|تحریر: آدم پال|
وفاقی کابینہ میں آج اہم تبدیلیاں کر دی گئی ہیں جن میں اعجاز شاہ کو وزیر داخلہ بنا دیا گیا ہے۔ لیکن سب سے اہم وزیر خزانہ اسد عمر کا استعفی ہے جبکہ سابقہ وزیر خزانہ حفیظ شیخ کو دوبارہ خزانہ کا قلمدان سونپا گیا ہے۔ حفیظ شیخ اس سے پہلے مشرف کے بھی وزیر نجکاری رہ چکے ہیں جبکہ زرداری کے وزیر خزانہ تھے۔ وزیر خزانہ اسد عمر کے استعفے نے نہ صرف موجودہ حکومت کی انتہائی کمزور بنیادوں پر لرزہ طاری کر دیا ہے بلکہ اس نظام کے گہرے بحران کو بھی واضح کر دیا ہے۔ عوام پرمہنگائی اور بیروزگاری کے بد ترین حملے کرنے، نجکاری کے نئے ہتھکنڈے متعارف کروانے، آئی ایم ایف کے احکامات پر سر تسلیم خم کرنے، ملکی کرنسی کی تاریخی گراوٹ کروانے اور سرمایہ داروں کو تاریخی مراعات دینے کے باوجود خود کو قابل ترین وزیر خزانہ کہلوانے والاشخص استعفیٰ دینے پر مجبور ہو گیا۔ نئے وزیر خزانہ کے لیے پرانے جغادریوں کے نام سر فہرست ہیں اور قرعہ فال حفیظ شیخ کے نام نکلا ہے جو پہلے بھی کئی دفعہ معیشت کا بیڑہ غرق کر چکے ہیں۔
یہ تمام عمل درحقیقت موجودہ سرمایہ دارانہ نظام کے گہرے بحران کی عکاسی کرتا ہے جس کے نتیجے میں ملکی معیشت دیوالیہ پن کے کنارے پرلڑکھڑا رہی ہے اور اس کے پاس نجات کا کوئی رستہ نہیں۔ اس دیوالیہ معیشت پر براجمان تحریک انصاف کی عوام دشمن حکومت کی حقیقت عوام پرپہلے آٹھ ماہ میں ہی عیاں ہو چکی ہے۔ یہ سفر دوسری پارٹیوں نے تین سے چار دہائیوں میں طے کیا تھا لیکن حکمران طبقے کی اس نومولودپارٹی کے گھناؤنے چہرے کو عوام کے سامنے عیاں ہونے میں صرف چند ماہ کا ہی عرصہ لگا۔
اسد عمر اور اس کی تمام تر پالیسیاں عمران خان اور اس کی پارٹی کا بنیادی ستون تھیں۔ انتخابات سے پہلے جہاں تمام تر برائیوں کا ذمہ دار کرپشن کو بتایا گیا تھا وہاں اسد عمر کے ذریعے ایک نام نہاد متبادل بھی پیش کیا گیا تھا اور کہا گیا تھا کہ اسد عمر سمیت تحریک انصاف کے پاس ماہر معیشت دانوں کی ایک انتہائی قابل اور باصلاحیت ٹیم ہے جو انتہائی جدید بنیادوں پر ملکی معیشت کو استوار کرے گی جس کے بعد ملک کے تمام مسائل حل ہو جائیں گے اور دوسرے ملکوں سے لوگ نوکریاں ڈھونڈنے پاکستان آئیں گے۔ اسد عمر کی قیادت میں یہ معاشی جغادری اپنی قابلیت کبھی بھی نہیں چھپاتے تھے بلکہ جہاں موقع ملتا نہ صرف حکومت پر سخت تنقید کرتے اور انتہائی مفید مشورے بھی دیتے تھے جس سے معیشت کو ٹھیک کیا جا سکتا تھا۔ بجلی کی لوڈ شیڈنگ کا چھوٹے ڈیم بنا کر خاتمے کا منصوبہ ہو یا پٹرول کی قیمتوں کوکم کرنے کے لیے اس پر لگائے گئے ٹیکسوں کا خاتمہ ہو، ان صاحبان کے پاس ہر مسئلے کا حل موجود تھا۔ ان تمام افراد کا اصرار تھا کہ ملک میں امیر افراد پر ٹیکس نہیں لگایا جاتا جس کی وجہ حکومت کی نا اہلی اور کرپشن ہے اور اگر ایسا کر دیاجائے تو ملک کے تمام مسئلے فوری طور پرحل ہو جائیں گے۔ اسی طرح یہ افراد آئی ایم ایف کی غلامی کو بد ترین تنقید کا نشانہ بناتے تھے اور خود عمران خان کا کہنا تھا کہ ایسے کسی ادارے سے بھیک مانگنے کی بجائے وہ خود کشی کو ترجیح دے گا۔ درحقیقت یہ تمام افراد سرمایہ دارانہ نظام کے اندر رہتے ہوئے ہی اصلاحات کے ذریعے تبدیلی کا نعرہ لگا رہے تھے اور ان کا برملا کہنا تھا کہ اگر ملک کی قیادت نیک نیت، کرپشن سے پاک اور درست ہو تو اسی نظام میں ایسی اصلاحات کی جاسکتی ہیں جن کے نتیجے میں یورپ اور امریکہ جیسی معیشتوں کا مقابلہ کیا جا سکتا ہے۔
اصلاح پسندی کے انہی نعروں کے باعث نام نہاد پڑھے لکھے افراد کے کچھ حصے میں یہ پارٹی حمایت حاصل کرنے میں بھی کامیاب ہوگئی تھی۔ نواز شریف اور زرداری کیخلاف اس پارٹی کے افراد کا زیادہ تر الزام جہاں درست طور پرکرپشن تھا وہاں ساتھ ساتھ جہالت کا بھی تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ لوگ ان پڑھ اور جاہل ہیں اور نہ انہیں انگریزی ٹھیک سے بولنی آتی ہے اور نہ ہی کسی پالیسی کی سمجھ بوجھ ہے۔ درمیانے طبقے کے یہ نام نہادپڑھے لکھے افراد درحقیقت نواز شریف اور زرداری کی آڑ میں ملک کے عوام کی جانب بھی انتہائی تحقیر آمیز رویہ اپنائے ہوئے تھے اور ان کا کہنا تھا کہ لوگ اپنی جہالت اور کم علمی کے باعث ان پارٹیوں کو ووٹ دیتے ہیں۔ درحقیقت تحریک انصاف کے اکثر حامی جمہوریت کے ہی خلاف تھے اور ان کے خیال میں گنوار اور جاہل لوگ جنہیں عوام کہاجاتا ہے ان کے پاس ووٹ کا حق ہی نہیں ہونا چاہیے۔ یہ نقطہ نظر خود آمریت کی پیداوار ہے اور آمرانہ سوچ کو تقویت دیتا ہے۔ اسی لیے ملک کے مقتدر حلقوں نے اس سوچ کو مزید پروان چڑھایا اور ریاستی اداروں کی بڑے پیمانے پر آشیر باد کے ساتھ تاریخ کے سب سے بڑے فراڈ الیکشن کے ذریعے اس پارٹی کو اقتدار دلوایا گیا۔ اس تحریکِ فراڈ اور اس کی پشت پناہی کرنے والوں کی کامیابی کی سب سے بڑی وجہ دوسری تمام پارٹیوں کی بد ترین ناکامی اور عوام دشمنی بھی تھی جس کے باعث طویل ترین اقتدار کے بعدنواز شریف اور زرداری جیسی سامراجی طاقتوں کی پروردہ قیادتیں اور ان کی پارٹیوں سمیت دیگر تمام پارٹیوں کی ماضی کی عوامی حمایت ختم ہو چکی تھی اور وہ ہوا میں معلق تھیں۔
