پاکستان: بحران اور طبقاتی شعور

|تحریر: پارس جان|

10 فروری کو اسلام آباد میں ملک بھر سے آئے ہزاروں محنت کشوں نے اگیگا (آل گورنمنٹ ایمپلائز گرینڈ الائنس) کے پلیٹ فارم سے بھرپور طبقاتی یکجہتی کا مظاہرہ کیا اور ایک فقید المثال احتجاجی دھرنے کے بعد محنت کشوں کو بالآخر فتح نصیب ہوئی۔ حکومت نے پہلے تو حسب توقع ریاستی طاقت کا استعمال کرتے ہوئے مظاہرین کو منتشر کرنے کی کوششیں کیں اور لاٹھی چارج اور آنسو گیس کا بے دریغ استعمال کیا لیکن محنت کشوں نے جرأت اور استقامت کے دم پر حکومت کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کر دیا۔ یہ گزشتہ کئی دہائیوں میں محنت کشوں کو ملنے والی پہلی غیر معمولی فتح ہے اور اس نے بلاشبہ ملک بھر کے محنت کشوں کے شعور پر انتہائی انقلابی اثرات مرتب کیے ہیں۔

قنوطیت پسند دانشوروں کی رائے میں پاکستان کے محنت کشوں میں جہالت اور پسماندگی کے باعث انقلاب کرنے کی صلاحیت موجود ہی نہیں ہے اور وہ کبھی بھی کوئی قائدانہ اور ترقی پسندانہ کردار ادا نہیں کر سکتے۔ ان نام نہاد دانشوروں کے تمام تر تجزیے طبقاتی تعصب سے آلودہ ہیں۔ ان کے برعکس پاکستان کے محنت کشوں کی بھی اپنے دنیا بھر کے محنت کش بہن بھائیوں کی طرح عظیم انقلابی روایات ہیں۔ ایوب خان کی دس سالہ آمریت کے خاتمے سے لے کر ضیاء الحق کے وحشیانہ جبر کے خلاف مزاحمت تک ہر دفعہ یہاں کے محنت کشوں نے ہی تحریکوں کی قوتِ محرکہ کا کردار ادا کیا ہے۔ سوویت یونین کے انہدام کے بعد سے رفتہ رفتہ وہ تمام انقلابی حاصلات اور روایات ماند پڑتی چلی گئیں اور لڑاکا قیادتوں کے خلا کو موقع پرست اور ضمیر فروش لیڈروں نے پُر کرنا شروع کر دیا۔

ٹریڈ یونین سے نظریات کے باقاعدہ انخلا کے بعد تمام اداروں میں مزدور تحریک این جی اوز کے ہتھے چڑھ گئی جنہوں نے محنت کشوں کو اپنے حقوق کے لیے جدو جہد کرنے والے با اعتماد جیتے جاگتے تاریخی کرداروں سے روزمرہ کی ضرورتوں اور چھوٹی چھوٹی مراعات کی خاطر ہاتھ پھیلانے والے بھکاریوں میں تبدیل کر دیا۔ ان کو یہی سکھایا گیا کہ مالکان، ریاست اور سامراجی ادارے بے پناہ طاقتور ہیں۔ ان سے لڑائی لا حاصل ہے۔ لہٰذا عدالتوں اور ریاستی اداروں کے سامنے گڑگڑا کر ہی کچھ حاصل کیا جا سکتا ہے۔ اسی سوچ کا ہی یہ حاصل ہے کہ آج کام کی جگہوں پر غیر انسانی سلوک روزمرہ کا معمول بن چکا ہے۔ تنخواہیں لگ بھگ منجمد ہیں یا افراطِ زر سے برعکس متناسب ہیں اور علاج، تعلیم، پینے کے صاف پانی سمیت تمام بنیادی انسانی ضروریات محنت کشوں کی دسترس سے باہر نکل چکی ہیں۔ اس حوالے سے 10 فروری کا دن پاکستان کی تمام ٹریڈ یونینوں اور ان کی گماشتہ مزدور قیادتوں کے لیے ایک بھیانک خواب سے کم نہیں تھا۔ اس دن محنت کشوں نے اپنی زندگی کا سب سے اہم سبق سیکھا کہ اس عوام دشمن اور غیر انسانی ریاست اور نظام سے بھی اگر کچھ حاصل کیا جا سکتا ہے تو اس کا واحد راستہ مزدور یکجہتی اور جدوجہد ہی ہے۔ اسی جدوجہد کے دم پر ابھی محنت کشوں نے مزید اہم اسباق سیکھنے ہیں اور اس وحشیانہ سرمایہ دارانہ نظام کے خاتمے کی فیصلہ کن جدوجہد کے لیے خود کو تیار کرنا ہے۔

