|تحریر: ولید خان|
دو مرتبہ مؤخر کرنے کے بعد بالآخر بجٹ کے نام پر جھوٹ، فریب اور محنت کش عوام کے معاشی قتل عام کا اعلان ”بجٹ 2024-25ء“ کے نام سے کر دیا گیا۔ 18 ہزار 877 ارب روپے کے کل وفاقی بجٹ میں 12 ہزار 970 ارب روپے کی ٹیکس آمدن (40 فیصد اضافہ) اور 4800 ارب روپے کی غیر ٹیکس آمدن (جو کہ زیادہ تر مختلف اقسام کی لیوی اور سرچارجز پر مبنی ہوتی ہے) کا ہدف رکھا گیا ہے۔ آمدن میں سے صوبوں کو ان کا حصہ دینے کے بعد وفاق کے پاس 10 ہزار 377 ارب روپے بچیں گے اور اس خسارے کو پورا کرنے کے لیے 7 ہزار 804 ارب روپے کے نئے قرضہ جات حاصل کیے جائیں گے جبکہ 696 ارب روپے کی دیگر ذرائع اور عوامی اداروں کی نجکاری کے ذریعے وصولی کی جائے گی۔
اخراجات میں سب سے بڑا خرچہ 9 ہزار 775 ارب روپیہ اندرونی اور بیرونی قرضہ جات کے سود کی واپسی ہے (جو کل بجٹ کا 50 فیصد سے زیادہ بنتا ہے) جبکہ فوجی پنشنوں، سپلیمنٹری گرانٹس اور متفرق اخراجات ملا کر تقریباً 3100 ارب روپے ”دفاع“ کے لیے مختص کیے گئے ہیں۔ 1 ہزار 674 ارب ترقیاتی اخراجات (جن میں بجٹ کے چند روز بعد ہی حکومت نے بڑی کمی کا اعلان کر دیا ہے) اور ادارہ جاتی قرضہ جات، 1 ہزار 363 ارب کی سبسڈیاں، 1 ہزار 152 ارب حکومتی اور دیگر اخراجات (پارلیمنٹ، صدارتی اور وزیراعظم محل اخراجات میں 30 فیصد اضافہ) اور 350 ارب روپیہ پنشن (660 ارب روپے کی فوجی پنشن کے علاوہ) کی مد میں رکھا گیا ہے۔ ترقی کی شرح نمو 3.6 فیصد، ممکنہ افراط زر 12 فیصد اور ممکنہ بجٹ خسارہ GDP کا 6.9 فیصد رکھا گیا ہے۔ سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں 22-25 فیصد اضافہ (رننگ بیسک پے پر) اور پنشنوں میں 15 فیصد اضافہ رکھا گیا ہے جبکہ کم از کم اجرت 37 ہزار روپیہ مقرر کی گئی ہے۔
سرسری نظر ڈالنے پر بھی اندازہ ہو جاتا ہے کہ اس بجٹ کی اوقات اس کاغذ برابر بھی نہیں جس پر چھاپ کر یہ ردی پارلیمنٹ میں پیش کی گئی ہے۔ وزیر خزانہ بجٹ تقریر کے بعد ہر ٹی وی چینل پر بیٹھا انٹرویو دیتا پھر رہا ہے کہ یہ بجٹ IMF کی تمام تر لاگو کردہ شرائط کے عین مطابق ہے۔ یاد رہے کہ پچھلے مہینے IMF کی سٹاف لیول ٹیم 11 دن اسلام آباد میں بیٹھ کر بجٹ کے ایک ایک پیراگراف، شق اور فل سٹاپ کی ڈکٹیشن دیتی رہی ہے تاکہ جولائی میں ممکنہ 6 ارب ڈالر کا نیا قرض معاہدہ کیا جا سکے۔
