|تحریر: آفتاب اشرف|
10 جون کو وفاقی بجٹ 2022-23ء پیش ہونے جا رہا ہے۔ ماضی کی طرح یہ بجٹ بھی آئی ایم ایف کے احکامات، ملکی سرمایہ دار طبقے اور فوجی و سول ریاستی اشرافیہ کے مفادات کے مطابق ہی تیار کیا جا رہا ہے لہٰذا یہ ممکن نہیں کہ اس میں ملک کے محنت کش عوام کے لئے خیر کی کوئی خبر ہو۔ واضح رہے کہ عالمی معیشت کی صورتحال اس وقت نہایت دگرگوں ہے اور عالمی بورژوازی کے تمام سنجیدہ دانشور بھی مستقبل قریب میں ایک نئے عالمی مالیاتی کریش کی باتیں کر رہے ہیں۔ لیکن ہم مارکس وادی تو سائنسی و منطقی بنیادوں پر سمجھتے ہیں کہ عالمی سرمایہ دارانہ معیشت 2008ء سے مسلسل ایک نامیاتی بحران کا شکار ہے جس کی شدت اگرچہ کم اور زیادہ ہوتی رہی ہے، لیکن دنیا کبھی بھی اس بحران سے باہر نہیں آسکی۔ پچھلے چند سالوں میں پہلے کرونا وبا کی تباہ کاریوں اور اب روس یوکرائن جنگ جیسے عوامل نے پہلے سے چلے آنے والے اس بحران کی شدت میں مزید اضافہ کیا ہے اور اس وقت عالمی معیشت ایک گہری کھائی کے کنارے کھڑی ہے۔ ایسے میں پاکستان جیسی پسماندہ سرمایہ دارانہ معیشت کی تباہ حالی اور بحران کی شدت کا اندازہ لگانا مشکل نہیں۔
تازہ ترین اطلاعات کے مطابق 20 مئی تک اسٹیٹ بنک کے پاس زرمبادلہ کے ذخائر 10.16 ارب ڈالر تک گر چکے تھے، جو کہ دو ماہ کی درآمدات کے لئے بھی ناکافی ہیں اور جن کا بھی ایک بڑا حصہ خلیجی ممالک اور چین سے حاصل کردہ ڈیپازٹ سپورٹ قرضوں پر مشتمل ہے۔ اسی طرح رواں مالی سال 2021-22ء میں آئی ایم ایف کے احکامات کے تحت معیشت کو ”ٹھنڈا“ کرنے کی تمام تر تدابیر (مثلاًشرح سود بڑھانا) کے باوجود کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ 15 ارب ڈالر سے زائد بن رہا ہے جبکہ دوسری طرف مالیاتی خسارہ بھی 5 ٹریلین روپے (1ٹریلین 1000= ارب) تک پہنچ رہا ہے۔ یہاں یہ واضح کرنا بہت ضروری ہے کہ بورژوا ماہرین معیشت کی دروغ گوئی کے برعکس ان زبردست دوہرے خساروں کی اصل وجہ عالمی معاشی بحران کی صورتحال میں پاکستان کی پسماندہ سرمایہ داری کا تاریخی و نامیاتی خصی پن ہے نہ کہ پیٹرولیم مصنوعات پر چند ماہ کے لئے عوام کو دی جانے والی سبسڈی جس کا کل حجم محض 200 سے 300 ارب روپے بنتا ہے۔ مزید برآں ایندھن اور بجلی پر دی جانے والی سبسڈیوں کو جواز بنا کر آئی ایم ایف نے اپنا قرض پروگرام بھی پچھلے چند ماہ سے معطل کر رکھا ہے جس کی وجہ سے نہ تو پاکستان کو آئی ایم ایف سے موجودہ پروگرام کے بقایا 3 ارب ڈالر مل رہے ہیں اور نہ ہی ورلڈ بنک اور اے ڈی بی سے کوئی نیا قرضہ۔ اسی طرح پاکستان کے نام نہاد دوست ممالک نے بھی مزید قرضوں کی منظوری اور پرانے قرضوں کے رول اوور کو آئی ایم ایف پروگرام کی بحالی سے مشروط کر رکھا ہے۔ جبکہ بڑے کرنٹ اکاؤنٹ خسارے اور پچھلے بیرونی قرضوں کے اصل زر اور ان کے سود کی ادائیگیوں کے کارن ملکی زر مبادلہ کے ذخائر میں ہونے والی کمی سے جہاں ڈالر ایک طرف تقریباً 200 روپے کا ہو چکا ہے وہیں دوسری طرف ادائیگیوں کے توازن کا بحران شدت اختیار کرتا جا رہا ہے اور آئی ایم ایف قرض پروگرام بحال نہ ہونے کی صورت میں فوری ڈیفالٹ یقینی ہے۔
