|تحریر: پارس جان|
انتشار زدہ پاکستانی ریاست کے لیے ہر آنے والا دن پہلے سے زیادہ تشویش اور عدم استحکام کا باعث بن رہا ہے۔ معیشت کا بحران جہاں ریاستی اداروں کو دیمک کی طرح کھا رہا ہے، وہیں سیاسی اتھل پتھل کو مہمیز دے رہا ہے اور مسلسل بڑھتا ہوا سیاسی تناؤ معاشی گراوٹ کی رفتار کو تیز سے تیز تر کرتا چلا جا رہا ہے۔ موجودہ اتحادی حکومت سے خیر کی توقع کرنے والے تمام خوش فہم دانشوروں اور تجزیہ نگاروں کے لیے پنجاب میں 20 صوبائی حلقوں میں ہونے والے ضمنی انتخابات کے نتائج قیامت خیز ہیں اور انکی نیندیں حرام ہو چکی ہیں۔ ان انتخابی نتائج کے پاکستان کے مستقبل پر پڑنے والے اثرات کو اتنا بڑھا چڑھا کر پیش کیا جا رہا ہے جیسے اگر نتائج اس کے برعکس ہوتے تو شاید ملک ترقی کے راستے پر گامزن ہونے ہی والا تھا، بھنور میں ہچکولے کھاتی جمہوریت ساحل پر لنگر انداز ہونے ہی والی تھی اور عوام کے ناسور بن چکے سارے زخم مندمل ہونے ہی والے تھے۔ دوسری طرف اس بڑے پیمانے کی فتح سے تحریک انصاف کے حمایتیوں کی انا کو تو ضرور تسکین پہنچی ہے اور فی الحال وہ احساس کامرانی سے سرشار بھی ہیں لیکن اس سرشاری میں امید، فلاح اور اعتماد کا شدید فقدان ہے اور مستقبل کے بارے میں شکوک و شبہات اور غیر یقینی پن نہ صرف برقرار ہے بلکہ اس میں مزید اضافہ ہی ہوا ہے۔ پاکستان کی یہ موجودہ صورتحال عالمی سطح پر سرمایہ دارانہ نظام کے انحطاط کا ہی شاخسانہ ہے۔ دنیا بھر میں ایک کے بعد دوسرے ملک میں حالات حکمران طبقے کے کنٹرول سے باہر ہوتے چلے جا رہے ہیں۔ حال ہی میں برطانیہ اور اٹلی کے وزرائے اعظم کے استعفے اور جاپان کے سابقہ وزیراعظم کے قتل کی واردات سے نظر آ رہا ہے کہ عالمی معیشت کے شدید خلفشار نے عالمی سیاست کو ایک بند گلی میں لا کھڑا کیا ہے۔ امریکہ میں بھی جو بائیڈن اور اس کے حواریوں کو شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ چینی معیشت کے غبارے سے بھی ہوا کا اخراج تیز سے تیز تر ہوتا چلا جا رہا ہے۔ ایسے میں ان سامراجی آقاؤں پر کلی طور پر انحصار کرنے والی پاکستانی ریاست کا دم گھٹ رہا ہے۔ پارلیمنٹ، عدلیہ، فوج سب ادارے عوام کے لیے مذاق بن چکے ہیں۔ انتخابات، میڈیا کے مباحث اور عدالتی کارروائیوں کو عوامی حلقوں نے سنجیدہ لینا ہی چھوڑ دیا ہے۔ ایسے میں اگر پنجاب کے حالیہ انتخابات کے نتائج اس کے بالکل برعکس بھی ہوتے تو پاکستان کے عمومی تناظر کی سمت میں کوئی قابلِ ذکر تبدیلی آنے والی نہیں تھی۔ زوال اور انہدام کا یہ سفر اب کسی صورت تھمتا دکھائی نہیں دے رہا۔
