تحریر: |ولید خان|
کسی بھی ملک کے باسیوں کیلئے بنیادی ضروریاتِ زندگی ایک خوشگوار اور بامقصد زندگی گزارنے کیلئے ضروری ہیں اور ان میں کلیدی کردار صحت اور تعلیم کا ہے۔ ایک جسمانی نشونما کیلئے اہم ہے تو دوسری ذہنی نشو نما کیلئے نا گزیر۔ سماج اپنے ارتقائی عمل میں مختلف مرحلوں میں سے گزرتا ہے اور بنیادی ضروریات کا حصول سماج کی مادی بنیادوں، نظامِ پیداوار اور پیداواری رشتوں سے انگنت تانوں بانوں سے جڑا ہوا ہے۔ غلام داری میں جہاں مادی بنیادوں کی وجہ سے علاج معالجے کی سہولیات اپنے انتہائی ابتدائی دور میں تھی وہیں پر اس کا حصول صرف امرا اور ریاستی اشرافیہ کیلئے ممکن تھا۔ غلام صرف ایک اوزار تھا جس سے جب تک ممکن ہوتا تھا کام لیا جاتا تھا اور اس کے بعد اسے ایک ٹوٹے ہوئے کھلونے کی طرح پھینک دیا جاتا تھا۔ اسی طرح جاگیرداری میں بھی صحت کا حصول جاگیرداروں اور ریاستی کارندوں تک ہی زیادہ تر محدود تھا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ غلام داری اور جاگیرداری کے پیداواری عمل اور رشتوں میں آقا اور جاگیردار کیلئے یہ قطعی ضروری نہیں تھا کہ غلام یا مزارع بہترین صحت کا حامل ہو کیونکہ پیداوار منڈی کیلئے باہمی مقابلے بازی کے دباؤ کے تحت نہیں کی جاتی تھی۔ منڈی موجود تھی مگر اس کا کردار آج کی منڈی سے یکسر مختلف تھا کیونکہ نظامِ پیداوار میں اس کا کردار بنیادی نوعیت کا نہیں تھا۔ سرمایہ داری جب تاریخ کے اوراق میں وارد ہوئی تو اسے منڈی کیلئے پیداواری قوتوں کو بڑھانے کیلئے تکنیکی طور پر منجھے ہوئے اور صحت مند محنت کشوں کی ضرورت تھی جن سے بھرپور کام لیا جا سکے۔ اس کیلئے سرمایہ دار طبقے نے جہاں سکول اور یونیورسٹیاں بنائیں وہیں پر اس نے علاج معالجے کی سہولیات کو ترقی دی صحت سے متعلق سماجی انفراسٹرکچر کو تعمیر کیا۔ لیکن پھر بھی یہ دونوں سہولتیں محنت کشوں کی وسیع تر پرتوں کی دسترس سے دور تھیں۔ یہ عام تاثر غلط ہے کہ ترقی یافتہ ممالک کے حکمران اتنے فراخدل اور ایماندار ہیں کہ یہ سہولیات انہوں نے اپنی عوام کو خود بخود ہی مفت فراہم کیں۔ بیسویں صدی کے انقلابات، دو عالمی جنگوں میں محنت کشوں کا تحرک، بنیادی ضروریاتِ زندگی کو بنیادی حق سمجھنے کا عوامی شعور اور سوویت یونین کے بالشویک انقلاب کے نتیجہ میں محنت کشوں کی حاصلات نے یورپ اور امریکہ کے سرمایہ داروں کو مجبور کر دیا کہ محنت کشوں کو یہ سہولیات مفت فراہم کی جائیں۔ دوسری عالمگیر جنگ کے بعد جب سرمایہ دارانہ نظام اپنی تاریخ کے سب سے طویل ابھار میں داخل ہوا توترقی یافتہ ممالک کے سرمایہ داروں کیلئے ممکن تھا کہ اپنے جام سے چند قطرے محنت کشوں کے حلق میں انڈیل دئے جائیں تاکہ جہاں مقامی محنت کش تحریک کو ٹھنڈا کیا جا سکے وہیں پر عالمی محنت کش تحریک پر بالشویک انقلاب کے اثرات کو زائل کرنے کی ہر ممکن کوشش کی جا سکے۔ لیکن 2007-2008ء کے عالمی مالیاتی بحران کے بعد ساری دنیا میں جہاں محنت کشوں کی دہائیوں کی قربانیوں سے جیتی گئی دیگر حاصلات واپس چھینی جا رہی ہیں وہیں صحت کے شعبے کو شدید کٹوتیوں، بے رحم نجکاری اور ہوشربا مہنگائی کا سامنا ہے۔
