|تحریر: راشد خالد|
پاکستانی معیشت کا بحران ہر گزرت دن کے ساتھ شدت اختیار کرتا چلا جا رہا ہے اور محنت کش عوام کی تلخ زندگیوں میں مزید زہر بھر رہا ہے۔ ایسی کیفیت میں جب پہلے ہی معیشت زرمبادلہ کے ذخائر میں تیز ترین کمی، بڑے تجارتی و مالیاتی خسارے کے بحران سے گزر رہی تھی، روپے کی قدر میں کمی نے مسائل کو مزید گھمبیر کر دیا ہے۔ روپے کی قدر میں 5فیصد گراوٹ کے بعد ڈالراوپن مارکیٹ میں 116روپے سے تجاوز کر چکا ہے اور ابھی تک کہا جا رہا ہے کہ روپیہ ڈالر کے مقابلے میں اپنی اصل قدر سے زائد پر روکا جا رہا ہے۔ یہ سارا بحران اس وقت کھل کر سامنے آ رہا ہے جب اس حکومت کی مدت پوری ہونے کو ہے۔ ایسی ہی کیفیت میں موجودہ حکومت نے قبل از وقت ہی 27اپریل کو بجٹ پیش کرنے کا اعلان بھی کر دیا ہے۔ گو کہ اس اعلان کے ساتھ ہی ہمیشہ کی طرح یہ جھوٹا اعلان بھی کیا گیا ہے کہ اگلے بجٹ میں عوام پر مزید ٹیکسوں کا بوجھ مسلط نہیں کیا جائے گا لیکن معیشت کی حقیقی صورتحال کو مدنظر رکھا جائے تو یہ لفظی جگالی کے علاوہ کچھ بھی نہیں ہے۔ حکمرانوں کی ہمیشہ سے یہ روش رہی ہے کہ وہ عوام کے سامنے جھوٹ بولتے ہیں اور کبھی بھی حقائق عوام کے سامنے آشکار نہیں کیے جاتے ۔ آج بھی حکمران طبقہ یہی کر رہا ہے مگر ماضی میں کم از کم کسی اعتماد کے ساتھ جھوٹ بولا جاتا تھا اور عوام کو کسی حد تک یقین بھی دلا دیا جاتا تھا مگر اب کے حکمرانوں میں اس اعتماد کا بھی شدید فقدان ہے۔ ماضی میں جب عوام کو ریلیف دینے کی بات کی جاتی تھی تو بظاہر اس طرح کے اقدامات کئے جاتے تھے جس سے یہ لگے کے اس سے عوام کو فائدہ ہو رہا ہے مگر گزشتہ کچھ عرصے سے حکمران طبقے کے بیانات اور اقدامات میں موجود تضاد نے عوامی شعور میں بھی بڑی تبدیلی کو جنم دیا ہے جس کے نتیجے میں عوام کو جب یہ بتایا جاتا ہے کہ عوام کو ریلیف دیا جائے گا تو عوام پہلے سے ہی کسی نئے ٹیکس یا نئے معاشی حملے کے لئے تیار ہو جاتے ہیں یا اگر کبھی یہ کہا جائے کہ اس سے عوام کو فائدہ ہو گا تو عام لوگ یہ نتیجہ اخذ کرتے تاخیر نہیں کرتے کے ایک بڑے نقصان کے سامنے کے لئے تیار رہا جائے۔
ملکی معیشت کی تباہ حالی کا یہ عالم ہے کہ معاشی خساروں کو پورا کرنے کے لئے قرضوں پر قرضے لینے کے علاوہ اس حکمران طبقے کے پاس کوئی حل موجود نہیں ۔ اور اب تو حال یہ کہ پاکستان میں ’’ہر مسئلے کے حل‘‘ CPEC کے لیے آنے والی 60ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کے عمل کو برقرار رکھنے اور پایۂ تکمیل تک پہنچانے کے لئے بھی قرضوں کی ضرورت ہے۔ زرمبادلہ کے ذخائر میں تیز ترین گراوٹ کو کم کرنے اور کرنٹ اکاؤنٹ خسارے کو پورا کرنے کے لئے بھی قرضوں کے علاوہ کوئی ممکنہ حل ان حکمرانوں کے پاس موجود نہیں ہے۔ پہلے ہی بیرونی قرضے 90ارب ڈالر سے تجاوز کر چکے ہیں۔ اس مالی سال میں ابھی تک 7.6ارب ڈالر کے قرضے لئے جا چکے ہیں لیکن اس کے باوجود زرمبادلہ کے ذخائر کم ہو کر 11.8ارب ڈالر تک پہنچ گئے ہیں۔ جو صرف دو ماہ کی برآمدات کے لئے کافی ہیں۔ جبکہ IMFکی پوسٹ پروگرام مانیٹرنگ (PPM) رپورٹ کے مطابق پاکستان کی واجب الادا ادائیگیوں کو مدنظر رکھا جائے تو اس وقت پاکستان کے زرمبادلہ کے ذخائر منفی 724ملین ڈالر ہیں۔ یہ کیفیت ایسی صورتحال میں ہے کہ جب پہلے ہی 7.6ارب ڈالر کا بیرونی قرضہ حاصل کیا جا چکا ہے جبکہ اس پورے مالی سال میں 8ارب ڈالر کے مجموعی بیرونی قرضے حاصل کرنے کا ٹارگٹ رکھا گیا تھا۔ سرکاری اطلاعات کے مطابق اپریل کے شروع میں چینی بینکوں سے 1سے 1.5ارب ڈالر کے مزید کمرشل قرضے حاصل کرنے کے لئے تگ و دو جاری ہے۔ جس میں سے زیادہ تر کمرشل بینکوں سے مختصر میعاد کے قرضے ہوں گے۔ جبکہ کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ جاری مالی سال کے پہلے سات ماہ میں 10ارب ڈالر سے زیادہ ہے اور مالی سال کے اختتام تک 16ارب ڈالر سے بھی تجاوز کر سکتا ہے۔
تجارتی خسارے سے نپٹنے کاجو حل تلاش کیا گیا ہے یقیناًوہ دلچسپ ہے۔ روزنامہ دی نیوز کی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستانی حکام چین سے یہ درخواست کر رہے ہیں کہ وہ 6سے 8ارب ڈالر سٹیٹ بینک میں جمع کرا دے تاکہ وقتی طور پر معیشت کو کچھ ریلیف دیا جا سکے اور اس کے ساتھ ہی چین سے یہ مطالبہ بھی کیا جا رہا ہے کہ پاکستان کو ادائیگیوں کے لئے امریکی ڈالر کی بجائے پاکستانی روپیہ استعمال کرنے کی اجازت دی جائے، جو کہ معیشت کی سوجھ بوجھ رکھنے والوں کے لئے یقیناًایک مضحکہ خیز خبر ہے۔ دوسری طرف وزارت خزانہ اس حوالے سے پرامید ہے کہ ’’دوست ممالک‘‘ ان کی اس تجویز سے اتفاق کریں گے۔اس ضمن میں جو منطق پیش کی جا رہی ہے وہ یہ ہے کہ اگر چین امریکہ کے خسارے کو کم کرنے کے لئے 500ارب ڈالراسی طرز پر استعمال کر سکتا ہے تو کیا پاکستان جیسے دوست ملک کے لئے 6، 8ارب ڈالر بھی استعمال نہیں کر سکتا۔ اسی رپورٹ کے مطابق سعودی عرب سے ادھار تیل اور قرضے حاصل کرنے کی کوششیں بھی جا ری ہیں۔
