|تحریر: آفتاب اشرف|
بالآخر 29 جون کو، 2019ء میں ہونے والے قرض معاہدے کی مدت پوری ہونے سے محض ایک دن قبل، آئی ایم ایف نے حکومت پاکستان کے ساتھ 3 ارب ڈالر کا سٹینڈ بائی قرض معاہدہ کر لیا جس کی مدت 9 ماہ ہو گی۔ معاہدے کے نتیجے میں چین، سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات وغیرہ نے بھی اپنے کچھ سابقہ قرضوں کو رول اوور کر دیا ہے جبکہ کچھ نئے قرضے بھی جاری کیے گئے ہیں جس کی بدولت معیشت ادائیگیوں کے توازن کے فوری بحران سے وقتی اور عارضی طور پر بچ گئی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ حکمران طبقہ اس معاہدے پر خوشی کے شادیانے بجا رہا کہ ملک ڈیفالٹ سے بچ گیا۔ یہاں واضح رہے کہ ہمیشہ کی طرح اس قرض معاہدے کو پاکستان کی تمام سیاسی پارٹیوں، فوجی و سول ریاستی اشرافیہ وغیرہ کی بھرپور حمایت حاصل ہے اور کل کو کوئی بھی سیاسی لیڈر، جرنیل، جج، بیوروکریٹ وغیرہ ”معصوم“ سا منہ بنا کر اپنے آپ کو اس سے بری الذمہ قرار نہیں دے سکتا۔ مگر اس معاہدے پر آئی ایم ایف کو راضی کرنے کے لئے حکمرانوں نے محنت کش عوام کا کچومر نکال کر رکھ دیا ہے اور پچھلے ایک سال سے زائد عرصے میں عوام پر ہونے والے تابڑ توڑ معاشی حملوں کی ایک بڑی وجہ یہی تھی۔ مزید برآں اس سٹینڈ بائی قرض معاہدے کے ساتھ پہلے سے بھی زیادہ کڑی اور عوام دشمن شرائط منسلک ہیں جن میں بجلی کے بیس لائن ٹیرف میں تقریباً 5 روپے اور پیک آورز کے دورانیے میں 2 گھنٹوں کے اضافے جیسے اقدامات فوراً اٹھا لیے گئے ہیں تا کہ عوام کی ہڈیوں سے گودا نکال کر 2700 ارب روپے کے گردشی قرضوں کی ادائیگی کی جا سکے اور نجی پاور کمپنیوں (آئی پی پیز) کی تجوریاں بھری جا سکیں۔ ایسے ہی پیٹرولیم لیوی کو بڑھا کر پیٹرول، ڈیزل کی قیمتوں میں 20 روپے فی لیٹر کا بڑا اضافہ کر دیا گیا ہے۔ مزید برآں آئی ایم ایف نے حکومت سے روپے کی قیمت کو مکمل طور پر منڈی کے رحم و کرم پر چھوڑ دینے کی گارنٹی لی ہے جبکہ انہی شرائط کے تحت عنقریب سٹیٹ بنک کی جانب سے شرح سود میں مزید اضافہ متوقع ہے جو پہلے ہی 22 فیصد کی بلند ترین سطح پر ہے جس کی وجہ سے نہ صرف ملک کے داخلی قرضے بہت مہنگے ہو چکے ہیں بلکہ ملکی منڈی کی قوت خرید کو بھی زبردست نقصان پہنچا ہے۔ یہاں یاد رکھنے کی ایک اہم بات یہ بھی ہے کہ حال ہی میں الیکشن قوانین میں کی جانے والی تر امیم کے ذریعے نگران حکومت کو ”اہم“ معاشی فیصلے کرنے کے اختیارات دے دیے گئے ہیں جبکہ دوسری طرف عام انتخابات کے انعقاد میں کچھ تاخیر ہونے کے امکانات واضح ہوتے جا رہے ہیں جس کا مطلب ہے کہ نگران حکومت کے عرصے میں محنت کش عوام پر مزید بڑے معاشی حملے کئے جائیں گے۔
