|تحریر: آدم پال|
امریکی صدر ٹرمپ کی افغانستان اور جنوبی ایشیا کے بارے میں پالیسی کے اعلان کے بعد سے یہاں کے حکمرانوں کے ایوانوں میں ایک کھلبلی سی نظر آتی ہے۔ امریکی سامراج کی غلامی کا طوق پہنے یہاں کے غلام حکمران اپنی ماضی کی خدمات اور کاسہ لیسی کی داستان سنا کر آقا کوسخت رویہ اپنانے سے روکنا چاہتے ہیں جو اب ان کے منہ میں ڈالی جانے والی ہڈی بند کرنے جا رہا ہے۔ بہت سے کرائے کے دانشور یہ ثابت کرنے پر تلے ہوئے ہیں کہ اس خطے میں صرف پاکستان کے حکمران ہی امریکی سامراج کی سب سے بہترین غلامی کر سکتے ہیں اور اگر ان کے آقا نے کسی دوسرے غلام پر بھروسہ کیا یا اسے منظور نظر بنایا تو اسے پچھتاوا ہو گا۔ درد اور تکلیف سے بھری یہ آہ و بکا کرنے کے ساتھ ساتھ نئے سامراجی آقاؤں کی تلاش کا عمل بھی بھرپور انداز میں جاری ہے اور اس کے لیے ملک کا وزیر خارجہ چین‘ روس اور ترکی کے دورے پر روانہ ہو چکا ہے۔ ان ابھرتی ہوئی سامراجی قوتوں کو بھی مکمل غلامی اور کاسہ لیسی کی یقین دہانی کروائی جائے گی تا کہ یہاں کے مقامی حکمرانوں کی لوٹ مار کا عمل پہلے کی طرح جاری رہ سکے اور ان کے آقا ان کے منہ میں ہڈی ڈالتے رہیں جس کے عوض یہ خوشی خوشی دم ہلاتے رہیں گے۔
بہت سے تجزیہ نگار اس نئی پالیسی کو صدر ٹرمپ کا پاگل پن قرار دے رہے ہیں اور یہ ثابت کرنے کی سر توڑکوشش کر رہے ہیں کہ ٹرمپ کی مضحکہ خیز شخصیت کے باعث ہی ایسی پالیسی ترتیب دی گئی ہے جو زمینی حقائق سے دور ہے اور یہ پالیسی امریکی سامراج کے لیے مزید ہزیمت کا باعث بنے گی۔ لیکن اس سب کو سمجھنے سے پہلے عالمی سطح پر ایک تبدیل شدہ صورتحال کو سمجھنا اور اس کا درست تجزیہ کرنا ضروری ہے۔
آج ہم ایک ایسی دنیا میں سانس لے رہے ہیں جس میں پرانا ورلڈ آرڈر ٹوٹ کر بکھر چکا ہے اور عالمی سطح پر طاقتوں کا توازن بھی مکمل طور پر تبدیل ہو چکا ہے۔ دوسری عالمی جنگ کے بعد قائم ہونے والے ورلڈ آرڈر میں امریکہ پوری دنیا میں ایک سامراجی قوت بن کر ابھرا تھا۔ اسی نئی صورتحال کے تحت عالمی سطح پرسامراجی قوتوں نے اقوام متحدہ سمیت نئے ادارے تشکیل دیے اور بہت سے اہم تجارتی اور مالیاتی معاہدے دنیا پر مسلط کیے گئے۔ ورلڈ بینک اور آئی ایم ایف سمیت عالمی سطح پر سامراجی مالیاتی اداروں کا قیام بھی اسی سلسلے کی کڑی ہے۔ اس دوران سرمایہ داری کے سب سے طویل ابھار نے ان اداروں اور معاہدوں کو مادی بنیادیں فراہم کیں۔ سوویت یونین اور کمیونسٹ چین کی موجودگی کے باعث سامراجی طاقتوں کی ان ممالک سے سرد جنگ جاری رہی اور پوری دنیا دو حصوں میں بٹی رہی۔ لیکن سوویت یونین کے انہدام اور دیواربرلن کے ٹوٹنے کے باعث سامراجی طاقتوں کے لیے یہ رکاوٹ بھی دور ہو گئی اور امریکی سامراج کی پوری دنیا پر حکمرانی کا آغاز ہوا۔ اسی دوران امریکی سامراج نے طاقت کے نشے میں مست ہاتھی کی طرح افغانستان اور عراق پر سامراجی جارحیت کا آغاز کیا۔ لیکن اپنی تمام تر جدید دفاعی صلاحیت اور مالیاتی حکمرانی کے باوجود اسے ان جنگوں میں شکست اور ہزیمت کا سامنا کرنا پڑا۔ اس جنگ میں پاکستان کے کاسہ لیس حکمرانوں سمیت ناٹو اور دوسرے اتحادی ممالک نے بھی امریکہ کا بھرپور ساتھ دیا لیکن اس کے باوجود وہ یہاں پر اپنے مطلوبہ مقاصد کو حاصل نہیں کر پائے۔ عراق اور افغانستان سمیت پورے خطوں کو مزید عدم استحکام اور بحرانوں کی جانب دھکیل دیا گیا اور تعمیر نو کا دعویٰ کرنے والوں نے بربادی کی ایک خونریز داستان رقم کر دی۔
2008ء کے عالمی مالیاتی بحران کے باعث امریکہ سمیت ترقی یافتہ مغربی سرمایہ دارانہ ممالک کو بڑے پیمانے پر دھچکے لگے اور آج یہ سامراجی ریاستیں مالیاتی دیوالیہ پن کی کھائی کے دہانے پر لڑکھڑا رہی ہیں۔ اس دوران ان ممالک میں محنت کشوں اور انقلابی نوجوانوں کی عوامی تحریکیں ابھر رہی ہیں جو سرمایہ دار طبقے کی حاکمیت کو چیلنج کر رہی ہیں۔ ان ریاستوں کے حکمران طبقات بھی شدید خلفشار کا شکار ہیں اور ریاستی ادارے تیزی سے ٹوٹ رہے ہیں۔ ایسے میں امریکہ میں ٹرمپ جیسے شخص کا صدر بننا کوئی حادثہ نہیں بلکہ سماج میں جاری ایک گہرے عمل کا سطح پر اظہار ہے۔ ٹرمپ کے صدر بننے نے اس سارے عمل کو صرف تیز کیا جو امریکی سماج اور ریاست میں پہلے سے جاری تھا۔ ٹرمپ نے عالمی سطح پر طاقتوں کے تبدیل شدہ توازن کو تسلیم کیا ہے اور واضح طور پر کہا ہے کہ امریکی سامراج اب پہلے کی طرح عظیم نہیں رہا اور وہ اسے دوبارہ عظیم بنائے گا۔ لیکن اس کی تمام تر پالیسیاں امریکی سامراج کے خصی پن اور کمزوری کو عیاں کرنے کے ساتھ ساتھ عالمی سطح پر طاقتوں کے توازن کو مزید تیزی سے تبدیل کرتی جا رہی ہیں۔ اس نے تمام پرانے تجارتی و دفاعی معاہدوں کو کوڑے دان میں ڈال دیا ہے۔ ناٹو ممالک کو واضح طور پر پیغام دے دیا ہے کہ امریکہ نے ان کے دفاع کا ٹھیکہ نہیں لے رکھا اور انہیں خود اپنے دفاع کی ذمہ داری لینا ہو گی جس پر جرمنی کی سربراہ مملکت اینجلا مرکل نے واضح طور پر کہا ہے کہ وہ اب امریکہ پر انحصار نہیں کر سکتے۔ مشرقِ وسطیٰ میں بھی امریکہ کی پسپائی واضح ہو چکی ہے۔ جس خطے میں امریکہ ایک لمبے عرصے سے تھانیدار کا کردار اداکرتا رہا اور عراق میں خون کی ندیاں بہانے کے ساتھ ساتھ پورے خطے کو برباد کر دیا اب وہاں امریکہ کی شمولیت اور مرضی کے بغیر علاقوں کی بندر بانٹ کے فیصلے کیے جا رہے ہیں۔ حلب میں امریکی حمایت یافتہ اسلامی بنیاد پرستوں کی شکست کے بعدشام کی بندر بانٹ کے متعلق ہونے والے آستانہ معاہدے میں امریکہ سمیت مغربی ممالک کا کوئی بھی نمائندہ شامل نہیں تھا۔ روس، ترکی اور ایران نے نہ صرف اس معاہدے کے خدو خال وضع کیے بلکہ لوٹ مار کے اس نئے منصوبے کو عملی جامہ پہنانے کے لیے بھی کوششیں جاری رکھے ہوئے ہیں۔ سعودی عرب اور اسرائیل کی سامراجی ریاستوں سے پرانے تعلقات کی بحالی کے باوجود خطے میں امریکی سامراج اپنا اثر و رسوخ تیزی سے کھوتا چلا جا رہا ہے۔ روس اور ترکی سمیت ایران اور دیگر سامراجی قوتیں اس پورے خطے میں اپنے سامراجی عزائم کے حصول کے لیے زیادہ شدت سے آگے بڑھ رہی ہیں اور امریکہ کو باہر دھکیلتے چلی جا رہی ہیں۔
ایسے میں افغانستان سے امریکی فوجوں کا انخلا ان تمام مقامی سامراجی قوتوں کے لیے حوصلہ افزائی کا باعث بننا تھا اورعالمی سطح پر امریکی سامراج کا کردار مزید محدود ہونے کی طرف بڑھنا تھا۔ امریکی ریاست کا وہ دھڑا جو افغانستان سے مکمل انخلا پر زور دے رہا تھا وہ درحقیقت امریکہ کے تیزی سے بڑھتے ہوئے مالیاتی بحران سے خوفزدہ ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ انہیں امریکی فوجوں کو شکست نوشتہ دیوار نظر آ رہی تھی۔ ان کے لیے مقامی سامراجی طاقتوں کی کسی پراکسی کے ساتھ لڑائی میں ایک واضح شکست سے بہتر تھا کہ افغانستان میں اپنی مہم جوئی کو کامیاب قرار دیتے ہوئے انخلا کر لیا جاتا اور امریکی سامراج کی گرتی ہوئی ساکھ کو محفوظ کرنے کی ایک نحیف سی کوشش کر لی جاتی۔ لیکن امریکی حکمران طبقے کا دوسرے دھڑا اس پالیسی کو ترتیب دینے میں حاوی ہوا ہے جو انخلا کے خلاف تھا اورایک لمبے عرصے سے افغانستان میں امریکی فوج میں اضافے کا مطالبہ کر رہا تھا۔
بہت سے تجزیہ نگار یہ کہہ رہے ہیں کہ جہاں ایک لاکھ امریکی فوجی افغانستان میں کچھ نہیں کر سکے وہاں اب بارہ ہزار فوج کی مدد سے امریکہ کیا حاصل کر لے گا۔ لیکن اسے عالمی سطح پر طاقتوں کے تبدیل شدہ توازن کے پس منظر میں دیکھنے کی ضرورت ہے۔ افغانستان کی جنگ کے آغاز پر امریکی سامراج کے خطے میں مقاصد کچھ اور تھے لیکن آج جب امریکی سامراج عالمی سطح پر پسپائی کا شکار ہے ایسے وقت میں امریکہ کے افغانستان میں مقاصد بالکل مختلف ہیں۔ آج اس کا مقصد خطے میں ابھرنے والی دیگر سامراجی قوتیں جن میں چین، روس اور ایران شامل ہیں ان کی مزاحمت کرنا ہے۔ افغانستان میں اپنی موجودگی کو برقرار رکھتے ہوئے اور بھارت کے کردار پر پہلے سے زیادہ انحصار کرتے ہوئے امریکہ کا مقصد ان نئی ابھرنے والی سامراجی قوتوں کے لیے مشکلات کھڑی کرنا اور مزاحمت کرنا ہے۔ ان سامراجی طاقتوں کی لڑائی اس وقت مشرقِ وسطیٰ سمیت پوری دنیا میں موجود ہے۔ اس لیے ان کے باہمی تعلقات میں ہر فریق دوسرے پر حاوی ہونے کی کوشش کرتا ہے۔ کسی ایک جگہ پر ایک فریق کی پسپائی کو کسی دوسری جگہ پر اسی فریق کی کامیابی سے پُر کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ لیکن وقت کے ساتھ ساتھ یہ لڑائی مزید خونریز ہوتی جا رہی ہے جس میں تمام فریق کمزور ہوتے جا رہے ہیں۔ ان سب کی مشترکہ بنیاد سرمایہ دارانہ بنیادوں پر قائم عالمی مالیاتی نظام ہے جو تیزی سے ایک نئے بحران کی جانب بڑھ رہا ہے۔ یہ نیا بحران ان تمام سامراجی طاقتوں کو مزید کمزور کرتے ہوئے ان ریاستوں کی مزید ٹوٹ پھوٹ کی جانب بڑھے گا۔
مشرقِ وسطیٰ میں پہلے ہی بہت سی ریاستیں ٹوٹ کر بکھر چکی ہیں۔ ان ریاستوں کو پہلی عالمی جنگ کے بعد بننے والے نئے ورلڈ آرڈر کے تحت قائم کیا گیا تھا۔ اس جنگ میں سلطنت عثمانیہ کی رجعتی بادشاہت کو برطانوی ‘ فرانسیسی و دیگر سامراجی قوتوں کے ہاتھوں شکست فاش ہوئی تھی اور اس پورے خطے کو سامراجی مفادات کے حصول کے لیے مختلف ممالک میں تقسیم کیا گیا تھا۔ لیکن آج یہ ممالک ایک کے بعد ٹوٹ کر بکھر رہے ہیں۔ ان میں شام، عراق، لیبیا اور یمن سر فہرست ہیں جبکہ سعودی عرب سمیت دیگر خلیجی ریاستیں انتہائی تیزی سے ٹوٹ رہی ہیں۔ عالمی سطح پر تیل کی قیمتوں میں بڑے پیمانے پر گراوٹ نے ان کی ٹوٹ پھوٹ کے عمل کو شدید کر دیا ہے۔
ایسے میں پاکستان کی مصنوعی ریاست کا مستقبل بھی داؤ پر لگ چکا ہے۔ اس ریاست کو دوسری عالمی جنگ کے بعد برطانوی سامراج نے اپنے مذموم مقاصد کے تحت تخلیق کیا تھا۔ سوویت یونین اور چین میں ابھرتی ہوئی سرخ آندھی کے خوف کے باعث اس خطے میں رجعتی قوتوں کو مضبوط کیا گیا اور مذہبی بنیادوں پر اس خطے کو تقسیم کر کے جہاں لاکھوں انسانوں کو موت کے منہ میں دھکیل دیا گیا وہاں اس خطے میں اپنی سامراجی اجارہ داری کی بنیادیں بھی استوار کی گئیں۔ اپنے جنم سے لے کر آج تک یہ ریاست اور اس کے حکمران امریکہ سمیت دیگر سامراجی ریاستوں کے کاسہ لیس رہے ہیں اور خطے میں ان کے مفادات کا تحفظ کرتے رہے ہیں۔ اس دوران عالمی مالیاتی سامراجی اداروں نے بھی یہاں کے محنت کش عوام کو جی بھر کے لوٹا ہے اور اسلحہ کی فروخت اور امدادکے نام پر یہاں کے محنت کشوں کی خون اور پسینے سے پیدا کی ہوئی دولت سے اپنی تجوریاں بھر ی ہیں۔ اس خدمت کے عوض یہاں کے بد عنوان حکمرانوں نے بھی اپنے محل اور جائیدادیں تعمیر کی ہیں۔