ایسے میں ن لیگ کی سربراہی میں قائم ہونے والی پرانے لٹیروں کی نئی حکومت کا وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل قرض پروگرام کی بحالی بلکہ اس کی مدت اور حجم میں ایک سال اور 2 ارب ڈالر کے اضافے کے لئے آئی ایم ایف کی تمام تر عوام دشمن شرائط کو من وعن تسلیم کر چکا ہے۔ پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں حال ہی میں ہونے والا 60 روپے فی لیٹر کا اضافہ اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔ لیکن یہ تو ابھی محض آغاز ہے کیونکہ پیٹرول، ہائی سپیڈ ڈیزل اور کیروسین آئل پر ابھی بھی کچھ سبسڈی دی جا رہی ہے جس کا مکمل خاتمہ آئی ایم ایف پروگرام کی بحالی کی لازمی شرط ہے۔ مزید برآں یکم جولائی سے شروع ہونے والے اگلے مالی سال میں 30 روپیہ فی لیٹر پیٹرولیم لیوی کا نفاذ اور پیٹرولیم مصنوعات پر 17 فیصد جی ایس ٹی (تقریباً 35 روپے فی لیٹر) کی بحالی بھی آئی ایم ایف کی شرائط میں شامل ہیں۔ اسی طرح آئی ایم ایف کی شرائط کے مطابق پاور سیکٹر کے 2500 ارب روپے کے گردشی قرضوں کا بوجھ عوام پر ڈالنے کے لئے نیپرا نے بجلی کے بیس لائن ٹیرف میں 7.9 روپے اضافے کی سمری حکومت کو بھجوا دی ہے اور منظوری کے بعد یکم جولائی سے اس کا اطلاق عمل میں آئے گا۔ اس کے نتیجے میں بجلی کا اوسط بیس لائن ٹیرف موجودہ 16.91 روپے سے بڑھ کر 24.82 روپے ہو جائے گا۔ واضح رہے کہ ماہانہ فیول ایڈجسٹمنٹ کی مد میں عوام سے وصول کئے جانے والے اضافی چارجز ابھی اس کے علاوہ ہیں۔ لیکن اس تمام لوٹ مار کے باوجود بھی نہ ہی گردشی قرضوں کا خاتمہ ہو سکے گا اور نہ ہی لوڈ شیدنگ کا کیونکہ آئی پی پیز کی تجوریاں وہ اندھے کنویں ہیں جو کبھی نہیں بھر سکتے۔
اسی طرح آئی ایم ایف کی عوام دشمن شرائط کے تحت بنائے جانے والے وفاقی بجٹ 2022-23ء کے حوالے سے بھی ابھی تک منظر عام پر آنے والی ابتدائی تفصیلات نہایت خوفناک ہیں اگرچہ خبریں ہیں کہ آئی ایم ایف حکام ابھی بھی مطمئن نہیں ہیں اور مزید سختی کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ وفاقی بجٹ کا حجم تقریباً 13 ٹریلین یا 13000 ارب روپے ہے جس میں کل وفاقی حکومتی آمدن تقریباً 9200 ارب روپیہ ہے جس میں سے صوبوں کو ان کا متعلقہ حصہ ملنے کے بعد لگ بھگ 3800 ارب روپے کے مالیاتی خسارے کا تخمینہ ہے جسے مزید داخلی اور بیرونی قرضے اٹھا کر پورا کیا جائے گا۔ کل حکومتی آمدن میں تقریباً 7250 ارب روپے کی ٹیکس آمدن ہے جو رواں مالی سال کی تقریباً 6100 ارب روپے کی ٹیکس آمدن کے مقابلے میں لگ بھگ 1200 ارب روپے زیادہ ہے۔ اطلاعات کے مطابق آئی ایم ایف کی جانب سے دیے گئے ٹیکس آمدن میں اضافے کے اس ہدف کو محنت کش عوام کی پیٹھ پر لادے جانے والے نئے بالواسطہ ٹیکسوں کے نفاذ، پہلے سے نافذ شدہ بالواسطہ ٹیکسوں کی شرح یا دائرہ اطلاق میں اضافے اور زیادہ تر تنخواہ دار درمیانے طبقے پر لادے جانے والے انکم ٹیکس کی شرح میں اضافے کے ذریعے حاصل کیا جائے گا۔ یاد رہے کہ پاکستان میں پہلے ہی حکومت کی ٹیکس آمدن کا تقریباً 2/3 محنت کش طبقے کے کندھوں پر لادے جانے والے بالواسطہ ٹیکسوں سے حاصل ہوتا ہے جبکہ براہ راست ٹیکس حکومتی ٹیکس آمدن کا لگ بھگ 1/3 حصہ ہیں۔ مگر ان براہ راست ٹیکسوں کا بھی ایک بڑا حصہ تنخواہ دار درمیانے پر عائد ہونے والے انکم ٹیکس اور زیادہ تر چھوٹے، درمیانے کاروباریوں کو متاثر کرنے والے ود ہولڈنگ ٹیکس پر مبنی ہے جبکہ دوسری طرف ملکی و غیر ملکی سرمایہ داروں، بڑے کارپوریٹ بزنس، نجی بنکوں، عسکری کاروباری سلطنت وغیرہ کو یا تو بہت سی مختلف مدوں میں ٹیکس چھوٹ حاصل ہے یاپھر ان کے منافعوں اور ملکیت پر عائد ٹیکس نہایت ہی کم ہے حالانکہ سرکاری رپورٹوں کے مطابق بھی ملک کی 100 بڑی کمپنیوں نے کرونا وبا کی تمام تر تباہ کاریوں کے باوجود 2021ء میں 950 ارب روپے کا ریکارڈ منافع کمایا تھا اور یہ تو ابھی صرف وہ منافع ہے جو انہوں نے ظاہر کرنے کی زحمت کی ہے۔ مگر اس ساری بحث سے قطع نظر اصل حقیقت یہ ہے کہ پاکستان کا سرمایہ دار طبقہ ٹیکس چوری میں اپنی مثال آپ ہے اور خود پر عائد اس تھوڑے بہت ٹیکس سے بچنے کے بھی ہزار وں چور راستے ڈھونڈ لیتا ہے۔