قومی اسمبلی میں تحریک عدم اعتماد کے ذریعے عمران خان کی حکومت کے خاتمے کے محرکات اب کسی سے ڈھکے چھپے نہیں رہے۔ گزشتہ حکومت کے چار سالوں میں معیشت دیوالیہ پن کے دہانے پر پہنچ گئی تھی، عمران خان کی سرمایہ نواز پالیسیوں نے عوام کا جینا حرام کر دیا تھا اور اسکی مقبولیت کا گراف تیزی سے نیچے آ رہا تھا۔ لیکن موجودہ حکمران ٹولہ جس طریقے سے اسٹیبلشمنٹ کا دم چھلہ بن کر اقتدار تک پہنچا، اس کے باعث عمران خان کی گرتی ہوئی مقبولیت نے بھی عمران خان کی طرح تاریخی یو ٹرن لے لیا اور صورتحال ڈرامائی انداز میں تبدیل ہو گئی۔ عمران خان کو جس ریاستی مشینری نے اقتدار کے ایوانوں تک رسائی دی تھی انہوں نے ہی داخلی تضادات کے بے قابو ہو جانے کے باعث اسے وہاں سے بے دخل کر دیا۔ ملک کے واحد ”منظم“ ادارے یعنی فوج میں واضح دھڑے بندی نے ریاستی رٹ کو ہی داؤ پر لگا دیا۔ فوج کے ادارے میں یہ دھڑے بندی بظاہر خارجہ پالیسی میں دو متحارب رجحانات کی عکاسی کر رہی تھی مگر درحقیقت یہ فوج کی اپنی ہی فطری حدود سے متجاوز معاشی سلطنت پر قبضے کی لڑائی تھی جو حکومتی تبدیلی کے بعد کم ہونے کی بجائے مزید مشتعل ہو چکی ہے۔ اس سارے کھیل میں میڈیا اور عدلیہ کا بے دریغ استعمال کیا جا رہا ہے جس کے باعث ریاست کے بارے میں رائے عامہ میں بڑے پیمانے کی تبدیلیاں وقوع پذیر ہو رہی ہیں۔ اس وقت پاکستانی سیاست کا سب سے اہم پہلو ”مقدس گائے“ کی حرمت کی سربازار نیلامی ہے۔ مگر دوسری طرف تمام سیاسی قیادتیں چاہے وہ حکومت میں ہوں یا اپوزیشن میں، اسی مقدس گائے کے سینگوں سے لٹکی دکھائی دے رہی ہیں جس کے باعث ان کی سماجی بنیادیں معدوم ہوتی چلی جا رہی ہیں۔ جب معاشی لوٹ مار میں مناسب سانجھے داری اور سیاسی ساکھ کی بقا کا سوال سر اٹھاتا ہے تو عوام کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کے لیے مقدس گائے کے سینگوں سے لٹکے لٹکے ہی اس کے کان مروڑ کر یہ تاثر دینے کی کوشش کی جاتی ہے کہ اب ہم اس کو نکیل ڈالنے کا حتمی فیصلہ کر چکے ہیں۔
”اینٹی اسٹیبلشمنٹ“ بیانیہ عمومی سیاست میں مرکزی اور فیصلہ کن کردار اختیار کر چکا ہے۔ پنجاب کے حالیہ ضمنی انتخابات میں بھی کسی پارٹی یا لیڈر کی فتح نہیں ہوئی بلکہ اسی بیانیے کی ہی فتح ہوئی ہے جس کا ڈھول آجکل وقتی طور پر تحریکِ انصاف کے گلے میں لٹک رہا ہے۔ اس سے قبل چار سال ہی ہوئے ہوں گے جب ہم نے نواز شریف کو یہ ڈھول پیٹتے ہوئے دیکھا تھا اور اس سے درمیانے طبقے کی قابل ذکر حمایت اسکی جھولی میں آ گری تھی۔ یوں پاکستان کی مین سٹریم سیاست کا یہ نیا معمول بن چکا ہے کہ اقتدار کے حصول کے لیے فوج مخالف نعرے بازی کی جاتی ہے مگر اقتدار میں آ کر ان کے تلوے چاٹنے میں گزشتہ حکومت کے بھی تمام ریکارڈ توڑ دیئے جاتے ہیں۔ یہی وطیرہ نواز لیگ کی قیادت میں بننے والی حالیہ حکومت نے اپنایا اور ساتھ ہی آئی ایم ایف کی پالیسیوں کو بھی اس وحشیانہ طریقے سے لاگو کیا کہ گزشتہ حکومت سے نالاں اور ناراض لوگوں کو بھی ایک دفعہ پھر عمران خان فرشتہ دکھائی دینے لگا۔ عمران خان اور اس کے پشت پناہوں نے بڑی مہارت سے ”سازش“ کی کہانی رچا کر درمیانے طبقے سے اپنے تمام گناہ معاف کروا لیے۔اب عمران خان دوبارہ مرکز میں اقتدار میں آنے تک اسی اسٹیبلشمنٹ مخالف بیانیے کے ڈھول کو اسی طرح پیٹتا رہے گا۔ لیکن یہ سیاسی اشرافیہ اس کھیل کو لا امتناعی طور پر جاری نہیں رکھ سکتی۔ وہ خود اس کی فطری محدودیت سے ابھی تک ناواقف ہیں اور وہ یہ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ یہ کھلواڑ درمیانے طبقے کے شعور کی موجودہ کیفیت کی اگرچہ درست عکاسی کرتا ہے مگر یہ ایک مستقل سیاسی مظہر نہیں ہے۔ اس سیاسی مساوات (equation) میں محنت کش طبقے کی عدم دلچسپی ایک کلیدی عامل ہے۔ محنت کش طبقہ اس کھلواڑ پر گہری نظر رکھتے ہوئے بھی اس کا حصہ نہیں ہے اور ابھی اپنی چھوٹی چھوٹی اور ایک دوسرے سے بظاہر لاتعلق لڑائیوں میں سرگرم ہے مگر وہ اپنی اسی مسلسل بڑھتی ہوئی سرگرمی سے اہم سیاسی نتائج بھی برآمد کر رہا ہے۔ وہ ملکی معیشت اور عالمی سیاسی حالات کے دباؤ میں درمیانے طبقے کے شعور کے اس معمول کو توڑ کر ایک بالکل نئی سیاسی صورتحال کو جنم دے سکتا ہے اور اس نورا کشتی اور سیاسی تماشے کو منطقی انجام تک پہنچا سکتا ہے۔یہ درست ہے کہ اس وقت جی ایچ کیو پر براجمان ریاستی دھڑا پنجاب حکومت میں فوری تبدیلی کا خواہاں نہیں تھا مگر عمران خان نے اپنے پشت پناہوں (handlers) کی کھلی چھوٹ کے بلبوتے پر حالیہ انتخابی مہم میں کھل کر عسکری اداروں کو لتاڑا اور مسٹر ایکس اور مسٹر وائی کی نئی اصطلاحات بھی متعارف کروائیں۔ دوسری طرف موجودہ حکومت کے اقتدار میں آنے کے بعد سے مسلسل بڑھتی ہوئی مہنگائی نے بھی حکومت مخالف جذبات کی شدت میں اضافہ کیا۔ ریاست کے دونوں دھڑوں میں ثالثی کروانے کی کوشش کرنے والے برگزیدہ دماغوں نے اسی میں عافیت جانی کہ فی الحال پنجاب تحریک انصاف کو دے کر مفاہمت اور مصالحت کا آغاز کیا جائے۔ جو لوگ یہ سمجھ رہے ہیں کہ عمران خان مبینہ طور پر محض عوامی مینڈیٹ کے دم پر ہی اتنی نشستیں جیتنے میں کامیاب ہو گیا ہے، وہ تصویر کا محض ایک رخ ہی دیکھ رہے ہیں۔
ریاست کے بحران کو اس کے تاریخی پس منظر سے کاٹ کر سمجھنے کی ہر کوشش نئے سیاسی مغالطوں کو جنم دینے کا باعث بنتی ہے۔ عسکری اداروں نے سٹریٹیجک ڈیپتھ سے لے کر ”ففتھ جنریشن وار“ تک اپنی لوٹ مار کو جواز فراہم کرنے کے لیے جتنی بھی سیاسی مہم جوئیاں کی تھیں، اب انہیں انکے مکافات عمل کا سامنا ہے۔ جہاں ایک طرف آج پاکستان سفارتی تنہائی کا شکار ہو چکا ہے، وہیں عوام میں عسکری اداروں اور ان کے سامراجی آقاؤں سے نفرت اتنی شدید ہو چکی ہے کہ لوگ انہیں کسی بھی صورت اور کسی بھی شکل میں قبول کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ نظریہِ پاکستان اپنی موت کب کا مر چکا اور اس کی لاش کا تعفن سماجی پھیپھڑوں کو ناکارہ کر رہا ہے۔ ریاستی پالیسی سازوں کو جب اپنے سامراجی آقاؤں کی پھینکی جانے والی ہڈیوں کی رسد بند ہوتی ہوئی نظر آنا شروع ہوئی تھی تو انہوں نے نام نہاد نیا”بیانیہ“ متعارف کروایا۔ کہا گیا کہ امریکہ بہادر نے پاکستانی ریاست کو خطے میں اپنے مفادات کے لیے استعمال کر کے تنہا چھوڑ دیا ہے لہٰذا اب آزادانہ خارجہ پالیسی تشکیل دیتے ہوئے نئے آقاؤں کی غلامی کا طوق گلے میں ڈال لینا چاہیے۔ الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا کے ساتھ ساتھ سوشل میڈیا کے ذریعے نوجوان نسل کے دماغ میں یہ راسخ کیا گیا کہ درحقیقت ملک کے موجودہ دگرگوں حالات کی ذمہ داری یہاں کی بدعنوان سیاسی قیادتوں (جو کہ واقعی بے انتہا بدعنوان ہیں)پر عائد ہوتی ہے اور جرنیل اشرافیہ دودھ سے دھلی ہوئی ہے۔ درمیانے طبقے کے سیاسی ہیجان کو استعمال کرتے ہوئے ”کرپشن کے خاتمے“ اور نام نہاد ”قومی غیرت“ کی کھوکھلی نعرے بازی کی گئی۔ اس ریاستی کیمپیئن کی باز گشت خود فوج اور پولیس سمیت اداروں کے اندر بالخصوص درمیانے درجے کے افسران میں بھی موجود ہے۔ جس کا اظہار عمران ریاض نامی ”صحافی نما“ دانشوروں کی تقاریر اور گفتگو میں ہوتا ہے۔ گویا آنے والے دنوں میں فوج اور خفیہ اداروں کے لیے مسائل کم ہونے کی بجائے مزید بڑھ رہے ہیں۔ جہاں ایک طرف عمران ریاض جیسے ایک دھڑے کے موقع پرست ماؤتھ پیس ریاستی انتشار کا عندیہ دے رہے ہیں، وہیں ریاست کے مستقبل کے بارے میں ریاستی اداروں اور فوج کی نچلی صفوں میں مایوسی اور بدظنی بھی آئے روز تقویت پکڑ رہی ہے۔ جرنیل شاہی کے خلاف جتنی نفرت عوام کے اندر موجود ہیں، اس کے اثرات خود فوج کے عام سپاہیوں کے اندر بھی سرایت کر رہے ہیں اور یہ ریاست کے مستقبل کے تناظر کے حوالے سے ایک اہم پیش رفت ہے جسے عام طور پر نظر انداز کر دیا جاتا ہے۔مسلم لیگ نون، پیپلز پارٹی سمیت دیگر درجن بھر پارٹیوں کی اس مخلوط حکومت کے ہمدردوں اور معذرت خواہان جن میں دائیں اور بائیں دونوں طرف کے لبرلز شامل ہیں، کی سب سے بڑی غلطی ان کا تحریکِ انصاف کی سیاسی حمایت کا غلط اور غیر سائنسی تجزیہ ہے۔ ہمارے یہ دوست تحریک انصاف اور عمران خان کو فاشسٹ قرار دے چکے ہیں۔ اور ظاہر ہے کہ فاشزم کے مقابلے میں روایتی سیاسی دھارے کی حمایت اور تائید کرنے کے علاوہ ان کے پاس کوئی آپشن نہیں۔ وہ یہ دیکھ نہیں پا رہے کہ ان روایتی پارٹیوں کی نسل در نسل کی لوٹ مار سے عوام کی نفرت نے ہی تحریکِ انصاف کا بلبلہ بنانے میں فیصلہ کن کردار ادا کیا ہے۔ درمیانے طبقے کے نوجوانوں کی بھاری اکثریت امریکی سامراج اور ان سیاسی قیادتوں سے نفرت کرنے میں حق بجانب ہیں۔ ان پر فاشزم کا لیبل لگا دینا سراسر نہ صرف کج فہمی ہے بلکہ سیاسی بد دیانتی بھی ہے۔ بائیں بازو کے کسی سنجیدہ متبادل کی عدم موجودگی میں وہ دائیں بازو کی نعرے بازی سے متاثر ہونے پر مجبور ہیں۔ کئی دہائیوں کے اسٹیٹس کو (Status Quo) کے ٹوٹنے کے بعد یہ ناگزیر عبوری مرحلہ اپنے دامن میں ان میکانکی سوچ رکھنے والے دماغوں کے لیے بہت سے سرپرائز لیے ہوئے ہے اور ان کو مزید کئی جھٹکے لگا سکتا ہے۔