پاکستان جیسے پسماندہ سرمایہ دارانہ ملک کے حالات شروع سے ہی مخدوش رہے ہیں۔ یہاں کبھی صحت مند سرمایہ دار ی اور ریاست پنپ ہی نہیں پائے جو اپنے تاریخی فرائض سر انجام دے پاتے۔ تکنیکی، پیداواری اور تاریخی طور پر پسماندہ سرمایہ دار طبقہ ہمیشہ سامراج کا دلال رہا ہے اور نتیجے میں ریاست بھی ایک دلال ریاست ہی رہی ہے جو کبھی ایک سامراج اور کبھی دوسرے سامراج کیلئے بھاڑے کے ٹٹو کا کردار ادا کرتی رہی ہے۔ عوام کی وسیع تر پرتوں کیلئے صحت، تعلیم، اچھی غذا، روزگار، رہائش غرضیکہ تمام بنیادی ضروریاتِ زندگی محض ایک خواب ہی رہے ہیں۔
صحت کا شعبہ پاکستان میں ہمیشہ یتیم و لاوارث رہا ہے۔ عالمی ادارہ صحت(WHO) کی 2013ء کی رپورٹ کے مطابق صحت پر خرچہ GDP کا تقریباً 2.8 فیصد ہے جس میں سے ریاست کی طرف سے حصہ پچھلی کئی دہائیوں سے 0.5-0.9 فیصد کے درمیان ہے جبکہ باقی نجی شعبہ پورا کر رہا ہے۔ WHO کے مطابق صحت پر حکومتی اخراجات GDP کا کم از کم 5فیصد ہونے چاہئیں۔ ریاستی خرچے میں سے 90فیصد سے زیادہ تنخواہوں اور موجودہ سہولیات کی دیکھ بھال پر خرچ ہو جاتا ہے۔ اس میں سے بھی 75 فیصد بڑے شہروں پر خرچ ہوتا ہے جبکہ دیہی علاقوں اور چھوٹے شہروں کے حصے میں بہت کم بجٹ آتا ہے۔ 8 اپریل 2010ء کو اٹھارویں ترمیم پاس کروانے کے بعد ویسے ہی مرکزی حکومت نے صحت کے شعبے سے جان چھڑا لی ہے اور یہ اب صوبائی صوابدید بن گیا ہے۔ اگر صوبوں کے صحت بجٹ کو دیکھا جائے تو 2015-2016ء میں پنجاب میں تقریباً 63ارب روپے،خیبر پختونخواہ میں 29.95 ارب روپے، سندھ میں 57 ارب روپے، بلوچستان میں 15.362 ارب روپے، کشمیر میں 34 کروڑ روپے اور گلگت بلتستان میں تقریباً 93کروڑ روپے مختص کئے گئے ہیں۔ ان تمام بجٹوں میں تنخواہوں اور سہولیات کی دیکھ بھال پر خرچے کے بعد ترقیاتی اخراجات کی مد میں جو تھوڑی بہت رقم بچ جاتی ہے اس میں سے بھی ایک بڑا حصہ کرپشن اور کک بیکس کی نظر ہو جاتا ہے۔ یہ فراخدلی پاکستان کے 20-21 کروڑ آبادی کیلئے مختص کی گئی ہے۔ 2030ء تک آبادی اندازاً 24-25 کروڑ تک پہنچ جائے گی جس کے بعد پاکستان دنیا کا چھٹا سب سے زیادہ آبادی والا ملک بن جائے گا۔