قرض معاہدے کی شرائط کے تحت حکومت پہلے ہی سے جاری عوامی اداروں کی نجکاری کے عمل میں بھی مزید شدت لا رہی ہے اور اس سلسلے میں کئی سول ہوائی اڈوں اور کراچی بندرگاہ کی آؤٹ سورسنگ کا اعلان کر دیا گیا ہے جبکہ ریلوے، واپڈا، پی آئی اے سمیت کئی عوامی اداروں کی حصوں بخروں میں مزید نجکاری اور آؤٹ سورسنگ کا منصوبہ تیار کر لیا گیا ہے۔ اسی طرح ”منی بجٹ“ کی صورت میں نئے ٹیکسوں کے نفاذ اور پرانے ٹیکسوں کی شرح میں اضافے کا سلسلہ بھی پورے مالی سال جاری رہے گا تاکہ رواں مالی سال کا 9400 ارب روپے ٹیکس آمدن کا ہدف حاصل کیا جا سکے جبکہ 3000 ارب روپے کا نام نہاد نان ٹیکس ریونیو ہدف اس کے علاوہ ہے جس کا ایک بڑا حصہ پیٹرولیم لیوی اور توانائی بلوں پر لیے جانے والے مختلف قسم کے سرچارجز کی مد میں اکٹھا ہوتا ہے جو درحقیقت بالواسطہ ٹیکس ہی ہیں۔ یاد رہے کہ آئی ایم ایف کے احکامات کے تحت پی ڈی ایم حکومت محض پچھلے 6 ماہ میں (فروری منی بجٹ، اوائل جون میں سالانہ بجٹ، جون کے آخر میں ہونے والی بجٹ ایڈجسٹمنٹ) میں 950 ارب روپے سالانہ کے نئے ٹیکس اقدامات اٹھا چکی ہے جن کا ایک بہت بڑا حصہ محنت کش طبقے کو نشانہ بنانے والے بالواسطہ ٹیکسوں اور تنخواہ دار درمیانے طبقے پر لادے جانے والے براہ راست ٹیکسوں پر مبنی ہے۔ یاد رہے کہ پاکستان کی ٹیکس آمدن کا تقریباً دو تہائی بالواسطہ ٹیکسوں سے اکٹھا ہوتا ہے جن کا زیادہ تر بوجھ محنت کش عوام پر پڑتا ہے جبکہ براہ راست ٹیکسوں سے آنے والی بقیہ ایک تہائی ٹیکس آمدن کا ایک بڑا حصہ بھی درمیانے طبقے سے حاصل کیا جاتا ہے جیسا کہ حال ہی میں منظر عام پر آنے والی ایک رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ پچھلے مالی سال میں تنخواہ دار درمیانے طبقے سے انکم ٹیکس کی مد میں 264 ارب روپیہ اکٹھا کیا گیا جبکہ اسی عرصے میں ایکسپورٹرز اور تاجروں نے کل ملا کر صرف 90 ارب روپے کا انکم ٹیکس دیا۔ جہاں تک ملکی و غیر ملکی کارپوریٹ بزنس، بنکوں، بڑی صنعتوں، بڑے زمینداروں، فوجی وسول افسر شاہی اور عدالتی اشرافیہ کا تعلق ہے تو انہوں نے ٹیکس کیا دینا ہے الٹا ہر سال انہیں ٹیکس چھوٹ سمیت 2700 ارب روپے کی معاشی مراعات سے نوازا جاتا ہے (یو این ڈی پی کی این ایچ ڈی آر 2021ء رپورٹ) اور یہ ابھی 3 سال پرانے اعداد و شمار ہیں۔ سرمایہ دار طبقے اور ریاستی اشرافیہ کو دی جانے والی ان معاشی مراعات کی خبریں آئے روز گردش کرتی رہتی ہیں جیسا کہ حال ہی میں منظر عام پر آنے والے ایک سکینڈل میں پتا چلا ہے کہ کرونا وبا کے دوران حکومت کے کہنے پر اسٹیٹ بنک نے گارنٹر بن کرملک کی 26 کارپوریٹ کمپنیوں کو ملکی کمرشل بنکوں سے دس سالہ مدت رکھنے والے 570 ارب روپے مالیت کے بلاسود قرضے دلوائے۔ جب اس معاملے کی چھان بین کے مطالبے نے زور پکڑا تو اسٹیٹ بنک نے مستفید ہونے والوں کے نام بتانے سے صاف انکار کر دیا۔