پاکستانی معیشت اتنی کھوکھلی ہو چکی ہے کہ بیرونی امداد اور قرضوں کے بنا ایک دن بھی گزارنا اس کے لئے ممکن نہیں ۔ لیکن عالمی سطح پر ہونے والی تبدیلیوں اور بالخصوص امریکہ کے ساتھ تعلقات کی خرابی نے پاکستانی ریاست اور اس کی معیشت کے لئے ناقابل حل تضادات کو جنم دیا ہے۔ پاکستان میں باقی شعبوں کی طرح معیشت کے حوالے سے بھی کوئی سنجیدہ پلاننگ اپنا وجود ہی نہیں رکھتی۔ حکمران طبقہ معیشت سے مطلب ہمیشہ اپنی معیشت لیتا ہے، یعنی کس حد تک وہ اپنی ذاتی لوٹ مار برقرار رکھ سکتے ہیں۔ حکمران طبقے کی اس نااہلی سے امریکہ اور عالمی مالیاتی ادارے بخوبی آگاہ ہیں اور یہی وجہ ہے کہ ماضی میں کسی حد تک جو معاشی پالیسیاں ترتیب دی جاتی رہی ہیں وہ تمام تر IMFکی ہی ہوتی تھیں۔ یہ حکمران طبقہ IMFکی ان پالیسیوں کو جوں کا توں یہاں مسلط کرنے کی کوشش کرتا تھا اور جو باآسانی مسلط کی جا سکیں ان کو اپنی کامیابی بنا کر پیش کیا جاتا تھا۔ جن کا اطلاق کسی بھی وجہ سے نہ ہو سکے، ان کو حالات کی ستم ظریفی بنا کر IMFکے سامنے پیش کیا جاتا تھا۔ مگر امریکہ کے ساتھ تضادات نے ان کی نااہلی کو مزید عیاں کر دیا ہے۔ یہ حکمران طبقہ جس طرح امریکہ سے امیدیں لگاتا تھا، وہی امیدیں جوں کی توں چین کی طرف منتقل کی جا رہی ہیں لیکن چین ابھی اس کھیل میں نووارد ہے۔ دوسری طرف چین شدید خواہش اور کوششوں کے باوجود امریکہ والا سامراجی کردار ادا کرنے کی صلاحیت حاصل نہیں کر سکتا جس کی بنیادی وجہ سرمایہ دارانہ نظام کا بحران اور ایک بالکل مختلف عہد ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستانی ریاست کا بحران دن بدن شدید سے شدید تر ہوتا جا رہا ہے اور امریکی آقا کی ناراضگی اسے مہنگی پڑ رہی ہے۔
IMFسمیت بہت سے ادارے روپے کی قدر میں کمی کے باعث برآمدات میں اضافے کا نسخہ دے رہے ہیں تاکہ معیشت کو سنبھالا جا سکے لیکن پاکستانی معیشت برآمدی نہیں بلکہ درآمدی ہے۔ اور کرنسی کی قدر میں کمی درآمدی معیشت کے لئے نئے مسائل کو تو جنم دے سکتی ہے لیکن کسی قسم کا معاشی ریلیف فراہم نہیں کر سکتی۔ اسی طرح معذرت خواہان قرضوں کو بھی جواز فراہم کرتے ہیں اور یہ کہتے دکھائی دیتے ہیں کہ قرضے تو معیشت کو چلانے کی کلید ہیں اور اس کے لئے وہ امریکہ، یورپی ممالک اور جاپان کے قرضوں کی مثالیں دیتے نہیں سماتے۔ لیکن اس طرح کے تجزیوں میں یہ معیشت دان کل کی بجائے محض ایک جزو کو زیر بحث لاتے ہیں۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ پاکستانی معیشت کا موازنہ ان ترقی یافتہ ممالک سے کسی طور بھی ممکن نہیں ہے۔ اور دوسری بات یہ کہ ان کی مثال دیتے ہوئے ان ممالک کی معیشت کی کلیت کو نظر انداز کر دیا جاتا ہے اور حتیٰ کہ یہ تک نہیں دیکھا جاتا کہ ان ممالک پر قرضوں کے بحران کس طرح اثر انداز ہو رہے ہیں۔ بنیادی طور پر یہ معیشت دان ریاست کو امریکی اور یورپی حکمران طبقے کے اسی طریقہ کار کو جاری رکھنے کی تجاویز دے رہے ہوتے ہیں کہ اپنا تمام تر بحران پہلے سے کچلے جانے والے محروم اور مجبور طبقات پر منتقل کیا جائے۔
