|تحریر: آدم پال|
عالمی سطح پر آنے والی تیز ترین تبدیلیاں پاکستانی ریاست کی دراڑوں کو بڑھاتی چلی جا رہی ہیں۔ محنت کش عوام پرمظالم کے پہاڑ توڑنے والی اور بے گناہوں کے خون سے ہولی کھیلنے والی یہ ریاست مسلسل کمزور ہوتی چلی جا رہی ہے۔ اپنے جنم سے لے کر اب تک یہ ریاست عالمی سامراجی طاقتوں کی گماشتگی کا کردار ادا کرتی چلی آ رہی ہے اور خطے میں ان سامراجی طاقتوں کے مفادات کے تحفظ کی ذمہ دار رہی ہے۔ اس غلامی کے عوض یہاں کے حکمران طبقے نے اپنی زندگیوں کی آسائشوں اور محنت کشوں کے استحصال میں کئی گنا اضافہ کیا ہے جبکہ یہاں کے عوام کو آگ اور بھوک کے سمندر میں دھکیل دیا گیا ہے۔ لیکن اب جہاں عالمی سطح پر سرمایہ دارانہ نظام شدید بحران کا شکار ہے اور عالمی سامراجی طاقتوں کا توازن تبدیل ہوا ہے وہاں اس گماشتہ ریاست کے داخلی تضادات بھی شدت اختیار کرتے جا رہے ہیں۔
عالمی سطح پر آنے والی اہم ترین تبدیلیوں میں سب سے نمایاں امریکی سامراج کی پسپائی ہے۔ 2008ء کے مالیاتی بحران نے امریکی سامراج کی بنیادوں کو کمزور کر دیا تھا جبکہ اس کے بعد کے واقعات نے مسلسل اس کی اس کمزوری کو پوری دنیا پر عیاں کیا ہے۔ عراق اور افغانستان کی سامراجی جنگوں میں پسپائی، عرب انقلابات میں غیر مؤثر کردار اور خود امریکہ میں بڑھتے ہوئے داخلی تضادات کے باعث امریکی سامراج آج پوری دنیا میں تھانیدار کا وہ کردار ادا کرنے سے قاصر ہے جو وہ دوسری عالمی جنگ کے بعد سے ادا کر رہا تھا۔ چند ماہ قبل شام کے شہر حلب میں امریکی حمایت یافتہ قوتوں کی شکست نے اس کی سامراجی قوت کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا ہے۔ ایسے میں حالیہ صدارتی انتخابات میں حکمران طبقے کی تمام تر مخالفت کے باوجود ٹرمپ کے بر سر اقتدار آنے سے امریکی ریاست میں موجود تضادات بھی کھل کر سامنے آئے ہیں اور مختلف ریاستی ادارے ایک دوسرے سے برسر پیکار نظر آتے ہیں۔
اس صورتحال میں چین اور روس سمیت مختلف ممالک نے اپنے سامراجی مفادات کے حصول میں واضح طور پر پیش رفت کی ہے اور امریکہ کی پسپائی کے باعث پیدا ہونے والے خلا کو پُر کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ گو کہ ان ممالک میں یہ خلا مکمل طور پر پُر کرنے کی اہلیت موجود نہیں اوراس کھیل میں ابھی بھی امریکی سامراج اپنی تمام تر کمزوری کے باوجود سب سے زیادہ طاقتور کھلاڑی ہے۔ اس تمام تر صورتحال کی بنیاد سرمایہ دارانہ نظام کا نامیاتی بحران ہے جس کے باعث جہاں تمام ممالک کے سامراجی مفادات متصادم ہے وہاں وہ ایک دوسرے پر تجارتی اور معاشی حوالے سے انحصار بھی کرتے ہیں۔