صحت کے شعبے پر انتہائی کم سرکاری اخراجات کے پاکستانی عوام پر تباہ کن اثرات پڑے ہیں۔UNICEF کے مطابق دنیا میں سب سے زیادہ بعد از پیدائش بچوں کی اموات پاکستان میں ہوتی ہیں یعنی 69/1000۔ پانچ سال کی عمر تک اموات کی شرح 86/1000 ہے یعنی ہر سال 4,10,000 بچے پانچویں سالگرہ جی نہیں پاتے اور ستم ظریفی یہ ہے کہ ان میں سے 2,50,000 بچے صاف پانی میسر نہ ہونے کی وجہ سے مر جاتے ہیں۔ ان اموات کی بھاری ترین اکثریت انتہائی غریب خاندانوں میں ہوتی ہے۔ دورانِ زچگی خواتین کی اموات کی شرح 276/1000 ہے اور سالانہ تقریباً 50,000 سے زائد خواتین زچگی کی پیچیدگیوں کا شکار ہو کر موت کے منہ میں اتر جاتی ہیں جس سے عوام کو بنیادی سہولیاتِ زندگی کے اشاریوں پر مبنی HDI(ہیومن ڈولوپمینٹ انڈیکس) کے مطابق پاکستان دنیا کے 188 ممالک میں سے 147ویں نمبر پر آتا ہے۔ تقریباً 44-46 فیصد بچے کم خوراکی اور اس کے نتیجے میں ذہنی اور جسمانی نشونما کی کمی کا شکار ہیں جبکہ 50 فیصد سے زیادہ خون کی کمی کا شکار ہیں۔ WHO کے مطابق حاملہ اور غیر حاملہ خواتین میں خون کی کمی کی شرح 60 فیصد سے زیادہ ہے جبکہ سرکاری ہسپتالوں میں کام کرنے والے ڈاکٹروں کے مطابق یہ شرح اس سے کہیں زیادہ ہے۔ WHO کے مطابق صرف 47 فیصد عوام کو کسی شکل میں واش روم نصیب ہے جبکہ 60 فیصد سے زائدعوام کو صاف پانی ہی میسرنہیں۔ پاکستان کی 21 کروڑ آبادی میں سے دو کروڑ لوگ کالے یرقان کا شکار ہیں جن کی بھاری اکثریت غریبوں پر مشتمل ہے۔ ہر سال 4,20,000 ٹی بی کے نئے مریضوں کے ساتھ پاکستان دنیا میں پانچواں سب سے زیادہ ٹی بی زدہ ملک ہے۔ پاکستان کا دنیا میں ذیابطیس کی فہرست میں چھٹا نمبر ہے جس کا اندازہ صرف اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ پچھلے سال تک پورے ملک میں70 لاکھ رجسٹرڈ کیسز تھے۔ دل کی بیمایوں سے ہر سال 2,00,000 لوگوں کی اموات ہوتی ہیں۔ عام غلط فہمی کے بر عکس پاکستان میں زیابطیس، فالج اور دل کے مریضوں کی بھاری اکثریت کا تعلق محنت کش طبقے سے ہے جس کی بنیادی وجہ سستے غیر معیاری خوردنی تیل اور جانوروں کی چربی کا بطور خوراک استعمال کیا جانا ہے۔ پاکستان میں اوسط عمر 64-66 سال کے درمیان ہے جبکہ ترقی یافتہ ممالک میں یہ 86-87 ہے۔ محنت کشوں کیلئے تو یہ اور بھی کم ہے۔ہر سال دماغ کی شریان پھٹنے سے تقریباً 3,50,000 لوگوں کی اموات ہوتی ہیں۔ WHO کے مطابق پاکستان میں اموات کی سب سے بڑی وجوہات دل کی بیماریاں، اسہال، پھپڑوں کی انفیکشن، ذیابیطس، دماغ کی شریان پھٹنا، بچوں کی دماغی انفیکشن، ٹی بی، زچگی کے دوران پیچیدگیاں اور کینسر ہیں۔ ظلم تو یہ ہے کہ یہ تمام بیماریاں اور اموات شدید غربت، معاشی جبر اور صحت کی سہولیات کی عدم دستیابی کی وجہ سے ہیں۔
آبادی کے تناسب سے پچھلی تین دہائیوں میں سرکاری ہسپتال بہت قلیل تعداد میں بنائے گئے ہیں۔ پورے پاکستان میں زچگی وبچہ کلینک 1084ہیں، بنیادی صحت کے تقریباً 5798 مراکز ہیں، تحصیل اور ڈسٹرکٹ سطح پر 947 ہسپتال ہیں اور بڑے شہروں میں 22 سپیشلسٹ ہسپتال موجود ہیں۔ WHO کے مطابق سپشلسٹ ہسپتالوں میں کل 12,000 مریضوں کیلئے بستر ہیں۔ سہولیات کے فقدان کا اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ 21 کروڑ آبادی کے اس ملک میں 2000 لوگوں کیلئے ایک بستر دستیاب ہے۔ انتہائی نگہداشت میڈیکل جرنل (Journal of Critical Care Medicine) کی 2014ء کی رپورٹ کے مطابق بچوں کی انتہائی نگہداشت کیلئے ہر 500000 بچے کیلئے ایک بستر موجود ہے۔ صرف پنجاب میں اگر انتہائی نگہداشت کا شعبہ دیکھا جائے تو صوبے کی تقریباً 12 کروڑ آبادی کیلئے 250 بستر ہیں جبکہ WHO کی ترجیحات کے مطابق جنرل وارڈ کے 50 بستروں کے بدلے ایک انتہائی نگہداشت بستر کی کم از کم شرح لازمی ہے۔ تمام سرکاری ہسپتالوں میں 70 فیصد کے قریب آلات، مشینیں اور سہولیات دہائیوں پرانی ہونے کے ساتھ ساتھ ناکارہ ہیں۔ کسی بھی سرکاری ہسپتال میں بنیادی اور اہم دوائیوں کا شدید فقدان ہے اور اگر دوائیاں موجود بھی ہیں تو وہ انتہائی غیر معیاری ہیں۔
اگر ان برباد سہولیات میں صحت کی فراہمی کے عملے کا جائزہ لیا جائے تو حالات اور بھی زیادہ گھمبیر ہیں۔ PMDC (پاکستان میڈیکل اینڈ ڈینٹل کونسل) کی ویب سائٹ کے مطابق تمام رجسٹرڈ مرد اور خواتین ڈاکٹر اور ڈینٹسٹ ملا کر1950ء سے لے کر اب تک 205254 رجسٹرڈ ڈاکٹر موجود ہیں۔ لیکن یہ بھی دل کی تسلی ہے۔ پاکستان میڈیکل ایسوی ایشن کے جرنل (JPMA) کی دسمبر 2014ء کی رپورٹ کے مطابق ہر سال تقریباً1500 ڈاکٹر ملک چھوڑ کر بہتر روزگار کیلئے باہر چلے جاتے ہیں جبکہ PMDC کے سابقہ صدر مسعود حمید نے 22 اکتوبر 2014ء کی پریس کانفرنس میں بتایا کہ کم از کم 50 فیصد خواتین ڈاکٹرز گریجویشن کے بعد کبھی کام ہی نہیں کرتیں۔ اس طرح سے مختلف رپورٹس کے مطابق 1200-1500 مریضوں کیلئے ایک ڈاکٹر موجود ہے۔ اگر نرسنگ کے شعبے کو دیکھا جائے تو مریضوں اور نرسوں کی شرح 1:50 ہے جبکہ سرکاری رپورٹس کے مطابق پاکستان میں کم از کم 60,000 نرسنگ سٹاف کی کمی ہے۔ بے شمار سماجی، معاشی اور پیشہ ورانہ مسائل کی وجہ سے ڈاکٹرز، نرسز اور پیرامیڈیکل سٹاف پاکستان سے کئی دہائیوں سے باہر جا رہے ہیں جس کی وجہ سے صحت کا شعبہ نا صرف برباد ہوا ہے بلکہ یہ عوام کے ٹیکسوں کا بھی شدید ضیاع ہے۔
نجی شعبہ میں موجود دوائیوں اور لیباٹریوں کی ہوشربا قیمتوں نے صحت کے ان انتہائی اہم اجزا کوعام آدمی کی پہنچ سے دور کر دیا ہے۔ عام طور پر ٹیسٹ اور دوائیاں سرکاری ہسپتالوں میں موجود نہیں اور اگر ہیں تو انتہائی ناقص ہیں جس کی وجہ سے باہر کی لیباٹریوں اور دوا خانوں سے رجوع کرنا مجبوری ہے۔ لیکن کسی بھی ریگولیٹری اتھارٹی کی عدم موجودگی میں کوالٹی کا کوئی اعتبار نہیں اور نجی دوا ساز کمپنیوں کی ہوشربا منافع خوری کی ہوس کی وجہ سے دوائیوں کی قیمتیں آسمانوں سے باتیں کر رہی ہین۔۔ مریض ہزاروں اور کچھ حالات میں لاکھوں روپیہ پرائیویٹ ٹیسٹوں اور دوائیوں پر برباد کرنے پر مجبور ہیں اور غربت کی وجہ سے آبادی کی اکثریت کی پہنچ سے ویسے ہی یہ سہولتیں کوسوں دور ہے۔
