|تحریر: آفتاب اشرف|
ایک ہفتہ قبل وزیر اعظم عمران خان نے ایک پریس کانفرنس میں کرونا وبا اور اقتصادی بحران سے نمٹنے کے لیے ایک معاشی ریلیف پیکج کا اعلان کیاجس کا حجم تقریباً 1150ارب روپے بتایا گیا۔ مارکس وادیوں کی توقعات کے عین مطابق سرمایہ دار طبقے اور سامراجی عالمی مالیاتی اداروں کی نمائندہ، خادم اور محافظ اس حکومت وریاست کے پیش کردہ معاشی پیکج میں صنعتکاروں، بینکاروں، اسٹاک برو کرزاور مالکان کو بھرپور ریلیف دیا گیا ہے جبکہ محنت کش عوام کے لیے اس میں محض ڈھکوسلے ہیں۔ ستم ظریفی تو یہ ہے کہ سرمایہ داروں کی تجوریاں بھرنے والے اس پیکج کومزدوروں کے غم میں مگر مچھ کے آنسو بہاتے ہوئے پیش کیا گیا ہے اور یہ تاثر پیدا کرنے کی کوشش کی گئی ہے جیسے حکومت اور ریاستی اشرفیہ کو رات دن صرف محنت کشوں کا درد کھائے جا رہا ہے۔ لیکن یہ سب شعبدہ بازی پرلے درجے کی منا فقت کے سوا کچھ نہیں اور یہ حقیقت اب کھل کر آشکار ہو چکی ہے کہ سرمایہ دارانہ سماج میں حکومت صرف سرمایہ دار طبقے کی انتظامی کمیٹی اور ریاست اس کے طبقاتی جبر کا آلہ کار ہوتی ہے۔
اگر ہم اس پیکج کی جزئیات کا ایک سرسری سا جائزہ بھی لیں تو اس کی سرمایہ نواز حقیقت واضح ہو جاتی ہے۔ مثلاً 200 ارب روپے اس مقصد کے لئے مختص کئے گئے ہیں کہ لاک ڈاؤن کی وجہ سے بند ہونے والی فیکٹریوں کے محنت کشوں کو تنخواہوں کی ادائیگی کسی نہ کسی حد تک جاری رہے۔ یہاں پر پہلا سوال جسے حکومت بڑی صفائی سے گول کر گئی ہے، وہ یہ ہے کہ ان محنت کشوں کا استحصال کر کے کھربوں پتی بننے والے مالکان کچھ عرصے کے لئے ہونے والے لاک ڈاؤن کے دوران ان کو تنخواہیں دینے سے انکاری کیوں ہیں؟ درحقیقت، حکومت محنت کشوں کو ”مفت میں“ تنخواہیں دینے سے سرمایہ داروں کو ہونے والے ”نقصان“ سے بچانا چاہتی ہے لیکن یہ بھی ابھی صرف آدھی کہانی ہے۔ پورا قصہ یہ ہے کہ یہ 200 ارب روپیہ بھی براہ راست محنت کشوں کو نہیں دیا جائے گا بلکہ اسے مزدوروں کی اجرتوں کی ادائیگی کی مد میں متعلقہ فیکٹری مالکان کے سپرد کیا جائے گا۔ اب پاکستان جیسے ملک میں جہاں نام نہاد نارمل حالات میں بھی محنت کشوں کو فیکٹری مالکان کئی کئی ماہ تک اجرتوں کی ادائیگی نہیں کرتے اور بالآخر کوئی بھی بہانہ لگا کر انہیں بغیر ادائیگی کئے ہی برخاست کر دیا جاتا ہے، جہاں 90 فیصد فیکٹریوں میں سرکار کی طرف سے مقرر کردہ کم از کم اجرت سے بھی کہیں کم تنخواہ دی جاتی ہے، جہاں یونین سازی پر عملاً پابندی ہے اور اپنے حق کے لئے محض درخواست کرنے پر بھی محنت کشوں پر جھوٹے مقدمات بنوا کر ان پر ریاستی جبر ڈھایا جاتا ہے، جہاں لیبر ڈیپارٹمنٹ، عدالتوں اور پولیس سمیت تمام ریاستی ادارے سرمایہ داروں کی جیب میں پڑے ہیں، وہاں کوئی احمق ہی یہ توقع کر سکتا ہے کہ حکومت کی طرف سے دی جانے والی رقم سے یہ سرمایہ دار محنت کشوں کو اجرتوں کی ادائیگی کریں گے۔ پہلے ہی ملک کے طول و عرض سے یہ اطلاعات موصول ہو رہی ہیں کہ فیکٹری مالکان نے معاشی بحران اور لاک آؤٹ کا بہانہ بنا کر محنت کشوں کی پہلے سے واجب الادا اجرتوں کی ادائیگی سے بھی صاف انکار کر دیا ہے اوربے شمار جگہوں پر محنت کشوں کے متوقع احتجاج کے ”خطرے“ سے نمٹنے کے لئے پولیس کی بھاری نفری کے ساتھ ساتھ رینجرز کو بھی صنعتی علاقوں میں طلب کر لیا گیا ہے۔ ایسے میں صاف ظاہر ہے کہ مزدوروں کے نام پر مختص کیا جانے والا یہ200 ارب روپیہ بھر پور ریاستی و حکومتی آشیر باد کے ساتھ سرمایہ داروں کی تجوریوں میں جائے گا۔
ایک طرف سرمایہ داروں نے بغیر واجبات اور اجرتوں کی ادائیگی کے فیکٹریاں اور کمپنیاں بند کردی ہیں تو دوسری جانب اربوں روپے کی سبسڈیاں لی جا رہی ہیں۔
اسی طرح، برآمدی صنعتوں (ٹیکسٹائل، لیدر گڈز وغیرہ) کے مالک سرمایہ داروں کو فوری طور پر 100 ارب روپے کے ٹیکس ری فنڈز جاری کرنے کا اعلان کیا گیا ہے۔ واضح رہے کہ برآمدات میں نام نہاد بڑھوتری کی حوصلہ افزائی کے بہانے برآمدی صنعتوں کے مالکان کو برآمدی مال پر یہ ٹیکس چھوٹ پہلے سے حاصل تھی جسے زیادہ تر یہ ٹیکس چور سرمایہ دار کرپٹ ریاستی مشینری کے ساتھ مل کر درحقیقت ملکی منڈی میں فروخت ہونے والی اپنی مصنوعات پر ٹیکس بچانے کی خاطر استعمال کرتے تھے۔ لیکن اب ان کھربوں پتی چور صنعتکاروں کو ”ریلیف“ دینے کی خاطر انہیں کئی ماہ کی ٹیکس چھوٹ یکمشت دی جارہی ہے جیسے کہ اگر حکومت ایسا نہ کرتی تو ان کے گھروں میں فاقوں کی نوبت آ جانی تھی۔ مزید برآں، حکومت نجی بینکوں کو پابند کر رہی ہے کہ وہ ان صنعتکاروں کی طرف سے لئے گئے قرضوں پر سود کی وصولی کو فی الحال معطل کر دیں مگر اس کے بدلے میں حکومت کو ان نجی بینکوں کو بھی مزید مراعات دینا پڑیں گی جس پر ہم آگے چل کر بات کریں گے۔
حکومت نے پیکج میں چھوٹی اور درمیانی صنعتوں کے لئے بھی 100 ارب روپے مختص کئے ہیں اور اس کے ساتھ ساتھ نجی بینکوں سے ان کے قرضوں پر سود کی وصولی مؤخر کروانے کا بھی اعلان کیا ہے۔ لیکن یہاں بھی زمینی حقیقت سرکاری اعلانات سے یکسر مختلف ہے۔ درحقیقت، پاکستان کی چھوٹی اور درمیانی صنعتوں کی ایک بھاری ترین اکثریت دستاویزی معیشت یا فارمل اکا نومی کا حصہ ہی نہیں اور سرکاری ریکارڈ میں ان کا کوئی وجود نہیں ہے۔ مزید برآں، یہ زیادہ تر بڑے صنعتکار ہیں جنہوں نے اپنی ٹیکس چوری کو آسان بنانے کے لئے سرکاری کاغذات میں اپنی بڑی صنعتوں کو مزدوروں کی تعداد، پیداوار اور ٹرن اوور کے لحاظ سے درمیانی صنعتوں کے طور پررجسٹر کروایا ہوا ہے۔ لہٰذا یہ 100 ارب روپیہ بھی درحقیقت ان بڑے مگر مچھوں کے پیٹ میں ہی جائے گا۔ اسی طرح، صنعتکاروں کی ”ایمر جنسی ضروریات“ کو پورا کرنے کے لئے بھی 100ارب روپے کا ایک ایمر جنسی فنڈ رکھا گیا ہے جسے مختلف حیلے بہانوں سے ان بڑے سیٹھوں کی تجوریوں میں پہنچا دیا جائے گا۔ یوں قرضوں پر سود کی ادائیگی کی معطلی اور محنت کشوں کو واجب الادا اجرتوں تک کی ادائیگی سے کھلی چھوٹ کے علاوہ 500 ارب روپے کی رقم براہ راست طور پر ملک کے بڑے سرمایہ داروں کی جیبوں میں ڈالی جائے گی۔
