|تحریر: فضیل اصغر|
پاکستان اس وقت تاریخ کے بد ترین بحران سے گزر رہا ہے۔ فارن ایکسچینج ریزرو 10 ارب ڈالر تک گِر چکے ہیں، جن میں سے بھی تقریباً 3 ارب ڈالر تک ہی درآمدات کے لیے استعمال کیے جا سکتے ہیں۔ ایسے میں ملک کے اعلانیہ طور پر دیوالیہ ہونے کا واضح امکان موجود ہے۔ کچھ ہی عرصہ پہلے سری لنکا دیوالیہ ہو چکا ہے۔ اگرچہ پہلے بھی مملکت خداداد میں ایسی صورت حال بنتی رہی ہے، آپ نے کم و بیش ہر حکمران کی زبان سے وہ مشہور جملہ تو سنا ہی ہوگا کہ ”ملک نازک صورت حال سے گزر رہا ہے“، مگر پہلے امریکہ کی آشیرباد سے عالمی مالیاتی اداروں سے فوری قرضہ مل جایا کرتا تھا۔ اس بار کہانی مختلف ہے۔ اب دنیا وہ نہیں رہی جو چند سال پہلے تک تھی۔ افغانستان سے انخلاء کے بعد اب امریکہ کو اس خطے میں پاکستان کی وہ اسٹریٹیجک ضرورت نہیں رہی جو پہلے تھی، اوپر سے امریکی سامراج افغانستان میں اپنی تمام تر ناکامی کا سارا ملبہ ریاست پاکستان کی نام نہاد ڈبل گیم پر ڈالنے کا خواہشمند ہے،لہٰذا اس بار آئی ایم ایف نے بھی قرضے کیلئے سخت ترین شرائط سامنے رکھ دیں ہیں۔ ان میں سے سر فہرست پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ ہے، جو مکمل اطاعت و فرماں برداری کے ساتھ اسٹیبلشمنٹ کی آشیر باد کیساتھ شو باز شریف حکومت کی جانب سے ملکی تاریخ کے بلند ترین اضافے (60 روپے فی لیٹر) کی صورت میں کر دیا گیا ہے۔ مگر ابھی بھی مزید اضافہ ہونا ہے جو بالآخر کم از کم 250 روپے فی لیٹر تک جائے گا۔ اس اضافے سمیت مزید بے شمار عوام دشمن اقدامات کچھ دن بعد آنے والے بجٹ 2022-23ء میں دیکھنے کو ملیں گے۔ ان اقدامات کے ساتھ ہی مہنگائی اور بے روزگاری کا طوفان جو ابھی بھی جاری ہے، انتہائی خوفناک شکل اختیار کر جائے گا۔ سرمایہ دارانہ نظام میں رہتے ہوئے اس گھن چکر سے نکلنے کا کوئی راستہ موجود نہیں۔ ایسے میں نہ تو پاکستان کی صنعت اس قابل ہے کہ عالمی صنعت کا مقابلہ کر سکے جس کی بدولت بر آمدات میں اضافہ ہو اور روزگار پیدا ہو، اور نہ ایک ایسا سماج جس میں مذہبی رجعت موجود ہو اور حکمرانوں کی بقاء اسے قائم رکھنے میں ہو، میں سیاحت فروغ پا سکتی ہے جس سے روزگار جنم لے اور کچھ ڈالر ملک میں آسکیں۔ اسی طرح زراعت کا بھی بیڑا غرق ہے اور زرعی ملک ہونے کے باوجود پاکستان گندم اور کپاس درآمد کرتا ہے۔ آئے روز یہ شعبہ بھی تباہی کی جانب ہی گامزن ہے جس میں نہری نظام کی فرسودگی سے لے کر زراعت اور آبپاشی کی پسماندہ تکنیک بہت بڑا مسئلہ ہے جسے ٹھیک کرنے کی صلاحیت ہی ریاست کے پاس نہیں ہے۔ لے دے کر فری لانسنگ اور بیرونی ممالک، بالخصوص خلیجی ممالک میں کام کرنے والے بچتے ہیں جن کی ترسیلات زر سے ملک میں کچھ نہ کچھ ڈالر آجاتے ہیں۔ مگر یہ دونوں بھی کوئی مستقل ذرائع نہیں ہو سکتے۔ مثلاً خلیجی ممالک میں اگر معاشی، سماجی یا سیاسی بحران شدت اختیار کرتا ہے، جس کے واضح امکانات موجود ہیں، تو ایک ذریعہ بند ہو جائیگا۔ اسی طرح فری لانسنگ سے آمدن بھی نہ تو مستقل ہے اور نہ ہی اتنی زیادہ کہ ملکی معیشت کو پاؤں پر کھڑا کر سکے اور مستقل روزگار کے مواقع پیدا کر سکے۔ بلکہ جوں جوں اشیاء کی قیمتوں میں اضافہ ہوتا جائیگا، ویسے ہی فری لانسنگ کیلئے درکار لوازمات جیسے کمپیوٹر، لیپ ٹاپ، انٹرنیٹ، یو پی ایس، اے سی وغیرہ خریدنا بھی اکثریتی فری لانسرز کیلئے ناممکن ہوتا چلا جائیگا۔ ایسے میں اگر ملک اعلانیہ طور پر دیوالیہ ہوتا ہے تو پاکستان کے محنت کشوں، نوجوانوں اور طلبہ کے سَر پر سارا عذاب نازل ہوگا، جبکہ یہاں کے حکمران، جن کا سب کچھ بیرونی ممالک میں پڑا ہے، دُم دبا کر بھاگ نکلیں گے۔ اس بحران کا حل انقلابی اقدامات کے ذریعے ہی کیا جا سکتا ہے، یعنی کہ سوشلسٹ انقلاب کے ذریعے سرمایہ دارانہ نظام کے خاتمے صورت میں، اس کے علاوہ اور کوئی رستہ ہی نہیں ہے۔
اس بحرانی ماحول میں ایک بھی سیاسی پارٹی ایسی نہیں جو موجودہ بحران سے نکلنے کا کوئی درست انقلابی حل پیش کر رہی ہو۔ انقلابی حل تو دور، مملکت خداداد میں تو کسی بھی سیاسی پارٹی کے پاس سرے سے کوئی حل یا حل نکالنے کی سوچ تک موجود نہیں ہے۔ اسی لیے میڈیا پر چوبیس گھنٹے ما سوائے ایک دوسرے کو گالیاں نکالنے کے ان کے پاس اور کچھ کہنے کو ہے ہی نہیں۔ میڈیا کے ذریعے حکمرانوں کی آپسی لڑائی کو حقیقی مسائل پر پردہ ڈالنے کیلئے استعمال کیا جاتا ہے۔ میڈیا کے ذریعے مصنوعی مسائل اور موضوعات تخلیق کیے جاتے ہیں جن میں ’کرپشن ٹچ‘، ’اسلامی ٹچ (اسلام کو خطرہ ہے)‘، ’وطن پرستی ٹچ‘، ’پاک فوج کو سلام ٹچ‘، ’عدالت عظمیٰ کا تقدس ٹچ‘، ’ایک قومی نصاب ٹچ‘وغیرہ وغیرہ شامل ہیں۔
ایسے میں پاکستان کے نوجوانوں کے پاس رائج الوقت تمام مین سٹریم پارٹیوں میں سے کوئی بھی ایسا آپشن موجود نہیں جو کوئی درست انقلابی متبادل پیش کرتا ہو۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ تمام سیاسی پارٹیاں درحقیقت سرمایہ دارانہ نظام کی رکھوالی ہیں اور عوام دشمن ہیں۔ آپسی لڑائی میں سیاسی پوائنٹ سکورنگ کے لئے وقتی طور پر ان میں سے بھلے ہی کوئی انقلابی بننے کا ناٹک کر لے، مگر حقیقت میں یہ سب سرمایہ داروں اور جاگیرداروں کی پارٹیاں ہیں جن کا منشور مقامی و عالمی حکمرانوں کے مفادات کا تحفظ کرنا ہے۔ اسی لیے پچھلے 75 سالوں سے تمام سیاسی پارٹیوں و فوجی آمریت کے ادوار میں عوام دشمن پالیسیاں ہی لاگو کی جاتی رہی ہیں، جس کے نتیجے میں محنت کشوں، طلبہ اور نوجوانوں کی اکثریت ان سے متنفر ہو گئی ہے۔ ان میں پی ٹی آئی قدرے نئی پارٹی ہے، مگر اس کی معاشی پالیسیاں بھی سرمایہ دارانہ نظام کی رکھوالی اور مزدور دشمنی پر ہی مبنی ہیں۔ پی ٹی آئی کے دور اقتدار میں بھی تعلیم اور صحت کے بجٹ میں کٹوتی ہی ہوئی، فیسوں میں اضافہ ہی ہوا، بیروزگاری میں اضافہ ہوا، مہنگائی میں ہوشربا اضافہ ہوا جبکہ مہنگائی کے تناسب سے تنخواہوں میں اضافہ نہیں ہوا، نجکاری کی پالیسی میں شدت لائی گئی، قرضوں کے انبار میں بھی تاریخی اضافہ ہوا اور کے ساتھ ساتھ قومی جبر میں بھی مزید شدت آئی۔