دوسری طرف عوام پر سوائے سانس کے ہر چیز پر ٹیکس لگایا جا چکا ہے جس میں بچوں کے دودھ سے لے کر اسکول کی پنسل تک 7 ہزار سے زائد بنیادی اشیاء شامل ہیں۔ یاد رہے کہ پاکستان میں کل ٹیکس آمدن کا تقریباً دو تہائی محنت کش عوام پر لادے جانے والے بالواسطہ ٹیکسوں سے حاصل ہوتا ہے جبکہ بقیہ ایک تہائی براہ راست ٹیکسوں کا ایک بڑا حصہ بھی تنخواہ دار درمیانے طبقے پر عائد انکم ٹیکس اور چھوٹے کاروبار کو نشانہ بنانے والے ود ہولڈنگ ٹیکس سے آتا ہے۔
مالی سال 24-25ء میں ٹیکس اہداف میں 3 ہزار 200 ارب روپے کا اضافہ رکھا گیا ہے جس میں 52 فیصد محنت کش عوام پر بالواسطہ ٹیکس ہیں جبکہ بقیہ اضافے کا ایک بڑا حصہ بھی تنخواہ دار درمیانے طبقے پر عائد انکم ٹیکس میں اضافے سے حاصل کیا جائے گا۔ پیٹرول لیوی میں 20 روپیہ اضافہ، بجلی کے بیس لائن ریٹ میں 5.72 فی یونٹ اضافہ اور ہر سلیب پر فکسڈ ٹیکس لگا دیا گیا ہے۔ GST (جنرل سیلز ٹیکس) کو 18 فیصد سے بڑھا کر 19 فیصد کرنے کی تجویز ہے۔
خبروں کے مطابق بجٹ ڈالر کی قدر 330 روپے رکھ کر بنایا گیا ہے۔ تمام تر ٹیکس اقدامات کے باوجود ابھی سے معیشت دان اور تجزیہ نگار عندیہ دے رہے ہیں کہ موجودہ اقدامات سے ٹیکس آمدن کا ہدف کسی صورت حاصل نہیں ہو گا اور مالی سال 24-25ء میں ہر دو سے ڈھائی مہینے کے بعد ایک منی بجٹ آئے گا جن کے ذریعے تقریباً 850 ارب روپے کے نئے ٹیکس عوام پر لگیں گے۔
پچھلے سال کا بجٹ خسارہ تقریباً 8 ہزار 500 ارب رہا ہے۔ اگر یہ اس مالی سال ایک روپیہ بھی نہیں بڑھتا اور اتنا ہی رہتا ہے تو بھی اندرونی اور بیرونی قرضہ جات اور سود کی ادائیگی اور عسکری و ریاستی اخراجات وغیرہ کے بعد درحقیقت عوام کے لیے ایک آنا بھی نہیں بچتا۔ یعنی عوام کی جیب پر ہزاروں ارب روپے کا ٹیکس ڈاکہ ڈالنے کے بعد عوام کو صحت، تعلیم، روزگار اور دیگر سماجی سہولیات میں سے کچھ نہیں ملے گا بلکہ ان تمام بنیادی ضروریات کے بجٹ میں بڑی کٹوتی اور عوامی اداروں کی لوٹ سیل لگائی جا رہی ہے۔
سب سے بڑا فریب یہ ہے کہ اس وقت اس بجٹ کے لیے ایک آنا بھی حکومتی خزانے میں موجود نہیں ہے اور بھاری نئے قرضہ جات اٹھانے کی منصوبہ بندی کی جا رہی ہے۔ اس لیے ترقیاتی بجٹ، سماجی اخراجات کی مد، انفراسٹرکچر کے حوالے سے بلند و بانگ دعوے سب جھوٹ کا پلندہ ہیں جن کا حقیقی دنیا سے کوئی تعلق نہیں۔
خوف سے لرزتی، کانپتی ریاست
