|تحریر: آدم پال|
مہنگائی اور بیروزگاری میں بدترین اضافے نے محنت کش عوام کی زندگیاں جہنم سے بھی بدتر کر دی ہیں۔ علاج کی سہولیات آبادی کی ایک وسیع تر اکثریت کے لیے خواب بن چکی ہیں اور سرکاری ہسپتالوں کی تیز ترین نجکاری کے بعد یہ بنیادی سہولیات بھی صرف طبقہ امرا کے لیے مخصوص رہ جائیں گی۔ ملک کی نوے فیصد سے زائد آبادی اپنے علاج کے لیے مرہم پٹی بھی خرید نہیں پائے گی۔ تعلیم کی سہولت کو تو ایک لمبے عرصے سے چھیننے کا عمل جاری ہے جو اب انتہاؤں تک پہنچ چکا ہے۔ کالجوں اور یونیورسٹیوں تک رسائی صرف درمیانے طبقے کے افراد تک محدود کر دی گئی تھی لیکن اب ان کو بھی وہاں سے باہر دھکیلنے کے عمل کا آغاز ہو چکا ہے اور تمام اعلیٰ سرکاری تعلیمی اداروں پر بھی امیر طبقے نے اپنے خونی پنجے گاڑ دیے ہیں۔ محنت کش عوام کو صرف دو وقت کی روٹی کی تگ و دو تک مصروف کر دیا گیا ہے اور سولہ سے اٹھارہ گھنٹے روزانہ کام برسر روزگار افراد کے لیے معمول بن چکا ہے۔ ہفتہ وار چھٹی کا تصور بتدریج ختم کیا جا چکا ہے اور تنخواہ کے ساتھ چھٹی تو محض ایک سہانا خواب ہی رہ گیا ہے۔لیکن اس کے باوجود مہنگائی کا عفریت تمام تر جمع پونجی نگل رہا ہے اور محنت کی چکی میں لگاتار پسنے کے باوجود محنت کش غربت اور افلاس کی زندگی سے باہر نہیں نکل پا ر ہے۔
لیکن اسی دوران حکمران طبقے کی پر تعیش زندگیاں جاری ہیں۔ حکمرانوں کے لیے غریب عوام کے ٹیکسوں کے پیسوں سے بنے سرکاری محلات ہوں یا ان کی نجی رہائش گاہیں، سرکاری خزانے سے بننے والے ان کے وسیع و عریض گالف کھیلنے کے میدان ہوں یا ان کی لمبی لمبی پر تعیش گاڑیاں اور جہاز،یہ سب سہولیات پہلے کی طرح نہ صرف موجود ہیں بلکہ ان سے لطف اندوز ہونے والے افراد کی زندگیوں کی رونقیں پہلے سے کہیں زیادہ بڑھ رہی ہیں۔ایک ایسے وقت میں جب عوام پر ہر روز ٹیکسوں کا نیا بوجھ لاد دیا جاتا ہے اور ان کے لیے ادویات، پٹرول، بجلی اور دیگر بنیادی ضروریات مہنگی کر دی جاتی ہیں تاکہ ملکی خزانے کو بھرا جا سکے لیکن اس بظاہر ”مشکل“صورتحال میں بھی حکمران طبقے کے تمام افراد کے لیے سرکاری خزانے سے پر تعیش ضیافتیں اور ان کے عالیشان محلات کے لیے تمام تر سامان تعیش موجود رہتا ہے اور اس میں ذرہ برابر بھی کمی نہیں ہو پاتی۔ بلکہ اس صورتحال میں جب مزدور کی کم از کم تنخواہ افراط زر کے تناسب سے تیز ترین رفتار سے کم ہوئی ہے وہاں وزیروں، مشیروں اور افسر شاہی کی مراعات اور تنخواہوں میں کئی گنا اضافہ کیا گیا ہے۔ ان کے لیے بیرون ملک علاج کی سہولیات بھی دستیاب ہیں تاکہ اس ملک میں بربادی پھیلانے کے بعد وہ کسی ترقی یافتہ ملک سے اپنی کھانسی کا علاج بھی غریب عوام کے پیسوں سے کروا سکیں۔ اسی طرح یہاں کے عوام کو غربت اور جہالت میں دھکیلنے والے اور ان کی محنت نچوڑنے والے حکمرانوں کی اولادیں بھی بیرون ملک تعلیم حاصل کرتی ہیں تاکہ ان کی آئندہ نسلیں بھی یہاں کے دھتکارے ہوئے عوام پر سرمائے کے کوڑے کے ذریعے حکمرانی جاری رکھ سکیں۔
