|تحریر: آفتاب اشرف|
”لوگ سیاست میں ہمیشہ دھوکے اور خود فریبی کا بیوقوفانہ شکار ہوتے رہے ہیں اور اس وقت تک ہوتے رہیں گے جب تک وہ تمام اخلاقی،مذہبی،سیاسی اور سماجی نعرے بازی، اعلامیوں اور دعوؤں کے پس پشت موجود مختلف طبقاتی مفادات کو شناخت کرنے کی صلاحیت حاصل نہیں کر لیتے۔“(لینن،مارچ1913ء)
یوں لگتا ہے جیسے لینن نے یہ بات خاص طور پر تحریک انصاف کے شہری درمیانے طبقے اور انٹیلی جنشیہ سے تعلق رکھنے والے کارکنان اور حامیوں کے بارے میں ہی کہی تھی جو ایک طرف تو اپنی زبردست سیاسی جہالت کے کارن ریاست، حکمران طبقے اور خصوصاً فوجی اشرافیہ کے مختلف دھڑوں کے مابین جاری اقتدار کی لڑائی میں پہلے ٹشو پیپر کی طرح استعمال ہوئے ہیں اور اب فی الوقت غالب دھڑے کی جانب سے مسلط کردہ ریاستی عتاب بھگت رہے ہیں جبکہ دوسری طرف پرلے درجے کے بزدل،خود غرض،مفاد پرستی اور موقع پرستی میں لتھڑے ان کے اپنے”مہاتما“ اور دیگر بھگوڑی مرکزی پارٹی قیادت نے بھی اعلانیہ ان کیساتھ اظہار لا تعلقی کرتے ہوئے انہیں ریاستی شکنجے میں بے یارو مدد گار چھوڑ دیا ہے۔تحریک انصاف کے ان عام مڈل کلاس کارکنان پر پوری شدت کیساتھ ریاستی کریک ڈاؤن جاری ہے اور اب تک ہزاروں افراد اس کا نشانہ بن چکے ہیں۔اسی طرح ہنگامی طور پر فوجی عدالتوں کا قیام عمل میں لایا گیا ہے اور 9 مئی کے واقعات میں ملوث افراد کیخلاف آرمی ایکٹ کے تحت کاروائی کی جا رہی ہے جس کا زیادہ تر نشانہ پھر پی ٹی آئی کے مڈل کلاس کارکنان ہی بنیں گے جبکہ طبقہ بالا سے تعلق رکھنے والی لیڈر شپ کو اول تو پارٹی چھوڑنے کی پریس کانفرنس کرنے پر کلین چٹ مل رہی ہے یا اگر چند ایک کو کوئی سزا ملے گی بھی تو جلد ہی کوئی قانونی گنجائش نکال کر انہیں چھوڑ دیا جائے گا۔ لیکن مضحکہ خیز بات یہ ہے کہ جرنیلوں کا غالب دھڑا یہ سب ایک ایسی حکومت کے تعاون کیساتھ کر رہا ہے جو اقتدار میں آنے سے قبل ”سول سپرمیسی“ اور ”ووٹ کو عزت دو!“ جیسے پر فریب نعرے لگایا کرتی تھی۔ بطور کمیونسٹ ہم کسی بھی قسم کے سیاسی و سماجی عناصر پر بور ژوا ریاستی جبر کی حمایت نہیں کرتے اور اس کی شدید مذمت کرتے ہیں۔لیکن ساتھ ہی یہ بھی واضح رہے کہ ہم ایسا اس لیے نہیں کہہ رہے کہ ہمیں پرلے درجے کی سرمایہ پرست اور مزدور دشمن تحریک انصاف سے رتی برابر بھی ہمدردی ہے بلکہ صرف اس لئے کیونکہ ہمیں بخوبی پتا ہے کہ ریاستی جبر کی شروعات کہیں سے بھی ہو،اس کا حتمی اور سب سے شدید نشانہ مزدور تحریک اور حقیقی انقلابی عناصر یعنی مارکس وادی ہی بنیں گے۔
ریاستی ادارے اور داخلی بحران
سیاسی منظر نامے کا سطحی تجزیہ کرنے والے بہت سے دانشور اس تمام ماراماری کو یا تو اقتدار کی خاطر سیاسی قوتوں کی باہمی لڑائی کے طور پر پیش کر رہے ہیں جو ریاستی اداروں کو بھی اپنی لپیٹ میں لے چکی ہے یا پھر اسے تحریک انصاف بمقابلہ فوجی اسٹیبلشمنٹ کے طور پر پیش کیا جا رہا ہے۔لیکن جوہری حقیقت یہی ہے کہ یہ لڑائی سب سے پہلے ملک کے طاقتور ترین مقتدر ادارے یعنی فوجی اسٹیبلشمنٹ میں موجود جرنیلوں کے مختلف دھڑوں کے مابین اہم ترین عہدوں اور ان سے منسلک زبردست مالی مفادات کے حصول کی کھینچا تانی ہے جس میں اعلیٰ عدلیہ اور سول افسر شاہی کے مختلف دھڑے اورتحریک انصاف سمیت تمام سیاسی پارٹیاں بطور بی ٹیم شامل ہیں تا کہ اقتدار اور لوٹ مار میں سے اپنا حصہ وصول کیا جا سکے۔لمبی چوڑی بحث میں جائے بغیر اگر عمران خان کے پچھلے عرصے کے بیانات اور تقریروں کو ہی سن لیا جائے تو صاف پتا چلتا ہے کہ اس کے تمام تر شکوؤں اور مطالبات کا محور و مرکز سابقہ آرمی چیف کی ”دھوکہ دہی“ اور فوجی اسٹیبلشمنٹ میں اہم عہدوں پر ہونے والی ناپسندیدہ تعیناتیاں ہیں۔