پاکستان: بیماری اور غلاظت کا ڈھیر

|تحریر: ولید خان|

طبقاتی نظام میں دیگر سماجی سوالات کی طرح صحت کا سوال بھی امارت اور غربت کا قیدی بن کر عوام پر قہر بن کر نازل ہو چکا ہے۔

پاکستانی سماج گندگی اور غلاظت کا ایک ایسا ڈھیر بن چکا ہے جس پر سامراجی گدھ اور مقامی چیلیں اپنا اپنا حصہ تلاش کرنے کی تگ و دو میں لگی ہوئی ہیں جبکہ عوام اس ڈھیر کے نیچے کیڑے مکوڑوں کی طرح مر رہے ہیں۔ گزشتہ ستر سالوں میں زبانی جمع خرچ کے باوجود پاکستان میں نہ صرف محنت کش مردوخواتین اور بچوں کی اوسط عمر میں واضح کمی واقع ہورہی ہے بلکہ آئے دن گرتے معیارِ زندگی اور قوتِ خرید کی وجہ سے بیماریوں اور اموات میں ہوشربا اضافہ ہو رہا ہے۔ طبقاتی نظام میں دیگر سماجی سوالات کی طرح صحت کا سوال بھی امارت اور غربت کا قیدی بن کر عوام پر قہر بن کر نازل ہو چکا ہے۔ ٹوٹی گلیاں، ابلتے گٹر، آلودہ پانی، گندگی کے ڈھیر، فیکٹریوں کے کیمیکل، شوروغل مچاتی اور دھواں چھوڑتی گاڑیاں اور عمومی ماحولیاتی تباہی ملک کو غربت سے پاک ایک صحرا میں تبدیل کرتی جا رہی ہیں۔ فنڈز کی کمی کے باعث ملک کے طول و عرض میں کروڑوں عوام کو میسر مٹھی بھر سرکاری ہسپتال اور کلینک قبرستانوں میں تبدیل ہو چکے ہیں جہاں مریض صرف موت کا پروانہ ہی لینے جاتا ہے۔ حکمران اس ساری صورتحال کے حوالے سے کس قدر سنجیدہ ہیں اور ان میں غریب کا درد کس قدر کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا ہے اس کا اندازہ اس حقیقت سے لگایا جا سکتا ہے کہ سال 2019-20ء کے وفاقی بجٹ میں صحت کا کل حصہ 47 ارب روپیہ (2 ہزار 136 روپیہ فی کس سالانہ)، صاف پانی اور نکاس کے لئے 22.4 ارب روپیہ (90 روپیہ فی کس سالانہ)، نئے انفراسٹرکچر اور پرانے کی دیکھ بھال کے لئے 87 ارب روپیہ (3 ہزار 954 روپیہ فی کس سالانہ) جبکہ ماحول کی صفائی اور بحالی کا بجٹ صرف 2 ارب روپیہ (90.9 روپیہ فی کس سالانہ) رکھ کر عوام کو موت کے منہ میں دھکا دے دیا ہے۔ تمام بلندوبانگ دعوؤں کے باوجود سامراجی مسلط کردہ جبری کفایت شعاری اور کٹوتیاں عوام کا کھلم کھلا قتلِ عام ہے۔