محنت کشوں کی یہ فتح جہاں ان کے شعور پر پڑنے والے اثرات کے حوالے سے نہایت اہم تھی وہیں محنت کشوں کے روزمرہ کے مسائل کے حل کے حوالے سے یہ انتہائی غیر موثر ہی ہے۔ چونکہ اس سرمایہ دارانہ نظام کا بحران بالعموم اور اس نام نہاد مملکت خداداد کا بحران بالخصوص اس نہج پر پہنچ چکا ہے کہ اب حکمرانوں کے پاس کسی قسم کی اصلاحات کی گنجائش ہی نہیں رہی اور اگر وہ محنت کشوں کی تحریکوں کے دباؤ میں کسی ریلیف یا اصلاحی پیکج کا اعلان کر بھی دیں یا تحریری معاہدے ہی کیوں نہ کر لیں، اول تو وہ ان پر عمل ہی نہیں کریں گے اور اگر عمل کیا بھی تو اس کے متوازی ایسے اقدامات کریں گے جس کے نتیجے میں محنت کشوں کو بظاہر دیا جانے والا ریلیف نہ صرف بے اثر ہو کر رہ جائے گا بلکہ معیارِ زندگی میں گراوٹ کا عمومی سفر بھی تیز سے تیز تر ہوتا چلا جائے گا۔ اس کی سادہ سی مثال تیل، بجلی اور گیس کی قیمتوں میں ہونے والے ماہوار اور غیر اعلانیہ اور اچانک اضافے ہیں۔ بعض اوقات تو ایک ماہ میں ایک سے زیادہ دفعہ بھی قیمتیں بڑھا دی جاتی ہیں۔

اس کے ساتھ ساتھ ریاستی اداروں کی دیمک زدگی نے انہیں اتنا کھوکھلا کر دیا ہے کہ وہ ذخیرہ اندوزوں اور بلیک مارکیٹنگ کرنے والوں کے آگے بھیگی بلی بنے رہتے ہیں۔ وہ جب چاہیں اشیا کی مصنوعی قلت پیدا کر کے قیمتوں میں من مرضی کے اضافے کروا لیتے ہیں۔ جان بچانے والی ادویات کی قیمتوں میں آئے روز ہونے والے اضافوں کے معاملے کو ہی دیکھ لیجیے۔ جب حکومتی ذمہ داران کی طرف سے برملا اعتراف کیا گیا تھا کہ یہ اضافے اس لیے کیے جا رہے ہیں تاکہ مارکیٹ میں ان ادویات کی دستیابی کو یقینی بنایا جا سکے۔ حقیقت یہ ہے کہ موجودہ تبدیلی سرکار خود انہیں ذخیرہ اندوزوں اور عوام کا گوشت نوچنے والے درندہ صفت بھیڑیوں پر مشتمل ہے۔ چینی اور آٹے کے مصنوعی بحرانوں سے حکومتی حواریوں نے سینکڑوں ارب روپے کمائے ہیں اور پھر یہی کالا دھن ملک میں جاری جمہوری سرکس میں بندروں کی وفاداریوں کی خرید و فروخت میں پانی کی طرح بہایا جاتا ہے۔ یہی تو جمہوریت کا حقیقی حسن ہے۔ جمہوریت کی اس دوشیزہ کے بناؤ سنگھار اور زیبائش و آرائش پر استعمال ہونے والا سازو سامان محنت کشوں کے خون سے دھل کر ہی اتنا چمکدار بن سکتا ہے کہ دیکھنے والوں کی آنکھیں اور عقل دونوں چندھیا جائیں۔

