|تحریر: آدم پال|
نواز شریف کیخلاف کرپشن کے الزامات لگائے گئے لیکن ان پر ابھی تک کوئی فیصلہ نہیں سنایا گیا۔ اسی طرح عمران خان پر اخلاق سوز حرکات اور خواتین کو ہراساں کرنے کے الزامات لگائے جا رہے ہیں۔ عدالتوں کو فوج کی باندی قرار دیا جا رہا ہے اور فوج پر ’’جمہوریت‘‘ پر شب خون مارنے کا واویلا کیا جا رہا ہے۔ لیکن کہیں بھی یہ بات نہیں کی جا رہی کہ کروڑوں محنت کشوں کو غربت، بھوک، بیماری، ذلت اور جہالت میں دھکیلنے کا ذمہ دار کون ہے۔ شدید گرمی اور حبس میں بجلی، گیس اور پانی کے بغیر زندگی کی اذیتوں کو سہنے والے کروڑوں لوگوں کا مجرم کون ہے۔ جس ملک میں ہر روز والدین اپنے بچوں کو بیچنے کے لیے سڑکوں پر نکل آئیں یا پھر غربت سے تنگ آ کر خود کشی کر لیں اس ملک پر حکمرانی کرنے والے تمام افراد کو کم سے کم کیا سزا ملنی چاہیے۔ صحت اور تعلیم جیسے بنیادی شعبوں کی نجکاری کر کے کروڑوں لوگوں سے علاج اور تعلیم کا حق چھین لینے کا الزام کس پر لگایا جائے۔ سرکاری ہسپتالوں کو کھنڈرات میں تبدیل کر دینے والے حکمرانوں کو کیا سزا ملنی چاہیے۔ جعلی ادویات سمیت تمام منشیات کے کاروباروں کی سرپرستی اور دہشت گردی کو بطور ہتھیار استعمال کرنے والے حکمران طبقے کا کیا انجام ہونا چاہیے۔ اس پر کوئی بات نہیں کی جاتی۔ بلکہ سب سے زیادہ واویلا یہ کیا جا رہا ہے کہ نظام کو بچایا جائے۔ یہ نظام کونسا ہے جس کو بچانے کی بات کی جا رہی ہے۔ اس نظام کو کس سے خطرہ ہے؟
درحقیقت سرمایہ دارانہ نظام پوری دنیا میں لڑکھڑا رہا ہے اور شدید بحران کا شکار ہے۔ امریکہ سے لے کر یورپ تک اور لاطینی امریکہ سے لے کر مشرقِ بعید تک ہر جگہ اس نظام کے رکھوالے ہیجان اور انتشار کا شکار ہیں۔ 2008ء میں شروع ہونے والا معاشی بحران ابھی تک ختم نہیں ہوا بلکہ اس سے بھی بڑے بحران کی پیش گوئی کی جا رہی ہے۔ عالمی سطح پر قائم طاقتوں کا توازن بگڑ چکا ہے۔ امریکی ریاست بد ترین داخلی انتشار کا شکا رہے اور ایک کے بعد دوسرے بحران میں دھنستی چلی جا رہی ہے۔ عالمی سطح پر امریکی سامراج اب تھانیدار کا کردار ادا کرنے سے قاصر ہو چکا ہے۔ یورپ بھی شدید معاشی بحران کا شکار ہے اور یورپی یونین میں دراڑیں بڑھتی جا رہی ہیں۔ دنیا کے ترقی یافتہ سرمایہ دارانہ ممالک میں محنت کشوں کی وسیع عوامی تحریکیں حکمران طبقات کو للکار رہی ہیں۔ جس کا اظہار ایک کے بعد دوسرے ملک میں ہونے والے عام انتخابات اور ریفرنڈموں میں ہو رہا ہے۔ چین کا معاشی بحران بھی گہرا ہو رہا ہے جبکہ محنت کش طبقے کی تحریکیں مضبوط ہو رہی ہیں۔ مشرقِ وسطیٰ ایک جلتی ہوئی بھٹی بن چکا ہے جس میں شام، عراق، لیبیا اور یمن سمیت مختلف ریاستیں تحلیل ہوچکی ہیں۔ سعودی عرب سمیت خلیجی ممالک کا بحران بھی انہیں تیزی سے اسی بھٹی کی جانب لے کے بڑھ رہا ہے۔
