|تحریر: زین العابدین|
پاکستانی معیشت کا بحران ہر گزرتے دن کے ساتھ گہرا ہوتا جا رہا ہے اور معیشت کے ہر شعبے کو متاثر کر رہا ہے۔ قرضوں کا بڑھتا حجم، مالیاتی اور کرنٹ اکاؤنٹ خسارے اور روپے کی قدر میں تاریخی گراوٹ اس بحران کو شدید سے شدید تر کرتے چلے جا رہے ہیں۔ افراط زر اور مہنگائی نے عوام کی کمر توڑ کر رکھ دی ہے اور روپے کی قدر میں گراوٹ کی وجہ سے قوت خرید بری طرح متاثر ہوئی ہے۔ مگر حکمران طبقے اور ریاستی اشرافیہ کی عیاشیاں جوں کی توں جاری ہیں جبکہ محنت کش عوام کو ذلتوں کی اتھاہ گہرائیوں میں دھکیل کرسسک سسک کر مرنے کے لیے چھوڑ دیا گیا ہے۔ برآمدات مسلسل سکڑ رہی ہیں اور تبدیلی حکومت کے برآمدات کو بڑھانے کے تمام تر دعوے محض دعوے ہی رہے۔ ایسے میں ایک بار پھر آئی ایم ایف پروگرام کو وہ نسخہ کیمیا قرار دیا جا رہا ہے جس پر عمل کے بعد پاکستانی معیشت کو درپیش تما تر مسائل حل ہوجائیں گے اور پاکستان دائمی ترقی کے رستے پر گامزن ہو جائے گا۔ اس معاشی بحران سے نکلنے اور معیشت کو اپنے قدموں پر کھڑا کرنے کے لیے جو دوا تجویز کی گئی ہے اس میں حکومتی اخراجات میں کمی، ٹیکسوں کی بھرمار، ترقیاتی بجٹ میں کٹوتی، عوامی اداروں کی نجکاری، بجلی اور گیس کی سبسڈیوں کے خاتمے الغرض یہ غریب عوام کو نچوڑ لینے کے ساتھ ساتھ درمیانے طبقے کو بھی متاثر کرنے کا نسخہ ہے۔ جہاں تک رہی معاشی بحران سے نکلنے کی توپاکستانی سرمایہ داری کی حالت ایک نشئی کی سی ہے جو کہ قرضوں کے ٹیکوں، سامراجی بھیک کی افیون اور ریاستی سبسڈیوں سہارے کے بنا زندہ نہیں رہ سکتا۔
معیشت کے اس دیوالیہ پن نے صنعتی شعبے کو خاص طور پر متاثر کیا ہے اور صنعتی ترقی مسلسل رو بہ زوال ہے۔ ویسے تو پاکستانی صنعت شاید ہمیشہ سے پسماندہ اور ترقی پذیر ممالک کے تقاضوں کے مطابق بھی پیچھے ہی رہی ہے مگر پچھلی ایک دہائی سے صنعتی ترقی کی شرح مسلسل گرتی چلی جا رہی ہے۔ رواں مالی سال میں بڑی صنعت کے شعبے کی ترقی کی شرح منفی میں رہی جبکہ مینوفیکچرنگ کا شعبہ بھی کچھ خاص نمو حاصل نہ کرسکا۔ سینکڑوں صنعتی یونٹس بند اور سینکڑوں بندش کے دہانے پر کھڑے ہیں۔ آئی ایم ایف کی ایک حالیہ رپورٹ کے مطابق رواں مالی سال میں پاکستانی جی ڈی پی کی شرح ترقی5.4فیصد سے گر کر 2.9فیصد پر آجائے گی جو کہ اگلے مالی سال 2019-20میں 2.7فیصد تک گرسکتی ہے۔ اس کا واضح مطلب ہے کہ پاکستانی معیشت تیزی سے سکڑ رہی ہے اور جی ڈی پی کا حجم کم ہو رہا ہے۔ اس امر کا سب سے واضح اظہار صنعت کے شعبے میں ہوتا ہے اور صنعتی شعبے سے وابستہ لاکھوں افراد کا روزگار داؤ پر ہے۔ آئی ایم ایف کی اسی رپورٹ میں یہ بھی واضح کیا گیا ہے کہ آنے والے عرصے میں بیروزگاری میں اضافہ ہو گا گو کہ حقیقی اضافے کو کافی کم دکھایا گیا ہے اور حقیقت میں آنے والے عرصے میں اس سے کہیں زیادہ اضافہ دیکھنے کو ملے گا۔ یہ کہا جاسکتا ہے کہ پاکستان میں ڈی انڈسٹریلائزیشن کا عمل تیزی سے جاری ہے اور جس کو روکنے میں حکومت اور سرمایہ دار ناکام نظر آتے ہیں۔ پاکستانی سرمایہ دار طبقے کا خصی پن روز روشن کی طرح عیاں ہوچکا ہے۔ سی پیک اور چین کے ساتھ فری ٹریڈ معاہدے نے اس عمل کو مزید مہمیز دی ہے اور سستی چینی مصنوعات کی منڈی میں آمد سے بڑے پیمانے پر پاکستانی صنعتیں بند ہوچکی ہیں۔
