پاک سعودی تعلقات اور بدلتی دنیا

|تحریر: آدم پال|

سعودی عرب کے حالیہ اقدامات کے بعد حکمران طبقے کے ایوانوں میں کھلبلی سی نظر آتی ہے۔ سعودی عرب نے پاکستان کو دیے گئے قرضے کی سود سمیت فوری واپسی کا مطالبہ کیا اور ساتھ ہی ادھار تیل کی فراہمی کو روکنے کا اعلان کیا۔ ان پابندیوں کا حجم 6 ارب ڈالر سے زائد بنتا ہے جو پاکستان جیسی انتہائی کمزور اور نحیف معیشت کے لیے موت کا پیغام ہے۔ ابھی چین سے مزید سود پر قرضہ لے کر ابتدائی ادائیگی کر دی گئی ہے لیکن مزید ادائیگیوں کے لیے مشکلات درپیش ہیں۔ اس صورتحال میں میڈیا پر بھی سعودی عرب پر تنقید اور طنز کے تیروں کی بوچھاڑ نظر آتی ہے جبکہ حکمران طبقہ تعلقات کو واپس دوبارہ پہلی سطح پر لانے کی سرتوڑ کوششیں کر رہاہے گو کہ ابھی تک اسے کامیابی نہیں ملی۔ اس تمام کشیدگی کی وجہ کشمیر پر پاکستان کا مؤقف بتایا جا رہا ہے جو درحقیقت پردے کے پیچھے جاری حقیقی صورتحا ل پر پردہ ڈالنے کی کوشش ہے۔ سعودی عرب سمیت پورے مشرق وسطیٰ کی صورتحال انتہائی اہم تبدیلیوں سے گزر رہی ہے اور ناگزیر طور پر اس کے اثرات پاکستان پر بھی مرتب ہورہے ہیں۔ یہ تمام عمل کئی سالوں سے جاری تھا لیکن اب اس میں بڑی تبدیلیاں آ رہی ہیں اوربہت سے تضادات پھٹنے کی سطح تک پہنچ رہے ہیں۔ کرونا وباء، لاک ڈاؤن، عالمی مالیاتی بحران اور تیل کی کم ترین قیمتوں نے بھی اس میں کلیدی کردار ادا کیا ہے جسے کنٹرول کرنا کسی بھی ملک کے حکمران کے بس میں نہیں۔ ایسے میں پاکستان سمیت پورے خطے کی صورتحال واضح طور پر تبدیل ہوتی دکھائی دے رہی ہے جس کا اظہار میڈیا اورحکمرانوں کی گفتگو سے بخوبی لگایا جا سکتا ہے۔ محنت کش طبقے پر بھی اس تمام صورتحال کے انتہائی بھیانک اثرات مرتب ہو رہے ہیں اور لاکھوں افرادکے روزگار اور زندگیاں اس کے ساتھ جڑی ہوئی ہیں۔ اس لیے اس صورتحال کا طبقاتی بنیادوں پر درست تجزیہ کرنا انتہائی ضروری ہے اور حکمران طبقے کے مفادات اور ان کی سیاست کو محنت کش طبقے کی سیاست اور ان کے مفادات سے الگ کر کے درست تناظر تخلیق کرنا وقت کی اہم ضرورت بن جاتا ہے۔ ایسا کوئی تجزیہ اور تناظر منظر پر دکھائی نہیں دیتا جبکہ یہ تمام صورتحال آنے والے دنوں میں محنت کشوں کی زندگیوں پر انمٹ اثرات مرتب کرے گی اور وہ اس کے خلاف لڑنے پر مجبور ہو جائیں گے۔ اس لیے مارکس وادیوں کے لیے ضروری ہے کہ صورتحال کا ایک سائنسی تجزیہ محنت کشوں کے سامنے پیش کریں اور انہی بنیادوں پر جدوجہد کو منظم کرتے ہوئے حکمران طبقات کے خلاف ایک انقلابی تبدیلی کی تیاری کریں۔