بجٹ کو دو مرتبہ مؤخر اس لیے کیا گیا کیونکہ اسلام آباد میں بیٹھی عوام دشمن مکار ریاستی مشینری اور حکمرانوں کو سمجھ ہی نہیں آ رہی تھی کہ اس مرتبہ جھوٹ کیسے پیش کیا جائے۔ قومی خزانے میں 9 ارب ڈالر مختلف ممالک اور بینکوں سے حاصل کردہ قرضہ پڑا ہوا ہے (زیادہ تر ڈیپازٹ سپورٹ قرضے) جسے ہاتھ نہیں لگایا جا سکتا۔ مالی سال 23-24ء میں 25 ارب ڈالر بیرونی قرضہ جات کے اصل زر اور سود کی مد میں واپس کرنے کے باوجود ملک کا کل بیرونی قرضہ 130 ارب ڈالر سے زائد ہو چکا ہے۔ مالی سال 24-25ء میں بیرونی قرض ادائیگیوں کے لیے تقریباً 28 ارب ڈالر چاہیے ہوں گے۔
بعض سنجیدہ بورژوا معیشت دانوں کے مطابق مالی سال 2021-22ء سے اب تک سالانہ اوسط افراطِ زر 59 فیصد اور اشیائے خوردونوش میں 69 فیصد رہی ہے۔ نوجوانوں میں بیروزگاری کی شرح 17 فیصد سے تجاوز کر چکی ہے اور خط غربت سے نیچے رہنے والے افراد کی تعداد 10 کروڑ 50 لاکھ سے تجاوز کر چکی ہے۔ مالی سال 23-24ء میں ترقی کی سالانہ شرح نمو 0.2 فیصد رہی ہے جسے معجزاتی طور پر 2.4 فیصد بنا کر پیش کیا جا رہا ہے۔
لیکن محنت کش عوام اپنے روزمرہ تجربے سے جانتی ہے کہ وہ پچھلے پانچ سالوں میں معاشی بحران کی قیمت کس طرح روز ہوئی بڑھتی بھوک، بیماری، افلاس، خودکشیوں، جرائم میں اضافے اور دیگر سماجی تباہ حالی کے ذریعے ادا کر رہے ہیں۔ ایسے حالات میں بجٹ کی صورت میں عوام کو ”ملک و قوم کے وسیع تر مفاد میں قربانی“ کے نام پر مزید اموات اور ذلت و رسوائی کا پروانہ پیش کیا جا رہا ہے۔
بجٹ کے اعلان سے کئی مہینوں پہلے ہی ریاست کی لونڈی کارپوریٹ میڈیا پر سابق سیکرٹریوں، معیشت دانوں، تجزیہ نگاروں، سیاست دانوں اور ریاستی دلالوں کی بھرمار کر دی گئی جنہوں نے سرمایہ دارانہ معاشی بحران اور حکمران اشرافیہ کی لوٹ کھسوٹ کا سارا الزام محنت کش عوام کے سر ڈالتے ہوئے IMF قرض پروگرام، نجکاری، بیرونی سرمایہ کاری، ”کفایت شعاری“، کٹوتیوں اور عوام کے معاشی قتل عام کے دیگر نسخے بتانے شروع کر دیے۔
نجکاری کو ناگزیر قرار دیا جا رہا ہے اور معیشت کو دھکا سٹارٹ کرنے کے لیے سرمایہ داروں کے لیے پھر ٹیکس چھوٹ، ٹیکس معافی، سبسڈیاں اور مراعات کا منجن بیچا جا رہا ہے۔ یہاں یاد رہے کہ حکومت پہلے ہی ملکی و غیر ملکی سرمایہ دار طبقے اور ریاستی اشرافیہ کو 4000 ارب روپے سالانہ کی معاشی مراعات دیتی ہے۔ مزید برآں یہ بھی کوئی نہیں بتاتا کہ پچھلے 30 سالوں میں نجکاری، بیرونی سرمایہ کاری اور سرمایہ دار طبقے کو مسلسل مراعات دینے کے باوجود ریاستی قرضہ کیوں بڑھ رہا ہے، بیروزگاری کیوں بے قابو ہے، غریب غریب تر اور امیر امیر تر کیوں ہو رہا ہے جبکہ قربانی کا سارا بوجھ کس لیے ایک ایسی عوام پر ڈالا جاتا ہے جو نہ فیصلہ سازی میں شامل ہے اور نہ ہی ان ناکامیوں اور بحران کا سبب ہے۔