اسی طرح، آئی ایم ایف کی رضامندی سے بڑے مگر مچھوں کو نئی ٹیکس چھوٹ دینے کے سلسلے کا بھی آغاز ہو گیا ہے جس میں سب سے پہلے پاکستان اسٹاک ایکسچینج پر سے کیپیٹل ویلیو ٹیکس کے خاتمے کا اعلان کر دیا گیا ہے تا کہ سرمایہ کاروں کا ”اعتماد بحال“ کیا جا سکے اور کھربوں روپے کی سٹے بازی پر مبنی اس کاروبار کے جغادریوں کے منافعوں کو معاشی بحران کے اثرات سے بچایا جا سکے۔ اسی طرح، آنے والے دنوں میں سرمایہ دار طبقے کے مختلف حصوں کے لئے مزید ٹیکس مراعات اور چھوٹوں کاا علان بھی کیا جائے گا۔ خاص کرآنے والے بجٹ کو زبردست ٹیکس چھوٹ کے ذریعے زیادہ سے زیادہ ”بزنس فرینڈلی“ بنانے کے لئے بھی آئی ایم ایف سے اجازت لے لی گئی ہے جبکہ دوسری طرف حال ہی میں وفاقی کابینہ سے منظور ہونے والے بجٹ اسٹریٹیجی پیپر 21-2020ء میں 1000 ارب روپے کے نئے ٹیکس متعارف کروانے کا پلان بھی دے دیا گیا ہے جو کہ ظاہر ہے کہ محنت کش عوام اور تنخواہ دار درمیانے طبقے کی پیٹھ پر ہی لادے جائیں گے۔ مزید برآں، اسٹیٹ بینک آف پاکستان نے معاشی بحران کے دوران سرمایہ دار طبقے کو سستے قرضوں کی فراہمی یقینی بنانے کے لئے نہ صرف بینکوں کے لینڈنگ رولز کو نرم کر دیا ہے بلکہ شرحِ سود کو بھی 13.25 فیصد سے کم کر کے 11 فیصد کر دیا گیا ہے اور آنے والے عرصے میں اس میں مزید کمی بھی متوقع ہے۔ مگر دوسری طرف نجی بینکوں کے بینکنگ سپریڈ (قرضوں پر بینک کا منافع) پر کوئی قدغن نہیں لگائی گئی اور یہ بینک دسمبر 2019ء کی ایک رپورٹ کے مطابق قرضوں پر 5.13 فیصد کا زبردست منافع کما رہے ہیں جبکہ دسمبر2018ء میں یہ شرح 3 فیصد تھی۔ یہی وجہ ہے کہ پچھلے تقریباً ڈیڑھ سال کے عرصے میں جہاں ملک کے معاشی بحران کے باعث نجی صنعتی شعبے سمیت کم و بیش معیشت کا ہر سیکٹر متاثر ہوا ہے، وہیں اس عرصے میں نجی بینکوں کے منافعوں میں ہوش ربا اضافہ ہوا ہے۔ نجی بینکوں کے اس زبردست سپریڈ کو قائم رکھنے میں ایک اہم ترین عنصر یہ بھی ہے کہ آئی ایم ایف کے قرضے کے تحت حکومت پاکستان کے اسٹیٹ بینک سے قرضہ اٹھانے پر لگنے والی پابندی کے بعد حکومت داخلی قرضوں کے حصول کے لئے ان نجی بینکوں کی سب سے بڑی گاہک بن چکی ہے اور حکومت کو ان کی زبردست منافع خوری پر کوئی اعتراض نہیں، حالانکہ بلند شرحِ سود کے بعد یہ حکومت کے داخلی قرضوں پر سود کی بڑھتی ہوئی ادائیگیوں کی دوسری بڑی وجہ ہے۔ اس حکومتی چشم پوشی کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ یہ سود کی بڑھتی ہوئی ادائیگیاں محنت کش عوام کا خون نچوڑ کر ہی کی جاتی ہیں لیکن اس کے ساتھ ساتھ یہ حکومت وریاست کا نجی بینکاری کو نوازنے کا ایک طریقہ کار بھی ہے جس کے ذریعے عوام کی ہڈیوں سے نچوڑی گئی رقم خود بخود ان کی تجوریوں میں پہنچتی رہتی ہے۔ صنعتکاروں کے دباؤ پر حکومت نے یقیناً اسی قسم کی کرم نوازیوں کا واسطہ دے کر نجی بینکوں کو ان کے قرضوں پر سود کی ادائیگی موخر کرنے کے لئے رضامند کیا ہے جبکہ اس کے ساتھ ساتھ نجی بینکوں کے لئے نئی ٹیکس چھوٹوں کا متعارف کرایا جانا بھی یقینی ہے۔ لیکن ابھی ہم حکومت کے معاشی پیکج کی طرف پلٹتے ہیں اور دیکھتے ہیں کہ اس میں محنت کش طبقے پر کون سے ”احسانات“ کئے گئے ہیں۔