اب اگر وفاقی اخراجات کو دیکھا جائے تو بجٹ میں 7300 ارب روپے سے زائد رقم صرف سابقہ قرضوں کے سود کی ادائیگی کے لئے رکھی گئی ہے (یہ سارا پیسہ عالمی مالیاتی اداروں، سامراجی ممالک و بنکوں اور ملکی نجی بنکوں کی تجوریوں میں جائے گا) لیکن درحقیقت بڑھتی ہوئی شرح سود کی وجہ سے داخلی قرضوں کی سود کی ادائیگیوں میں بڑے اضافے اور ملکی کرنسی میں گراوٹ کی وجہ سے (روپوں میں) بیرونی قرضوں کے سود کی ادائیگیوں کے بڑھتے ہوئے حجم کے کارن یہ رقم اس سے کہیں زیادہ بنے گی۔ 2800 ارب روپے کا فوجی بجٹ ہے (بنیادی فوجی بجٹ، فوجی پنشنز، اسلحہ خریداری کی رقم، سپلیمنٹری گرانٹس اور ایٹمی پروگرام سب ملا کر) جس کا ایک قابل ذکر حصہ فوجی اشرافیہ کی جیبوں میں جائے گا۔ حکومت، سول افسر شاہی اور عدلیہ کے اپنے ”رننگ اخراجات“ یعنی عیاشیاں ابھی اس کے علاوہ ہیں۔ جبکہ واپڈا،ریلوے، پی آئی اے وغیرہ جیسے وفاقی محکموں کے اخراجات، عام وفاقی ملازمین کی تنخواہیں، پنشنز وغیرہ اور وفاقی ترقیاتی پروگرام جیسے ضروری اخراجات کا تو ابھی ہم نے ذکر ہی نہیں کیا۔ مگر این ایف سی ایوارڈ کے تحت وفاقی آمدن میں سے صوبوں کو ان کے حصے کا 5300 ارب روپیہ دینے کے بعد وفاق کے پاس بچنے والی رقم سود کی ادائیگیوں کے لئے بھی ناکافی ہو گی لہٰذا رواں مالی سال میں 7300 ارب روپے کا ریکارڈ مالیاتی خسارہ (جو درحقیقت اس بھی زیادہ ہوگا) متوقع ہے جسے پورا کرنے کے لئے داخلی اور بیرونی قرضوں کے نئے انبار لگائے جائیں گے، جن سے تجوریاں ملکی و غیر ملکی حکمران اشرافیہ کی بھریں گی مگر انہیں اتاریں گے ملک کے محنت کش عوام۔
اسی طرح اگر خاص طور پر معیشت کے بیرونی شعبے پر نظر دوڑائی جائے تو رواں مالی سال 2024ء سے لے کر مالی سال 2026ء کے اختتام تک حکومت کو صرف بیرونی قرضوں اور ان کے سود کی ادائیگیوں کے لیے 25 ارب ڈالر سالانہ یعنی تین سالوں میں 75 ارب ڈالر کا خطیر زر مبادلہ چاہئیے۔ سالانہ کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ ابھی اس کے علاوہ ہے جو آئی ایم ایف سٹینڈ بائے قرض معاہدے کی شرائط کے تحت درآمدات پر عائد پابندیوں کے اٹھائے جانے کے کارن واپس بڑھنے کی طرف جائے گا۔ اس کے علاوہ بلڈ، آپریٹ، ٹرانسفر بنیادوں پر لگائے جانے والے کئی ایک سی پیک منصوبوں اور دیگر پراجیکٹس کے منافعے بھی پہلے ملک میں ڈالرز میں تبدیل کیے جاتے ہیں اور پھر بیرون ملک بھیجے جاتے ہیں۔ قصہ مختصر یہ کہ فارن ایکسچینج کی یہ ضروریات پوری کرنے کے لئے موجودہ سٹینڈ بائی معاہدے کی معیاد پوری ہوتے ساتھ ہی اگلی حکومت کو آئی ایم ایف کے ساتھ ایک نیا معاہدہ کرنا پڑے گا جس کی شرائط پہلے سے بھی زیادہ عوام دشمن ہوں گی کیونکہ اس کے بغیر پاکستان ادائیگیوں کا توازن برقرار نہیں رکھ سکتا۔ لیکن یاد رہے کہ موجودہ سٹینڈ بائی معاہدے اور مستقبل کے متوقع نئے قرض معاہدے کا یہ مطلب نہیں کہ پاکستان ڈیفالٹ ”پروف“ ہو جائے گا۔معیشت کا بیرونی شعبہ مسلسل شدید دباؤ کا شکار رہے گا اور ملک ڈیفالٹ سے محض چند قدم کی دوری پر لڑکھڑاتا رہے گا اور کوئی بھی غیر معمولی واقعہ، خاص کر عالمی معیشت کے مالیاتی بحران کی بڑھتی شدت اسے دیوالیے کی کھائی میں دھکیل دے گی۔ یہاں یہ امر دلچسپی کا باعث ہے کہ پچھلے کچھ عرصے میں جب ہم پاکستانی معیشت کے دیوالیہ پن کو آشکار کر رہے تھے تو بائیں بازو کے کچھ ”کن ٹٹے“ دانشور اسحاق ڈار جیسوں کے ہمنوا بنتے ہوئے ”ملک دیوالیہ نہیں ہو گا۔۔“ کا راگ الاپ رہے تھے اور ہم پر ہمیشہ کی طرح ”انتہا پسندی“ کا فتویٰ لگا رہے تھے۔ ان دانشور حضرات کا المیہ یہ ہے کہ یہ ڈیفالٹ اور دیگر معاشی مظاہر کی یونیورسٹی کتب میں پڑھائی جانے والی بورژوا تعریفوں کو کچھ زیادہ ہی سنجیدہ لے لیتے ہیں (جبکہ خود بورژوازی بھی اب ان بکواسیات پر کم ہی یقین کرتی ہے)۔ ان عالم فاضل حضرات کے کتابی بورژوا علم کے مطابق ڈیفالٹ کا اعلان تو صرف تب ہی کیا جا سکتا ہے جب کوئی ملک بیرونی قرضوں اور ان کے سود کی ادائیگی کرنے سے قاصر ہو جائے اور جب تک ایسا نہ ہو تب تک معیشت کو دیوالیہ نہیں کہا جا سکتا چاہے گروتھ ریٹ منفی میں چلا جائے، ملکی کرنسی فری فال میں چلی جائے، شرح سود آسمان کو چھونے لگے، صنعت کا پہیہ رک جائے، کروڑوں بیروزگار ہو جائیں، بجلی، ایندھن، ادویات جیسی بنیادی ضروریات زندگی مہنگی ہو کر عوام کی بڑی اکثریت کی پہنچ سے باہر ہو جائیں، آٹے کے لیے لگنے والی لائنوں میں روزانہ اموات ہونے لگیں، یعنی یہ سب بربادی تو ان خواتین و حضرات کے لئے کوئی معنی نہیں رکھتی۔ بس بیرونی قرضوں اور سود کی ادائیگی جب تک جاری ہے تب تک معیشت کو دیوالیہ قرار دینا ان عالموں کے نزدیک غلط ہے۔ نہ جانے یہ لوگ کس منہ سے اپنے آپ کو بایاں بازو قرار دیتے ہیں کیونکہ اصل میں یہ حکمران طبقے کے بد ترین معذرت خواہ ہیں۔ حقیقت تو یہ ہے کہ آئی ایم ایف کے حالیہ سٹینڈ بائی معاہدے سے اگر انتہائی عارضی طور پر سانس لینے کی مہلت ملی بھی ہے تو حکمران طبقے کی معیشت کو ملی ہے (اگرچہ اس کی قیمت بھی محنت کش عوام ہی ادا کر رہے ہیں) لیکن محنت کش طبقے کے لیے تو ملک کب کا ڈیفالٹ ہو چکا ہے۔ ملک کے طول و عرض میں شاید ہی کوئی مزدور گھرانہ ایسا ہو جس نے اپنے اخراجات کو قابو میں رکھنے کی کوششوں میں اپنی دو وقت کی روٹی پر بھی کٹوتی عائد نہ کی ہو یا پچھلے عرصے میں کہیں سے چھوٹا موٹا ادھار پکڑنے کی کوشش نہ کی ہو۔
اسی طرح اگر جی ڈی پی گروتھ ریٹ کی بات کی جائے تو حکومت نے پچھلے مالی سال (مالی سال 2023ء) کا گروتھ ریٹ 0.29 فیصد بتایا ہے جو کہ سراسر ”فیس سیونگ“ کی ایک بھونڈی کوشش ہے۔ درحقیقت پچھلے مالی سال کا گروتھ ریٹ منفی میں رہا ہے اور معیشت سکڑنے کی طرف گئی ہے۔ صرف ہم ہی نہیں بلکہ تمام سنجیدہ بورژوا معیشت دانوں کا بھی یہی ماننا ہے۔ حکومت کے اپنے اعداد و شمار کے مطابق پچھلے مالی سال میں ملک کی کل صنعتی پیداوار میں 2.94 فیصد کی کمی ریکارڈ ہوئی جبکہ اگر صرف لارج سکیل مینوفیکچرنگ کی بات کی جائے تو پچھلے مالی سال کے پہلے دس ماہ میں (جولائی 22ء تا اپریل 23ء) میں اس میں 9.4 فیصد کی کمی ریکارڈ ہوئی۔ اسی طرح سرکاری اعداد و شمار کے مطابق پچھلے مالی سال کے پہلے دس ماہ میں افراطِ زر کی اوسط شرح 28.2 فیصد رہی۔ فی کس سالانہ آمدن 1766 ڈالر سے گر کر 1568 ڈالر پر آگئی۔ ان تمام سرکاری اعداد و شمار کو دینے کا مقصد صرف یہ بتانا ہے کہ اتنی تباہی و بربادی تو خود حکمران اپنے منہ سے تسلیم کر رہے ہیں ورنہ ہم بخوبی جانتے ہیں کہ یہ سب فگرز جھوٹ کا ایک پلندہ ہیں اور معیشت کی حقیقی گراوٹ اور محنت کش عوام پر پڑنے والے اس کے تباہ کن اثرات اس سے کہیں زیادہ ہیں۔ لیکن جب صورتحال یہاں تک بگڑ چکی ہے اور یہ واضح ہے کہ مستقبل میں بھی ایک طرف معاشی بحالی کا دور دور تک کوئی امکان نہیں تو دوسری طرف سرمایہ دار حکمران طبقہ معاشی بحران کا تمام تر بوجھ محنت کش طبقے کے کندھوں پر لادنے کے لئے ان پر مزید شدت سے حملہ آور ہو گا تو ناگزیر طور پر یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا محنت کش طبقے کے پاس نجات کا کوئی راستہ ہے؟
نجات کا واحد راستہ۔۔سوشلسٹ انقلاب!
صرف اور صرف ایک مزدور ریاست اور سوشلسٹ منصوبہ بند معیشت کی تخلیق و تعمیر ہی یہاں کے محنت کش طبقے کو معاشی بربادی کی گہری دلدل سے نکال سکتی ہے اور انہیں ایک خوشحال زندگی بسر کرنے کے لئے درکار مادی وسائل مہیا کر سکتی ہے۔ پاکستان کے تمام معاشی مسائل کی بنیادی وجہ مزدور کے استحصال پر قائم یہ گلا سڑا سرمایہ دارانہ نظام ہے جس میں فیکٹریوں، ملوں، بنکوں، جاگیروں، معدنی وسائل سمیت دولت پیدا کرنے کے تمام ذرائع ایک چھوٹے سے ملکی و غیر ملکی سرمایہ دار طبقے کی نجی ملکیت ہیں اور وہ انہیں اندھا دھند منافع خوری اور اپنی تجوریاں بھرنے کے لئے استعمال کرتا ہے۔ اسی طرح پاکستان کی سامراجی گماشتہ ریاست بھی ایک سرمایہ دارانہ ریاست ہے جس کا واحد مقصد عالمی مالیاتی اداروں کی دلالی، ملکی و غیر ملکی سرمایہ دار طبقے کی نجی ملکیت اور منافع خوری کو مسلح تحفظ فراہم کرنا اور یہاں کے محنت کش عوام کو بزور طاقت دبا کر رکھنا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان کی فوجی و سول ریاستی اشرافیہ ہو یا یہاں کی عدلیہ، سب کا کردار انتہائی مزدور دشمن ہے۔ اس کے برعکس ایک سوشلسٹ منصوبہ بند معیشت میں دولت پیدا کرنے کے تمام ذرائع محنت کش طبقے کی اجتماعی ملکیت میں ہوں گے اور وہ سماجی ضروریات پر مبنی منصوبہ بندی کے تحت انہیں اپنے جمہوری کنٹرول میں چلائے گا۔یہی وجہ ہے ایک سوشلسٹ معیشت میں پیداوار کا مقصد منافع خوری نہیں بلکہ محنت کش عوام کی ضروریات پوری کرنا ہو گا۔ مزید برآں ماضی میں سرمایہ دار طبقے اور اس کی ریاست کی جانب سے لئے گئے تمام داخلی و بیرونی قرضوں کو ضبط کر لیا جائے گا اور ان کی واپسی سے صاف انکار کر دیا جائے گا کیونکہ یہ قرضے نہ تو یہاں کے محنت کش عوام نے لئے اور نہ ان پر خرچ ہوئے۔ اسی طرح مزدور ریاست بھی کسی سرمایہ دارانہ ریاست سے بالکل مختلف ہو گی کیونکہ اس میں سرمایہ دارانہ ریاست کے تمام عوام دشمن اداروں جیسے کہ فوج، پولیس، عدلیہ، پارلیمان وغیرہ کا کوئی وجود نہیں ہو گا۔ مزدور ریاست کا تمام تر انتظام محنت کشوں، چھوٹے کسانوں، عام نوجوانوں و طلبہ پر مبنی انقلابی کمیٹیوں کے پاس ہو گا جنہیں گلی محلے کی سطح سے لے کر مرکزی سطح تک جمہوری انداز میں منتخب کیا جائے گا۔ ووٹ دینے والوں کے پاس اپنے منتخب کردہ نمائندوں کو ناقص کارکردگی پر کبھی بھی فوراً واپس بلانے کا اختیار ہو گا۔ عدل و انصاف کے لئے عوامی عدالتیں ہوں گی جو اپنے علاقے کی جمہوری طور پر منتخب کردہ کمیٹیوں کے تابع ہوں گی۔ کسی بھی ریاستی اہلکار کی تنخواہ اور مراعات ایک ہنر مند مزدور سے زیادہ نہیں ہوں گی۔ پولیس کا کوئی باقاعدہ محکمہ نہیں ہو گا بلکہ علاقے کا امن امان برقرار رکھنا اس علاقے کی انقلابی کمیٹی کی ذمہ داری ہو گی اور تمام اہل علاقہ اس میں مدد کریں گے۔ محنت کش عوام کی تمام بالغ آبادی فوجی تربیت یافتہ ہو گی جس کے سیاسی طور پر سب سے شعور یافتہ عناصر کو ایک مزدور فوج میں منظم کیا جائے گا۔ اس فوج میں افسروں اور سپاہیوں کی تنخواہیں اور مراعات برابر ہوں گی اور اس میں افسروں کا انتخاب سپاہیوں کی کمیٹیوں کے ذریعے کیا جائے گا۔ مزید برآں مزدور فوج الگ تھلگ چھاؤنیوں میں نہیں بلکہ باقی تمام آبادی کے بیچ گھل مل کر رہے گی۔ سرمایہ دارانہ بنیادوں پر تشکیل دیے گئے تمام آئین و قانون کا خاتمہ ہو گا اور انقلابی کمیٹیوں کے ذریعے ایک نیا آئین و قانون تشکیل دیا جائے جو محنت کش طبقے، چھوٹے کسانوں، طلبہ، چھوٹی قومیتوں، خواتین کے معاشی، سیاسی و سماجی حقوق کا ضامن ہوگا۔
مگر سرمایہ دارانہ نظام اور ریاست کا خاتمہ خود بخود نہیں ہو سکتا۔ تاریخ میں آج تک حکمران اشرافیہ نے کبھی بھی اپنی ملکیت اور اختیارات کو رضاکارانہ طور پر نہیں چھوڑا ہے ۔اس مقصد کے لیے یہاں کے محنت کش طبقے کو سماج کی دیگر تمام مظلوم پرتوں کی قیادت کرتے ہوئے ایک انقلابی تحریک برپا کرنی پڑے گی اور اسے سوشلسٹ نظام و ریاست کی تخلیق و تعمیر کے منطقی انجام تک پہنچانا پڑے گا۔ مگر محنت کش طبقہ اپنے تمام تر انقلابی پوٹینشیل اور جرات و بہادری کے باوجود تن تنہا یہ فریضہ سر انجام نہیں دے سکتا۔ کامیابی کے لیے لازمی ہے کہ ایک انقلابی بغاوت میں اس کی قیادت مارکسزم لینن ازم یا سائنسی سوشلزم کے نظریات سے مسلح، درست تناظر و پروگرام رکھنے والی منجھے ہوئے منظم کیڈرز پر مبنی ایک انقلابی پارٹی کے پاس ہو۔ مگر یہ پارٹی بھی عین وقت پر خود بخود آسمان سے نہیں ٹپکے گی۔ اسے آج کے وقت میں محنت کش طبقے اور نوجوانوں کے ہر اول لڑاکا عناصر کو مارکسزم کے نظریات سے روشناس کراتے ہوئے، انہیں منظم کرتے ہوئے اور انہیں مزدور تحریک کیساتھ جوڑتے ہوئے تعمیر کرنا پڑے گا۔ یہی آج مارکس وادیوں کا اہم ترین تاریخی فریضہ ہے۔