انتہا یہ ہے کہ یہاں اس تمام ظلم اور نا انصافی کے خلاف آواز بلند کرنے کی بھی اجازت نہیں اور آہ و بکا کرنے پر بھی سخت سزادی جاتی ہے۔اس ملک کی تمام تر سیاست کی باگ ڈور بھی انہی حکمرانوں کے گماشتوں کے ہاتھوں میں ہے اور انہی کے ذریعے ہی تمام تر کاروبار سیاست چلایا جاتا ہے۔جمہوریت صرف ایک ناٹک کا نام ہے جس میں مخصوص ٹولہ ڈگڈگی بجاکر بندر تماشا دکھاتا ہے اور تماشائیوں سے پیسے وصول کر کے اپنی راہ لیتا ہے۔سرمائے کی حاکمیت کے اس نظام میں محنت کش عوام کا کام صرف زندہ با د اور مردہ باد کے نعرے لگانا ہی رہ گیا ہے، انتخابات میں حصہ لینا اور عوام کی”نمائندگی“ کا دعویٰ کرنے کا حق صرف دولت والوں کے لیے ہی موجود ہے۔ان انتخابات کے نتائج جو بھی ہوں لیکن یہ طے ہو چکا ہے کہ مزدور ان میں کبھی بھی کامیاب نہیں ہو گا اور نہ ہی ان کا کوئی نمائندہ بلکہ صرف سرمایہ دار طبقے کا ہی کوئی گماشتہ کامیابی حاصل کرے گا۔ دیگر ریاستی اداروں کی صورتحال بھی مختلف نہیں جہاں اس ملک کے عوام کی تقدیروں کا فیصلہ کرنے والے حکمران طبقے کے ہی افراد ہوتے ہیں اور ان کی تمام تر پالیسیاں اور فیصلے سرمایہ داروں کے مفادات کے تحفظ کے لیے ہی ہوتی ہیں۔کسی سامراجی طاقت کی گماشتگی کرنی ہے اور کس سے اپنے اخراجات پورے کرنے کے لیے بھیک مانگنی ہے اس کا فیصلہ یہ حکمران ہی کرتے ہیں۔ کس سامراجی جنگ میں اس ملک کے غریب عوام کو جھونکنا ہے اور کس جگہ قتل و غارت کروانے سے ان کی تجوریاں بھر سکتی ہیں اس کا فیصلہ کرنے کے لیے بھی محنت کش عوام کی رائے کی کبھی ضرورت پیش نہیں آئی۔کس سود خور مالیاتی ادارے کو اس ملک کے غریب عوام کی زندگیاں گروی رکھوانی ہیں اور کس ملٹی نیشنل کمپنی سے کمیشن کھا کر سرکاری خزانے کے دروازے اس کے لیے کھول دینے ہیں اس کے لیے بھی کبھی کسی ریفرنڈم یا عوامی رائے عامہ کی ضرورت پیش نہیں آتی۔اس ملک میں رہنے والے کروڑوں عوام اس ملک کے حکمران طبقے کے لیے ایسے زرخرید غلام کی حیثیت رکھتے ہیں جنہیں ہانک کر کسی بھی قیمت پر اپنے مفاد کے لیے فروخت کیا جا سکتا ہے۔اور اگر ان غلاموں کی جانب سے کوئی چیخ سنائی دے یا بغاوت کے آثار دکھائی دیں تو اسے پوری قوت کے ساتھ کچلنے اور خون میں ڈبونے کا بندوبست بھی پوری طرح موجود ہے۔ اس عمل میں سرمایہ دار طبقے کا بنایا گیا آئین اور برطانوی سامراجیوں کے بنائے گئے اور آج تک رائج قوانین بھی ریاستی اداروں کی بھرپور مدد کرتے ہیں۔ اگر کوئی قانونی شق رستے کی رکاوٹ بننے کی کوشش بھی کرے تو اسے بھی ایسے ہی کچلا جاتا ہے جیسے ریاستی ادارے رشوت نہ دینے والے ملزمان کو کچلتے ہیں۔
