|تحریر: آفتاب اشرف|
حال ہی میں پیش کیے جانے والے وفاقی بجٹ21-2020ء میں کچھ بھی ایسا نہیں تھا جو اس ملک کے محنت کشوں، غریب کسانوں، طلبہ اور بائیں بازو کے کارکنان کے لیے حیران کن ہو۔ ماضی کے ہر بجٹ کی طرح عالمی سامراجی مالیاتی اداروں کے گماشتہ حکمرانوں اور ریاستی اشرافیہ کی جانب سے پیش کیے گئے اس بجٹ میں بھی ملکی و غیر ملکی سرمایہ داروں کو کھل کر نوازا گیا ہے جبکہ محنت کش عوام کے لیے یہ محض استحصال، لوٹ کھسوٹ، غربت، مہنگائی، بیروزگاری، نجکاری، لاعلاجی، ناخواندگی اور بے گھری میں اضافے کا ایک پروانہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ محنت کش طبقے کی ایک بڑی اکثریت نے بجٹ پیش کیے جانے کے سارے عمل میں کوئی خاص دلچسپی نہیں لی۔ یہ امر در اصل اس حقیقت کی غمازی کرتا ہے کہ عوامی شعوراس نہج پر پہنچ چکا ہے جہاں پر محنت کش عوام نے موجودہ نظام، ریاست اور حکمران اشرافیہ سے کسی بھی قسم کی بہتری کی امید رکھنا ہی چھوڑ دی ہے۔ مگر دوسری طرف یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ جن ملکی و عالمی حالات میں یہ بجٹ پیش کیا گیا ہے، وہ یقینا انتہائی غیر معمولی ہیں۔ کرونا کی حالیہ وبا وہ آخری مقداری دھچکا ثابت ہوئی ہے جس نے2008ء کے بحران کے بعد سے مصنوعی سہاروں کے ذریعے گھسٹتی تاریخی متروکیت کا شکار عالمی سرمایہ داری کے تمام تر تضادات کو پھاڑ تے ہوئے ایک معیاری تبدیلی کو جنم دیا ہے اور آج سرمایہ دارانہ نظام عالمی سطح پر اپنی تاریخ کے سب بڑے اور گہرے بحران کا شکار ہو چکا ہے۔ امریکہ سے لے کر چین اور یورپی یونین سے لے کر نام نہاد ابھرتی معیشتوں تک، دنیا کا کوئی سماج ایسا نہیں جس میں سرمایہ داری کے اس گہرے نامیاتی بحران کے شدید معاشی، سماجی و سیاسی اثرات مرتب نہ ہو رہے ہوں۔ دنیا کے ترقی یافتہ ترین سرمایہ دارانہ ممالک کا حکمران طبقہ بھی اس بحران کا سارا بوجھ محنت کشوں کے کندھوں پر منتقل کرنے کے لیے ان پر شدید معاشی حملے کر رہا ہے جس کا ایک اندازہ اس امر سے لگایا جا سکتا ہے کہ پچھلے تین ماہ میں امریکہ میں حکومت کے پاس رجسٹرڈ بیروزگاروں کی تعداد میں تقریباً ساڑھے 4 کروڑ افراد کااضافہ ہوا ہے۔ جبکہ دوسری طرف امریکی حکومت کی جانب سے دیے جانے والے دو ہزار ارب ڈالر کے معاشی پیکج کا ایک بڑا حصہ سرمایہ دار طبقے کی جیبوں میں جا رہا ہے اور یہی وجہ ہے کہ جہاں اس بحران میں امریکہ کے محنت کشوں کی زندگیاں اور روزگار برباد ہو رہے ہیں وہیں امریکی ارب پتیوں کی دولت میں بے تحاشا اضافہ ہو رہا ہے۔