بجٹ میں نان ٹیکس حکومتی آمدن کا ٹارگٹ 2000 ارب روپے رکھا گیا ہے۔ لیکن واضح رہے کہ حکومت پاکستان کی نان ٹیکس آمدن کا ایک قابل ذکر حصہ پیٹرولیم لیوی،بجلی اور گیس کے بلوں میں شامل مختلف سرچارجز وغیرہ سے حاصل ہوتا ہے جو درحقیقت ایک قسم کے بالواسطہ ٹیکس ہی ہیں۔ اسی طرح اس نام نہاد نان ٹیکس آمدن کا ایک اور قابل ذکر حصہ نجکاری کے ذریعے حاصل ہونے والی رقوم پر مشتمل ہوتا ہے جس کا خمیازہ ڈاؤن سائزنگ اور مہنگی سہولیات کی صورت میں محنت کش عوام ہی کو بھگتنا پڑتا ہے۔ مزید برآں نان ٹیکس آمدن کے اس بڑے ہدف سے یہ عندیہ بھی ملتا ہے کہ حکومت آئی ایم ایف کے احکامات پر عوامی اداروں کی نجکاری میں مزید تیزی لانے کا منصوبہ بنا رہی ہے۔
اگر حکومتی اخراجات کی بات کی جائے تو ابتدائی معلومات کے مطابق بجٹ میں تقریباً 3600 ارب روپے سابقہ قرضوں کی سود کی ادائیگیوں کی مد میں رکھے گئے ہیں۔ لیکن درحقیقت مالی سال کے دوران اس رقم میں قابل ذکر اضافہ ناگزیر ہے کیونکہ ایک تو ملکی شرح سود میں مزید متوقع اضافے کے نتیجے میں داخلی قرضوں کے سود کی ادائیگیاں بڑھیں گی۔ اور اس کے ساتھ ساتھ روپے کی قدر میں مزید گراوٹ کے کارن (پاکستانی روپے میں) بیرونی قرضوں کے سود کی ادائیگیوں کے حجم میں بھی اضافہ ہو گا۔ واضح رہے کہ مارچ 2022ء کے اختتام تک پاکستان کا کل قومی قرضہ 53.5 ٹریلین روپے ہو چکا تھا (داخلی، بیرونی، حکومتی و غیر حکومتی سب ملا کر) جو کہ رواں سال جنوری میں حکومت کی جانب سے اکانومی کا بیس ائیر تبدیل کرنے کے کارن ملکی جی ڈی پی میں نظر آنے والے اضافے کے باوجود جی ڈی پی کے 80 فیصد کے برابر ہے۔ کل قومی قرضے میں سے 44.4 ٹریلین روپے براہ راست حکومتی قرضہ ہے (داخلی اور بیرونی قرضہ جات ملا کر) لیکن یاد رہے کہ پاکستان جیسے ملک میں غیر حکومتی قرضوں، خصوصاً غیر حکومتی بیرونی قرضوں کے ایک قابل ذکر حصے کو حکومتی گارنٹی حاصل ہوتی ہے۔ یہاں اگر ڈالرز میں بیرونی قرضوں کی بات کی جائے تو دسمبر 2021ء کے اختتام تک حکومت کے بیرونی قرضہ جات 102 ارب ڈالر تک پہنچ چکے تھے جبکہ کل بیرونی قرضہ جات کا حجم 125 ارب ڈالر سے تجاوز کر چکا تھا۔ یہاں یہ واضح کرنا بہت ضروری ہے کہ یہ قرضے نہ پاکستان کے محنت کش عوام نے لئے اور نہ ہی ان پر خرچ ہوئے۔ یہ قرضے ملک کی سرمایہ دار حکمران اشرافیہ نے اٹھائے ہیں اور انہی پر ہی خرچ ہوئے ہیں لیکن اس کے باوجودان کی واپسی کا سارا بوجھ مہنگائی، نجکاری، بیروزگاری اور کمر توڑ باواسطہ ٹیکسوں کی صورت میں محنت کشوں کی پیٹھ پر لادا جا رہا ہے۔