اس سنگین صورتحال پر کسی بھی جانب سے کوئی حل تو دور کی بات کوئی سنجیدہ تجزیہ بھی سننے کو نہیں ملتا۔ معیشت کے بڑے بڑے نام ”ایسے ہونا چاہیے“ اور ویسے نہیں ہونا چاہیے“ کی روایتی گردان کرکے چلتے بنتے ہیں۔ ’نئی سرمایہ کاری لائی جائے‘ اور ”برآمدات میں اضافہ کیا جائے‘ ان کے پاس موجود آزمودہ نسخہ ہے جو ہر موقع پر تجویز کیا جاتا ہے۔ ریاستی پالیسیوں کو تنقید کا نشانہ بنا کر دانشورانہ ٹھرک کی تسکین کرتے ہیں مگر اس سے آگے کچھ کہنے یاسمجھنے سے عاری ہیں۔ مسئلہ اس سے کہیں گہرا ہے اور ان ٹوٹکوں سے اس کا حل نہیں کیا جاسکتا۔ سرمایہ دارانہ بنیادوں پر اس صنعتی زوال کو روکنا ناممکن ہے۔ صرف ایک طاقتور مزدور تحریک اور محنت کش طبقہ ہی اس عمل کو روکنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔یہ حقیقت ہر گزرتے دن کے ساتھ واضح ہوتی جا رہی ہے کہ اپنی تاریخی پسماندگی کے باعث پاکستانی سرمایہ دار طبقے کے کردار ایک طفیلی بورژوازی کا ہے جو کہ ستر سال گزرنے کے بعد بھی کوئی خاطر خواہ صنعت کو فروغ نہیں دے سکی گو کہ جونکوں کی طرح محنت کش طبقے کا استحصال کرکے خود دولت کے انبار لگا چکے ہیں۔
عالمی معاشی سست روی
پچھلے سال کے آغاز میں بورژوازی کے سنجیدہ جریدوں کی جانب سے گلا پھاڑ کر اعلان کیے گئے کہ عالمی سرمایہ داری بحران سے نکل آئی ہے اور اب معاشی عروج کا دور دیکھنے کو ملے گا۔آئی ایم ایف نے بھی 2008ء کے بعد سے عالمی شرح نمو میں مربوط اضافے کو خوش آئند قرار دیا اور اسی بنا پر یہ اعلان کیا گیا کہ عالمی معیشت 3.7فیصد کی شرح سے ترقی کرے گی مگر یہ بحالی جنم کے ساتھ ہی موت کے منہ میں چلی گئی اور اپریل میں آئی ایم ایف نے اعلان کیا کہ عالمی معیشت ”مربوط سست روی“ کا شکار ہوگئی ہے۔ اب صورتحال یہ ہے کہ کم و بیش تمام بڑی معیشتیں سست روی یا گراوٹ کا شکار ہیں۔ معاشی بحالی کے یہ تمام تر دعوے امریکی معیشت میں نظر آنے والا ایک نسبتاً ابھار تھا۔ مگر جیسے ہی بینکوں کی جانب سے شرح سود میں معمولی اضافہ کیا گیا تو یہ بحالی اپنی موت آپ مرگئی۔ وجہ صاف ہے کہ عالمی سرمایہ داری وینٹی لیٹر پر ہے اور پیداواری قوتوں کو مزید ترقی دینے سے قاصر ہے۔
2008ء کے بحران سے لے کر اب تک تمام بڑی معیشتوں میں پیداواری صلاحیت اور سرمایہ کاری زوال پذیر ہے جس کی بڑی وجہ قوت خرید میں بڑے پیمانے پر کمی ہے۔ معاشی بحران کے ان دس سالوں میں ریاستوں کے قرضے دگنے سے تگنے ہوتے ہوئے جی ڈی پی کے 300فیصد تک جا پہنچے ہیں۔ جہاں ایک طرف معیشت کو چلانے کے لیے محنت کش طبقے کے استحصال کی انتہا کردی گئی وہیں سستے قرضوں کے ٹیکوں سے معیشت کو اپنے پیروں پرکھڑا کرنے کی کوششیں کی گئیں اور یوں یہ قرضوں کا پہاڑ کھڑا ہوگیا۔ اجرتوں میں اضافے کی بجائے مصنوعی طریقوں سے قوت خرید میں اضافہ کیا گیا۔ ان دس سالوں میں سرمایہ دار طبقہ کوئی ایک مسئلہ بھی حل نہیں کرسکا جو بحران کا موجب بنے تھے اور اب ایک نئے اور 2008ء سے کہیں بڑے معاشی بحران کی بات کی جا رہی ہے۔ امریکہ چین تجارتی جنگ عالمی معیشت کو کساد بازاری کی جانب دھکیل سکتی ہے۔ تحفظاتی پالیسیاں عالمی تجارت کے لیے زہر قاتل ہیں جو کہ مسلسل رو بہ زوال ہے۔
پاکستانی معیشت خواہ کتنی نحیف ونزار سہی مگر اسی عالمی معیشت کے کُل کا ایک جزو ہے اور پاکستانی معیشت اور صنعت کے بحران کو اسی تناظر میں ہی درست طور پر سمجھا اور اس کا حل تجویز کیا جاسکتا ہے۔ گہرے ہوتے عالمی معاشی بحران اور ترقی یافتہ ممالک میں قوت خرید میں کمی کے باعث ڈیمانڈ میں کمی کے پاکستان پر بھی اثرات مرتب ہوئے ہیں اور دیگر عوامل کے ساتھ پاکستانی برآمدات میں کمی کی ایک وجہ عالمی منڈی میں کم ہوتی مانگ بھی ہے۔ اس کے نتیجے میں برآمدی صنعتوں پر گہرے اثرات مرتب ہوئے ہیں۔ بالخصوص ٹیکسٹائل سیکٹر اس کی وجہ سے سکڑ چکا ہے اور کئی ٹیکسٹائل یونٹ بندہونے سے ان سے وابستہ افراد بیروزگاری کی دلدل میں دھکیل دئیے گئے ہیں۔ آل پاکستان ٹیکسٹائل ملز ایسوسی ایشن کی ایک رپورٹ کے مطابق حالیہ عرصے میں 140بڑی ملز بند ہوئی ہیں جس سے دس لاکھ کے قریب محنت کش بیروزگار ہوئے ہیں جبکہ 80ملز اس وقت بند ہونے کے دہانے پر کھڑی ہیں جس سے پانچ لاکھ تک روزگار ختم ہوں گے۔
