|تحریر:آفتاب اشرف|
11جون کو تحریک انصاف کی حکومت نے آئی ایم ایف کی شرائط کے تحت بننے والا اپنا پہلا بجٹ قومی اسمبلی میں پیش کیا۔ حسب توقع یہ بجٹ محنت کش عوام کے معاشی قتل عام کے مترادف ہے جبکہ حکمران طبقے کی پرتعیش زندگیاں جاری و ساری ہیں۔ بجٹ پیش کرنے والے اور اس پرپریس کانفرنس یا تقریریں کرنے والے شدید گرمی میں بھی کوٹ اور ٹائی پہن کر ٹی وی سکرینوں پر گفتگو کرتے دکھائی دیتے ہیں جبکہ عوام شدید ترین گرمی اور لوڈ شیڈنگ کی اذیت میں جھلس رہے ہیں۔ ایک طرف مہنگائی اور بیروزگاری کے سیلاب میں لاکھوں لوگ بہتے چلے جارہے ہیں اور ان کی زندگیاں جہنم بن چکی ہیں لیکن حکمران طبقے کی عیاشیاں کم ہونے کی بجائے بڑھتی جارہی ہیں اور وہ پہلے سے زیادہ مہنگی گاڑیاں، لباس، خوراک اور رہائش سے لطف اندوز دکھائی دیتے ہیں۔ اسی صورتحال میں یہ بجٹ محض عوام کو ذلت کی زندگی میں مزید دھکیلنے اور اپنی پر تعیش زندگیوں کو جاری رکھنے کی ایک اور کوشش تھی جس میں اپوزیشن پارٹیاں بھی اس ناٹک کا لازمی حصہ ہیں۔ ان کا مقصد اس ڈرامے میں حقیقت کا رنگ بھرنا ہے اور عوام کی توجہ حقیقی مسائل سے دور ہٹاتے ہوئے ان ارب اور کھرب پتی افراد کی رہائی کے متعلق غیر ضروری گفتگو میں شریک کرنا ہے۔
یہی وجہ ہے کہ بجٹ سے محض ایک روز قبل آصف علی زرداری اور حمزہ شہباز کو کرپشن کے مقدمات میں گرفتار کر لیا گیا تا کہ نہ صرف عوام کی توجہ اس جانب مبذول کرائی جاسکے بلکہ اپوزیشن کو بھی ایک نان ایشو کے گرد اپنی سیاست کرنے کا موقع فراہم کیا جا سکے۔ آنے والے دنوں میں اس قسم کی مزید گرفتاریاں متوقع ہیں اور امکانات ہیں کہ تحریک انصاف کے کچھ قائدین کو بھی ڈرامے میں حقیقت کا رنگ بھرنے کی خاطر گرفتار کیا جا سکتا ہے۔ لیکن حکومت اور اپوزیشن کی اس جعلی لڑائی پر مبنی تمام تر شعبدہ بازی کے باوجود عوامی حلقوں سے بجٹ پر سخت تنقید ہو رہی ہے۔ اس تنقید سے بچنے کے لئے حکومت نے بھر پور کوشش کی ہے کہ بجٹ کی اصل حقیقت کو جھوٹے اور نامکمل اعدادوشمار اور پر فریب تکنیکی اصطلاحات کے ذریعے چھپا دیا جائے لیکن عوام پر ہونے والا یہ معاشی حملہ اتنا بھیانک ہے کہ اسے چھپایا جانا ناممکن ہے۔ وقت کے ساتھ ساتھ اس کی حقیقت مکمل طور پر آشکار ہو جائے گی لیکن فی الحال اب تک کی دستیاب معلومات کی بنیاد پر بجٹ کا ابتدائی تجزیہ کر ناضروری ہے۔