ایسے میں پاکستان کی قرضوں میں جکڑی پسماندہ سرمایہ داری اور سامراجی گماشتہ حکمرانوں و ریاستی اشرافیہ سے عوامی بھلائی کی ذرا سی امید رکھنا بھی سراسر حماقت کے زمرے میں آتا ہے۔ واضح رہے کہ بجٹ سے پہلے بھی حکومت 1200 ارب روپے کے ایک معاشی ریلیف پیکج کا اعلان کر چکی تھی جس کا ایک بہت بڑا حصہ سرمایہ داروں کی جیبوں میں گیا ہے۔ اس کے علاوہ انہیں ٹیکس چھوٹ، قرض واپسی میں سہولت کاری، اسٹیٹ بنک کی طرف سے سستے قرضوں کی فراہمی اور اس جیسی دیگر کئی مراعات سے بھی نوازا گیا ہے۔ اسی طرح، کنسٹرکشن سیکٹر کے لیے بھی ایک خصوصی اسکیم کا اعلان کیا گیا تھا جس کے تحت اس سیکٹر میں سرمایہ کاری کرنے والوں سے آمدن کے ذرائع کے متعلق کوئی پوچھ گچھ نہیں کی جائے گی یعنی دوسرے الفاظ میں سرمایہ داروں کو اپنے کالے دھن کو سفید کرنے کا ایک کھلا موقع فراہم کیا گیا ہے۔ جبکہ دوسری طرف اسی تمام عرصے میں سرمایہ داروں نے بھر پور ریاستی آشیر باد کے ساتھ نہ صرف لاکھوں مزدوروں کو جبری طور پر بر طرف کیا ہے بلکہ بیروزگاری کے سیلاب کا فائدہ اٹھاتے ہوئے اجرتوں میں زبردست کٹوتی اور اوقات کار میں اضافہ بھی کر دیا ہے۔ حکومت نے بھی موقع کو غنیمت جانتے ہوئے سرکاری ہسپتالوں سے لے کر اسٹیل مل تک، عوامی اداروں کی فاسٹ ٹریک نجکاری اور زبردست ڈاؤن سائزنگ کا سلسلہ شروع کر رکھا ہے۔ وفاقی بجٹ 21-2020ء بھی محنت کش عوام پر پہلے سے جاری معاشی حملوں کی ہی ایک کڑی ہے جس کا ہر ایک فیصلہ سرمایہ داروں اور ریاستی اشرافیہ کو نوازنے اور محنت کش طبقے کا خون نچوڑنے کی غرض سے مرتب کیا گیا ہے۔ آئیے، طبقاتی نقطہ نظر سے اس مزدور دشمن بجٹ کے عمومی خدوخال کا ایک جائزہ لیتے ہیں۔
وفاقی بجٹ 21-2020ء کا حجم7136ارب روپے ہے جو کہ مالی سال 20-2019ء کے بجٹ سے 11فیصد کم ہے۔ بجٹ میں کل حکومتی آمدن کا ہدف 6573 ارب روپے رکھا گیا ہے جس میں سے 5464 ارب روپے کی ٹیکس آمدن ہے جبکہ 1100 ارب روپے کی غیر ٹیکس آمدن ہے۔ کل ٹیکس آمدن میں سے 4963ارب روپے کی ٹیکس آمدن ایف بی آرکے ذریعے اکٹھی کی جائے گی جبکہ 500 ارب روپے کی ٹیکس آمدن دیگر ذرائع سے اکٹھی کی جائے گی۔ صوبوں کو ان کے حصے کی 2874 ارب روپیہ آمدن ٹرانسفر کرنے کے بعدوفاق کے پاس لگ بھگ 3700 ارب روپے کی آمدن بچے گی جس میں اگر ہم 242 ارب روپے کی وہ رقم بھی شامل کر لیں جو صوبے ”بچت“ کر کے سرپلس کی صورت میں وفاق کو لوٹائیں گے تو بھی وفاق کے پاس تمام اخراجات پورے کرنے کے لیے کل3942ارب روپے کی رقم ہو گی۔ اس کا سیدھا سا مطلب یہ ہے کہ بجٹ خسارہ تقریباً 3200 ارب روپے ہو گا جو کہ جی ڈی پی کے 7 فیصد کے برابر ہے۔ اس بجٹ خسارے کو پورا کرنے کے لیے تقریباً 2400 ارب روپے کے نئے اندرونی قرضے جبکہ 810 ارب روپے (فارن کرنسی میں) کے نئے بیرونی قرضے لیے جائیں گے۔ اس کے ساتھ ساتھ 100 ارب روپیہ عوامی اداروں کی نجکاری کے ذریعے حاصل کیا جائے گا۔