طفیلیہ پاکستانی بورژوازی اور صنعتی پسماندگی
پاکستانی سرمایہ دار طبقے نے بطور طبقہ دوسری عالمی جنگ کے بعد ہندوستان کے خونی بٹوارے کے نتیجے میں تاریخ کے میدان میں قدم رکھا۔ تب سے لے کر اب تک ستر سال سے زیادہ کا عرصہ گزرنے کے بعد بھی پاکستانی حکمران طبقہ اپنے تاریخی فرائض یعنی ایک جدید ترقی یافتہ صنعتی سماج کی تشکیل میں ناصرف ناکام بلکہ اس منزل سے کوسوں دور ہے۔ دوسری عالمی جنگ کے بعد آزادی حاصل کرنے والے ممالک کی اکثریت یورپ اور امریکہ کے مقابلے میں آج بھی پسماندہ ہیں مگر ان ممالک کے حکمران طبقات کی جانب سے سرمایہ داری کے حدود میں ہی رہتے ہوئے بڑے پیمانے پر صنعت کاری کی سنجیدہ کوششیں کی گئیں۔ ہندوستان میں ریاستی سرمایہ داری کے ماڈل کے تحت ملکی صنعت کو فروغ دینے کی ایک سنجیدہ کوشش کی گئی گو کہ یہ عمل نوے کی دہائی کے آغاز تک اپنے حدود کو پہنچ گیا اور معیشت کی لبرلائزیشن کے عمل کا آغاز ہوا۔ تھائی لینڈ، ملائیشیا، انڈونیشیا، ایران، بنگلہ دیش اور دیگر میں بھی ہمیں یہ عمل نظر آتا ہے۔
مگر پاکستانی حکمران طبقہ تاخیر زدہ اور پسماندہ ہونے کے ساتھ ساتھ انتہائی رجعتی اور بنیاد پرست بھی واقع ہوا۔ اس مصنوعی ریاست کے حکمران طبقے نے روز اول سے اپنی اس تکنیکی پسماندگی کو دور کرنے کی بجائے سامراجی گماشتگی کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنا لیا اور اسی ’دست شفقت‘ تلے آج تک کا سفر طے کیا۔ جدید اور جدت جیسی کسی بھی شے کے ساتھ اس کی جنم سے دشمنی ہے۔ اس دوران ایوب آمریت نے ایک بونا پارٹسٹ طریقے سے صنعتی ترقی کی پہلی سنجیدہ کوشش کی۔ 69-1968ء کی انقلابی تحریک کے نتیجے میں ہونے والی سماجی اور معاشی اصلاحات میں نجی صنعتوں کی نیشنلائزیشن کے ساتھ ساتھ کئی ایک نئے صنعتی اداروں، کارپوریشنز، ٹیکنیکل ٹریننگ انسٹیٹیوٹ اور نئی یونیورسٹیوں اور کالجوں کی بنیاد رکھی گئی جن میں سے بیشتر کو بعد ازاں نجکاری کی بھینٹ چڑھا دیا گیا۔ ضیا آمریت میں سامراجی گماشتگی کی عظیم مثالیں قائم کرتے ہوئے کالا دھن بھی اس حکمران طبقے کے منہ کو لگ گیا۔ یوں سامراجی امداد اور کالے دھن کی فراوانی نے صنعت کی جدید بنیادوں پر استواری کی ضرورت کو مزید پیچھے دھکیل دیا۔ امریکی سامراج کی ایما پر یورپ اور امریکی منڈی تک بغیرمسابقت رسائی اور کوٹوں کی وجہ سے ملکی صنعت کو سہارا ملتا رہا۔ اس تکنیکی پسماندگی کی وجہ سے عالمی اور ملکی منڈی میں مقابلے کے لیے پاکستانی سرمایہ دار طبقہ ریاستی سبسڈیوں، قرضوں کی معافی، ٹیکس، بجلی اور گیس چوری کے ساتھ ساتھ ان صنعتوں میں کام کرنے والے محنت کشوں کے شدید ترین استحصال کے ذریعے ہی آج تک اپنی دولت میں اضافہ کرتا آیا ہے۔پاکستانی سرمایہ داروں نے ٹیکس چوری میں جو مقام حاصل کیا شاید ہی دنیا کے کسی اور ملک کے سرمایہ داروں کو یہ اعزاز حاصل ہوا ہو۔ ’پاکستانی عوام ٹیکس نہیں دیتے‘ یہ سب سے زیادہ بولا جانے والا جھوٹ ہے جبکہ حقیقت اس کے بالکل الٹ ہے۔
مگر 2008ء کے عالمی معاشی بحران کے بعد صورتحال اپنے بالکل الٹ میں تبدیل ہوچکی ہے۔ جہاں ایک طرف امریکی سامراج کا دست شفقت سر سے اٹھ چکا ہے تو وہیں دوسری طرف عالمی معاشی بحران کی وجہ سے کم ہوتی کھپت، سکڑتی قوت خرید اور بڑھتی ہوئی مسابقت میں پاکستانی صنعت چین، بھارت، بنگلہ دیش، ویتنام اور دیگر کی مصنو عات کا مقابلہ کرنے کے قابل نہیں۔ ایسے میں پہلا نزلہ تو ان صنعتوں کے محنت کشوں پر گرتا ہے جن کا خون تک نچوڑ لیا جاتا ہے۔ اور جب اس سے بھی کام نہ بنے تو صنعتی یونٹ کو ہی بند کردیا جاتا ہے۔وہ لوگ جو یہ کہتے نہیں تھکتے تھے کہ اگر روپے کی قدر کو کم کردیا جائے تو ملکی برآمدات بڑھ جائیں گی اور صنعت کا پہیہ چلے گا تو پچھلے دو سال سے روپے کی قدر میں مسلسل کمی ہو رہی ہے اور روپیہ ڈالر کے مقابلے میں 164روپے تک جاپہنچا ہے مگر اس سب کے باوجود پچھلے دو سال سے برآمدات میں کمی کا رجحان جاری ہے۔
