تحریر: |جلیل منگلا|
پاکستان کا کل رقبہ 197.7ملین ایکڑ ہے، جس میں سے54.6ملین ایکڑ رقبہ زیر کاشت ہے جو کل رقبے کا قریباً 28فیصد بنتا ہے۔ پاکستان کی کل آبادی کا 60فیصد دیہی آبادی پر مشتمل ہے۔ اس 60 فیصد آبادی کا تین چوتھائی بے زمین ہاریوں اور کھیت مزدوروں پر مشتمل ہے اور باقی ماندہ ایک چوتھائی چھوٹے کسانوں سے لے کر اوپری درمیانے کسانوں پر مشتمل ہے۔ ملک کی مجموعی قومی پیداوارمیں زراعت کا حصہ 21فیصد ہے۔ زراعت ملک کے 45فیصد لوگوں کے روزگارکا ذریعہ ہے۔ زراعت کا شعبہ لوگوں کو خوراک اورصنعتوں کو خام مال کی فراہمی میں بنیادی حیثیت رکھتا ہے۔ پاکستانی برآمدات سے حاصل ہونے والے زرِ مبادلہ کا 45فیصد زرعی تجارت سے حاصل ہوتا ہے پاکستان کا اہم شعبہ ہونے کے باوجود، یہ بری طرح نظر انداز ہورہا ہے۔ زراعت کے شعبے سے وابستہ آبادی کا 75فیصد بے زمین ہاریوں اور کھیت مزدوروں پر مشتمل ہے اور یہ غربت سے بری طرح متاثر ہیں۔
جاگیر دارانہ نظام کی باقیات نہایت بہیمانہ شکل اختیار کر چکی ہیں۔ آبپاشی کی سہولتیں ناکافی ہیں اس جدید دور میں بھی پاکستان کا کسان فرسودہ اور پرانے طریقوں سے کاشتکاری کرنے پر مجبور ہے۔ زرعی آلات اتنے مہنگے ہیں کہ کسان کی استطاعت سے باہر ہیں۔ مہنگی ہونے کے ساتھ جعلی زرعی ادویات بھی، پاکستانی کسان کا ایک بنیادی مسئلہ ہیں۔ سودی زرعی قرضے اور وہ بھی زیادہ شرحِ سود پر، غریب کسان کے لیئے کسی عذاب سے کم نہیں۔ کسانوں کو ان کی اجناس کی معقول قیمت نہیں ملتی۔ حکمرانوں کے ساتھ ساتھ چھوٹی بڑی بیوروکریسی بھی کسانوں کو لوٹنے پر لگی ہو ئی ہے۔ کسان کو ہر فصل کم ازکم 25000 فی ایکڑ نقصان دیتی ہے۔ حالیہ گندم کی فصل پر جس طرح کسانوں کی تذلیل کی گئی اس کی مثال کہیں نہیں ملتی۔ ملک وقو م کیلئے اناج اگا نے والا کسان محکمہ خوراک کے دفتر کے باہر جانوروں کی طرح سارا سارا دن لائن میں کھڑا رہنے کے بعد خالی گھر کو لوٹ جاتا ہے مگر اس کو اپنی فصل بیچنے کیلئے باردانہ نہیں ملتا۔ آخر مجبور ہوکر کوڑیوں کے بھاؤ مافیا کو بیچتا ہے۔ ساری دنیا کیلئے اناج اگا نے والے کسان کے گھر میں روٹی تک نہیں اس نے کیا اپنی اور اپنے خاندان اور باقی ضروریات پوری کرنی ہیں۔ آج اس کے بچے سکول کالج سے نکال دیئے گئے صرف اسی لئے کہ اس کے پاس دینے کے لیئے فیس کے پیسے نہیں ہیں۔ آج حالا ت یہ ہو گئے ہیں کہ مسلسل نقصانات کے باعث اناسی لاکھ خاندان دیہات چھوڑ کر شہروں میں مزدوری کی تلاش میں چلے گئے ہیں۔ دیہاتوں میں فصلیں کم اور غربت زیادہ اگتی ہے اس کی وجہ کھاد، بیج، تیل، سپرے اور بجلی کی مسلسل بڑھتی قیمتوں کی وجہ سے پیداوار کی بڑھتی لاگت ہے۔