بجٹ کا کل حجم تقریباً7000 ارب روپے ہے۔ اس میں سے 3000ارب روپے تو سیدھے سیدھے سابقہ قرضوں اور ان کے سود کی ادائیگیوں کے لئے مختص کئے گئے ہیں۔ یہ وہ قرضے ہیں جو نہ پاکستان کی عوام نے لئے اور نہ ہی ان پر خرچ ہوئے لیکن ان کی واپسی عوام کی ہڈیوں سے گودا نچوڑ کر کی جارہی ہے۔ مزید برآں روپے کی قدر میں مستقبل میں ہونے والی کمی سے جہاں بیرونی قرضوں کے حجم میں (ملکی کرنسی کے حساب سے) مسلسل اضافہ ہو گا وہیں آئی ایم ایف کی شرائط کے مطابق شرح سود میں ہونے والا اضافہ داخلی قرضوں کی واپسی کو بھی مزید مہنگا کر دے گا اور یوں درحقیقت اگلے مالی سال(20-2019 ء)میں قرض اور سود کی واپسی کے لئے بجٹ میں مختص کردہ رقم سے کئی سو ارب روپے زیادہ خرچ ہوں گے۔ اس کے علاوہ دفاعی بجٹ 1150ارب مختص کیا گیا ہے لیکن یہ فوجی اخراجات کی مکمل تصویر کشی نہیں کرتا کیونکہ اس میں سویلین مد میں شامل 327ارب کی فوجی پینشنیں، اسلحے کی خریداری، فوجی ترقیاتی منصوبوں اور دیگر ایسے کئی اخراجات شامل نہیں ہیں۔ پچھلے بجٹ میں بھی دفاعی بجٹ 1100ارب روپے ڈکلیئر کیا گیا تھا لیکن حکومت کے اپنے اعدادوشمار کے مطابق مالی سال19-2018ء میں کل فوجی اخراجات لگ بھگ 1700ارب روپے کے تھے۔ مالی سال 20-2019ء میں محتاط اندازے کے مطابق بھی یہ کم از کم 1800ارب روپیہ ہوں گے۔ بجٹ میں پی ایس ڈی پی سمیت وفاقی حکومت کے زیر انتظام ترقیاتی منصوبوں کے لئے تقریباً 850ارب روپے مختص کئے گئے ہیں لیکن قوی امکانات ہیں کہ ریونیو شارٹ فال اور دیگر اخراجات(مثلاً سود اور قرض واپسی،دفاع) کے دباؤ کے تحت حقیقی ترقیاتی اخراجات اس سے بہت کم ہوں گے۔ پچھلے بجٹ میں بھی ایسا ہی ہوا تھا اور مختص کردہ 930ارب کے ترقیاتی بجٹ میں سے بمشکل 500ارب ہی خرچ کئے گئے تھے۔ وفاقی ترقیاتی اخراجات میں ہونے والی یہ کمی معیشت کی شرح نمو میں ہونے والی بھیانک کمی کی ایک اہم وجہ ہے، یہ الگ بات ہے کی ان ’ترقیاتی منصوبوں‘کی ترجیحات کا تعین عوامی ضروریات کے تحت نہیں بلکہ ٹھیکوں میں کرپشن اور کک بیکس کے امکانات کے تحت ہوتا ہے۔ اس کے بعد بقیہ بچ جانے والے تقریباً 1700ارب روپے میں تمام تر حکومتی اخراجات اور وفاقی محکموں کے اخراجات سمیت صحت اور تعلیم جیسے ’متفرق‘ اخراجات شامل ہیں۔ اس رقم کا ایک قابل ذکر حصہ حکومتی نمائندوں، اعلیٰ عدلیہ اور وفاقی بیوروکریسی کی تنخواہوں،مراعات،عیاشیوں اور کرپشن کی نظر ہو جاتا ہے لہٰذا وفاقی سطح پر صحت اور تعلیم جیسے عوامی ضرورت کے بنیادی شعبوں کے لئے کل ملا کر ایک سو ارب روپے سے بھی کم کا بجٹ مختص کیا گیا ہے۔