بہت سے لوگ شاید موجودہ حالات کی غلامانہ دور سے اس مماثلت پر اعتراض کریں اورمیڈیا کے نسبتاً ”آزادانہ“ کردار یااپوزیشن کی مختلف سیاسی پارٹیوں کی جانب اشارہ کرتے ہوئے اس مماثلت کو غلط ثابت کرنے کی کوشش کریں۔لیکن اس ملک کے عوام کی اکثریت میڈیا اور ان پارٹیوں کے غلیظ اور گھناؤنے عوام دشمن کردار سے بخوبی واقف ہے اور یہ بھی اب کوئی راز نہیں رہا کہ ان کی ڈوریاں بھی انہیں افراد کی جانب سے ہی ہلائی جاتی ہیں جہاں انتخابات کے نتائج طے کیے جاتے ہیں اور حکومتوں کو چنا جاتاہے۔اس کے لیے موجودہ حالات پر صرف سرسری سے نظر دوڑانا ہی کافی ہوگا جس میں مولانا فضل الرحمان کے مارچ اور دھرنے کا ذکر زورو شور سے دکھائی دے رہا ہے اور میڈیا پر اس کو بھرپور کوریج دی جا رہی ہے۔
اس وقت ملک بھر میں درجنوں ایسی تحریکیں اور احتجاج چل رہے ہیں جو محنت کشوں کے کسی نہ کسی حصے کی حقیقی ترجمانی کرتے ہیں اور ریاستی ظلم و جبر کیخلاف مظلوموں کی آواز ہیں۔ان میں خیبر پختونخوا میں ینگ ڈاکٹروں پر بد ترین ریاستی تشدد اور جبر کیخلاف جاری ایک طویل ہڑتال بھی شامل ہے جس میں تمام ہسپتالوں کے سارے ہیلتھ ورکرز شامل ہیں اور اب اس میں اس شعبے کے طلبہ کو بھی شامل کیا جا رہا ہے۔ اسی طرح نجکاری کیخلاف دوسرے سرکاری اداروں میں جاری تحریکیں ہیں۔بیروزگاری اور کم اجرتوں کیخلاف پاور لومز اور ٹیکسٹائل ورکرز کے مظاہرے بھی پورے ملک میں موجود ہیں۔اس کے علاوہ فیسوں میں اضافے کے خلاف اور طلبہ یونین بحالی کے مختلف مظاہرے ہیں۔اسی طرح قومی جبرکیخلاف مختلف علاقوں میں جاری احتجاجی تحریکیں اور احتجاج ہیں جو گلگت بلتستان سے لے کر گوادر تک پھیلی ہوئی ہیں۔لیکن اس ملک کا میڈیا اور اپوزیشن کی سیاسی پارٹیوں کے لیے جیسے یہ سب کچھ وجود ہی نہیں رکھتا۔ ان تحریکوں میں شامل افراد کی چھوٹی سی خبر بھی اخبار یا ٹی وی پر دیکھنا محال ہے اور جن سلگتے ہوئے مسائل کی جانب یہ تمام تحریکیں اشارہ کرتی ہیں ان پر بحث کسی بھی کالم یا ٹاک شو میں کرنا جرم بنا دیا گیا ہے۔
ایسے گھٹن اور جبر کے ماحول میں عوام کو میڈیا کے ذریعے بتایا جارہا ہے کہ اپوزیشن اس حکومت کو گرانے کے لیے اکٹھی ہونے کی کوشش کر رہی ہے اور مولانا فضل الرحمان کی قیادت میں عوامی نفرت کا مرکز اس حکومت کیخلاف تحریک کا آغاز ہوچکا ہے۔یہاں عام سا سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جن قوتوں نے میڈیا پر قدغنیں لگائی ہیں اور دیگر تحریکوں کی خبروں پر پابندی لگوائی ہے ان قوتوں نے یہ کیسے اجازت دے دی کہ اپوزیشن کی تمام تر خبریں تسلسل کے ساتھ میڈیا کی زینت بنتی رہیں۔ فضل الرحمان کے مارچ اور دھرنے کی خبریں تمام بڑے جرائد کے فرنٹ پیج پر لگائی جا رہی ہیں جبکہ ٹی وی چینلوں پر بھی اسے گھنٹوں کوریج مل رہی ہے۔صرف اسی ایک بات سے واضح ہوجاتا ہے کہ اپوزیشن کی یہ تمام تر سرگرمی درحقیقت اس گرتے ہوئے نظام کو بچانے کی ایک کوشش ہے اور مقتدر حلقے ایک حقیقی تحریک کے خوف سے ایک کنٹرولڈ مصنوعی تحریک کو عوام پر مسلط کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