سود کی ادائیگیوں کے بعد حکومت کا دوسرا بڑا خرچہ فوجی بجٹ ہے۔ ابتدائی اطلاعات کے مطابق بجٹ میں 1580 ارب روپے فوجی بجٹ کے لئے مختص کئے گئے ہیں۔ لیکن یہ رقم فوجی اخراجات کی مکمل تصویر کشی نہیں کرتی۔ اس میں نہ تو لگ بھگ 400 ارب روپے کی فوجی پنشنز شامل ہیں اورنہ ہی ڈیولپمنٹ فنڈز کی مد میں سالانہ دیے جانے والے ڈیڑھ سے دو سو ارب روپے کیونکہ یہ سب ا خراجات مختلف سویلین مدوں میں کئے جاتے ہیں۔ ویسے بھی ہر مالی سال کے دوران مختص کردہ بنیادی فوجی بجٹ میں بھی پچاس، ساٹھ ارب روپے کا اضافہ ہو ہی جاتا ہے۔ یوں مالی سال 2022-23ء کے مجموعی فوجی اخراجات لگ بھگ 2200 ارب روپے بنتے ہیں۔ ابھی واضح رہے کہ فوجی اشرافیہ اور عسکری کاروباری سلطنت کو حاصل معاشی مراعات، سبسڈیاں وغیرہ 2200 ارب روپے کے اس مجموعی فوجی بجٹ میں شامل نہیں ہیں اگرچہ اس فوجی بجٹ کا بھی ایک قابل ذکر گھوم پھر کر جرنیلوں کی جیبوں میں ہی جاتا ہے۔ لیکن سب سے اہم بات یہ ہے کہ ان نام نہاد دفاعی اخراجات سے آخر کن کا دفاع کیا جاتا ہے؟ یہ بھاری بھرکم عسکری مشین کم از کم مہنگائی، بیروزگاری، بھوک اور دہشت گردی کے ہاتھوں مرتی، خودکشیاں کرتی محنت کش عوام کا تو دفاع نہیں کر رہی، تو پھر اس کے وجود کا حتمی مقصد صرف اور صرف حکمران طبقات کی نجی ملکیت کا دفاع ہی ہو سکتا ہے۔
وفاقی ترقیاتی بجٹ یعنی فیڈرل پی ایس ڈی پی کو وفاقی بجٹ 2022-23ء میں 600 سے 700 ارب روپے تک محدود رکھا جائے گا اور غالب امکانات ہیں کہ اس مد میں ہونے والے حقیقی اخراجات اس سے بھی کم ہوں گے۔ اگرچہ پی ایس ڈی پی کے تحت بننے والے ترقیاتی منصوبوں کا تعلق عوام کی ترقی اور ضروریات سے کم اور ٹھیکوں میں کرپشن،کمیشن اور کِک بیکس سے زیادہ ہوتا ہے، لیکن اس کے باوجود پاکستان جیسے پسماندہ ملک میں سرکاری ترقیاتی منصوبے روزگار پیدا کرنے کا ایک اہم ذریعہ ہوتے ہیں۔ لہٰذا وفاقی ترقیاتی بجٹ میں کمی یقینی طور پر سماج میں بیروزگاری اور غربت کو مزید بڑھاوا دینے کا سبب بنے گی۔ اسی طرح عوامی سہولیات کے دیگر شعبوں میں بھی بڑی کٹوتیاں متوقع ہیں جس کی ایک مثال یہ ہے کہ حکومت نے ہائیر ایجوکیشن کمیشن کا بجٹ 65 ارب روپے سے کم کر کے 30 ارب روپے کرنے کا اعلان کر دیا ہے جس کے کارن خاص کر سرکاری تعلیمی اداروں میں اعلیٰ تعلیم کا شعبہ بالکل برباد ہو کر رہ جائے گا۔ اس سے نہ صرف سرکاری تعلیمی اداروں کا رخ کرنے والے سفید پوش گھرانوں کے طلبہ کے ارمانوں کا خون ہو گا بلکہ اساتذہ اور یونیورسٹی ملازمین کی ایک بڑی تعداد بھی بیروزگار ہو جائے گی۔ اسی طرح عوامی سبسڈیوں میں بڑی کٹوتیاں اور عوامی سہولیات کے دیگر شعبوں کے بجٹ میں کمی بھی لازمی کی جائے گی جس کی تفصیلات بجٹ کی تفصیلی دستاویزات میں سامنے آئیں گی۔ مزید برآں بجٹ میں سویلین سرکاری ملازمین کی تنخواہوں اور پنشنوں کو یاں تو منجمد رکھا جائے گا یا پھر بنیادی تنخواہ کے پانچ سے دس فیصد کے برابر اضافہ کر کے حاتم طائی کی قبر پر لات ماری جائے گی لیکن ڈبل ڈیجٹ افراط زر کے کارن حقیقی اجرتوں میں بڑے پیمانے پر کمی ہو گی۔ اسی طرح کم از کم تنخواہ کو اگر پچیس ہزار روپے کر بھی دیا جاتا ہے تو بھی نجی شعبے میں اس کے اطلاق کو کون یقینی بنائے گا کیونکہ پاکستان کے سرمایہ داروں نے کبھی اس قانون کی دھجیاں اڑانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی ہے۔