ضمنی و سینیٹ کے انتخابات میں ایک دفعہ پھر جمہوریت کی اس دوشیزہ کا حقیقی بھیانک چہرہ ننگا ہوا ہے۔ الیکشن کمیشن، سپریم کورٹ، نیب، پارلیمنٹ اور میڈیا کے اس تمام تر کھلواڑ سے عوام مکمل طور پر لا تعلق ہیں اور وہ دیکھ اور سمجھ رہے ہیں کہ یہ اپوزیشن اور حکومت بھی ایک ہی تھیلی کے چٹے بٹے ہیں۔ عسکری ادارے بھی اس کھلواڑ کے سنجیدہ کردار ہیں۔ اب سینیٹ کے انتخابات میں غیر جانبداری کا ناٹک کر کے اسٹیبلشمنٹ اپنی رہی سہی ساکھ بچانے کی ناکام کوششیں کر رہی ہے۔ اصل میں سامراجی اداروں کی گماشتگی کی بہتی گنگا میں ان تمام اداروں نے برابر ہی ہاتھ دھوئے ہیں اور اب جب اس گنگا کا بہاؤ تعطل پذیر ہے اور عوام کی ہڈیوں کے گودے میں بھی زیادہ رس نہیں بچا تو یہ تمام ادارے عوام کو دکھانے کے لیے ایک دوسرے پر انگلیاں اٹھا رہے ہیں کہ عوام اور ملک کی موجودہ حالت کے ذمہ دار یہ چند لوگ ہیں۔ عوام اب ان سب کی اصلیت سے واقف ہو چکے ہیں اور یہ درندے اس وقت بھی اپنی لوٹ مار سے پیدا کردہ موجودہ بحران کا تمام تر بوجھ محنت کشوں کے کندھے پر منتقل کرنے میں لگے ہوئے ہیں۔ آئی ایم ایف سے ملنے والے قرضے کی 450 ملین ڈالر کی اگلی قسط کی ادائیگی کے لیے عائد کردہ شرائط پہلے سے بھی کہیں زیادہ سخت ہیں اور یکمشت عوام پر 7 سو ارب روپے کے نئے ٹیکس لگائے جا رہے ہیں۔ اس سے افراطِ زر ناقابل برداشت سطح پر پہنچ جائے گا۔ دوسری طرف ریلوے، واپڈا اور پی آئی اے جیسے بہت سے اداروں کی تیز ترین نجکاری کی جا رہی ہے، جس سے بے روزگاری کا سمندر بے قابو ہو کر سارے سماج کو بہا کر لے جائے گا۔ پہلے ہی گزشتہ برس 3 کروڑ کے لگ بھگ لوگ بے روزگاری کی دلدل میں غرق ہو چکے ہیں۔ سماجی تانا بانا منتشر ہونے کے دہانے پر پہنچ رہا ہے۔ ذہنی بیماریوں میں بے پناہ اضافہ ہوا ہے۔ شاید ہی کوئی دن ایسا ہوتا ہو جب کوئی خود کشی نہ ہوتی ہو۔ ایسے میں ٹیکسوں میں ہونے والا مذکورہ بالا اضافہ عوامی غیض و غضب کے لاوے کو رگ و پے سے نکل کر سڑکوں پر بہہ نکلنے پر مجبور کر سکتا ہے۔

عمومی طور پر عوام کے غیض و غضب کو کنٹرول کرنے کے لیے استعمال ہونے والا سب سے مؤثر اوزار مذہب کا تریاق ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ گزشتہ ماہ ایک دفعہ پھر چند معصوموں کی بلی چڑھا کر ملک میں فرقہ واریت کو ہوا دینے کی کوشش کی گئی لیکن فرقہ واریت سے عوام اس حد تک بدظن ہو چکے ہیں کہ اس طرح کے حربے اب عوامی شعور کو مسخ کرنے کی بجائے اسے مہمیز دینے کا موجب بن رہے ہیں۔ طارق جمیل جیسے ملاں جنہوں نے ایک طویل عرصے تک عوامی شعور کو مفلوج کیے رکھنے میں کلیدی کردار ادا کیا اور کئی بار عوامی احتجاج کو شر انگیزی اور گناہ قرار دیا اب خود ایک مضحکہ بن چکے ہیں۔ ریاست کے انتہائی دائیں بازو کی تمام تر کرم فرمائی کے باوجود اب ان ملاؤں کو عوام پر پہلے کی طرح مسلط کرنا ممکن نہیں رہا۔ سوشل میڈیا نے ان ملاؤں کی سماجی ساکھ کی گراوٹ کے عمل کو ناقابلِ مراجعت سطح تک پہنچا دیا ہے۔ یہ پاکستانی ریاست کے لیے اس لیے بھی لمحہئ فکریہ ہے کہ ان کے سامراجی آقاؤں کی طرف سے بھارت اور اسرائیل کے ساتھ دوستانہ تعلقات استوار کرنے کے لیے دباؤ بڑھتا جا رہا ہے اور ایسے میں انہیں ملک میں مذہبی جماعتوں کی فعالیت اور شورو غل کی پہلے سے کہیں زیادہ ضرورت ہے تاکہ سامراجی آقاؤں کو یہ باور کروایا جا سکے کہ پاکستانی عوام مذہب کے معاملے میں بہت حساس ہیں اور حکومت اور ریاستی ادارے اوپر سے نام نہاد سیکولر ایجنڈا مسلط نہیں کر سکتے۔