29مارچ کو روزنامہ ڈان میں خرم حسین نے قرضوں کے طریقہ کار کے حوالے سے سنجیدہ سوالات اٹھائے ہیں جو اس نظام کی رکھوالی پر مامور دانشوروں کی پریشانی اور مایوسی کا اظہار ہے۔ اس مضمون کے لئے بھی IMFکی PPMرپورٹ سے اعداد و شمار اٹھائے گئے ہیں جن کے مطابق اس مالی سال میں پاکستان کے بیرونی قرضے 93.4ارب ڈالر تک پہنچ جائیں گے اور اگلے پانچ سال میں یعنی2023ء میں یہ 145ارب ڈالر تک۔ یہ بیرونی قرضوں میں مجموعی طور پر 50فیصد اضافہ ہو گا جب کے اس سے قبل قرضوں میں 50فیصد اضافہ 10سال کی مدت میں ہوا تھا۔ اسی رپورٹ کے مطابق 2013ء میں جب IMFکا آخری قرضے کا پروگرام شروع ہوا تو کرنٹ اکاؤنٹ خسارے اور بیرونی قرضوں کی واپسی کے لئے پاکستان کو سالانہ 9.5ارب ڈالر درکار تھے اور تب یہ اندازہ لگایا گیا تھا کہ 2017ء میں اس پروگرام کے اختتام تک یہ اعدادوشمار یہی رہیں گے۔ لیکن جب اس پروگرام کا اختتام ہوا تو یہ 21.5ارب ڈالر تک پہنچ چکے تھے۔ اس سال امکان ہے کہ یہ اعداد 24.5ارب ڈالر اور 2023ء تک 45ارب ڈالر تک پہنچ جائیں گے۔ جو کہ تشویشناک ہے۔ جبکہ IMFکی ہی جولائی2017ء کی ایک رپورٹ میں 2022ء تک ان اعداد کا تخمینہ 22.6ارب ڈالر لگایا گیا تھا۔
2017ء میں IMFنے تخمینہ لگایا تھا کہ زرمبادلہ کے ذخائر جاری مالی سال میں 18ارب ڈالر اور 2022ء تک 20ارب ڈالر تک پہنچ جائیں گے جو تین ماہ تک کے درآمدی بل کے لئے کافی ہوں گے لیکن صورتحال اس کے بالکل الٹ ہے ۔جاری مالی سال میں یہ 12ارب ڈالر سے بھی نیچے گر چکے ہیں اور 2023ء میں یہ مزید گراوٹ کے بعد 7ارب ڈالر تک پہنچ جائیں گے جو بمشکل ایک ماہ کی درآمدات کے لیے کافی ہوں گے۔ یہ تمام تر اعداد و شمار IMFکے طریقہ کار کے کھوکھلے پن کو عیاں کرنے کے لئے کافی ہیں۔ لیکن اس حوالے سے کوئی سنجیدہ بحث کے امکانات تک موجود نہیں ہیں۔ ایسی کیفیت جو معیشت کو دیوالیہ پن کے دہانے تک پہنچا چکی ہے لیکن اس کے باوجود IMF یا دیگر مالیاتی اداروں سے مزید قرضے حاصل کرنے کے علاوہ اس حکمران طبقے کے پاس کوئی راستہ نہیں ہے۔ ان تمام تر اعداد و شمار اور ان کے گھن چکر سے حکمران طبقہ بخوبی آگاہ ہے لیکن اس کے باوجود اس بحران سے نکلنے کا کوئی راستہ ان کے پاس موجود ہی نہیں ہے۔