لہٰذا آج پاکستان کے نوجوانوں کو رائج الوقت حکمران طبقے کی تمام جماعتوں کے خلاف انقلابی سیاست کا آغاز کرنا ہوگا۔ عالمی سطح پر جاری محنت کش عوام کی تحریکیں، جن میں نوجوانوں کا کلیدی کردار ہے، پاکستان کے نوجوانوں کیلئے مشعل راہ ہیں۔ بالخصوص اس وقت سری لنکا میں جاری تحریک، جس میں نوجوانوں نے انتہائی جرات اور دلیری کے ساتھ سری لنکا کے وحشی حکمرانوں کو ناکوں چنے چبوائے ہیں۔ متعدد مواقع پر نوجوانوں اور طلبہ نے راجاپکشا خاندان (حکمران) کی ایما پر ریاستی سیکورٹی اہلکاروں اور کرائے کے غنڈوں کی جانب سے پر امن احتجاجیوں پر غنڈہ گردی کا دلیری کے ساتھ مقابلہ کیا اور انہیں شکست فاش دی۔ خاص طور پر 9 مئی کو کولمبو شہر میں سابقہ وزیراعظم مہیندا راجاپکشا نے جب شراب پلا کر کرائے کے غنڈوں کو پر امن احتجاجیوں پر دھاوا بولنے کیلئے بھیجا تو نوجوانوں و طلبہ نے صفِ اول میں کھڑے ہو کر ان وحشیوں کو دم دبا کر بھاگنے پر مجبور کیا۔ سری لنکا کے طلبہ اور محنت کشوں کی اس عظیم الشان تحریک نے بالآخر مہیندا راجاپکشا کو کرسی چھوڑنے پر مجبور کر دیا۔ یہ تحریک ابھی بھی جاری ہے، جس کی کامیابی کا دارومدار بالآخر ایک سوشلسٹ انقلابی پارٹی پر ہی ہے جو تاحال سری لنکا میں موجود نہیں۔
پاکستان میں بحران جس شدت کے ساتھ بڑھتا جا رہا ہے اور محنت کشوں و نوجوانوں میں جس رفتار کے ساتھ رائج الوقت سیاسی ڈھانچے سے بیگانگی اور نفرت بڑھتی جا رہی ہے، جلد ہی ملک بھر میں حکمران طبقے کے خلاف اس کا اظہار سڑکوں، فیکٹریوں، تعلیمی اداروں، کھیتوں اور کھلیانوں میں ہوگا۔ 1968-69ء کے بعد سے آج تک پاکستان میں مزدوروں، کسانوں، طلبہ اور نوجوانوں کی کوئی بڑی انقلابی تحریک نہیں چلی، جس کی وجہ سے یہاں کے حکمرانوں کے لاشعور میں یہ بات بیٹھ گئی ہے کہ شاید اب کبھی ایسا ہو گا بھی نہیں۔ بالخصوص حالیہ عرصے میں ریاست بالخصوص فوجی اشرافیہ کے ایک دھڑے کی مدد سے پی ٹی آئی کے منعقد کردہ لانگ مارچ پر ریاست کے ہی دوسرے دھڑے کی جانب سے کریک ڈاؤن کے بعد اگلے ہی دن عمران خان نے دھرنا ختم کرنے کا اعلان کر دیا اور سب گھروں کو چلے گئے۔ اس سے ریاستی حلقوں میں کہیں نہ کہیں یہ سوچ بھی گئی ہے کہ ڈنڈے سے سب کچھ کنٹرول ہو ہی جاتا ہے۔ مگر پاکستان کے نوجوانوں کے پاس 1968-69ء کی انقلابی میراث موجود ہے جب انہوں نے فیکٹری مزدوروں اور کسانوں کے ساتھ مل کر جنرل ایوب خان کی سرمایہ دارانہ آمریت کا تختہ الٹ ڈالا تھا۔ تب بھی گولیاں چلی تھیں، فوجیں سڑکوں پر آئی تھیں، کوڑے برسے تھے، مگر یہ تاریخ کا حصہ ہے کہ محنت کشوں، طلبہ اور نوجوانوں کا انقلابی ریلا نہ صرف اس ریاستی جبر کو ساتھ بہا لے گیا بلکہ بہت بڑی تعداد میں فوج میں سے سپاہیوں کی جانب سے اس عظیم الشان تحریک کی حمایت شروع ہو گئی۔ تب وہ تحریک ایک انقلابی پارٹی کے فقدان کے باعث اپنی حتمی منزل نہ پا سکی؛ یعنی کہ سوشلسٹ انقلاب کی منزل۔ مگر آج کے نوجوانوں کے پاس تاریخ کا وہ سبق موجود ہے۔ آج پاکستان کے نوجوانوں کے پاس ایک بار پھر موقع ہے کہ وہ سوشلزم کے انقلابی نظریات کی بنیاد پر ایک انقلابی پارٹی تعمیر کرنے میں اپنا کردار ادا کریں۔ صرف ایک سوشلسٹ انقلاب کے ذریعے ہی عالمی و مقامی سرمایہ داروں سے دولت و ذرائع پیداوار چھین کر محنت کشوں کے جمہوری کنٹرول میں دیے جا سکتے ہیں۔ سوشلسٹ انقلاب کے بعد سرمایہ داروں اور جاگیرداروں سے ضبط کئے گئے ان ذرائع پیداوار کو مزدور ریاست سماج کی اکثریت کی فلاح کیلئے استعمال کرے گی جس سے بیروزگاری، جہالت، لاعلاجی، بے گھری سمیت دیگر محرومیوں کا خاتمہ ہو جائے گا۔