اور دلچسپ بات یہ ہے کہ ان تمام”زیادتیوں“ کیخلاف ”امید کی آخری کرن“ بھی اپنے کارکنان اور ووٹرز کو نہیں بلکہ موجودہ چیف جسٹس اور کچھ ہائی کورٹ سربراہان کو قرار دیا جاتا ہے حالانکہ کون نہیں جانتا کہ اعلیٰ عدلیہ بھی روز اول سے عوام دشمن پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کا ہی ایک ناگزیر جزو ہے۔مزید برآں مختلف حاضر سروس اور ریٹائرڈ جرنیلوں اور خاص کر آئی ایس آئی میں جنرل حمید گل کے دور سے چلے آرہے ایک مخصوص نیٹ ورک کے ساتھ عمران خان کا گٹھ جوڑ کسی سے ڈھکا چھپا نہیں۔اگر کوئی شخص یہ سمجھتا ہے کہ پرویز الٰہی،شیخ رشید،ہمایوں اختر خان اور اعجاز الحق جیسے لوگ اپنے ضمیر کی آواز پر پی ٹی آئی کا حصہ بنے تھے یا عمران خان کو اعلیٰ عدالتوں سے ملنے والا بلینکٹ ریلیف اس کے وکلا کی قانونی مہارت کا نتیجہ ہے تو اسے اپنا دماغی علاج کرانے کی ضرورت ہے۔
اسی طرح جلد از جلد الیکشن کرانے کے مطالبے کے پیچھے بھی اصل حقیقت یہی ہے کہ ستمبر میں نہ صرف موجودہ چیف جسٹس ریٹائر ہو رہا ہے اور اس کے بعد ا علیٰ عدلیہ میں مخالف دھڑا مضبوط ہو جائے گا بلکہ فوج میں بھی اعلیٰ عہدوں پر فائز بہت سے جرنیل ریٹائر ہورہے ہیں،جن کی جگہ پر نئی ترقیاں اور تعیناتیاں ہوں گی جو کہ موجودہ آرمی چیف اور اس کے دھڑے کو وقتی طور پر بہتر پوزیشن میں لے آئیں گی۔اور یہ سب ہونے کے بعد اگر بالفرض عمران خان اقتدار میں واپس آتا بھی ہے تب بھی وہ فوجی اسٹیبلشمنٹ میں موجود اپنے پشت پناہوں اور حقیقی مالکان کو کوئی خاص فائدہ نہیں پہنچا سکے گا۔دوسری طرف اگر ہم موجودہ حکومتی پارٹیوں کی بات کریں تو ”ووٹ کو عزت دو!“ کا نعرہ ”فوج کو عزت دو!“ میں تبدیل ہو چکا ہے اور ن لیگ سے لیکر پی پی تک تمام پی ڈی ایم پارٹیاں ”اپنے“ آرمی چیف اور ڈی جی آئی ایس آئی کے بوٹوں سے لپٹ کر اقتدار سے چمٹی ہوئی ہیں۔ مزید برآں انہیں ستمبر میں ”اپنے“ چیف جسٹس کے کالے چوغے سے لٹکنے کی بھی شدید خواہش ہے اور یہ انہی بوٹوں اور چوغوں کے سہارے ہی اگلی بار اقتدار میں آنے کی منصوبہ بندی کر رہی ہیں۔ اگر ہم ملکی سرمایہ دار طبقے کی بات کریں تو اگرچہ ان میں سے کسی کا کسی ایک دھڑے کی جانب نسبتاً زیادہ جھکاؤ ہو سکتا ہے لیکن اس حقیقی حکمران طبقے کے تمام بڑے کھلاڑی حسب روایت دونوں طرف ہی کھیل رہے ہیں تا کہ جو دھڑا بھی طاقت میں آئے،وہ فائدے میں ہی رہیں۔اس کی ایک واضح مثال القادر ٹرسٹ کیس کی ہے جس کے سب سے بڑے بینیفشری ملک ریاض کا نام لینے کی جرات تحریک انصاف،پی ڈی ایم حکومت،فوجی اشرافیہ،اعلیٰ عدلیہ اور میڈیا ہاؤسز سمیت کسی میں نہیں ہے۔
حقیقت تو یہ ہے کہ تحریک انصاف سمیت پاکستان کی کوئی بھی سیاسی پارٹی اس وقت محنت کش عوام اور خصوصاً محنت کش طبقے میں حمایت نہیں رکھتی، نہ ہی انہیں عوامی حمایت حاصل کرنے میں کوئی خاص دلچسپی ہے اور نہ ہی سرمایہ دارانہ نظام اور نجی ملکیت کے تقدس پر مذہبی یقین رکھنے والی طبقہ امر اء کی ان تمام پارٹیوں کے پاس محنت کش عوام کے سلگتے ہوئے معاشی مسائل کا کوئی حل موجود ہے۔ مزید برآں یہ کہنا بالکل مناسب ہو گا کہ محنت کش طبقے نے کئی مرتبہ اس جمہوری کھلواڑ کے ہاتھوں دھوکہ کھانے کے بعد یہ سبق سیکھ لیا ہے کہ سیاسی افق پر نظر آنے والی یہ تمام پارٹیاں ایک ہی جیسا ملکی و عالمی سرمایہ نواز اور مزدور دشمن منشور رکھتی ہیں اور ان سے بھلائی کی کوئی توقع رکھنا عبث ہے۔ لہٰذا محنت کش عوام اس وقت بحیثیت مجموعی تمام انتخابی سیاست اور پارٹیوں سے شدید بیگانہ نظر آتے ہیں۔ اس امر کی ایک جھلک ہمیں پچھلے سال منعقد ہونے والے ضمنی الیکشن میں بھی نظر آتی ہے جن میں ووٹر ٹرن آؤٹ اوسطاً محض35 فیصد رہا تھا اور یہ اعدادو شمار بھی ابھی بڑھا چڑھا کر پیش کئے گئے تھے۔