ایسے میں سب سے خونریز صورتحال مشرقِ وسطیٰ کی ہے جو تمام سامراجی قوتوں کے لیے کھیل کا میدا ن بنا ہوا ہے اور سامراجی مفادات کے لیے کروڑوں انسانوں کی زندگیوں کو داؤ پر لگایا جا چکا ہے۔ شام میں روس اور امریکہ کے باہمی تضادات کے ساتھ ساتھ ترکی، ایران اور سعودی عرب بھی اپنے اپنے مقاصد کے حصول کے لیے سرگرم ہیں اور مسلسل ایک دوسرے پر سبقت لیجانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ یورپی یونین کے مختلف ممالک، چین اور دیگر سامراجی قوتیں بھی اس خطے میں اپنے مفادات کے حصول کی کوششیں کر رہی ہیں۔ لیکن وقت گزرنے کے ساتھ یہ بحران حل ہونے کی بجائے مزید خونریز ہوتا جا رہا ہے اور مزید نئے خطوں کو اپنی لپیٹ میں لیتا جا رہا ہے۔ ترکی کے صدر اردوان نے شام کی خانہ جنگی کو اپنے سامراجی مقاصد کے حصول کے لیے استعمال کرنے کی کوشش کی لیکن اب اس خانہ جنگی کے شعلے ترکی میں داخل ہوچکے ہیں اور تیزی سے پورے سماج کو اپنی لپیٹ میں لے رہے ہیں۔
اسی طرح پاکستان کی ریاست ایک لمبے عرصے سے اس بحران میں غیر جانبدار رہنے کا ناٹک کر رہی ہے لیکن اب یہ بحران اسے بھی اس خونی دلدل میں گھسیٹ رہا ہے۔ ایک ویب سائٹ مڈل ایسٹ آئی کی13مارچ کی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان ایک بریگیڈ فوج سعودی عرب روانہ کررہا ہے جہاں سے وہ یمن میں جاری حوثی قبائل کیخلاف جنگ کاحصہ بنے گی۔ رپورٹ کے مطابق یہ اطلاع پاکستان میں موجود اعلیٰ سکیورٹی ذرائع سے موصول ہوئی ہے۔ پاکستانی میڈیا میں اس رپورٹ پر خاطر خواہ تبصرے نہیں کیے گئے اور نہ ہی اس کی تصدیق کی گئی۔ صرف ڈان ٹی وی کے ایک پروگرام میں موجود شرکا کے مطابق ریاستی اہلکاروں نے اس رپورٹ کو تسلیم کرنے سے انکار کیا ہے۔ لیکن اس کے باوجود اس رپورٹ کی باقاعدہ تردید سامنے نہیں آئی جس سے نظر آتا ہے کہ پاکستان اس خونی فرقہ وارانہ جنگ کا حصہ بننے جا رہا ہے۔ دو سال قبل جب سعودی عرب نے اس جنگ کا آغاز کیا اور یمن میں حوثی قبائل پر جنگ مسلط کی تو اس وقت بھی پاکستان سے باقاعدہ طور پر فوجی امداد طلب کی گئی تھی۔ اس وقت ایسی غیر مصدقہ خبریں بھی گردش کر رہی تھیں کہ سعودی عرب نے صرف سنی فوجیوں پر مشتمل دستوں کو طلب کیا ہے۔ لیکن اس وقت پاکستانی ریاست نے اس درخواست کو رد کر دیا تھااور پارلیمنٹ کے ذریعے پیغام دیا گیا تھا کہ ہم اس جنگ میں برا ہ راست شرکت نہیں کر سکتے۔ لیکن دو سال گزرنے کے بعد پاکستانی ریاست پر سعودی عرب کے دباؤ میں مزید اضافہ ہوا ہے جبکہ سعودی عرب کو اس جنگ میں بڑے پیمانے پر ہزیمت اٹھانی پڑی ہے اور یہ جنگ سعودی عرب کے لیے ایک خونی دلدل بنتی چلی جا رہی ہے۔ اس دوران سعودی عرب کا معاشی بحران بھی مزید گہرا ہوا ہے اور عام شہریوں پر ٹیکسوں اور مہنگائی میں بڑے پیمانے پر اضافہ کیا گیا ہے جبکہ غیر ملکی محنت کشوں کو بڑے پیمانے پر ملک سے نکالا جا رہا ہے۔ صرف گزشتہ چند ماہ میں سعودی عرب سے 39ہزار پاکستانیوں کو نکال دیا گیا ہے جبکہ اس سے بھی زیادہ کو نکالنے کی منصوبہ بندی کی جا رہی ہے۔ ان محنت کشوں کی ترسیلات زر پاکستان کی آمدن کا ایک بڑا حصہ ہے جس میں خاطر خواہ کمی ہوئی ہے۔ اس دوران سعودی عرب کی حامی قوتوں کو شام اور دیگر علاقوں میں بھی پسپائی کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ دوسری جانب پاکستان کی معیشت بھی شدید بحران کا شکار ہو چکی ہے اور انہیں سعودی امداد کی اشد ضرورت ہے۔ اس کے علاوہ پاکستان اور سعودی عرب کا دفاعی تعاون ایک لمبے عرصے سے موجود ہے اور جہاں سعودی فوج کے بہت سے حصے پاکستانی افواج سے تربیت حاصل کرتے ہیں وہاں بہت سے پاکستانی سعودی فوج کا بھی حصہ ہیں۔
اس صورتحال میں اپنے سامراجی عزائم کو ٹھوس بنیاد فراہم کرنے کے لیے سعودی عرب نے نیٹو کی طرز پر ایک اتحادی فوج کے ادارے کا بھی اعلان کیا ہے جس کا نام IMAFTرکھا گیا ہے۔ اس ادارے میں اعلان کے مطابق 39 اسلامی ممالک کی افواج کو یکجا کیا جائے گا تا کہ دہشت گردی کا مقابلہ کیا جا سکے۔ غیر اتفاقیہ طور پر اس اتحادی فوج میں ایران، عراق اور شام کے اسلامی ممالک شامل نہیں۔ جس سے واضح ہے کہ یہ اتحادی فوج سنی بنیادوں پر تشکیل دی جا رہی ہے تا کہ خطے میں ایران کے بڑھتے ہوئے سامراجی تسلط کا مقابلہ کیا جا سکے۔ پاکستان نے آغاز میں اس اتحاد میں شمولیت پر ہچکچاہٹ کا اظہار کیا لیکن بعد ازاں اس کی حمایت کا اعلان کیا گیا۔ اس کے بعد یہ خبر سننے میں آئی کہ گزشتہ سال ریٹائر ہونے والے آرمی چیف راحیل شریف کو اس اتحادی فو ج کا سربراہ مقرر کیا جا رہا ہے۔ اس پر بھی حکومت نے لا علمی کا اظہار کیا اور بعد ازاں اس کی مخالفت کی گئی اور قانونی پیچیدگیوں کا ذکر کیا گیا۔ لیکن گزشتہ روز وزیر دفاع نے ایک ٹی وی انٹرویو میں اقرار کیا کہ حکومت سابقہ آرمی چیف کو اجازت دے چکی ہے اور سعودی حکومت کو رسمی طور پر اس سے آگاہ کر دیا گیا ہے۔ انٹرویو میں کہا گیا کہ راحیل شریف جلد اس اتحادی فوج کی تشکیل کا آغاز کریں گے جس کا ہیڈ کوارٹر ریاض میں ہو گا۔ اس فوج کی مشاورتی کونسل تمام ممبر ممالک کے وزرائے دفاع پر مشتمل ہے جس کا اجلاس مئی کے دوران ریاض میں ہی منعقد کیا جائے گا۔