صنعتی ترقی میں مسلسل گراوٹ
ویسے تو پاکستانی صنعت اور سرمایہ داروں کی پسماندگی کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ صنعتی شعبے کے حوالے سے مستند اعدادوشمار ہی دستیاب نہیں اور کسی بھی تجزیے کے لیے حکومتی اعداد وشمار پر انحصار کرنا پڑتا ہے جو کہ کسی طور پر حقیقت کی منظر کشی نہیں کرتے۔ مگر انہی اعدادوشمار کی بنا پر پاکستانی صنعت کے موجودہ بحران اور اس کی وجوہات کا جائزہ لینے کی کوشش کریں گے۔ حالیہ بجٹ سے قبل وزارت خزانہ کی جانب سے پیش ہونے والے پاکستان اکنامک ریویو کے مطابق جی ڈی پی میں صنعتی شعبے کا حصہ کم ہوکر 13فیصد تک آپہنچا ہے۔ جی ڈی پی میں صنعتی شعبے کے حصے میں کمی کا رجحان پچھلے پانچ سال سے جاری ہے جس دوران یہ لگ بھگ 13فیصد سے کچھ اوپر رہا مگر غیر سرکاری رپورٹس کے مطابق ملکی جی ڈی پی میں صنعت کا حصہ مالی سال 2018-19ء میں 12.1فیصد تک تھاجو آئندہ مالی سال میں 12فیصد سے بھی نیچے گر جائے گا۔ اس کا واضح مطلب ہے کہ برآمدات بڑھانے کے تبدیلی سرکار کے تمام تر دعوے جھوٹے ثابت ہوئے ہیں بلکہ برآمدات کے حجم میں کمی واقع ہوئی ہے جس کا اظہار صنعتی شعبے کی گراوٹ سے بھی ہوتا ہے۔ اکنامک ریویو کے مطابق بڑی مینوفیکچرنگ صنعت(Large Scale Manufacturing-LSM) کے شعبے کی شرح ترقی منفی2.06فیصد ریکارڈ کی گئی جبکہ صنعتی شعبے کی شرح ترقی مالی سال 2017-18ء کے اختتام پر 6.33فیصد سے گر کر مالی سال 2018-19ء میں 2.93فیصد پر آچکی ہے۔ اگر سال بہ سال کی بنیاد پر دیکھاجائے تو صنعتی شعبے میں ایک سال ریکارڈ 10.63فیصد کی کمی آئی ہے۔
صنعتی شعبے کی اس گراوٹ میں بہت سے عوامل کار فرما ہیں۔ روپے کی قدر میں کمی کی وجہ سے لاگت میں اضافہ ہوا ہے۔ ساتھ ہی ساتھ اس وجہ سے مقامی قوت خرید میں بھی کمی آئی ہے۔ زرعی شعبے میں گراوٹ اور کئی فصلوں کی حدف سے کم پیداوار کی وجہ سے زراعت کے ساتھ وابستہ صنعتیں بری طرح متاثر ہوئی ہیں۔ روپے کی قدر میں کمی سے بر آمدات سستی ہونے کا ڈھنڈورا پیٹنے والے عقل کے اندھے اس امر سے نابلد دکھائی دیتے ہیں کہ پاکستان کی پسماندہ صنعتیں اپنی پیداوار میں استعمال ہونے والے خام مال کا بیشتر حصہ درآمد کرتی ہیں اور روپے کی قدر میں کمی کی وجہ سے لاگت میں کئی گنا اضافہ ہوچکا ہے جس کے واضح اثرات صنعتی شعبے کے جی ڈی پی کے سکڑتے حصے میں دکھائی دے رہے ہیں۔ صنعتی شعبے میں اس گراوٹ کی ایک بڑی وجہ رواں مالی سال میں سرکاری ترقیاتی اخراجات میں ہونے والی بڑی کٹوتی ہے جس کی وجہ سے جہاں ایک طرف بیروزگاری میں اضافہ ہوا ہے وہیں ترقیاتی منصوبے بند ہونے سے صنعتی شعبے پر بھی اثرات پڑے ہیں۔ آئی ایم ایف کی شرائط پر مبنی پیش کیے گئے بجٹ 2019-20ء میں ترقیاتی منصوبوں کے لیے 951ارب روپے مختص کیے گئے ہیں جو پچھلے مالی سال کے مقابلے میں تو زیادہ ہے مگر حقیقت میں اس میں بعد ازاں مزید کٹوتیوں کے ساتھ ساتھ پچھلے مالی سال کی طرح ایک بڑا حصہ جاری ہی نہیں کیا جائے گا جس کے نتیجے میں آنے والے عرصے میں بھی یہ رجحان جاری رہے گا۔