انفرسٹرکچر

پاکستان کا انفراسٹرکچر کتنا مضبوط اور شاندار ہے اس کی قلعی حالیہ مون سون بارشوں نے کھول کر رکھ دی ہے۔ جب سے بارشیں شروع ہوئی ہیں کوئی دن ایسا نہیں جب اخبارات اور ٹی وی میں بیسیوں اموات کی خبریں نہ ہوں۔ بچے گٹروں میں گر کر مر رہے ہیں، اچانک سیلابوں میں عوام مر رہی ہے، کہیں چھتیں گر رہی ہیں اور کہیں بجلی کی ننگی تاروں پر بجلی مزدور جھول رہے ہیں۔ UN کی ایک رپورٹ کے مطابق انفراسٹرکچر کے حوالے سے 188 ممالک میں پاکستان 147 ویں نمبر پر آتا ہے۔ یہاں یہ واضح کرنا ضروری ہے کہ انفراسٹرکچر سے مراد جہاں سڑکیں اور ریلوے لائنیں ہیں وہیں پر آبپاشی اور نکاس کے تمام وسائل، سیوریج، بجلی گھر اور ترسیلی نظام، کمیونیکیشن، انرجی سیکٹر، ڈیم وغیرہ، سب اس میں شامل ہیں اور اس تمام انفراسٹرکچر کے لئے عوامی صحت اور ضروریات کو مدِنظر رکھتے ہوئے کتنا بجٹ رکھا گیا ہے اس کا پہلے ذکر ہو چکا ہے۔ دسمبر 2017ء میں اسی حوالے سے ایک پروگرام میں پاکستان انجینئرنگ کانگریس کے مطابق صرف محکمہ آبپاشی کی دیکھ بھال اور بہتری کے لئے اگلے پانچ سالوں میں 7 ارب ڈالر درکار ہوں گے۔ پاکستان میں آخری مرتبہ انفرسٹرکچر میں بھاری سرمایہ کاری 1950ء کی دہائی کے اختتام اور 1960ء کی دہائی میں سامراجی قرضے لے کر کی گئی تھی۔ اس کے بعد سے قرضے آج بھی عوامی فلاح پر خرچ کرنے کے نام پر لئے جاتے ہیں لیکن ان سے ایک آدھ سڑک یا چھوٹا بجلی گھر بنا کر ترقی کرنے کا ڈھنڈورا پیٹا جاتا ہے تاکہ ان پراجیکٹس میں دیو ہیکل کرپشن کو چھپاتے ہوئے عوامی خدمت کا سوانگ رچایا جائے۔

ملک کا ہر شہر کچی آبادیوں سے بھرا پڑا ہے جہاں گندگی کے ڈھیر اور بھنبھناتی مکھیاں روزانہ شیر خوار سے لے کر جوان اور بوڑھوں تک کی اموات کا باعث بن رہے ہیں۔

شہروں کی صفائی ستھرائی، صاف پانی کی فراہمی، سیوریج اور دیگر لوازمات کے لئے محض 13.5 ارب روپے مختص کئے گئے ہیں۔ پاکستان میں پچھلے کئی سالوں سے دیہاتوں سے شہروں کی جانب دنیا میں تیز ترین ہجرت ہو رہی ہے کیونکہ دیہی زندگی سے مایوس اور بھوکے پیٹ کے ہاتھوں مجبور بڑی تعداد میں عوام شہروں کا رخ کر رہی ہے۔ محتاط اندازوں کے مطابق بھی سال 2025ء تک پاکستان کی شہری آبادی کل آبادی کے 50 فیصد سے تجاوز کر جائے گی۔ ملک کا ہر شہر کچی آبادیوں سے بھرا پڑا ہے جہاں گندگی کے ڈھیر اور بھنبھناتی مکھیاں روزانہ شیر خوار سے لے کر جوان اور بوڑھوں تک کی اموات کا باعث بن رہے ہیں۔ مزدوروں اور غرباء کے علاقوں میں کھلے گٹر اور گندگی کے ڈھیروں کا ایک سرسری جائزہ بھی ہوش اڑا نے کے لئے کافی ہے۔ دہائیوں پہلے زیرِ زمین پانی اور گٹر کے پائپ گل سڑ کر تباہ ہو چکے ہیں جس سے ایک طرف تو صاف پانی کی ترسیل کا نظام ختم ہو چکا ہے اور دوسری طرف زیرِ زمین صاف پانی زہر بن چکا ہے۔ عوام دن رات اسی زہر کو پینے اور دیگر ضروریاتِ زندگی کو پورا کرنے کے لئے استعمال پر مجبور ہے۔حالات کس نہج تک آ پہنچے ہیں اس کا اندازہ پاکستان پولیو خاتمہ پروگرام کی فروری 2019ء رپورٹ سے لگایا جا سکتا ہے جس کے مطابق پاکستان کے تمام صوبوں کے 10 بڑے شہروں کے نظام آب و نکاس میں پولیو وائرس کثرت سے موجود ہے۔ اس کا علاوہ اور نہ جانے کتنی بیسیوں بیماریاں دن رات تیر رہی ہوں گی۔ ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن (WHO) اوریونیسف کی متعدد رپورٹوں کے مطابق عوام میں بیماریوں کی 60 فیصد شرح صرف صاف پانی مہیا کر کے کم کی جا سکتی ہے۔ چھوٹے شہروں اور قصبوں کی صورتحال کا سوچتے ہی رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں۔