درمیانے طبقے کی سیاسی حمایت بہت کم دورانیوں کے وقفے سے ایک یا دوسرے پلڑے میں لڑھکتی رہے گی۔ مضحکہ خیز بات یہ ہے کہ عمران خان اور اسکے حمایتی موجودہ حکومت پر بھی جواب میں فاشزم کے ہی الزامات لگا رہے ہیں۔ ان تمام پارٹیوں میں رجعتی عناصر بلاشبہ موجود ہیں اور کسی ایک کو دوسرے سے بہتر قرار نہیں دیا جا سکتا۔ سب پارٹیاں مذہبی اور رجعتی عناصر کو اپنے اقتدار کا ایک اہم ٹول سمجھتی ہیں جبکہ مظلوم اقوام اور محکوم طبقات کی عوامی تحریکوں کے خلاف ریاستی طاقت کے بے دریغ استعمال پر یقین رکھتی ہیں۔ اس کی ایک واضح مثال موجودہ حکومت میں تحریک طالبان پاکستان کے ساتھ جاری رہنے والے مذاکرات کی شکل میں ہمارے سامنے ہے۔ حالانکہ اس حکومت میں ان بائیں بازو کے لبرل خواتین و حضرات کا محبوب ترین لیڈر بلاول بھٹو اس وقت وزیرخارجہ ہے مگر اس کے باوجود عمران خان کا اہم ترین ہینڈلر سمجھا جانے والا آئی ایس آئی کا سابقہ چیف اور پشاور کا کور کمانڈر افغانستان کا دورہ بھی کر چکا ہے اور طالبان کے ساتھ انہیں کی شرائط پر سمجھوتے کے لیے مذاکرات بھی جاری ہیں جن کی وزارتِ خارجہ کی طرف سے کوئی بریفننگ بھی ابھی تک سامنے نہیں آئی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ موجودہ حکومت نے آئی ایس آئی کے اختیارات میں مزید اضافے کے احکامات بھی صادر کر دیئے ہیں۔ ان دانشوروں کی سیاسی گمراہی کے پیچھے انکی اس خوش گمانی کا بھی بڑا ہاتھ ہو سکتا ہے کہ شاید جنرل باجوہ کی قیادت میں فوج کا حاوی دھڑا اپنی ماضی کی غلطیوں کی تلافی کرتے ہوئے ریاستی پالیسی میں کوئی تبدیلی کرنے کا خواہاں ہیں۔ یہ سراسر طوطا چشمی ہے کیونکہ یہ ریاست درحقیقت ایک مصنوعی ریاست ہے اور اس کے پاس کوئی متبادل نظریہ موجود ہی نہیں، اس لیے یہ نظریہ پاکستان کے مردہ گھوڑے میں ہی روح پھونکنے کی کوشش کرتے رہیں گے۔ ان کی آپس کی لڑائیاں بھی بھلے کتنی ہی شدت اختیار کر لیں، ان کا اختلاف قطعی طور پر کوئی نظریاتی یا اصلاحی پہلو نہیں رکھتا۔ گویا عسکری اور سول اشرافیہ اور حکمران طبقے کے کسی بھی دھڑے بشمول حاوی انٹیلی جینسیہ میں ترقی پسندی کی رتی بھر گنجائش موجود نہیں۔ پاکستان پیپلز پارٹی کو نسبتاً بہتر پارٹی سمجھنے والے اور آصف علی زرداری کی کرشماتی قیادت میں پارٹی کے احیاء کا تناظر پیش کرنے والوں کے حصے میں بھی سوائے شرمندگی اور خجالت کے کچھ نہیں آنے والا۔ لبرل اشرافیہ آصف علی زرداری کی سیاسی فہم و فراست کے جتنے بھی گن گاتی پھرے دراصل وہ موجودہ حالات میں اسٹیبلشمنٹ کا سب سے زیادہ با اعتماد گھوڑا ہے، جسے جب جہاں اور جتنا چاہے دوڑایا جا سکتا ہے۔
