|منجانب: مرکزی بیورو، ریڈ ورکرز فرنٹ|
ملکی و عالمی سرمایہ دار طبقے کے نمائندہ حکمرانوں اور ریاستی اشرافیہ کی بے حسی، نااہلی اور عوام دشمن پالیسیوں کے باعث کرونا کا عفریت اس وقت پوری طرح پاکستان کے سماج کو اپنی لپیٹ میں لے چکا ہے۔ سرکاری رپورٹس کے مطابق ملک بھر میں کرونا کے مریضوں کی تعداد سوا 2 لاکھ سے تجاوز کر چکی ہے جبکہ ساڑھے4 ہزار سے زائد اموات واقع ہو چکی ہیں۔ لیکن ہم سمجھتے ہیں کہ یہ سرکاری اعدادوشمار بالکل بوگس ہیں اور متاثرین کی حقیقی تعداد اس سے کہیں زیادہ ہے۔ اس کی ایک واضح مثال یہ ہے کہ مئی کے پہلے ہفتے میں پنجاب کے محکمۂ صحت کی طرف سے کی جانے والی ایک ریسرچ سٹڈی کے مطابق صرف لاہور شہر میں ہی کرونا کے تقریباً7 لاکھ مریض موجود تھے۔ مگر جون کے اوائل میں جب یہ رپورٹ منظر عام پر آئی تو اسے دبا دیا گیا اور میڈیا کو بھی اس کی تشہیر سے منع کر دیا گیا۔ اسی طرح، آئی ایم ایف اور ملکی سرمایہ داروں کے احکامات پر چلنے والی حکومت نے عید الفطر سے ایک ہفتہ قبل لاک ڈاؤن مکمل طور پر کھول دیا کیونکہ ایک طرف تو لاک ڈاؤن سے سرمایہ داروں کی منافع خوری متاثر ہو رہی تھی اور دوسری طرف لاک ڈاؤن کے دوران عوام کو کسی قسم کا کوئی معاشی ریلیف فراہم کرنے میں بالکل ناکام حکمران ایک بڑی عوامی بغاوت کے پھٹ پڑنے سے خوفزدہ تھے۔ مزید برآں، فیکٹریوں، کارخانوں، شاپنگ سنٹرز اور کام کی دیگر جگہوں پر کرونا کے پھیلاؤ کو روکنے کے لئے درکار حفاظتی اقدامات پر بھی کوئی توجہ نہ دی گئی اور مالکان کو ورکرز اور عوام کی صحت کے ساتھ کھلواڑ کی کھلی اجازت دے دی گئی۔ اس سب کا نتیجہ کرونا وبا کے جنگل کی آگ کی مانند پھیلنے اور پہلے ہی سے دگر گوں حالات کا شکار سرکاری شعبۂ صحت کے انہدام کی صورت میں نکلا ہے۔
اس وقت صورتحال یہ ہے کہ ملک کے سرکاری ہسپتال کرونا کے مریضوں سے بھرے پڑے ہیں اور ان میں مزید مریض داخل کرنے کی گنجائش نہیں ہے۔ بڑے شہروں کے سرکاری ہسپتالوں میں بھی کوئی وینٹی لیٹر فارغ نہیں ہے بلکہ یہاں تک کہ ہسپتالوں میں آکسیجن سپلائی اور جان بچانے والی ادویات کی بھی قلت ہو چکی ہے۔ اس صورتحال میں بڑے نجی ہسپتالوں کی چاندی ہو گئی ہے جو کہ مریض کو ایک دن وینٹی لیٹر پر رکھنے کا ایک سے دو لاکھ روپیہ وصول کر رہے ہیں۔ اسی طرح طبی سامان کے بڑے تاجر بھی ذخیرہ اندوزی کے ذریعے مصنوعی شارٹیج پیدا کر کے جان بچانے والے طبی سامان کو بلیک میں انتہائی مہنگے داموں فروخت کر رہے ہیں۔ ظاہر ہے کہ اس ساری صورتحال سے طبقہ امراء، حکمرانوں اور ریاستی اشرافیہ کو تو کوئی فرق نہیں پڑتا بلکہ ان کے مختلف گروہ تو اس ساری لوٹ مار میں حصہ دار ہیں لیکن محنت کش عوام زندہ درگور ہو کر رہ گئے ہیں اور ہر روز بڑی تعداد میں سرمایہ دار حکمران طبقے کی عوام دشمن پالیسیوں کا شکار ہو کر جان کی بازی ہار رہے ہیں۔