اس دوران سعودی عرب کے حکمران شاہ سلمان نے بھی ایشیا کے مختلف ممالک کا دورہ کیا ہے اور جہاں سعودی عرب کی گرتی ہوئی معیشت کو سہارا دینے کے لیے جاپان اور چین سے سرمایہ کاری کے معاہدے کیے ہیں وہاں انڈونیشیا اور ملائیشیا کا بھی دورہ کیا ہے تا کہ اس اتحادی فوج کے لیے حمایت میں اضافہ کیا جا سکے۔ اس دوران14مارچ کو ولی عہد اور وزیر دفاع محمد بن سلمان کی امریکی صدر ٹرمپ سے ملاقات اہمیت کی حامل ہے جس میں دونوں نے ایران کو خطے کے لیے خطرہ قرار دیا۔ ٹرمپ کے بر سر اقتدار آنے سے امریکہ اور ایران کے تعلقات میں پہلے ہی کشیدگی آ چکی ہے اور ایران کی ملا اشرافیہ اور امریکی سامراج کے درمیان اوباما کے دور میں ہونے والے معاہدے پس پشت ڈالے جا چکے ہیں۔ ٹرمپ پہلے ہی ایرانی شہریوں کی امریکہ آمد پر پابندی لگا چکا ہے جبکہ جواب میں ایران نے بھی امریکی شہریوں پر پابندی عائد کر دی ہے۔ اس موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے سعودی عرب کے مطلق العنان حکمران ایران کیخلاف دوبارہ امریکہ کی عسکری حمایت کے حصول کی کوششوں میں مصروف ہیں۔ اس حوالے سے یہ خبریں مختلف امریکی اخبارات میں گردش کر رہی ہیں کہ ٹرمپ انتظامیہ یمن میں سعودی عرب کے ساتھ مل کر ایک فیصلہ کن حملے کی منصوبہ بندی کر رہی ہے۔ اس حملے کے لیے سعودی عرب کے علاوہ متحدہ عرب امارات، اردن اور مصرکے ساتھ ساتھ اسرائیل کے دفاعی تعاون کو استعما ل کیا جائے گا۔ مصر اور اردن کے پہلے ہی اسرائیل سے معاہدے موجود ہیں جبکہ امارات اور سعودی عرب کو بھی معمولی شرائط کے عوض اسرائیل کی ایران کیخلاف حمایت کے لیے تیار کیا جا رہا ہے۔ اس سے واضح ہوتا ہے کہ تمام سامراجی طاقتیں مذہب کو ایک ہتھیار کے طور پر استعمال کرتی ہیں تاکہ اپنے اقتدار کو برقرار رکھا جا سکے۔
یمن کے دارالحکومت صنعا پر اس وقت حوثی باغیوں کا قبضہ ہے جنہیں ایران کی ملا اشرافیہ کا دفاعی تعاون حاصل ہے۔ سعودی عرب یمن پر اپنی کٹھ پتلی حکومت مسلط کرنا چاہتا ہے لیکن ابھی تک اپنے مقصد میں کامیاب نہیں ہو سکا۔ گزشتہ دو سالوں کے دوران اس جنگ میں دس ہزار سے زائد افراد ہلاک ہو چکے ہیں جبکہ تیس لاکھ سے زائد افراد ہجرت کرنے پر مجبور ہوئے ہیں۔ سعودی فوجوں نے ہسپتالوں اور عام شہریوں پر بھی بھاری بمباری کی ہے جس سے بچوں سمیت بڑے پیمانے پر عام شہریوں کی ہلاکتیں ہوئی ہیں۔ یمن کے کئی علاقوں میں اس وقت قحط سالی کی کیفیت ہے اور بڑے پیمانے پر لوگ بھوک کے باعث ہلاک ہورہے ہیں۔ اب امریکی پشت پناہی سے حدیدیہ کی اہم بندر گاہ پر حملے کی تیاری کی جا رہی ہے جہاں سے یمن میں ایران کی جانب سے تمام تر سامان پہنچایا جا رہا ہے۔ یہ بندرگاہ بحیرۂ احمر میں آبنائے مندب پر واقع ہے اور انتہائی سٹریٹجک اہمیت کی حامل ہے جہاں سے روزانہ چالیس لاکھ بیرل تیل گزرتا ہے۔ اس گزرگاہ میں یمن کے بالمقابل افریقی ملک جبوتی کی بندر گاہ موجود ہے جہاں چین اپنا بحری اڈہ قائم کر رہا ہے جبکہ امریکی فوجی اڈہ وہاں پہلے سے موجود ہے۔ پاکستانی افواج کی اس جنگ میں شرکت ریاست کے موجود تضادات کو شدت سے بھڑکانے کی جانب جائے گی۔