اسی طرح جن فیکٹریوں میں مزدور کام کر رہے ہیں وہاں ایک طرف مزدوروں کے حفاظتی سامان کا تصور ہی نہیں جس کی وجہ سے مزدور تیزی سے جان لیوا حادثات، ٹی بی، سرطان اور دیگر بیماریوں کا شکار ہو رہے ہیں تو دوسری جانب یہی فیکٹریاں اپنا زہر دھوئیں اور فاسد کیمیکل کی صورت میں فضا، نہروں اور سمندروں میں انڈیل انڈیل کر انسان اور جانور دونوں کی اموات کا باعث ہیں۔

ایک رپورٹ کے مطابق صرف دارالحکومت اسلام آباد میں ہزاروں افراد کچی آبادیوں میں رہنے پر مجبور ہیں، جہاں کسی بھی قسم کی سہولیات ناپید ہیں۔

لیکن یہ صورتحال ہمیں شہروں کی مڈل کلاس اور طبقہ بالا کے علاقوں میں ہر گز نظر نہیں آئیں گے۔ 1980ء کی دہائی کے آغاز سے صاحبانِ استطاعت نے اپنے لئے گیٹڈ سوسائٹیاں بنانی شروع کیں جو آج ہر شہر میں بغیر کسی پلاننگ کے کھمبیوں کی طرح اگی ہوئی ہیں۔ یہاں سڑکیں صاف ستھری ہیں، گٹر ابلنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا، پارک خوشنما ہیں، ہر لمحہ صحت کی رکھوالی کے لئے مہنگے مہنگے نجی ہسپتال ہیں، قدم قدم پر پیٹ پوجا کے لئے انواع و اقسام کھانے موجود ہیں، سکول، کالج اور یونیورسٹیاں ہیں، سینما ہال وغیرہ موجود ہیں۔ یعنی ایک صحت مند اور خوشنما زندگی گزارنے کے تمام لوازمات موجود ہیں۔ لیکن ڈیفنس، بحریہ ٹاؤن، ماڈل ٹاؤن اور دیگر نہ جانے کون کون سے ٹاؤنز کی بلند فصیلیں، بھاری بھرکم گیٹ اور ہوشربا قیمتیں سماج کو چلانے والے مزدور کو دور بلکہ بہت دور رکھے ہوئے ہیں۔

بیماریاں
بیسیوں ممالک کی صدہا سائنسی تحقیقات اور رپورٹیں واضح کر چکی ہیں کہ صحت مند اور خوشحال معیارِ زندگی صرف انہی کا مقدر ہے جو مڈل کلاس یا طبقہ اعلیٰ کے گھر پیدا ہوتے ہیں۔ ان کے پاس بچپن میں بہترین خوراک، جوانی میں اعلیٰ تعلیم اور روزگار کے مواقع اور وہ وسائل موجود ہوتے ہیں جن کا غریب عوام کے لئے تصور بھی محال ہے۔ غریب عوام کی حالتِ زار سے متعلق کچھ اعداوشمار پیش کئے جا رہے ہیں۔

ایک رپورٹ کے مطابق 64فیصد پاکستانی پینے کے صاف پانی سے محروم ہیں جو کہ ہیپاتئٹس اور دیگر موذی بیماریوں کے پھیلنے کی ایک بڑی وجہ ہے، جو کہ ایک طبقاتی مسئلہ ہے۔