صنعت کے مختلف شعبوں کا جائزہ لیا جائے تو صورتحال کی سنگینی مزید عیاں ہوجاتی ہے۔ صنعتی شعبے میں سب بڑا حصہ ٹیکسٹائل کے شعبے کا ہے جو کی کل صنعتی شعبے کے 60فیصد پر مشتمل ہے۔ پاکستان اکنامک ریویو کے مطابق ٹیکسٹائل کے شعبے میں 0.27فیصد کی کمی دیکھنے میں آئی جو کہ سراسر جھوٹ پر مبنی ہے۔ پچھلے سال کی غیر سرکاری رپورٹس اور زمینی حقائق کا جائزہ لیا جائے تو یہ معلوم ہوتا ہے کہ کئی ٹیکسٹائل یونٹ دھڑا دھڑ بندہورہے ہیں جس کا اظہار ٹیکسٹائل برآمدات میں ہونے والی بڑی کمی میں ہوتا ہے۔ 2018ء کے اختتام کی ایک رپورٹ کے مطابق صرف سال 2018ء میں پنجاب میں 125ٹیکسٹائل یونٹ بند ہوئے۔ فیصل آباد کا پاور لومز سیکٹر ملک کا سب سے بڑا پاور لومز سیکٹر جس میں ہزاروں کی تعداد میں لومز کام کرتی ہیں اور لاکھوں محنت کشوں کا روزگار اس وابستہ ہے مگر پچھلے ایک سال سے کم وبیش تمام سیکٹر بند پڑے ہیں اور ہزاروں مزدور بیروزگار ہوچکے ہیں۔ تکنیکی پسماندگی کے ساتھ ساتھ روپے کی قدر میں گراوٹ کی وجہ سے لاگت میں ہونے والے اضافے اور سستے چینی دھاگے اور کپڑے کی آمد، عالمی منڈی میں بڑھتی مسابقت اور کھپت میں کمی کے باعث یہ شعبہ ختم ہونے کے قریب پہنچ چکا ہے۔ رواں سال اور پچھلے مالی سال میں کپاس کی پیداوار میں بڑی کمی وجہ اس سے منسلک صنعتیں بند ہوچکی ہیں جن میں جننگ اور سپننگ ملیں شامل ہیں۔ اکنامک ریویو کے مطابق رواں مالی سال میں کاٹن جننگ میں 12.74فیصد کی کمی واقع ہوئی ہے۔ تیار ٹیکسٹائل مصنوعات کی بات کی جائے تو اس میں کوئی خاطر خواہ اضافہ دیکھنے کو نہیں ملا مگر ویلیو ایڈیشن کے حساب سے اس شعبے میں بھی کمی واقع ہوئی ہے۔
آٹو موبائلز انڈسٹری کی بات کی جائے تو یہ رواں مالی سال میں اس شعبے میں 6.11فیصد کی کمی دیکھنے میں آئی۔ کاریں بنانے والی تینوں بڑی کمپنیوں ٹویوٹا، ہنڈا اور سوزوکی کی فروخت میں بڑے پیمانے پر کمی دیکھنے میں آئی۔ یہاں تک رواں مالی سال میں موٹر سائیکلز کی فروخت میں کمی کا رجحان دیکھا گیا۔ اس کی بڑی وجہ مقامی منڈی کی قوت خرید میں کمی اور روپے کی قدر میں کمی سے ہونے والا لاگت میں اضافہ ہے۔
ایک وقت میں کہا جاتا تھا کہ ٹریکٹرز کی پیداوار اور فروخت کسی بھی پسماندہ سرمایہ دارملک کی معیشت اور صنعت کی حالت جانچنے کا ایک معیار سمجھا جاتا ہے۔ رواں مالی سال میں ٹریکٹر کی فروخت میں ریکارڈ کمی دیکھنے میں آئی اور ٹریکٹر بنانے والی تین بڑی کمپنیوں اور ان سے منسلک صنعتوں میں کام کرنے والے ہزاروں افراد کا روزگار داؤ پر ہے۔ ایک اخباری رپورٹ کے مطابق ٹریکٹر انڈسٹری کے لیے پارٹس بنانے والی کئی کمپنیوں نے بڑے پیمانے پر ورکروں کو ملازمتوں سے برخاست کرنا شروع کردیا ہے۔ ملت ٹریکٹر پلانٹ پچھلے سال دسمبر سے لے کر جنوری کے اختتام تک بند رہا۔ اس سے صنعتی شعبے کے بحران کا بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔
سٹیل کے شعبے کی بات کی جائے تو پاکستان سٹیل ملز تاحال بند پڑی ہے اور اس کو دوبارہ نجکاری کی فہرست میں شامل کیا جاچکا ہے۔ پاکستان سٹیل مل میں کام کرنے والے ہزاروں محنت کشوں کا مستقبل داؤ پر ہے۔ ہر بار تنخواہ لینے کے لیے احتجاج کا رستہ اختیا رکرنا پڑتا ہے جس کے بعد جا کر ایک آدھ ماہ کی تنخواہ نصیب ہوتی ہے۔ ملک کی باقی سٹیل انڈسٹری کی بات کی جائے تو رواں سال سٹیل انڈسٹری بھی مندی کا شکار رہی اور سٹیل مصنوعات بنانے والے کئی چھوٹے پلانٹ بند ہونے کی جانب گئے۔ پاکستان اکنامک ریویو کے مطابق رواں سال سٹیل کی صنعت میں 11فیصد کی کمی واقع ہوئی۔ سٹیل انڈسٹری اور اس سے منسلک دیگر صنعتوں میں بحران کی ایک بڑی وجہ چین سے آنے والی سٹیل اور لوہے سے بنی تیار مصنوعات ہیں جو کہ مقامی سٹیل سے سستا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ بڑی صنعتوں اور تعمیرات کے شعبے میں ہونے والی گراوٹ بھی ایک بڑی وجہ ہے۔