زرعی شعبہ مسلسل نظر انداز کئے جانے کے نتیجے میں اس سال زراعت کی نمو گزشتہ پچیس برس میں سب سے کم سطح پر آ گئی۔ مالی سال 16-2015 کے لیے زرعی شعبے کی ترقی کا ہدف 3.9 فیصد مقرر کیا گیا تھا تاہم یہ منفی 0.19 فیصد رہی۔ زرعی شعبے کی منفی گروتھ یا ترقیِ معکوس کی بڑی وجہ کپاس کی پیداوار میں 28 فیصد کمی تھی۔ مکئی اور چاول کی گروتھ بھی منفی رہی جبکہ گندم اورگنے کی پیداوار میں معمولی اضافہ ہوا۔ مجموعی طور پر مسلسل تیسرے سال اقتصادی ترقی کا ہدف حاصل نہیں کیا جا سکا۔ اس سال کے دوران زراعت کے ساتھ حکومت کے بد ترین سلوک کے شدید ترین نتائج سامنے آئے ہیں۔ چاول کی صنعت جو دو ارب ڈالر کے قریب برآمدات حاصل کرنے کے قابل ہے وہ تباہی سے دوچار ہے جبکہ کپاس کی فصل بھی تباہی کے دہانے پر ہے۔ اس سال ملک میں کپاس کی پیداوار میں کمی کی وجہ سے بیرون ملک سے روئی کی خریداری میں ڈیڑھ سو فیصد اضافہ ہو ا ہے۔ ادارہ شماریات کے مطابق رواں مالی سال کے ابتدائی 10ماہ میں قریب 70ارب روپے کی روئی درآمد کی گئی جو کہ گزشتہ مالی سال کے مقابلے میں دوگنا تھی۔ اس کا براہ راست نتیجہ یہ سامنے آیا کہ رواں مالی سال کے ابتدائی 10ماہ کے دوران ٹیکسٹائل مصنوعات کی برآمدات آٹھ فیصد کم ہوگئیں۔ جولائی تا اپریل 2016 کے دوران ٹیکسٹائل ایکسپورٹ 10 ارب 40 کروڑ ڈالررہیں جوکہ گزشتہ مالی سال کی اسی مدت میں 11ارب 27 کروڑ ڈالر تھیں۔ حکومت اگلے مالی سال(17-2016) کا بجٹ پیش کر رہی ہے۔ حکومت اس بجٹ میں بھی مالی خسارہ کم کرنے اور ترقیاتی بجٹ بڑھانے کا عندیہ دے رہی ہے۔ پچھلے سال کے دوران کپاس کی پیداوار میں 28 فیصد کمی کے نتیجے میں بیرون ملک سے روئی کی خریداری میں ڈیڑھ سو فیصد اضافہ ہو ا ۔ گندم ہی کو لیں 10-2009 میں گندم کی پیداوار میں کمی اور آٹے کا شدید بحران پیدا ہوا۔ جس کے بعد حکومت کی جانب سے گندم کی امدادی قیمت بڑھائے جانے اور سرکاری سطح پرخریداری کے نظام میں بہتری سے پیداوار میں خاصا اضافہ ہوا، اب کاشتکار اسی اضافی پیداوار کی سزا یوں بھگت رہا ہے کہ 1300 روپے کی بوری ہزار میں بھی نہیں بکتی۔ اس سے قبل چینی کا بحران بھی ہم دیکھ چکے ہیں۔پاکستان میں ٹریکٹر کی صنعت بے رحم اجارہ داری کی گرفت میں ہے۔ کل ملا کے غالباً دو کمپنیاں ہیں جو نہ مسابقت کا ماحول پیدا ہونے دیتی ہیں اور نہ ہی معیار پر توجہ دیتی ہیں۔ البتہ ملی بھگت سے ہرسال ٹریکٹروں کی قیمتوں میں خاصا اضافہ کردیا جاتا ہے۔ جسکی وجہ سے ہر سال لاکھوں کسان اور محنت کش غربت کے سمندر میں غرق ہو رہے ہیں۔