چند ماہ پہلے لاڑکانہ میں کئی سو افراد جن میں سے زیادہ تعداد عورتوں اور دو سال سے کم عم بچوں کی ہے، میں مہلک بیماری ایڈز کی موجودگی کا انکشاف ہوا۔ اس کی وجہ ایک ایسا ڈاکٹر کھوجا گیا جو مریضوں کو بغیر کسی حفاظتی تدبیر کے ایک ہی ٹیکے سے انجکشن لگائی جا رہا تھا۔ ایڈز انسانی جسم کی قوتِ مدافعت ختم کر دیتی ہے جس کے بعد نزلہ زکام یا کھانسی جیسی عام بیماری بھی مریض کے لئے مہلک بن جاتی ہے۔ عام طور پر خیال کیا جاتا ہے کہ ایڈز ”گندا“ خون لگنے، ایڈز سے متاثرہ شخص کے ساتھ جنسی تعلق یا ہم جنس پرستی کی وجہ سے پھیلتا ہے۔ لیکن UNAIDS کی حال ہی میں شائع ہونے والی ہوشربا رپورٹ کے مطابق اس کی سب سے بڑی وجوہات میں استعمال شدہ سرنج کا دوبارہ استعمال ہے۔ رپورٹ کے مطابق اس وقت پاکستان میں ایڈز مریضوں کی تعداد 1 لاکھ 60 ہزار سے تجاوز کر چکی ہے جس میں 1لاکھ 10 ہزار مرد، 48 ہزار خواتین اور 5 ہزار 5سو بچے پانچ سال کی عمر سے کم شامل ہیں۔ 6 ہزار 4 سو اموات اس موذی مرض کی وجہ سے واقع ہو چکی ہیں۔ یہ اعداد وشمار بھی حقیقی صورتحال کی عکاسی نہیں کرتے اور صرف رپورٹ ہونے والے کیسوں پر مشتمل ہیں جبکہ سماجی دباؤکی وجہ سے بہت سے کیسوں کو رپورٹ ہی نہیں کیا جاتا۔ صورتحال کتنی گھمبیر ہے اس کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ 2008ء میں 4 ہزار 3 سو افراد اس مرض میں مبتلا تھے اور اس وقت پاکستان کو سب سے زیادہ ایڈز لاحق مرض کے11 ممالک کی فہرست میں شامل کر دیا گیا ہے۔ اس مرض کی شکار کی ایک بھاری اکثریت غریب عوام ہیں جو کہ مہنگا علاج خریدنے کی سکت نہ رکھنے کے باعث عطائیوں کے ہتھے چڑھ جاتے ہیں۔ اس کی ایک اور بڑی وجہ سماجی پسماندگی کے باعث جنسی تعلقات میں حفاظتی تدبیر کے حوالے سے آگاہی کا فقدان بھی شامل ہیں۔ امراء میں یہ بیماری نہ ہونے کے برابر ہے کیونکہ ان کو آگاہی، وسائل، بہترین سہولیاتِ صحت اور مرض لاحق ہونے کی صورت میں گراں قدر دوائیاں میسر ہیں۔

اگر ٹی بی کی بات کی جائے تو WHO کے مطابق پاکستان اس بیماری سے دنیا کا پانچواں سب سے زیادہ متاثر ملک ہے جس میں ہر سال 5 لاکھ 10 ہزار نئے کیس سامنے آتے ہیں اور 70 ہزار اموات سالانہ ہو رہی ہیں۔ یہ بیماری پھیپھڑوں کو ختم کر کے رکھ دیتی ہے۔ اس بیماری کی سب سے زیادہ شرح پاکستان کے غریب ترین علاقوں میں ہے جن میں سب سے زیادہ جنوبی پنجاب میں ڈی جی خان کا علاقہ نمایاں ہے۔ اس کی ایک بڑی وجہ بیماری کا پانی میں پھیل جانا ہے جس سے غریب عوام تو محفوظ نہیں لیکن امراء غیر ملکی کمپنیوں کی مہنگی پانی کی بوتلیں استعمال کر کے اس سے محفوظ رہتے ہیں۔