ایسے میں پاکستان کی ریاست بھی شدید ترین داخلی بحران کا شکار ہے۔ سات دہائیوں پہلے قائم ہونے والی یہ ریاست مصنوعی بنیادوں پر برطانوی سامراج نے خطے میں اپنی سامراجی اجارہ داری کو جاری رکھنے کے لیے تخلیق کی تھی۔ اس وقت سے لے کر آج تک یہ ریاست اور اس کے حکمران طبقات سامراجی طاقتوں کی گماشتگی کرتے رہے ہیں۔ پورے خطے میں رجعتی قوتوں کی سرپرستی کرنے سے لے کر عالمی سامراجی طاقتوں کے اشاروں پر ناچنے تک یہاں کے حکمران طبقات مکمل طور پر کٹھ پتلی کا کردار ادا کرتے رہے ہیں۔ اس دوران ان حکمرانوں نے یہاں کے محنت کش عوام کو ایک درندے کی طرح نوچا ہے۔ ان کا خون کب کا پی چکے، اب تو ان کی ہڈیاں تک چبا رہے ہیں۔ افغانستان میں ڈالر جہاد اور طالبان کی تشکیل سے لے کر اس ریاست نے محنت کش طبقے پر بد ترین مظالم ڈھائے ہیں۔ ان تمام رجعتی قوتوں کا خوف مسلط کر کے یہاں کے محنت کش طبقے کا بد ترین استحصال کیا گیا ہے۔ صنعتی اداروں میں ٹریڈ یونین کو تقریباً ختم کر دیا گیا ہے اور مزدوروں کے لیے اپنے حقوق کے لیے آواز اٹھانا ناقابل معافی جرم بن چکا ہے۔ مزدوروں کی اسی منظم قوت کے خاتمے کے باعث اجرتیں انتہائی کم ترین سطح پر پہنچ چکی ہیں۔ اگر ایک تولہ سونے یا ڈالر کی قیمت سے موازنہ کیا جائے تو گزشتہ تین دہائیوں میں اجرتوں میں بڑے پیمانے پر کمی کی گئی ہے۔ اسی طرح طلبہ یونین پر ایک لمبے عرصے سے پابندی ہے۔ اس کے نتیجے میں جہاں تعلیم سب سے منافع بخش کاروباروں میں شامل ہو چکی ہے وہاں طلبہ کے لیے اپنی آواز بلند کرنے کے لیے کوئی پلیٹ فارم موجود نہیں۔ اگر ایسی کوئی کوشش کی جاتی ہے تو ریاست کی پالتو سیاسی پارٹیوں کے ذریعے گھناؤنے الزامات لگا کر اسے کچل دیا جاتا ہے۔ اسی سال اپریل میں مردان یونیورسٹی میں مشعل خان کے بہیمانہ قتل میں یہ کھلے عام دیکھا گیا۔
اس ملک کے محنت کشوں پر ہونے والے ان مظالم میں رائج الوقت تمام سیاسی پارٹیاں اور ان کی قیادتیں مکمل طور پر شامل ہیں۔ اسی طرح فوج، عدلیہ اور ریاست کے دیگر تمام ادارے بھی عوام پر ڈھائی جانے والی اس خونریزی اور قتل عام میں برابر کے شریک ہیں۔ اس ملک کی تاریخ کا نصف حصہ تو فوج برسر اقتدار رہی ہے۔ اور جس عرصے میں وہ بر سر اقتدار نہیں رہی وہ پس پشت رہ کر اپنی پالیسیاں ڈکٹیٹ کرتی رہی ہے۔ ایو ب خان سے لے کر مشرف تک تمام حکمرانوں نے محنت کشوں پر بد ترین حملے کیے ہیں۔ جرنیلوں کی کھربوں روپے کی کرپشن کے قصے تو ایوب دور سے ہی زبان زد عام ہیں۔ ایوب خان کے اپنے بیٹے اور پھر پوتے حکمران طبقے کا حصہ ہیں اور ان کی دولت اور جائیدادوں میں گزشتہ دہائیوں میں مسلسل اضافہ ہوا ہے۔ اس کے ساتھ موجود دیگر جرنیلوں نے بھی عوام کی کھال ادھیڑنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ یوں تو یحییٰ خان کی رنگ رلیوں کی داستانیں زیادہ مشہور ہیں لیکن بنگلہ دیش میں تقریباً بیس لاکھ لوگوں کے قتل اور تین لاکھ خواتین کی عصمت دری کے احکامات بھی اسی جرنیل نے دیے تھے۔ انہی تمام تر مظالم کے باعث بنگلہ دیش میں پاکستان کی سامراجی ریاست کے خلاف شدید عوامی نفرت موجود تھی جس کی وجہ سے اتنی بڑی فوج ہونے کے باوجود وہاں ان جرنیلوں کو شکست کا سامنا کرنا پڑا۔
ضیاالباطل کے مظالم کی فہرست تو بہت طویل ہے جسے شاید مکمل طور پر ترتیب دینے کے لیے بہت وقت درکار ہے۔ ہزاروں سیاسی کارکنان کی پیٹھ پر کوڑے برسائے گئے اور درجنوں کو پھانسی دے دی گئی۔ نواز شریف اور آج کے سیاسی افق پر موجود تمام لیڈران کو اسی خونی دور میں پروان چڑھایا گیا۔ منشیات اور اسلحے کو نوجوانوں کی سیاسی تحریکوں کو خون اور نشے میں ڈبونے کے لیے انتہائی مہارت سے استعمال کیا گیا۔ عمران خان اور اس کے گرد موجود تمام حواری بھی اسی دور میں پروان چڑھے اور اسی مدرسے سے ان کی نظریاتی تربیت کی گئی۔ پیپلز پارٹی کی قیادت میں موجود اکثر لیڈران کی نشوونما بھی ضیاالباطل کے دور میں ہی کی گئی۔ مشرف دور میں بھی امریکی سامراج کی غلامی کا طوق گلے میں پہن کر عوام کا خاصا بڑا سودا کیا گیااور اس کے عوض پاکستان کے حکمران طبقات نے بڑے پیمانے پر مال کمایا۔ افغانستان پر امریکی جارحیت میں امداد دینے کی پوری قیمت وصول کی گئی لیکن اس کے ساتھ ہی پورے ملک کو دہشت گردی کے عفریت میں دھکیل دیا گیا اور اپنی پالتو دہشت گرد تنظیموں کے ذریعے محنت کش عوام کو ایک نئے خونی کھیل میں دھکیل دیا گیا۔
آج پھر پاکستان کی ریاست اور اس پر حکمرانی کرنے والے تمام ادارے اسی خونی کھیل کو جاری رکھے ہوئے ہیں۔ فرق صرف اتنا ہے کہ لوٹ کا مال کم ہوتا جا رہا ہے اور حصے دار بڑھتے جا رہے ہیں۔ نواز شریف کی نااہلی اور ملک میں موجود سیاسی بحران کے پس پردہ حقائق بھی یہی ہیں۔ عالمی سطح پر امریکی سامراج کے بڑھتے ہوئے خصی پن کے باعث چین اور دیگر سامراجی قوتیں اپنا اثر ورسوخ بڑھاتی چلی جا رہی ہیں اور پاکستان کے حکمران طبقات ہر سامراجی قوت سے پیسے بٹورنے کے لیے ان کی کاسہ لیسی کر رہے ہیں۔ سعودی عرب اور ایران کے سامراجی ٹکراؤ نے بھی اسی ریاست اور اس کے کلیدی اداروں کی ٹوٹ پھوٹ میں اضافہ کیا ہے۔ اس سارے عمل میں خود پاکستان کی ریاست اور اس کے حکمران طبقات مختلف حصوں میں تقسیم ہوتے چلے جا رہے ہیں۔ وقت کے ساتھ ساتھ یہ تقسیم اور دھڑے بندی بڑھتی چلی جا رہی ہے اور ریاست اور اس کے کلیدی اداروں کی پھوٹ میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ عدلیہ، فوج، پارلیمنٹ اور بیوروکریسی میں جاری پھوٹ تو واضح طور پر نظر آ رہی ہے۔ لیکن ایک پھوٹ ان تمام اداروں میں داخلی سطح پر بھی موجود ہے جس میں شدت آتی جا رہی ہے۔ اگر پاکستان کی تاریخ اٹھا کر دیکھی جائے تو فوج کے علاوہ دیگر اداروں کا کردار ثانوی حیثیت کا ہی رہا ہے۔ گوکہ آج کے عہد میں یہ ادارے ماضی کی نسبت کہیں زیادہ کمزور ہو چکے ہیں اور سماج کے کسی بھی حصے کا ان پر ذرہ برابر بھی اعتماد موجود نہیں۔ سب سے زیادہ بحران سیاسی پارٹیوں کا ہے جو اب عوام کے کسی بھی حصے کی نمائندہ نہیں رہی۔ درحقیقت یہ تمام سیاسی پارٹیاں، قوم پرستوں سے لے کر مذہبی پارٹیوں تک اور پیپلز پارٹی سے لے کر عمران خان اور نواز شریف تک، سب کی سب جرائم پیشہ افراد کے گروہوں میں تبدیل ہو چکی ہیں جو ریاست کے مختلف دھڑوں کی ترجمان ہیں۔ اس کے علاوہ ان سیاسی پارٹیوں کی سماج میں کوئی بھی بنیادیں موجود نہیں رہیں۔ نواز شریف کے جی ٹی روڈ پر حالیہ مارچ سے اس کی ’’عوامی حمایت‘‘ کی قلعی بھی کھل گئی ہے۔ اس سے پہلے عمران خان اور پیپلز پارٹی کے جلسوں کو بھی کیمروں کی فنکاری کے ذریعے بڑا کرنے کی کوششیں ناکام ہو چکی ہیں۔ ان جلسے جلوسوں میں یا تو چند ہزار لوگوں کوپیسے دے کر لایا جاتا ہے یا پھر مفاد پرست اور موقع پرستوں کو وقتی لالچ کے تحت اکٹھا کیا جاتا ہے۔ کسی بنیادی نعرے یا مسئلے پر عوام کو کسی بھی سیاسی پارٹی سے کوئی امید باقی نہیں رہی ہے۔ قوم پرستوں کا نظریاتی کھوکھلا پن اور غداریاں بھی عیاں ہو چکی ہیں اور مذہبی جماعتوں کی بد فعلیاں بھی زبان زد عام ہیں۔ ایسے میں ملک میں ایک بہت بڑا سیاسی خلا موجود ہے جو دائیں جانب بھی ہے اور بائیں جانب بھی۔ اسی خلا کو پر کرنے کے لیے مصنوعی طور پر غلام میڈیا کے ذریعے مختلف کارٹون نما شخصیات کو لیڈر بنا کر پیش کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ لیکن عوام نے ان تمام کوششوں کو سختی سے رد کیا ہے اور کسی بھی ایسے دھوکے میں نہیں آئے جو محنت کشوں کے بلندسیاسی شعور کی غمازی کرتا ہے۔