سعودی عرب کی ریاست اور حکمران طبقہ اس وقت شدید خلفشار کا شکار ہے اور اس میں اندرونی لڑائیاں اور ٹوٹ پھوٹ بڑھتی جا رہی ہے۔ محمد بن سلمان جو اس وقت ولی عہد کے عہدے پر براجمان ہے اور مستقبل میں بادشاہ بننے کا خواہش مند ہے، اس تضادات سے بھرپورسارے عمل کو شدید تر کرتا جارہا ہے۔ بر سر اقتدار آتے ہی اس نے خطے میں روایتی حریف ایران کے خلاف کاروائیوں کا سلسلہ تیز کر دیا اور خطے میں اپنے سامراجی اثر و رسوخ کے لیے سفارتکاری سے لے کر جنگ مسلط کرنے تک تمام حربے استعمال کیے۔ ان میں یمن میں جنگ سے لے کر شام اور عراق میں پراکسیوں کے ذریعے مداخلت اور دوسرے حربے شامل تھے۔ اس کے ساتھ ساتھ ملک میں اپنے داخلی دشمنوں کے خلاف بھی کاروائیوں کو تیز کر دیا اور کرپشن کے خاتمے کے نام پر مہم چلا کر تمام مخالفین کو دیوار کے ساتھ لگا دیا۔ اس حوالے سے شاہی خاندان کے اندر اس کے خلاف نفرت بڑھتی چلی جا رہی ہے اور اس کے مخالفین کی تعداد بڑھتی چلی جا رہی ہے جو اس کو بادشاہ کے عہدے سے دور کرنے کے لیے کوششوں میں مصروف ہیں۔ اس دوران اس نے ملک کے اندر عوامی حمایت جیتنے کی بھی کوششیں کی اور ساتھ ہی یورپ اور امریکہ کے حکمرانوں کوخوش کرنے کے لیے چند لبرل اقدامات بھی کیے۔ اس کے علاوہ سعودی معیشت کا بھی تیل پر مکمل انحصار ختم کرتے ہوئے سیاحت اور دیگر شعبوں کو فروغ دینے کی کوشش کی۔ لیکن اس کو کسی بھی اقدام میں مکمل کامیابی نہیں مل سکی اور اس کے تمام پروگرام ابھی تک شدید مشکلات کا شکار ہیں۔ اس تمام عمل میں اس نے ٹرمپ کے ساتھ گہرے تعلقات استوار کیے اور خاص طور پر ٹرمپ کے داماد کے ذریعے اثر و رسوخ میں اضافے کی مسلسل کوششیں جاری رکھیں جس کے باعث امریکہ کے اندر ٹرمپ کے مخالفین بھی محمد بن سلمان کے شدید مخالف بن گئے۔ اس کا اظہار جمال خشقوجی کے قتل میں واضح طور پر ہوا جب امریکی اسٹیبلشمنٹ کی طرف سے اپنے ایک اہم مہرے کی ہلاکت پر شدید چیخ و پکار کی گئی اور محمد بن سلمان کو عالمی سطح پر تنہا کرنے کے علاوہ اس کو اقتدار سے ہٹانے کی کوششیں بھی کی گئیں جو ٹرمپ کی مداخلت کے باعث کامیاب نہیں ہو سکیں۔

اس سارے عمل میں سعودی عرب کا معاشی بحران بھی حل ہونے کی بجائے مزید گہرا ہو چکا ہے اور اس کے ذخائر تیزی سے کم ہو رہے ہیں۔ بیروزگاری اور مہنگائی میں تیز ترین اضافہ ہورہا ہے اور عوام کی سہولتوں میں کٹوتیاں لگانے کے ساتھ ساتھ تارکین وطن محنت کشوں پر بد ترین جبر کرتے ہوئے انہیں بڑی تعداد میں نوکریوں سے نکالا جا رہا ہے۔ کرونا وباء اور تیل کی قیمتوں میں تاریخ کی سب سے بڑی گراوٹ نے بھی اس صورتحال کو شدید تر کر دیا ہے اور معاشی بحران سعودی عرب کا ریاستی بحران بن چکا ہے۔

اس صورتحال میں ٹرمپ کے نومبر میں ہونے والے صدارتی انتخابات بھی اہمیت اختیار کر گئے ہیں اور ٹرمپ کے مخالفین کی انتخابات میں کامیابی محمد بن سلمان کے لیے اقتدار سے بے دخلی کا باعث بن سکتی ہے۔ اس لیے وہ ٹرمپ اور اپنے اقتدار کو محفوظ بنانے کے لیے سرگرم ہے۔ ٹرمپ بھی امریکی اسٹیبلشمنٹ میں موجود اپنے مخالفین کو ٹھنڈا کرنے کی کوششوں میں مصروف ہے اور اس کے لیے سرمایہ داروں کی مختلف لابیوں کا سہارا لینے کی کوششوں میں بھی مصروف ہے۔