اب یہ تو ساری وہ تصویر ہے جو سرکاری بجٹ دستاویزات سے ہمیں ملتی ہے لیکن دراصل یہ تمام تخمینے زمینی حقائق سے کوسوں دور ہیں۔ مثال کے طور پر ایک ایسے وقت میں جب عالمی معیشت شدید بحران کا شکار ہو اور ملکی جی ڈی پی کا گروتھ ریٹ بھی منفی 0.4 فیصد ہو، ٹیکس آمدن کے یہ اہداف حاصل کرنا بالکل ناممکن ہے۔ اس کی ایک واضح مثال ہم مالی سال 20-2019ء کے پہلے 9ماہ سے ہی لے سکتے ہیں جب بالواسطہ ٹیکسوں کی شرح میں بے تحاشا اضافے اور آئی ایم ایف کے احکامات پر عوام کی کمر توڑنے کے باوجود بھی حکومت اپنے ٹیکس آمدن کے اہداف کو پورا کرنے میں بری طرح ناکام رہی اور نتیجتاً آئی ایم ایف کی منتیں کرنے کے بعد ایف بی آر کا ٹیکس آمدن کا ہدف پہلے 5500 ارب روپے سے کم کر کے 4900 ارب روپے کیا گیا اور پھر کرونا وبا اور عالمی معاشی بحران کے باقاعدہ آغاز کے بعد اسے 3900 ارب روپیہ کر دیا گیا۔ لہٰذا مالی سال 21-2020ء میں بھی ٹیکس آمدن کا ٹارگٹ پورا کرنے میں بڑے پیمانے کی ناکامی پتھر پر لکیر ہے۔ مگر اس کا یہ مطلب ہر گز نہیں کہ اس ساری صورتحال سے محنت کش عوام کو کوئی بھی ریلیف مل سکے گا۔ واضح رہے کہ ایف بی آر کی ٹیکس آمدن کا 60فیصد بالواسطہ ٹیکسوں سے اکٹھا ہوتا ہے جو کہ حتمی تجزئیے میں عوام کی ہی پیٹھ پر لادے جاتے ہیں۔ اسی طرح، براہ راست ٹیکس آمدن کا بھی ایک بڑا حصہ تنخواہ دار درمیانے طبقے پر عائد انکم ٹیکس اور بینک سے رقوم نکلوانے پر عائد ود ہولڈنگ ٹیکس سے آتا ہے جس سے خاص طور پر چھوٹے تاجر اور کاروباری متاثر ہوتے ہیں۔ لہٰذا حتمی طور پر ٹیکس آمدن جتنی بھی ہو اس کا ایک بھاری حصہ محنت کش عوام اور درمیانے طبقے کو نچوڑ کر ہی حاصل کیا جائے گا۔
تو پھر کیا حکومت جھوٹ بول رہی ہے کہ یہ ایک ”ٹیکس فری“ بجٹ ہے؟ نہیں، ایسا ہر گز نہیں ہے۔ حکومت بالکل درست کہہ رہی ہے کہ یہ ایک ٹیکس فری بجٹ ہے لیکن صرف امیروں کے لیے۔ بجٹ میں بڑے کاروبار اور صنعتوں پر عائد ہونے والے کارپوریٹ ٹیکس، کیپیٹل گینز ٹیکس میں کوئی اضافہ نہیں کیا گیا اور نہ ہی امرا ء پر لگنے والے ویلتھ ٹیکس کو واپس عائد کیا گیا ہے۔ اسی طرح، مسلح افواج کی 50 ارب ڈالر سے زائد مالیت کی بزنس ایمپائر بھی ہمیشہ کی طرح ٹیکس فری ہے۔ امراء پر ٹیکس لگانا یا اس میں اضافہ کرنا تو دور کی بات الٹا بڑے کاروباروں اور خصوصاً صنعتوں کو بڑے پیمانے پر ٹیکس چھوٹ سے نوازا گیا ہے۔ مثلاًصنعتوں کے لیے درکار درآمدی خام مال کی 1600 سے زائد ٹیرف لائنزکو کسٹم ڈیوٹی سے مستثنیٰ کر دیا گیا ہے۔ ان ٹیرف لائنز میں تقریباً بیس ہزار کے قریب اشیاء شامل ہیں جو کہ ملک کی کل غیر زرعی در آمدات کا20فیصد بنتی ہیں۔ اسی طرح، مزید 290 ٹیرف لائنز پر کسٹم ڈیوٹی میں بڑی کمی کی گئی ہے۔ ان اقدامات سے بے شمار صنعتوں کی لاگت پیداوار میں نمایاں کمی واقع ہو گی یعنی دوسرے الفاظ میں ان صنعتوں کے مالکان کے منافعوں میں ہوش ربا اضافہ ہو گا۔ اسی طرح، اسٹیل ملز کی نجکاری کرنے والی سامراجی گماشتہ حکومت نے اسٹیل امپورٹرز کو نوازنے کے لیے ہاٹ رولڈ کوائلز پر عائد 12.5 فیصد ریگولیٹری ڈیوٹی کو کم کر کے 6فیصد کر دیا ہے جس کے نتیجے میں اسٹیل امپورٹرز کے ساتھ ساتھ دیگر بے شمار صنعتوں کے مالکان کی بھی چاندی ہو جائے گی۔ اسی طرح پرچون کے بڑے تاجروں کو فائدہ پہنچانے کے لیے معیشت کی ڈاکومینٹیشن کے نام پران پر عائد سیلز ٹیکس میں 2 فیصد کی کمی کی گئی ہے بشرطیکہ وہ ایف بی آر کے ساتھ رجسٹر ہو جائیں۔ لیکن سب جانتے ہیں کہ وہ اس ٹیکس چھوٹ کا بھر پور فائدہ بھی اٹھائیں گے اور کرپٹ ریاستی مشینری کی ملی بھگت کے ساتھ جعلی ڈاکومینٹیشن کے ذریعے ٹیکس چوری بھی جاری رکھیں گے۔ اسی طرح، صنعتکاروں کو فائدہ پہنچانے کے لیے ان کی اپنی فیکٹری کے استعمال کے لیے درآمد کیے جانے والے خام مال پر عائد3فیصد ویلیو ایڈڈ ٹیکس بھی ختم کر دیا گیا ہے۔ مزید برآں، کمرشل امپورٹرز اور صنعتکاروں کے لیے خام مال اور مشینری کی درآمد پر عائد ود ہولڈنگ ٹیکس کو5.5فیصد سے کم کر کے بالترتیب 2 اور 1 فیصد کر دیا گیا ہے۔ رئیل اسٹیٹ کے بڑے کھلاڑیوں کو فائدہ پہنچانے کے لیے خرید کے چار سال بعد پراپرٹی کی فروخت سے حاصل ہونے والی آمدن کو ٹیکس فری کر دیا گیا ہے۔ اس سے قبل کے عرصے میں فروخت پر عائد ہونے والے کیپیٹل گینز ٹیکس کی شرح میں بھی 25 فیصد کمی کی گئی ہے۔ ہمارے پاس یہاں جگہ نہیں ہے کہ ہم اس بجٹ میں سرمایہ داروں کو دی گئی ٹیکس چھوٹوں کا مکمل احاطہ کر سکیں لیکن آسان الفاظ میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ یہ ٹیکس چھوٹ قومی خزانے کو کھربوں روپے سالانہ کا نقصان پہنچائیں گی۔ ابھی واضح رہے کہ یہ ساری ٹیکس چھوٹ 1200 ارب روپے کی اس ٹیکس چھوٹ کے علاوہ ہے جو حکومت نے پچھلے عرصے میں سرمایہ دار طبقے کو دی تھی۔ لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ سرمایہ داروں کو دی جانے والی اس بے پناہ ٹیکس چھوٹ کی قیمت کون ادا کرنے گا؟ سادہ الفاظ میں یہ قیمت بالواسطہ ٹیکسوں سے لدے ہوئے کئی منی بجٹوں کی صورت میں ان محنت کش عوام سے ہی وصول کی جائے گی جن کی کمر پہلے ہی ٹیکسوں کے بوجھ تلے دوہری ہو رہی ہے۔ بلکہ یہ سلسلہ تو اس نام نہاد ٹیکس فری بجٹ سے ہی شروع ہو گیا ہے جس کی ایک واضح مثال یہ ہے کہ حکومت نے ایف بی آر کے علاوہ دیگر ذرائع سے حاصل ہونے والی ٹیکس آمدن کا ہدف 500 ارب روپے رکھا ہے جس میں سے 460 ارب روپے پیٹرولیم لیوی سے حاصل کیے جائیں گے جبکہ مالی سال 20-2019ء میں یہ رقم 260 ارب روپے تھی۔ یاد رہے کہ اس کی وجہ ملک میں پیٹرولیم مصنوعات کی کھپت میں اضافہ نہیں بلکہ پیٹرولیم لیوی میں ہوش ربا اضافہ ہے کیونکہ معاشی و صنعتی بحران کی وجہ سے ملک میں پیٹرولیم مصنوعات کی کھپت تو ماضی کی نسبت کم ہو رہی ہے۔ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ ایک تباہ حال معیشت میں حکومت عوام کے کندھوں پر اتنا زیادہ ٹیکس بوجھ لاد کر بھی ٹیکس آمدن کے اہداف پورے کرنے میں بری طرح ناکام ہو گی، لہٰذا حقیقی بجٹ خسارہ حکومتی تخمینے سے کہیں زیادہ ہو گا جس کے لیے حکومت کو تخمینے سے کہیں زیادہ اندرونی وبیرونی قرضہ جات اٹھانے پڑیں گے جن کی واپسی کے لیے پھر محنت کش طبقے کی ہی ہڈیوں سے رہا سہا گودا نچوڑا جائے گا۔
اگر ہم وفاقی بجٹ 21-2020ء کے حکومتی اخراجات پر ایک سرسری سی نظر بھی ڈالیں تو ہمیں اس سامراجی گماشتہ عوام دشمن حکمران طبقے اور ریاستی اشرافیہ کی ترجیحات کا بخوبی اندازہ ہو جاتا ہے۔ کل 7136 ارب روپے کے بجٹ میں تقریباً 2950 ارب روپے کی رقم تو صرف اندرونی و بیرونی قرضہ جات کے سود کی ادائیگی کے لیے مختص کی گئی ہے۔ واضح رہے کہ مالی سال 20-2019ء میں حکومت نے 2700 ارب روپے اندرونی و بیرونی قرضوں کی سود کی ادائیگی میں دیے جبکہ 1200 ارب روپے (فارن کرنسی میں) بیرونی قرضوں کے اصل زر کی واپسی میں ادا کیے۔ لیکن اس بار بجٹ میں بیرونی قرضوں کے اصل زر کی واپسی کی مد میں کوئی رقم نہیں رکھی گئی کیونکہ حکومت کا دعویٰ ہے کہ وہ مالی سال21-2020ء کے لیے ان قرضوں کے اصل زر کی واپسی کو مؤخر کروا لے گی۔ حال ہی میں پیرس کلب کے قرضوں کے حوالے سے حکومت کو اس معاملے میں کچھ کامیابی ملی بھی ہے۔ لیکن پاکستانی ریاست آئی ایم ایف، ورلڈ بینک اور اے ڈی بی سے لے کر مختلف کمرشل فارن بینکوں اور چین، سعودی عرب سے لے کر بے شمار دیگر ممالک کی مقروض ہے اور ایسا ہونا بہت مشکل ہے کہ یہ تمام قرض خواہ ہی پاکستان کو قرض واپسی میں لچک دکھانے پر رضامند ہو جائیں۔ اس لیے قوی امکان ہے کہ حکومت کو کچھ واجب الادا بیرونی قرضوں کا اصل زر واپس کرنا ہی پڑے گاجس سے ایک طرف تو حکومتی آمدن کا مزید حصہ قرض واپسی کی نذر ہو گا اور دوسری طرف ملک کے زر مبادلہ کے ذخائر پر بوجھ پڑے گا جو پہلے ہی مالی سال 20-2019ء کے اختتام تک 10.1 ارب ڈالر (اسٹیٹ بینک کے پاس) تک گر چکے ہیں اور نتیجتاً ایک ڈالر اس وقت165 روپے کا ہو چکا ہے یا بصورت دیگر حکومت کو تخمینے سے بڑھ کر مزید بیرونی قرضے اٹھانا پڑیں گے۔ یہ تمام وہ قرضے ہیں جنہیں نہ پاکستان کی عوام نے لیا اور نہ ہی یہ ان پر خرچ ہوئے لیکن ان کی اور ان کے سود کی واپسی کے لیے حکومت محنت کش عوام کی رگوں سے خون کا آخری قطرہ تک نچوڑنے کو تیار ہے۔