مزید برآں لوگوں کی ایک قابل ذکر تعداد ایسی بھی ہے جو اپنا ووٹ رجسٹر کرانے کی زحمت ہی نہیں کرتی۔ لیکن کچھ دانشور حضرات باقی تمام پارٹیوں کے حوالے سے تو ہمارے اس تجزئیے سے اتفاق کرتے ہیں لیکن بضد ہیں کہ تحریک انصاف کو بہت عوامی پذیرائی حاصل ہے۔یہ بات شہری درمیانے طبقے اور انٹیلی جنشیہ کے حوالے سے تو بڑی حد تک درست ہے بلکہ حقیقت یہ ہے کہ پی ٹی آئی کی ساری حمایت ہی شہری مڈل کلاس میں موجود ہے لیکن انفرادی مثالوں اور کچھ نیم لمپنائزڈ عناصر کو چھوڑ کر محنت کش طبقہ اور چھوٹے کسان اس سے ویسے ہی لاتعلق ہیں جیسے وہ پی ڈی ایم جماعتوں سے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ نام نہاد ”ریڈ لائن“ کراس ہونے کے باوجود 9اور10مئی کو 25 کروڑ آبادی والے ملک میں کل ملا کر بیس ہزار افراد بھی سڑکوں پر نہ آسکے اور جو آئے وہ چونکہ اپنی طبقاتی کمزوری کے کارن پورا نظام پیداوار،معیشت وریاست تو جام کر نہیں سکتے تھے لہٰذا پھر مڈل کلاس کی ہیجان زدہ سماجی و سیاسی فطرت کے عین مطابق توڑ پھوڑ پر اتر آئے۔فوج کے جونیئر اور مڈل رینکنگ افسران میں پی ٹی آئی کی مقبولیت،جس میں 9مئی کی مہم جوئی کے نتیجے میں کچھ کمی آئی ہے کیونکہ ہر لیفٹیننٹ ایک دن لیفٹیننٹ جنرل بن کر کور کمانڈر ہاؤس میں بیٹھنے کا متمنی ہوتا ہے،بھی تحریک انصاف کی شہری درمیانے طبقے اور انٹیلی جنشیہ میں حمایت کی ہی عکاسی کرتی ہے۔درحقیقت پی ٹی آئی کے انتہائی زہریلے،شاؤنسٹ،الٹرا نیشنلسٹ اور رائٹ ونگ پاپولسٹ بیانئے کی جڑیں بھی اس کی شہری درمیانے طبقے اور انٹیلی جنشیہ میں موجود سماجی بنیاد میں پیوست ہیں جن کی ساری کی ساری نظریاتی و سیاسی تربیت ہی محنت کش عوام سے نفرت و حقارت، ملکی سرمایہ دار طبقے اورعالمی سامراجی طاقتوں کی کاسہ لیسی،نجی ملکیت کے جاہلانہ دفاع،مسیحا پرستی،پاکستانی شاؤنزم اور منافقانہ مذہبیت جیسے زہریلے نظریاتی کاک ٹیل کی بنیاد پر ہوئی ہے۔ابھی زیادہ عرصہ نہیں گزرا کہ یہ ”پڑھے لکھے“ خواتین و حضرات پاک فوج کی قدر و منزلت پہچاننے کے لئے”ماں کے نیک ہونے اور باپ کے ایک ہونے“کی باتیں کیا کرتے تھے اور غداری کے سرٹیفیکیٹ بانٹنا ان کا محبوب مشغلہ تھا۔ پی ٹی آئی کے اقتدار سے بیدخل ہو جانے کے بعد ان خواتین و حضرات کی بھاری ترین اکثریت کا فوجی اسٹیبلشمنٹ سے گلہ کسی جمہوری اصول پسندی کی بنیاد پر نہیں تھا اور نہ ہی یہ جی ایچ کیو کے ریاست، معیشت، سماج اور سیاست میں غالب کردار پر شاکی تھے بلکہ شکوہ صرف یہ تھا کہ فوجی اشرافیہ کا جو بھی دھڑا غالب ہو،وہ عمران خان کو اپنی گود میں بٹھائے اور پی ٹی آئی کو واپس اقتدار میں لائے۔لیکن بہرحال بے جا رجائیت پسندی سے گریز کرتے ہوئے ہم یہ امید کرتے ہیں کہ حالیہ قابل مذمت ریاستی عتاب کا تلخ تجربہ پی ٹی آئی کے مڈل کلاس کارکنان کی سیاسی بلوغت میں شاید کچھ اضافے کا موجب بنے اور نہ صرف آئندہ وہ اتنی آسانی سے اپنی موقع پرست اور بھگوڑی قیادت کے ہاتھوں بیوقوف بننے سے گریز کریں بلکہ انہیں پاکستانی ریاست اور سرمایہ دارانہ نظام کی اصلیت کا بھی کچھ ادراک حاصل ہو۔