سی پیک سے منسلک منصوبوں کی تکمیل کے ساتھ ہی پاکستانی سیمنٹ انڈسٹری کی شرح ترقی میں کمی واقع ہوئی ہے اوررواں مالی سال سیمنٹ انڈسٹری میں 4.96فیصد کی کمی دیکھنے میں آئی۔ ڈیمانڈ کم ہونے کی وجہ سے ملک بھر میں سیمنٹ کی فی بوری قیمت میں دو سو روپے تک کی کمی واقع ہوئی۔ گو کہ اعلان کردہ بجٹ میں سیمنٹ پر لگنے والے ٹیکس کی وجہ سے فی بوری 25روپے اضافہ ہوسکتا ہے۔ سیمنٹ کی کھپت کی ایک بڑی وجہ حکومتی ترقیاتی منصوبوں میں کمی کا رجحان ہے۔ ساتھ ہی ساتھ رئیل اسٹیٹ سیکٹر میں کوئی خاطر خواہ سرمایہ کاری اور نئے منصوبوں کے آغاز نہ ہونے سے سیمنٹ کی فروخت میں کمی آئی ہے۔ مقامی منڈی کی گرتی ہوئی قوت خرید بھی ایک بڑی وجہ ہے۔
اس کے ساتھ ساتھ دیگر صنعتوں میں بھی منفی گروتھ ریکارڈ کی گئی جن میں فارماسیوٹیکل انڈسٹری میں 8.4فیصد کی بڑی کمی دیکھنے کو آئی۔ فوڈ اور تمباکو کی صنعت میں بھی 4.69فیصد کی کمی واقع ہوئی۔ صنعت کا واحد شعبہ جس میں ترقی کی وجہ سے حکومتی اعدادوشمار کے مطابق کل صنعتی شعبے میں 1.4فیصد کی شرح ترقی ریکارڈ کی گئی وہ الیکٹرانکس مصنوعات کا شعبہ ہے جس میں 23.7فیصد کا ایک بڑا اضافہ دیکھنے میں آیا۔
صنعتی شعبے کی اس سنگین صورتحال کے باوجود تبدیلی سرکار کا کہنا ہے کہ بیروزگاری کی شرح پر کوئی خاطر خواہ اضافہ نہیں ہوگا جو کہ ایک معجزہ ہی ہوسکتا۔ مگر ہم یہاں معجزوں کی بات نہیں کر رہے بلکہ ہماتا سامنا تلخ حقائق سے ہے۔ اخباری رپورٹس کے مطابق حکومتی پالیسیوں کے نتیجے میں اگلے ایک سال میں 16لاکھ افراد بیروزگارہونے کی جانب جائیں گے۔ آنے والے عرصے میں ٹیکسوں میں اضافے، روپے کی قدر میں مزید گراوٹ، بڑھتا افراط زر،، شرح سود میں اضافے، ترقیاتی اخراجات میں کمی، چینی مصنوعات کی آمد اور عالمی منڈی میں کم ہوتی کھپت کے نتیجے میں صنعت کا بحران مزید گہرا ہونے کی جانب جائے گااور ہزاروں محنت کشوں کو بیروزگاری کی دلدل میں دھکیل دیا جائے گا۔
سی پیک اور فری ٹریڈ معاہدے
مارکس نے کمیونسٹ مینی فیسٹو میں لکھا تھا کہ سستی اشیا(Commodities)وہ توپخانہ ہے جس کے ذریعے بڑی سے بڑی دیوارِ چین کو ڈھایا جاسکتا ہے۔ مارکس کی یہ بات آج بھی سو فیصد درست ہے۔ ایک ایسے وقت میں جب امریکہ اور یورپ کی بڑی معیشتیں چین کے ساتھ بڑھتے تجارتی خسارے سے پریشان ہیں اور امریکہ چین تجارتی جنگ سے عالمی معیشت پر خطرے کے بادل منڈلا رہے ہیں تو پاکستان جیسی پسماندہ سرمایہ دارانہ ریاست اور انتہائی پسماندہ صنعت کیسے سستی چینی مصنوعات کے سامنے ٹھہر سکتی تھی۔ جہاں ایک طرف سی پیک کے سامراجی منصوبے کے تحت پاکستانی قرضوں کے حجم میں بے تحاشا اضافہ ہوا ہے وہیں چین کے ساتھ فری ٹریڈ معاہدے کے بعد چینی مصنوعات کی پاکستانی منڈی میں بھرمار نے مقامی صنعت کی گراوٹ کو مہمیز دی ہے۔مقامی سرمایہ دار اس صورتحال سے کافی پریشان دکھائی دیتے ہیں۔
تبدیلی سرکار نے اقتدار میں آتے ہی یو ٹرن لیتے ہوئے چین کے ساتھ دوسرا فری ٹریڈ معاہدہ کرچکی ہے جس کے نتیجے میں پہلے سے بڑے پیمانے پر چینی مصنوعات کی پاکستانی منڈی میں بھرمار سے مقامی صنعتیں بڑے پیمانے پر بند ہونے کی طرف جائیں گی۔ ن لیگ کی پچھلی حکومت کے آخری سال میں مقامی صنعتکاروں کے دباؤ اور آنے والے انتخابات میں ان کی حمایت جیتنے کی خاطر چین کے ساتھ دوسرا فری ٹریڈ معاہدے کرنے سے باز رہی مگر تبدیلی سرکار نے اقتدار سنبھالتے ہی سامراجی گماشتگی کی روایت کو جاری رکھتے ہوئے اس کو عملی جامہ پہنایا۔ مقامی صنعتکاروں نے اس معاہدے پرد ستخط سے قبل ایڑی چوٹی کا زور لگایا مگر سرمایہ داری کے آہنی قوانین کے آگے ان کی ایک نہ چلی۔