ٹرمپ نے اپنے اقتدار کے دوران سرمایہ دار طبقے کو تاریخ کی سب سے بڑی مراعات دیں اور امریکی حکمران طبقے کے لیے بہت سے ایسے اقدامات کیے جن کے متعلق پہلے سوچا تو جاتا تھا لیکن عوامی غم و غصے کے خوف سے ان پر عمل کرنے سے گریز کیا جاتا تھا۔ ان میں اسرائیل کی صیہونی اور سامراجی ریاست کی کھل کر حمایت بھی شامل ہے۔ ماضی کے تمام صدور بھی اسرائیل کی حمایت کی سامراجی پالیسی پر ہی عمل پیرا رہے ہیں اور مشرق وسطیٰ میں عدم استحکام اور مذہبی منافرت پھیلانے کے اس منصوبے کی ہمیشہ پشت پناہی کرتے رہے ہیں۔ اس مصنوعی ریاست کے قیام کا مقصد ہی اس خطے میں عوامی تحریکوں کو سبو تاژ کرنا اور رجعتی قوتوں کو بڑھاوا دینا تھااور اپنے جنم سے لے کر آج تک یہ صیہونی ریاست ان مزدور دشمن مقاصد کے لیے مسلسل استعمال ہوتی آئی ہے۔ عرب ممالک کے حکمران بھی اس اسٹیٹس کو کو قائم رکھنے پر متفق تھے اور اپنے ملک میں ابھرنے والی عوامی تحریکوں کو کچلنے کے لیے بیرونی دشمن کے خوف کے لیے اس ریاست کا بھرپور استعمال کرتے رہے ہیں۔ ایران کی ملا اشرافیہ کی صورتحال بھی مختلف نہیں جو اپنے عوام پر بد ترین جبر کو جاری رکھے ہوئے ہے اور امریکہ و اسرائیل مخالف نعرے بازی سے حکمران طبقے کے خلاف ابھرنے والی عوامی تحریکوں کو کچلتی رہتی ہے۔

2011ء کے عرب انقلابات نے اس اسٹیٹس کو کو للکارا تھا جب پہلی دفعہ اسرائیل اور فلسطین کے عوام نے خطے کے تمام حکمرانوں کے خلاف مل کر جدوجہد کا آغاز کیا تھا اور تمام تر مصنوعی تعصبات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے طبقاتی بنیادوں پر جڑت بنائی تھی۔ یہ سلسلہ اتار چڑھاؤ سے مسلسل جاری ہے اور آج بھی ایسی عوامی تحریکیں اس خطے میں ابھرتی دکھائی دیتی ہیں۔ اس دوران خطے کے تمام حکمرانوں کا بحران بھی شدید ہو رہا ہے اور امریکی سامراج بھی ایک عالمی طاقت کے طور پر مسلسل کمزور ہوتا جا رہا ہے۔ عالمی سطح پر تھانیداری کی صلاحیت میں کمی کے باعث امریکہ کو بہت سے ایسے اقدامات بھی کرنے پڑ رہے ہیں جن کے بارے میں پہلے سوچا بھی نہیں جا سکتا تھا اور ان میں اسرائیل کی ریاست کو مضبوط کرنے کی کوششیں بھی شامل ہیں۔ لیکن اس دوران اسرائیل کے حکمرانوں سے عوامی نفرت بھی بڑھتی جا رہی ہے اور سیاسی و معاشی عدم استحکام انتہاؤں کو پہنچ چکا ہے۔ گزشتہ دو سال میں تین عام انتخابات ہو چکے ہیں اور اب چوتھے ہونے جا رہے ہیں جن میں کوئی بھی پارٹی فیصلہ کن انداز میں حکومت نہیں بنا سکی۔ وزیر اعظم بنیامین نیتن یاہو بھی کرپشن اور دیگر عوام دشمن اقدامات کے باعث زیر عتاب ہے اور عوامی نفرت کا سامنا کر رہا ہے۔ ایسے میں اسے بھی اپنے اقتدار کو محفوظ بنانے کے لیے ماضی کی نسبت غیر معمولی اقدامات کی ضرورت ہے۔