لیکن آج کے عہد میں صورتحال یکسر تبدیل ہو چکی ہے۔ ایک جانب امریکی سامراج شدید کمزور ہونے کے باوجود ابھی بھی دنیا کی سب سے طاقتور سامراجی قوت ہے۔ جبکہ چین، روس، ترکی اور ایران اس کی خالی کی ہوئی جگہ پُر کرنے کی تگ و دو میں ہیں۔ لیکن اپنے اپنے مالیاتی و ریاستی بحرانوں کے باعث وہ عالمی سطح پر کوئی اہم کردارادا کرنے سے قاصر ہیں۔ چین کی سامراجی ریاست میں کسی طور پر بھی تکنیک اور ذرائع پیداوار کی ترقی کی شکل میں وہ مادی بنیادیں اور اہلیت موجود نہیں کہ وہ امریکی سامراج کی جگہ لے سکے۔ یورپی یونین سمیت بہت سے ممالک میں حکمران طبقے کے کچھ حصوں کی یہ خواہش ضرور ہے کہ چین امریکہ کا متبادل بن جائے لیکن ایسا ممکن نہیں۔ اس کی بڑی وجہ چین کا بڑھتا ہوا معاشی بحران ہے جو پھر عالمی سرمایہ دارانہ نظام کے بد ترین زوال کے ساتھ منسلک ہے۔ اس دوران چین کا سیاسی بحران بھی بڑھ رہا ہے اور حکمران طبقے کی داخلی لڑائی میں شدت آتی جا رہی ہے جبکہ محنت کش طبقے کی تحریکوں اور ہڑتالوں میں تیز ترین اضافہ ہو رہا ہے۔ روس کی معیشت اس سے بھی زیادہ بحران کا شکار ہے اور ایک سے دوسرے بحران کے درمیان لڑکھڑا رہی ہے۔ روس پہلے ہی مشرقی یورپ، مشرقِ وسطیٰ اور وسطی ایشیا میں بہت سے محاذ کھول چکا ہے اور اب افغانستا ن اور پاکستان میں بھی مداخلت میں اضافہ کر رہا ہے لیکن طاقتوں کا پھیلاؤ اسے مضبوط کرنے کی بجائے مزید کمزور کرنے کا باعث بن رہاہے۔ ترکی بھی اپنا سامراجی اثر و رسوخ پچھلے عرصے میں بڑھاتا چلا جا رہا ہے اور اب قطر کے ذریعے ایک لمبے عرصے کے بعد خلیجی علاقوں میں اپنی فوجیں بھیجنے میں کامیاب ہوا ہے۔ لیکن اس دوران ملک میں اردوگان کے خلاف غم و غصہ بڑھتا جا رہا ہے جس کا اظہار مختلف تحریکوں میں ہو رہا ہے۔ عالمی سطح پر آنے والا سرمایہ داری کا بحران ترکی کو بھی متاثر کرنے کی طرف جائے گا جو ابھی تک بڑی معاشی گراوٹ سے محفوظ رہا ہے۔
ایسے میں پاکستان کا حکمران طبقہ ان نئی ابھرتی ہوئی سامراجی طاقتوں کی کاسہ لیسی کے لیے خود کو تیار کر رہا ہے۔ لیکن ان سامراجی طاقتوں سے چومکھی لڑائی اور ایک کو دوسرے کے خلاف استعمال کرنے کی پالیسی خود پاکستان کی گماشتہ ریاست کو کمزور کرتی چلی جا رہی ہے۔ سعودی عرب اور ایران کی خطے میں سامراجی اثرو رسوخ کی لڑائی پہلے ہی پاکستان کے اہم ریاستی اداروں میں سرائیت کر چکی ہے اور ان اداروں کو فرقہ وارانہ بنیادوں پر تیزی سے تقسیم کر رہی ہے۔ ملک کا معاشی بحران بھی تیزی سے بڑھتا چلا جا رہا ہے اور تجارتی و کرنٹ اکاؤنٹ خساروں میں تاریخ کا تیز ترین اضافہ ہو چکا ہے۔ غیر ملکی زر مبادلہ کے ذخائر میں بھی تیز کمی ہو رہی ہے۔ جبکہ سعودی عرب اور خلیجی ریاستوں کے معاشی بحران کے باعث لاکھوں پاکستانی محنت کش بیروزگاری کی کھائی کے دہانے پر کھڑے ہیں۔ تارکین وطن کی بھیجی جانے والی ترسیلات زر میں پہلے ہی کمی آنا شروع ہو چکی ہے جس میں بڑے پیمانے پرمزید کمی متوقع ہے۔ ایسے میں پاکستان کو دفاعی امداد کے ساتھ ساتھ ان سامراجی ریاستوں سے مالیاتی امداد کی بھی شدید ضرورت ہے۔ پہلے ہی عالمی مالیاتی اداروں کو قرضوں کے سود کی ادائیگی کے لیے چین سے قرضے لیے جا چکے ہیں۔ لیکن چین ‘ روس اور ترکی اس سلسلے میں پاکستان کی مزید حوصلہ افزائی نہیں کر سکتے۔ ان کا مقصد پاکستان کو اسلحے یا دیگر مصنوعات کی فروخت ہے یا پھر وہ یہاں پر بلند شرح منافع کی یقین دہانی پر سرمایہ کاری کر سکتے ہیں۔ مالیاتی خساروں کو پورا کرنے کے لیے پاکستان کو پھر آئی ایم ایف ‘ ورلڈ بینک اور ایسے ہی اداروں پر انحصار کرنا پڑے گا جو خود بحرانوں کا شکار ہیں۔ اسی طرح دفاعی ضروریات کے حصول کے لیے بھی امریکہ سے مکمل طور پر انحصار ختم نہیں کیا جا سکتا۔ اس لیے پاکستان کے حکمران طبقات امریکہ اور سعودی عرب کے مفادات کی تکمیل سے جتنا بھی دور بھاگ لیں وہ اس سامراجی شکنجے سے پوری طرح نہیں نکل سکتے۔ لیکن اس سارے عمل میں پاکستانی ریاست کی شکست و ریخت کاعمل شدت سے آگے بڑھے گا۔
افغانستان میں بھی پاکستان کی سامراجی پالیسی کو شکست کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ جہاں پہلے یہ سامراجی پالیسی کو جارحانہ انداز میں عملی جامہ پہنانے کی کوشش کر رہے تھے اب بھارت کی بڑھتی ہوئی سامراجی مداخلت کے باعث انہیں ہزیمت اٹھاتے ہوئے دفاعی پوزیشن پر آنا پڑا ہے۔ لیکن دوسری طرف ہندوستان کی ریاست بھی شدید بحران کا شکار ہے۔ جہاں وادئ کشمیر میں نوجوانوں کی آزادی کی ایک بھرپور تحریک جاری ہے اور بھارتی ریاست کے سامراجی جبر کو چیلنج کر رہی ہے وہاں ہندوستان بھر کا محنت کش طبقہ پہلے سے بھی بڑی عام ہڑتال کی تیاری کر رہا ہے۔ طلبہ تحریکیں بھی ہندوستان کے حکمران طبقے کو چیلنج کر رہی ہیں۔
افغانستان کے حوالے سے مختلف تجزیہ نگار طالبان کی طاقت کو بڑھا چڑھا کر پیش کرتے ہیں اور پاکستان پر ان کا انحصار اس سارے معمے کی اہم کڑی کے طور پر پیش کیا جاتا ہے۔ پاکستان بھی ان دہشت گردوں کو اپنا سٹریٹجک اثاثہ قرار دیتا ہے۔ لیکن درحقیقت تمام سامراجی قوتیں ہی ان کو استعمال کر رہی ہیں اور جو بھی انہیں زیادہ قیمت دے گا ان کی خدمات حاصل کر لے گا۔ اس وقت امریکہ جن دہشت گردوں کے خلاف آپریشن کے نام پر فوجوں میں اضافہ کر رہا ہے ان میں سے بہت سے دہشت گرد امریکہ کی بنائی ہوئی افغان حکومت میں شامل ہیں۔ اسی طرح ایران، روس اورہندوستان سمیت تمام سامراجی ریاستیں طالبان اور داعش کے نام پر قائم مختلف گروپوں کو اپنے مفادات کے لیے استعمال کرتی رہتی ہیں۔ اس صورتحال میں نہ تو طالبان نہ ان کی پس پردہ کوئی قوت مکمل طور پر حاوی ہو سکتی ہے اور نہ ہی اپنے مفادات سے دستبردار ہو گی۔
