|منجانب: پروگریسو یوتھ الائنس، ریڈ ورکرز فرنٹ|
14 جولائی کو نصف شب کے وقت پروگریسو یوتھ الائنس کراچی کے کارکن محمد امین کو ریاستی اداروں نے ان کے گھر سے اٹھا کر جبری طور پر لاپتہ کر دیا گیا تھا۔ تب سے پروگریسو یوتھ الائنس سوشل میڈیا پر مسلسل سراپا احتجاج ہے اور اب ایک ہفتہ گزر جانے کے بعد ملک بھر میں احتجاجی مظاہروں کے کامیاب انعقاد کا سلسلہ بھی شروع کیا جا چکا ہے۔ ہمارا مطالبہ دو ٹوک اور واضح ہے کہ کامریڈ امین کو فی الفور بازیاب کیا جائے اور اگر ان سے کوئی جرم سرزد ہوا ہے تو انہیں عدالت میں پیش کیا جائے۔ مگر پروگریسو یوتھ الائنس یہ سمجھتا ہے کہ کامریڈ امین کی جبری گمشدگی کوئی مخصوص اور الگ تھلگ کاروائی نہیں ہے بلکہ ریاست کی طرف سے سیاسی کارکنوں، قلمکاروں، صحافیوں اور حکومتی و ریاستی پالیسیوں کے ناقدین کے خلاف عمومی ریاستی ردعمل کا ہی تسلسل ہے۔ بیرونی دباؤ، داخلی انتشار اور معاشی تناؤ کے باعث ریاست اس قدر بوکھلاہٹ اور تذبذب کا شکار ہے کہ وہ ہلکی سی بھی تنقید برداشت کرنے کے لیے تیار نہیں۔ اس لیے بائیں بازو کی انقلابی قوتوں کے ساتھ ساتھ دیگر ترقی پسندوں اور حتیٰ کہ دائیں بازو کے لبرل لکھاریوں کو بھی ریاستی جبر کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ آج مطیع اللہ جان کا اغوا اور پی ٹی ایم کے لیڈر فضل خان ایڈووکیٹ پر قاتلانہ حملہ بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔ اس طرح کے اقدامات ریاستی طاقت نہیں بلکہ اس کی کمزوری کی علامات ہیں۔ پروگریسو یوتھ الائنس اور ریڈ ورکرز فرنٹ عوام کی جمہوری آزادیوں پر ہر قسم کے حملے کی بھرپور مذمت کرتے ہیں اور مطالبہ کرتے ہیں کہ تمام جبری طور پر اغوا کیے گئے سیاسی و سماجی کارکنوں اور صحافیوں کو فی الفور بازیاب کیا جائے اور آئندہ کے لیے اس طرز کی غیر آئینی اور آمرانہ پالیسیوں کا سلسلہ ختم کیا جائے۔ وہ وقت گزر چکا جب کسی کو بھی غدار قرار دے کر عقوبت خانوں میں ڈال دیا جاتا تھا اور جو بھی ریاستی بیانیہ سامنے لایا جاتا تھا، عوام کی اکثریت اسے قبول کر لیتی تھی۔ اب لوگوں نے سوال اٹھانا شروع کر دیئے ہیں۔ سوال کرنے والوں کو مار دینے یا لاپتہ کر دینے سے سوال قتل نہیں ہو سکتے۔ سوال نہ صرف یہ کہ اپنی جگہ موجود ہیں بلکہ بڑھتے ہی جا رہے ہیں۔ ایک آواز دبائی جائے گی تو سینکڑوں لوگ ہم آواز ہو کر بولیں گے، سینکڑوں آوازوں کا گلہ گھونٹا جائے گا تو ہزاروں، لاکھوں اور کروڑوں آوازوں کا ہجوم حکمران طبقے کی نیندیں حرام کر دے گا۔
سرمایہ داری کا عالمگیر بحران بے قابو ہو کر ماضی کے تمام بحرانوں پر سبقت لیتا جا رہا ہے۔ نام نہاد ورلڈ آرڈر منتشر ہو رہا ہے اور ہمیشہ کی طرح حکمران طبقات دنیا بھر میں اس بحران کا تمام تر بوجھ محنت کش طبقے پر ڈالنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ امریکہ سمیت تمام سامراجی ممالک جہاں ایک طرف داخلی طور پر فلاحی ریاست کی جعلسازی کے تکلف کو بالائے طاق رکھتے ہوئے عوام پر بدترین معاشی حملے کر رہے ہیں، وہیں ان معاشی حملوں کے خلاف ہونے والی ہر مزاحمت کو بزورطاقت کچل دینے کے زعم میں مبتلا ہیں مگر ہر جبر پہلے سے بڑی مزاحمت کی راہ ہموار کر رہا ہے۔ امریکہ میں حال ہی میں ابھرنے والی سیاہ فاموں کی تحریک نے اس سامراجی ریاست کو عوامی سطح پر چیلنج کیا اور جہاں پولیس کے عوام دشمن ادارے کے خاتمے کا مطالبہ نظر آیا وہاں کچھ جگہوں پر امریکی پرچم بھی نذر آتش کیا گیا۔ ایک واقعے میں احتجاجی مظاہرین وائٹ ہاؤس میں تمام حصار توڑ کر گھس گئے جس کے باعث صدر ٹرمپ خوفزدہ ہو کر زیر زمین بنکر میں کانپتے ہوئے پناہ لینے پر مجبور ہو گیا۔ دوسری طرف یہ عالمی قوتیں سابقہ نو آبادیاتی ممالک کے وسائل کی وحشیانہ لوٹ مار کے لیے اپنی پالتو ریاستوں کو بلا دریغ استعمال کرنے کی کوشش کر رہی ہیں تاکہ عالمی مالیاتی نظام کو زیادہ سے زیادہ مصنوعی آکسیجن فراہم کی جا سکے۔ آئی ایم ایف کے احکامات کے پیش نظر پاکستانی ریاست نے بھی نجکاری، ڈاؤن سائزنگ، جبری برطرفیوں اور پینشن کے خاتمے جیسے مزدور دشمن اقدامات بیک وقت شروع کر دیئے ہیں جس کے باعث پہلے سے مفلوک الحال محنت کش عوام غربت کی دلدل میں گردن تک دھنس چکے ہیں۔ رہی سہی کسر ذخیرہ اندوزوں، پاور کمپنیوں اور افسر شاہی کی بدمعاشی نے پوری کر دی ہے اور پاکستان میں ایک منظم معاشی قتل عام کا آغاز ہو چکا ہے۔ گندم اور دیگر زرعی اجناس نایاب ہوتی جا رہی ہیں، ادویات اور دیگر لوازمات زندگی بھی آئے روز عوام کی پہنچ سے دور ہوتی جا رہی ہیں۔ ایسے میں محنت کش طبقے، طلبہ اور کسانوں کے پاس مزاحمت کے سوا کوئی دوسرا راستہ باقی نہیں بچا۔ ساتھ ہی معصوم بچوں اور خواتین پر جنسی تشدد کے واقعات سماجی معمول کا حصہ بن چکے ہیں اور خواتین میں اس نظام اور پورے ثقافتی ڈھانچے کے خلاف نفرت کا لاوا پھٹنے کو بیتاب ہے۔ مظلوم و محکوم اقوام جن کے جبری الحاق کی معیاد بھی کب کی پوری ہو چکی، اپنے جمہوری حقوق کے لیے ایک دفعہ پھر سیاسی طور پر متحرک نظر آنا شروع ہو گئی ہیں۔ جہاں ایک طرف بدقسمتی سے ان تمام مزاحمتی تحریکوں اور بغاوتوں کو جوڑ کر ایک ناقابل تسخیر قوت بنانے والی کوئی انقلابی پارٹی سیاسی افق پر موجود نہیں ہے وہیں دائیں بازو کی تمام سیاسی پارٹیاں (حکومت اور حزب مخالف)، مذہبی تنظیمیں، قوم پرست قیادتیں اور سب سے بڑھ کر پولیس، افسر شاہی اور فوج سمیت تمام ریاستی ادارے بھی عوام کے سامنے الف ننگے کھڑے ہیں اور ان کو کسی سے بھی کوئی امید باقی نہیں بچی۔ ایسے میں عوام اور اس خون آشام سرمایہ دارانہ نظام کی محافظ ریاستی مشینری کے مابین ایک براہ راست ٹاکرے کا وقت قریب آن پہنچا ہے۔ عوام کے پاس بھی لڑنے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں اور کسی بھی قسم کا معاشی ریلیف دینے سے قاصر کھوکھلی ریاستی مشینری کے پاس بھی جبر کے علاوہ کوئی آپشن باقی نہیں بچا۔ کراچی سمیت ملک بھر میں سیاسی کارکنوں، صحافیوں، قلمکاروں اور انسانی حقوق کی تنظیموں کے خلاف جبری گمشدگیوں، مقدمات کی حالیہ لہر اور ٹریڈ یونین سرگرمیوں پر قدغنوں کو اسی تناظر میں دیکھنے اور اس کے مقابلے کی تیاری کرنے کی ضرورت ہے۔ پروگریسو یوتھ الائنس اور ریڈ ورکرز فرنٹ نے ہمیشہ تحریر و تقریر کی آزادی اور احتجاج کے حق سمیت عوام کے تمام جمہوری حقوق کا دفاع کیا ہے۔ اور آئندہ بھی ہم اپنا یہ تاریخی فریضہ کسی بھی قیمت پر سرانجام دیتے رہیں گے۔ بائیں بازو کی تمام قوتوں کو جمہوری حقوق کے دفاع کے لیے ایک موثر حکمت عملی مرتب کرنی ہو گی۔ پروگریسو یوتھ الائنس اور ریڈ ورکرز فرنٹ ہمیشہ اس مزاحمتی دستے کی صف اول میں موجود ہو ں گے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ عالمی بحران کی شدت نے اقوام متحدہ سمیت تمام عالمی اداروں کے ضعف اور خصی پن کی قلعی بھی کھول کر رکھ دی ہے اور اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل نے حال ہی میں اپنے ایک ٹویٹ میں اپنی بے بسی کا کھلے عام اعتراف بھی کیا ہے۔ یہ ان اصلاح پسندوں کے لیے اہم سبق ہے جو اسی نظام میں رہتے ہوئے عوام کی نجات کا پروگرام پیش کر رہے ہیں۔ اس لیے پروگریسو یوتھ الائنس اور ریڈ ورکرز فرنٹ سمجھتے ہیں کہ کسی بھی سامراجی ملک یا ادارے سے بہتری کی توقع رکھنا عوامی حقوق کی تحریکوں کی پیٹھ میں چھرا گھونپنے کے مترادف ہو گا۔ محنت کش عوام کا اتحاد ہی آگے بڑھنے کا واحد راستہ ہے اور اس وقت عوام کو سائنسی سوشلزم یعنی مارکسزم لینن ازم کے نظریات کے تحت ترتیب دیے گئے ایک انقلابی پروگرام پر منظم کرنے کی ضرورت ہے۔