WHO کے مطابق پاکستان میں موذی مرض ہیپاٹائٹس، جس سے جگر شدید ترین متاثر ہو کر کام کرنا چھوڑ دیتا ہے، 1.2 کروڑ سے زیادہ افراد کو لاحق ہے جبکہ ہر سال 1 لاکھ 50 ہزار نئے کیس سامنے آ رہے ہیں۔ بیماری کے پھیلاؤ میں سرنج، جراحی، کم تر حفاظتی تدابیر، گندے خون کا لگنا، شیو کے لئے بلیڈ کا متعدد افراد پر استعمال وغیرہ شامل ہیں۔ اس بیماری کے علاج میں لاکھوں روپے کے اخراجات آتے ہیں اور اگر بالفرض مرض ٹھیک نہ ہو سکے تو جگر کے فیل ہونے پر بات پیوند کاری تک پہنچ جاتی ہے جس کا خرچہ کم از کم بھی 60-70 لاکھ روپیہ ہے۔ ظاہر ہے کہ امراء میں جہاں اس مرض کی شرح انتہائی کم ہے وہیں پر اس مرض سے مکمل شفاء یابی کے وسائل بھی انہیں کہ پاس ہیں جبکہ غریب ایک ایک دن موت کی اذیت میں گزار کر صرف جان ہی دے سکتا ہے۔

نومبر 2017ء میں شائع ہونے والے ذیابیطیس شرح سروے پاکستان کے مطابق پاکستان کی کل آبادی میں سے 3 کروڑ 53 لاکھ افراد اس مرض کا شکار ہیں یعنی ہر چھ میں سے ایک فرد۔ اس بیماری میں لبلبہ کام کرنا چھوڑ دیتا ہے اور خون میں شوگر کی مقدار بے قابو ہو جاتی ہے۔ یہ بیماری جہاں غرباء میں ان کے مخصوص حالات کی وجہ سے پھیل رہی ہے وہیں پر آج کل اس کا شکار مڈل کلاس اور امراء بھی اپنی مخصوص سہل پسندی اور عیاشی کی وجہ سے ہو رہے ہیں۔ اس بیماری کو سنبھالنے کے لئے ساری عمر انسولین استعمال کرنی پڑتی ہے جس کی لاگت ایک زندگی میں لاکھوں روپیہ بنتی ہے جو ظاہر ہے غریب عوام کے بس کی بات نہیں۔

2018ء کی ایک میڈیکل تحقیق کے مطابق پاکستان میں بلند فشار خون کی شرح 26.34 فیصد ہے جن میں سب سے زیادہ شرح 40 سال سے اوپر کے افراد اور شہری علاقوں میں ہے۔ اسی طرح تناؤ اور نفسیاتی بیماریوں میں گھرے افراد کی تعداد 5 کروڑ سے زیادہ ہے۔ یعنی جدید زندگی کے تناؤ اور ہر روز مسائل بڑھنے کی وجہ سے ان دو بیماریوں کی شرح بڑھتی چلی جا رہی ہے۔ امراء تو پھر بھی ماہرین ِنفسیات کے پاس علاج معالجہ کرا کر اور دوائیاں استعمال کر کے اپنا ذہنی توازن برقرار رکھ لیتے ہیں لیکن غریب عوام کا کوئی پرسانِ حال نہیں۔

UNICEF کی 2018ء رپورٹ کے مطابق پاکستان میں نومولود بچوں کی پیدائش پر اموات کی شرح74.5 فی 1 ہزار پیدائش ہے جس کی وجہ سے یہ ملک سب سے زیادہ پیدائش پر اموات والے ممالک میں شمار ہوتا ہے۔ اسی رپورٹ کے مطابق ان میں سے 80 فیصد سے زیادہ اموات صرف اس وجہ سے ہوتی ہیں کیونکہ ”پیشہ ور دائی یا ڈاکٹر، صاف پانی، جراثیم مارنے کے موثر اقدامات، پیدائش کے پہلے گھنٹے میں ماں کے دودھ کی پہلی خوراک، جسم سے جسم میں بیماری کی منتقلی اور اچھی خوراک کا شدید فقدان ہے“۔ بیچاری غریب ماں بچے کو کیا دودھ پلائے جبکہ 15-44 سال کی عمر کی خواتین میں پیلیا یا خون کی کمی کی شرح شہری علاقوں میں 26 فیصد اور دیہی علاقوں میں 47 فیصد ہے۔ اسی طرح کم تر خوراک یا خوراک نہ ہونے کی وجہ سے 44 فیصد سے زائد بچے کم تر ذہنی نشونما کا شکار ہیں، یعنی وہ اپنے ہم عمر مڈل کلاس اور طبقہ بالا کے بچوں سے پیدائش سے ہی زندگی کی دوڑ ہار چکے ہوتے ہیں۔

