|تحریر: پارس جان|
رواں سال پاکستان کی تاریخ کا ایک اہم موڑ ہے۔ یوں تو نام نہاد آزادی کی صبح سے لے کر آج تک ہر آنے والا دن یہاں غریب عوام کے لیے پہلے سے زیادہ بربادی کا پیغام لے کر ہی طلوع ہوتا ہے مگر اب یہ غیر فطری، رجعتی اور سامراج کی کٹھ پتلی ریاست اپنے منطقی انجام کی طرف بڑھ رہی ہے۔ ملکی زرِ مبادلہ کے ذخائر تین ارب ڈالر کے لگ بھگ رہ گئے ہیں جو 24 کروڑ نفوس پر مشتمل اس ملک کی صرف دو یاتین ہفتے کی درآمدی ضروریات کی تکمیل کے لیے بھی ناکافی ہیں۔ دوسری طرف پاکستان کو رواں برس 23 ارب ڈالر کی رقم قرضوں کے سود کی اقساط اور اصل زر کی ادائیگیوں کے لیے درکار تھی، کہا یہ جا رہا ہے کہ آئندہ تین مالی سالوں میں 75 ارب ڈالر کے لگ بھگ بیرونی قرضوں کی ادائیگیاں کرنی ہوں گی۔ حکمران طبقے کے تمام معاشی ماہرین چاہے وہ کسی بھی ریاستی دھڑے کے وظیفہ خوار ہوں، اس بات پر متفق ہیں کہ صرف اور صرف IMFہی مملکتِ خداداد کو یہ اقتصادی پل صراط عبورکروا سکتا ہے۔ یوں ہزار ہا باہمی و داخلی چپقلشوں کے باوجود من حیث الطبقہ ہمارے حکمران اور ان کی ریاست سامراجی دلالی میں عملاً ایک پیج پر ہی ہیں اور ان کی تمام تر لڑائیاں زیادہ کمیشن بٹورنے کے لیے اس پیج پر سرِ فہرست نظر آنے کے لیے ہی ہوتی ہیں۔ یہ سامراجی دلالی میں ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کے لیے ہی باہم دست وگریبان رہتے ہیں۔ IMF سے طویل مذاکرات کے بعد بالآخر عوام کو یہ ”خوشخبری“ سنائی گئی کہ مسلسل دم ہلانے اور تلوے چاٹنے کے بعد سامراجی آقا اب ہمیں ہڈی ڈالنے کے لیے آمادہ ہو چکے ہیں اور کچھ انتہائی ’’مشکل“ فیصلے کرنے ہوں گے، پھر قرضے کی نئی قسط کا اجرا کر دیا جائے گا۔ اس خبر سے حکمران طبقے میں ایک خوشی کی لہر دوڑ گئی تھی، جس کا اظہار اسٹاک ایکسچینج میں وقتی ابھار کی شکل میں ہوا۔
عملی اعتبار سے دیکھا جائے تو پاکستان کے زرِ مبادلہ کے ذخائر نفی میں ہیں اور پاکستان کب کا دیوالیہ ہو چکا ہے۔ کیونکہ متحدہ عرب امارات، سعودی عرب اور چین کی طرف سے زرِ مبادلہ کے ذخائر کو متوازن رکھنے کی غرض سے دی گئی رقم کا بڑا حصہ بھی بخارات بن کر اڑ چکا ہے۔ فی الوقت بڑے پیمانے کی درآمدات پر پابندی لگا کر بچی کھچی رقم کو تحفظ فراہم کیا جا رہا ہے لیکن یہ انتہائی مصنوعی طریقہ ہے کیونکہ پاکستان دراصل ایک درآمدی معیشت ہے اور مشینری اور خام مال سمیت روزمرہ استعمال کی زیادہ تر اشیاء آئے روز درآمد کی جاتی ہیں۔ اس وقت ڈالر کی انٹر بینک قیمت لگ بھگ 260 روپے ہے جبکہ اوپن مارکیٹ میں ڈالر 275 روپے میں بھی نایاب ہے اور حکومت کے تمام تر دعووں کے باوجود ڈالر کی ذخیرہ اندوزی اور بلیک مارکیٹنگ عروج پر ہے اور بلیک مارکیٹ میں اس وقت ڈالر 300 روپے پر فروخت ہو رہا ہے۔ انٹر بینک اور بلیک مارکیٹ میں ڈالر کے نرخوں میں اتنی بڑی خلیج کے باعث ظاہر ہے کہ ترسیلاتِ زر کا رخ بلیک مارکیٹ کی طرف ہی ہو گا جس کے باعث حکومت کا زر مبادلہ کا ایک بڑا ذریعہ مزید سکڑ جائے گا۔دوسری طرف حکومت ابھی تک ہاٹ منی (اوپن مارکیٹ سے بانڈز اور ٹریژری بلز کے ذریعے مہنگا ترین داخلی قرضہ) پر انحصار کی پالیسی پر گامزن ہے جس کے باعث شارٹ ٹرم داخلی قرضوں کا حجم مسلسل بڑھتا جا رہا ہے۔ حال ہی میں ہونے والی آکشن کے ذریعے ٹریژری بلز سے 258 ارب روپے اکٹھے کیے گئے ہیں جن پر شرح سود 20 فیصد سے بھی زائد ہے۔ IMF قرض پروگرام کی بحالی کی صورت میں حکومت اس ذریعے سے مزید داخلی قرضے حاصل کرنے کے قابل ہو جائے گی۔ اس ضمن میں حکومت آئی ایم ایف کے احکامات پرشرح سود کو 17 فیصد سے بڑھا کر 19 فیصد کرنے کا ارادہ بھی رکھتی ہے۔ شرح سود پہلے ہی 17 فیصد ہے جس کا مقصد افراط زر کو قابو میں رکھنا ہے لیکن اس کے باوجود بھی یہ مقصد حاصل نہیں ہو پا رہا اور افراط زر کا جن بے قابو ہوتا جا رہا ہے اور آنے والے عرصے میں تیزی سے پچاس فیصد سے بڑھ سکتا ہے۔ دوسری طرف فچ اور موڈیز جیسی ریٹنگ ایجنسیز نے پاکستان کی ریٹنگ مزید کم کر دی ہے اور اسے تقریباً دیوالیہ قرار دے دیا ہے۔ اس کے باعث اوپن مارکیٹ سے داخلی قرضے کے حصول میں مشکلات بڑھتی جا رہی ہیں اور یہ قرضے مزید مہنگے ہوتے چلے جائیں گے۔ اسی طرح نام نہاد دوست ممالک سے ملنے والے متوقع قرضے بھی زیادہ سخت شرائط اور پہلے سے کہیں زیادہ سود پر ہی حاصل کیے جائیں گے۔ یوں آئندہ تین سالوں میں مذکورہ بالا واجب الادا رقم اس سے کہیں زیادہ بھی ہو سکتی ہے۔ دوسری طرف روپے کی قدر میں استحکام کا بھی کوئی امکان نہیں، یوں قرضوں کا یہ پہاڑ اتنی تیزی سے بلند ہو رہا ہے کہ اس کے سامنے پاکستانی معیشت کی اوقات ایک ایسی گلہری سے بھی کمتر رہ گئی ہے جو کسی پستہ قد درخت کی ٹہنیوں پر تو جھول سکتی ہے مگر اس پہاڑ کو سر کرنے کا تصور بھی نہیں کر سکتی۔
ہم مارکس وادیوں نے بہت پہلے ہی قرضوں کے اس پہاڑ کے منطقی اور ناگزیر نتائج سے خبردار کر دیا تھا جبکہ نہ صرف دائیں بازو بلکہ بائیں بازو کے لوگ بھی دیوالیہ کو خارج از امکان قرار دے رہے تھے۔ وہ پاکستانی معیشت کے حوالے سے (too big to fail) کی دلیل پیش کرتے تھے کہ پاکستان سری لنکا یا لبنان نہیں ہے بلکہ 24 کروڑ کا ملک ہے لہٰذا سامراجی آقا کبھی بھی اسے دیوالیہ نہیں ہونے دیں گے۔ سوویت یونین کے ٹوٹنے کے بعد درحقیقت بایاں بازو بھی امریکی سامراج کی دیو ہیکل اور طلسماتی و کرشماتی صلاحیتوں پر ایسے ایمان لا چکا ہے کہ اس پر شک و شبہے کو بھی بدعت قرار دے دیا جاتا ہے۔ اسی لیے ہم مارکس وادیوں پر انتہا پسند یا فرقہ پرور ہونے کی بہتان طرازی کی جاتی ہے۔ دراصل اس نظری نقص کا تعلق سوویت یونین کے انہدام کے غیر سائنسی اور جذباتی تجزیئے سے ہے۔ بائیں بازو کے یہ نام نہاد معیشت دان جنہیں آج کل مختلف فیسٹیولز، میلوں اور ٹاک شوز میں مدعو کیا جاتا ہے، جو عملاً اب دائیں بازو کے ہی سرخیل ہیں، یہ سب اور ان کے آباء و اجداد چونکہ سوویت یونین کے انہدام کا تصور بھی نہیں کر سکتے تھے اور ان کے خیال میں امریکہ نے ہی سوویت یونین کے انہدام کے نا قابلِ یقین منصوبے کو عملی جامہ پہنایا ہے، لہٰذا امریکہ کچھ بھی کر سکتا ہے اور اس کی مرضی کے بغیر کوئی پتا بھی نہیں ہل سکتا، کسی ملک کے دیوالیہ ہونے کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ اب ان نام نہاد بڑے دماغوں کو رشک کی نگاہ سے دیکھنے والے ان کے متاثرین اور مقلدین میں شامل بائیں بازو کے نام نہاد ابھرتے ہوئے معاشی تجزیہ نگار بھی اسی طرزِ استدلال کا سہارا لیتے ہوئے اس امید پر ان کے نقشِ قدم پر چل رہے ہیں کہ شاید انہیں بھی ان زرق برق میلوں اور ٹاک شوز میں ’’سرکاری بائیں بازو‘‘ کی نمائندگی کا شرف حاصل ہو سکے۔ یہ قابلِ رحم مسخرے حقیقت سے کوسوں دور ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ امریکی سامراج سمیت دنیا کی دیگر بڑی معیشتیں خود دیوالیہ پن کی طرف لڑھک رہی ہیں، لیکن یہاں ان تفاصیل میں جانے کی گنجائش نہیں ہے لیکن ان بحران زدہ سامراجی آقاؤں سے یہ توقع رکھنا کہ وہ ہر قیمت پر پاکستان کو دیوالیہ سے بچا لیں گے احمقوں کی جنت میں رہنے کے مترادف ہے۔ یہ ممکن ہے کہ IMF سے معاہدہ ہونے کے بعد وقتی طور پر زرِ مبادلہ کے ذخائر میں کچھ اضافہ دیکھنے میں آئے، سٹاک ایکسچینج میں بھی غل غپاڑہ چلتا رہے مگر بالعموم زوال کا یہ سفر تیز ترین ہوتا جائے گا۔سرکاری اعلان بیشک نہ ہو دیوالیہ بہرحال نوشتہِ دیوار ہے۔
یہ بات الگ ہے کہ امریکی سامراج اب چاہ کر بھی پاکستانی معیشت کو درکار بیساکھیاں مہیا نہیں کر سکتا، مگر حقیقت تو یہ ہے کہ اب امریکہ اور مغربی سامراجی قوتوں کا ایسا کوئی ارادہ بھی نہیں ہے۔ اس خطے میں سامراجی مفادات تبدیل ہو چکے ہیں اور ماضی میں پاکستانی ریاست کی ڈبل گیم نے بھی سامراجیوں کو مجبور کیا ہے کہ وہ اس پالتو ریاست کو سبق سکھائیں۔ پاکستانی ریاست ہمیشہ سے انہی کے ٹکروں پر پلتی رہی ہے اور حکمران طبقے کی اسی طفیلی جبلت کی وجہ سے یہاں کوئی حقیقی معیشت پروان ہی نہیں چڑھ سکی۔ تقسیمِ ہند کے وقت پاکستان ایک زرعی معیشت تھا جو کپاس، گندم اور دیگر زرعی اجناس کی پیداوار میں نہ صرف خود کفیل تھا بلکہ بڑے پیمانے پر برآمد کرنے کی صلاحیت بھی رکھتا تھا۔ اس ملک کے حکمران طبقے اور انگریز سامراج کی تیار کردہ بیوروکریسی نے اس ملک کے جنم سے ہی اس زرعی معیشت کا خون پینا شروع کر دیا تھا جو اب قریب المرگ ہچکیاں لیتی ہوئی نظر آتی ہے۔ تاریخی طور پر تاخیر زدہ حکمران طبقے میں بڑے پیمانے کی صنعت کاری کی تو اہلیت تھی ہی نہیں تاہم 60 کی دہائی میں ایوبی آمریت کے دور میں تھوڑی بہت صنعتکاری نظر آئی مگر اس صنعتکاری سے جہاں دولت کا بڑے پیمانے پر ارتکاز ہوا وہیں اس کے ثمرات محنت کشوں تک پہنچنے نہیں دیئے گئے اور اس کے بعد نو زائیدہ محنت کش طبقے کی قیادت میں سماجی بغاوت نے حکمران طبقے سے مزید صنعتکاری کرنے کی خواہش ہی چھین لی۔سوویت یونین کی طرف سے عنایت کردہ پاکستان اسٹیل اور مشین ٹول فیکٹری جیسے بڑے صنعتی پراجیکٹس بھی آج برباد ہو چکے ہیں۔ گزشتہ تین دہائیوں میں رئیل اسٹیٹ، ٹیلی کمیونیکشن اور بینکنگ سیکٹر پر مشتمل ایک بڑا سروسز کا شعبہ تو پروان چڑھا ہے مگر اس میں نامیاتی طور پر بڑے پیمانے پر روزگار پیدا کرنے کی صلاحیت ہی نہیں تھی، جس کے باعث عوام کے معیارِ زندگی میں بہتری لانے کی بجائے اس سرمایہ کاری نے ان کی زندگیاں پہلے سے بھی زیادہ مشکل اور ناقابلِ برداشت بنا دی ہیں۔ معیشت کے اس طرزِ ارتقا میں ایک نو دولتیا حکمران طبقہ اور سیمابی طبیعت کا درمیانہ طبقہ تو پروان چڑھا مگر ملکی برآمدات بڑھنے کی بجائے مسلسل سکڑتی چلی گئیں جبکہ آبادی کے بڑھنے اور بڑے پیمانے کی اربنائزیشن کے باعث درآمدی ضروریات میں بے پناہ اضافہ ہوتا چلا گیا۔ جہاں آبادی کی اکثریت زندہ رہنے کی کشمکش کے باعث ذہنی تناؤ، ڈپریشن اور ہیجان کا شکار ہوتی گئی وہیں حکمران طبقے کی ثقافتی زوال پذیری بھی اپنی انتہاؤں کو پہنچ گئی۔
حکمران طبقے کے رجعتی اور غیر انسانی کردار کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ عین اس وقت جب ملک دیوالیہ ہونے کے سرکاری اعلان سے بچنے کی تگ و دو کر رہا ہے، ملکی تاریخ کی شاید سب سے بڑی کابینہ عوام پر مسلط ہے۔ وزرا، مشیران اور وزرائے مملکت ملا کر کل 88 رکنی کابینہ اس وقت گدھوں کی طرح اس دیوالیہ معیشت کے سر پر منڈلا رہی ہے۔ان کی عیاشیوں کا عالم یہ ہے کہ گزشتہ ہفتے وزیرا عظم شہباز شریف نے جب IMF کے دباؤ میں ان کی مراعات میں کٹوتی کرنے کا اعلان کیا تو ان سے درخواست کی گئی کہ یہ اپنے یوٹیلیٹی بلز، پیٹرول کے اخراجات اور ہوائی سفر کے اخراجات خود برداشت کریں اور فائیو سٹار ہوٹلز میں قیام سے گریز کریں۔ وزیرِ اعظم کے بقول ان کٹوتیوں سے ملکی معیشت کو سالانہ 200 ارب روپے کی بچت ہو گی۔یہ صرف ان 88 افراد کی شاہ خرچیوں سے ہونے والی ادنیٰ سی کٹوتی ہے۔ یاد رہے کہ ان کٹوتیوں کے باوجود بھی ان وزرا صاحبان کو دیگر بے شمار مراعات بہرحال میسر رہیں گی۔ اسی طرح اگر جونکوں کی طرح خون چوسنے والی سول و ملٹری افسرشاہی، صنعتکاروں اور سرمایہ داروں کو سالانہ قرضوں میں ملنے والی معافیاں، بجلی اور گیس کی مد میں ملنے والی سبسڈیز اور دیگر معاشی مراعات کو شامل کر لیا جائے تو اندازہ ہو گا کہ اس ملک کے دیوالیہ نکلنے کا اصل ذمہ دار کون ہے۔حال ہی میں ہونے والی ایک پریس کانفرنس میں وزیرِ اعظم شہباز شریف صاحب کو اس وقت بہت غصے میں دیکھا گیا جب ایک صحافی نے یہ سوال داغ دیا کہ کہا جاتا ہے کہ سوئس، فرینچ اور دیگر بیرونی بینکوں میں پاکستان سے لوٹے گئے سینکڑوں ارب ڈالر موجود ہیں تو کیا دیوالیہ سے بچنے کے لیے حکومت اس لوٹی گئی رقم کی واپسی کے حوالے سے کوئی منصوبہ بندی کر رہی ہے؟ ظاہر ہے جو لوگ خود اس لوٹ مار کے سب سے بڑے جغادری ہیں، ان سے اس طرح کے اقدامات کی توقع نہیں کی جا سکتی۔
یہاں کے حکمران طبقے کی اس تاریخی لوٹ مار اور بدعنوانی کے باعث پاکستانی ریاست کے تمام ادارے اپنی آئنی حدود سے متجاوز ہو چکے ہیں اور اس لوٹ مار کے نہ صرف سرخیل بن چکے ہیں بلکہ اب خود حکمران طبقہ اپنی لوٹ مار کو جاری رکھنے کے لیے ان کے مرہونِ منت ہے۔ ان اداروں میں فوج، عدلیہ اور دیگر سکیورٹی ادارے بالخصوص ISI شامل ہیں۔عسکری سرمایہ کاری کا عالم یہ ہے کہ وہ ملکی معیشت کے لگ بھگ نصف کے برابر ہو چکی ہے اور اس میں سے زیادہ تر کو ٹیکسوں میں استثنا حاصل ہے۔سوویت یونین سے سرد جنگ کے باعث سامراجیوں نے اس گماشتہ ریاست کو جو کردار تفویض کیا تھا، اس کی روشنی میں معیشت کی عسکری ناکہ بندی اس کا منطقی نتیجہ ہے۔ ساتھ ہی ساتھ امریکہ سامراج کی تخلیق کردہ ایک متوازی کالی معیشت پر بھی خاکی اجارہ داری کی ٹھوس سیاسی و سفارتی وجوہات قابلِ فہم ہیں۔اس کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ یہ دیوالیہ معیشت اس وقت دنیا میں اسلحے کی خریداری میں دسویں نمبر پر ہے جبکہ تعلیم اور علاج پر خرچ کرنے میں اس کا نمبر 135 کے بعد ہی آتا ہے۔یوں پاکستان کی معیشت کلاسیکل سرمایہ دارانہ بنیادوں پر استوار ہونے کی بجائے جنگوں اور دفاعی خدمات کے گرد سنٹرلائزڈ ہو چکی ہے، جس کے باعث فوجی ادارے کا پروفیشنل میکنزم مکمل طور پر برباد ہو چکا ہے اور اب جرنیلوں کی کرپشن کی کہانیاں بھی زباں زدِ عام ہیں۔آسٹریلیا میں جزیرے خریدنے، امریکہ میں کمپنیاں اور اس طرح کے بے شمار سکینڈلز گزشتہ کچھ سالوں میں منظرِ عام پر آ چکے ہیں جن سے عوام کی توجہ مبذول کرانے کے لیے اپنے پالتو دانشوروں اور صحافیوں کے ذریعے نت نئے نان ایشوز تخلیق کرنا ایک معمول کی بات بن چکا ہے۔ کچھ لبرل معیشت دان انہی دفاعی اخراجات اور جرنیل شاہی کی لوٹ مار کو ملکی دیوالیہ کا ذمہ دار قرار دیتے ہیں، بائیں بازو کے دانشوروں کا بھی یہی وطیرہ ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ یہ سچ ہے مگر یہ آدھا سچ ہے کیونکہ جرنیلوں کی یہ معاشی انکروچمنٹ جس حکمران طبقے کی نامیاتی خصی پن کو ظاہر کرتی ہے، اسے بری الذمہ قرار نہیں دیا جا سکتا۔یہ بائیں بازو کے لبرلز سویلین حاکمیت کے نعرے پراسی حکمران طبقے اوراسکی پارٹیوں کے وکیل بن جاتے ہیں جو خود اب اس فوجی اشرافیہ کی خوشنودی حاصل کرنے کو ہی کامیابی کی کنجی قرار دے چکا ہے۔IMF بھی اب امریکی سامراج کی خطے میں مسلسل تبدیل ہوتی ہوئی ترجیحات کی روشنی میں پاکستان پر فوجی اور تمام غیر پیداواری اخراجات کو کم کرنے کے لیے دباؤ بڑھا رہا ہے۔اور فوجی اشرافیہ کے رحم و کرم پر مکمل طور پر انحصار کرنے والی 13 پارٹیوں کی یہ نام نہاد جمہوری حکومت اپنی مراعات پر تو آٹے میں نمک کے برابر سمجھوتہ کرنے پر تیار ہے مگر فوجی اخراجات میں کٹوتی کی تجویز بھی اگر کوئی پیش کرتا ہے تو اسے ان مین سٹریم پارٹیوں سے ہی بے دخل کر دیا جاتا ہے اور پھر وہ ہمارے لبرلز کے محبوب بن جاتے ہیں۔دوسری طرف جوں جوں دفاعی اخراجات میں کٹوتی کا دباؤ بڑھ رہا ہے، دوبارہ دہشت گردی کی لہر بھی ابھر رہی ہے۔ اس تاریخی معاشی بحران کے بیچ و بیچ کنٹونمنٹس کی مرمتوں کے لیے 450 ملین روپے کی سپلیمنٹری گرانٹ کے اجرا کی خبریں بھی گردش کر رہی ہیں اور یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ روس یوکرین جنگ کے لیے یوکرین کو اسلحہ فروخت کر کے اربوں روپے کمائے جا رہے ہیں۔یوں اپنی مراعات پر تھوڑی بہت کٹوتی کا ناٹک کر کے درحقیقت کٹوتیوں کی تمام تر تلوارحکمرانوں کی طرف سے محنت کش طبقے پر ہی چلائی جا رہی ہے۔منی بجٹ کے ذریعے500 ارب روپے سالانہ کے نئے ٹیکس عوام پر لاد دیے گئے ہیں۔ جنرل سیلز ٹیکس کو 17 فیصد سے بڑھا کر 18 فیصد کر دیا گیا ہے۔ پیٹرولیم مصنوعات کی فی لیٹر قیمت میں 25 سے 35 روپے جبکہ گیس کی قیمت میں 114 فیصداضافہ کر دیا گیا ہے اور IMF سے چیک کی وصولی سے قبل ان قیمتوں میں مزید اضافہ متوقع ہے۔ ماہرین کے مطابق ان تمام تر اقدامات کے باوجود جولائی میں پھر IMF سے رجوع کرنا پڑے گا اور اس وقت پھر مہنگائی کا نیا طوفانی ریلا عوام کے سروں سے گزرے گا۔اور اسی عرصے میں جہاں ارب پتی کھرب پتی بن جائیں گے، وہیں کئی نئے ارب پتی بھی اس بہتی گنگا میں ہاتھ دھونے کے لیے سامنے آ جائیں گے۔وزیرِ دفاع خواجہ آصف کے بقول ایک بیوروکریٹ کی اولاد کی شادی پرایک ارب سے زیادہ کی سلامی جمع کی گئی تھی۔ یہ حکمران طبقے کے لیے معمول کی بات ہے۔ یہی غلیظ حکمران طبقہ حب الوطنی کے نام پر عوام سے مزید قربانیاں دینے کا مطالبہ کر رہا ہے تاکہ ملک کو دیوالیہ پن سے بچایا جا سکے۔ یہ حقائق صاف واضح کرتے ہیں کہ یہاں درحقیقت ایک نہیں دو پاکستان ہیں۔ ایک امیروں کا پاکستان اور دوسرا غریبوں کا پاکستان۔ اور ان دونوں پاکستانوں کے مابین تناؤ اور کشیدگی مسلسل بڑھ رہی ہے اور جنگ کسی بھی وقت شروع ہو سکتی ہے۔
غریب عوام بھی اب اس حب الوطنی کے جھانسے میں آنے والے نہیں ہیں۔ وہ سمجھ چکے ہیں کہ حکمران طبقے اور ریاستی اداروں میں کوئی بھی ان کا نجات دہندہ نہیں ہے۔ ایک وقت تھا کہ وہ سیاستدانوں کو کرپٹ سمجھتے تھے مگر پاک فوج کو سلام پیش کیا کرتے تھے۔ ان کے خیال میں فوج ملک کی سلامتی کی ضامن تھی، بالخصوص پنجاب اور پشتون مڈل کلاس میں فوج کی بڑی حمایت موجود تھی۔ اب یہ صورتحال اپنی نفی میں بدل چکی ہے اور محنت کش طبقے سے زیادہ خود مڈل کلاس کے لوگ فوج کو گالیاں نکال رہے ہیں۔”ففتھ جنریشن وار“ کے تیار کردہ سپاہیوں نے بھی اب توپوں کا رخ اپنے ہی افسران اور تخلیق کاروں کی طرف کر دیا ہے۔ اب ہر کوئی سوال اٹھا رہا ہے کہ ایک دیوالیہ ملک کیسے کسی سے جنگ لڑ یا جیت سکتا ہے۔ بھارت دشمنی کا چورن بھی اب زیادہ بکنے ولا نہیں۔مقدس عدلیہ بھی عوام کی نظروں میں اپنی افادیت کھو چکی ہے۔ جمہوریت کے حالیہ سرکس میں اعلیٰ اور عظمیٰ عدالتوں کے ججوں کی داخلی لڑائیاں اس ادارے کے کردار کو ہی عوام کے سامنے لے آئی ہیں۔’’آئین اور قانون کی نظر میں سب شہری برابر ہیں‘‘ اب اگر یہ جملہ کسی مزدور، کسان یا طالبِ علم کے سامنے دوہرایا جائے تو وہ ننگی گالیاں دینے پر اتر آتا ہے۔ عوام نے دیکھ لیا کہ ان مقدس عدالتوں سے انصاف خریدنے کی انکی اوقات ہی نہیں ہے جبکہ اشرافیہ کے لیے رات کو بارہ بجے بھی عدالتیں لگ جاتی ہیں اور اگر کبھی کسی بڑے آدمی کے خلاف فیصلہ ہو بھی جائے تو اس پر عملدرآمد ہی نہیں ہو پاتا۔ پرویز مشرف کے خلاف ہونے والے فیصلے اور عمران خان کو ملنے والی ہر ممکن عدالتی چھوٹ کو ہی بطور مثال پیش کرنا کافی ہو گا۔
اس ساری صورتحال میں عوام کے شعور پر گہرے اثرات مرتب ہو رہے ہیں اور وہ اپنے غصے کو مجتمع کرتے چلے جا رہے ہیں جو کسی بھی وقت پھٹ سکتا ہے۔انہیں دہشت گردی اور فرقہ واریت کے ذریعے ہراساں کرنے کی پھر کوششیں کی جائیں گی۔ مذہبی و دیگر دہشت گردی اور تحریک لبیک جیسے رجعتی مظاہر کو ریاست کے باہم دست وگریبان دھڑے کھل کھلا کر عوامی شعور کے خلاف استعمال کریں گے۔ اور رواں برس انتخابات کو اگرچہ کچھ مؤخر کرنے کی کوشش کی جائے گی مگر ایک وقت میں انتخابات کے ذریعے بھی عوامی غم و غصے کو زائل کرنے کا حربہ آزمانا پڑ سکتا ہے۔ مگر اس بار یہ حربہ بھی حکمران طبقے پر الٹا پڑ سکتا ہے۔ عوام درحقیقت اس نام نہاد پارلیمانی سیاست سے مکمل طور پر بیزار ہو چکے ہیں۔ حال ہی میں ہونے والے ضمنی و بلدیاتی انتخابات میں حقیقی ٹرن آؤٹ دس فیصد سے بھی کم رہا ہے۔ رائج الوقت سیاسی پارٹیوں میں عوام کی نمائندگی کی دعویدار ساری پارٹیاں سماجی حمایت سے محروم ہو چکی ہیں۔ مہنگائی کی حالیہ لہر کا کسی حد تک تحریکِ انصاف کو فائدہ ہو سکتا تھا مگر اس میں بھی یہ فائدہ اٹھانے کی اہلیت نظر نہیں آ رہی۔ اس کا اظہار ابھی نام نہاد’’جیل بھرو تحریک‘‘ میں دیکھنے میں آیا ہے جس میں عمران خان سمیت تحریکِ انصاف کی ساری قیادت کی بزدلی اور اقتدار کی ہوس ایک بار پھر واضح ہو چکی ہے اور اس پارٹی کا طبقاتی کردار بھی عیاں ہوا ہے۔ لیڈران کارکنان کو جیلوں میں جانے کا درس دے رہے ہیں اور خود اس تحریک کی کامیابی کے جھوٹے پراپیگنڈے کے لیے اپنی پر تعیش زندگیوں میں سے ایک دن بھی مشکل وقت کا سامنا کرنے کے لیے تیار نہیں۔ درمیانے طبقے کی نوجوان نسل کی نمائندہ یہ پارٹی اس نسل کی کسی ایک توقع اور معیار پر بھی پورا نہیں اتر سکی۔ ایسے میں انتخابات سراسر غیر ضروری اور فروعی ہو چکے ہیں۔
اس وقت انٹیلی جنشیہ میں یہ بحث چل رہی ہے کہ اگر ملک دیوالیہ ہوا تو کیا نتائج برآمد ہوں گے؟ ہر کوئی انتشار اور خانہ جنگی کا تناظر پیش کر رہا ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ اس کے متوازی ایک عوامی بغاوت کا تناظر بھی موجود ہے۔مظلوم اقوام اور طبقات کی سیاسی تحریکیں آنے والا نیا سیاسی معمول ہو گا۔ مظلوم اقوام سے تعلق رکھنے والے نوجوان بھی اب سماج کی طبقاتی بنتر کو دیکھ اور پرکھ رہے ہیں۔ حال ہی میں سانحہ بارکھان نے بھی مظلوم اقوام کے حکمران طبقے کے غلیظ، انسانیت سوز اور ریاستی کاسہ لیسی کے کردار کو بے نقاب کیا ہے۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ قومی محرومی اور جبر کے خلاف مزاحمت نہیں ہو گی۔ ضرور ہو گی اور مزدور تحریک کے لیے لازم ہے کہ قوم پرستانہ نظریات، پراکسی لڑائیوں پر شدید تنقید کرتے ہوئے اور مسلح سرکشی کے غلط اور متروک طریقہ کار پردو ٹوک موقف رکھتے ہوئے مظلوم اقوام کے نوجوانوں کی ہر جمہوری اور سیاسی کاوش کی حمایت کرتے ہوئے اسے مزدور یکجہتی کے نعرے کے گرد جمع کرے۔ پاکستان کے سوشلسٹ مستقبل کا انحصار اسی طبقاتی یگانگت پر ہے۔ اگر مظلوم اقوام کے اس زندان میں قومی تحریکوں کے دریاؤں کا رخ طبقاتی جنگ کے سمندر کی طرف موڑنے میں ہم کامیاب ہو گئے تو یہ سیلاب ظلم، بربریت اور فرعونیت کے اس نظام کو بہا لے جائے گا اور اس کی جگہ پر ہم حقیقی انسانی سوشلسٹ معاشرے کی بنیاد رکھیں گے۔