درحقیقت پاکستانی معیشت کا بحران عالمی مالیاتی بحران کا ہی شاخسانہ ہے جو پھر سرمایہ دارانہ نظام کی بیماری کی واضح علامت ہے۔ عالمی سطح پر ہونے والی تیز ترین سیاسی تبدیلیوں اور سامراجی طاقتوں کے گرنے اورابھرنے کی بنیادوں میں بھی یہی بحران کارفرما ہے۔امریکی سامراج کی دنیا پر تیزی سے کمزور ہوتی ہوئی گرفت آئی ایم ایف اور ورلڈ بینگ جیسے سامراجی مالیاتی اداروں کی کمزوری میں بھی عیاں ہو رہی ہے۔ ان سامراجی اداروں کی پالیسیاں پہلے بھی دنیا بھر میں آنے والی معاشی بحرانوں کا باعث بنتی تھیں لیکن ماضی میں ان کے پاس بحرانوں سے نکلنے کا کوئی نہ کوئی چور رستہ ہوتا تھا۔ جہاں ان اداروں کو بڑا خطرہ پہنچنے کا اندیشہ ہوتا وہاں امریکی سامراج کی عسکری قوت انہیں سہارا دیتی تھی اور دیوالیہ معیشتوں اور نافرمان حکمرانوں سے بھی اپنی شرائط پر نپٹا جاتا تھا۔اسی عسکری قوت کی بنا پر قرض دینے والوں کو یہ فکر نہیں ہوتی تھی کہ یہ ڈوب بھی سکتے ہیں کیونکہ انہیں یقین تھا کہ امریکی سامراج ہر قیمت پر اپنے قرضے سود سمیت وصول کرے گا۔لیکن آج یہ صلاحیت انتہائی کمزور ہو چکی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان جیسی گماشتہ ریاست بھی چین کے مالیاتی سرمائے پرمکمل انحصار پر غور کر رہی ہے جبکہ جزوی انحصار کا آغاز ہو چکا ہے۔لیکن یہ تمام عمل انتہائی پر پیچ اور تضادات سے بھرا ہوا ہے ۔ ایک طرف تو چین میں اتنی صلاحیت نہیں کہ وہ آئی ایم ایف یا ورلڈ بینک جیسی نسبتاً آسان شرائط اور بڑے حجم کے قرضے دے سکے جبکہ دوسری جانب امریکی سامراج بھی رضاکارانہ طور پرپسپائی اختیار نہیں کرے گا بلکہ اپنی گماشتہ ریاست پر مالیاتی گرفت کو مضبوط کرنے کی کوشش کرے گا۔ یہ ٹکراؤ مختلف شکلوں میں اپنا اظہار کرے گا جو ملک کی سیاست سے لے کے قومی مسئلے تک کو مزید پیچیدہ اور خونریز کرے گا۔ سعودی عرب اور ایران کی سامراجی لڑائی اس تمام صورتحال کو مزید گمبھیر کرتے ہوئے پاکستان کی ریاست اور اس کے تمام اداروں کو تیزی سے کمزور کرتی چلی جائے گی۔اس ریاست کا سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ اتنے اہم اور فیصلہ کن موقع پر ان کے پاس کوئی ایسی سیاسی قوت نہیں جو عوام کا اعتماد حاصل کرتے ہوئے یہ تمام اہم فیصلے کرنے کی صلاحیت رکھتی ہو۔ اس وقت موجود تمام سیاسی قیادتیں بد عنوانی میں غرق ہیں اور ان کے پاس بند گلی سے نکلنے کا کوئی رستہ نہیں۔