کسی بھی سرکاری ہسپتال میں چلے جائیں تو لمبی قطاریں، ایک ایک بستر پردو دو مریض، آپریشن کیلئے اگر سالوں نہیں تو مہینوں کا انتظار، انتہائی ناقص یا غیر دستیاب دوائیاں اور ٹیسٹ حکمرانوں کی ناکامیوں کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔ وارڈوں کے اند بلیاں اور بڑے بڑے چوہے ایک دوسرے کا پیچھا کرتے نظر آتے ہیں۔ پروفیسر حضرات سرے سے موجود ہی نہیں ہوتے کیونکہ یا تو وہ اپنے نجی کلینک اور ہسپتالوں میں ہوتے ہیں یا پھر جانے کی تیاریوں میں لگے ہوتے ہیں جس کی وجہ سے جونیئر ڈاکٹروں کی ٹرینگ شدید متاثر ہوتی ہے۔ ہر جگہ کرپشن کا سایہ ہے۔ دوائیوں کی کمپنیوں کے ساتھ ٹھیکوں سے لے کر اپنے نجی کلینک یا ہسپتالوں میں جانے کیلئے مریضوں کو مجبور کرنا عام ہو چکا ہے۔ جونیئر ڈاکٹر کم از کم بھی 24-36 گھنٹے ڈیوٹیوں پر معمور ہوتے ہیں جس کی وجہ سے غلطیوں کی شرح کا بے تحاشہ بڑھ جانا یقینی ہے۔ آئے دن مریضوں اور سٹاف کی لڑائیوں کے قصے اخباروں اور ٹی وی چینلوں کی زینت بنتے ہیں جس کی وجہ سہولیات کا فقدان، سٹاف کی کمی اور مریضوں کی بے بسی ہے۔ سٹاف کی بڑی تعداد انسانیت کی خدمت سے سرشار نہیں بلکہ اپنا ہاتھ سیدھا کرنے ہسپتال آتی ہے تاکہ نجی شعبے میں زیادہ سے زیادہ کمائی کی جا سکے جس کی وجہ سرکاری شعبے میں دی جانے والی نہایت کم تنخواہیں، ہسپتال کا ماحول اور کام سے بیگانگی ہے۔
آہستہ آہستہ ہر گلی، محلے اور جدید سوسائٹی میں پرائیویٹ ہسپتالوں، کلینکس، کمپاوئنڈروں، عطائیوں اور طبیبوں کی بھرمار ہو چکی ہے۔ یہ عام جھوٹ ہے کہ غریب جاہل ہیں اس وجہ سے ہسپتالوں اور کلینک میں ڈاکٹر کے پاس جانے کے بجائے عطائیوں اور کمپاؤنڈروں کے پاس جاتے ہیں۔ سچ تو یہ ہے کہ شدید غربت کے مارے لوگوں کے پاس اتنے پیسے ہی نہیں کہ وہ سائنسی علاج کروا سکیں۔ WHO کی رپورٹ کے مطابق پاکستان میں 82 فیصد لوگوں کے پاس سائنسی علاج کیلئے درکار رقم ہی موجود نہیں۔ چند سال پہلے PMDC کی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان میں 600,000 سے زائد غیر سائنسی علاج کرنے والے دن رات غریب عوام کی صحت برباد کر رہے ہیں۔ صرف کراچی میں اندازاً 70,000 سے زائد لوگ غیر سائنسی طریقہ کار سے علاج کر رہے ہیں۔ متوسط طبقہ جو پھر بھی اپنی صحت کیلئے کچھ خرچہ کر سکتا ہے نجی ہسپتالوں اور کلینک کی شدید لوٹ مار کا شکار ہے۔ نجی ہسپتال میں بچہ کی پیدائش پر عام طور پر 150000 کا خرچہ آتا ہے جبکہ انتہائی نگہداشت میں ایک دن کا خرچہ کم از کم 60000 یومیہ ہے۔ نجی شعبے میں کسی قسم کی کوئی نگرانی نہیں۔ ہر جگہ من پسند پیسے بٹورے جاتے ہیں اور پوری کوشش کی جاتی ہے کہ کسی طرح بھی زیادہ سے زیادہ بل بنایا جا سکے۔ نجی شعبے میں کام کرنے والے ڈاکٹر حضرات مسیحا کے روپ میں ڈاکو بن چکے ہیں۔
