پاکستان کی ریاست کا بحران انتہاؤں کو پہنچتا چلا جا رہا ہے۔ ایک ہی وقت میں مختلف سامراجی قوتوں کو خوش رکھنے کی پالیسی نے خود ریاست کو متعدد دھڑوں میں تقسیم کر دیا ہے ۔ اب یہ مختلف دھڑے اپنے سامراجی سرپرستوں کی آشیر باد سے ایک دوسرے پر برتری لیجانے کی ہر ممکن کوشش کر رہے ہیں۔ اس تمام تر رسہ کشی میں ریاست کے ادارے تیزی سے ٹوٹ کر بکھرنے کی جانب بڑھتے جا رہے ہیں۔
بہت سے نادان اسے جمہوریت اور آمریت کی لڑائی قرار دے رہے ہیں اور نواز شریف کو جمہوریت کا علمبردار قرار دیتے ہوئے اس کی کرپشن اوراقتدار کی لوٹ مار میں حصے داری کے مطالبے کا دفاع کر رہے ہیں۔ نواز شریف اور اس کی کابینہ کے تمام افراد کے ہاتھ محنت کشوں کے خون سے رنگے ہوئے ہیں۔ ضیاالباطل کی خونی آمریت میں پروان چڑھنے والے اس عوام دشمن ٹولے نے اپنے اقتدار کے پہلے دن سے لے کر آج تک محنت کش عوام پر ہر ممکن مظالم ڈھائے ہیں۔ سامراجی طاقتوں کی گماشتہ اس ریاست کا یہ پالتو ٹولا اب اقتدار کی ہوس میں اپنے ہی جیسے دوسرے ٹولے کے ساتھ بچی کچھی ہڈیوں پر لڑ رہا ہے تو اس سے امیدیں وابستہ کرنے والے خود عوام کے سب سے بڑے دشمن ہیں۔ کچھ شہباز شریف کو نواز شریف کی نسبت زیادہ بہتر متبادل قرار دے رہے ہیں۔ اس مسخرہ نما وزیر اعلیٰ کے اقتدار میں اگر لاکھوں لوگ غربت اور ذلت کی چکی میں پس نہ رہے ہوتے تو اس کی تقریروں اور بیانات پر صرف ہنسا ہی جا سکتا تھا۔ برطانیہ میں اپنا علاج کرواتے ہوئے وہ کہتا ہے کہ میں نے پنجاب میں صحت کی جدیدسہولیات فراہم کر دی ہیں۔ لیکن ملک کی سیاست میں اب نیا لطیفہ یہ ہے کہ ضیا کی گود میں سیاست کا آغاز کرنے والا یہ ٹولا اب امریکی سامراج کے اشاروں پر ملک سے مذہبی بنیاد پرستی اور ریاست کے اندر موجود ریاست سے لڑائی لڑنے جا رہا ہے۔ اور یہاں ایسے لطیفوں پر خوش ہو کر تالیاں بجانے والے بیوقوفوں کی بھی کمی نہیں جو خواجہ آصف کے حافظ سعید کے خلاف حالیہ بیانات کو بہت بڑی تبدیلی قرار دے رہے ہیں۔ یعنی اسی عطار کے لونڈوں سے امیدیں باندھ لی جائیں جن کے سبب بیمار ہوئے۔ خواجہ آصف کے اس احساس شرمندگی پر بھی بہت تالیاں بجائی گئیں جو اسے پاکستانی ریاست کا ماضی میں امریکہ کا گماشتہ بننے پر ہوا۔ لیکن تالیاں بجانے والے یہ بھول گئے کہ ایسے بیانات اکثر گماشتے اسی وقت دیتے ہیں جب ان کی نوکری کو خطرہ ہو اور وہ اپنے آقا سے نئے حالات میں دوبارہ معاملات طے کرنے کا آغاز کر رہا ہو۔