ایسے میں حکومت اور افسر شاہی کے لئے لازمی ہو گیا تھا کہ وہ اپنی نااہلی اور بے حسی پر پردہ ڈالنے کے لئے اپنی کوتاہیوں کا الزام کسی اور کے سر ڈال دیں۔ لہٰذا انتہائی بے غیرتی اور دروغ گوئی کا مظاہرہ کرتے ہوئے حکومت نے عوام کی ”بد احتیاطی“ کو ہی موجودہ صورتحال کا ذمہ دار ٹھہرانا شروع کردیا۔ اس حوالے سے پنجاب کی صوبائی وزیر صحت ڈاکٹر یاسمین راشد کے گھٹیا عوام دشمن ریمارکس ریکارڈ پر ہیں۔ مگر صرف عوام پر ہی ملبہ ڈالنا کافی نہیں تھا لہٰذا قربانی کے بکرے کے طور پر شعبۂ صحت کے محنت کشوں کا انتخاب کیا گیا اور ریاستی ایجنسیوں کے دلالوں، دو نمبر قسم کے صحافیوں اور فیک سوشل میڈیا پروفائلز کے ذریعے ہیلتھ سٹاف پر انتہائی گھٹیا اور جھوٹے پراپیگنڈے کی بوچھاڑ کر دی گئی اور یہ تاثر دینے کی کوشش کی گئی جیسے اس ساری صورتحال کے ذمہ دار شعبۂ صحت کے محنت کش ہیں۔ حالانکہ حقیقت حال یہ ہے کہ انتہائی نامساعد حالات میں نامکمل اور ناقص حفاظتی کٹس کے ساتھ اپنے فرائض کی سرانجام دہی کے دوران اب تک ملک بھر میں ہزاروں ہیلتھ ورکرز کرونا سے متاثر ہو چکے ہیں جبکہ 50 کے قریب اپنی جان گنوا چکے ہیں جن میں ڈاکٹرز، پیرامیڈکس اور نرسز سب شامل ہیں۔ صرف یہی نہیں بلکہ حکومتی بے حسی کا خمیازہ شعبۂ صحت کے محنت کشوں کے اہل خانہ کو بھی بھگتنا پڑا ہے اور اب تک کرونا سے متاثر بے شمار ہیلتھ ورکرز کے گھر والے بھی اس موذی وبا کے ہاتھوں جاں بحق ہو چکے ہیں۔ مگر حکومتی بے حسی اور دروغ گوئی اپنے عروج کو چھو رہی ہے اور ہیلتھ سٹاف کے بارہا مطالبہ اور احتجاج کرنے کے باوجود نہ صرف انہیں ابھی تک درکار تعداد میں معیاری حفاظتی کٹس فراہم نہیں کی گئی ہیں بلکہ ان کی تمام تر قربانیوں کے باوجود الٹا انہیں ہی حکومتی نااہلی کے باعث پیدا ہونے والی صورتحال کا ذمہ دار ٹھہرایا جا رہا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ موقع کا بھر پور فائدہ اٹھاتے ہوئے سامراجی مالیاتی اداروں کے گماشتہ حکمرانوں نے محنت کش طبقے کے دیگر حصوں کی طرح شعبۂ صحت کے محنت کشوں پر بھی معاشی حملے تیز کر دیے ہیں جس کی ایک واضح مثال پنجاب میں عین کرونا وبا کے دوران ٹرشری کئیر سرکاری ہسپتالوں کی نجکاری کے بل(ایم ٹی آئی ایکٹ) کی صوبائی اسمبلی سے منظوری اور اس کے فوری عملی نفاذ کے لئے دھڑا دھڑ بورڈ آف گورنرز کی تشکیل کے لئے جاری ہونے والے نوٹیفیکیشنز ہیں۔ اسی طرح، کے پی کے میں بھی سرکاری سیکنڈری کئیر ہسپتالوں کی نجکاری کے بل(ڈی ایچ اے/آر ایچ اے ایکٹ) پر عمل درآمد کی رفتار کو تیز تر کر دیا گیا ہے جبکہ سندھ میں کرونا کیخلاف فرنٹ لائن پر ڈیوٹیاں کرنے والی 13سو سے زائد نرسز پچھلے تین ماہ سے تنخواہ سے محروم ہیں۔