ریڈیالوجی کا شعبہ کسی بھی چھوٹی یا بڑی بیماری کی تشخیص کیلئے کلیدی کردار کا حامل ہے لیکن اس کروڑوں کی آبادی کے ملک میں ظلم کی انتہا ہے کہ سرکاری اور نجی شعبے کو ملا کر کل 80 سیٹی سکین (CT Scan)اور 19 ایم آر آئی (MRI) مشینیں ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ 20 لاکھ لوگوں کیلئے ایک CT مشین اور 90 لاکھ لوگوں کیلئے ایک MRI مشین ہے۔ زیادہ تر مشینیں نجی شعبے میں موجود ہیں جس کی وجہ سے لوگ ہزاروں روپیہ ایک ایک ٹیسٹ کیلئے برباد کرنے پر مجبور ہیں۔
یہ تمام صورتحال پاکستان میں صحت کے شعبے کی بربادی کی ایک جھلک ہے۔ آج پیداواری قوتیں اور سائنس اتنی ترقی کر چکے ہیں کہ ان تمام مسائل کو با آسانی حل کیا جا سکتا ہے۔ میڈیکل سائنس کی ترقی کی وجہ سے آج یہ ممکن ہے کہ انسان کو اچھی خوراک، ورزش اور سالانہ چیک اپ کے ذریعے متعدد بیماریوں کا جڑ سے خاتمہ کیا جا سکتا ہے۔ لیکن پاکستان میں صورتحال اس کے برعکس ہے۔ بیماریوں کی وجہ ناقص غذا، برباد سیوریج اور صاف پانی کی ترسیل کا نا ہونا، شدید ذہنی تناؤ، ماحولیاتی آلودگی، صحت کی سہولیات کی عدم موجودگی، معاشی بد حالی اور حکمرانوں کی ظالمانہ پالیسیاں ہیں۔ سرمایہ دارانہ نظام شرح منافع کی ہوس اور محنت کش کے استحصال پر مبنی ہے۔ جہاں اپنے ابتدائی دور میں اس نظام نے سماج کو بے پناہ ترقی اور سہولیات دیں، آج وہی نظام تاریخی طور پر متروک ہو کر سماج کا قاتل بن کر ہر خوشی اور ہر سہولت واپس چھین رہا ہے۔
سرمایہ دار طبقہ اپنی بقا کیلئے محنت کشوں کی وسیع پرتوں کو برباد کرنے کے درپے ہے۔ کھربوں روپے کے ٹھیکوں کے چکر میں سڑکیں، پل اور انڈر پاس بنائے جا رہے ہیں اور ستم یہ ہے کہ انہی سڑکوں پر غریب عوام صحت کی سہولت سے دور دم توڑ رہی ہے۔ اب IMF کے نسخہ پر عمل درآمد ہوتے ہوئے حکمران سرکاری ہسپتالوں، کلینک اور بنیادی صحت کے مراکز کی نجکاری کر رہے ہیں جن پر سرمایہ دار، بڑے بڑے نامور پروفیسر اور ریاستی اشرافیہ گدھوں کی طرح نظریں جمائے بیٹھے ہیں۔ اس ٹوٹتی بکھرتی سرمایہ داری اور گرتے ہوئے سماج میں سوائے بھوک، ننگ، افلاس اور بیماری کے کچھ نہیں۔ اگر ایک صحت مند سماج کی تعمیر کرنی ہے تو اس میں صرف پہلے سے موجود سہولیات کو بہتر اور نئی سہولیات کو بناناہی ضروری نہیں بلکہ اس کے ساتھ ساتھ سماجی انفراسٹرکچر، غذا، ماحولیاتی آلودگی، معاشی پسماندگی اور دیگر شعبوں میں انقلابی بنیادوں پر بہتری کرنے کی ضرورت ہے جو اب سرمایہ داری میں ممکن نہیں۔ صرف سوشلسٹ انقلاب وہ واحد راستہ ہے جس میں ذرائع پیداوار کی اجتمائی ملکیت اور جمہوری کنٹرول پر مبنی ایک منصوبہ بند معیشت کے تحت انسانیت کو وہ سہولتیں فراہم کی جاسکتی ہیں جس کے نتیجے میں ایک صحت مند معاشرہ تشکیل پائے اور انسان ان بنیادی ضروریات کے حصول کی تگ و دو سے آزاد ہو کرتسخیرِ کائنات کی جانب بڑھ سکے۔