رپورٹوں کے مطابق یہ بیان بھی سامنے آیا ہے کہ پاکستانی حکومت نے راحیل شریف کو اجازت دینے سے قبل ایران کو بھی اعتماد میں لیا ہے۔ پاکستان کے نیشنل سکیورٹی ایڈوائزر ناصر جنجوعہ کے مطابق اس تعیناتی سے مسلم امہ کا اتحاد مضبوط ہو گا۔ لیکن حقیقت اس سے کہیں دور ہے۔ ایران اور سعودی عرب کے سامراجی تضادات آنے والے عرصے میں مزید شدت اختیار کریں گے اور خطے کی بدلتی ہوئی صورتحال مختلف ممالک کے مابین کشیدگی کو بڑھائے گی۔ ایران کے امریکہ سے دوستانے کے خاتمے کے بعد روس اور چین کے ساتھ تعلقات میں زیادہ تیزی سے پیش رفت ہوئی ہے۔ گزشتہ سال نومبر میں چین کے وزیر دفاع نے ایران کا دورہ کیا جس میں چین کی جانب سے ایران کو اسلحے کی فروخت کے معاہدوں پر دستخط کیے گئے۔ اسی طرح گزشتہ روز ایرانی صدر روحانی نے روس کا دورہ کیا اور تقریباً دس ارب ڈالر کے اسلحے کی خریداری سمیت دیگر معاہدے کیے۔ اس دوران اس امر کا برملا اظہار کیا گیا کہ شام میں دونوں ممالک مل کر دہشت گردی کا مقابلہ کر رہے ہیں اور اس تعاون کو مزید بڑھایا جائے گا۔ ایرانی وزیر دفاع نے یہ اعلان بھی کیا کہ روس جب چاہے ایران میں موجود اڈے فوجی مقاصد کے لیے استعمال کر سکتا ہے۔ اس سے قبل روس ایران کے ایک اڈے کو شام پر فضائی بمباری کے لیے استعمال کر چکا ہے۔ شام کے علاوہ دونوں ممالک افغانستان میں بھی امریکہ کے خلاف اثر ورسوخ بڑھاتے چلے جا رہے ہیں اور کابل میں موجود امریکی کٹھ پتلی حکومت کیخلاف طالبان کے ساتھ مذاکرات میں شریک ہیں۔ اس سلسلے میں پاکستان بھی افغانستان میں ہندوستان کے بڑھتے ہوئے اثر ورسوخ کا مقابلہ کرنے کے لیے روس کی حمایت کر رہا ہے۔ روس بھی پاکستان کو بڑے پیمانے پر اسلحہ فروخت کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ روس میں موجود شدید ترین معاشی بحران کے باعث اسلحے کی فروخت کے لیے نئی منڈیوں کی تلاش روسی حکمران طبقے کی اولین ترجیح ہے۔ اس کے علاوہ افغانستان میں اپنے سامراجی مقاصد کے حصول کے لیے اپریل کے وسط میں ماسکو میں ایک کانفرنس کا انعقاد بھی کیا جا رہا ہے۔ اس کانفرنس میں چین، ہندوستان، افغانستان، پاکستان، ایران اوروسط ایشیائی ممالک کے ساتھ ساتھ افغانی طالبان کو بھی دعوت دی گئی ہے۔ کانفرنس کی تیاریوں کے لیے اسلام آباد میں پاکستان اور افغان طالبان کے درمیان مذاکرات بھی ہوئے ہیں جس میں طالبان نے پاکستانی جیلوں میں قید اپنے ساتھیوں کی رہائی کا مطالبہ کیا ہے۔ یہ مذاکرات دہشت گردی کیخلاف جاری نام نہادآپریشن کی حقیقت عیاں کرنے کے لیے کافی ہیں۔