دانشوروں کی خوش فہمیوں کے برعکس عوام کو نون لیگ اور پیپلز پارٹی کی سیاست پر کوئی شکوک و شبہات نہیں، یہ آئی ایم ایف کی دلالی کے ذریعے اس معیشت کو صرف اس لیے تھوڑا بہتر کرنے کے خواہشمند ہیں تاکہ ان کی اپنی لوٹ کھسوٹ میں کوئی تعطل پیدا نہ ہو۔ مفتاح اسماعیل اور تمام حکومتی وزرا آئے روز ٹی وی پر خوشخبری سناتے ہوئے نظر آتے ہیں کہ ملک کو دیوالیہ ہونے کے فوری خطرے سے بچا لیا گیا ہے۔ اول تو خطرہ ابھی تک ٹلا نہیں ہے اور اگر اسے آگے دھکیلا بھی گیا ہے تو سوال یہ ہے کہ کس قیمت پر؟ عوام کے خون کا آخری قطرہ تک نچوڑ لیا گیا ہے اور اب انکی ہڈیوں سے گودا تک کھرچ کھرچ کر نکالا جا رہا ہے اور معیشت ہے کہ پھر بھی مثبت ڈگر پر چلتی دکھائی نہیں دے رہی۔ آئی ایم ایف کی تمام شرائط تسلیم کرنے کے بعد بالآخر آئی ایم ایف کے ساتھ نئے معاہدے پر اتفاقِ رائے ہو گیا ہے۔ کہا جا رہا ہے کہ فوری طور پر 1.18 ارب ڈالر آئی ایم ایف سے موصول ہوں گے لیکن یہ رقم موجودہ بحرانی کیفیت میں اونٹ کے منہ میں زیرے کے مترادف بھی نہیں۔ زرمبادلہ کے ذخائر دس ارب ڈالر سے بھی کم ہیں اور کہا جا رہا ہے کہ یہ ملکی درآمدات کی تین سے پانچ ہفتوں کی ضروریات پوری کرنے کے لیے بھی ناکافی ہیں۔ وزیر خزانہ کا کہنا ہے کہ زرمبادلہ کے ذخائر کو مستحکم کرنے کے لیے دوست ممالک سے رواں ماہ یعنی جولائی میں مزید 4 ارب ڈالر متوقع ہیں۔ جبکہ آئندہ برس ایشین ڈویلپمنٹ بینک سے 3.5 ارب ڈالر، ورلڈ بینک سے 2.5 ارب ڈالر اور ایشین انفراسٹرکچر انویسٹمنٹ بینک سے 400 سے 500 ملین ڈالر کے قرضے لیے جائیں گے۔ گویا ملکی معیشت کا قرضوں پر انحصار کم ہونے کی بجائے مسلسل بڑھتا چلا جا رہا ہے۔ پہلے ہی بیرونی قرضہ جی ڈی پی کے 72 فیصد کے برابر ہے اور ملکی بجٹ میں قرضوں کی واپسی (Debt Servicing) کا حصہ 40 فیصد تک پہنچ چکا ہے جو اگلے سال 50 فیصد سے بھی تجاوز کر جانے کے امکانات ہیں۔ وزیر خزانہ کے مطابق حکومت کو اگلے مالی سال میں بیرونی قرضوں کی واپسی کی مد میں 21 ارب ڈالر کی ادائیگی کرنی ہے جبکہ کرنٹ اکاؤنٹ خسارے کو پورا کرنے کے لیے حکومت کو مزید 15 سے 16 ارب ڈالر کی ضرورت پڑے گی۔ ان سب ادائیگیوں کے لیے اوپن مارکیٹ سے مزید قرضہ اٹھانا پڑے گا اور روپے کی قدر میں مسلسل کمی کے رجحان کے باعث ان ادائیگیوں کے حجم میں مزید اضافہ بھی ممکن ہے۔ عالمی سطح پر سفارتی تنہائی کا عالم یہ ہے کہ گزشتہ ماہ چین میں ہونے والے ابھرتی ہوئی معیشتوں کے اجلاس (BRICS) میں پاکستان کو مدعو ہی نہیں کیا گیا۔ اس کے علاوہ دنیا بھر میں بین الاقوامی تعلقات میں آئے روز ہونے والی نئی اتھل پتھل میں پاکستان کا کردار نہ ہونے کے برابر ہے۔ مشرق وسطیٰ کے دوست ممالک کی بے اعتنائی بھی بڑھتی چلی جا رہی ہے اور وہ کسی بھی قسم کی مالی معاونت کے عوض پاکستان پر اسرائیل کو تسلیم کرنے کے لیے دباؤ بڑھا رہے ہیں جو موجودہ ریاستی داخلی رسہ کشی میں آسان نہیں۔ گوکہ اگر مناسب رقم ملے تو اس ملک کا حکمران طبقہ اپنے قریبی عزیزوں کو بھی بیچ سکتا ہے اسرائیل کو تسلیم کرنا تو ان کے بائیں ہاتھ کا کھیل ہوگا۔ امریکی صدر بھی مشرقِ وسطیٰ کے دورے پر اس شرط پر اصرار کرتا رہا اور سعودی عرب کو اس جانب اہم اقدام اٹھانے پر مجبور کر دیا گیا جس میں اسرائیل سے سعودیہ کے درمیان فضائی رابطوں کی بحالی شامل ہے گو کہ اس تمام عمل میں پاکستان کو تمام معاملات میں مکمل طور پر نظر انداز کر دیا گیا ہے اور اس غلام کی معاشی ناکہ بندی سخت تر ہوتی جا رہی ہے۔ اسی لیے ”دوست“ ممالک سے متوقع قرضے اور امداد خطرے میں ہی دکھائی دے رہے ہیں۔ عالمی منڈی میں تیل کی قیمتوں میں کمی کے باعث حکومت کا درآمدی بل قدرے کم ضرور ہوا ہے اور مزید کم بھی ہو سکتا ہے مگر دوسری طرف روپے کی گرتی ہوئی قدر کے باعث امپورٹ کے اخراجات بڑھتے چلے جائیں گے۔ عالمی معیشت میں بھی ایک نئی کساد بازاری کا آغاز بھی ہو چکا ہے جس کے باعث پاکستان کی یورپ اور امریکہ کو ہونے والی ایکسپورٹ میں کمی آ رہی ہے۔ یوں پاکستان کا تجارتی خسارہ جو اس برس 50 ارب ڈالر سے تجاوز کر گیا تھا، آئندہ برس بے لگام ہو کر بیلنس آف پیمنٹ کے کبھی نہ دیکھے اور کبھی نہ سوچے گئے بحران کا باعث بن سکتا ہے۔ حکومت کے ٹیکس ریونیو کے تخمینے بھی خوش فہمییوں پر مبنی ہیں اور سرمایہ داروں پر لگایا گیا دس فیصد سپر ٹیکس بھی وصول ہوتا نظر نہیں آ رہا۔ پاکستانی معیشت کا بحران اتنا گھمبیر اور دیرینہ (Chronic) ہے کہ سرمایہ دارانہ معیشت کے تمام حیلے، حربے اور نسخے اس پر کام کرنا ہی چھوڑ چکے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ 2022ء میں جن ممالک کو دنیا بھر میں دیوالیہ پن کے شدید خطرات لاحق ہیں انکی فہرست میں پاکستان چوتھے نمبر پر آ چکا ہے۔ جو تین ممالک پاکستان سے اوپر ہیں ان میں ایل سلواڈور، گھانا اور تیونس شامل ہیں۔
اس سے موجودہ صورتحال کی گھمبیرتا کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ یوں پنجاب کے بعد بھلے ہی مرکز میں بھی پھر نئی حکومت آ جائے، کسی کے پاس کوئی معاشی متبادل نہیں۔ اگر تحریک انصاف دوبارہ مرکز میں بھی حکومت میں آتی ہے تو تمام تر سامراج مخالف نعرے بازی کے باوجود وہ پھر آئی ایم ایف کی دہلیز پر سجدہ ریز ہونے پر مجبور ہو گی۔ روس اور چین کی طرف لگائی گئی خوش فہمیاں بھی کام آنے والی نہیں۔ جنگ کے باعث روس کی اپنی معیشت بھی تیزی سے سکڑ رہی ہے۔ ایسے میں چین سمیت کوئی بھی ملک پاکستانی معیشت کو بیل آؤٹ کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہے۔ عوام کی کھال کھینچنے اور معاشی قتل عام کو تیز کرنے کے علاوہ کسی کے بھی پاس کوئی معاشی نسخہ نہیں۔ بیروزگاری ایک عالمی وبا کی شکل اختیار کر چکی ہے۔ جیسا کہ ہم نے پہلے کہا کہ عالمی منڈی میں کساد بازاری کے باعث پاکستانی مصنوعات کی مانگ میں شدید گراوٹ آئی ہے اور ٹیکسٹائل اور گارمنٹس کے مالکان جن کا پاکستانی برآمدات میں بڑا حصہ ہے، تیزی سے اپنے پلانٹ بند کر رہے ہیں اور ہر یونٹ سے ہزاروں مزدور بیروزگار ہو رہے ہیں۔ گزشتہ ماہ کراچی کے صرف کورنگی انڈسٹریل ایریا سے محض ایک ہفتے کے دوران دس سے پندرہ ہزار مزدور بیروزگار ہوئے۔ اور آئی ایم ایف سے کیے گئے معاہدوں کے تحت سرکاری اداروں کی نجکاری سے بھی لاکھوں محنت کشوں کے سر پر برطرفیوں کی تلوار لٹک رہی ہے۔ اور ایسے میں جب سرکاری اعلان کردہ افراطِ زر پہلے ہی 22 فیصد ہے جو کہ حقیقت میں اس سے کہیں زیادہ ہے، محنت کشوں اور غریب عوام کی کسمپرسی کا بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔
پاکستان کے محنت کش اس ساری صورتحال میں حالات کے رحم و کرم پر کب تک چپ سادھے رہیں گے۔ وہ اپنے تئیں آواز بلند کر رہے ہیں۔ اساتذہ، پیرامیڈیکل سٹاف اور دیگر سرکاری ملازمین بھی افراطِ زر سے منسلک اجرتوں میں اضافے کے لیے سراپا احتجاج ہیں۔ حکمران طبقے کا عوامی مزاحمت کا خوف اس قدر شدید ہے کہ انہوں نے ایک دفعہ پھر ممکنہ بغاوت کو زائل کرنے کے لیے پہلے سے ہی لسانی و نسلی منافرتیں اور تعصبات کی نئی لہر کا آغاز کر دیا ہے۔ پاکستان چونکہ ایک جبری وفاق ہے لہٰذا یہاں سلگتا ہوا قومی مسئلہ تو روزاول سے ہی موجود رہا ہے مگر سوویت یونین کے انہدام کے بعد قوم پرستی کے نظریات شدید رجعتی شکل اختیار کر کے قومی آزادی کی تحریک کو آگے بڑھانے کی بجائے ریاستی پراپیگنڈے کے اہم اوزار میں تبدیل ہو چکے ہیں اور اس کے باعث مظلوم اقوام کے آپسی تعلقات میں کشیدگی کو جنم دے رہے ہیں جس کا اظہار حال ہی میں حیدرآباد میں ایک پشتون کے ہاتھوں ایک سندھی نوجوان کے قتل کے بعد ہوتا دکھائی دیا۔ یہ درست ہے کہ سندھ کے درمیانے طبقے میں غیر سندھی آبادی کے مسلسل بہاؤ کے باعث پہلے سے ہی بے چینی کی لہر پائی جاتی ہے، جسے حالیہ مہنگائی کی شدت نے مزید بڑھاوا دیا ہے، مگر اس کے باوجود عوام نے اس نسلی منافرت کو ایک دفعہ پھر مسترد کیا ہے۔ لیکن آنے والے دنوں میں ریاست کا قومی جبر بھی کم ہونے کی بجائے مزید بڑھے گا اور اس کے خلاف مزاحمت کے طبقاتی بنیادوں پر منظم ہونے کے خوف سے ریاست اسے بار بار لسانی بنیادوں پر زائل کرنے کی کوشش کرے گی۔ حکمرانوں کے عوامی تحریک سے خوف کی ایک مثال یہ بھی ہے کہ انہوں نے پاکستانی مین سٹریم میڈیا میں سری لنکا میں جاری عوام کی فقید المثال انقلابی تحریک کی کوریج پر پابندی عائد کر رکھی ہے۔ مگر سوشل میڈیا کے ذریعے اس کی اطلاعات محنت کشوں کو موصول ہو رہی ہیں اور وہ اپنے سری لنکن بہن بھائیوں کی جرات اور جذبے سے توانائی کشید کر رہے ہیں۔ یہ ضروری نہیں کہ پاکستان میں بھی سری لنکا جیسی انقلابی تحریک صرف اسی صورت میں ممکن ہے جب پاکستان بھی سری لنکا کی طرح باقاعدہ دیوالیہ ہو جائے۔ عوامی شعور بتدریج اور کسی خاص فارمولے کے تحت آگے نہیں بڑھتا بلکہ جدلیاتی انداز میں جستوں اور چھلانگوں کے ذریعے آگے بڑھتا ہے۔ عوام اب انتخابی عمل سے اکتا چکے ہیں۔ وہ وقت زیادہ دور نہیں جب وہ لینن کے بقول ہاتھوں سے نہیں پیروں سے ووٹ دیں گے مگر اس وقت جو انقلابی قیادت ان کودرکار ہو گی، وہ ان لمحات میں تعمیر نہیں کی جا سکے گی۔ اسکی تیاری آج، موجودہ حالات میں ہر باشعور اور نظریاتی انقلابی کارکن کا بنیادی فریضہ ہے۔