پریس کانفرنس میں عمران خان نے بڑے فخر سے اعلان کیا کہ اس کی حکومت نے غریب خاندانوں کی ”امداد“ کے لئے 150 ارب روپے مختص کئے ہیں۔ ذرا ظلم دیکھئے کہ یہ رقم تین ہزار روپے ماہانہ فی خاندان کے حساب سے 4 ماہ کے عرصے میں 1 کروڑ خاندانوں میں تقسیم کی جائے گی۔ لیکن حکومت نے یہ نہیں بتایا کہ اس مہنگائی، ذخیرہ اندوزی اور بیروزگاری کے دور میں ایک غریب خاندان تین ہزار ماہانہ میں گزارہ کیسے کرے گا؟ جلتی پر تیل یہ کہ ابھی تک یہ بھی واضح نہیں کہ یہ رقم نام نہاد احساس پروگرام (BISP) کے تحت پہلے سے مختص کردہ رقم سے لی جائے گی یا پھر علیحدہ سے ہو گی اور اس حوالے سے ڈاکٹر ثانیہ نشتر اور ڈاکٹر حفیظ شیخ کے بالکل متضاد بیانات سامنے آئے ہیں مگر غالب امکانات یہی ہیں کہ حفیظ شیخ کی بات ہی درست ہے اور یہ رقم پچھلے بجٹ میں احساس پروگرام کے لئے پہلے ہی سے مختص کردہ فنڈز سے حاصل کی جائے گی یعنی درحقیقت حکومت نے اس معاملے میں ایک روپیہ بھی علیحدہ سے مختص نہیں کیا ہے۔مزید برآں سب جانتے ہیں کہ ان پروگرامز کو ملنے والی رقم کا ایک قابل ذکر حصہ تو ریاستی مشینری ہی خورد برد کر جاتی ہے اور عام حالات میں بھی اونٹ کے منہ میں زیرے جتنی اس رقم کا ایک تھوڑا سا حصہ ہی غریبوں تک پہنچ پاتا ہے۔ یہاں پر سب سے اہم سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ محنت کش طبقہ جس کے رات دن کے استحصال سے اس ملک کے سرمایہ دار حکمران طبقے اور ریاستی اشرافیہ نے پچھلے 73 سالوں سے اپنی تجوریاں بھری ہیں اور جس کی محنت کے دم پر یہ سماج اپنی زندگانی پاتا ہے، کیا اس چیز کا بھی حقدار نہیں کہ اس مہلک وبا کے دوران حکمران محض چند ماہ کے لئے اسے عزت کے ساتھ بٹھا کر روٹی کھلا دیں۔ لیکن حقیقت یہی ہے کہ سرمایہ دارانہ نظام میں محنت کش طبقہ سرمایہ داروں کی منافع خوری کے لئے محض انسانی خام مال کی حیثیت رکھتا ہے۔ ہمارے اندازے کے مطابق اگر لاک ڈاؤن کے دوران 2 کروڑ خاندانوں (5 افراد فی خاندان) کو بیس ہزار روپے ماہانہ بھی گزر بسر کے لئے دیے جائیں تو 1 ماہ کا کل خرچہ 400 ارب روپے جبکہ 4 ماہ کا خرچ 1600 ارب روپے بنتا ہے۔ صرف اتنے معمولی سے ریاستی اخراجات کے ساتھ نہ صرف ایک لمبا لاک ڈاؤن کرتے ہوئے اس وبا کو مکمل شکست دی جا سکتی ہے بلکہ یہ سب آبادی کے ایک بڑے حصے کو فاقہ کشی پر مجبور کئے بغیر کیا جا سکتا ہے۔ ہمیں پتا ہے کہ ہماری اس بات پر لبرل دانشور حضرات، بائیں بازو کے ”حقیقت پسند عناصر“ اور درمیانے طبقے میں سرمایہ داروں کے بغیر تنخواہ کے ماؤتھ پیس، اچھل پڑیں گے اور ہمیں یوٹوپیائی ہونے کے طعنے دیں گے۔ لیکن ہم ان خواتین و حضرات کو یاد دلانا چاہیں گے کہ ریاست پاکستان نے صرف رواں مالی سال میں ہی 3500 ارب روپے حکمران طبقے کی طرف سے لئے جانے اور انہی پر خرچ ہونے والے داخلی و بیرونی قرضوں اور ان کے سود کی واپسی اور مجموعی طور پر 1800 ارب روپے فوجی بجٹ کے لئے مختص کئے ہیں۔ مزید برآں، رواں مالی سال میں سرمایہ دار طبقے کو تقریباً 1200 ارب روپے کی سبسڈیاں (خصوصاً بجلی اور گیس پر) اور ٹیکس چھوٹیں دی گئی ہیں۔ اور یہ سب رقم آسمان سے نہیں اترتی بلکہ اسی ملک کے محنت کش عوام کا خون نچوڑ کر حاصل کی جاتی ہے اور یہ صرف رواں مالی سال کی ہی نہیں بلکہ پچھلے 73سالوں کی کہانی ہے۔ یہ لوٹ کھسوٹ بھی ابھی صورتحال کی آدھی تصویر ہے۔ محنت کشوں کے براہ راست بے رحمانہ استحصال سے سرمایہ دار طبقے کی تجوریوں میں جمع ہونے والی دولت اس سے بھی کہیں زیادہ ہے۔ اس کی ایک چھوٹی سی مثال یہ ہے کہ پچھلی کم و بیش ایک دہائی میں سرکلر ڈیبٹ کی ادائیگی کی مد میں ہی کئی ہزار ارب روپے عوام کی ہڈیوں سے نچوڑ کر نجی پاور کمپنیوں کو کھلائے گئے ہیں جبکہ 2000 ارب روپے کا سرکلر ڈیبٹ ابھی بھی باقی ہے جس کی ادائیگی کے لئے موجودہ حکومت نے پچھلے ڈیڑھ سال میں کئی مرتبہ بجلی کے نرخوں میں اضافہ کیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پیکج میں حکومت کا بجلی اور گیس کے چھوٹے صارفین سے بلوں کی قسطوں میں وصولی کا اعلان بھی محنت کش طبقے کے ساتھ ایک گھناؤنے مذاق کے سوا کچھ نہیں۔
پیکج کے مطابق یوٹیلیٹی سٹورز کارپوریشن کو 50 ارب روپے فراہم کئے جائیں گے تاکہ عوام کو کھانے پینے اور گروسری کی اشیا ء ارزاں نرخوں پر فراہم کی جا سکیں۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ یہ رقم انتہائی کم ہے۔ دوسرا یہ کہ غالب امکانات ہیں کہ یہ رقم صرف اعلان کی حد تک ہی محدود رہے گی کیونکہ اس وقت تک کی صورتحال یہ ہے کہ یوٹیلیٹی سٹورز کے پاس جو مطلوبہ اشیاء کا تھوڑا بہت سٹاک تھا وہ بھی ختم ہو چکا ہے اور وہاں جانے والے لوگ خالی ہاتھ واپس لوٹ رہے ہیں۔ یہاں یہ بھی یاد رکھنے کی ضرورت ہے کہ یہی حکومت اس وبا سے قبل ان سٹورز کی مکمل نجکاری کرنے یا انہیں سرے سے بند کر دینے کے درپے تھی اور پچھلے ایک سال میں ان مذموم عزائم کے خلاف احتجاج کرنے والے ان سٹورز کے محنت کشوں کو متعدد بار شدید ریاستی جبر کا نشانہ بنا چکی ہے۔ اسی طرح، شعبہ صحت کے لئے 50 ارب روپے مختص کرنے کا ”اعلان“ کیا گیا ہے لیکن یہ رقم کب ملے گی اور کس طرح خرچ کی جائے گی، اس بارے میں کچھ نہیں بتایا گیا۔ جبکہ زمینی حقیقت یہ ہے کہ ابھی تک پورے پاکستان میں کسی بھی سرکاری ہسپتال میں ایک بھی نیا وینٹی لیٹر مہیا نہیں کیا جا سکا۔ بلکہ وینٹی لیٹر تو دور کی بات طبی عملے کے لئے حفاظتی کٹس تک موجود نہیں اور نتیجتاً بڑی تعداد میں طبی عملہ اس وبا کا شکار ہو رہا ہے۔ اسی طرح، ابھی تک بڑے پیمانے پر تشخیصی ٹیسٹ کی سہولت بھی مہیا نہیں کی جاسکی اور حکومت کی جانب سے کئے جانے والے ٹیسٹوں کی تعداد کے متعلق بیانات جھوٹ کا ایک پلندہ ہیں۔ اسی طرح باہر سے آنے والے امدادی طبی سامان کا ایک بڑا حصہ ریاستی حکام کی ملی بھگت سے پرائیویٹ لیبارٹریوں اور میڈیکل سامان کے بڑے تاجروں کو بیچا جا رہا ہے جو پھر آگے اسے بلیک میں بیچ کر خوب منافع کما رہے ہیں۔ جو حکمران طبقہ ابھی 11 مارچ تک ملک کے سب سے بڑے صوبے کے سرکاری ہسپتالوں کی نجکاری کا بل صوبائی اسمبلی سے منظور کرانے میں مصروف تھا اور اس کیخلاف احتجاج کرنے والے شعبہ صحت کے محنت کشوں پر ڈنڈے برسا رہا تھا، اس کی عوام کو کرونا وبا سے بچانے کے متعلق ”سنجیدگی“ کا اندازہ لگانا ہر گز مشکل نہیں۔