بجٹ میں مالی سال 20-2019ء کے لئے وفاقی حکومت کی کل آمدن (ٹیکس اور نان ٹیکس آمدن ملا کر) کا ہدف6720ارب رکھا گیا ہے جس میں سے 5550ارب روپے کی ٹیکس آمدن ایف بی آر اکٹھی کرے گا۔ یہ رقم ایف بی آر کے مالی سال 19-2018ء کے ہدف(4400ارب روپیہ) سے 1150ارب روپیہ زیادہ ہے۔ ٹیکس آمدن کے ہدف میں اتنا بڑاتاریخی اضافہ آئی ایم ایف کی شرائط کے تحت کیا گیا ہے۔ اس مقصد کے لئے حکومت نے اس بجٹ میں 516ارب روپے کے نئے ٹیکس عائد کئے ہیں جبکہ 350ارب روپے کی آمدن پہلے سے لاگو ٹیکسوں کی شرح میں اضافہ کر کے یا کئی ایک ٹیکس چھوٹیں ختم کر کے حاصل کی جائے گی۔ پاکستان کی تقریباً دو تہائی ٹیکس آمدن بالواسطہ ٹیکسوں سے حاصل ہوتی ہے جن کا بوجھ طبقہ امرا کی بجائے محنت کش عوام پر کہیں زیادہ پڑتا ہے۔ اسی طرح براہ راست ٹیکسوں سے حاصل ہونے والی آمدن(کل ٹیکس آمدن کا ایک تہائی) کا ایک بڑا حصہ تنخواہ دار درمیانے طبقے پر عائد انکم ٹیکس اور چھوٹے کاروباریوں کو نشانہ بنانے والے ود ہولڈنگ ٹیکس(بنک سے رقم نکلوانے پر) سے حاصل ہوتا ہے۔ آئی ایم ایف کی شرائط کے تحت ہونے والے حالیہ ٹیکس اضافے کا بوجھ بھی محنت کش طبقے اور درمیانے طبقے پر ہی پڑے گا۔ مثلاً حکومت نے خوردنی تیل، گھی، چینی، گھریلو سازو سامان، گوشت، مچھلی، مرغی، روز مرہ کے استعمال کی اشیا، بنیادی الیکٹرانکس سمیت سینکڑوں اشیا پر جی ایس ٹی کے رعایتی ریٹس کو ختم کرتے ہوئے17 فیصد سٹینڈرڈ جنرل سیلز ٹیکس نافذ کر دیاہے۔ اسی طرح چھوٹی کاروں، موٹر سائیکلوں، سیمنٹ اور خوردنی تیل سمیت بے شمار اشیا پر فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی بھی عائد کر دی گئی ہے۔ اسی طرح درآمدی مال کی 2400ٹیرف لائنز پر کسٹم ڈیوٹی پانچ فیصد بڑھا دی گئی ہے۔ یاد رہے کہ پاکستان جیسے صنعتی اعتبار سے کمزور ملک میں روز مرہ استعمال کی ہر دوسری شے اپنی پیداوار کے لئے کسی نہ کسی حوالے سے درآمدی مال پرانحصار کرتی ہے۔ بالواسطہ ٹیکسوں کی یہ تمام بھر مار اشیائے صرف کی قیمتوں میں ہوشربا اضافے کا باعث بنتے ہوئے عوام کے معیار زندگی کو پستی کی گہرائیوں میں دھکیل دے گی۔ اسی طرح تنخواہ دار درمیانے طبقے اور چھوٹے کاروباریوں کو گزشتہ سال کے بجٹ میں ملنے والی انکم ٹیکس کی چھوٹ نہ صرف واپس لے لی گئی ہے بلکہ انکم ٹیکس میں مزید اضافہ بھی کر دیا گیا ہے۔ اس کے برعکس بڑی کمپنیوں کے منافعوں پر لگنے والے کارپوریٹ ٹیکس کو پچھلے سال کی سطح(29فیصد) پر ہی منجمد رکھا گیا ہے۔ ارب پتی افراد اور بڑے کاروبار پر لگنے والے سپر ٹیکس میں بھی کوئی اضافہ نہیں کیا گیا۔ سٹاک ایکسچینج پر بھی کوئی نیا ٹیکس نہیں لگایا گیا۔ تمام تر افواہوں کے باوجود امرا کے اثاثہ جات پر عائد ہونے والے ویلتھ ٹیکس،جسے مشرف آمریت نے 2003ء میں ختم کر دیا تھا، کو بھی واپس نافذ نہیں کیا گیا۔ اس سال جنوری میں پیش کئے جانے والے ’فنانس سپلیمنٹری بل2019ء‘میں سرمایہ داروں اور صنعتکاروں کو دی جانے والی کھربوں روپے کی ٹیکس مراعات اور سبسڈیوں میں سے زیادہ تر کو جوں کا توں قائم رکھا گیا ہے۔ جن چند ایک صنعتی شعبوں میں ٹیکس مراعات کو واپس لیا گیا ہے یا پہلے سے موجود ٹیکسوں میں کچھ اضافہ کیا گیا ہے وہاں صارفین کے تحفظ کے لئے کوئی اقدامات نہیں کئے گئے لہٰذا متعلقہ صنعتکار فوراً سے پہلے اس اضافے کا بوجھ یا تو اپنے مزدوروں پر منتقل کر دیں گے یا پھر صارفین پر۔ اسی طرح صنعتکاروں کے جھوٹے واویلے کے برعکس ٹیکسٹائل سمیت پانچ برآمدی صنعتی شعبوں سے جی ایس ٹی کے معاملے میں زیرو ریٹنگ کی سہولت واپس لینے کا مقصد ان کے برآمدی مال پر سیلز ٹیکس لاگو کرنا نہیں بلکہ صرف ملکی منڈی میں فروخت ہونے والے مال پر پہلے سے عائد سیلز ٹیکس کی چوری کو روکنا ہے۔ کارپوریٹ بزنس چلانے میں افواج پاکستان بھی کسی سے کم نہیں ہیں اور یہی وجہ ہے کہ فوجی اشرافیہ کا زیادہ تر وقت بھی حرب وضرب کی حکمت عملیاں بنانے کی بجائے کاروباری منصوبے بنانے میں گزرتا ہے۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق ’ویلفئیر ٹرسٹ‘ کی آڑ میں چلنے والی افواج پاکستان کی کاروباری سلطنت کی مالیت کم از کم 7000ارب روپے ہے لیکن اس پر کوئی ٹیکس لگنا تو دور کی بات، اس کے حوالے سے کوئی سوال پوچھنا بھی شجر ممنوعہ ہے۔ اسی طرح ایک اور نیم سرکاری رپورٹ کے مطابق پاکستان کے سرمایہ دار طبقے کو حکومت سے حاصل ہونے والی ٹیکس مراعات اور سبسڈیوں کی وجہ سے قومی خزانے کو سالانہ تقریباً1000ارب روپے کا نقصان ہوتا ہے۔ اگرچہ ہمارے اندازے کے مطابق یہ تخمینہ نہایت کم ہے لیکن پھر بھی یہ ہمیں ریاست کی طبقاتی ساخت اور ترجیحات کے متعلق بہت کچھ بتاتا ہے۔ یاد رہے کہ یہ سب کچھ ایک ایسے وقت میں ہو رہا ہے جب حکمران طبقات ملک کے معاشی بحران پر مگر مچھ کے آنسو بہاتے ہوئے بحران کا تمام تر بوجھ محنت کش عوام اور درمیانے طبقے کے کندھوں پر منتقل کر رہے ہیں۔
آگے بڑھنے سے پہلے یہ وضاحت ضروری ہے کہ ایف بی آر نے مالی سال 19-2018ء کے ٹیکس آمدن ہدف یعنی 4400ارب روپے میں سے بمشکل3600ارب روپے کی وصولی کی ہے۔ اس کی سب سے بڑی وجہ سرمایہ دار طبقے کی ٹیکس چوری ہے جو کرپٹ سرکاری اہلکاروں کی ملی بھگت کیساتھ ممکن ہوتی ہے۔ مسئلہ یہ ہے کہ اب پاکستان آئی ایم ایف کیساتھ قرضے کا معاہدہ کر چکا ہے اور اس کی شرائط کے تحت حکومت بجٹ میں مقرر کردہ ٹیکس آمدن کا ہدف پورا کرنے کی پابند ہے اور اس سلسلے میں آئی ایم ایف کی طرف سے کوئی نرمی نہیں برتی جائے گی۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ مالی سال 20-2019ء میں ایف بی آر کو ٹیکس وصولی میں درحقیقت 1950ارب روپے کا مجموعی اضافہ حاصل کرنا ہو گا۔ لیکن ٹیکس چور سرمایہ داروں سے وصولی کرنا نہ تو ریاست اور حکومت کی ترجیحات میں شامل ہے اور نہ ہی وہ اس کی قابلیت رکھتے ہیں، اس کے علاوہ ضخیم حجم کے کالے دھن پر گرفت لانا اور انہیں ٹیکس کی حدود میں لانا موجودہ ریاستی ڈھانچوں کے بس کی بات ہی نہیں، اس لیے معاشی بحران کا یہ تمام تر بوجھ بھی آخر کار عوام کے کندھوں پر منتقل کر دیا جائے گا اور اس مقصد کے لئے نئے ٹیکسوں کی بھر مار لئے منی بجٹوں کی آمد کا سلسلہ بغیر رکے پورے مالی سال جاری رہے گا۔
پچھلے دو سالوں میں روپے کی قدر میں چالیس فیصد کمی ہوئی ہے لیکن حکومت نے مزدور کی کم از کم اجرت میں صرف ایک ہزار کا اضافہ کرتے ہوئے اسے 17,500روپے ماہانہ مقرر کیا ہے۔ یہ محنت کشوں کے ساتھ ایک بھیانک مذاق تو ہے ہی لیکن ستم ظریفی یہ ہے کہ ملک کی زیادہ تر نجی شعبے میں محنت کشوں کو یہ کم از کم اجرت بھی ادا نہیں کی جاتی۔ اسی طرح موجودہ بجٹ میں سرکاری ملازمین کی تنخواہ میں کیا جانے والا اضافہ افراط زر کے مقابلے میں اتنا معمولی ہے کہ اسے علامتی قرار دینا مناسب ہو گا۔ اسی طرح حکومت نے بجٹ میں سبسڈیز کی مد میں 271ارب روپے کی رقم رکھی ہے لیکن اس کا ایک قابل ذکر حصہ بجلی اور گیس کی مد میں صنعتکاروں کو سبسڈی دینے پر خرچ ہو گا۔ بقیہ ماندہ رقم بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام اور احساس پروگرام جیسے عوام کو بھکاری بنانے والے منصوبوں کے لئے رکھی گئی ہے۔
ہمارے پاس یہاں جگہ نہیں ہے کہ ہم پاکستان کی مجموعی معاشی صورتحال پر تفصیلی بات رکھ سکیں۔ درحقیقت یہ بجٹ ملک کے معاشی بحران اور حکمران طبقے کی عوام دشمنی کی صرف ایک جھلک دکھاتا ہے۔ جس ملک کی مجموعی معیشت کا تقریباً چالیس سے پچاس فیصد حصہ کسی بھی قسم کی ڈاکومینٹیشن سے باہر موجودغیر رسمی معیشت پر مبنی ہو، وہاں بجٹ کے اعدادو شمار کی محدودیت اور بھی عیاں ہو جاتی ہے۔ لیکن قصہ مختصریہ کہ معاشی بحران اور آئی ایم ایف کی برباد کن شرائط کے تحت آنے والے عرصے میں روپیہ اپنے زوال کا سفر جاری رکھے گا اور بعض ماہرین کے مطابق تو جون 2020ء تک ایک ڈالر 180سے 200روپے تک کا ہو سکتا ہے۔ اس سے مہنگائی میں بے پناہ اضافہ ہو گا اور ملکی منڈی کی قوت خرید برباد ہو جائے گی۔ اسی طرح شرح سود جو کہ ابھی بھی 12.25فیصدکی انتہائی بلند سطح پر ہے، میں بھی قابل ذکر اضافہ ہو گا جو چھوٹے ودرمیانے درجے کے کاروبار اور مڈل کلاس کی قوت خرید کو روند ڈالے گا۔ شرح سود میں اضافے کے ذریعے افراط زر میں اضافے کو روکنا بھی ممکن نہیں ہوگا اور اس میں اضافہ جاری رہے گا۔ جبکہ معیشت کی شرح نمو میں بھی مسلسل کمی جاری رہے گی جوstagflation جیسے خوفناک معاشی بحران پر منتج ہو رہی ہے۔