سرمایہ دارانہ نظام کو اپنی حاکمیت برقرار رکھنے کے لیے کبھی جمہوریت اور کبھی آمریت کا لبادہ اوڑھنا پڑتا ہے۔ہر ناٹک میں ہیرو کے ساتھ ساتھ ولن کا کردار اہمیت کا حامل ہوتا ہے اسی طرح یہاں پر موجود جمہوریت کے ناٹک میں بھی اپوزیشن کا کردار اہمیت کا حامل ہے۔عوام کو دھوکہ دینے کے لیے ایک جعلی اپوزیشن کو تراشا جاتا ہے جس کا مقصد عوام کی توجہ حقیقی مسائل سے ہٹا کر فروعی مسائل کی جانب مبذول کروانا ہوتا ہے۔عمران خان اور اس کا ٹولہ ایک لمبے عرصے تک یہ ناٹک کرتا رہا ہے اور اب اپنی قیمت وصول کر رہا ہے۔ اسی طرح اب دوبارہ جب اس ناٹک کے لیے کسی کردار کی ضرورت پیش آئی تو فضل الرحمان کو یہ سونپ دیا گیا ہے اور پھر عوام کو بتایا جارہا ہے کہ اگر انتخابات میں دھاندلی نہ ہوتی اور اپوزیشن پارٹیاں کامیاب ہوجاتیں تو یہاں دودھ اور شہد کی نہریں بہنا شروع ہوجانی تھیں۔اسی طرح مختلف قانونی اور آئینی شقوں میں الجھا کر عوام کو اس طبقاتی نظام اور امیر اور غریب کی تفریق بھلادینے پر آمادہ کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔
اس کا مطلب یہ نہیں کہ حکمران طبقے کے مختلف دھڑوں کا آپس میں کوئی اختلاف نہیں بلکہ نظام کے بحران کے باعث ان کے تضادات شدت اختیا رکرتے جارہے ہیں۔اس وقت نہ صرف حکمران طبقہ مختلف دھڑوں میں تقسیم ہے بلکہ ریاستی اداروں میں بھی یہ دھڑے بندی پوری طرح سرایت کر چکی ہے اور یہ مختلف دھڑے ایک دوسرے کے سخت دشمن بن چکے ہیں۔اس کا اظہار ان مختلف دھڑوں کے نمائندہ سیاستدانوں کی جانب سے استعمال ہونے والی زبان میں بھی نظر آتا ہے۔ لیکن اپنے تمام ترشدیدتضادات کے باوجود وہ اس امیر اور غریب پر مبنی طبقاتی نظام کو قائم رکھنے پر متفق ہیں اور ان کی معاشی اور سیاسی پالیسیوں میں رتی برابر بھی فرق نہیں۔ آئی ایم ایف اور امریکی سامراج کی غلامی کا طوق پہننا ہو یا چین اور سعودی عرب سے بھیک مانگنا ہویہ تمام دھڑوں کے لیے جائز ہے۔ اسی طرح نجکاری اور دیگر عوام دشمن پالیسیوں کو لاگو کرنے پر بھی یہ متفق ہیں۔ اس میں میڈیا مالکان سے لے کر مختلف ریاستی اداروں پر براجمان افراد میں کوئی اختلاف نہیں اور وہ اپنی ان تمام لڑائیوں میں محنت کشوں کو محض بارود کی طرح استعمال کرتے ہیں تا کہ لوٹ مار کی اس لڑائی میں وہ زیادہ سے زیادہ حصہ بٹور سکیں۔
لیکن حقیقت یہ ہے کہ عوام اس تمام تر ناٹک سے اکتا چکے ہیں اور حکمران طبقے کی سیاست سے مکمل طور پر لاتعلق ہو چکے ہیں۔ایسے میں حکمرانوں کے لیے جعلی تحریکیں مسلط کرنا اور اپنی مرضی کی حکومتیں ترتیب دینا اور گرانا بظاہر آسان نظر آتا ہے کیونکہ عوام کی ان میں دلچسپی نہ ہونے کے برابر ہے۔درحقیقت عوام کے لیے ان پارٹیوں میں فرق کرنا بھی مشکل ہو چکا ہے کیونکہ نظریاتی اور سیاسی پروگرام تقریباً سب کا ہی ایک ہے اور سب پارٹیاں ہی امریکی سامراج اور اس کے نظام کو سجدہ کر چکی ہیں۔