اس سیاسی خلا میں انتخابات سے قبل تحریک انصاف نے انتہائی بلند و بانگ دعوے کیے اور اعلان کیا کہ وہ ایک کروڑ نوکریاں اور پچاس لاکھ گھر بنا کر دیں گے۔ یہ ایک غیر معمولی نعرہ تھا اور موجودہ معاشی نظام میں کبھی بھی ممکن نہیں۔ لیکن اس نعرے کے پیچھے اس پارٹی کی قیادت کی اقتدار کی ہوس جھلکتی ہے جو حکومت کے حصول کے لیے بڑے سے بڑا جھوٹ بھی بولنے کے لیے تیار تھی خواہ اس کی بعد میں کوئی بھی قیمت ادا کیوں نہ کرنی پڑے۔ اقتدار میں آنے کے بعد بھی پہلی تقریر میں عمران خان نے اسی پروگرام کی تجدید کی اور کہا کہ وہ کبھی بھی دوسرے ممالک سے بھیک نہیں مانگے گا۔ اسی طرح دوسرے وزرا بھی اسی قسم کے بیانات دیتے گئے جس سے بڑے پیمانے پریہ تاثر پیدا کرنے کی کوشش کی گئی کہ بس اب تبدیلی آ چکی ہے اور کسی نے بھی نہیں گھبرانا۔
لیکن اس کے ساتھ ہی حقیقی صورتحال بھی عوام پر عیاں ہونی شروع ہو گئی اور مہنگائی اور بیروزگاری کے بد ترین حملوں کا آغاز ہو گیا۔ اس دوران حکومت کی بوکھلاہٹ بھی دن بدن بڑھتی گئی اور ایک کے بعد دوسرا جھوٹ بولنا شروع کر دیا گیا۔ جھوٹ در جھوٹ کا سلسلہ اتنا زیادہ بڑھ گیا کہ دروغ گوئی اور جھوٹ بولنے کوعظیم لیڈروں کی پہچان قرار دے دیا گیا اور اسے انتہائی مکاری سے یو ٹرن کہنا شروع کر دیا گیا۔ اقتدار کے پہلے ایک مہینے میں حکومت کے بولے گئے جھوٹوں کی صرف فہرست مرتب کی جائے تو ہزاروں صفحات بھی کم پڑ جائیں گے۔ اس دوران اسد عمر انتہائی چالاکی سے اپنی نالائقی کو چھپانے کی کوششیں کرتا رہا اور انتہائی عیاری سے نئی مشکل اصطلاحات کے پیچھے پرانی پالیسیوں کو جاری رکھتا گیا۔ اپنی پہلی بجٹ تقریر میں اس نے پرانے وزرائے خزانہ کا بھی مذاق اڑایا اور کہا کہ میں نے ایک جدید تکنیک سے ترقیاتی بجٹ کو کم نہیں ہونے دیا اور اسے برقرار رکھا ہے جبکہ دیگر خسارے بھی پورے کر لیے ہیں۔ لیکن بعد ازاں واضح ہوگیا کہ نہ صرف ترقیاتی بجٹ کم کیا گیا تھا بلکہ تقریباً ختم ہی کر دیا گیا جبکہ دفاعی بجٹ میں بڑا اضافہ کیا گیا۔ اسی طرح نجکاری کی پالیسی کو بھی نیا نام دیتے ہوئے ویلتھ فنڈ کا منصوبہ تیار کیا گیا۔ اس منصوبے کے تحت دو سو سے زائد اداروں کی نجکاری کا فیصلہ کیا گیا جس میں لاکھوں ملازمین کو نوکریوں سے برطرف کرنے کی منصوبہ بندی تیار کر لی گئی۔ تحریک انصاف کی حکومت نے آتے ہی ڈیلی ویجز پر کام کرنے والے محنت کشوں پر بھی حملہ کیا اور ان کو نوکریوں سے برطرف کرنے کے احکامات جاری کیے لیکن پھر نیچے سے دباؤ کے بعد وہ احکامات واپس لینے پڑے۔ اسی طرح عمران خان کے قریبی دوست زلفی بخاری کو یوٹیلیٹی سٹور کارپوریشن کا تحفہ دینے کی کوشش کی گئی جس میں چودہ ہزار ملازمین کو برطرف کر کے بلی چڑھائی جانی تھی۔ لیکن ان ملازمین کے اسلام آباد میں شاندار احتجاج کے بعد یہ کمزور حکومت اپنے حملے سے پسپا ہونے پر مجبور ہوئی۔