ایسے میں فوج کا ادارہ شدید بحران کا شکار ہے۔ پہلے راحیل شریف کو مسیحا بنانے کی کوشش کی گئی جو بری طرح فلاپ ہوئی۔ سوشل میڈیا سے لے کر سڑکوں پر فلیکس لگانے تک اس کمپئین پر بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری کی گئی، مختلف شہروں میں وفادار تاجر برادری سے اس کے حق میں درجن بھر افراد کی ریلیاں بھی نکلوائی گئیں لیکن اس کے باوجود اس فلم کو کامیابی نصیب نہ ہوئی۔ اب پھر سیاستدانوں کی معمولی کرپشن میڈیا پر لا کر یہ ثابت کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے کہ تمام سیاستدان کرپٹ ہیں لیکن دیگر ریاستی ادارے ایمانداری اور جانفشانی سے خدمات سر انجام دے رہے ہیں۔ جبکہ حقیقت یہ ہے کہ اس حمام میں سب ہی ننگے ہیں۔ اس ملک کا کوئی بھی شخص جس کا زندگی میں کبھی عدالتوں سے معمولی سا بھی واسطہ رہا ہو، سپریم کورٹ کے ججوں کی ایمانداری کا سن کر ہنس دے گا۔ عدلیہ کی کرپشن اور مظالم کے لاکھوں قصے وہاں موجود مقدمات کی کاروائیوں میں دفن ہیں۔ عدلیہ کے نچلے ترین ملازم سے لے کر اوپر تک کتنا ریٹ طے ہے یہ معلوم کر نا بالکل بھی مشکل نہیں۔ شاید کچھ عرصے تک کوئی ویب سائٹ سامنے آ جائے جہاں ہر مقدمے کے فیصلے کا ریٹ آ جائے اور قیمت ادا کر کے فیصلہ کروا لیا جائے۔ اس ملک میں ان عدالتوں کے مظالم کی ایک لمبی تاریخ ہے۔ آج بھی یہ عدالتیں دہشت گردوں پر مقدمات چلانے میں بے بس ہیں لیکن جب کبھی محنت کش اپنے حقوق کے لئے آواز بلند کرتے ہیں ان پر دہشت گردی کے مقدمات بنائے جاتے ہیں اور عبرت ناک سزائیں سنائی جاتی ہیں۔ چند ہفتے قبل اپنے جائز مطالبات کے لیے ریلوے کے ہڑتال کرنے والے ٹرین ڈرائیوروں پر دہشت گردی کے مقدمات بنائے گئے۔ لیکن دوسری جانب یہ ریاست فوجی عدالتوں کے قیام سے ان عدالتوں کے خصی پن کی حقیقت کو تسلیم کر چکی ہے۔ اورفوجی عدالتوں کے گھناؤنے کردار سے وہ تمام سیاسی کارکن واقف ہیں جنہوں نے ضیا الباطل کے دور میں پیٹھ پر کوڑے کھائے تھے۔
اسی طرح فوجی جرنیل جہاں آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کے بعد اس ملک کا سب سے زیادہ بجٹ ہڑپ کر جاتے ہیں وہاں اس ملک کے محنت کشوں پر ان کے حملوں میں کمی نہیں آئی۔ کبھی ان دہشت گرد تنظیموں کو پروان چڑھایا جاتا ہے اور عوام کے ٹیکسوں کے پیسے سے ان کی نشوونما کی جاتی ہے اور کبھی ان کے خلاف آپریشن کے نام پر پیسے وصول کیے جاتے ہیں۔ پھر اس کے بعد ان سے مذاکرات کا ناٹک کیا جاتا ہے اور پشاور میں آرمی پبلک سکول میں معصوم بچوں کے قاتلوں کو مسکراتے ہوئے ٹی وی پر پیش کیا جاتا ہے۔ امریکی سامراج کی غلامی کا طوق پہنے یہاں کے فوجی جرنیل اپنی مراعات اور مفادات کے تحفظ کے لیے کسی سطح تک بھی جا سکتے ہیں۔ ایک طرف بلوچستان میں سامراجی قبضہ برقرار رکھنے کے لیے فوجی آپریشن کیے جاتے ہیں اور دوسری جانب اچھے اوربرے دہشت گردوں کی اصطلاح متعارف کروائی جاتی ہے۔ اسی طرح میڈیا سمیت ذرائع ابلاغ کے تمام ذریعوں کو کنٹرول کیا جاتا ہے اور وقتاً فوقتاً ایک جھوٹی کہانی عوام کے گلے میں انڈیلنے کی کوشش کی جاتی ہے۔