ایسی صورتحال میں یہ شعبۂ صحت کے محنت کشوں کی مختلف ایسوسی ایشنز اور یونینز کی قیادت کا فریضہ تھا کہ وہ نہ صرف آپس میں متحد ہو کر بلکہ دیگر عوامی اداروں اور نجی صنعتوں کے محنت کشوں اور ان کی تنظیموں کے ساتھ ایک جڑت بناتے ہوئے اس حکومتی یلغار کا منہ توڑ جواب دیتے۔ اس حوالے سے بلوچستان، سندھ اور گلگت بلتستان میں شعبۂ صحت کی مزدور قیادتوں نے اپنی تمام تر سیاسی و نظریاتی کمزوریوں کے باوجود بلاشبہ ایک جرات مندانہ جدوجہد کی ہے اور کچھ مطالبات بھی منوائے ہیں۔ لیکن اس معاملے میں سب سے موقع پرستانہ کردار گرینڈ ہیلتھ الائنس پنجاب کے پلیٹ فارم پر موجود صوبہ پنجاب کے شعبۂ صحت کی قیادتوں نے ادا کیا ہے جنہوں نے نہ صرف ہیلتھ ورکرز میں پنپتے غصے کو بھوک ہڑتال جیسے بیکار طریقہ کار کی بھینٹ چڑھا کر زائل کرنے کی پوری کوشش کی بلکہ باقی تمام صوبوں کے ہیلتھ سٹاف کی جدوجہد کے ساتھ عملی اظہار یکجہتی سے گریز کر کے شعبۂ صحت کے محنت کشوں کی ایک متحد ملک گیر احتجاجی تحریک کی تشکیل کے کئی سنہری مواقع ضائع کر دیے۔ واضح رہے کہ پچھلی ایک دہائی میں شعبۂ صحت کے محنت کشوں کی جدوجہد میں پنجاب کے ہیلتھ ورکرز نے ایک کلیدی کردار ادا کیا ہے اور ینگ ڈاکٹرز ایسوسی ایشن سے لے کر جی ایچ اے کے پلیٹ فارم کی تخلیق میں انہوں نے پہل گامی کی ہے لیکن کرونا وبا کے دوران قیادت کی زبردست موقع پرستی نے صوبہ پنجاب کے ہیلتھ ورکرز کو بے دست وپا کر دیا اور وہ نہ صرف وہ اپنے حقوق کا دفاع نہیں کر سکے بلکہ شعبۂ صحت کے محنت کشوں کی ایک ملک گیر تحریک کی تشکیل میں بھی اپنا معیاری کردار ادا نہیں کر سکے۔ نتیجتاً جی ایچ اے پنجاب کی قیادت کی موقع پرستی کا خمیازہ نہ صرف پنجاب بلکہ پورے ملک کے ہیلتھ ورکرز کو بھگتنا پڑا ہے۔
مستقبل میں بھی صورتحال میں کسی قسم کی بہتری کے کوئی امکانات نہیں ہیں اور ہر گزرتے دن کے ساتھ پورے ملک میں ہیلتھ ورکرز پر نجکاری اور ڈاؤن سائزنگ کے معاشی حملے مزید شدت اختیار کریں گے جبکہ دوسری طرف حفاظتی کٹس کی محدود فراہمی اور ناقص معیار کی وجہ سے بہت سے مزید ہیلتھ ورکرز لقمہئ اجل بنیں گے۔ مزید برآں، حکومت پوری کوشش کرے گی کہ اپنی عوام دشمن پالیسیوں کی وجہ سے سرکاری شعبۂ صحت کی دگر گوں حالت کا پورا ملبہ ہیلتھ ورکرز پر ڈالے اور عوام کی وسیع تر پرتوں اور ہیلتھ ملازمین کے بیچ ایک خلیج حائل کر سکے۔ ایسی صورتحال میں ملک بھر کے ہیلتھ ورکرز کو اپنی بقا کی خاطر خود متحرک ہو نا پڑے گا۔ جہاں پر نسبتاً بہتر قیادتیں موجود ہیں وہاں ان قیادتوں پر ریڈیکل اقدامات کے لئے دباؤ ڈالنا ہو گا اور جہاں قیادت موقع پرستی کی دلدل میں بالکل غرق ہو چکی ہے وہاں نئی، لڑاکا اور دیانت دار قیادت تراشنی ہو گی۔ اسی طرح نہ صرف مشترکہ مطالبات کے پروگرام کے گرد تمام عوامی اداروں اور نجی صنعتوں کے محنت کشوں کے ساتھ طبقاتی جڑت بنانی ہو گی بلکہ عوام کی وسیع تر پرتوں تک رسائی حاصل کرتے ہوئے انہیں حکومت کے مذموم مقاصد سے آگاہ کرنا اور انہیں اپنے ساتھ جوڑنا ہو گا۔ صرف اسی طریقہ کار سے ہیلتھ ورکرز نہ صرف اپنی بقا کی جنگ لڑ سکتے ہیں بلکہ ملک کی مزدور تحریک کو آگے بڑھانے میں بھی ایک کلیدی کردار ادا کر سکتے ہیں۔ ریڈ ورکرز فرنٹ شعبۂ صحت کے محنت کشوں کی جدوجہد میں ان کے شانہ بشانہ کھڑے رہنے کے عزم کا اعادہ کرتا ہے۔