ایسے میں خطے کا مستقبل شدید عدم استحکام اور نئے بحرانوں کی جانب بڑھ رہا ہے۔ پاکستان کی ریاست اس سارے عمل میں کسی بھی طور مستحکم نہیں ہو سکتی۔ امریکہ کے مقابلے میں چین کی گود میں بیٹھنے سے کوئی ایک بھی مسئلہ حل نہیں ہو گا۔ نہ ہی چینی سرمایہ کاری سے یہاں کوئی معاشی استحکام آئے گا۔ آنے والے عرصے میں جہاں بیروزگاری میں بڑے پیمانے پر اضافہ ہو گا وہاں مہنگائی اور افراط زر میں بھی تیز ترین اضافہ متوقع ہے۔ ایسے میں سب سے کلیدی کردار پاکستان کی ریاست کا خلفشار ادا کرے گا جس میں گزشتہ عرصے میں اضافہ ہواہے۔ ریاست کے مختلف دھڑوں کی باہمی لڑائی کا اظہار سیاست میں بھی واضح طور پر نظر آ رہا ہے۔ جہاں وزیر اعظم نواز شریف اور اس کے حمایتی دھڑے کووقتی طور پر شکست دی گئی ہے لیکن اس کے باوجود وہ دھڑامزاحمت کر رہا ہے۔ اس سے پہلے یہ لڑائی نواز شریف اور راحیل شریف کے درمیان ابھر کر سامنے آئی تھی جس میں وقتی طور پر نواز شریف حاوی رہا تھا۔ بہت سے بیوقوف اسے آمریت اور جمہوریت کی لڑائی قرار دے رہے ہیں جبکہ بہت سے اسے مختلف سیاسی پارٹیوں کی لڑائی بنا کر پیش کرتے ہیں۔ اس وقت یہ حقیقت طفلِ مکتب پر بھی واضح ہے کہ کوئی بھی رائج الوقت سیاسی پارٹی عوام کے کسی بھی حصے کی نمائندگی نہیں کر رہی بلکہ ریاست کے مختلف دھڑوں کی نمائندہ بن کر رہ گئی ہیں۔ اسی طرح یہ لڑائی عدلیہ، میڈیا اور دیگر اداروں میں بھی واضح طور پر بھی دیکھی جا سکتی ہے۔ امریکہ ‘ چین‘ روس اور دیگر سامراجی طاقتوں کی بڑھتی ہوئی لڑائی میں یہ صف بندی مزید واضح اور خونریز شکل میں سامنے آئے گی اور دھڑوں کے اندر دھڑے بنیں گے اور ٹوٹ پھوٹ کا عمل تیز ہو گا۔ لیکن حکمران طبقے کے اس خونی کھلواڑ کو محنت کش طبقے کی ایک تحریک چیرنے کی طرف جائے گی۔ یہ تحریک صنعتی و سرکاری اداروں، تعلیمی درسگاہوں، کھیتوں کھلیانوں اور گلی محلوں میں منظم ہو گی اور محنت کش طبقے کی مختلف پرتوں کو جوڑتے ہوئے معاشی مطالبات سے سیاسی لڑائی کی جانب بڑھے گی۔ اس کا اظہار خواہ کسی بھی شکل میں ہو لیکن یہ حکمران طبقے سمیت تمام سامراجی طاقتوں کو للکارنے کی جانب بڑھے گی۔ اسی کے ساتھ ساتھ یہ خطے کے تمام ممالک کے محنت کش طبقے سے یکجہتی کرتے ہوئے عالمی سطح پر مزدور تحریک سے جڑت کے بیج بوئے گی۔ اگر اسے یہاں ایک منظم مارکسی قوت کی خاطر خواہ تعداد دستیاب ہوئی تو یہ یقیناًیہاں سے سرمایہ دارانہ نظام اور سامراجی طاقتوں کی لوٹ مار ہمیشہ کے لیے ختم کرنے کے لیے ایک سوشلسٹ انقلاب برپا کرے گی۔ اس تمام تر خونریزی اور لوٹ کھسوٹ سے نجات کا یہی واحد راستہ ہے۔