سیاسی پارٹیوں کے ساتھ ساتھ اگر ہم ریاستی اداروں اورخصوصاً فوجی اسٹیبلشمنٹ کے حوالے سے بات کریں تو ان کیخلاف محنت کش عوام کا غصہ ونفرت پہلے کبھی نہ دیکھی گئی بلندیوں کو چھو رہا ہے۔صرف بلوچستان،سابقہ فاٹا اور اندرون سندھ ہی نہیں بلکہ آج لاہور،فیصل آباد، ملتان، پنڈی، کراچی اور پشاور کے گلی محلوں میں بھی جرنیلی اشرافیہ محنت کش عوام کی نفرت کا اولین نشانہ بن چکی ہے۔جرنیلی دھڑوں کی آپسی لڑائی نے پورے ادارے کی کرپشن،ننگی لوٹ مار اور ظلم و جبر کو بیچ چوراہے پر ننگا کر دیا ہے اور یہ قصے اب زبان زد عام ہو چکے ہیں۔غالباً 1971 ء میں اپنی سیاہ کاریوں کے باعث بھی فوجی اسٹیبلشمنٹ اتنی بدنام نہیں ہوئی تھی جتنی کہ آج ہو چکی ہے۔دلچسپ بات تو یہ ہے کہ پی ٹی آئی کو پہلے اقتدار سے بیدخل کر کے اور اب اس پر ریاستی کریک ڈاؤن کر کے جرنیلوں کے غالب دھڑے نے خود اپنے ہاتھوں سے بالخصوص پنجاب کی شہری مڈل کلاس میں موجود فوجی اسٹیبلشمنٹ کی روایتی سماجی حمایت کو برباد کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔9مئی کو فوجی املاک و تنصیبات پر ہونے والے حملوں کی وجوہات اور حرکیات جو بھی ہوں لیکن کور کمانڈر لاہور کے جلتے ہوئے محل اور جی ایچ کیو کے ٹوٹے ہوئے گیٹ کی یاد داشت ملک کے کروڑوں محنت کشوں کے ذہنوں پر ثبت ہو چکی ہے۔یہ فوجی استبداد کے رعب و دبدبے کو لگنے والا نہایت ہی تباہ کن جھٹکا ہے۔جی ایچ کیو میں موجود جرنیلوں کے غالب دھڑے کو بھی بخوبی اس امر کا ادراک ہے اور یہی وجہ ہے کہ وہ پی ڈی ایم حکومت کے تعاون سے فوجی استبداد کے اس ٹوٹتے بکھرتے دبدبے کو بزور طاقت سماج پر دوبارہ لاگو کرنے کی بھر پور کوشش کرہے ہیں جس کا آغاز پی ٹی آئی پر ریاستی کریک ڈاؤن سے کیا گیا ہے لیکن آنے والے عرصے میں اس کا دائرہ کار مزید وسیع کرنے کی پوری کوشش کی جائے گی۔مگر دوسری طرف ایک نیم منتشر اور آپس میں ہی بر سر پیکار چین آف کمانڈ کیساتھ 25کروڑ آبادی،جس کی بھاری ترین اکثریت شدید معاشی تباہ حالی اور دیگر ہر قسم کے جبر و استحصال کا شکار ہے اور تمام حکمران اشرافیہ کیخلاف غم و غصے سے بھری بیٹھی ہے،پر ریاستی جبر لاگوکرنے کا نتیجہ جرنیلوں کی توقعات کے بالکل الٹ بھی نکل سکتا ہے۔اسی طرح اگر ہم عدالتی اسٹیبلشمنٹ کی بات کریں تو محنت کش طبقہ تو اس کے عوام دشمن کردار پر بالکل واضح ہے۔ اعلیٰ عدلیہ تو دور کی بات مزدور بندے کو تو آج تک چھوٹے موٹے معاملات پر بھی کبھی لیبر کورٹس تک سے انصاف نہیں مل سکا۔ویسے بھی ان عدالتوں میں مقدمے نہیں چلتے بلکہ قانون اور انصاف کی بولی لگتی ہے جو ظاہر ہے ہمیشہ امیر آدمی جیت جاتا ہے۔
نیا سیاسی منظر نامہ؟
اس وقت ملک کے سیاسی،دانشورانہ حلقوں اور ریاستی افسر شاہی میں مستقبل کا ممکنہ سیاسی منظر نامہ شدو مد کیساتھ زیر بحث ہے۔مائنس عمران فارمولا،تحریک انصاف پر پابندی یا فارورڈ بلاک کا قیام،نئی کنگز پارٹیوں کی تخلیق،ٹیکنوکریٹک حکومت،عمران خان کو سزا یا جبری جلا وطنی،الیکشن کے انعقاد کا وقت اور ممکنہ انتخابی اتحاد،مخلوط حکومت وغیرہ وغیرہ۔لیکن بطور کمیونسٹ ہم بالکل واضح ہیں کہ ان تمام امکانات سے ملکی سیاست میں کوئی بھی معیاری تبدیلی نہیں آ سکتی اور سیاسی منظر نامہ معیاری اعتبار سے تب ہی بدل سکتا ہے جب یہاں کا محنت کش طبقہ متحد ہو کر بزور طاقت سیاسی افق پر نمو دار ہو گا۔لیکن تب تک حکمران دھڑوں کی آپسی رسہ کشی اور موجودہ سیاسی کھلواڑ نہ صرف جاری رہے گا بلکہ ہر گزرتے دن کے ساتھ سیاسی و ریاستی عدم استحکام اور بے یقینی کی کیفیت میں مزید اضافہ ہو گا۔لیکن اس تمام تر سیاسی انتشار میں بھی بعض امکانات دوسروں کی نسبت زیادہ بھاری ہیں۔ایک تو یہ کہ جرنیل شاہی اور سیاسی اشرافیہ کے فی الوقت غالب دھڑے کو نا چاہتے ہو ئے بھی عام انتخابات کرانے ہی پڑنے ہیں۔یہ ممکن ہے کہ امن و امان کی صورتحال وغیرہ کا بہانہ بنا کر موجودہ سیاسی سیٹ اپ کو مزید کچھ عرصہ گھسیٹنے کی کوشش کی جائے یا پھر نام نہاد قومی حکومت کے نام پر غالب دھڑے کی پشت پناہی رکھنے والا کوئی عبوری ٹیکنوکریٹک سیٹ اپ لایا جائے لیکن ایسے کسی بھی بندوبست کی عمر نہایت مختصر ہو گی اور جلد ہی عام انتخابات کی طرف جانا پڑے گا۔اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ موجودہ معاشی بحران مستقبل قریب میں مزید شدت اختیار کرے گا اور صورتحال کے اعلانیہ ڈیفالٹ تک جانے کے بھی قوی امکانات ہیں۔ایسے میں حکمران طبقے اور ریاستی اشرافیہ کو محنت کش عوام پر معاشی و سماجی حملوں کی شدت میں کئی گنا اضافہ کرنا پڑے گا مگر اس کام کے لئے ایک ایسی سیاسی حکومت درکار ہے جس کے پاس اپنے وجود کا ٹوٹا پھوٹا،گھسا پٹا،مختصر عمر کا ہی سہی لیکن کوئی تو قانونی، آئینی و اخلاقی جواز موجود ہو۔پی ڈی ایم حکومت تباہ کن معاشی بحران کے کارن یہ جواز مکمل طور پر کھو چکی ہے اور نہ ہی کسی ٹیکنوکریٹک سیٹ اپ کے پاس یہ جواز ہو سکتا ہے۔لہٰذا ستمبر کے بعد یا کچھ مزید تاخیر کیساتھ، عام انتخابات کا ہونا نا گزیر ہے۔یہی وجہ ہے کہ جرنیلی اشرافیہ کا غالب دھڑا حکومت کے تعاون کیساتھ بھر پور ریاستی طاقت کا استعمال کرتے ہوئے دن رات سیاسی انجئینرنگ میں مصروف ہے۔
9مئی کے واقعات کا جواز بنا کر تحریک انصاف کو کالعدم قرار دینے کی باتیں ہو رہی ہیں لیکن زیادہ امکانات یہ ہیں کہ عمران خان کو کمزور کر کے اور پی ٹی آئی کو ”کٹ ٹو سائز“ کر کے اسے بہر حال الیکشن لڑنے کی اجازت دے دی جائے گی کیونکہ محنت کش طبقہ تو ویسے ہی اس تمام انتخابی کھلواڑ سے لاتعلق ہے لیکن پی ٹی آئی پر پابندی درمیانے طبقے کی نظروں میں بھی انتخابات کو بالکل بے وقعت کر دے گی اور انہیں منعقد کرانے کا مقصد ہی فوت ہو جائے گا۔ یاد رہے کہ عمران خان کوکمزور کرنے اور پی ٹی آئی کی توڑ پھوڑ کا مطلب اس کا سیاسی خاتمہ نہیں ہے۔کسی بھی سیاسی مظہر،چاہے وہ عمران خان اور تحریک انصاف جیسا بیہودہ ہی کیوں نہ ہو،کو ریاستی جبر کے ذریعے ختم نہیں کیا جا سکتا۔اسی طرح یہ بھی خارج از امکان نہیں کہ عمران خان کو اس کی اصل اوقات میں لا کر مقتدر قوتوں کی جانب سے مستقبل میں کہیں ایک مرتبہ پھر سیاسی استعمال میں لایا جائے۔نئے ناموں اور پی ٹی آئی کیساتھ ”نظریاتی“ اور ”حقیقی“ جیسے سابقوں،لاحقوں کیساتھ نئی کنگز پارٹیاں بننے کے بھی واضح امکانات ہیں۔ظاہر ہے ریاستی ایما پر پی ٹی آئی سے بھگوڑے ہونے والے ”الیکٹیبل“ کو بھی تو کوئی سیاسی پلیٹ فارمز درکار ہیں۔ویسے بھی پچھلے دو دہائیوں میں نام نہاد ”وار آن ٹیرر“ کے معاشی اثرات کے تحت تیزی سے پروان چڑھنے والی بلیک اکانومی اور خصوصاً پراپرٹی مافیا کے عروج نے پاکستان میں لمپن بور ژوازی کے حجم میں بڑا اضافہ کیا ہے اور نتیجتاً آج صورتحال یہ ہے کہ اینٹ اکھاڑو تو نیچے سے ایک”الیکٹیبل“ نکلتا ہے۔ لیکن بورژوا سیاست کے اس تمام سرکس سے قطع نظر اصل حقیقت یہ ہے کہ پاکستان کی معیشت اس وقت ایک میلٹ ڈاؤن کی سی کیفیت میں ہے اور جرنیلوں سے لیکر ججوں اور پی ڈی ایم پارٹیوں سے لیکر پی ٹی آئی تک کسی کے پاس بھی پاکستان کو اس تباہ کن معاشی بحران سے نکالنے کا کوئی پروگرام نہیں۔بطور مارکس وادی ہم بخوبی جانتے ہیں کہ سیاست حتمی تجزئیے میں معیشت کا ہی مجتمع شدہ اظہار ہوتی ہے اور درحقیقت یہ پاکستانی سرمایہ داری کا شدید ترین معاشی بحران ہی ہے جو موجودہ سیاسی و ریاستی انتشار میں اپنا اظہار کر رہا ہے۔
سامراجی طاقتوں کی کٹھ پتلی اور بحران