اس خونی کھلواڑ میں دوسری جانب وہ قوتیں ہیں جو اس ریاست کو چلانے میں کلیدی کردار ادا کرتی رہی ہیں۔ امریکی سامراج کی گماشتگی کرتے ہوئے جنہوں نے یہاں انہی دہشت گردوں کی آبیاری کی اور آج تک انہیں سٹریٹجک اثاثہ قرار دیا جا تا ہے۔ پشاور کے آرمی پبلک سکول میں معصوم بچوں کا قتل عام ہو یا خود کش حملوں میں ہزاروں افراد کی لاشیں گرتی رہیں ان اثاثوں کی پرورش اور دیکھ بھال پہلے سے زیادہ کی جاتی رہی ہے۔ ان خونی درندوں کو ٹی وی کے انٹرویوز کی گنگا میں نہلا کر دوبارہ پوتر کرنے کا عمل بھی یہاں سب نے دیکھا ہے۔ اب انہی دہشت گردوں کو، جنہوں نے سیاست کو حرام قرار دے رکھا ہے، اسی سیاست کے ذریعے اپنے سامراجی آقاؤں کے لیے حلال بنا کر پیش کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ اس سارے عمل کو قانونی و آئینی جواز فراہم کرنے کا سلسلہ بھی جاری ہے۔ ویسے بھی سرمایہ دارانہ نظام میں قانون اور آئین حکمران طبقے کی لونڈی کا کردار ادا کرتے ہیں جنہیں اپنے مفادات کے تحفظ کے لیے بوقت ضرورت حسب منشا استعمال کر لیا جاتا ہے۔ آج انتخابات کا ناٹک بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے جس میں پہلے سے تیار کردہ نتائج کو ووٹ ڈالنے کی ایک رسمی سی کاروائی کے بعد منظر عام پر لایا جاتا ہے۔
لیکن اس تمام تر ڈھونگ کو امریکی سامراج نے بھی ماننے سے انکار کر دیا ہے اور اپنے گماشتوں کو سخت سزا دینے کا ارادہ ظاہر کر رہا ہے۔ پاکستان کی دیوالیہ پن کی کھائی کے کنارے لڑکھڑاتی معیشت کو سہارے کے لیے اس وقت امریکی امداد کی شدید ضرورت ہے۔ اس معیشت کا چینی سامراج پر انحصارپہلے ہی اپنی حدود سے تجاوز کر چکا ہے اور آنے والے عرصے میں اس کا واحد سہارا آئی ایم ایف ہی ہے۔ ایسے میں پاکستانی ریاست کے پاس آپشن محدود ہو چکے ہیں۔ دوسری جانب امریکی سامراج بھی افغانستان سمیت دنیا بھر میں اپنے محدود ہوتے ہوئے کردار کو تسلیم نہیں کر پا رہا اور کسی بھی طرح اپنے ماضی کے سامراجی کردار کو دوبارہ حاصل کرنا چاہتا ہے۔ اس کے لیے پاکستانی ریاست پر دباؤ ڈالنے میں وہ کسی بھی حد تک جا سکتا ہے۔ ہندوستان کی ریاست سے تعلقات کی استواری اس کے لیے خطے میں چین کے اثر و رسوخ کو کم کرنے کے لیے ابھی تک کارآمد نظر آتی ہے۔ اسی کے ذریعے پاکستان پر بھی دباؤ بڑھانے کے بہت سے مواقع امریکہ کو ملے ہیں۔ لیکن ہندوستان کی ریاست اپنے حجم اور تاریخی پس منظر کے باعث پاکستان جیسی گماشتگی کبھی بھی نہیں کر پائے گی۔ کشمیر کی تحریکِ آزادی نے بھی ہندوستان کی ریاست کی حدود کو واضح کیا ہے۔ لیکن اس تمام تر صورتحال میں پاکستان کی ریاست نہ صرف ہر طرف سے شدید دباؤ کا شکار ہو گی بلکہ اس کی داخلی شکست خوردگی کا عمل شدید تر ہو گا۔
آج پوری دنیا میں سرمایہ دارانہ ریاستیں ٹوٹتی جا رہی ہیں۔ یورپ کے ایک اہم ملک اسپین اور برطانیہ سے لے کر عراق اور نائجیریا تک ہر جگہ عوامی تحریکوں میں ریاستوں کو چیلنج کیا جا رہا ہے۔ یہ عمل اس نئے عہد کی غمازی کرتا ہے جس میں پوری دنیا داخل ہو چکی ہے اور سرمایہ داری کا زوال ریاستوں سمیت اس نظام کے تمام اداروں کو کمزور کر کے ختم کر رہا ہے۔ لیکن ابھی اس تمام تر عمل کا محض آغاز ہے۔ عالمی معیشت پر منڈلانے والا نیا اور پہلے سے بڑا مالیاتی بحران اس عمل کو ایک نئی معیاری سطح پر لے جائے گا۔ اس تمام تر عرصے کے دوران مختلف سامراجی طاقتوں کی لڑائیاں بھی شدت اختیار کرتی چلی جائیں گی اور نئے اتحاد تیزی سے بنتے اور ٹوٹتے رہیں گے۔ سعودی بادشاہ کا دورۂ روس اور اردگان کا دورۂ ایران اس تمام عمل کا ہی حصہ ہیں۔ آج کے دشمن کل کے انتہائی قریبی دوست بنیں گے اور آج کے دوست کل کے خونی دشمن۔ یہ عمل پاکستانی ریاست کی داخلی لڑائی میں بھی واضح طور پر نظر آئے گا۔ آج جسے ایک سیاسی پارٹی اور جرنیلوں کے درمیان لڑائی بتایا جا رہا ہے اس میں بھی تقسیم در تقسیم موجود ہے۔ اسی سیاسی پارٹی کے بہت سے اہم افراد پر جرنیلوں کی قربت کا الزام ہے اور دوسری جانب کچھ جرنیلوں کی جانب سے اس سیاسی پارٹی کے لیے نرم گوشے کے امکان کو کسی بھی صورت رد نہیں کیا جا سکتا۔ یہ تقسیم تو محض سطح پر نظر آنے والی ہے۔ گہرائی میں موجود تقسیمیں جن کی بنیاد پھر مالیاتی مفادات ہیں، معمولی دراڑوں سے اب خلیج بن چکی ہیں اور یہ خلیج وقت کے ساتھ وسیع تر ہوتی چلی جائے گی۔ عمران خان، زرداری، ایم کیو ایم کے مختلف دھڑے اور دیگر قوم پرست اور مذہبی جماعتیں اس تمام تر لوٹ مار کی لڑائی میں اپنا حصہ بٹورنے کے لیے ہر حربہ استعمال کریں گے اور ریاست کے کسی نہ کسی دھڑے یا کسی سامراجی طاقت کی سرپرستی میں اپنے مفادات کے تحفظ کی جنگ جاری رکھیں گے۔ یہ پہلے ہی اپنی صوبائی و مقامی حکومتوں کے ذریعے عوام کا گوشت نوچ رہے ہیں۔ پشاور اور کراچی میں اساتذہ اور دیگر ملازمین کے احتجاج اور ان پر ہونے والا تشدد ان کے اسی درندہ صفت کردار کی غمازی کرتا ہے۔
آنے والے عرصے میں مختلف دھڑوں کی لڑائی میں شدت آئے گی اور محنت کش عوام کی زندگی مزید ارزاں ہوتی چلی جائے گی۔ پہلے ہی مہنگائی اور بیروزگاری کا عفریت ان کی زندگی کی سانسوں کو کم کر رہا ہے۔ آنے والے طوفانی واقعات میں حکمران طبقے کی تمام لڑائیوں کا بوجھ بھی عوام پر منتقل کیا جائے گا۔ ریاست کی شکست و ریخت کا عمل ان کی زندگیوں کو مزید کربناک بنائے گا۔ ایسے میں انقلابی نوجوانوں اور محنت کش طبقے کی وسیع تر تحریکوں کے امکانات بڑے پیمانے پر موجود ہیں۔ گو کہ ان پرتوں میں مجتمع ہونے والی نفرت وغم و غصے کے اظہار کے لیے اس وقت کوئی سیاسی پلیٹ فارم موجود نہیں۔ لیکن جیسے بہتا ہوا پانی اپنا رستہ خود تلاش کرتا ہے ایسے ہی یہ تحریکیں بھی نئے سیاسی پلیٹ فارم تشکیل دینے کی طرف جائیں گی۔
صرف ایک فیصلہ کن طبقاتی جنگ کے ذریعے ہی اس ریاست اور اس پر براجمان حکمران طبقے کا مکمل خاتمہ کیا جا سکتا ہے اور محنت کش طبقے کی قیادت میں ایک مزدور ریاست قائم کی جا سکتی ہے۔ اس زوال پذیر سرمایہ دارانہ نظام کے سوشلسٹ انقلاب کے ذریعے مکمل خاتمے کے بعد ہی یہاں مستقل امن، حقیقی ترقی اور خوشحالی کی ضمانت دی جا سکتی ہے۔ اس کے علاوہ پیش کیے جانے والے تمام حل اور نسخے صرف جھوٹ اور فراڈ ہیں۔