اسی صورتحال میں متحدہ عرب امارات نے اسرائیل کی صیہونی ریاست کو تسلیم کر لیا ہے اور یہ خیال تقویت پکڑ رہا ہے کہ سعودی عرب بھی جلد ایسا کرے گا۔ اس حوالے سے پاکستان پر بھی یہ دباؤ ڈالا جا رہا ہے۔ اسی طرح ایران اور سعودی عرب کے حکمرانوں کی سامراجی لڑائی میں فیصلہ کن اقدام کرنے کا دباؤ بڑھتا جا رہا ہے۔ دوسری جانب امریکہ اور چین کا سامراجی ٹکراؤ بھی شدت اختیار کرتا جا رہا ہے جس میں پاکستان کے لیے کسی ایک فریق کو واضح طور پر چننے کا مطالبہ کیا جا رہا ہے۔ پاکستان کی کمزور اور نحیف ریاست ان تمام دباؤ کا ابھی تک سامنا کرتی آئی ہے اور کسی بھی فیصلہ کن اقدام سے گریز کرتی رہی ہے۔ ایک ملتی جلتی صورتحال اس سال کے آغاز پر بھی بنی تھی جب امریکہ نے ایران کے ایک اہم جنرل قاسم سلیمانی کا عراق میں قتل کر دیا تھا اور امریکہ ایران جنگ کے سائے خطے میں منڈلانے لگے تھے۔ اس وقت بھی پاکستان کو امریکی وزیر خارجہ کی جانب سے فون کال کر کے حمایت طلب کی گئی تھی۔ گوکہ یہ خطرہ اس وقت ٹل گیا تھا لیکن اب یہ دوبارہ کسی اور شکل میں زیادہ شدت سے ابھرا ہے۔ ابھی تک پاکستان کوئی بھی فیصلہ کرنے کی پوزیشن میں نہیں اور نہ ہی سعودی ایران سامراجی لڑائی میں ایک فریق کے ساتھ حصہ بننے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ دوسری جانب امریکہ اور چین کی سامراجی لڑائی میں بھی پاکستان مسلسل ہچکولے کھاتا رہے گا اور کسی بھی کیمپ میں واضح طور پر شمولیت اختیار نہیں کر سکے گا۔ چین کے ساتھ تعلقات مزید بہتر کرنے اور امریکہ کی ناراضگی مول لینے کے نتائج انتہائی سنگین ہو سکتے ہیں اور پاکستان عالمی مالیاتی نظام سے کٹنے سمیت بہت سے سخت اقدامات کا سامنا کرنے پر مجبور ہو سکتا ہے۔ یہاں کی معیشت اور حکمران طبقے میں ایران کی طرح پابندیاں برداشت کرنے کی صلاحیت ہی موجود نہیں۔ دوسری جانب چین سے بھی مکمل طور پر کنارہ کشی نہیں اختیار کی جا سکتی اور سعودی عرب کو بھی ناراض نہیں کیا جاسکتا۔ لیکن فیصلے کرنے کے مطالبے آنے والے عرصے میں شدت اختیار کرتے جائیں گے اور امریکی صدارتی انتخابات سے لے کر سعودی عرب کے حکمرانوں کی باہمی چپقلش پاکستان کی سیاست اور معیشت پر گہرے اثرات مرتب کرے گی۔

پاکستان کی معیشت پہلے ہی دیوالیہ پن کے قریب پہنچ چکی ہے اور کوئی ایک بھی پابندی یا کسی سامراجی ملک کی ناراضگی اس ڈوبتی ہوئی کشتی میں گہرا شگاف ڈال سکتی ہے۔ FATF کے ادارے نے پہلے ہی انتہائی سخت مؤقف اختیار کر رکھا ہے جو درحقیقت امریکہ کی ناراضگی کا اظہار ہے۔ صدارتی انتخابات سے قبل ٹرمپ افغانستان سے بھی بڑی تعدادمیں فوجیں واپس بلا رہا ہے جس کے بعد اس کے یہاں مفادات انتہائی محدود رہ جائیں گے۔ پاکستان شروع سے ہی امریکی سامراج کی شہہ پر یہاں خطے کے دوسرے ممالک سے دشمنیاں مول لیتا رہا ہے اور امریکی قرضوں کے ذریعے ہی معیشت چلاتا رہا ہے۔ گوکہ سات دہائیوں پر مشمل اس عمل میں محنت کش طبقہ بھوک، بیماری، اذیت اور محرومی کا ہی شکار رہا ہے جبکہ حکمران طبقے نے نہ صرف دونوں ہاتھوں سے ملک لوٹا ہے اور بیرون ملک جائیدادیں بنائی ہیں بلکہ سامراجی طاقتوں کو بھی ان کی سرمایہ کاری سے کئی گنا زیادہ عوام کی جیبوں سے لوٹ کر واپس کیا ہے۔ لیکن اب یہ کھیل اپنے انت کے قریب پہنچتا ہوا دکھائی دیتا ہے اور امریکی سامراج کی پسپائی کے ساتھ ساتھ سرمایہ دارانہ نظام کی عالمی سطح پر زوال پذیری نوشتہ دیوار بن چکی ہے۔