گذشتہ چند سالوں سے کسان تحریکیں اٹھ رہی ہیں مگر اس میں چھوٹے کسان کی شرکت نسبتاً کم ہے۔ اس کی بڑی وجہ ان تنظیموں کی قیادت اوپری درمیانے کسانوں کے پاس ہے اور اسی لئے ان تنظیموں کے مطالبات بھی کسانوں کی اسی پرت کے مفادات کی عکاسی کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ ان کسان تنظیموں کے پروگرام میں بے زمین ہاریوں اورکھیت مزدوروں کے لئے کچھ بھی موجود نہیں جو کہ دیہی آبادی کا قریباً تین چوتھائی حصہ بناتے ہیں۔ اس وجہ سے دیہی آبادی کی اکثریت شدید معاشی جبر اور سلگتے ہوئے غصے کے باوجود ان تحریکوں میں شامل نہیں ہو رہی۔ اس ملک میں جہاں ہر روز سینکڑوں بچے غربت، غذائی قلت اور قابل علاج بیماریوں سے مرتے ہیں وہاں ادویات، علاج اور مناسب غذا نہ ملنے کی وجہ سے بزرگوں کی اموات میں بھی تیزی سے اضافہ ہورہا ہے۔ ادویات مہنگی ہوتی جارہی ہیں جبکہ علاج نجکاری کی بھینٹ چڑھ کر عوام کی پہنچ سے دور ہورہا ہے۔ ہمیں جاگیرداری و قبائلی نظام کی باقیات کے خلاف جدوجہد کرنی ہوگی، تعلیم عام کرنی ہوگی۔ یہاں حقیقی انقلابی طبقہ مزدور ہیں جو سرمایہ دارانہ نظام کو جڑ سے اکھاڑ کر پھینک سکتے ہیں۔ اگر ہم اعدادوشمار کے حوالے سے بھی دیکھیں تو پاکستان میں45فیصد آبادی زراعت سے وابستہ ہے۔18فیصد مزدورہیں جب کہ باقی ماندہ 28فیصد سروس سیکٹر سے وابستہ ہیں اس طرح 46فیصد آبادی مزدوروں پر مشتمل ہے۔ پاکستان میں زرعی آبادی میں تیزی سے کمی آرہی ہے اور یہ 80فیصد سے کم ہو کر آج 60فیصد کے قریب رہ گئی ہے اور اندازہ ہے کہ چند سالوں تک دنیا کے دیگر ترقی پذیر ممالک کی طرح پاکستان میں بھی نصف آبادی شہری ہو گی۔ کسان سماج کا مکمل انحصار سرمایہ داری پر ہے۔ کسان مارکیٹ کے لئے پیدا کرتے ہیں اورعالمی معاشی بحران، جنگوں اور دنیا میں آنے والی تبدیلیوں کا کسانوں پر بھی اثر پڑتا ہے۔ ریاست سرمایہ داری کے تحت اقدامات اٹھاتی ہے۔پاکستان میں مرکزی، صوبائی، ضلعی اور بلدیاتی مشینری کو مزدور چلاتے ہیں اس کے ساتھ صنعت کا پورا شعبہ بھی مزدور طبقے کی بدولت ہے۔ پاکستان کی ریاست اور اس کا پورا ڈھانچہ سرمایہ داررانہ بنیادوں پر قائم ہے۔ اس کا حل صرف سوشلسٹ انقلاب ہے ۔