وفاقی چیمبر آف کامرس کا کہنا ہے کہ 2018ء میں پاکستان کاچین کے ساتھ تجارت میں 15 ارب ڈالر کا خسارہ تھا جو کہ 2019ء میں بڑھ کر 17 ارب ڈالر تک پہنچ جائیگا۔ اگر دوسرا فری ٹریڈ معاہدہ ہوتا ہے تو یہ تجارتی خسارہ 20 ارب ڈالر سالانہ سے اوپر جاسکتا ہے۔ حکومتی مشیر رزاق داؤد کا دعویٰ ہے کہ دوسرے فری ٹریڈ معاہدے کے بعد پاکستان کی چین کو برآمدات کا حجم 6بلین ڈالر تک پہنچ جائے گا اور چین نے اپنی 90فیصد مارکیٹ ہمارے لیے کھول دی ہے۔ یہ بات بظاہر تو بڑی خوش کن معلوم ہوتی ہے مگر اس کوحقیقت کا روپ دینا ناممکن ہے۔ بھلا پاکستان کی پسماندہ اور دم توڑتی صنعت چین کو کیا برآمد کرے گی؟ چین کی بڑی درآمدات خام مال اور ہائی ٹیک آلات ہیں۔ ہائی ٹیک آلات کا پاکستانی صنعت سے سرے سے کچھ لینا دینا نہیں اور محض خام مال، جس میں بنیادی لائیو سٹاک، زرعی مصنوعات اورمعدنیات شامل ہیں، کی برآمد کے ذریعے 6بلین ڈالر کا برآمدی حجم حاصل کرنا ایک مذاق کے مترادف ہے۔ جبکہ اس کے مقابلے میں پاکستان چین کے ساتھ اپنی 60فیصد تجارت کو لبرلائز کرچکا ہے۔ ٹیکسٹائل برآمدات پر فخر کرنے والی معیشت کی اپنی منڈی میں اس وقت تیار چینی ٹیکسٹائل مصنوعات بڑے پیمانے پر فروخت ہو رہی ہیں۔ اس صورتحال میں پاکستان جیسی صنعت کسی طور بھی ان چینی مصنوعات کا مقابلہ نہیں کرسکتی۔ آنے والے دنوں میں چینی مصنوعات کی مزید بھرمار سے مقامی صنعتیں بڑے پیمانے پر بند ہونے کی طرف جائیں گی۔
کیا سبسڈیوں سے صنعت اپنے قدموں پر کھڑی ہوسکتی ہے؟
اس سوال کا جواب ایک NIKKIEایشین ریویو کی ایک رپورٹ میں ذکر کیے گئے ایک واقعے سے بخوبی دیا جاسکتا ہے۔ پاکستان بزنس کونسل کے ایک نمائندے سے سوال کیا گیا کہ چار دہائیاں قبل یہاں معیاری مشینی پرزے بنائے جاتے تھے مگر آج صنعت زوال کا کیوں شکار ہے تو اس نے انتہائی دلچسپ جواب دیا کہ ”اب ہم چپل جوتی بناتے ہیں۔ یہاں تک کہ ہم جوتے بھی نہیں بناسکتے۔“ یہ ایک سرمایہ دار کی جانب سے پاکستانی صنعت کی پسماندگی اور زوال کا اعتراف ہے۔
پاکستان میں جب بھی صنعتی ترقی کی بات ہوتی ہے تو مقامی سرمایہ دار زبانیں لٹکائے عوامی ٹیکس کے پیسے سے سبسڈیاں لینے پہنچ جاتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ ہر حکومت اور یہ ریاست بھی ان کے مفادات کی نگہبانی کرتی ہے اور جی بھر کے ان طفیلیوں کو نوازا جاتا ہے۔ ہر نئی آنے والی حکومت سے پچھلے قرضے معاف کرانا ان کا وطیرہ بن چکا ہے۔ مہنگی بجلی اور گیس کا رونا رویا جاتا ہے۔ جس کے بعد بجلی اور گیس کے نرخوں میں ان سرمایہ داروں کو رعایتیں دی جاتی ہیں جبکہ عوام کے لیے آئے روز بجلی اور گیس مہنگی ہوتی چلی جا رہی ہے۔ ٹیکس چوری میں ان کی مثال ملنامشکل ہے جبکہ بالواسطہ ٹیکسوں کی بھرمار سے عوام کی جان تک نکال لی جاتی ہے۔ بعید نہیں کہ سانس لینے پر بھی ٹیکس عائد کردیا جائے۔ صنعتوں میں نئی ٹیکنالوجی اور مشینوں کے استعمال کا خیال بھی دل میں نہیں لاتے اور آج بھی بیشتر صنعتی یونٹ ماضی بعید کی مشینیں استعمال کر رہے ہیں۔۔ صنعتوں کو جدید تقاضوں سے ہم آہنگ کرنے کے نام پر حکومت سے سستے قرضے لے کر سٹاک میں لگاتے ہیں یا رئیل اسٹیٹ میں انویسٹ کرتے ہیں۔
لاگت میں کمی کے لیے ان صنعتوں میں کام کرنے والے محنت کشوں سے دن رات کام لیا جاتا ہے۔ کہنے کو تو کم از کم اجرت ساڑھے 15ہزار ہے مگر اکثر صنعتوں میں یہ بھی نہیں دی جاتی۔ جی بھر کے اوورٹائم کروایا جاتا ہے۔ سوشل سیکیورٹی، EOBI، سالانہ بونس تو دور کی بات ہے صورتحال یہ ہے کہ کئی سرمایہ دار ایک محنت کش سے دو تین ماہ کام لینے کے بعد دوسرے کسی سرمایہ دار کے پاس یہ کہہ کر بھیج دیتے ہیں کہ بقایاجات بھی وہی ادا کرے گا اور جب وہاں پہنچ ہے تو کورا جواب ہو جاتا ہے اور یوں یہ چکر چلتا رہتا ہے۔یونین سازی شجر ممنوعہ ہے اور لیبر ڈیپارٹمنٹ ان سرمایہ داروں کے گھر کی لونڈی ہے۔ ورک پلیس سیفٹی ایک فضول خرچہ ہے کیونکہ ان کے نزدیک مزدور کون سے انسان ہیں۔ مر بھی جائیں تو کون پوچھے گا؟