دوسری عالمی جنگ کے بعد کا بنا ہوا ورلڈ آرڈرٹوٹ کر بکھر رہا ہے اور اس عرصے میں بننے والے اتحاد، اسٹیٹس کو، ریاستیں اور سیاسی پارٹیاں ختم ہو رہے ہیں او ر اس کی جگہ دیو ہیکل تبدیلیوں کے امکان ابھر رہے ہیں۔ اس عمل میں اس پورے خطے کا محنت کش طبقہ بھی تاریخ کے بد ترین دور سے گزر رہا ہے اور کروڑوں لوگ بھوک، بیماری اور اذیت کی دلدل میں دھنستے چلے جا رہے ہیں۔ مشرق وسطیٰ کے محنت کش پہلے ہی سامراجی جنگوں کی بھٹی کاا یندھن بنتے آئے ہیں اور اب حالات پہلے سے بھی بدتر ہو چکے ہیں۔ لبنان میں ابھرنے والی عوامی تحریک اسی کا اظہار ہے۔ اسی طرح فلسطین کی آزادی کی جدوجہد میں بھی شدت آئی ہے اور اس نے اپنی تمام قیادتوں کو بد عنوانی اور غداری کے باعث رد کرتے ہوئے نئے افق تراشنے کی جستجو کا آغاز کر دیا ہے۔ پہلی مرتبہ طبقاتی بنیادوں پر اس تحریک آزادی کو منظم کرنے کے امکانات روشن ہوئے ہیں جو پورے خطے کے محنت کشوں کے لیے مشعل راہ ہیں۔ صرف خطے کی ایک رضاکارانہ سوشلسٹ فیڈریشن میں ہی فلسطین کے عوام کو حقیقی آزادی مل سکتی ہے اس کے علاوہ تمام حل جھوٹ اور فریب ہیں۔

 

پاکستان کا محنت کش طبقہ بھی حکمران طبقے کے اس کھلواڑ سے تنگ آ چکا ہے اور خلیجی ممالک کے معاشی اور ریاستی بحران نے اسے زندگی و موت کی کشمکش میں مبتلا کر دیا ہے۔ نصف کروڑ سے زائد ان محنت کشوں سے جڑے ہوئے کروڑوں افراد بھی ملک میں متاثر ہورہے ہیں جبکہ غیر ملکی زر مبادلہ کے حصول کے لیے معیشت کا سب سے اہم ستون ڈگمگا رہا ہے۔ ایسے میں پہلے سے موجود بیروزگاری کا طوفان سیلاب کی شکل اختیار کر لے گا۔ اگر اس سیلاب کا رخ حکمران طبقے کے ایوانوں کی جانب موڑ دیا گیا تو ان کے تمام تر مظالم سے ہمیشہ کے لیے نجات حاصل کی جا سکتی ہے۔ سرمایہ دارانہ نظام کا زوال اگر سوشلسٹ انقلاب سے منطقی انجام تک نہ پہنچایا گیا تو یہاں پر جہنم سے بھی بدتر حالات بن سکتے ہیں اور حکمران طبقہ عوام پر مظالم کے تمام ریکارڈ توڑتے ہوئے لاکھوں افراد کا معاشی قتل عام جاری رکھے گا جبکہ اپنی پر تعیش زندگیوں کو ہر قیمت پر محفوظ بنائے گا۔ صرف ایک سوشلسٹ انقلاب کے ذریعے اس بربریت سے چھٹکارا مل سکتا ہے جس کے لیے محنت کشوں کو تیزی سے انقلابی نظریات سے لیس ہو کر منظم ہونے کی ضرورت ہے۔

Comments are closed.