری محنت کش عوام کی نمائندہ پنچائیتوں کے سپرد ہو گی۔ بورژوا فوجی ڈھانچے کا مکمل خاتمہ کرتے ہوئے ایک مزدور فوج تخلیق کی جائے گی جس میں افسروں اور سپاہیوں کی تنخواہیں اور مراعات برابر ہوں گی اور افسروں کا انتخاب سپاہیوں کی کمیٹیوں کے ذریعے کیا جائے گا۔ چھوٹے اور درمیانے کاشتکاروں کو منڈی کے جبر سے نجات ملے گی جبکہ غریب و بے زمین کسانوں کو ضبط کی گئی جاگیروں سے کاشت کے لئے زمین الاٹ کی جائے گی۔ صحت اور تعلیم کے کاروبار پر مکمل پابندی ہو گی اور ان سہولیات سمیت ٹرانسپورٹ، رہائش، تفریح، بجلی، صاف پانی اور روزگار جیسی بنیادی انسانی ضروریات کی فراہمی مکمل طور پر مزدور ریاست کی ذمہ داری ہو گی۔خواتین سے متعلق ہر قسم کے رجعتی قوانین اور ثقافتی جبر کا خاتمہ ہو گا اور مزدور ریاست وہ مادی سہولیات فراہم کرے گی جن کی بنیاد پر خواتین گھر گرہستی کی روایتی ذمہ داریوں سے نجات پا کر صحیح معنوں میں مردوں کے برابر آ سکیں گی۔ مذہبی اقلیتوں کے خلاف ہر قسم کے مذہبی و ثقافتی جبر کا خاتمہ ہو گا اور مزدور ریاست ایک سیکولر ریاست ہو گی۔ تمام مظلوم و محکوم قومیتوں کو حق خود ارادی (بشمول ریاست سے علیحدگی) دیا جائے گا۔مزدور ریاست کی خارجہ پالیسی کی بنیاد عالمی سوشلسٹ انقلاب کی بڑھوتری اور ایک عالمی سوشلسٹ سماج کا قیام ہو گی اور اس حوالے سے پوری دنیا کے محنت کشوں اور کمیونسٹ انقلابیوں کی ہر ممکن مدد کی جائے گی۔
صرف اور صرف مندرجہ بالا سوشلسٹ پروگرام پر مبنی ایک انقلابی تبدیلی ہی آج پاکستان کے محنت کش طبقے کے لئے واحد راہ نجات ہے۔ اور یہاں کے محنت کش عوام بھی اپنے تلخ تجربات سے سیکھتے اور لازمی نتائج اخذ کرتے ہوئے اسی سمت میں گامزن ہیں۔ لیکن مارکس وادیوں کا فریضہ ہے کہ وہ محنت کش طبقے کے سیکھنے کے اس عمل کو تیز و سہل بنانے میں اپنی منظم شعوری جدوجہد کاحصہ ڈالیں۔ یہ بات پتھر پر لکیر ہے کہ پاکستان کے محنت کش طبقے کے صبر کا پیمانہ لبریز ہونے کو ہے اور اسے اپنی بقا کی خاطر ناگزیر طور پر ایک انقلابی جدوجہد میں اترنا پڑے گا۔ مگر محنت کش طبقے اور عوام کی یہ تمام انقلابی جرات مندی ایک کامیاب سوشلسٹ انقلاب پر تبھی منتج ہو سکتی ہے اگر اسے سائنسی سوشلزم یعنی مارکسزم لینن ازم کے نظریات و پروگرام، روایات اور درست طریقہ کار سے مسلح تجربہ کار کیڈرز پر مشتمل ایک انقلابی پارٹی کی قیادت میسر آئے۔ آج محنت کش طبقے اور نوجوانوں کی ہر اول لڑاکا پرتوں کو ان نظریات سے متعارف کرانے اور ایک آہنی انقلابی ڈسپلن میں منظم کرتے ہوئے لینن اور ٹراٹسکی کی بالشویک پارٹی جیسی قوت کی تعمیر ہی مارکس وادیوں کا اولین تاریخی فریضہ ہے۔