ریاست پاکستان کی خارجہ صورتحال بھی اس کی داخلی کیفیت کی طرح شدید بحران زدہ ہے جس کو عالمی سرمایہ داری کے تاریخی بحران سے جڑی عالمی تعلقات اور طاقتوں کے توازن کی اتھل پتھل،خاص کر امریکی سامراج کے بڑھتے ضعف، نے بھی بہت بڑھاوا دیا ہے۔ہمیشہ سے سامراجی بیساکھیوں کے سہارے چلنے کی عادی یہ ریاست اس وقت امریکی اور چینی سامراج کی عالمی کشمکش میں ایک پنگ پانگ کی گیند بنی ہوئی ہے۔حقیقت تو یہ ہے کہ ان دونوں عالمی سامراجی قوتوں میں سے کوئی بھی زبردست داخلی انتشار کا شکار اور مستقل بھک منگی کی عادی اس ناقابل اعتماد ریاست کو گود لینے کو تیار نہیں۔بہت سے تجزیہ نگار پاکستان کے موجودہ سیاسی و ریاستی بحران کو بھی پاکستان میں لڑی جانے والی امریکہ اور چین کی جنگ قرار دے رہے ہیں اور اس ضمن میں جنرل عاصم منیر کے حالیہ دورہ چین اور پی ٹی آئی پر ریاستی جبر کے تناظر میں امریکی کانگریس کے اراکین کی جانب سے لکھے جانے والے خط اور عمران خان کو مغربی میڈیا میں ملنے والی حالیہ پذیرائی کو بطور دلائل پیش کیا جا رہا ہے۔مگر یہ سب باتیں بہت دور کی کوڑی ہیں اور سیاسی کھینچا تانی میں ہر کوئی مختلف حقائق کو ان کے سیاق و سباق سے کاٹ کر اور نہایت بڑھا چڑھا کر پیش کر رہا ہے۔
اگر ہم امریکی سامراج کی بات کریں تو افغانستان سے انخلا کے بعد اس کی ریاست پاکستان میں دلچسپی تاریخی طور پر کم ترین سطح پر ہے بلکہ وہ افغانستان میں اپنی ذلت اور سبکی کا تمام تر ذمہ دار ریاست پاکستان اور خصوصاً اس کی فوجی اسٹیبلشمنٹ کو سمجھتا ہے۔اب ظاہر ہے کہ دنیا کی سب سے بڑی سامراجی طاقت اپنی کمزوری اور ضعف کو تو کھلے عام تسلیم کر نہیں سکتی اور ایسی صورتحال میں پوری دنیا میں دہشت گردی کی برآمد کے حوالے سے بدنام ریاست پاکستان ایک آئیڈیل قربانی کا بکرا ثابت ہو رہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ پوری طرح سے ریاست پاکستان اور خصوصاً جی ایچ کیو کے اسکریو ٹائٹ کرنے پر تلا ہوا ہے جس کی ایک جھلک ہمیں قرض پروگرام کی بحالی کے حوالے سے آئی ایم ایف کے انتہائی سخت گیر رویے میں بھی نظر آتی ہے اور مغربی میڈیا میں عمران خان کی فوجی اسٹیبلشمنٹ پر تنقید کو ملنے والی پذیرائی کو بھی اسی تناظر میں دیکھنے کی ضرورت ہے۔ مزید برآں چین کیساتھ اپنی عالمی کشمکش میں جنوبی ایشیا اور بحر ہند میں امریکی سامراج انڈیا، جو دنیا کی پانچویں بڑی معیشت اور خطے کی سب سے بڑی فوجی طاقت ہے، کو اپنے اسٹریٹیجک اتحادی کے طور پر دیکھتا ہے جبکہ انتشار زدہ اور دیوالیہ پاکستانی ریاست کی اتنی اوقات ہی نہیں کہ اسے چین کیخلاف کسی قابل ذکر پیمانے پر استعمال میں لایا جا سکے۔یہی وجہ ہے کہ چین کی عالمی روک تھام کے حوالے سے پچھلے کچھ سالوں میں شائع ہونے والے امریکہ کے کسی پالیسی ڈاکومنٹ میں یا تو سرے سے پاکستان کا ذکر ہی نہیں اور اگر ہے بھی تو حاشیوں میں۔مزید برآں انڈیا بھی پاکستان کو اس کی ماضی کی در اندازیوں اور دہشت گردی کی برآمد پر سبق سکھانے اور اسے اقوام عالم میں ایک اچھوت بنانے پر تلا بیٹھا ہے اور انڈیا جیسے اہم اسٹریٹیجک اتحادی کی یہ پوزیشن پاکستان پر امریکی مؤقف کو مزید سخت کرنے کا موجب بن رہی ہے۔
دوسری طرف اگر چین کی بات کی جائے تو سی پیک سرمایہ کاری کے باوجود اس کی پاکستان میں دلچسپی بنیادی طور پر معاشی نہیں بلکہ اسٹریٹیجک نوعیت کی ہے مگر اس کی بھی اپنی حدود و قیود ہیں۔سب سے پہلے تو یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ چینی سامراج امریکہ کیساتھ اپنی عالمی کشمکش میں پاکستان پر نہ تو زیادہ اعتماد کرتا ہے اور نہ ہی کرسکتا ہے کیونکہ اسے بخوبی اندازہ ہے کہ پاکستان کی دیوالیہ پن کے کنارے لڑکھڑاتی معیشت کو امریکی کنٹرول میں چلنے والی عالمی مالیاتی اداروں کے سہارے اور مغربی مالیاتی منڈیوں تک رسائی کے بغیر نہیں چلایا جا سکتا، لہٰذا ریاست پاکستان کبھی بھی ایک حد سے زیادہ امریکی سامراج کی نافرمانی نہیں کر سکتی۔مزید برآں پاکستان کے حکمران طبقے اور ریاستی اشرافیہ کا تاریخی طور پر جھکاؤ امریکہ کی چاکری کی طرف ہی رہا ہے اور یہ بات آج بھی درست ہے۔ کسے نہیں معلوم کہ پاکستان کے سرمایہ داروں،جرنیلوں،ججوں،سول افسر شاہی،سیاستدانوں الغرض ساری اشرافیہ کے بینک اکاؤنٹس،جائیدادیں،کاروبار،بیوی بچے یورپ اور امریکہ میں ہوتے ہیں نہ کہ چین میں۔در حقیقت ریاست پاکستان نے چین کے در پر جا کر دستک ہمیشہ تب ہی دی ہے جب پہلے اسے امریکہ سے مطلوبہ مقصد کے حصول میں ناکامی کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ یہی ساری وجوہات ہیں کہ چین پاکستان کو بنیادی طور پر انڈیا کیخلاف ایک فوجی کاؤنٹر ویٹ کے طور پر ہی دیکھتا ہے تا کہ انڈیا اپنی مغربی سرحدوں سے غافل ہو کر ساری توجہ چینی بارڈر کی طرف مبذول نہ کر سکے اور دوسرا بحیرہ عرب میں بھی اسے مطلق بحری بالا دستی حاصل نہ ہو سکے۔
اسی لیے پاکستان کی تباہ حال معیشت کے باوجود چین افواج پاکستان کو نت نئے ہتھیاروں سے لیس کرتا رہتا ہے اور درحقیقت پچھلی ایک دہائی میں ہتھیاروں اور جنگی ٹیکنالوجی کے معاملے میں پاکستان کا انحصار فیصلہ کن انداز میں امریکہ اور یورپ سے چین کی طرف منتقل ہو چکا ہے۔پاکستان کے سیاسی اور دانشورانہ حلقوں میں سی پیک پراجیکٹس میں چینی سرمایہ کاری کا تو بہت تذکرہ ہوتا ہے جن میں اب تک چین مجموعی طور پر تقریباً 20ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کر چکا ہے لیکن اس موضوع پر کبھی بات نہیں ہوتی کہ اسی عرصے میں چین جدید آبدوزوں، جنگی بحری جہازوں،لڑاکا طیاروں،ٹینکوں، موبائل توپخانے اور انواع اقسام کے میزائیلوں کی صورت میں کم و بیش اتنی ہی مالیت کے ہتھیار بھی انتہائی آسان اقساط پر پاکستان کو بیچ چکا ہے۔مزید برآں ان میں سے کئی ایک ہتھیار اتنے کٹنگ ایج ہیں کہ وہ کسی بھی صورت میں پاکستان کو مغرب سے نہیں مل سکتے تھے۔اسی طرح گوادر پورٹ کی تعمیر،سی پیک کے تحت پاکستان کے روڈ انفراسٹرکچر کی تعمیر اور قرا قرم ہائی وے کی توسیع بھی چین کے لئے بنیادی طور پر اسٹریٹیجک نوعیت کے حامل ہیں تا کہ کسی بھی انتہائی صورتحال اور چین کے مشرق کی جانب مالاکا اسٹریٹ میں بحری ناکہ بندی کی صورت میں چین کے پاس مشر ق وسطیٰ سے تیل کی سپلائی جاری رکھنے کا ایک متبادل راستہ موجود ہو۔لیکن اس سب کا یہ مطلب نہیں کہ چین ریاست پاکستان کا خرچہ اپنے ذمے لینے کو تیار بیٹھا ہے اور اسے ویسے گود لے گا جیسا کہ سرد جنگ کے دوران امریکی سامراج نے لیا تھا۔چین کی اپنی معاشی مشکلات اور دیگر وجوہات کے علاوہ اس کی ایک اہم وجہ یہ بھی ہے کہ چین انڈیا کیساتھ اپنی مخاصمت کو ایک مخصوص حد میں رکھنا چاہتا ہے تاکہ انڈیا کے پاس امریکہ کیساتھ اسٹریٹیجک اتحاد کے لئے موجود محرکات کو کم سے کم کیا جا سکے۔چین کے اس رویے کا واضح اظہار ہمیں 2018-19ء میں نظر آتا ہے جب عمران-باجوہ-فیض ہائیبرڈ رجیم نے برسر اقتدار آنے کے بعد ادائیگیوں کے توازن کے بحران سے بچنے کے لئے چینی امداد اور قرضے حاصل کر نے کے لئے ایڑی چوٹی کا زور لگایا تھا مگر چین نے کچھ خاص ہاتھ نہیں پکڑایا تھا حالانکہ چین کو بخوبی معلوم تھا کہ اس کا نتیجہ پاکستان کی آئی ایم ایف کے در پر حاضری اورسی پیک پراجیکٹ کے منجمد کیے جانے کی صورت میں نکلے گا۔
کابل سے تعلقات اور اسٹریٹجک ڈیپتھ