ہم سمجھتے ہیں کہ مندرجہ بالا اعدادوشمار حقیقت کی مکمل منظر کشی نہیں کرتے۔ حالات اس سے بھی زیادہ خوفناک اور گھمبیر ہیں۔ یہ تمام اعداوشمار عوام کے مخصوص حصوں اور پرتوں سے حاصل کئے گئے ہیں کیونکہ تاحال کسی بھی سامراجی یا ریاستی ادارے میں اتنی سکت ہی نہیں کہ وہ پوری آبادی کے تمام تر مسائل اور ضروریات کا احاطہ کر سکیں۔ اور اگر بالفرض کر بھی سکیں تو ان سے حکمران طبقے کو نہ پہلے کبھی سروکار تھا اور نہ ہی آج کوئی غرض۔

بھوک، ننگ اور بیماری سے آزادی۔۔سوشلسٹ انقلاب!
اگر ہم تمام بیماریوں اور مسائل پر اعدادوشمار اکٹھے کرنے بیٹھ جائیں تو ان سب کو شائع کرنے کے لئے ایک ضخیم کتاب لکھنی پڑ جائے۔ چاہے وہ غربت کی لکیر سے نیچے رہنے والی 80 فیصد آبادی، صاف پانی سے محروم 70فیصد آبادی یا رفع حاجت کی سہولت سے محروم 80 فیصد زیادہ زیادہ آبادی کے اعدادوشمار ہوں۔ اگر اوسط عمر کو ہی دیکھا جائے تو پوری دنیا میں پاکستان کا 32 سال کے ساتھ 127واں نمبر ہے! (مرد: 65.5سال، عورت: 67.5 سال، مکمل اوسط: 66.4 سال)۔ دوسری طرف امراء کے لئے غذائیت سے بھرپور کھانے، ورزش کے لئے گراں قدر سہولیات اور ہلکے سے زکام کے علاج کے لئے ایک سے بڑھ کر ایک ڈاکٹر میسر ہے جس کی وجہ سے انہیں مرتے مرتے بھی سو سال نکل ہی جاتے ہیں۔

جب بھی ان تمام مسائل کا ذکر کیا جاتا ہے تو مڈل کلاس اور طبقہ بالا یا تو اس کو قدرت کا قانون کہہ کر یا پھر تھوڑی بہت خیرات کر کے اپنا دل بہلا کر بری الذمہ ہو جاتے ہیں۔ لیکن ہم سمجھتے ہیں کہ اس سماج کے تمام مسائل کی طرح صحت کا مسئلہ بھی قدرت کا فیصلہ نہیں اور اس سماج کی بنیادوں کو اپنے خون پسینے سے سینچنے والا کسی خیرات کا محتاج نہیں۔ قدرت نے اپنے تمام وسائل دنیا کے تمام انسانوں کے لئے آزاد چھوڑے ہیں، ان تمام وسائل پر بنی نوع انسان کا حق ہے اور یہ حق خیرات میں نہیں ملے گا بلکہ اس کے لئے لڑنا ہو گا، جدوجہد کرنی ہو گی۔ اس نظام کا ظلم و جبر اور استحصال کس قدر سفاک ہے جو اکثریت اس نظام کو، اس سماج کو چلاتی ہے تاکہ مٹھی بھر عیاشی کر سکیں، وہی بیمار ہے اور وہی دن رات موت کو گلے لگا رہی ہے۔ یہ ایک طبقاتی نظام کا قانون ہے، یہ سرمایہ داری کا قانون ہے اور ہم سمجھتے ہیں صرف مزدوروں اور کسانوں کی ایک جرأت مند انقلابی پارٹی کی قیادت میں ایک سوشلسٹ انقلاب کے ذریعے ہی اس مسلط کردہ انسانی قانون کو تبدیل کیا جا سکتا ہے تاکہ ہر انسان ایک بھرپور اور صحت مند زندگی گزارتے ہوئے نسلِ انسان کی حقیقی معراج کو پہنچ جائے۔

Comments are closed.