قرضوں اور ان کے سود کی واپسی کے بعد وفاقی حکومت کا دوسرا بڑا خرچہ نام نہاد دفاع پر ہوتا ہے۔ حالیہ بجٹ میں فوجی اخراجات کے لیے بظاہر تو 1290 ارب روپے رکھے گئے ہیں جو پچھلے بجٹ کے بنیادی فوجی اخراجات سے 140 ارب روپے زیادہ ہیں۔ لیکن درحقیقت یہ اعدادو شمار انتہائی گمراہ کن ہیں کیونکہ ان بنیادی فوجی اخراجات میں نہ تو 369 ارب روپے کی فوجی پینشنیں شامل ہیں جو کہ سویلین مد سے ادا کی جاتی ہیں اور نہ ہی وہ 325 ارب روپے جو کہ نئے ہتھیاروں کی خریداری اور افواج کے تعمیراتی منصوبوں کے لیے علیحدہ سے مختص کیے جاتے ہیں۔ اس کے علاوہ ایٹمی پروگرام پر ہونے والے اربوں کے اخراجات بھی ان اعدادو شمار میں شامل نہیں ہیں۔ مزید برآں، فوج ہر سال اپنے بنیادی بجٹ سے بھی 70 یا 80ارب روپیہ زیادہ ہی خرچتی ہے جسے سپلیمینٹری گرانٹ کی صورت میں پورا کیا جاتا ہے۔ یوں مالی سال 21-2020ء کے مجموعی فوجی اخراجات لگ بھگ 2100 ارب روپیہ ہوں گے جبکہ مالی سال 20-2019ء میں یہ تقریباً 1900ارب روپیہ تھے۔ غالباً یہ بتانے کی ضرورت نہیں کہ بھوک، بیروزگاری اور وبا کے ہاتھوں برباد ہوتی عوام کا اس نام نہاد دفاعی بجٹ سے کچھ لینا دینا نہیں اور یہ کیل کانٹے سے لیس فوج ان کی دفاع کے لیے نہیں بلکہ سرمایہ دارانہ نظام اور سرمایہ دار طبقے کے دفاع کے فریضے پر مامور ہے اور انہی ”خدمات“ کے صلے میں اس نام نہاد دفاعی بجٹ کا ایک قابل ذکر حصہ فوجی اشرافیہ کی تجوریوں میں جاتا ہے جبکہ دوسری طرف نہ صرف عوام بلکہ فوج کے عام سپاہیوں کی زندگیاں بھی ہر گزرتے دن کے ساتھ جہنم بنتی جا رہی ہیں۔
بجٹ 21-2020ء میں وفاقی ترقیاتی پروگرام (پی ایس ڈی پی) کے لیے 650ارب روپے رکھے گئے ہیں جو پچھلے بجٹ سے 50ارب روپیہ کم ہیں۔ مگر حقیقت میں ترقیاتی منصوبوں پر خرچ ہونے والی رقم اس سے بھی کہیں کم ہو گی کیونکہ مالی سال کے دوران اس کا ایک قابل ذکر حصہ ڈیبٹ سروسنگ یا سپلیمینٹری فوجی اخراجات کی نذر کر دیا جائے گا۔ مالی سال 20-2019ء اور 19-2018ء کی بھی یہی کہانی ہے۔ جو رقم ترقیاتی منصوبوں کے لیے واقعی ریلیز بھی کی جائے گی، اس کا بھی ایک قابل ذکر حصہ کرپشن اور کک بیکس کی صورت میں بڑے ٹھیکیداروں، افسر شاہی اور حکومتی حکام کی جیبوں میں پہنچ جائے گا۔ یہ بات بالکل درست ہے کہ ان ترقیاتی منصوبوں کی نوعیت کا تعین عوامی ضروریات کی بجائے یہ دیکھ کر کیا جاتا ہے کہ ان سے ”مال“ کتنا بنایا جا سکتا ہے لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ پاکستان جیسے ملک میں یہ سرکاری منصوبے روز گار پیدا کرنے کا ایک بڑا ذریعہ ہوتے ہیں اور یہیں سے ہی پاکستان کے سامراجی گماشتہ حکمران ٹولے کی عوام دشمن ترجیحات کا بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ ایک طرف تو معاشی بحران کی وجہ سے ملک میں بیروزگاری کا سیلاب آیا ہوا ہے اور دوسری طرف ان حالات میں بھی وفاقی ترقیاتی بجٹ میں کمی کر دی گئی ہے۔