امریکہ نے ماسکو میں ہونے والی اس کانفرنس میں شرکت کرنے سے انکار کیا ہے جبکہ امریکی جنرل روس کے اثر و رسوخ سے نپٹنے کے لیے افغانستان میں پانچ ہزار مزید فوجیوں کو بلانے کی درخواست دے چکے ہیں۔ ان کے مطابق افغانستان میں امریکی شکست اور روس و ایران کی کامیابی پوری دنیا میں امریکہ کے لیے ہزیمت کا باعث بنے گی اور امریکی سامراج کے مفادات کو ناقابل تلافی نقصان پہنچے گا۔ امریکہ افغانستان میں سامراجی مفادات کے حصول کے لیے ایک لمبے عرصے سے پاکستان پر انحصار کرتا آیا ہے لیکن گزشتہ چند سالوں سے اس کے ہندوستان پر انحصار میں اضافہ ہوا ہے۔ پاکستان کو ایف سولہ اور کولیشن سپورٹ فنڈ کی فراہمی میں رکاوٹیں بھی اسی سلسلے کا حصہ ہیں جبکہ بحر ہند اور پاکستان میں چین کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ کے خلاف بھی امریکہ نے بھارت کے ساتھ تعلقات کو استوار کیا ہے۔ اس کے جواب میں پاکستان اور افغانستان کے تعلقات میں بھی کشیدگی آئی ہے اور پاکستان نے جہاں افغان سرحد کو بند کیا ہے وہاں پاکستان میں دہائیوں سے مقیم افغان مہاجرین کیخلاف زہریلے پراپیگنڈے کا آغاز کیا گیا ہے۔ اپنے سامراجی مقاصد کے حصول میں ناکامی کا غصہ افغان محنت کشوں پر نکالا جا رہا ہے اور ان کے شناختی کارڈ بند کرنے سے لے کر دہشت گردی کے شبہ میں گرفتاریاں اور دیگر متعصبانہ کاروائیاں روز مرہ کا معمول بن چکی ہیں۔ یمن سے افغانستان تک مختلف ممالک کے حکمران طبقات کے مفادات میں ٹکراؤ کی سزا محنت کش بھگت رہے ہیں جنہیں آگ اور خون میں دھکیلا جا رہا ہے۔
یہ اس نئے خونی کھیل کا محض آغاز ہے اور آنے والے عرصے میں یہ تضادات زیادہ شدت اختیار کریں گے اور جہاں نئے اتحاد بنیں گے وہاں نئے تضادات بھی جنم لیں گے۔ لیکن سرمایہ دارانہ نظام کے نامیاتی بحران کے باعث کوئی بھی اتحاد دیر پا نہیں رہ سکتا اور ایک اتحاد جتنی تیزی سے بنے گا اس سے زیادہ تیزی سے ٹوٹنے کی جانب بڑھے گا جس کے نتیجے میں خونریزی اور بربادی میں اضافہ ہو گا۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ اس خونی کھلواڑ کے خلاف عوامی تحریکیں بھی ابھریں گی جو ان حکمران طبقات کے خونی کھلواڑ کو چیلنج کریں گی۔ خاص طور پر سعودی عرب اور ایران میں حکمران طبقے کے بڑھتے ہوئے مظالم اور استحصال کے خلاف ابھرنے والی تحریکیں پورے خطے پر اثرات مرتب کریں گی۔ دیگر سامراجی ممالک میں بھی طبقاتی تضادات شدت سے ابھریں گے اور پوری صورتحال کو تیزی سے تبدیل کرنے کی جانب بڑھیں گے۔ اس تمام تر تیزی سے بدلتی صورتحال میں پاکستانی ریاست کا بحران بھی شدت اختیار کرے گا۔ بہت سے ریاستی ادارے پہلے ہی ناکارہ ہو چکے ہیں۔ فوجی عدالتوں کا قیام واضح کرتا ہے کہ اس ملک کے عدالتی نظام کی حقیقت کیا ہے۔ دوسری جانب فوجی عدالتوں کا قیام بھی دہشت گردی کا خاتمہ نہیں کر سکا اور نہ آنے والے عرصے میں اس کا خاتمہ ہو گا۔ بلکہ سامراجی طاقتوں کے باہمی تصادم کے نتیجے میں پاکستان میں دہشت گردی میں شدت آئے گی۔ اس کے ساتھ ساتھ یہ باقی ماندہ ریاستی اداروں کو بھی کمزور کرنے کی جانب بڑھے گی جو ایک انہدام پر منتج ہو سکتی ہے۔ اس تمام تر بحران کی بنیادی معاشی بحران ہے جو ایک دیوالیہ پن کی جانب بڑھتا جا رہا ہے۔