اگر قومی خزانے پر بوجھ بننا ہی نجکاری کا پیمانہ ہے تو پھر فوج، عدلیہ، پارلیمنٹ، بیوروکریسی وغیرہ جیسی ناکارہ اور نقصان دہ دیوہیکل ریاستی مشینری کو سب سے پہلے کیوں نہیں بیچ دیا جاتا۔ تمام سیاسی پارٹیوں اور مقتدرہ ریاستی قوتوں کا ایک ہی ایجنڈہ ہے کہ کسی طرح IMF کا قرض پروگرام حاصل کر لیا جائے، اس سامراجی لوٹ مار میں اپنی دلالی کے بدلے مراعات حاصل کر لی جائیں اور لوٹ کا مال بیرون ملک منتقل کر دیا جائے۔
معاشی بحران، سیاسی و ریاستی انتشار اور عوامی تحریک کے خوف نے حکمران طبقے کو حواس باختہ کر رکھا ہے اور وہ خود اپنے اوپر اور اس ریاست پر اعتماد کھو بیٹھا ہے۔ بجٹ سے پہلے دبئی میں 17 ہزار سے زائد پاکستانیوں کی 12 ارب ڈالر سے زیادہ کی پراپرٹیوں کا انکشاف اسی حقیقت کا اظہار ہے۔ فوجی جرنیلوں، اعلیٰ عدلیہ کے ججوں، بیوروکریٹوں، سرمایہ داروں، جاگیرداروں یہاں تک کہ تھانہ انچارج اور پٹواریوں تک اب کوئی اس ملک میں رہنے کو تیار نہیں ہے اور سب کے بیوی بچے اور مال باہر پڑے ہیں۔ جس دن ان میں سے کسی کی ملازمت ختم ہوتی ہے، اسی شام کی فلائیٹ سے بقیہ عمر لوٹی ہوئی دولت گننے اور عیاشی کرنے کے لیے بیرون ملک پہنچ جاتے ہیں۔
اس کے ساتھ حکمران طبقہ اور ریاستی مشینری اب سمجھ چکی ہے کہ قوم پرستی سے لے کر مذہب، نسل پرستی سے لے کر لسانیت تک اب کوئی ایسا چورن نہیں بچا رہ گیا جو اس معاشی بربادی میں عوام کو منقسم رکھنے کے کام آ سکے۔ اب ہر ڈکیتی، عیاشی، کرپشن، امارت اور مراعات کی ہر خبر، ہر داستان اور ہر انکشاف کے بعد عوام حکمرانوں کے رہن سہن کا اپنی حالت زار سے موازنہ کرتی ہے اور اس کا غم و غصہ اور نفرت ہر لمحے کئی گنا بڑھتا جاتا ہے۔ اس کا اظہار گلگت بلتستان، کشمیر اور بلوچستان کی حالیہ عوامی تحریکوں میں دیکھا جا سکتا ہے۔
ایسے میں انتہائی مضحکہ خیز لمحہ بجٹ کے بعد وزیراعظم کی تقریر تھی جس میں موصوف نے روتے اور سینہ کوبی کرتے ہوئے ٹی وی پر بس ناک نہیں رگڑی۔ آدھی تقریر عوام سے منتیں کرتے گزر گئی کہ بس سڑکوں پر نہ آؤ اور کسی طرح بہتر مستقبل کے بہکاوے پر یقین رکھو۔ اس گھٹیا اور تھرڈ کلاس اداکاری میں بھی ہولناک سفاکی چھپی ہوئی ہے کہ مزید لوٹ مار کرنے، محنت کش طبقے کو مزید نچوڑنے اور اپنے طبقے کی کئی سو کھربوں روپے کی دولت میں مزید اضافے کے لیے غلیظ چورن بیچنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔
لیکن اب عوام کا ہر سیاسی پارٹی اور ہر ریاستی ادارے سے اعتماد اٹھ چکا ہے۔ اب ہر ذہن میں اور ہر زبان پر ایک ہی سوال ہے کہ آخر ہم ہی کیوں؟ ان امراء کی دولت کم کیوں نہیں ہو رہی، ہر قیمت ہم کیوں ادا کر رہے ہیں، ہمارے بچے مر رہے ہیں اور ان کے بچے محلوں میں بیٹھے ہیں، ہمارے پاس کھانے کو روٹی نہیں اور ان کی دولت کا کوئی شمار نہیں۔ اگر مرنا ہی ہے تو کیوں نہ ان سب کو بھی ساتھ لے چلیں؟
دیوہیکل عوامی تحریکوں کا دور
صوبوں میں مختلف سیاسی پارٹیوں کی حکومت ہے اور مرکز میں تمام پارٹیاں بجٹ کی حمایت میں ہیں۔ جو نہیں ہیں، ان کی مراعات اور عیاشیوں کے لیے نورا کشتی بھی سب پر واضح ہو چکی ہے۔ ایسے میں محنت کشوں کے اپنے روایتی پلیٹ فارم یعنی ٹریڈ یونینز کی مراعات یافتہ قیادت غلیظ ترین طبقاتی غداری کا ثبوت دے رہی ہیں۔ اس بجٹ پر کہیں سے مزاحمت کی کوئی آواز نہیں اٹھی، کہیں سے کوئی علم بغاوت بلند نہیں ہوا۔ جہاں سے چند ایک کوششیں ہوئی ہیں وہ بھی بددل اور حجت تمام ہیں۔
بجٹ کا متبادل کوئی بجٹ، سرمایہ دارانہ نظام کا متبادل کوئی نظام اور سب سے بڑھ کر عوامی مزاحمت کا کوئی پروگرام کسی ٹریڈ یونین قیادت نے پیش نہیں کیا۔ یہاں تک کہ اس بے غیرت اور بانجھ قیادت نے اپنے ہی اداروں کی اعلان کردہ نجکاری تک پر کوئی ردعمل نہیں دیا! لیکن کئی سالوں کی مسلسل ذلت و رسوائی کے بعد جو بجٹ آج لاگو کیا جا رہا ہے وہ محنت کش عوام کے لیے صرف کمر توڑ نہیں بلکہ موت کا پروانہ ہے۔ یہ محنت کشوں کو مجبور کر رہا ہے کہ روایتی ٹریڈ یونینز کی غدار قیادتوں کو ملیامیٹ کرتے ہوئے نئی لڑاکا قیادت تراشی جائے۔ نئے لڑاکا پلیٹ فارمز تشکیل دیے جائیں اور جدوجہد کو آگے بڑھایا جائے۔
گلگت بلتستان اور کشمیر کی حالیہ تحریکیں خاص طور پر اس مستقبل کا اشارہ ہیں۔ وہاں پر بھی تمام سیاسی پارٹیاں ریاست کی آشیر باد میں عوام پر مسلط تھیں۔ عوام نے ان سیاسی پارٹیوں اور دیگر پلیٹ فارموں سے مکمل منحرف ہو کر عوامی ایکشن کمیٹیاں تشکیل دیں جنہوں نے نسل، زبان، مذہب غرضیکہ ہر تفریق سے بالاتر ہو کر انتہائی شاندار عوامی تحریکیں منظم کیں اور گندم سبسڈی کی بحالی اور بجلی کی قیمت میں کمی جیسی ولولہ انگیز فتوحات حاصل کیں۔