آغاز میں آئی ایم ایف اور امریکہ کو یہ کہہ کر رد کر دیا گیا کہ ہمیں ان کی ضرورت نہیں اور ہم ان کے بغیر بھی حکومت چلا سکتے ہیں۔ لیکن اسد عمر کا انجام انہی اداروں کے در پر گڑگڑا کر قرضے کی بھیک مانگتے ہوئے ہوا اور اس قرضے کے حصول میں ناکامی کے باعث اسے اپنی نوکری سے ہاتھ دھونے پڑے۔ لیکن دوسری جانب آغا زمیں چین سے بھی مخاصمت مول لے لی گئی اور کہا گیا کہ سی پیک منصوبے کو کچھ سالوں کو مؤخر کرنے کی ضرورت ہے۔ لیکن بعد ازاں اس پر بھی فوری طور پر معافی مانگ لی گئی اور چین کے سامنے بھی جھولی پھیلا دی گئی۔ لیکن اس تمام تر عمل میں موجودہ حکومت کی نہ صرف ناکامی واضح ہوتی گئی بلکہ امریکہ اور چین کی تجارتی اور معاشی جنگ میں پاکستان کی معیشت بھی فٹ بال کی طرح لڑھکتی ہوئی نظر آئی۔ یہ عمل ابھی بھی جاری ہے اور انہی تضادات کے باعث اسد عمر استعفیٰ دینے پر مجبور ہوا ہے اور اس حکومت کے خاتمے کی بنیاد بھی رکھ گیا ہے۔
اس صورتحال میں اپوزیشن اس پر فخر محسوس کر رہی ہے کہ وہ آئی ایم ایف سے قرضے لینے میں کامیاب ہوگئی تھی بلکہ نواز شریف نے تو چین سے بھی بڑے پیمانے پر قرضے لے لیے تھے۔ اس لیے وہ زیادہ قابل ہیں جبکہ موجودہ حکومت نااہل اور نالائق ہے۔ بہت سے معیشت دان اس وقت آئی ایم ایف کو دیوتا بنا کر پیش کر رہے ہیں جس کے در پر ماتھا ٹیکنے سے تمام مسائل حل ہوجاتے ہیں۔ یہ بھی کہا جارہا ہے کہ جیسے ہی آئی ایم ایف سے قرضہ ملے گا اور اس کے تمام احکامات پر عمل ہوگا تو تمام مسائل حل ہو جائیں گے اور معیشت واپس بہتر حالت میں آ جائے گی۔ یہ سب ان معیشت دانوں کی سطحی سوچ کی عکاسی کرتی ہے اور ان کے دیوالیہ پن کا ثبوت ہے۔ اگر آئی ایم ایف کے ذریعے معاشی مسائل حل ہوا کرتے تو آج پاکستان میں کوئی ایک بھی معاشی مسئلہ موجود نہ ہوتا۔ بلکہ دنیا بھر میں ہی کوئی مسئلہ نہ ہوا ہوتا اور یونان سمیت یورپ کی کوئی معیشت بھی بحران کا شکار نہ ہوتی۔ اسی طرح دنیا میں آئی ایم ایف سے سب سے زیادہ پروگرام لینے والا ملک پاکستان ہی ہے جس نے جنرل ایوب خان کے دور سے لے کر اب تک 21دفعہ آئی ایم ایف کا طوق گلے میں ڈالا ہے۔ اس دوران ملک کے تقریباًتمام بجٹ اور معاشی پالیسیاں انہی اداروں نے ترتیب دی تھیں لیکن اس کے باوجود ملک میں غربت، لاعلاجی اور بیروزگاری میں اضافہ ہی ہوا ہے اور ملکی معیشت دیوالیہ پن کے دہانے پر کھڑی ہے۔ آج اگر دوبارہ آئی ایم ایف کا قرضہ مل بھی جاتا ہے تو کوئی ایک بھی مسئلہ حل نہیں ہوگا اور نہ ہی اسحاق ڈار یا شوکت ترین، سلمان شاہ، عمر ایوب اور عشرت حسین وغیرہ دوبارہ معیشت کو دیوالیہ پن سے نکال سکتے ہیں۔