ایسی صورتحال میں معاشی بحران تیزی سے گہرا ہو گا اور معیشت جو ابھی ایک گہری کھائی کے دہانے پر لڑکھڑا رہی ہے کسی بھی بڑے جھٹکے سے اس میں گر سکتی ہے۔ایسے میں اتنے بڑے بھونچال آئیں گے کہ کرنسی کی قدر سے لے کر افراط زر اور بنیادی اشیائے ضرورت تک کی قیمتوں کا حساب رکھنا بھی مشکل ہو جائے گا ۔یہ جھٹکا عالمی معیشت میں ایک نئے بحران، کسی بڑی عوامی بغاوت، خطے میں کسی نئی سامراجی جنگ کا آغاز، تیل کی قیمتوں میں بڑے پیمانے پر رد و بدل یا کوئی دوسرا اہم واقعہ ہو سکتا ہے۔پاکستان کا سیاسی بحران بھی کسی لمحے شدت اختیار کرتے ہوئے کنٹرول سے باہر ہو سکتا ہے جس میں انتخابات ایک چنگاری ثابت ہو سکتے ہیں۔اس کے علاوہ بھی پاکستان کی سماجی و سیاسی صورتحال میں درجنوں ایسی فالٹ لائنیں موجود ہیں جو بحران کا باعث بن سکتی ہیں۔لیکن یہ طے ہے کہ اس معاشی بحران کے سیاسی و سماجی اثرات بڑے پیمانے پر مرتب ہوں گے اور یہاں کی انقلابی سیاست میں ایک نئے باب کا آغاز کریں گے۔کیونکہ یہ حکمران معاشی بحران کا تمام تر بوجھ عوام کے کندھوں پر ڈالتے چلے جا رہے ہیں اور اس کے خلاف نفرت اور غم و غصہ انتہاؤں کو چھو رہا ہے۔یہ کسی بھی وقت ایک عوامی تحریک کی شکل میں پھٹ سکتا ہے۔
معیشت کے دیوالیہ پن کی یہ کیفیت پاکستان کے حکمرانوں کے لئے خطرے کی گھنٹیاں بجائے یا نہ بجائے مگر پاکستان میں بسنے والے کروڑوں غریب محنت کش عوام کے لئے ضرور خطرے کی گھنٹیاں بجا رہی ہے۔ آئے روز نئے نئے ٹیکس عوام پر مسلط کیے جا رہے ہیں۔ پٹرول، بجلی، گیس، پانی اور ٹیلیفون کے بلوں میں ہر ماہ ایک نیا اضافہ کر دیا جاتا ہے۔ اشیائے خوردونوش کی قیمتوں میں ہفتہ وار اضافہ دیکھنے کو مل رہا ہے۔ روپے کی قدر میں کمی فوری طور منڈی میں افراط زر میں اپنا اظہار کر رہی ہے۔ لیکن حکمرانوں کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگ رہی۔ یہ اپنی تاریخی متروکیت کی انتہاؤں پر موجود ہیں۔ محنت کش طبقہ روز روز کے ان عذابوں کو اب زیادہ وقت تک برداشت نہیں کرے گا۔ پاکستان کے طول و عرض میں ہر روز مختلف شکلوں میں احتجاج جنم لے رہے ہیں۔ گو کہ ابھی یہ احتجاج بکھرے ہوئے اور ادارہ جاتی یا علاقائی سطح پر ہیں۔ لیکن حالات جس نہج کی طرف جا رہے ہیں ایسے میں کوئی بھی واقعہ ان احتجاجوں کو ایک دوسرے کے ساتھ جوڑنے کی طرف جا سکتا ہے۔ ایسے میں حقیقی مارکسی نظریات پر ایک پارٹی ہی عوام کی اس تحریک کو ایک منطقی انجام کی طرف لے جا سکتی ہے، جس کے ذریعے اس سرمایہ دارانہ غارت گری کا خاتمہ کرتے ہوئے ایک سوشلسٹ سماج کی تشکیل کی بنیاد رکھی جا سکے۔