اسی طرح اگر ہم صحت اور تعلیم کے شعبے کی بات کریں تویہاں پر سرمایہ دار حکمران طبقے اور ریاستی اشرافیہ کی عوام دشمنی اپنا سب سے واضح اظہار کرتی نظر آتی ہے۔ شعبہ تعلیم کے لیے وفاقی سطح پر کل ملا کر (کرنٹ اور ڈویلپمنٹ اخراجات) 117 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں اگرچہ حقیقی اخراجات اس سے بھی کم کیے جائیں گے۔ واضح رہے کہ وفاقی تعلیمی اخراجات میں سب سے بڑا حصہ ہائیر ایجوکیشن کمیشن کا ہوتا ہے۔ ایچ ای سی نے بجٹ سے پہلے اپنے کرنٹ اخراجات کی مد میں 104ارب روپے مانگے تھے جبکہ بجٹ میں اسے صرف 64ارب روپے دیے گئے ہیں۔ اسی طرح ایچ ای سی کے طرف سے ترقیاتی اخراجات کی مد میں 42 ارب روپے مانگے گئے تھے جبکہ اسے صرف 29 ارب دیے گئے ہیں۔ آسان الفاظ میں ایچ ای سی کا بجٹ کم و بیش پچھلے سال کی سطح پر ہی منجمد رکھا گیا ہے۔ فنڈز کی قلت کے نتیجے میں پہلے ہی بڑے پیمانے پر سرکاری یونیورسٹیوں کی فیسوں میں اضافہ ہوچکا ہے اور ایچ ای سی کے تعلیمی پروگرام بند ہو رہے ہیں اور اب یہ سلسلہ مزید زور پکڑے گا۔ اسی طرح، کرونا وبا کی تباہ کاریوں اور اس طرح کے وبائی امراض کی روک تھام اور علاج میں وفاق کے ایک اہم کردار کے باوجود بجٹ میں وفاقی سطح پر صحت کے شعبے کے لیے کل ملا کر صرف40ارب روپے رکھے گئے ہیں جو کہ کرونا وبا کے ہاتھوں مرتی عوام کے ساتھ ایک بھیانک مذاق ہے۔ مگر دوسری طرف اسی بجٹ میں اعلیٰ عدلیہ، جیل خانہ جات اور وفاق کے زیر کنٹرول قانون نافذ کرنے والے سول اداروں کے لیے 170 ارب روپے کی رقم رکھی گئی ہے جسے بعد میں سپلیمینٹری گرانٹس کے ذریعے مزید بڑھا دیا جائے گا۔
اسی طرح، حکومت کی جانب سے بہت ڈھنڈورا پیٹا جا رہا ہے کہ اس نے بجٹ میں نام نہاد احساس پروگرام، جو درحقیقت ایک بھیک پروگرام ہے، کے لیے مختص رقم 187 ارب روپے سے بڑھا کر 208 ارب روپے کر دی ہے۔ مگر یہ نہیں بتایا جا رہا کہ بجٹ میں بجلی، گیس اور دیگر بنیادی چیزوں پر دی جانے والی عوامی سبسڈیوں میں تقریباً 48 فیصد کی کمی کی گئی ہے اور پیٹرولیم لیوی میں 73 فیصد کا اضافہ کیا گیا ہے۔ یعنی اگر ایک ہاتھ سے سماج کی غریب ترین پرتوں کو چند سکے دیے جا رہے ہیں تو دوسرے ہاتھ سے محنت کش طبقے کے رگ وریشے سے خون نچوڑا جا رہا ہے۔ مزید برآں، حکومت نے آئی ایم ایف کے براہ راست احکامات پر سرکاری ملازمین کی تنخواہوں اور پینشنوں میں کوئی اضافہ نہیں کیا ہے جو پہلے ہی مہنگائی کے بوجھ تلے دبے ان محنت کشوں کی کمر توڑنے کے مترادف ہے۔