مگر دوسری جانب ہر وقت ”خزانہ خالی ہے“ کا رونا رونے والے یہ منافق اور جھوٹے حکمران طبقہ امراء کو نوازنے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے۔ عالمی و ملکی معاشی بحران، وباؤں، بیرونی جنگوں، افراط زر غرض یہ کہ ہر مصیبت کا سارا بوجھ محنت کش عوام کے کندھوں پر ہی ڈالا جاتا ہے جبکہ اسی عرصے میں اشرافیہ کی دولت، منافعوں، اثاثوں اور عیاشیوں میں مسلسل اضافہ ہوتا چلا جاتا ہے۔ یو این ڈی پی کی 2021ء میں شائع ہونے والی این ایچ ڈی آر 2020ء رپورٹ کے مطابق حکومت پاکستان ملکی و غیر ملکی سرمایہ دار طبقے اور فوجی و سول ریاستی اشرافیہ کو سبسڈیوں، سستے قرضوں، ٹیکس چھوٹ، سستی سرکاری اراضی اور دیگر مدوں میں کل ملا کرتقریباً 2700 ارب روپے کی سالانہ معاشی مراعات سے نوازتی ہے۔ یاد رہے کہ اس رپورٹ کے مصنف ڈاکٹر حفیظ پاشا نے ان معاشی مراعات کا تخمینہ لگانے کے لئے مالی سال 2017-18ء کے اعدادو شمار کا استعمال کیا تھا اور اب تک ان مراعات کے حجم میں اور کچھ نہیں تو 50 فیصد کا اضافہ تو ہو ہی گیا ہو گا۔
اس سب کے علاوہ اگر معیشت کی مجموعی صورتحال کو دیکھا جائے تو مستقبل قریب تو کیا بہت دور تک اس بحران کے ٹلنے کے کوئی آثار نظر نہیں آتے۔ حکومتی اعدادو شمار کے مطابق مالی سال 2021-22ء میں جی ڈی پی کا حقیقی گروتھ ریٹ تقریباً 6 فیصد رہا ہے جو کہ حکومت کے ہی 4.8 فیصد کے سابقہ اندازے اور آئی ایم ایف کے 4 فیصد کے عدد سے کہیں زیادہ ہے۔ اس کی سب سے بڑی وجہ تو یہ ہے کہ حکومت نے جنوری 2022ء میں نیشنل اکانومی کا بیس ائیرمالی سال 2005-6ء سے تبدیل کر کے 2015-16ء کر دیا تھاجس کے نتیجے میں مالی سال 2020-21ء کے اختتام پر پرانے بیس ائیر کے مطابق 48 ٹریلین روپے حجم رکھنے والا ملکی جی ڈی پی ری بیسنگ کے کارن مالی سال 2021-22ء کے اختتام پر تقریباً 67 ٹریلین روپے ہو چکا ہے۔ اس کے علاوہ جو حقیقی گروتھ ہوئی بھی ہے وہ پیداوار میں کسی بڑے اضافے کی بجائے کرونا وبا کے دوران شرح سود میں کی جانے والی زبردست کمی، سرمایہ دارطبقے کو دیے جانے والے معاشی ریلیف پیکجز اور درآمدی رجیم میں نرمی کے کارن ملکی منڈی، خاص کر اشرافیہ اور اوپری درمیانے طبقے کی کھپت میں ہونے والے زبردست اضافے کی مرہون منت ہے۔ یہ کوئی حادثہ نہیں کہ ایک طرف تو ملک کے محنت کش طبقے کے لئے دو وقت کی روٹی کھانا مشکل ہو گیا ہے تو دوسری طرف بڑے شہروں کی سڑکوں پر مہنگی ترین ایس یو وی گاڑیوں کی پہلے کبھی نہ دیکھی گئی بھرمار نظر آرہی ہے۔ مگر دیگر وجوہات کے ساتھ ساتھ رواں مالی سال میں تجارتی خسارے اور افراط زر میں زبردست اضافے کے پیچھے بھی ان پالیسیوں کا ایک بڑا کردار ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اب آئی ایم ایف کے احکامات کے مطابق ”آزادشدہ“ اسٹیٹ بنک نے معیشت کو ”ٹھنڈا“ کرنے اور افراط زر کو قابو میں لانے کی خاطر بنچ مارک شرح سود کو 13.75 فیصد کی بلند ترین شرح تک پہنچا دیا ہے اور مستقبل میں اس میں مزید اضافہ بھی ہو گا۔ مگر اس پالیسی کا پہلا نتیجہ ملکی منڈی کی کھپت میں کمی، چھوٹے اور درمیانے کاروبار کی تباہی اور بیروزگاری کی شکل میں نکلے گا جبکہ مختلف ملکی و عالمی وجوہات (جن کو محض شرح سود بڑھا کر کاؤنٹر نہیں کیا جا سکتا) کے کارن شرح سود میں بڑے اضافوں کے باوجود بھی افراط زر ڈبل ڈیجٹ میں ہی رہے گا جو کہ پہلے ہی مئی میں (ناقابل اعتماد) حکومتی اعدادو شمار کے مطابق 13.8 فیصد ہو چکا ہے۔ اسی طرح درآمدی رجیم میں سختی کی تمام تر حکومتی کوششوں کے باوجود بھی مالی سال 2022-23ء میں بڑا تجارتی اور نتیجتاً کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ متوقع ہے، کیونکہ ایک طرف تو پاکستانی سرمایہ داری کی تاریخی صنعتی، تکنیکی و ثقافتی پسماندگی کے کارن نہ تو درآمدات پر انحصار کو ایک حد سے زیادہ کم کیا جاسکتا ہے اور نہ ہی برآمدات میں کوئی قابل ذکر اضافہ ہونا ممکن ہے جبکہ دوسری طرف عالمی وجوہات کے کارن عالمی منڈی میں تیل، خوراک سمیت دیگر کموڈٹیز کی قیمتوں میں اضافے کا رجحان بھی مستقبل قریب میں بحیثیت مجموعی برقرار رہے گا۔ اس کے ساتھ ساتھ پاکستان کا بہت سا را سابقہ بیرونی قرضہ بھی مالی سال 2022-23ء میں میچور ہو رہاہے اور یوں اگر سودکی ادائیگیوں کے ساتھ اصل زر کی واپسی کو بھی مد نظر رکھا جائے تو پاکستان کواگلے مالی سال میں 21 ارب ڈالر کا بیرونی قرضہ واپس کرنا ہے۔ اس میں اگر تقریباً 15 ارب ڈالر کا کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ بھی جمع کر دیا جائے تو خود وزیر خزانہ مفتاع اسماعیل کے مطابق مالی سال 2022-23ء میں حکومت کو بیرونی ادائیگیوں کے لئے تقریباً 36 ارب ڈالر کی رقم درکار ہو گی جس کا بندوبست کرنا آئی ایم ایف پروگرام کی بحالی کے باوجود بھی کوئی آسان کام نہیں ہو گا اور ادائیگیوں کا توازن مسلسل دباؤ کا شکار رہے گا۔ اس کے نتیجے میں ملکی زر مبادلہ کے ذخائر پر بھی دباؤ مسلسل بر قرار رہے گا اور نتیجتاً روپے کی قدر میں کمی کا عمومی رجحان تھوڑی یا زیادہ رفتار کے ساتھ جاری رہے گا۔ اس تمام تر صورتحال کے پیش نظر آئی ایم ایف اور ورلڈ بنک نے مالی سال 2022-23ء میں پاکستان کے جی ڈی پی گروتھ ریٹ میں حقیقی اضافے (افراط زر کو منہا کر کے) کا اندازہ 4 فیصد دیا ہے جبکہ ہمارے اندازے کے مطابق یہ اس بھی کم ہوگا۔
مزدور تحریک کے مطالبات و پروگرام
اس تمام صورتحال میں یہ تو واضح ہے کہ موجودہ ٹریڈ یونین قیادتوں کے آنے ٹکے کے فوری مطالبات وقت کے تقاضوں سے بہت پیچھے رہ گئے ہیں اور شدید ضرورت ہے کہ جرات مندانہ فوری مطالبات کے گرد مزدور تحریک کو جدوجہد کے لئے تیار کیا جائے۔ ان فوری مطالبات میں سرفہرست مطالبہ سرکاری اور نجی شعبے کے تمام محنت کشوں و ملازمین کی تنخواہوں اور پنشنوں میں 100 فیصد اضافے کا ہونا چاہئے تا کہ محنت کش طبقے کو کچھ تو فوری ریلیف مل سکے۔ واضح رہے کہ پچھلے کم وبیش پانچ سال میں روپیہ،ڈالر کے مقابلے میں اپنی تقریباً 95 فیصد قدر کھو چکا ہے جس سے افراط زر میں زبردست اضافہ ہوا۔ اسی عرصے میں محنت کش عوام پر لادے جانے والے بالواسطہ ٹیکسوں کے بوجھ میں بھی کئی گنا اضافہ ہوا ہے جبکہ سرمایہ دار طبقے کی منافع خوری بھی اپنے عروج پر جا پہنچی ہے۔ ان سب عوامل کے کارن حقیقی اجرتوں میں بڑے پیمانے پر کمی ہوئی ہے۔ ایسے میں تنخواہوں میں 100 فیصد فوری اضافے کا مطالبہ نہایت جائز اور متوازن ہے۔ اسی طرح نجی شعبے میں کم از کم اجرت (جو پچیس کی بجائے پچاس ہزار روپے ہونی چاہئے) کے اطلاق کو بھی مزدور تحریک کے اولین فوری مطالبات میں سے ایک ہونا چاہئے۔ ٹھیکیداری نظام کے تحت ڈیلی ویجز یا کنٹریکٹ اور ایڈہاک ملازمت بھی محنت کش طبقے کے لئے ایک ناسور کی مانند ہے جس کا خاتمہ ضروری ہے۔ لہٰذا مستقل روزگار کا مطالبہ بھی مزدور تحریک کے سر فہرست فوری مطالبات میں لازمی شامل ہونا چاہئے۔ اس کا آغاز سرکاری اور نجی شعبے میں عرصے سے کام کرنے والے ڈیلی ویجز، کنٹریکٹ اور ایڈہاک محنت کشوں کی فوری مستقلی کے گرد جدوجہد سے ہونا چاہئے۔ اسی طرح کسی بھی شکل میں ہونے والی نجکاری کیخلاف بھرپور ترین مزاحمت منظم کرنے کی ضرورت ہے۔ عوامی اداروں کی نجکاری صرف ان میں کام کرنے والے محنت کشوں کے لئے ہی تباہ کن نہیں ہوتی بلکہ محنت کش عوام کی وسیع تر پرتوں کو بھی مہنگی اور ناقص سہولیات کی صورت میں اس کا خمیازہ بھگتنا پڑتا ہے، لہٰذا اس لڑائی کو وسیع تر عوام تک لے جانے کی ضرورت ہے اور انہیں ساتھ ملاتے ہوئے ایک مضبوط نجکاری مخالف محاذ کی تعمیر وقت کا تقاضا ہے۔ اسی طرح انڈسٹریل سیفٹی قوانین کا اطلاق اور ٹریڈ یونین حقوق کا دفاع بھی مزدور تحریک کے سر فہرست فوری مطالبات کا ناگزیر حصہ ہیں۔ ایسے ہی صحت اور تعلیم کے ترقیاتی بجٹ میں کم ازکم پانچ گنا اضافہ بھی محنت کش عوام کی فوری ترین ضرورت ہے۔
یقینی طور پر ان تمام مطالبات کے جواب میں حکومت و ریاست کی طرف سے فوری جواب یہی آئے گا کہ”ہمارے پاس وسائل نہیں ہیں“ اور”آئی ایم ایف ہمیں ایسا کرنے نہیں دے گی“وغیرہ۔ مزدور تحریک میں حکمران طبقے کے ٹوڈی بھی بڑھ چڑھ کر اپنے آقاؤں کے اس موقف کا دفاع کریں گے اور محنت کشوں کو بدظن اور گمراہ کرنے کی کوشش کریں گے۔ اس کے جواب میں ہمارا فوری مطالبہ ہونا چاہئے کہ سرمایہ دار طبقے اور فوجی وسول ریاستی اشرافیہ کو ملنے والی 2700 ارب روپے سالانہ سے زائد کی معاشی مراعات کا فوری خاتمہ کرتے ہوئے ان وسائل کا رخ عوام کی جانب موڑا جائے۔ اسی طرح نام نہاد دفاعی بجٹ میں بھی کم از کم 1/3 یعنی 700 ارب روپے کی فوری کٹوتی ہونی چاہئے۔ پاکستان کے محنت کش عوام کو اصل خطرہ کسی بیرونی دشمن سے نہیں بلکہ غربت، بھوک، بیماری، بیروزگاری اور بے گھری سے ہے۔ اسی طرح محنت کش عوام پر بالواسطہ ٹیکسوں کا بوجھ کم کرنے کے لئے سرمایہ دار طبقے، ملکی وغیر ملکی کارپوریٹ بزنس، بڑے زمینداروں اورعسکری کاروباری سلطنت وغیرہ کی آمدن، منافعوں اور ملکیت پر براہ راست ٹیکس کو بڑھایا جائے اور تمام ٹیکس چھوٹ کا خاتمہ کیا جائے۔ ٹیکس چوری پر سزائے موت دی جائے اور ملکیت ضبط کر لی جائے۔ ایسے ہی بڑے ذخیرہ اندوزوں کی کم از کم سزا بھی ملکیت کی ضبطگی اور موت ہونی چاہئے۔ فوجی، سول اور عدالتی اشرافیہ کو ”قانونی“ طور پر حاصل تمام تر عیاشیوں کا فوری خاتمہ ہونا چاہئے۔ ملک کے دیو ہیکل داخلی اور بیرونی قرضوں سے بھی محنت کش عوام کا کچھ لینا دینا نہیں۔ یہ قرضے”قوم“ نے نہیں بلکہ حکمران اشرافیہ نے لئے ہیں اور ہمیشہ انہی پر ہی خرچ ہوئے ہیں لہٰذا ان کی واپسی بھی حکمران اشرافیہ کی ہی ذمہ داری بنتی ہے چاہے اس کے لئے ان پر بھاری ٹیکس عائد کیا جائے یا پھر ان کی دولت اور اثاثوں کے ایک حصے کو ضبط کر لیا جائے۔
معاشی بحران کی شدت اتنی ہے کہ مندرجہ بالا فوری مطالبات کے ساتھ ساتھ مزدور تحریک کو عبوری مطالبات کو بھی اب اپنے پروگرام کا حصہ بنانا پڑے گا۔ ان میں سر فہرست کم ازکم اجرت کا (افراط زرسے منسلک) ایک تولہ سونے کے برابر کیا جانا، عوامی ٹیکسوں سے بھرنے والے سرکاری خزانے سے حاصل کردہ سبسڈیوں سے اپنی تجوریاں بھر کر ہر وقت”نقصان ہو گیا“ کا واویلا کرنے والے سرمایہ داروں اور کارپوریٹ بزنس سے اپنے کاروباری اکاؤنٹس اور ریکارڈ پبلک کرنے کا مطالبہ، تمام ملکی نجی بنکوں کو قومی ملکیت میں لیتے ہوئے داخلی قرضوں کی ری اسٹرکچرنگ اور عوامی سہولیات کے منصوبوں کے پروگرام کے لئے وسائل کی فراہمی، کم از کم 50 سب سے بڑی کارپوریٹ کمپنیوں اورتمام معدنی وسائل کو قومی ملکیت میں لینا، ماضی میں نجکاری کا نشانہ بننے والے عوامی اداروں کی ری نیشنلائزیشن، 50 ایکڑ سے زائد نہری اور 100 ایکڑ سے زائد بارانی زرعی زمین کو قومی ملکیت میں لیتے ہوئے اس کی بے زمین دہقانوں کو الاٹمنٹ اور ریاستی جبر، خصوصاً نجی صنعتوں میں مالکان کی کھلی غنڈہ گردی کا مقابلہ کرنے کے لئے محنت کشوں کی دفاعی کمیٹیوں کی تشکیل ہونے چاہئے۔