آج کی کہانی یہ ہے کہ نواز شریف کرپٹ ہے۔ یہ اتنا بڑا خفیہ راز یہاں کی عدالتوں اور دیگر اداروں پر اچانک کھلا۔ گو کہ نواز شریف یہاں چار دہائیوں سے اقتدارکے ایوانوں میں موجود ہے۔ اسی غیر ثابت شدہ الزام کوغلط ثابت کرنے کے لیے نواز شریف میدان میں نکل آیا ہے۔ بہت سے نام نہاد بائیں بازو کے دانشور بھی اسے جمہوریت کی بقا کی لڑائی قرار دیتے ہوئے اس میں کود پڑے ہیں۔ نواز شریف کو سزا درست دی گئی یا غلط اس پر نا ختم ہونے والی بحثیں جاری ہیں۔ یہ بحثیں اور مقدمات ایسے ہی ہیں جیسے ہٹلر یا دیگر ایسے قتل و غارت کرنے والے افراد پر ٹیکس چوری کا مقدمہ بنا کر اسے سزا سنا دی جائے۔ لاہور کے محنت کش جانتے ہیں کہ جب شہباز شریف اور نواز شریف نے اپنی سیاست کا آغاز کیا تو اپنی فیکٹریوں میں مزدور راہنماؤں کو لوہا پگھلانے والی بھٹیوں میں پھنکوایا۔ پارلیمنٹ میں موجود دیگر تمام افراد کا کردار اس سے مختلف نہیں۔ پاکستان کی صنعتوں اور جاگیروں میں ہونے والے انسانیت سوز مظالم آج کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں۔ لیکن اس کے باوجود عوام کو فروعی بحثوں میں الجھانے کی کوششیں کی جا رہی ہیں۔ لیکن محنت کش طبقے نے اس ناٹک کو ایک دفعہ پھر رد کیا ہے اور اس کا حصہ بننے سے انکار کر دیا ہے۔ وہ جانتے ہیں کہ کوئی بھی سیاسی پارٹی ان کے حقیقی مسائل کی علمبردار نہیں اور کسی کے بھی برسر اقتدار آنے سے ان کی غربت اور بیروزگاری ختم نہیں ہو گی۔
تجارتی خسارہ ملک کی تاریخ کی ریکارڈ سطح تک پہنچ چکا ہے۔ وہ بھی اس وقت جب تیل کی قیمتیں عالمی سطح پر کم ترین ہیں۔ کرنٹ اکاؤنٹ خسارے سمیت معیشت کے دیگر تمام اشاریے بھی بدترین بحران کی پیش گوئی کر رہے ہیں۔ غیر ملکی زر مبادلہ کے ذخائر تیزی سے کم ہو رہے ہیں جبکہ قرضوں کا بوجھ بڑھتا جا رہا ہے۔ کرنسی شدید دباؤ کا شکار ہے اور اس کی حقیقی قدر بڑے پیمانے پر کم ہو چکی ہے۔ عالمی معیشت کے بحران کے باعث اس بحران سے بچ نکلنے کے امکانات کم ہیں۔ آمدن کے ذرائع پہلے ہی سکڑ رہے ہیں۔ ایسے میں اس بحران کا بوجھ عوام پر ڈالا جائے گا جبکہ حکمران لوٹ کا مال سمیٹ کر فرار کا رستہ اختیار کریں گے۔ ایسے میں ان حملوں کا جواب دینے کے لئے محنت کش خود سیاسی میدان میں قدم رکھنے کی جانب بڑھیں گے۔ محنت کشوں کے سینکڑوں احتجاج اور جلوس جاری ہیں۔ فیصل آباد میں پاور لومز کے محنت کشوں کی ہڑتال اور احتجاجی مظاہرے، ینگ ڈاکٹروں کے مظاہرے، مختلف شہروں میں اساتذہ، نرسوں، ریلوے اور پی آئی اے سمیت دیگر اداروں کے محنت کشوں کے احتجاج اس تمام سیاسی سرکس سے الگ جاری و ساری ہیں۔ نجی صنعتی اداروں میں ہونے والے احتجاج، ہڑتالیں اور مظاہرے ہزاروں میں ہیں اور کوئی ایک بھی ایسا نجی ادارہ نہیں جہاں محنت کشوں کی تحریک کسی نہ کسی شکل میں جاری نہ ہو۔ لیکن اس کی خبر چلانا یا اس کا تجزیہ کرنا اس ملک میں سب سے بڑا جرم ہے۔ مشعل خان کے قتل کیخلاف بھی ایک تحریک ابھری تھی جس میں مختلف تعلیمی اداروں کے طلبہ نے کھل کر اپنے جذبات کا اظہار کیا تھا۔ یہ آنے والی تحریکوں کی صرف جھلکیاں ہیں۔ لیکن دوسری جانب کسی سیاسی پارٹی کا بیروزگاری، غربت یا نجکاری کیخلاف بات کرنا شجر ممنوعہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس ملک میں ایک نہیں دو قسم کی سیاست ہو رہی ہے۔ ایک طرف حکمران طبقات کی سیاست ہے جس میں فوج، عدلیہ، میڈیا اور تمام سیاسی پارٹیا ں شریک ہیں۔ اس کے پیچھے ریاست کے مختلف دھڑے، مختلف سامراجی قوتیں اور ان کا بڑھتا ہوا بحران ہے۔ یہ لڑائی شدید ہوتی جا رہی ہے اورآنے والے وقت میں خونریزی اور ریاست کی مزید ٹوٹ پھوٹ کی جانب بڑھے گی۔ ایک دوسری سیاست محنت کش طبقے اور انقلابی طلبہ کی سیاست ہے۔ اس کا ابھی تک کوئی منظم اظہار موجود نہیں اور یہ ابھی تک ابتدائی مراحل میں ہے۔ آنے والے عرصے میں یہ زیادہ شدت اختیار کرتے ہوئے منظم سیاسی اظہار کی جانب بڑھے گی اور حکمران طبقے کی سیاست کو چیرتے ہوئے اس سماج کے افق پر واضح طور پر اپنا اظہار کرے گی۔
مارکسسٹوں کی ذمہ داری بنتی ہے کہ جہاں وہ حکمران طبقے کی غلیظ سیاست کی مکاری کو واضح کریں وہاں محنت کش طبقے اور انقلابی طلبہ کی سیاست میں عملی طور پر مداخلت کرتے ہوئے وہاں مارکسزم کے سائنسی نظریات کو تیزی سے پہنچائیں۔ اس سارے عمل میں اگر بالشویک طرز پر مارکسی نظریات پر عبور رکھنے والی ایک انقلابی تنظیم چند ہزار کی تعداد تک پہنچنے میں کامیاب ہو جاتی ہے تو آنے والے عرصے کے طوفانی واقعات میں وہ ایک کلیدی کردار ادا کر سکے گی۔ اس سرمایہ دارانہ ریاست، اس کے اداروں اور اس کے حکمران طبقات کے جمہوریت اور آمریت کے ناٹکوں کا خاتمہ اب زیادہ دور نہیں۔ صرف ایک سوشلسٹ انقلاب کے ذریعے ہی یہاں حکمرانوں کی کرپشن، امیر اور غریب کی تقسیم، غربت، بیماری اور جہالت کو ہمیشہ کے لیے ختم کیا جا سکتا ہے۔