اس چوری چکاری اور محنت کشوں کی شدید استحصال کے بعد بھی یہ مقامی طفیلیہ سرمایہ دار طبقہ مقامی اور ملکی منڈی میں مقابلہ کرنے سے عاری ہیں مگر ان سبسڈیوں، ٹیکس چوری اور مزدوروں کی قوت محنت کے استحصال سے دولت کے انبارلگا چکے ہیں۔ اور اب اس دیوالیہ پن کے دہانے پر کھڑی معیشت کو سنبھالا دینے کے لیے آئی ایم ایف کی شرائط پر عمل کے لیے بجلی یا گیس کے نرخوں میں سبسڈی ختم کرنے کی بات کی گئی ہے تو ان کی چیخیں نکل گئی ہیں اور یہ بلبلاتے پھر رہے ہیں۔ حالانکہ تمام تر معاشی بحران کے شور وغوغے میں اور عوام کو مشکل وقت صبر سے برداشت کرنے کی تلقینوں میں تبدیلی سرکار نے ان طفیلیوں کو فروری میں پیش کیے جانے والے منی بجٹ میں ناقابل تصور چھوٹوں سے نوازا تھا۔ الغرض یہ سرمایہ دار اس قدر پسماندہ ہیں کہ اگر ریاست انہیں ہر طرح کی ٹیکس چھوٹ دے دے، بجلی اور گیس مفت فراہم کردے، امپورٹ ڈیوٹیاں سرے سے ختم کردے، تب بھی یہ صنعتوں کو جدید تقاضوں سے ہم آہنگ کرتے ہوئے ترقی نہیں دے سکتے۔ کیونکہ یہ صنعتی ترقی پر یقین ہی نہیں رکھتے۔
مزدور تحریک
اس تحریر کو پڑھ کر شاید یہ احساس ہو کہ اس قدر سنگین صنعتی زوال اور نتیجتاً بڑے پیمانے پر ہونے والی جبری بے دخلیاں ان صنعتوں میں کام کرنے والے محنت کش چپ چاپ سہتے چلے جا رہے ہیں۔ نہیں ایسا ہرگز نہیں ہے۔ ہر روز کئی صنعتوں میں مزدور مستقلی، جبری بے دخلی، تنخواہوں کی عدم ادائیگی سے لے کر یونین سازی تک سینکڑوں درپیش مسائل کے خلاف سراپا احتجاج ہوتے ہیں مگر کیونکہ ان احتجاجوں کی خبریں کسی اخبار یا ٹی وی چینل کی زینت نہیں بن پاتی تو یہ خیال کیا جانے لگتا ہے کہ جیسے یہاں سب اچھا چل رہا ہے۔ تمام تر ریاستی جبر کے باوجود میڈیا پر فوج کے خلاف تو بات کی جاسکتی ہے مگر ان ٹی وی چینلوں یا اخبارات میں کسی سرمایہ دار کے ہاتھوں مزدوروں کے ساتھ ہونے والی زیادتی پر بات کرنا بھی ممنوع ہے۔ مگر تم خبر نہیں دوگے تو کیا خبر نہیں ہوگی۔ بہت جلد یہ سطح کے نیچے پکتا لاوا ہمیں گلیوں اور چوراہوں پر ابلتا دکھائی دے گا۔ ان صنعتوں میں کام کرنے والے مزدور ہی ان صنعتوں کونا صرف بند ہونے سے بچا سکتے ہیں بلکہ بند صنعتوں کو چلانے کی اہلیت رکھتے ہیں۔ کیونکہ انہی کی محنت سے ان صنعتوں کا پہیہ چلتا ہے اور جو چلا سکتے ہیں تو وہ وقت آنے پر ان کو قبضے میں بھی لے سکتے ہیں۔ سرمایہ دارانہ بنیادوں پر پاکستانی صنعت کو ترقی کے رستے پر گامزن کرنا تو بہت دور کی بات ان بند ہوتی صنعتوں کو بھی نہیں روکا جاسکتا۔ آج سرمایہ داری صنعت کو مزید ترقی دینے کی بجائے پہلے سے موجود پیداواری قوتوں کو تباہ کر رہی ہے۔ یہ ان محنت کشوں کی بقا کا مسئلہ ہے جو یہ تمام دولت پیدا کرتے ہیں۔ بند ہونے والی ان تمام صنعتوں کو نیشنلائز کرتے ہوئے مزدوروں کے جمہوری کنٹرول کے ذریعے آج بھی بہترین انداز میں چلایا جاسکتا ہے۔اور درحقیقت تمام کلیدی صنعتوں کو محنت کشوں کے جمہوری کنٹرول میں چلاتے ہوئے ہی ترقی دی جا سکتی ہے اور معیشت کو عوام کی فلاح و بہبود کی جانب گامزن کیا جاسکتا ہے۔ چھ چھ گھنٹے کی شفٹوں سے جہاں کام کے اوقات کار میں کمی ہوگی وہیں بیروزگاری کا خاتمہ بھی کیا جاسکے گا۔ صنعت کو جدید تقاضوں کے مطابق ہم آہنگ کیا جائے گا تاکہ سماج کی ضروریات کو پورا کیاجاسکے۔ ایسا صرف اور صرف ایک منصوبہ بند معیشت میں ہی ممکن ہے۔ ایک مزدور انقلاب کے ذریعے ہی اس کو حقیقت کا روپ دیا جاسکتا ہے۔