حکومت کا پیٹرولیم مصنوعات میں 15روپے فی لیٹر کمی کا اعلان بھی عوام کے ساتھ ایک بھونڈے مذاق سے کم نہیں ہے۔ پچھلے تقریباً ایک ماہ میں عالمی معاشی بحران کے باعث عالمی منڈی میں خام تیل کی قیمتیں 56 ڈالر فی بیرل سے کم ہو کر 26 ڈالر فی بیرل پر آ گئی ہیں۔ اس لحاظ سے پاکستان میں بھی پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کم از کم 50 روپے فی لیٹر کی کمی ہونی چاہیے تھی لیکن ایسا کرنے کے لئے حکومت کو ان پر عائد کردہ بالواسطہ ٹیکس اور پیٹرولیم لیوی کم کرنا پڑتی۔ مگر ایسا کرنے سے حکومت کا ریونیو کم ہو جاتا اور آئی ایم ایف کی طرف سے مسلط کردہ ریونیو ٹارگٹس بڑے مارجن سے مس ہو جاتے، لہٰذا ایک وبا اور لاک ڈاؤن کے دوران بھی حکومت و ریاست نے عوام کی بجائے اپنے اصل آقا یعنی عالمی مالیاتی اداروں کے احکامات بجا لاناہی مناسب سمجھا۔ اسی طرح، پیکج کے تحت 280 ارب روپے کی لاگت سے 80 لاکھ ٹن گندم خریدنے کا بھی اعلان کیا گیا۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ اس خریداری کا کرونا وبا سے کوئی تعلق نہیں۔ حکومت ہر سال مارچ کے اوائل میں گندم کی سالانہ خریداری کا ٹارگٹ طے کرتی ہے اور اس بار بھی یہ فیصلہ درحقیقت کرونا کی طرف حکومتی توجہ مبذول ہونے سے کہیں قبل سالانہ معمول کے مطابق 3 مارچ کو ہونے والی اقتصادی رابطہ کمیٹی کی میٹنگ میں کر لیا گیا تھا۔ اسی طرح، اس سال گندم کی خریداری کا ٹارگٹ پچھلے سال (40 لاکھ ٹن) کی نسبت ڈبل رکھنے کا بھی کرونا وباسے کوئی تعلق نہیں بلکہ اس کی وجہ پچھلے عرصے میں گندم کی مصنوعی قلت اور بلیک مارکیٹنگ سے پیدا ہونے والے بحران کے کارن حکومت پر ہونے والی زبردست تنقید تھی۔ لیکن حکومت نے ان سب حقائق کو خاموشی سے گول کر کے گندم کی خریداری کو بھی ”کسانوں کی فلاح“ کے نام پر معاشی پیکج کا حصہ بنا دیا۔
یہاں پر یہ بتانا بھی اہم ہے کہ حکومت سرمایہ داروں کو موجودہ اور مستقبل میں دیے جانے والے تمام تر معاشی ریلیف کا بوجھ محنت کش طبقے کے کندھوں پر ہی لادے گی۔ ان سطور کے لکھے جانے سے پہلے ہی حکومت آئی ایم ایف، ورلڈ بینک اور اے ڈی بی کو 3.7 ارب ڈالر کے نئے قرضوں کے حصول کے لئے درخواست دے چکی ہے۔ واضح رہے کہ ان میں آئی ایم ایف سے ملنے والے 1.4 ارب ڈالر، آئی ایم ایف کے موجودہ قرض پروگرام کا ہی حصہ شمار ہوں گے اور یقینی طور پر اپنے ساتھ مزید سخت اقتصادی شرائط لے کر آئیں گے۔ اسی طرح، حکومت نجی بینکوں اور اسٹیٹ بینک (آئی ایم ایف کی اجازت سے) سے بھی بڑے پیمانے پر داخلی قرضے اٹھانے جا رہی ہے۔ ماضی اور حال کی طرح ان تمام قرضوں اور ان کے سود کی ادائیگی بھی پہلے ہی سے مہنگائی، بیروزگاری اور بالواسطہ ٹیکسوں سے برباد عوام کے خون کا آخری قطرہ تک نچوڑ کے ہی کی جائے گی۔ مزید برآں، عمران خان نے اپنی پریس کانفرنس میں بار بار زور دیا کہ صوبے بھی اس معاشی پیکج کے لئے وسائل مختص کریں اور وفاقی حکومت کا ہاتھ بٹائیں۔ اس کا سادہ سا مطلب یہ ہے کہ صوبے صحت اور تعلیم جیسے عوامی ضروریات کے شعبوں میں مزید کٹوتیاں کریں تاکہ ان وسائل کا رخ ”مشکلات میں گھرے“ سرمایہ دار طبقے کی طرف کیا جا سکے۔
لیکن یہ ساری صورتحال صرف پاکستان تک ہی محدود نہیں۔ کرونا وبا نے عالمی معیشت کی مسلسل سست روی اور پہلے ہی سے شدت پکڑتے تضادات کو پھاڑ کر ایک عالمی مالیاتی بحران کا آغاز کر دیا ہے اور یہ بحران کرونا وبا کے خاتمے کے ساتھ ختم نہیں ہوگا بلکہ ایک لمبے عرصے تک چلے گا اور پوری دنیا میں سرمایہ دارانہ معیشت وسماج کو جڑوں سے ہلا کر رکھ دے گا۔ اس وقت دنیا کی ہر سرمایہ دارانہ ریاست ہی معاشی بحران کا تمام تر بوجھ محنت کشوں پر لاد کر اپنے سرمایہ دار طبقے کو ”بچانے“ کے لئے ہاتھ پیر مار رہی ہے۔ ابھی چند روز قبل ہی امریکی حکومت نے بحران کے پیش نظر 2200 ارب ڈالر کے ایک ریلیف پیکج کا اعلان کیا ہے۔ اس میں سے امریکی عوام کو کیا ملے گا، اس کا اندازہ اس امر سے لگایا جا سکتا ہے کہ اس بھاری رقم میں سے صرف 100 ارب ڈالر وبا کے بوجھ تلے دبے شعبہ صحت پر خرچ کئے جائیں گے جبکہ اس پیکج کے نتیجے میں ہونے والے ریاستی قرضوں میں بے تحاشا اضافے کو محنت کشوں پر مزید ٹیکس لاد کر اور عوامی اخراجات میں مزید کٹوتیاں کر کے واپس کیا جائے گا۔ اسی طرح، یورپین سنٹرل بینک نے بھی حال ہی میں 750 ارب یورو کے معاشی پیکج کا اعلان کیا ہے جس سے ڈیفالٹ ظاہر کرنے والی کمپنیوں اور سرمایہ داروں کو بیل آؤٹ کیا جائے گا جبکہ دوسری طرف اسی یورپی یونین کے ممبر ممالک اٹلی اور سپین میں عام لوگ صحت کی ناکافی سہولیات کے سبب مکھیوں کی طرح مر رہے ہیں۔
ایک خوفناک عالمی معاشی بحران کے پس منظر میں پاکستان جیسے پسماندہ ملک کا معاشی بحران بھی ہر گزرتے دن کے ساتھ بد تر سے بدترین ہوتا جائے گا۔ شرحِ سود میں کمی اور معاشی بے یقینی کے نتیجے میں نام نہاد ہاٹ فارن منی کے ملک سے تیز انخلا اور مستقبل قریب میں میچور ہونے والے بیرونی قرضوں اور ان کے سود کی ادائیگی سے ملکی فارن ریزرو پر پڑنے والے دباؤ کے نتیجے میں روپے کی قدر میں مزید کمی واقع ہو گی اورافراطِ زر میں تیزی کے ساتھ اضافہ ہو گا۔ کرونا وبا کے بعد بھی ملک کی صنعتی بحالی کے کوئی امکانات نہیں ہیں اور نتیجتاً بیروزگاری بڑے پیمانے پر بڑھے گی۔ رواں مالی سال کا حقیقی جی ڈی پی گروتھ ریٹ تو وبا سے قبل بھی منفی میں آ رہا تھا لیکن اب نومینل جی ڈی پی گروتھ ریٹ بھی بمشکل ایک فیصد کے قریب ہی آئے گا اور اس کا کارن بھی کوئی معاشی سرگرمی نہیں بلکہ بڑھتا ہوا افراطِ زر ہو گا۔ اگلے مالی سال میں صورتحال اس سے بھی کہیں زیادہ خراب ہو گی۔ لیکن دوسری طرف اس بربادی کے دوران بھی حکومت و ریاست نجی بینکوں سے لئے گئے داخلی قرضوں اور عالمی مالیاتی اداروں، سامراجی طاقتوں اور فارن کمرشل بینکوں سے لئے گئے بیرونی قرضوں کی واپسی کو بلا تعطل جاری رکھنے کی بھر پور کوشش کریں گے۔ سرمایہ دار طبقے کو بھی پہلے سے کہیں بڑے پیمانے پر سبسڈیاں، معاشی”ریلیف“ اور بیل آؤ ٹس دیے جائیں گے۔ اسی طرح، انہیں لوٹ مار کا موقع فراہم کرنے کے لئے حکومت نجکاری کے پہلے سے بھی زیادہ خون آشام حملے کرے گی۔ فوجی اشرافیہ کی عیاشیوں پر خرچ ہونے والے نام نہاد دفاعی بجٹ میں بھی اضافہ کیا جائے گا اور دیگر اعلیٰ ریاستی حکام اور افسر شاہی کی عیاشیاں بھی کم ہونے کی بجائے مزید بڑھیں گی۔ اس سب کا خرچہ پورا کرنے کے لئے محنت کش عوام کی رگوں سے خون کا آخری قطرہ تک نچوڑا جائے گا، یہاں تک کہ حکمران طبقہ ان کے سانس لینے پر بھی ٹیکس لگانے کی کوشش کرے گااور اس مقصد کے لئے عوام پر ریاستی جبر کا بلا دریغ استعمال کیا جائے گا۔ لیکن زندگی پاکستان کے محنت کش طبقے کو ایک ایسے موڑ پر لے آئی ہے جہاں اس کے پاس اپنی بقا کے لئے ایک بغاوت، ایک انقلاب برپا کرنے کے سوا اور کوئی راستہ نہیں بچا۔ ہم مارکس وادیوں کو سو فیصد سائنسی یقین ہے کہ اس ملک کا مزدور عنقریب اپنی بقا کے لئے جدوجہد کے میدان میں اترے گا، لڑے گا، اپنے اور اپنے بچوں کے لئے ایک بہتر زندگی کے حصول کی خاطر ہر قسم کی قربانی دے گا۔
یہاں ایک ایسے انقلاب کی ضرورت ہے جس میں سرمایہ دار طبقے کی تمام تر دولت اور جائیدادیں ضبط کر لی جائیں اور بینکوں میں موجود تمام سرمائے کو اجتماعی ملکیت میں لیتے ہوئے ایک مزدور جمہوریت قائم کی جائے۔ ایک ایسی انقلابی جمہوریت جس میں تمام سامراجی قرضوں کو دینے سے انکار کر دیا جائے اور سود پر مبنی سرمایہ دارانہ نظام کا خاتمہ کرتے ہوئے سوشلسٹ نظام قائم کیا جائے۔ اس میں بڑی صنعتوں سمیت معیشت کے تمام کلیدی شعبوں کو مزدوروں کے جمہوری کنٹرول میں لیتے ہوئے منڈی کی معیشت کا خاتمہ کیا جائے اور ایک منصوبہ بند معیشت قائم کی جائے۔ ایک ایسی معیشت جس میں تعلیم اور علا ج ہر شخص کو مفت فراہم کرنا ریاست کی اولین ذمہ داری ہو اور ہر شخص کو روٹی، کپڑا اور مکان ریاست کی جانب سے فراہم کیا جائے۔ ایک ایسی معیشت جس میں امیر اور غریب پر مبنی طبقاتی نظام کا خاتمہ ہو اور سماج میں پیدا ہونے والی تمام تر دولت اجتماعی ملکیت میں لیتے ہوئے ہر شخص کو بنیادی ضروریات فراہم کی جائیں۔ آنے والے عرصے میں حکمران طبقے کے مظالم اور جبر کے نتیجے میں ایسے حالات ناگزیر طور پر بنیں گے جس میں محنت کش طبقہ انتہائی اقدامات پر مجبور ہو گا۔ ایسی صورتحال میں اس طبقے کی طاقت کو منظم کرتے ہوئے ایک سوشلسٹ انقلاب کی جانب سفر تیز ہوتا جائے گا۔ لیکن اس انقلاب کو کامیابی کے ساتھ سوشلزم کی منزل تک پہنچانے کے لئے ایک بالشویک انقلابی پارٹی کا ہونا ضروری ہے۔ آج ان کڑے حالات میں اس پارٹی کی تعمیر کے کام کو تیز ترین بنیادوں پر پایہ تکمیل تک پہنچانا مارکس وادیوں کا تاریخی فریضہ بھی ہے اور ان کی جرأت، ہمت، استقلال اور نظریے کی سمجھ بوجھ کا امتحان بھی۔