اس صورتحال میں کوئی سیاسی پارٹی ایسی نہیں جو تمام تر قومی تعصبات سے بالا تر ہو کر تمام سامراجی طاقتوں اور حکمران طبقات کے خلاف آواز بلند کرے۔ یہاں موجود تمام سیاسی پارٹیاں عوام کی حمایت کی بجائے ریاست کے مختلف دھڑوں اور سامراجی طاقتوں کی حمایت پر یقین رکھتی ہیں۔ عالمی سطح پر طاقتوں کے توازن میں تبدیلی ان سیاسی پارٹیوں کو بھی اپنے ایجنڈے مسلسل تبدیل کرنے پر مجبور کر رہی ہے جس کے باعث ان کی رہی سہی حمایت بھی تیزی سے ختم ہو گئی ہے۔ اس وقت تمام سیاسی پارٹیاں شدید داخلی پھوٹ کا شکار ہیں اور درحقیقت ہوا میں معلق ہیں اور زمین پر موجود محنت کش عوام سے ان کا کوئی تعلق نہیں۔ یہ صورتحال نئے سماجی دھماکوں کا پیش خیمہ ہے جس میں طلبہ، مزدوروں اور کسانوں کی نئی تحریکیں ابھریں گی۔ حکمران طبقات ان تحریکوں کو ابھرنے سے پہلے ہی کچل دینا چاہتے ہیں اور تعلیمی اداروں میں جبر بڑھانے کے ساتھ ساتھ دہشت گردی کے مختلف واقعات کے ذریعے تحریکوں کو خوفزدہ کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ لیکن اس کے باوجود نہ ریاست کے بحران کی شدت کو کم کیا جا سکتا ہے اور نہ ان تحریکوں کو ابھرنے سے روکا جا سکتا ہے۔
آنے والا عرصہ انتہائی طوفانی واقعات سے حاملہ ہے۔ یہ واقعات تمام تر سیاسی قوتوں‘ رجحانات اور نظریات کا امتحان لیں گے۔ ایسے میں صرف وہی قوتیں آگے بڑھ سکتی ہیں جو کسی ایک یا دوسری سامراجی طاقت یا حکمران طبقے کے دھڑے کا آلہ کار بننے کی بجائے محنت کش طبقے کی طاقت پر یقین رکھتی ہوں۔ اس تمام تر خونریزی میں انسانیت کی بقا اور نجات کا واحد رستہ محنت کش طبقے کی جڑت ہے۔ سامراجی طاقتوں کی لگائی ہوئی خونی سرحدوں اور قومی، لسانی و فرقہ وارانہ اور مذہبی تعصبات سے بالا تر ہو کر محنت کش طبقے کی جڑت ہی ان سامراجی جنگوں اور خانہ جنگیوں کا خاتمہ کر سکتی ہے۔ اس لڑکھڑاتی اور زوال پذیر سرمایہ دارانہ ریاست کو اکھاڑ کر یہاں ایک مزدور ریاست کاقیام ہی خطے میں امن کی ضمانت دے سکتا ہے۔ اس کے لیے یہاں ایک ایسی پارٹی کی تعمیر کی ضرورت ہے جو مارکسزم کے بین الاقوامیت پر مبنی نظریات سے لیس ہو اور یہاں کے محنت کش طبقے کی حمایت حاصل کرتے ہوئے سوشلسٹ انقلاب کی جدوجہد کرے۔ پاکستان کا سوشلسٹ انقلاب جنوبی ایشیا کی سوشلسٹ فیڈریشن کا نقطہ آغاز ہو گا جو عالمی سوشلسٹ فیڈریشن کے قیام کو یقینی بنائے گی۔