اسی طرح اگر طالبان کے بر سر اقتدار آنے کے بعد افغانستان کیساتھ تعلقات کو دیکھا جائے تو ریاست پاکستان تاریخ کے کلاسیکی مکافات عمل کا شکار ہو رہی ہے۔ جرنیلوں کی پانچ دہائیوں سے جاری نام نہاد اسٹریٹیجک ڈیپتھ کی پالیسی ایک تباہ کن اسٹریٹیجک بلنڈر میں تبدیل ہو چکی ہے۔افغان طالبان کی بھر پور پشت پناہی کیساتھ ٹی ٹی پی دن رات فوج،ایف سی اور پولیس پر تابڑ توڑ حملے کر رہی ہے۔جن سنپولیوں کو امریکی سامراج کی چاکری اوراپنے سامراجی اور مالی مفادات کے تحت ریاست پاکستان نے دودھ پلا کر پروان چڑھایا تھا وہ آج کالے ناگ بن کر اسی ریاست کی گردن سے لپٹ گئے ہیں۔پاکستان کے پرزور اصرار کے باوجود افغان طالبان حکومت کا ٹی ٹی پی کیخلاف کریک ڈاؤن کرنے کا کوئی ارادہ نہیں لگتا بلکہ وہ ٹی ٹی پی کو ریاست پاکستان کی دست درازیوں کیخلاف ایک لیوریج کے طور پر استعمال کر تے رہیں گے۔اس بات کا واضح اظہار حال ہی میں اسلام آباد میں منعقد ہونے والی پاکستان،طالبان حکومت اور چین کے وزرائے خارجہ کی میٹنگ میں بھی نظر آتا ہے جس میں طالبان حکومت کے نمائندے نے ایک بار بھی ٹی ٹی پی کی مذمت نہیں کی۔لیکن المیہ یہ ہے کہ جی ایچ کیو میں بیٹھی جرنیلی اشرافیہ کی دہائیوں سے چلی آرہی سامراجی پالیسیوں کا سارا فال آؤٹ پاکستان، افغانستان کے عوام اور خاص کر ڈیورینڈ لائن کے آرپار پختون علاقوں کے عوام کو بھگتنا پڑ رہا ہے۔اس تمام خونی کھلواڑ کیخلاف2018ء میں پی ٹی ایم کے نام سے ایک زبردست جنگ مخالف عوامی تحریک کا آغاز ہوا تھا جو آج بھی جاری ہے۔لیکن بد قسمتی سے اس کی قیادت ہر گزرتے دن کیساتھ تنگ نظر بورژوا قوم پرستی کی دلدل میں دھنستی جا رہی ہے جس کا نتیجہ پاکستان کی جابرانہ بورژوا ریاست اور حکمران طبقے کیخلاف پورے خطے کے محنت کش طبقے اور دیگر مظلوم عوام کیساتھ مل کر ایک مشترکہ جدوجہد پروان چڑھانے کی بجائے اس تحریک کے اپنے ہی علاقوں تک محدود ہو جانے اور یہاں تک کہ ان علاقوں کے محنت کش طبقے سے بھی بڑی حد تک کٹ جانے کی صورت میں نکل رہا ہے۔
راہ نجات۔۔۔سوشلسٹ انقلاب
آج ملک کے سیاسی و دانشورانہ حلقوں،بشمول اصلاح پسند لیفٹ اور قوم پرستوں،میں سیاسی پراگندگی اور انتشار سے لیکر خانہ جنگی تک مستقبل کا ہر تناظر زیر بحث آ رہا ہے سوائے محنت کش طبقے کی ایک انقلابی تحریک کے۔جبکہ ہم سمجھتے ہیں کہ پاکستان میں مستقبل کا غالب تناظر محنت کش طبقے کی ایک انقلابی اٹھان کا ہے جس میں چھوٹے کسان،نوجوان اور طلبہ،اور دیگر مظلوم عوامی پرتیں بھی ناگزیر طور پر شامل ہوں گی۔موجودہ انتشار اور بحران زدہ سیاسی،ریاستی،سماجی اور معاشی صورتحال سے گھبرا کر خانہ جنگی اور اندھی بربادی کی مایوس کن باتیں کرنے والے دانشور غالباً یہ بھول جاتے ہیں کہ اس ملک کے 8 کروڑ محنت کش اور اگر ان کے خاندان کے تمام افراد کو شامل کر لیا جائے تو ملک کی20کروڑ سے زائد محنت کش آبادی نے تو ابھی تاریخ کے میدان میں قدم رکھنا ہے۔اور یہ کوئی ماضی کی ناکامیوں کا بوجھ اٹھائے تھکا ہارا شکست خوردہ محنت کش طبقہ نہیں بلکہ ایک ایسا تازہ دم طبقہ ہے جس کے دل و دماغ میں پچھلی کئی دہائیوں کے تلخ تجربات سے اخذ کئے گئے لازمی نتائج بھی ثبت ہیں اور نسلوں سے جاری ظلم و استحصال کا غم وغصہ بھی۔جس دن یہ آتش فشاں پھٹا،اس دن اس دھرتی پر حقیقی سیاست کا آغاز ہو گا لیکن وہ کوئی گھسے پٹے نعروں پر مبنی انتخابی سیاست نہیں ہو گی بلکہ حکمرانوں کے تخت گرانے اوران کے تاج اچھالنے کی انقلابی سیاست ہو گی۔وہ ایک سوشلسٹ انقلاب ہو گا جس کے ذریعے محنت کش طبقہ یہاں سرمایہ دارانہ نظام اور اس کی پروردہ ریاست کا خاتمہ کرتے ہوئے ایک مزدور ریاست اور منصوبہ بند معیشت تعمیر کرے گا جس میں تمام ذرائع پیداوار محنت کش طبقے کی اجتماعی ملکیت اور جمہوری کنٹرول میں ہوں گے اور پیداوار کا مقصد منافع خوری نہیں بلکہ انسانی ضروریات کی تکمیل ہو گا۔یہی ہماری منزل ہے اور یہی ہمارا مقصد ہے۔اور اس مشن کی تکمیل کے لئے آج اپنی تمام تر قوتوں کو بیروئے کار لاتے ہوئے ایک کمیونسٹ انقلابی پارٹی کی تعمیر ہی ہمارا تاریخی فریضہ ہے۔