دائیں اور بائیں بازو کی تفریق بھی ختم ہو چکی ہے اور اس پر کسی کے چہرے پر ہلکی سی ندامت بھی دکھائی نہیں دیتی۔ فضل الرحمان جیسے عوام دشمن رجعتی سیاستدان اور اسٹیبلشمنٹ کے پرانے آزمودہ مہرے کی قیادت میں عوامی نیشنل پارٹی جیسی نام نہاد سیکولر پارٹی اور بلاول جیسا لبرل بھی نام نہاد آزادی مارچ میں شامل ہیں۔اسٹیبلشمنٹ کی نام نہاد مخالف اور زیر عتاب پارٹی ن لیگ بھی ہچکولے کھا رہی ہے اور حکمران طبقے کے دو دھڑوں میں سے کسی ایک کا انتخاب نہیں کر پارہی۔اس اتحاد میں سب کو کھینچ لانے والی قوت درحقیقت اقتدار کا لالچ ہے جو ان کے چہروں سے ٹپکتا ہوا دکھائی دیتا ہے۔اس لالچ میں بننے والا یہ اکٹھ ابھی تک عمران خان کی عوام دشمن پالیسیوں کا ایک بھی متبادل نہیں دے سکا اور نہ ہی غربت، مہنگائی اور بیروزگاری سمیت عالمی سطح پر موجود سرمایہ دارانہ نظام کے بحران کا کوئی حل پیش کر سکا ہے۔اسی طرح مختلف قومی تحریکوں کی جانب سے اٹھائے جانے والے مسائل کا کوئی حل بھی پیش نہیں کیا جا سکا گوکہ ان تحریکوں کی قیادتیں اپنی اپنی تحریک سے غداری کر کے انہی دولت مند افراد کی چوکھٹ پر حاضری دے چکی ہیں۔
حکمران طبقے کی اس تمام تر سیاست کی پراگندگی پورے سماج میں تعفن پھیلا رہی ہے اور آنے والے عرصے میں اس ملک کے محنت کش طبقے کو اپنی بقا کے لیے اس تعفن کا خاتمہ کرنے کے لیے باہر نکلنا پڑے گا۔ اسی عمل میں جب وہ خود سیاست کے میدان میں قدم رکھے گا تو اپنی نمائندہ سیاسی پارٹیاں بھی تشکیل دے گا۔محنت کش طبقے کو پہلے سے موجود سیاسی پارٹیوں کے ساتھ ساتھ اس ریاست کے بوسیدہ اداروں اور انتخابی طریقہ کار، عدالتوں وغیرہ سے بھی کوئی امید نہیں۔ یہ ادارے آج بھی برطانوی سامراج کے نوآبادیاتی طرز پر حکمرانی کر رہے ہیں اور محنت کشوں کو اپنا غلام تصور کرتے ہیں۔اس صورتحال میں محنت کش طبقے کی بغاوت یہاں پر ایک نئے سماج کے بیج رکھے گی جو ان تمام سیاسی پارٹیوں کو تاریخ کے کوڑے دان میں پھینکنے کے ساتھ ساتھ یہاں ایک مزدور ریاست کا بھی آغاز کریں گے۔ ایک ایسی ریاست جو کسی سامراجی طاقت کی آلہ کار نہیں ہو گی اور جہاں امیر اور غریب کی طبقاتی تفریق کا خاتمہ کرتے ہوئے تمام وسائل اور پیداوارمزدوروں کے جمہوری کنٹرول میں ہو گی۔ یہ مزدور ریاست صرف اسی وقت تخلیق کی جا سکتی ہے جب یہاں بینکوں اور ملٹی نیشنل کمپنیوں کی حکمرانی پر مبنی سرمائے کے نظام کا خاتمہ کیا جائے اور انقلابی نوجوانوں اور کسانوں کے ساتھ مل کر مزدور طبقہ ایک سوشلسٹ انقلاب برپا کرے۔اس مزدور انقلاب کی تیاری کے لیے انقلابیوں کو ابھی سے سرگرم ہونے کی ضرورت ہے اور انقلاب کا یہ پیغام سماج کی وسیع تر پرتوں تک پہنچانے کے ساتھ ساتھ خود کو تیزی سے منظم کرنے کی بھی ضرورت ہے۔ آج کے عہد میں یہی وہ واحد سیاسی سرگرمی ہے جو مزدور طبقے کی نجات کا رستہ بنے گی۔