ایک طرف ریاست کی طرف سے مسلط کردہ 76 سال کے جھوٹے قومی نظریات کا پردہ چاک ہو چکا ہے اور دوسری طرف عوام کو کنٹرول کرنے کے لیے رائج الوقت سیاسی پارٹیوں اور ٹریڈ یونین اشرافیہ کے اوزار ناکارہ ہو چکے ہیں۔ اس لیے یہ بجٹ دو مرتبہ مؤخر کیا گیا کیونکہ ریاست کو اپنے اوپر یہ اعتماد تک نہیں تھا کہ بجٹ پیش کرنے کے نتیجے میں اگر عوام بپھر گئے تو ہم کیا کریں گے۔ لیکن عوامی خاموشی کا مطلب ہرگز یہ نہیں ہے کہ طوفان ٹل گیا ہے بلکہ اس کی تاخیر میں ہی اس کی وسعت اور دیوہیکل قوت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔
گلگت اور کشمیر کی عوامی تحریکوں نے پورے پاکستان کے محنت کشوں، نوجوانوں، عوام اور خاص طور پر انقلابی سیاست کے سرگرم کارکنوں کو ہمت و حوصلہ فراہم کیا ہے کہ عوامی قوت کے ذریعے لڑا جا سکتا ہے، جیتا جا سکتا ہے اور سامنے کتنی ہی بندوقیں کیوں نہ ہوں، ریاست کی کمر توڑ کر اسے سجدہ ریز کیا جا سکتا ہے۔
وقت آ گیا ہے کہ محنت کش اپنی ٹریڈ یونین قیادت پر اس خوفناک عوام دشمن بجٹ اور بے قابو مہنگائی کے خلاف اور اپنی مراعات میں اضافے کے لیے جدوجہد کرنے کے لیے دباؤ ڈالیں ورنہ ان کا حقیقی لڑاکا متبادل بن کر سامنے آئیں۔ جن فیکٹریوں اور عوامی اداروں میں ٹریڈ یونینز اور ایسوسی ایشنز موجود نہیں ہیں ان میں نئے لڑاکا پلیٹ فارمز اور کمیٹیاں تشکیل دی جائیں۔
اسی طرح نوجوانوں کو یونیورسٹیوں اور کالجوں میں منظم ہونا ہو گا، کسانوں کو کھیتوں اور کھلیانوں کو میدان عمل بنانا ہو گا اور عوام کو اپنے کام کی جگہوں، گلی محلوں، چوکوں اور بازاروں میں منظم ہونا ہو گا۔ محنت کش عوام کی یہ دیوہیکل اور اجتماعی قوت منظم اور متحد ہو کر ہی اس ریاست، ریاستی اشرافیہ، سرمایہ دار طبقے اور عالمی سامراجی قوتوں کو منہ توڑ جواب دے سکتی ہے۔ اس کے لیے محنت کش عوام کا سب سے بڑا اور سب سے طاقت ور اوزار ملک گیر عام ہڑتال ہے جس کے ذریعے محنت کش طبقہ اس سماج و معیشت کاپہیہ روک کر حکمران طبقے کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کر سکتا ہے۔
اس کے لیے محنت کش طبقے اور نوجوانوں کو انقلابی نظریات اور انقلابی پروگرام سے لیس ہونا ہو گا جو اس سیاست، ریاست، معیشت اور سماج کا متبادل بنیں۔ یہ کام کمیونسٹ نظریات کے ذریعے ہی ممکن ہے۔ انقلابی کمیونسٹ پارٹی اسی طبقاتی جدوجہد اور سوشلسٹ انقلاب کے لیے جرات مندی سے آگے بڑھ رہی ہے اور تمام انقلابی محنت کشوں، نوجوانوں، کسانوں اور عوام کو دعوت دیتی ہے کہ اس عظیم تاریخی جدوجہد کا حصہ بنیں۔