آئی ایم ایف کی شرائط کے تحت صحت اور تعلیم سمیت بے شمار سرکاری اداروں اور شعبہ جات کی وحشیانہ نجکاری کی جائے گی جو کہ وسیع سماجی بربادی اور بے تحاشا بیروزگاری کو جنم دے گی۔ اسی طرح درآمدات میں کسی خاطر خواہ کمی اور برآمدات میں کسی قابل ذکر اضافے کا بھی کوئی امکان نظر نہیں آتا۔ بیرونی سرمایہ کاری میں بھی کمی کا رجحان جاری رہے گا جبکہ تارکین وطن کی ترسیلات زر میں کسی قابل ذکر اضافے کا کوئی امکان نہیں جبکہ دوسری طرف ماضی میں لئے گئے بہت سے بیرونی قرضے مستقبل قریب میں میچور ہو رہے ہیں۔ اس تمام تر صورتحال میں مالیاتی خسارے اور کرنٹ اکاؤنٹ خسارے کے دوہرے بحران کی تلوار ہر وقت معیشت کے سر پر لٹکتی رہے گی جس کے باعث مزید داخلی اور بیرونی قرضے لئے جائیں گے اور قرضوں کا بحران گہرا ہو تا چلا جائے گا۔ ایک نئے بحران کے کنارے پر لڑکھڑاتی عالمی معیشت کی مسلسل سست روی کے پس منظر میں پاکستان جیسے پسماندہ سرمایہ دارانہ ملک کی معیشت میں اس نظام کی حدود میں رہتے ہوئے بہتری کا کوئی سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ لہٰذا ملکی معیشت کی شرح نمو مالی سال 20-2019 ء میں بمشکل دو فیصد کے لگ بھگ رہے گی۔ لیکن اگر افراط زر کو منہا کر کے حقیقی شرح نمو نکالی جائے تو یہ منفی میں ہو گی بلکہ یہ امر شاید پہلے ہی حقیقت بن چکا ہے کیونکہ ڈالرز میں پاکستان کے سرکاری جی ڈی پی کا حجم مالی سال 19-2018ء میں کم ہوا ہے۔
آج واضح ہو چکا ہے کہ موجودہ سرمایہ دارانہ نظام میں رہتے ہوئے محنت کش طبقے کی نجات ممکن نہیں۔ صرف اس نظام کو ختم کرتے ہوئے ہی امیر اور غریب پر مبنی اس طبقاتی نظام کو ختم کیا جا سکتا ہے۔ آئی ایم ایف کی غلامی سے چھٹکارا حاصل کرنے کے لیے سرمایہ دارانہ نظام کو ختم کرنا ہوگا جو صرف محنت کش طبقہ ہی ایک انقلاب کے ذریعے کر سکتا ہے۔ اس کے لیے اس ملک پر براجمان حکمران طبقے کیخلاف ایک فیصلہ کن لڑائی لڑنی ناگزیر ہے۔ پاکستان کے محنت کش طبقے کے پاس آج اپنی بقا کے لئے یہ لڑائی لڑنے کے علاوہ اور کوئی راستہ نہیں بچا۔ ہمیں یقین ہے کہ وہ یہ لڑائی لڑیں گے لیکن سوال یہ پیدا ہوتا کہ جب وہ بغاوت کے میدان میں اتریں تو ان کی راہنمائی کے لئے ایک بالشویک پارٹی موجود ہو جو اس انقلاب کی قیادت کرتے ہوئے اسے سوشلزم کی منزل تک پہنچا سکے اور لوٹ مار پر مبنی اس طبقاتی نظام کو جڑ سے اکھاڑ پھینکے۔یہ انقلابی پارٹی تعمیر کرنا ہی آج مارکس وادیوں کا سب سے اہم فریضہ ہے۔