کچھ خوش فہم لبرل دانشوروں کے خیال میں اب پاکستانی ریاست نے اپنا قبلہ درست کرنے کا فیصلہ کرلیا ہے اور ملاؤں کی ریاستی پشت پناہی کی پالیسی ترک کر دی گئی ہے۔ ایسا ہر گز ممکن نہیں ہے کیونکہ پاکستانی ریاست کے پاس تھیوکریسی کا کوئی نظریاتی متبادل موجود نہیں ہے۔ پاکستانی قوم ایک خالی خولی تجرید ہے جسے مذہبی توہمات کے بغیر جیتے جاگتے سماج پر مسلط کیے رکھنا مشکل ہی نہیں ناممکن ہے۔ نہ صرف یہ کہ عسکری ادارے اپنی بے پناہ لوٹ مار پر مذہبی رنگ روغن کیے بغیر اسے جاری نہیں رکھ سکتے بلکہ نام نہادلبرل سویلین قیادت بھی مذہب کی بیساکھی کے بغیر ایک دن بھی اس غیرفطری قومی وحدت کے وجود کو برقرار نہیں رکھ سکیں گے۔ یہی وجہ ہے کہ یہاں ان لبرل یا جمہوری قوتوں کو عسکری اجارہ داری کے مقابلے کی اداکاری کرنے کے لیے ان عسکری اداروں سے بھی زیادہ مذہبی چوغہ پہننا پڑتا ہے۔ اسی وجہ سے پی ڈی ایم کے نام سے ریلیز کی جانے والی فلم کا مرکزی کردار مولانا فضل الرحمان کو سونپنا ضروری تھا۔

یہ درست ہے کہ سامراجی آقاؤں کے دباؤ کے باعث عسکری اور سول قیادتوں کے ایک دوسرے کے ساتھ اور داخلی سطح پر تناؤ بڑھ رہا ہے اور ریاست اندر سے ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے مگر اس ریاست کے موجودہ شکل میں رہتے ہوئے یہاں سیکولر اصلاحات دیوانے کا خواب ہی کہی جا سکتی ہیں۔ عوام بھی جہاں ملاؤں کی ریاستی سرپرستی اور ان کی منافقت سے بے زار ہیں وہیں ان کی محرومیوں کا جز وقتی کتھارسس پھر مذہب ہی کے ذریعے ممکن ہوتا ہے۔ ایسے میں عوام لبرل دانشوروں کی طرف سے سوشل میڈیا پر کیے جانے والے مذہب مخالف ری ایکشن سے پھر مذہبی قوتوں کا خام مال بن جاتے ہیں۔ اسی لیے بظاہر ناقابل مصالحت اور متضاد نظر آنے والے ملاں اور لبرل اسٹیٹس کو کو برقرار رکھنے میں ایک دوسرے کے معاون کا کردار ادا کرتے ہیں۔ صرف طبقاتی وحدت کا شعور ہی عوام کو وحشی ملاؤں کے چنگل سے عملی اور دیرپا نجات دلا سکتا ہے۔

طلبہ تحریک کی حالیہ لہر کی ایک خاص بات یہ بھی تھی کہ اس بار پرائیویٹ سیکٹر کے طلبہ نے ان احتجاجی مظاہروں میں کلیدی کردار ادا کیا۔ اس سے درمیانے طبقے کے اوپر مسلسل بڑھتے ہوئے اور ناقابل برداشت ہوتے ہوئے معاشی دباؤ کا اندازہ ہوتا ہے۔ یہی وہ درمیانہ طبقہ ہے جو پاکستانیت کے سراب کے پیچھے بھاگ بھاگ کر اب ہلکان ہو چکا ہے۔ ان کی کچھ پرتیں اب پاکستانی قومیت کے سراب سے نکل کر محنت کش طبقے کی تحریک کی طرف دیکھنے پر مجبور ہوں گی۔