بحیثیت مجموعی، اگر پاکستانی معیشت کے تناظر پر بات کی جائے تو دور دور تک کسی بہتری کے کوئی امکان نہیں ہیں۔ ایک ایسے وقت میں جب سرمایہ داری عالمی سطح پر اپنی تاریخ کے سب سے گہرے بحران میں داخل ہو چکی ہے اور امریکہ، چین جیسی معیشتیں لڑکھڑا رہی ہیں، تو پاکستان کی پسماندہ سرمایہ داری سے کسی قسم کی بہتری یا ترقی کی امید رکھنا پرلے درجے کی حماقت ہو گی۔ لہٰذا آنے والے عرصے میں بھی نہ تو جی ڈی پی گروتھ ریٹ میں کسی قابل ذکر بہتری کا کوئی امکان ہے اور نہ ہی معاشی و صنعتی بحالی ممکن ہے۔ ہر گزرتے دن کے ساتھ غربت، بھوک و ننگ، ناخواندگی، لاعلاجی، بے گھری اور خاص کر بیروزگاری میں مزید اضافہ ہو گا۔ سرمایہ دار حکمران طبقہ اس معاشی بحران کا پورا بوجھ محنت کش طبقے کے کندھوں پر منتقل کرنے کے لیے ان پر مزید وحشیانہ معاشی، سیاسی و سماجی حملے کرے گا۔ وفاقی بجٹ میں 43 عوامی اداروں کی فاسٹ ٹریک نجکاری کا اعلان اسی حقیقت کی غمازی کرتا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ محنت کشوں میں پنپتی بغاوت کو دبانے کے لیے ہر ممکن حد تک ریاستی جبر بڑھانے کی کوشش کی جائے گی۔ حال ہی میں پی آئی اے میں یونین سرگرمیوں پر پابندی اور ملک کے مختلف صنعتی علاقوں میں جبری بر طرف کیے جانے والے محنت کشوں کے احتجاجوں پر پولیس کی براہ راست فائرنگ اسی سلسلے کی کڑیاں ہیں۔ واضح رہے کہ لوٹ کے مال کی بندر بانٹ اور اقتدار کے حصول پر حکومت، اپوزیشن اورریاستی اداروں کی باہم رسہ کشی اپنی جگہ لیکن سرمایہ دارانہ نظام کے تحفظ اور مزدور وعوام دشمنی میں یہ سب ایک پیج پر ہیں۔
لیکن پاکستان کا محنت کش طبقہ، غریب کسان، طلبہ اور مظلوم قومیتیں بھی اپنی بقا کی فیصلہ کن لڑائی کے لیے تیزی سے تیار ہو رہے ہیں۔ درماندہ عوام کی رگوں میں دوڑتے غصے کو ہر صنعتی علاقے، ہر عوامی ادارے، ہر تعلیمی ادارے اور ہر گلی کوچے میں محسوس کیا جا سکتا ہے۔ چاہے لاہور اور کراچی جیسے بڑے شہروں کی سڑکیں ہوں یا پھر بلوچستان کی پتھریلی زمین، ہر جگہ سطح کے نیچے پنپتی ایک عظیم الشان عوامی بغاوت کی دھمک سنائی دے رہی ہے۔ یہ ایک فیصلہ کن لڑائی ہو گی۔ ایک تاریخ ساز جدوجہد ہو گی۔ جس دن عوام کے صبر کا بند ٹوٹ گیا، اس دن اس طوفان کے سامنے ریاستی جبر کے تمام ادارے خس وخاشاک کی طرح بہہ جائیں گے۔ اپنے تئیں کیل کانٹوں سے لیس سرکار کے تمام مسلح جتھے اس آتشیں سیلاب میں بھسم ہو جائیں گے۔ یہ وقت بہت تیزی سے قریب آ رہا ہے۔ مارکس وادیوں کا یہ تاریخی فریضہ ہے کہ وہ ہر صورت اس سے پہلے ایک بالشویک انقلابی پارٹی کی تعمیر کا کام مکمل کریں تا کہ جب محنت کش طبقہ اپنی تقدیر بدلنے عمل کے میدان میں اترے تو اسے مارکسزم لینن ازم کے انقلابی پروگرام سے مسلح کرتے ہوئے اس دھرتی پر ایک سوشلسٹ انقلاب برپا کیا جا سکے تا کہ ایک مزدور ریاست اور منصوبہ بند معیشت کے قیام کے ذریعے اس خطے کے درماندہ عوام نوع انساں کے شایان شان زندگی جی سکیں۔