اب یہاں پر کوئی ”سیانا“ آدمی ہم سے یہ سوال پوچھ سکتا ہے کہ آخربلی کے گلے میں گھنٹی کون باندھے گا؟ اورجب سرمایہ دارانہ ریاست سرمایہ دار طبقے کی ہی محافظ اور نمائندہ ہوتی ہے اور ایسی ریاست میں برسر اقتدار آنے والی کوئی بھی حکومت سرمایہ دار طبقے کی ہی انتظامی کمیٹی ہوتی ہے تو پھر ایسی ریاست و حکومت اپنے ہی حکمران طبقے کیخلاف کوئی اقدام کیوں اٹھائیں گی؟ یہ سوالات اصولی طور پر بالکل درست ہیں اور ہم بطور مارکس وادی ریاست کی اس مارکسی لیننی تعریف سے سو فیصد متفق ہیں لیکن اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ جب تک محنت کش طبقہ سوشلسٹ انقلاب برپا کرتے ہوئے اقتدار پر قبضہ نہیں کر لیتا، اس وقت تک مزدور تحریک سرمایہ دار حکومت وریاست سے کوئی مطالبہ ہی نہ کرے اور چپ چاپ ان کا”وسائل نہیں ہیں“ کا جھوٹ سنتی رہے اور سر نیہوڑے سرمایہ دارانہ معاشی بحران کا بوجھ ڈھوتی رہے۔ مزید برآں ایک بحرانی کیفیت میں پیش کردہ ایسے ریڈیکل فوری اور عبوری مطالبات ایک طرف تو محنت کش طبقے کے سامنے حکمران طبقے کی سفاکی، بے حسی اور مزدور دشمنی کو مکمل طور پر آشکار کردیتے ہیں وہیں دوسری طرف محنت کش طبقے کو اپنے فوری مسائل کے حل کے لئے بھی اقتدار پر قبضے اور سرمایہ دارانہ نظام و ریاست کے خاتمے کی ناگزیر ضرورت کا شعور حاصل کرنے میں ایک پل کا کردار بھی ادا کرتے ہیں۔
لیکن یہاں مارکس وادیوں کا بھی فرض ہے کہ وہ جہاں مزدور تحریک کی وسیع تر پرتوں کے سامنے یہ ریڈیکل فوری اور عبوری مطالبات پیش کریں وہیں محنت کش طبقے کی سب سے شعور یافتہ ہر اول لڑاکا پرتوں کو سماج کی انقلابی سوشلسٹ تبدیلی کے مکمل پروگرام سے بھی روشناس کرائیں۔ بطور مارکس وادی ہم سمجھتے ہیں کہ ایک سوشلسٹ انقلاب کے ذریعے محنت کش طبقے کے اقتدار پر قبضے، سرمایہ دارانہ نظام اور ریاست کے خاتمے، ایک مزدور ریاست کی تخلیق اور تمام ذرائع پیداوار کو محنت کش طبقے کی اجتماعی ملکیت و جمہوری کنٹرول میں لیتے ہوئے ایک منصوبہ بند معیشت کی تعمیر کے علاوہ سرمایہ دارانہ نظام کے ظلم و استحصال سے نجات کا اور کوئی راستہ نہیں ہے۔ اسی طرح تمام تر سامراجی قرضوں کی ضبطگی اور ملک میں موجود تمام سامراجی ملکیت پر محنت کش طبقے کا قبضہ ہی ہمیں سامراج کے تسلط سے آزادی دلوا سکتا ہے۔ صرف ایک سوشلسٹ منصوبہ بند معیشت ہی، جس میں پیداوار ایک اقلیت کے منافعوں کی بجائے انسانی ضروریات کی تکمیل کے لئے ہو گی، سرمایہ دارانہ سماج کی تمام تر طبقاتی غلاظت کا خاتمہ کر تے ہوئے ایک روشن غیر طبقاتی سماج کو تخلیق کر سکتی ہے۔ جس میں یہاں کے محنت کش عوام نوع انسان کے شایان شان زندگی گزار سکیں گے۔ مگر یہ سب کچھ خود بخود نہیں ہو گا۔ اس کے لئے محنت کش طبقے کی ہر اول پرتوں کو مارکسزم لینن ازم کے نظریات سے روشناس کراتے ہوئے جمہوری مرکزیت کے آہنی ڈسپلن پر مبنی ایک انقلابی پارٹی تعمیر کرنی پڑے گی تا کہ محنت کش طبقہ جب بھی بغاوت کے میدان میں اترے تو اس کے پاس سماج کی انقلابی جراحی کے لئے درکار نشتر میسر ہو۔ یہی آج کے دور میں مارکس وادیوں کا اہم ترین تاریخی فریضہ ہے۔