اس صورتحال میں نوجوان نسل کی سیاست کے میدان میں پیش رفت فیصلہ کن اہمیت اختیار کر جاتی ہے۔ محنت کش طبقے کے پاس کوئی ریڈی میڈ انقلابی قیادت نہ تو موجود ہے اور نہ ہی ایسا ممکن ہے۔ ایسے میں محنت کش طبقے کو ریاستی حملوں کا بھرپور اور موثر جواب دینے کے لیے جو توانائی اور حوصلہ افزائی درکار ہو گی وہ انہیں نوجوانوں اور بالخصوص طلبہ سے ہی میسر آ سکتی ہے۔ حال ہی میں ہم نے آن لائن امتحانات کے انعقاد کے مطالبے کے گرد طلبہ کی ایک قابل ذکر مزاحمتی تحریک دیکھی ہے۔ اس تحریک کو جزوی کامیابی تو ملی مگر یہ ابھی ابتدائی مراحل میں ہے۔ تعلیمی اداروں کی فیسوں میں آئندہ ماہ میں مزید اضافے متوقع ہیں اور بہت سے سرکاری تعلیمی اداروں کی نجکاری بھی کی جائے گی۔ یہ حکومتی اقدامات پرائیویٹ سیکٹر کے طلبہ اور سرکاری اداروں کے طلبہ کو ایک دوسرے کے قریب لا رہے ہیں۔

طلبہ تحریک کی حالیہ لہر کی ایک خاص بات یہ بھی تھی کہ اس بار پرائیویٹ سیکٹر کے طلبہ نے ان احتجاجی مظاہروں میں کلیدی کردار ادا کیا۔ اس سے درمیانے طبقے کے اوپر مسلسل بڑھتے ہوئے اور ناقابل برداشت ہوتے ہوئے معاشی دباؤ کا اندازہ ہوتا ہے۔ یہی وہ درمیانہ طبقہ ہے جو پاکستانیت کے سراب کے پیچھے بھاگ بھاگ کر اب ہلکان ہو چکا ہے۔ ان کی کچھ پرتیں اب پاکستانی قومیت کے سراب سے نکل کر محنت کش طبقے کی تحریک کی طرف دیکھنے پر مجبور ہوں گی۔ طلبہ تحریک کا یہ سفر اب تھمنے والا نہیں ہے۔ طلبہ اور مزدور تحریکیں نامیاتی اتحادی ہیں مگر اس اتحاد کو عملی جامہ پہنانے کے لیے محنت کش طبقے کے پاس ایک ایسا سیاسی پروگرام ہونا چاہیے جو نہ صرف طلبہ بلکہ کسانوں سمیت درمیانے طبقے کی زیادہ تر پرتوں کو پر کشش محسوس ہوبصورتِ دیگر حکمران طبقہ اس درمیانے طبقے کو ریاستی وسائل اور دیگر منافقانہ حربوں کے بلبوتے پر دوبارہ محنت کش طبقے کے خلاف صف آرا کر سکتا ہے۔

بھارتی کسانوں کی عظیم الشان تحریک سے متاثر ہو کر اب پاکستان کے کسان بھی، جو انتہائی شدید معاشی اور سیاسی جبر کے ماحول میں رہ رہے ہیں، متحرک ہو رہے ہیں۔ کسان تنظیموں کی طرف سے 31 مارچ کو اسلام آباد کی طرف ٹریکٹر مارچ کی کال دی گئی ہے۔ ان کسانوں کے مطالبات کی حمایت کرنا مزدور تحریک کے بنیادی فرائض میں شامل ہے۔ محنت کشوں کو ایک ایسی قیادت کی ضرورت ہے جو انہیں ایک ایسے سیاسی پروگرام سے مسلح کر سکے جو کسانوں اور طلبہ کو ان کے قریب لے آئے۔ فی الحال ملک میں زیادہ تر مزدور تحریکیں فوری معاشی مطالبات کے گرد چل رہی ہیں۔ حالات و واقعات انہیں سیاسی مطالبات کی طرف دھکیل رہے ہیں۔ پی ڈی ایم نے بھی مارچ میں لانگ مارچ کا اعلان کیا ہوا ہے مگر ان کے مطالبات میں طلبہ اور کسانوں کے مطالبات شامل نہیں ہیں۔ ایسے میں مزدور تحریک کے ساتھ جڑت اور یکجہتی کے علاوہ کسانوں کے پاس بھی کوئی اور متبادل نہیں ہے۔ آئندہ ماہ و سال طبقاتی جدوجہد کی بڑھوتری اور شدت کے ماہ و سال ہوں گے۔

Comments are closed.