لیکن اسد عمر کی ناکامی درحقیقت اصلاح پسندی یا ریفارم ازم کی ناکامی ہے۔ اس نظریے کی بنیاد ہے کہ اسی سرمایہ دارانہ نظام کو بہتر انداز میں چلایا جا سکتا ہے اور سماج کو ترقی دی جا سکتی ہے۔ اس نظام میں سے اگر کرپشن، لوٹ مار اور بد انتظامی کو ختم کر دیا جائے تو یہ ایک بہترین نظام ہے۔ یہ غلیظ نظریہ دنیا بھر میں ناکام ہو چکا ہے اور آج یورپ میں اس نظریے کے چیتھڑے اڑ رہے ہیں جہاں فلاحی ریاست دم توڑ چکی ہے اور لاکھوں لوگوں سڑکوں پر احتجاج کر رہے ہیں۔ اس نظام کی اصلاح کرنے کے پہلے مرحلے پرہی عمران خان اوراسد عمر کو وہ تمام اقدامات کرنے پڑے جن پر وہ اپوزیشن میں تنقید کرتے آئے تھے جس کے باعث ان کیخلاف عوامی نفرت بڑھتی گئی۔ ملکی کرنسی کی قدر میں تاریخ کی بد ترین گراوٹ دیکھنے میں آئی، پٹرول کی قیمتوں میں ہوشربا اضافہ کیا گیا، مہنگائی اور بیروزگاری کے سیلاب کے دروازے کھول دیے گئے جو عوام کو بہاتا چلا جا رہا ہے۔ ان زخموں پر نمک چھڑکتے ہوئے یہ بھی کہا گیا کہ یہ تو محض آغاز ہے اور اصل مہنگائی اور بیروزگاری تو ابھی ہونی ہے۔ لیکن ساتھ ہی ساتھ معیشت کی بحالی کے کھوکھلے منصوبے بھی پیش کیے گئے جو تقریر کے دوران ہی مذاق بن گئے ان پر عملی جامہ تو دور کی بات ہے۔ ان میں انڈوں، مرغیوں اور بکریوں والی پالیسیاں بھی شامل ہیں اورسمندر سے تیل اور گیس کے ذخائر کے لطیفے بھی، ایک کروڑ نوکریاں اور پشاورمیٹرو بس بھی ان میں شامل ہے۔ اسی طرح یہ بھی کہا گیا کہ یہ سب کچھ پچھلی حکومت کی غلط پالیسیوں کے باعث کیا جا رہا ہے جبکہ اس سے پہلے یہ کہا گیا تھا کہ اقتدار کے صرف پہلے سو دنوں میں بہت بڑی تبدیلی دیکھنے آ جائے گی۔ اپنے ہی وعدوں سے مکرنے کے لیے کئی بہانے تراشنے کی کوشش کی گئی لیکن کوئی بھی کام نہیں آیا۔
اسد عمر کے استعفے سے واضح ہو گیا کہ اس ملک کی پالیسیاں کون ترتیب دیتا ہے اور اصل مالکان کون ہیں۔ پاکستان کے حکمران امریکی آقا سے کافی نالاں نظر آتے ہیں اور موجودہ حکومت کا بر سر اقتدار آنا بھی امریکی سامراج کے خلاف مقامی حکمرانوں کے غم و غصے کا اظہار تھا۔ ان حکمرانوں کا خیال تھا کہ وہ اپنی مرضی سے امریکہ کی کاسہ لیسی کرتے ہیں اور اگر چاہیں تو امریکی سامراج کیخلاف کسی اتحاد کا حصہ بن کر آزادانہ طور پر بھی اپنی حکمرانی کو جاری رکھ سکتے ہیں۔ لیکن موجودہ بحران نے اس تمام تر کھوکھلے غرور پر پانی پھیر کر رکھ دیا ہے۔ امریکہ کیخلاف چین سے مدد کی اپیل کی گئی جس پر خاطر خواہ کامیابی نہیں مل سکی۔ مسعود اظہر کے معاملے پر چین نے اپنی سابقہ حمایت کو جاری رکھا لیکن معاشی دیوالیہ پن سے نکالنے کے لیے چین کی حمایت کارآمد نہیں ہو سکی۔ سعودی عرب اور امارات کی جانب سے دوستی کاہاتھ بھی خالی جیبوں کو ٹٹول کر ہی واپس آ گیا۔ امارات نے تو اعلان کردہ ادھار تیل کی فراہمی بھی ختم کرنے کا اعلان کر دیا۔ جبکہ سعودی ولی عہد اپنی داخلی مشکلات کو حل کرنے کے لیے تھوڑی بہت امداد پر راضی ہوا۔ لیکن اس تمام چکر کے آخر میں واضح ہوا کہ اس نظام میں امریکہ کی چوکھٹ پر سجدہ ہی اپنی حکمرانی کو جاری رکھنے کاواحد ذریعہ ہے۔
لیکن امریکہ اپنے غلاموں کا شکنجہ سخت کرتا جا رہا ہے اور اپنے معاشی، ریاستی اور سماجی بحران کے باعث جہاں نحیف ہورہا ہے وہاں اپنے گماشتوں کو پالنے پر اخراجات بھی کم کر رہا ہے۔ اس دوران اس بوڑھے سامراج کی مطالبات کی فہرست طویل ہوتی جا رہی ہے جبکہ خرچے کے لیے ادائیگیوں کو کم سے کم کر رہا ہے۔ اسی لیے ہمیں پاکستان پر فنانشل ایکشن ٹاسک فورس کا شکنجہ سخت ہوتا نظر آتا ہے جبکہ آئی ایم ایف کے قرضے کی منظوری میں تاخیر نظر آ رہی ہے۔ اسد عمر کے حالیہ دورۂ امریکہ میں جو تحقیر آمیز سلوک رکھا گیا وہ شاید پہلے کسی بھی وزیر خزانہ کے حصے میں نہ آیا ہو۔ نہ صرف امریکی وزیر خزانہ نے انتہائی ہتک آمیز انداز میں اسد عمر سے ملنے سے انکار کر دیا بلکہ آئی ایم ایف کی سربراہ نے بھی ملاقات کی ضرورت محسوس نہیں کی۔ اور وزیر خزانہ سر جھکائے نچلے عملے سے ہی کچھ ملاقاتیں کر کے وطن واپس لوٹ آئے۔
اس صورتحال میں آنے والا عرصہ زیادہ دھماکہ خیز واقعات سے بھرپور ہوگا۔ مہنگائی اور بیروزگاری کے مزید حملوں کے لیے جس کو بھی وزیر خزانہ مقرر کیا جائے گا اس کے خلاف عوامی نفرت میں تیز ترین اضافہ دیکھنے میں آئے گا۔ موجودہ حکومت کی پالیسیوں اور ماضی کی تمام حکومتوں کی پالیسیوں میں کوئی بھی فرق نہیں۔ صرف بحران کے باعث عوام پر کیے جانے والے حملوں میں شدت آئی ہے۔ نجکاری اور ڈاؤن سائزنگ سے لے کر بیرونی قرضوں کی بھیک پر گزارہ کرنے کے ساتھ ساتھ یہ حکمران سرمایہ داروں کے لیے ٹیکسوں کی چھوٹ اور مراعات میں بھی مسلسل اضافہ کرتے جا رہے ہیں۔ اسی طرح صحت اور تعلیم کے بجٹ میں کٹوتیوں کا سلسلہ بھی تیزی سے جاری ہے جبکہ دفاعی اخراجات میں بہت بڑا اضافہ کیا جا رہا ہے۔ سی پیک کے دوسرے مرحلے کے آغاز کی خواہش بھی حکمرانوں میں موجود ہے لیکن اس وقت چین کی پہلے والی دلچسپی موجود نہیں۔ وہ پہلے دیے گئے قرضوں کی جلد اور باقاعدگی سے واپسی کا خواہشمند ہے۔ درحقیقت آئی ایم ایف کی موجودہ حکومت سے ناراضگی کی ایک بڑی وجہ بھی یہی ہے کہ وہ مطالبہ کر رہے ہیں کہ انہیں چینی قرضوں کی تمام تر تفصیلات سے آگاہ کیا جائے جس کے بعد ہی آئی ایم ایف قرضہ جاری کر سکے گا۔ لیکن ایسا کرنے کی صورت میں تمام تر بدعنوانی اور لوٹ مار سامنے آنے کا خدشہ ہے اور امریکی حکمران ان تفصیلات کو پوری دنیا میں اپنے مفادات کے حصول اورچین کے سامراجی کردارکو عیاں کرنے کے لیے استعمال کریں گے۔ اس صورتحال میں مقامی حکمران چکی کے دوپاٹوں کے درمیان پس رہے ہیں۔ لیکن اس تمام تر بحران کا بوجھ محنت کش عوام پر ڈالا جا رہا ہے اور ان سے زندگی کی بنیادی سہولیات بھی چھین لی گئی ہیں۔ ادویات کی قیمتوں میں کئی گنا اضافہ کر دیا گیا ہے جبکہ سرکاری ہسپتالوں کو تیزی سے نجی تحویل میں دیا جا رہا ہے۔ آنے والے دنوں میں بھوک، بیماری، جہالت اور بیروزگاری کے ایٹم بم عوام پر گرائے جائیں گے اور ان سے ناکردہ گناہوں کا انتقام لیا جائے گا۔ لیکن ان مظالم کیخلاف ناگزیر طور پر تحریکیں بھی جنم لیں گی جو ان حکمرانوں کی حاکمیت کو چیلنج کریں گی۔ انہی تحریکوں کا دباؤ حکمران طبقات کے آپسی تضادات کو بھی گہرا کرے گا اور ان کی لڑائیاں مزید شدت اختیار کریں گی۔ پہلے ہی عوامی نفرت کی توجہ اپنے طرف سے ہٹانے کے لیے نواز شریف اور زرداری کی کرپشن کو استعمال کیا جا رہا ہے۔ لیکن اس کا مقصد بھی ان سے لوٹی ہوئی دولت کا حصول نہیں بلکہ سیاسی ناٹک کو جاری رکھنا ہے تاکہ آنے والے وقت میں ان عوام دشمن قوتوں کو دوبارہ استعمال کیا جا سکے۔ لیکن یہ ناٹک مزید خونخوار ہوتا چلا جائے گا اور مزید قربانیاں مانگیں گا۔ اسد عمر کا استعفیٰ بھی درحقیقت حکمران طبقات کے داخلی تضادات کا اظہار ہے جس کی وجہ نیچے سے بڑھتا ہوادباؤ ہے۔
اس نظام میں رہتے ہوئے معاشی مسائل کا کوئی بھی حل نہیں۔ صرف ایک سوشلسٹ انقلاب کے ذریعے غربت، بیروزگاری اور ناخواندگی کا خاتمہ کیا جا سکتا ہے۔ ایک ایسا انقلاب جس میں حکمران طبقات کی تمام تر دولت اور ذرائع پیداوار پر محنت کش عوام کا اجتماعی قبضہ ہو۔ تمام سامراجی قرضوں کو ضبط کرتے ہوئے انہیں ادا کرنے سے انکار کر دیا جائے۔ تمام تر بیرونی تجارت مزدور ریاست کے کنٹرول میں ہو۔ معیشت کے کلیدی حصوں پرنجی ملکیت کا خاتمہ کر دیا جائے اور تمام تر بینکوں اور مالیاتی اداروں کو مزدور ریاست کے کنٹرول میں لیتے ہوئے منڈی کی معیشت کا خاتمہ کیا جائے اور ایک منصوبہ بند معیشت کا آغاز کیا جائے۔ اسی طریقے سے محنت کشوں کو روٹی، کپڑا، مکان، علاج اور تعلیم جیسی بنیادی سہولیات فراہم کی جا سکتی ہیں اور یہاں پر عوام کا خون پینے والے حکمرانوں سے نجات حاصل کی جا سکتی ہے۔